مندرجات کا رخ کریں

یوم النکبہ

ویکی‌وحدت سے

یوم النکبہ ہر سال منایا جاتا ہے یہ اسرائیل کے قیام کے بعد 1948ء میں تقریبا 8 لاکھ فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ نکبہ مئی 1948ء میں بھی قتل عام ہوا تھا اور 15 ہزار سے 18 ہزار لوگ شہید ہوئے تھے۔ یوم النکبہ طور پر یہ 15 مئی کو منایا جاتا ہے۔

تعریف

1984ء فلسطینی کا خروج یا فلسطینی ہجرت جسے نكبة یا نكبت بھی کہتے ہیں (عربی: النكبة لفظی معنی آفت، تباہی ، مصیبت) وہ واقعہ ہے جب 700،000 سے زائد فلسطینی عرب - قبل از جنگ فلسطینی عرب آبادی کا تقریباً نصف حصہ - 1948ء کی فلسطینی جنگ کے دوران فرار ہوئے یا اپنے گھروں سے نکالے گئے۔ جنگ کے دوران 400 سے 600 فلسطینی گاؤں کے تخت و تاراج کیے گئے ، جبکہ فلسطینی شہر تقریباً مکمل طور پر ختم کر دئے گئے تھے۔ یہ اصطلاح نکبہ جنگ کی مدت اس کے بعدفلسطینیوں کو متاثر کرنے والے دسمبر 1947 سے جنوری 1949 کے درمیانی واقعات کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔

1948ء کے واقعات کو فلسطینی مقبوضہ علاقوں اور دوسری جگہوں پر 15مئی کو مناتے ہیں، اب اس دن کو نکبه کا دن کہا جاتا ہے-

فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد

پناہ گزینوں کی صحیح تعداد ،جن میں سے بہت سے لوگ پڑوسی ریاستوں کی پناہ گزین خیمہ بستی میں آباد ہوئے، متنازع معاملہ ہے۔ لیکن جو علاقہ بعد میں اسرائیل کہلایا اس کے عرب باشندوں کے تقریباً 80 فیصد لوگ (انتداب فلسطین کی نصف عرب آبادی ) ہجرت کر گئے تھے یا اپنے گھروں سے نکال دئے گئے تھے- 15 مئی 1948ء کے اسرائیلی اعلامیہ سے قبل تقریباً 250،000-300،000 فلسطینی فرار ہوئے یا بیدخل کیے گئے، اس امرکو عرب لیگ کے فلسطین میں داخلے کے لیے ایک سبب کے طور پر نامزد کیا گیا، جس کی وجہ سے 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ ہوئی۔

’یوم نکبہ‘ کیا ہے، اور فلسطینی یہ دن کیوں مناتے ہیں؟

15 مئی یوم نکبہ ہے، یادگاری کا سالانہ دن جو اس سال غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری، فلسطینیوں کی نقل مکانی اور ناکہ بندی کے دوران اضافی اہمیت رکھتا ہے، آج کے دن جسے’قیامت کبریٰ‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، فلسطینی اپنے ہاتھوں میں اپنے آباواجداد کے گھروں کی چابیاں لے کر احتجاج کرتے ہیں، جہاں سے ان کے خاندانوں کو 77 سال قبل بے گھر کردیا گیا تھا۔

یوم نکبہ کیا ہے؟

یوم نکبہ ہر سال 15 مئی کو منایا جاتا ہے، جو فلسطینی ریاست کی تباہی، اور 1948 میں فلسطینی آبادی کی اکثریت کے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔ نکبہ کا مطلب عربی میں ‘تباہ’ ہے اور یہ لفظ ہے جو فلسطینیوں اور دیگر لوگوں نے اس تاریخی لمحے کے لیے استعمال کیا ہے، بعض افراد کے لیے یہ اصطلاح 1948 کے بعد آج تک جاری اسرائیلی ظلم و ستم اور فلسطینیوں کے استحصال کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔

یوم نکبہ کا باضابطہ استعمال فلسطینی مزاحمت کے عظیم رہنما یاسر عرفات نے 1998 میں کیا تھا، حالانکہ اس تاریخ کو 1949 سے تاریخی دن اور مزاحمت کے احتجاج کے ساتھ نشان زد کیا جاچکا تھا۔

