بداء

ویکی‌وحدت سے

بداء كا عقیده اور مکتب اهل البیت علیهم السلام کا موقف، لغت میں لفظ بداء کے معنی پنهان ہونے کے بعد ظاهر ہونا ہے اور قرآن مجید میں بھی یه لفظ اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے: و بداء لھم من الله مالم یکونوا یحتسبون"- لیکن علمی اصطلاح میں عالم تکوین میں بداء عالم تشریع میں نسخ کے مانند هے، چنانچه بداء اس غیر حتمى فىصلہ اور قضاء كا اظہار اور ظاہر كرنے كو کها جاتا ہے۔ اب یه جاننا ضروری هے که خداوند متعال کی طرف بداء کی نسبت دینا ممکن هے یا نهیں ؟ اور جو چیز خداوند متعال کے بارے میں قابل تصور هے وه اس معنی مین هے یعنی لوگوں کے لئے کسی ایسے امر کو ظاهر کرنا جو ان کے لئے ماضی میں پوشیده و پنهان تھا اور اس کو خداوند متعال ازل سے جانتا تھا اور جس صورت میں ظاهر هوا هے اسی صورت میں آغاز سے هی مقدر کیا تھا، لیکن اس کی تکلیف کے مطابق کسی مصلحت کے تحت ایک خاص مدت تک کے لئے لوگوں سے اسے پنهان رکھا تھا اور اسے وقت آنے پر ظاهر کیا هے اور یه معنی معقول اور قابل قبول هیں- بداء وہ خالص عقيدے کا نام ہے كہ جس مىں اللہ تعالى کے ساتھ كسى قسم کی جہل کی نسبت نہىں پائی جاتی، اور اس سے انكار کا لازمه ذات اقدس الهي كا -نعوذ بالله – عاجز هونا ہے.

بدا لغت مىں

(بدا)فعل كا مصدر ہے،كہا جاے:بدا الشئ یعنى وہ چىز ظاہر ہوئى، ىبدو بدوا ظاہر ہوتا ہے وبدوّا وبداء مندرجہ ذىل معانى مىں استعمال ہوتا ہے:

ظہور كے معنى ميں

اس كے ساتھ كسى شئى كا پوشىدگى اور پنہان سےظاہر ہونے كو كہتے ہىں، یعنى اس كا پہلے سے وجود تھا عدم سے ظہور پذیر نہ ہوا۔ كہا جاتا ہے: بدا لى من أمرك بداء، یعنى مىرے لىے ظاہر ہوا۔اور اسى معنى مىں مندرجہ آىات بھى ہے: -بل‏ بدالهم‏ مّا كانوا يخفون‏ من قبل۔ : [1].(بلکہ ان کے لئے وہ سب واضح ہوگیا جسے پہلے سے چھپا رہے تھے) -فَلَمَّا ذاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما وَ طَفِقا يَخْصِفانِ عَلَيْهِما مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ۔ (اور جیسے ہی ان دونوں نے چکّھا شرمگاہیں کھلنے لگیں اور انہوں نے درختوں کے پتے جوڑ کر شرمگاہوں کو چھپانا شروع کردیا) وَ اللَّهُ يَعْلَمُ ما تُبْدُونَ وَ ما تَكْتُمُونَ۔ [2] . (اور اللہ سے جن باتوں کا تم اظہار کرتے ہو یا چھپاتے ہو سب سے باخبر ہے)۔ اور قرآن كرىم مىں مستعمل اس كلمہ كا معنى ىہى ہے۔اور ىہى معنى ان دو حدىثوں مىں بھى ہے: «أنه أمر أن‏ يُبَادِيَ‏ الناس‏ بأمره‏» [3]. ترجمہ: اسے حكم ہوا كہ وہ اپنے امر لوگوں كے لىے ظاہر كرئے۔ «مَنْ‏ يُبْدِ لنا صَفْحَتَه‏ نُقِمْ‏ عليه كتابَ اللَّهِ» [4].ترجمہ:جو شخص اپنے پوشىدہ فعل كو ہمارے لىے ظاہر كرئے ہم اس پر كتاب خدا كے مطابق حد جارى كرتے ہىں۔ اور ىہى معنى ابن ابى ربىعہ كے قول كا بھى ہے: بدا لى منها معصم حين جمّرت وكف خضيب زُيَّنَت ببنانِ ترجمہ: اس كى كلائى جو رمى جمرات سے پہلے مخفى تھى مىرے لىے ظاہر ہوئى۔

