مسودہ:خلیل الحیہ

خلیل الحیہ
خلیل 12.jpg
دوسرے نامابو اسامہ
ذاتی معلومات
پیدائش1960 ء، 1338 ش، 1379 ق
یوم پیدائش5نومبر
پیدائش کی جگہفلسطین، غزه
مذہباسلام، سنی
مناصبتحریک حماس نائب سربراہ، اور حماس کے میڈیا آفس کے سربراہ

خلیل الحیہ خلیل اسماعیل ابراہیم الحیہ (ابو اسامہ) ایک فلسطینی سیاست دان، اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے فلسطینی قانون ساز کونسل میں نائب، تحریک کے سیاسی بیورو کے رکن، غزہ کی پٹی میں تحریک کے نائب سربراہ، اور حماس کے میڈیا آفس کے سربراہ، اور ایک کمانڈر ہے۔ ان پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے، ان کے نتیجے میں ان کے خاندان کے 19 افراد شہید ہو گئے۔

سوانح عمری

5 نومبر 1960ء غزہ میں پیدا ہوا، آپ شادی شدہ ہیں اور آپ کے سات بچے ہیں ، ان میں سے دو شہید گئے ہیں یعنی اسامہ الحیہ اور حمزہ الحیہ۔

تعلیم

  • سنہ 1997ء میں سوڈان کی یونیورسٹی آف ہولی قرآن اینڈ اسلامک سائنسز سے سنت و حدیث سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
  • سنہ 1989ء میں یونیورسٹی آف اردن سے سنن اور حدیث سائنسز میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔
  • 1983ءعیسوی میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کی فیکلٹی آف فنڈامینٹلز آف ریلیجن سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔

اسرائیلی جیلوں میں

انہیں 1990 کی دہائی کے اوائل میں تین سال تک قید رکھا گیا اوراسے قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ 2007ء میں، آپ ایک اسرائیلی قاتلانہ حملے میں بچ گیا، آپ چھاپے کے مقام پر موجود نہیں تھے، اور اس واقعے کے نتیجے میں اس کے خاندان کے 7 افراد شہید ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے 2014ء میں دوبارہ غزہ کی جنگ میں ان کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہو گیا اور اس کے خاندان کے متعدد افراد مارے گئے [1]۔

2014ء

اس سے پہلے ان بیٹے حمزہ کو شہید کیا تھا ، پھر اپنے بڑے بیٹے، اس کی بیوی اور اس کے تین بچوں کو اسرائیلی فضائی حملوں کی وجہ سے شہید ہوئے تھے۔ جب 20 جولائی 2014ء کو اتوار کی صبح اسرائیلی توپ خانے نے غزہ کے مشرق میں واقع شجاعیہ محلے پر حملہ کی جس کے نتیجے مین ان کے بیٹے اسامہ کے گھر کو نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے اس کی بیوی ہالہ صقر ابو ھین اور اس کے بچے خلیل، امامہ اور اس کے خاندان کے 19 افراد شہید ہوئے۔

ردعمل

اس نے جاری کردہ ایک پریس بیان میں، الحیا نے غزہ کے باشندوں کے قتل عام کا ذمہ دار عربوں کی مشکوک خاموشی کو قرار دیا۔ الحیا نے اپنے خاندان کے متعدد افراد کے سوگ میں جو شجاعیہ محلے کے قتل عام میں مارے گئے تھے.

یحییٰ سنوار کے پاس سے ملنے والے اسلحے کی تصاویر سامنے آگئیں

فلسطین پر قابض اسرائیلی فوج نے حماس کے سیاسی رہنما شہید یحییٰ السنوار کے پاس موجود اسلحے کی تصاویر جاری کی ہیں، جن میں ایک اسنائپر رائفل اور مشین گنیں شامل ہیں۔ گزشتہ روز اسرائیلی فوج نے حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار کو شہید کردیا تھا، یحییٰ سنوار کی شہادت جنوبی غزہ میں رفح علاقہ میں میں ہوئی۔

حماس کے نائب سربراہ خلیل الحیہ نے اپنے بیان میں کہا کہ یحییٰ سنوار نے اسرائیلی فورسز سے بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ یحییٰ سنوار نے آخری لمحات میں دنیا کو نیتن یاہو کی ناکامی کی تصویر دکھا دی