مئی 1948 میں کیا ہوا؟

مئی 1948ء میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا آغاز ہوا جس میں 7 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، 1948 کی فلسطین جنگ کے دوران، جو جنوری 1949 تک جاری رہی، اسرائیلی افواج نے 530 سے ​​زائد فلسطینی دیہاتوں کو تباہ کرتے ہوئے قتل عام کی متعدد وارداتیں کیں،جس میں تقریباً 15 ہزار فلسطینی شہید ہوئے۔

فلسطین کی سرزمین کے 78 فیصد تاریخی علاقے پر قبضہ کرلیا گیا اور اسے اسرائیل کے قیام کے لیے استعمال کیا گیا، بقیہ زمین آج کے مقبوضہ فلسطینی علاقے – مغربی کنارے، بشمول مشرقی یروشلم، اور غزہ کی پٹی میں تقسیم کی گئی تھی۔

جنگ میں اسرائیلی فتح کے بعد یہودی آباد کاروں کو متروک مکانات دے دیے گئے، 1948 میں فرار ہونے والے بہت سے فلسطینیوں کی اولادیں آج تک فلسطین کے اندر اور پوری دنیا میں بے گھر ہیں، فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد اس وقت لگ بھگ تقریباً 60 لاکھ ہیں۔

اس کی وجہ کیا ہے؟

1920ء سے مئی 1948ء تک، برطانیہ نے لیگ آف نیشنز کے، جو بعد میں اقوام متحدہ کا پیش خیمہ بنا، ایک معاہدے کے تحت لازمی فلسطین نامی علاقے پر حکومت کی ۔ دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کے خاتمے کے بعد، برطانیہ نے مینڈیٹ کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا، اور نو تشکیل شدہ اقوام متحدہ نے ایک یہودی ریاست کے قیام کی اجازت دینے کے لیے فلسطین کی حدود کو دوبارہ کھینچنا شروع کیا۔

تقسیم کے مختلف منصوبوں میں سے کسی کو بھی فلسطینیوں یا عرب لیگ کی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ تاہم برطانوی مینڈیٹ کے خاتمے پر اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا، جس پر 1948 کی فلسطین جنگ شروع ہوئی، جسے 1948 کی عرب اسرائیل جنگ بھی کہا جاتا ہے۔

نکبہ کے بعد کیا ہوا؟

نکبہ کے بعد 77 سالوں میں، اسرائیلی ریاست نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کرنا، خاندانوں کو بے گھر کرنا اور اس عمل میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، اس کی بڑی مثالوں میں 1967ء کی چھ روزہ جنگ تھی، جس میں اسرائیلی افواج نے غزہ اور مغربی کنارے سمیت تمام تاریخی فلسطین پر قبضہ کرتے ہوئے 3 لاکھ لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا۔

اس کے بعد کی دہائیوں میں، خطے میں بہت زیادہ کشیدگی رہی ہے، نسبتاً اکثر بھڑک اٹھنے کے ساتھ۔ تاہم، موجودہ شدت کا پیمانہ واقعی بے مثال ہے: غزہ میں 52,700 سے زائد لوگ شہید کیے جا چکے ہیں اور بیشتر فلسطینی متعدد بار بے گھر ہوچکے ہیں، بے گھر ہونے والوں میں وہ لوگ اور ان کی اولادیں بھی شامل ہیں جو نکبہ کے بعد فلسطین کے کسی اور مقام سے غزہ منتقل ہوئے۔

نکبہ سے پہلے فلسطین کیسا تھا؟

نکبہ سے قبل پہلے فلسطین انگریزوں کے زیر انتظام تھا، لازمی فلسطین کا قیام شدید یورپی نوآبادیاتی توسیع کے دور میں ہوا اور عرب بغاوت 1919-1916 میں لیونٹ سے عثمانی افواج کی بے دخلی کے بعد ہوئی۔