تغىر كے معنى ميں

اور ىہ معنى قصد اور ارادے مىں تبدىلى كے لىے آتا ہے، جىسے آپ نے بدھ كے دن سفر كا قصد كرے، پھر آپ كسى بھى وجہ بدھ كے دن سفركے ارادے سے پِھر جاے ۔اور آپ سے پوچها جائے: آپ نے سفركىوں نہىں كىا؟، آپ كہىں گے:مىں نے سفر كا قصد چھوڑ دىا، ىا مىں نے سفر مؤخر كرنے كا ارادہ كىا۔ اور اس كا معنى یه هے : مىں نے جس چىز كا عزم كىا تھا اس سے بدل گىا۔

درست رأى كا انتخاب كے معنى ميں

كسى شئى كے بارے مىں آپ كا علم نہ ہونے كے بعد معلوم ہوكر اس كو درست كرنا ہے، چنانچه آپ گهین گے: مجھے معلوم ہوا كہ ىہ صحىح ہے۔ اور ىہى معنى ىوسف نبىؑ كے قصے مىں كہ جس مىں عزىز اور اس كى بىوى كا اس نتىجے پہ پہنچنا كہ اس كى بے گناہى پر نشانىاں دىكھنے كے بعدبھى ىوسفؑ كو جىل بھىجتے ہىں ، اور ىہ اللہ تعالى كے قول مىں ہے: «ثُمَّ بَدَا لَهُم مّن بَعْدِ مَا رَأَوُا الْأَيَاتِ‏ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى‏ حِينٍ» [5].ترجمہ:( اس کے بعد ان لوگوں کو تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی یہ خیال آگیا کہ کچھ مدّت کے لئے یوسف کو قیدی بنا دیں)۔

پىدا ئش كے معنى ميں

اور ىہ بھى ظہور ہى ہے، لىكن پوشىدہ اور مخفى ہونے كے بعد نہىں ، بلكہ لباس جدىد پہننا، ىعنى اىسا ظہور كہ جس سے پہلے اس كا كوئى وجود نہىں تھا۔دوسرى مختصرتعبىر مىں: عدم كے بعد وجود۔اور ىہى معنى ابراہىم نبىؑ اور ان پر اىمان لانے والوں كےقصے مىں آىا ہے: اذْ قالُوا لِقَوْمِهِمْ انَّا بُرَاؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنابِكُمْ‏ وَ بَدا بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةُ وَ الْبَغْضاءُ [6]. ترجمہ: جب انہوں نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے بیزار ہیں - ہم نے تمہارا انکار کردیا ہے اور ہمارے تمہارے درمیان بغض اور عداوت بالکل واضح ہے۔ىعنى ہمارے درمىان عداوت ودشمنى پىدا ہوئى۔ یه لغت کے اعتبار سےتها.

بداء اصطلاح مىں

بداء: غىرحتمى فىصلہ اور قضاء كا اظہار اور ظاہر كرنے كو کها جاتا ہے۔ تعرىف كى تشرىح كىونكہ بدا ء كا غىر حتمى قضاء کے ساته اىك قسم کا ارتباط ہے، جسے قضاء غىرحتمى بھى کها جاتا ہے، چنانچه بداء كى وضاحت اور مقصود كا بىان قضاء كے اقسام كے بىان پر موقوف ہے.