الحیہ نے کہا کہ یحییٰ سنوار کی شہادت سے فلسطینی مزاحمتی تحریک نے مزید جوش پکڑ لیا ہے، یحییٰ سنوار کی شہادت غاصب اسرائیل کےلیے تباہی کا پیغام ثابت ہوگی۔ اسرائیلی فوج نے یحییٰ سنوار کی شہادت کے مقام سے ملنے والے ہتھیاروں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں، جن میں تین رائفلیں موجود ہیں۔ یاد رہے کہ 31 جولائی 2024ء کو ایران میں ایک حملے میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد یحییٰ سنوار کو حماس کا نیا سربراہ منتخب کیا گیا تھا [2]۔

خالد مشعل یا خلیل الحیہ:کون ہوگا حماس کا اگلا سربراہ؟

فلسطینی تنظیموں سے متعلق امور کے ماہر ہانی المصری کا کہنا ہے کہ حماس کو خالد مشعل اور خلیل الحیہ میں سے کسی ایک انتخاب کرنا ہوگا۔ خالد مشعل حماس کے سابق سربراہ ہیں جب کہ خلیل الحیہ کو حماس میں ایک مضبوط شخصیت سمجھا جاتا ہے اور ان کا شمار اسماعیل ہنیہ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ ہانی المصری "پیلسٹینیئن سینٹر فور پالیسی اینڈ ریسرچ" نامی تھنک ٹینک کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کے بقول حماس کے لیے ان دو رہنماؤں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا آسان نہیں ہوگا۔

حماس کے نئے سیاسی لیڈر کو یہ طے کرنا ہوگا کہ عسکری کارروائیاں جاری رکھی جائیں اور حماس کو زیرِ زمین رہ کر کارروائیاں کرنے والے گوریلا جنگجو گروپ میں تبدیل کر دیا جائے؟ یا انہیں ایسا لیڈر متنخب کرنا ہوگا جو سیاسی سمجھوتوں کے لیے بھی تیار ہو۔ لیکن موجودہ حالات میں آسان نظر نہیں آتا۔ خالد مشعل سیاسی اور سفارتی تجربہ رکھتے ہیں لیکن 2011ء میں ہونے والے عرب مظاہروں کی حمایت کی وجہ سے ایران، شام اور حزب اللہ سے ان کے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔ 2011ء میں خالد مشعل لبنان میں تھے تو مبینہ طور پر حزب اللہ کی قیادت نے ان سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا تھا۔

البتہ مشعل کے ترکیہ اور قطر سے اچھے تعلقات ہیں۔ وہ 2017ء تک گروپ کے سربراہ رہے اور انہیں ایک معتدل رہنما تصور کیا جاتا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے بدھ کو ہنیہ کے قتل کے بعد تعزیت کے لیے خالد مشعل کو فون بھی کیا تھا۔ حماس کے ایک اہم ترین رہنما یحییٰ السنوار ہیں جو غزہ میں جاری جنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہیں خالد مشعل کے بالکل برعکس سخت گیر رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سنوار کی جانب سے خالد مشعل کی قیادت کی حمایت کے امکانات کم ہیں۔

ایک اور رہنما خلیل الحیہ کا شمار مقتول رہنما اسماعیل ہنیہ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ وہ حماس کے ایک نمایاں لیڈر ہیں اور ان کا تعلق غزہ سے ہے۔ ان کے ایران اور ترکیہ سے اچھے تعلقات ہیں اور وہ حماس کے عسکری ونگ میں بھی رسوخ رکھتے ہیں۔ مارچ 2011ء میں حماس نے شام میں صدر بشار الاسد کے مخالفین کی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے ایران اور بشار دونوں ہی سے اس کی دوریاں ہوگئی تھیں۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ حماس نے ان تعلقات کو بحال کیا اور بشار الاسد کے ساتھ بھی مفاہمت کرلی تھی۔ خلیل الحیہ نے 2022ء میں شام جا کر صدر بشار الاسد سے ملاقات کرنے والے وفد کی سربراہی کی تھی۔

المصری کے مطابق خلیل الحیہ بالکل ہنیہ کی طرح ہیں۔ وہ متوازن اور لچکدار رویہ رکھتے ہیں اس لیے کسی کو بھی ان کی قیادت سے مسئلہ نہیں ہوگا۔ حماس کی قیادت کا انتخاب فسلطینی علاقوں سے باہر تنظیم کے اتحادیوں سے اس کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہوگا۔ مصری تجزیہ نگار کے مطابق حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کے لیے رواں برس انتخاب ہونا تھا لیکن غزہ جنگ کی وجہ سے یہ معطل ہوگئے۔ اس لیے ہنیہ کی موت کے بعد قیادت کا فیصلہ عارضی اور عبوری نوعیت کا ہوگا۔