لازمی مدت کے دوران، فلسطین ایک مربوط سیاسی اکائی بن گیا جس کا دارالحکومت یروشلم تھا، اس دور میں بیوروکریسی، انفرا اسٹرکچر اور ٹیکنالوجی میں ترقی دیکھنے میں آئی، اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہودی ہجرت کو فروغ دینے اور فلسطینیوں کو خود مختاری سے محروم کرکے اسرائیل کے قیام کی بنیاد رکھی گئی۔ لازمی مدت سے پہلے، فلسطین 400 سال تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔

نکبہ کے طویل مدتی نتائج کیا ہیں؟

نکبہ کے نتیجے میں دنیا بھر میں 6 ملین سے زائد فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ، دنیا کے طویل تریند غیر حل شدہ پناہ گزینوں کے بحران نے جنم لیا، جن میں سے بیشتر فلسطینی اردن، لبنان اور شام سمیت پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہیں، اور بعض صورتوں میں، مشرق وسطیٰ میں فلسطینی پناہ گزینوں نے اپنے میزبان ممالک میں جنگوں اور مزید دربدری کا سامنا کیا ہے۔

زمین کا زبردست نقصان جس کا آغاز نکبہ سے ہوا، فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے، بہت سے قیمتی وسائل اس سرزمین میں ہیں جو اب اسرائیلی تسلط میں ہیں، جہاں فلسطینیوں کی رسائی کو ناممکن بناتے ہوئے اسرائیل ممکنہ طور پر اپنی معیشت کو بڑھاوا دے رہا ہے۔

اسرائیلی قبضہ، جسے بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، فلسطینیوں کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے، یہ ان کے بنیادی انسانی حقوق سے انکار کرتا ہے، ان کے وقار کو مجروح کرتا ہے اور انہیں غربت میں گھیر لیتا ہے[1]۔

انخلا کے اسباب

اس انخلا کے اسباب ماضی میں بھی مؤرخوں کے درمیان بنیادی اختلاف کا موضوع رہی ہیں- عوامل ہجرت میں یہودی عسکری پیشقدمی ،عرب بستیوں کی تباہی ، نفسیاتی جنگ اور ڈیر یاسین قتل عام کے بعد صیہونی رضاکار جنگجؤں(ملیشیاء) کا ایک اور قتل عام کے خدشات شامل ہیں، 239–240 جس میں بہت سے لوگ خوف کی وجہ سے نکل گئے تھے، اسرائیلی حکام کے براہ راست خروج کے احکامات؛ امیر طبقات کے رضاکارانہ خود خروجی، فلسطینی رہنماؤں میں انہدام اور عرب انخلائی احکامات ؛ اور عربوں کی یہود کے زیر تسلط نہ رہنے کی خواہش۔

بعد ازاں، پہلی اسرائیلی حکومت نے منظور کیے گئے سلسلہ وارقوانین میں عربوں کو واپسی یا جائداد کا دعوی کرنے سے روک دیا تھا، چنانچہ وہ اور ان کی بہت سی اولاد ابھی تک پناہ گزین کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ بعض مؤرخوں نے فلسطینیؤں کی بیدخلی کو نسلی تخلیص قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر اس الزام کو متنازع کہتے ہیں۔ پناہگزینوں کی حیثیت اور خاص طور پر یہ کہ کیا اسرائیل ان کا اپنے گھروں پر واپس لوٹنے کے حق کے دعوے کو قبول کریگا یا اس بیدخلی کا معاوضہ دے گا، یہ اسرائیلی فلسطینی تنازع میں اہم مسائل ہیں۔

"یوم النکبہ" کی 78 ویں سالگرہ اور صہیونیوں کے سیاہ کارنامے

رواں سال "یوم النکبہ" کے موقع پر صہیونی حکومت کو مقاومت کے حملوں کی وجہ سے مختلف میدانوں میں شکست اور سیاسی و اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ 15 مئی 1948 فلسطین اور عالم اسلام کے لئے یوم سانحہ ہے جس دن مغرب کی حمایت کے تحت منحوس اور جعلی صہیونی حکومت تشکیل دی گئی۔ مسلمان اس دن کو "یوم النکبہ" سے یاد کرتے ہیں۔