قضاء الهی کے اقسام

قضاء الہى كى دو قسمىں ہىں: حتمى اور موقوف(مشروط)۔

  • قضاء حتمى:اور كبھى اسے مبرم(محكم) بھى كہتے ہىں۔اور اس كى دو نوع ہے:

أ-وہ قضاء جو اللہ تعالى كے ساتھ خاص ہے ، اس كے بارے مىں اللہ كے كسى مخلوق كو كوئى اطلاع نہىں۔ ب-وہ قضاء كہ جس كے بارے مىں اللہ تعالى نے اپنے انبىاء اور ملائكہ كو خبردى ہے كہ اس كا وقوع قطعى ہے۔

  • قضاء موقوف(مشروط):اور ىہ وہ قضاء ہے كہ جس كے بارے مىں اللہ تعالى نے اپنے انبىاء اور ملائكہ كو خبر دى هے كہ اس كا خارج مىں وقوع موقوف ہے اللہ كى مشىّت اس كے خلاف تعلق پىدا نہ كرنے پر، ىعنى اس كا وقوع مشروط ہے كہ اللہ كى مشىّت اس كے خلاف كسى اور شئى كے ساتھ تعلق نہ جوڑے۔ [7].


بداء اور قضا کا باهمی رابطه

اور جب ہم قضاء كى اقسام سے واقف ہوگئےتو بدا ء اور قضاء كے درمىان موجود تعلق كو بىان كرىنگے: لهذا قضاء حتمى كا تعلق پہلى قسم سےہے كہ جو اللہ نے اپنے ساتھ خاص اور اپنے علم سے ظاہر كىا، چنانچه اس مىں بدا ء كا وقوع محال ہے، اور ىہ اس لىے كہ اس قسم مىں بداء كے وقوع اللہ تعالى كے علم مىں تغىر آنا لازم آتا ہے، اوریه محال ہے۔ اسى طرح قضاء حتمى كى دوسرى قسم-وہ ہے كہ جس كے بارے مىں اللہ تعالى نے انبىاء اور ملائكہ كو مطلع كىا هے ، اور انہىں خبردى كہ ىہ امر قطعا واقع ہوگا. اسمىں بھى بداء كا واقع ہونامحال ہے ، اوريه اس وجہ سے كہ اس كے وقوع سے اللہ تعالى كا اپنے ذات كى تكذىب لازم آتا ہے، اور اس نےاپنے انبىاء اور ملائكہ كى تكذىب كى ہو، جبكه اللہ تعالى ان چىزوں سےبرترہے۔ اور ىہ تقسىم دوگانہ -محتوم اور موقوف كى طرف تقسىم - اہل بىتؑ كى رواىات سے مأخوذ ہےاور اسى طرح محتوم اور موقوف كى اسم گذارى بھى رواىات مين موجود هين ۔ تفسىر عىاشى مىں فضىل بن ىسار سے ہے: (( مىں نے ابا جعفرؑ سے سنا كہ آپ فرماتے ہىں: مِنَ‏ الْأُمُورِ أُمُورٌ مَحْتُومَةٌ كَائِنَةٌ لَا مَحَالَةَ، وَ مِنَ الْأُمُورِ أُمُورٌ مَوْقُوفَةٌ عِنْدَ اللَّهِ، يُقَدِّمُ فِيهَا مَا يَشَاءُ وَ يَمْحُو مَا يَشَاءُ، وَ يُثْبِتُ مِنْهَا مَا يَشَاءُ- لَمْ يُطْلِعْ عَلَى ذَلِكَ أَحَداً يَعْنِي الْمَوْقُوفَةَ، فَأَمَّا مَا جَاءَتْ بِهِ الرُّسُلُ فَهِيَ كَائِنَةٌ- لَا يُكَذِّبُ نَفْسَهُ وَ لَا نَبِيَّهُ وَ لَا مَلَائِكَتَهُ)). [8].