حماس کی قیات کا اجلاس کا منعقد کرنا بھی ایک پیچیدہ مرحلہ ہوگا۔ کیوں کہ سنوار اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے فیصلہ سازی میں اہم ہیں لیکن ان سے رابطے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ جنگ بندی پر مذاکرات کی رفتار سست ہے۔ بظاہر اسرائیل کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ حماس کے لیے شکست تسلیم کرنے یا جنگ جاری رکھنے کا آپشن ہی باقی رہنے دے گا۔ ہانی المصری کے نزدیک حماس کی قیادت کے تیسرے مضبوط امیدوار نزار ابو رمضان ہیں جو غزہ کی سربراہی کے لیے سنوار کے مقابل رہے ہیں اور انہیں خالد مشعل کے قریب سمجھا جاتا ہے [3]۔

فلسطین کاز کے لیے اقوام متحدہ کی قیادت کی ضرورت ہے

طوفان الاقصیٰ نے فلسطینی قوم کے نصب العین کو زندہ کردیا۔ حسن نصراللہ کا قتل ہراعتبار سے مکمل دہشت گردی کی کارروائی ہے۔ حماس کی ثالث ممالک کی قیادت سے ملاقات، جنگ بندی کے عزم کا اعادہ حماس نیتن یاہو کی نئی شرائط پر بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھتی۔

حماس کے نائب صربراہ برائے غزہ خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ: "کہ فلسطین کے قومی پروگرام اور ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے متحدہ قیادت کی ضرورت ہے۔ ایک متحدہ قیادت کے ساتھ ہی ہم اپنے قومی مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

الحیہ نے ان خیالات کا اظہار مسرت نامی ادارے فلسطینی مرکز برائے حکمت عملی و تحقیق کے زیر اہتمام ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ' فلسطینی کاز کے لیے قومی اتحاد اور متحدہ قیادت ایک محور کی حیثیت رکھتی ہے۔'

اس وقت ضرورت ہے کہ ایک ایسےقومی ویژن کی تشکیل کی جائے جس کی بنیاد شراکت داری پر مبنی ہو۔ اس ویژن اور قومی قیادت کے ذریعے سیاست اور مزاحمت سے متعلقہ مختلف ایشوز اور چیلنجوں سے نمٹا جائے اور ہم اپنے گھر کے اندر موجود تقسیم کو ختم کر سکیں۔ ' حماس رہنما نے اس موقع پر یہ بھی کہا ' اس اتحاد و یکجہتی کا بنیادی نقطہ ایک شفاف انتخابی عمل بن سکتا ہے۔ یہ انتخابی عمل ہمیں ایگزیکٹو کمیٹیوں کے ذریعے ایک قومی پروگرام تک لے جا سکے گا۔'

انہوں نے اس موقع پر کہا:"فلسطینی عوام کو ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو ان کی ضروریات کو دیکھ سکے اور انہیں پورا کرنے میں ذمہ داری کے ساتھ کام کر سکے جبکہ ہر طرح کے بیرونی دباو کو مستند کر سکتی ہو۔ حماس کے رہنما نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ ' فلسطینی عوام اس امر کی بھر پور اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ دنیا کو فلسطین کے قومی ویژن کی طرف لا سکیں"[4]۔

حوالہ جات

  1. خبر استشهاد 4 من عائلة القيادي البارز بحماس خليل الحية بقصف مدفعي-paltoday.ps/ar-شائع شدہ از: 20جنوری 2014ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 اکتوبر 2024ء۔
  2. [ https://www.jang.com.pk/news/140206 یحییٰ سنوار کے پاس سے ملنے والے اسلحے کی تصاویر سامنے آگئیں]-jang.com.pk-شائع شدہ از: 18 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 اکتوبر 2024ء۔
  3. خالد مشعل یا خلیل الحیہ:کون ہوگا حماس کا اگلا سربراہ؟-roznamakhabrein.com- شائع شدہ از: 18 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 اکتوبر 2024ء۔
  4. غزہ ۔ مرکز اطلاعات فلسطین-urdu.palinfo.com-شائع شدہ از: 4 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 اکتوبر 2024ء۔