اس دن کے بعد 80 فیصد فلسطینی سرزمین پر صہیونیوں نے قبضہ کیا اور قتل عام کے بعد 70 فیصد فلسطینی بے گھر ہوکر مہاجرت پر مجبور ہوئے۔ یوم النکبہ کے بعد ابتدائی سالوں میں کم از کم 15 ہزار فلسطینی شہید اور ساڑھے سات لاکھ فلسطینی اپنے ملک سے بے دخل کئے گئے جوکہ اس زمانے میں فلسطین کی آدھی آبادی کے برابر تھا۔

جعلی صہیونی حکومت قائم ہونے کے بعد 1948 سے 1950 تک 530 سے زائد فلسطینی شہروں اور قصبوں کو تباہ کیا گیا۔ ان شہروں اور قصبوں کو تباہ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ فلسطینیوں کے گھر بار کی طرف لوٹنے کا امکان ختم کیا جائے۔ کئی ملین فلسطینی عرب ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے جبکہ لاکھوں فلسطینیوں نے غیر مسلم ممالک کا رخ کیا۔

گذشتہ 76 سالوں کے دوران صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ کبھی نہیں رکا۔ دیریاسین، کفر قاسم، صابرا اور شتیلا میں فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام صہیونی حکومت کے ان سیاہ کارناموں میں سے ہیں جو عالمی سطح پر مشہور ہیں اور صہیونی حکومت کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں۔

گذشتہ 76 سالوں کے دوران ایک لاکھ پچاس ہزار فلسطینی اسرائیل فورسز کی براہ راست فائرنگ سے شہید ہوگئے ہیں۔ حالیہ جنگ غزہ کے دوران اب تک کی اطلاعات کے مطابق 35 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

طوفان الاقصی آپریشن اور صہیونی حکومت تباہی کے دہانے پر

طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت کی سب سے بڑی شکست صہیونیوں کی آبائی ممالک کی طرف واپسی ہے۔ 1948 کے بعد صہیونی حکومت نے دنیا کے مختلف کونوں سے یہودیوں کو اسرائیل لاکر آباد کیا ہے جس کے لئے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا۔ طوفان الاقصی کے بعد واضح ہوگیا کہ یہودی مقبوضہ علاقوں میں قیام کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ جو پہلے سے مقیم ہیں وہ بھی اسرائیل سے باہر نکلنے کا موقع تلاش کررہے ہیں۔

فلسطینی مقاومت کے حملوں سے پہلے ہی نتن یاہو کی حکومت کو درپیش اقتصادی اور سیاسی مشکلات کی وجہ سے صہیونی مشکلات کا شکار تھے۔ طوفان الاقصی کے بعد مقبوضہ علاقوں سے تقریبا 80 ہزار صہیونی اپنے آبائی ممالک کی طرف واپس چلے گئے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق صہیونی حکومت کو شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈھائی لاکھ صہیونی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ سیاحت کا شعبہ بحران سے دوچار ہے۔ 73 فیصد سیاحت ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی میں قابل قدر کمی واقع ہوئی ہے۔

جنگ غزہ کی وجہ سے صہیونی حکومت کو افراط زر، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ، اسٹاک مارکیٹ میں مندی اور کرنسی کی قدر میں گراوٹ جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار فرار کررہے ہیں۔

صہیونی حکومت کی اقتصادی مشکلات کی ایک بڑی وجہ یمنی فوج کے حملے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق بحیرہ احمر پر یمنی فوج کے حملوں کی وجہ سے صہیونی بندرگاہوں پر آنے کے لئے کشتیوں کو 13 ہزار کلومیٹر طویل مسافت طے کرنا پڑتا ہے جس سے اخراجات بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سفری اخراجات میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یمنی فوج کی جانب سے حملے جاری رہنے کی صورت میں صہیونی حکومت کے اقتصادی نقصانات میں مزید اضافہ ہوگا۔

مشکل حالات میں مقاومتی تنظیموں کے حملوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اس وجہ سے صہیونی آبادکار مقبوضہ علاقوں میں مزید قیام کے لئے تیار نہیں ہیں۔