(امور مىں سے بعض لا محالہ قطعى ہے،اور امور مىں سے بعض اللہ تعالى كے ارادے پر موقوف ہے، جسے چاہتا ہے مقدم كرديتا هے اور جسے چاہتا ہے مٹادىتا ہے، اس مىں سے جسے چاہتا ہے ثابت كرتا ہے-اس سے كوئى بھى مطلع نہىں ىعنى موقوف سے، لىكن جو اس كے رسل لىكر آئے وہ ثابت ہے-اللہ تعالى اپنى ذات، اپنےنبى اورملائكہ كو كبھى جھٹلاتا نہىں هے )۔ اور اسى طرح قضاءحتمى كى دو قسمىں ہىں: كہ جس كا ذكر خود خدا نے كىاہے۔ اور جن سے اس كے ملائكہ اور انبىاء مطلع ہىں وہ بھى رواىات اہل بىتؑ سے مأخوذ ہے۔ عىون اخبار الرضا مىں ہے: ((العلم عِلْمَانِ فَعِلْمٌ‏ عَلَّمَهُ‏ اللَّهُ‏ مَلَائِكَتَهُ‏ وَ رُسُلَهُ فَمَا عَلَّمَهُ مَلَائِكَتَهُ وَ رُسُلَهُ فَإِنَّهُ يَكُونُ وَ لَا يُكَذِّبُ نَفْسَهُ وَ لَا مَلَائِكَتَهُ وَ لَا رُسُلَهُ وَ عِلْمٌ عِنْدَهُ مَخْزُونٌ لَمْ يُطْلِعْ عَلَيْهِ أَحَداً مِنْ خَلْقِهِ يُقَدِّمُ مِنْهُ مَا يَشَاءُ وَ يُؤَخِّرُ مِنْهُ مَا يَشَاءُ وَ يَمْحُو ما يَشاءُ وَ يُثْبِتُ‏ مَا يَشَاءُ [9]۔ [10].۔امام رضا علىہ السلام نے سلىمان مروزى سے فرماىا: بے شك علىؑ فرماتے تھے: علم كي دو قسم ہے: اىك علم جسكى تعلىم اللہ نے اپنے ملائكہ اور رسل كو دى هے، جسے اللہ نے اپنے ملائكہ اور رسل كوسكھاىا هے ،وہ ثابت ہوگا، اور نہ وہ اپنے آپ كو، نہ اپنے ملائكہ اور نہ رسل كو جھٹلائے گا۔ اىك اور علم اس كے پا س ذخىرہ ہےاس كے متعلق كوئى مخلوق اطلاع نہىں ركھتا، جسے چاہتا ہے پہلے ، اور جسے چاہتا ہے مؤخر كردىتا ہے، اور جسے چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثابت ركھتا ہے ىعنى قضاء حتمي جو كه بداء كا مصدر اور ماخذ ہے ۔ لىكن دوسرى قسم (قضاء متوقف)اس مىں بداء واقع ہوتا ہے، جىسا كہ رواىت فضىل كہ جسكا ذكر پہلے ہوچكا ہے۔ اور رواىت فضىل اور دیگر روایات نے ىہ مفاد اس آىت سے لىا: يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَ يُثْبِتُ‏ وَ عِنْدَهُ أُمُ‏ الْكِتابِ : [11].(اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹادیتا ہے یا برقر ار رکھتا ہے کہ اصل کتاب اسی کے پاس ہے)۔ ‏چنانچه بدا ء كےتصور كا مصدر مذكورہ آىت ہے ، اور خاص كر سىاق آیت قرىنہ ہے كہ اس آىت كا موضوع محوو اثبات ہے، اور اس هےمراد قضاء غیر حتمی ہے۔ اور اس سے پہلے والى آىت ہے-: ((وَ لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنا لَهُمْ أَزْواجاً وَ ذُرِّيَّةً وَ ما كانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ : [12].(ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے ہیں اور ان کے لئے ازواج اور اولاد قرار دی ہے اور کسی رسول کے لئے یہ ممکن نہیں ہے وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے کہ ہر مدّت اور معیاد کے لئے ایک نوشتہ مقرر ہے) پس آىت كے موضوع مىں تبدىلى ، ىا اس كى غىرقضاء كى طرف تأوىل جىسا كہ اكثر مفسرىن نے كوشش كى ہے درست نهین ہے ۔كىونكہ غىر قضاء كى طرف تاوىل كے لىے مذكور ہ آىت كے قرىنہ ہونے كے ابطال اور تأوىل كے موضوع كا اثبات كہ جس كا ىہ مدّعى ہىں كا طالب ہے، اور ىہ قابل رد ّ(مذكورہ آىت سے مراد قضاء ہونا) اور(غىرقضاء مىں) مناسب نہىں ۔ اور اس قرىنے كا قرىنہ ہونے كى صورت مىں ((مضمون آىت كا خلاصہ ىوں ہوگا: بے شك اللہ تعالى كے نزدىك ہر زمان اور وقت كے لىے اىك كتاب ہے، ىعنى حكم اور قضاء ہے، اور وہ جسے چاہتا ہے ان كتب ، احكام اور قضاء سے مٹادىتا ہے، اور جسے چاہتا ہے ثابت كرتا ہے، ىعنى كسى زمان مىں ثابت قضاء كو تبدىل كركےدوسرے زمان اورمكان كے قضاء بناتا ہے۔ لىكن اللہ كے پاس ہر زمان كے لىے مقدر ہے جو بدلتا نہىں، اور محو واثبات كو قبول نہىں كرتا، اور ىہ اصل مقدرات ہىں كہ جس كى طرف بقىہ امور كى بازگشت ہے، اور اسى سے پىدا ہوتے ہىں، پس وہ حسب تقاضا مٹتے ہىں اور ثابت ہوتے ہىں)) : [13].

وه قضا جس مين بداء پایا جاتا هے

اور جىسا كہ اہل بىتؑ كى رواىات نےاس مقدّر كى تحدىد اور تعىىن كردى جو بدا ءمىں واقع ہوتا ہے،اور وہ قضاء موقوف ہے،اس قضاء اور تقدىر كى تحدىد وتعىىن كردى جس سے بداء صادر ہوتا ہے،اور اس قضاء كا اللہ تعالى كے ساتھ خاص ہونے پرنص قائم كى، اور اس سے اللہ كا كوئى مخلوق مطلع نہىں ہے۔ چنانچه (عىون أخبار الرضا) کی روایت ہے:(أن الرضا عليه السلام قال لسليمان المروزي: رويت عن ابي عبد الله عليه السلام أنه قال: إن للله عز وجل له علمين: علماً مخزونا مكنونا لا يعلمه إلاهو" من ذلك يكون البداء. وعلما علّمه ملائكته ورسله، فالعلماء من أهل بيت نبيك يعلمونه [14]. نے عىون أخبار الرضا سے :باب ۱۳ مجلس الرضا مع سلىمان المروزى ۔امام رضاؑ نے سلىمان مروزى سے كہا: ابى عبد اللہؑ سے رواىت ہے كہ انہوں نے فرماىا: اللہ تعالى كے دو علم ہے: مخزون اور پوشىدہ علم كہ جس سے سواى اس كے كوئى واقف نہىں، اسى مىں سے بداء ہے۔اور اىك علم جسے آپ نےاپنے ملائكہ اور انبىاء كو سكھاىا، كہ جسے آپ كے اہل بىتؑ كے علماء جانتے ہىں)) ۔ اور (بصائرالدرجات) مىں: ((ابى بصىر نے ابى عبد اللہؑ سے ، كہا: بے شك اللہ كے ہاں دو علم ہے: مخزون اور پوشىدہ علم كہ جس سے سواى اپنی زات كے كوئى واقف نہىں، اسى مىں سے بداء ہے۔ اور اىك علم جسے الله تعالی نے اپنے ملائكہ اور انبىاء كو سكھاىا، اور ہمارے علماء بهی جانتے ہىں)) [15]. اور اسى قضاء ىا علم كو آىت كرىمہ نے (أمّ الكتاب) نام ركھا۔اور اسى طرح رواىات زمان کوبهی نے تحدىد اور تعىىن كى كہ جس مىں بداء واقع ہوتاہے اور وہ(شب قدرہے)۔ (كافى )مىں حمران نےابو جعفرؑ سے اللہ تعالى كے قول كے بارے مىں پوچھا: (إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ) [16] ترجمہ: بے شك ہم نے اسے مبارك رات مىں نازل كى۔ فرماىا: ہاں، شب قدر، اور ىہ ہر سال مىں ہے، ماہ رمضان مىں ہے، آخرى عشرے مىں ہے،قرآن نازل نہىں ہوا مگر شب قدر مىں، اللہ تعالى نے كہا: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ)[17] ۔ ترجمہ:اس رات مىں ہر حكىمانہ امر كا فىصلہ ہوتا ہے۔ كہا: اس سال كى ہرچىز كا فىصلہ شب قدر ہوا كرتا ہے، اچھا ئى، برائى، اطاعت ومعصىت، ولادت، موت اور رزق كا،جو اس سال مقدّر ہو اور فىصلہ وہ وہ حتمى ہے، اور اللہ كى مشىت اسى مىں ہے))۔ اور سىد طباطبائى نے اس كے قول (محتوم)پر تعلىق كرتے ہوئےاضافہ كىا تاكہ اس شخص كا توہم دور ہوجائے جو محتوم سے مراد اس كا اصطلاحى معنى لىتاہے جس كا ذكر ہم نے كىا، كہا: ((اس كاقول (پس ىہ حتمى ہے اور اللہ كى مشىت اسى مىں ہے)ىعنى ىہ اسباب وشرائط كے اعتبار سے قطعى ہے،كوئى شئى اس كے تحقق كى راہ مىں روڑے نہىں أٹكا سكتا مگر جسے اللہ چاہے) [18]. اور (تفسىر على ابن ابراہىم)مىں اس آىت كى تفسىر مىں((فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ) ۔ ترجمہ:اس رات مىں ہر حكىمانہ امر كا فىصلہ ہوتا ہے۔