حاصل سخن

گذشتہ سالوں کی نسبت رواں سال "یوم النکبہ" مختلف ماحول میں منایا جارہا ہے۔ صہیونی حکومت مختلف بحرانوں کا شکار ہوکر سقوط کے دہانے پہنچ گئی ہے۔ مبصرین نتن یاہو کی کابینہ اور حکومت سے بالاتر ہوکر اسرائیل کے سقوط کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔

خطے کی مقاومتی تنظیمیں عراق، شام، لبنان، یمن اور فلسطین سے صہیونی حکومت پر حملے کررہی ہیں جس سے صہیونی حکومت شدید مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر صہیونی دہشت گرد حملے کے بعد ایران کی جانب سے "وعدہ صادق" آپریشن نے بخوبی ثابت کردیا ہے کہ صہیونی حکومت انتہائی کمزور اور آخری سانسیں لے رہی ہے۔

طوفان الاقصی میں صہیونی حکومت کی انٹیلی جنس اور سیکورٹی ناکامی آشکار ہونے کے بعد نتن یاہو اور ان کی کابینہ غزہ پر انسانیت سوز جرائم کے باوجود حماس کو ختم کرنے اور صہیونی یرغمالیوں کو رہا کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔ ایران کی طرف سے جوابی حملے اور صہیونی حکومت کی بے بسی نے زوال پذیر اسرائیل کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے[2]۔

اس وقت صہیونی حکومت غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور بے پناہ مظالم کی وجہ سے عالمی سطح پر شدید تنقید کا شکار ہے۔ عالمی عدالت کی جانب سے صہیونی حکومت کو جرائم میں ملوث قرار دینا اور اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ پڑنا دلیل ہے کہ صہیونی حکومت کو "نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن" کی صورتحال درپیش ہے۔

پاکستان، یوم نکبہ کی مناسبت سے فلسطینیوں کی حمایت میں غاصب اسرائیل کے خلاف ریلی

پاکستان کے شہر کراچی میں ملی یکجہتی کونسل اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے یوم نکبہ کے موقع پر کراچی پریس کلب کے باہر فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے 77 ویں سال کی یاد میں غاصب رژیم کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔

مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے شہر کراچی میں ملی یکجہتی کونسل اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے یوم نکبہ کے موقع پر کراچی پریس کلب کے باہر فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے 77ویں کی یاد میں قابض صیہونی رژیم کے خلاف احتجاج کیا۔ نکبہ کا مطلب عربی میں "تباہی" ہے، جس سے مراد 1948 میں ناجائز ریاست "اسرائیل" کے قیام کے دوران ایک اندازے کے مطابق 700,000 فلسطینیوں کی جبری بے دخلی ہے۔

ریلی میں کراچی کے ہزاروں شہریوں نے شرکت کی اور اسرائیل کے ناجائز قبضے کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ پاکستان، یوم نکبہ کی مناسبت سے فلسطینیوں کی حمایت میں غاصب اسرائیل کے خلاف ریلی مظاہرے کی قیادت ملی یکجہتی کونسل کے صدر اسد اللہ بھٹو اور فلسطین فاونڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے کی۔

مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں کے حق واپسی کی حمایت کا اعادہ کیا گیا تھا۔ ریلی کی بعض شرکاء کے ہاتھوں میں علامتی چابیاں تھیں، جو بے گھر فلسطینیوں کے اپنے وطن کے دعوے کی نمائندگی کرتی تھیں۔

ریلی کے مقررین نے غزہ میں جاری مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کو روزانہ نکبہ (تباہی) کا سامنا ہے جبکہ دنیا خاموش ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی حمایت کرنے پر امریکی پالیسیوں پر بھی کڑی تنقید کی اور مسلم رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ تعلقات کو معمول پر لانے کے بجائے "صیہونی رژیم" سے تمام تعلقات منقطع کر لیں۔ مقررین نے بیرونی خطرات بالخصوص ہندوستان کو فیصلہ کن جواب دینے پر ملک کی مسلح افواج کی تعریف کی۔

مقررین نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیلی ڈرون ہندوستانی سرزمین کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بناسکتے ہیں، تو پھر حکومت کو بھی فلسطین کی مکمل سیاسی، اخلاقی، سفارتی حتی فوجی حمایت کرنی چاہئے۔ مقررین نے زور دے کر کہا کہ "غاصب اسرائیل" پاکستان کا نظریاتی دشمن ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان اور قائداعظم کے نظریہ سے واضح انحراف ہے۔

ریلی کے خطباء نے ان نام نہاد پاکستانی شہریوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا جو اسرائیل کا سفر کرتے ہیں یا فلسطین کے بارے میں پاکستان کے موقف کو مجروح کرنے والے بیانات دیتے ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل اور فلسطین فاونڈیشن نے فلسطین کی حمایت میں ملک گیر پروگراموں کے ساتھ 7 مئی سے 16 مئی تک 10 روزہ نکبہ منانے کا اعلان کیا۔

انہوں نے فلسطین میں جاری امریکا اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف 16 مئی کو یوم سیاہ منانے کا بھی اعلان کیا۔ اس احتجاجی مظاہرے میں پاکستان کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے شرکت کی اور اسرائیلی رژیم کے خلاف شدیدچغم و غصے کا اظہار کیا[انہوں نے فلسطین میں جاری امریکا اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف 16 مئی کو یوم سیاہ منانے کا بھی اعلان کیا۔

اس احتجاجی مظاہرے میں پاکستان کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے شرکت کی اور اسرائیلی رژیم کے خلاف شدیدچغم و غصے کا اظہار کیا[3]۔

اسرائیل ناجائز و غاصب ریاست اور مشرق وسطیٰ میں ایک ظالم خنجر کی مانند پیوست ہے

علامہ سید ساجد نقوی نے کہا: مشرق وسطیٰ میں ظالم خنجر کی ماننداسرائیل سے اب دنیا کا امن بھی خطرے میں ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے 15 مئی 1948ء یوم نکبہ(یوم المیہ)، ناجائز ریاست اسرائیل کے تاسیس پر جاری اپنے پیغام میں کہا: اسرائیل تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے ناجائز و غاصب ریاست ہے۔ جس کا دنیا میں ایک صدی قبل کوئی وجود تک نہ تھا فلسطین میں کُل سرزمین کے دو فیصد حصے پر چھ یہودی آبادیاں تھیں۔

اعلان بالفور اور لیگ آف نیشنز کی کمیٹی کے یہودیوں کو بسانے کے منصوبے کے تناظر میں اٹھائے جانیوالے اقدامات کو کس کی ایماء پر اسرائیل جیسی غاصب و ظالم ریاست بنانے کی شہ دی جس نے قتل و غارت گری ،نسل کشی کی وہ مثالیں قائم کیں وہ رہتی دنیا تک بدترین مثالوں مظالم کے طور پر یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے کہا: ایک صدی قبل اسرائیل نام کی ریاست کا وجو د دور کی بات نام تک دنیا نے نہ سنا تھا ۔

عالمی جنگ کے اختتام ، اعلان بالفورنومبر1917ء اور لیگ آف نیشنل کی خصوصی کمیٹی کے فیصلوں کے تناظر میں دو شرائط کیساتھ ان یہودیوں کی ارض فلسطین پر آبادکاری کافیصلہ کیاگیا جو اپنی رضا و رغبت اور بغیر کسی جبر کے وہاں آباد ہونگے جبکہ ملک فلسطین پر آباد صدیوں سے آباد عربوں کے حقوق اور حق ملکیت کی شرائط بھی شامل تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان شرائط کی نہ صرف خلاف ورزی کی گئی۔

بلکہ ابتدا میں 6 آبادیوں اور 2فیصد سے بھی کم آبادی کو سامراج کی آشیر باد کے ساتھ نہ صرف ایک ناجائز ریاست کے طور پر بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی بلکہ 1948ء تک عربوں سے ان کی سرزمین تک چھیننے کے اقدامات تک اٹھالئے گئے اور آج 2025ء میں اسرائیل وہ غاصب و جابر ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ایک ناجائز ریاست کے طور پر موجود ہے جس کے ماتھے پر لاکھوں لوگوں کے قتل،بچو ں اور خواتین کیساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کی لمبی فہرست ہے ۔