كہا: (( إذا كان ليلة القدر و نزلت‏ الملائكة الكتبة إلى السماء الدنيا- فيكتبون ما يقضى في تلك السنة من أمر، فإذا أراد الله أن يقدم شيئا أو يؤخره- أو ينقص منه أو يزيد- أمر الملك فمحا ما يشاء ثم أثبت الذي أراد، قال: فقلت له عند ذلك: فكل شي‏ء يكون فهو عند الله في كتاب قال: نعم، قلت: فيكون كذا و كذا ثم كذا و كذا- حتى ينتهي إلى آخره- قال: نعم، قلت فأي شي‏ء يكون بيده [بعده‏] قال: سبحان الله، ثم يحدث الله أيضا ما شاء تبارك و تعالى.(جب قدر كى رات ہوتى ہے تو ملائكہ ،روح اور لكھنے والے آسمان سے زمىن پر نازل ہوتے ہىں، پس اس سال رخ دىنے والےاللہ تعالى كے مقدّرات كو لكھتے ہىں، جب اللہ تعالى كسى شئى كى تقدىم ىا تأخىر، ىا كسى ڈىز مىں كمى كا ارادہ كرتا ہے تو فرشتے كو حكم دىتا ہے كہ وہ جسے چاہتا ہے اسے مٹا دے اور جس كااس نے ارادہ كىا اس كو ثابت كرتا ہے۔ مىں نے كہا:اور ہر شئى كتابب مىں اللہ تعالى كے ہاں ثابت ہے؟ كہا: ہاں۔ مىں نے كہا: پس كونسى شئى اس كے بعد ہوگى؟ كہا: پاك ہے اللہ تعالى كى ذات، پھراللہ تعالى جسے بھى چاہتا ہے پىدا كرتا ہے)) [19]. [20]. ((أي يقدر الله كل أمر من الحق‏ و من الباطل‏- و ما يكون في تلك السنة و له فيه البداء و المشية- يقدم ما يشاء و يؤخر ما يشاء من الآجال‏ و الأرزاق- و البلايا و الأعراض و الأمراض و يزيد فيها ما يشاء و ينقص ما يشاء۔ أبى جعفرؑ، أبى عبد اللہؑ اور أبو الحسنؑ سے نقل ہے:ىعنى ہر حق وباطل مىں سے ہركا مقدّر كرتا ہے، اور جو اسى سال وفع ہونے والے ہو، اور اس كے لىے ان مىں بداء اور مشىت ہے، موت، رزق، امتحان، عزت اور بىمارىوں مىں جسے چاہتا ہے مقدّم اور جسے چاہتا ہے مؤخر كرتا ہے،اور اسمىں جس كو چاہتا ہے اضافہ اور جسكو چاہتا ہے كم كرتا ہے)) ۔ اور اسى طرح رواىات مىں اس شبہے كى نفى كى ہے كہ جو بداء كے متعلق بھڑكاىا گىا كہ اس كے اعتقاد سے اللہ تعالى كى طرف جہل كى نسبت پىدا ہوتى ہے، اور اس نسبت سے اللہ كى تنزىہہ كى گئى ہے۔ امام صادق علىہ السلام سے مروى ہے: ((من زعم أن الله –عزوجل- يبدو له في شيئ لم يعلمه أمس فابرأوا منه. جس نے اللہ عزوجل-كے بارے مىں گمان كىاكہ جس كا كل اس كو علم نہىں تھا ظاہر ہواتو تم اس سے اظہار براءت كرو)). اور ىہ بھى انہى سے ہے: ((إن الله يقدم مايشاء ويؤخر ما يشاء ويمحو مايشاء ويثبت ما يشاء، وعنده أم الكتاب۔ بے شك اللہ جسے چاہتا ہے پہلے لاتا ہےاور جسے چاہتا ہے بعد مىں، اور جسے چاہتا ہے محو كرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثابت، اور اس كے پاس ام كتاب كا علم ہے۔)). فكل أمر يريده الله فهو في علمه قبل أن يصنعه" ليس شيئ يبدو له إلا وقد كان في علمه" إن الله لا يبدو له عن جهل. ہر كام جس كا اللہ ارادہ كرتا ہے وہ اس كے علم مىں ہے قبل اس كے كہ اس فعل كو انجام دے،كوئى شئى اس كے لىے ظاہر نہىں ہوتى مگر ىہ كہ اسے پہلے اس كا علم مىں ہو،اللہ تعالى كے لىے جہل سے علم ظاہر نہىں ہوتا)) [21].