قائد ملت جعفریہ نے کہا: اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایک ظالم خنجر کی مانند پیوست ہے جس سے اب دیگر دنیا کے امن کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: آج پھر نام نہاد معاہدہ ابراہم کا تذکرہ کیا جارہاہے جبکہ جو قیامت ارض فلسطین پر ڈھائی گئی اس پرمظلوموں کی بجائے ظالم کا ساتھ دینے والے کمال ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ غزہ کے لوگوں کو بھی جینے کاحق ملنا چاہیے[4]۔

فلسطینی مظلومین کو فتح و آزادی کی روشن صبح نصیب ہوگی

یروشلم پر غاصب اسرائیل کے ناجائز قبضے کی مناسبت سے چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن وہ لمحہ ضرور آئے گا جب دنیا ظلم کے اندھیروں سے نکل کر انصاف کی روشنی میں نہائے گی، ہم ظالم صہیونی حکومت کے ظلم و بربریت کو پاش پاش ہوتا دیکھیں گے اور مظلوم فلسطین کو فتح و آزادی کی روشن صبح نصیب ہوگی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یروشلم پر غاصب اسرائیل کے ناجائز قبضے کی مناسبت سے چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن وہ لمحہ ضرور آئے گا جب دنیا ظلم کے اندھیروں سے نکل کر انصاف کی روشنی میں نہائے گی، ہم ظالم صہیونی حکومت کے ظلم و بربریت کو پاش پاش ہوتا دیکھیں گے اور مظلوم فلسطین کو فتح و آزادی کی روشن صبح نصیب ہوگی؛ یہ صرف ایک سیاسی جدوجہد نہیں، بلکہ حق و باطل کی جنگ ہے، جس میں آخرکار فتح حق کی ہی ہوگی۔

وہ دن ضرور طلوع ہوگا جب الاقصیٰ کی آزاد فضاء میں اذان کی صدائیں گونجیں گی، بچوں کی مسکراہٹیں خوف پر غالب آئیں گی اور دنیا دیکھے گی کہ جو قوم صبر، قربانی اور ایمان کے راستے پر قائم رہتی ہے، اسے خدا کی مدد ضرور نصیب ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین آزاد ہوگا، کیونکہ یہ وعدہ صرف انسانوں کا نہیں، رب کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا، خونخوار اسرائیل کی درندگی اور سفاکیت اس کے وجود کو مٹا دے گی، معصوم بچوں کی سسکیوں اور آہوں کے ذمہ دار نتن یاہو و دیگر خائن حکمرانوں کے کرب ناک انجام کو دنیا بہت جلد اپنی آنکھوں سے دیکھے گی، ناجائز اور غاصب ریاست کو جس قدر بھی امریکہ اور اس کے حواری تحفظ فراہم کر لیں اس کی تباہی نوشتہ دیوار ہے[5]۔

حوالہ جات

  1. ’یوم نکبہ‘ کیا ہے، اور فلسطینی یہ دن کیوں مناتے ہیں؟- شائع شدہ از: 16 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 مئی 2025ء
  2. "یوم النکبہ" کی 78 ویں سالگرہ اور صہیونیوں کے سیاہ کارنام- 15 مئی 2024ء -اخڈ شدہ بہ تاریخ: 15 مئی 2025ء
  3. پاکستان، یوم نکبہ کی مناسبت سے فلسطینیوں کی حمایت میں غاصب اسرائیل کے خلاف ریلی- شائع شدہ از: 16 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 مئی 2025ء
  4. اسرائیل ناجائز و غاصب ریاست اور مشرق وسطیٰ میں ایک ظالم خنجر کی مانند پیوست ہے- شائع شدہ از:15 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 مئی 2025ء
  5. فلسطینی مظلومین کو فتح و آزادی کی روشن صبح نصیب ہوگی- شائع شدہ از:15 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 مئی 2025ء