امامىہ كے هان بداء كا مفهوم

امامىہ كے هان بداءكا معنى: اظہار اورروشن كرنا۔اور ىہ لغوى معانى مىں سے پہلے معنى كے ساتھ سازگار ہے، اور وہ خفاء كے بعد ظہورہے۔ اور ىہ كہ اللہ تعالى اپنے خاص علم كے ساتھ كسى شئى كےحتمى قضاء كو اس كى شرط متحقق اور واقع ہونے كى صورت مىں ظاہر كرتا ہے جب اس كے علم مىں ہو كہ اس كى شرط متحقق ہوگى، ىا شرط كے تحقق نہ ہونے كى صورت مىں جب كہ شرط كے عدم تحقق كا اس كو علم ہو.

اهل سنت روايات مين بداء كا تصور

اور بداء اسي معنى مين اہل بىتؑ اطهار س وارد بداء كے متعلق رواىات مىں آىا ہے، اسي معنى مين صحابہ كى اور ان كے اتباع اہل سنت كي روايات مين بھى آىا ہے،من جمله: ۱-بخارى نے اپنے اسناد كے ساتھ عبد الرحمن بن أبى عمرہ سے: ((أن أبا هريره حدثه أنه سمع رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم يقول: إن ثلاثة في بني إسرائيل: أبرص وأقرع وأعمى، بدا الله أن يبتليهم فبعث إليهم ملكا فأتي الأبرص فقال: أي شئي أحب إليك ..إلى آخر. :[22]. أبو ہرىرہ نے اس كے ساتھ گفتگوكى كہ اس نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سناكہ فرماتے ہىں: بے شك بنى اسرائىل مىں سے تىن: برص زدہ، گنجا اور اندھا، اللہ تعالى نے ان سے امتحان كا ارادہ ظاہر كىاپس ان پر اىك ملك نازل كىا، برص زدہ آىا تو اس سے كہا: كونسى چىز تمہىں سب سے زىادہ پسند ہے۔۔تا آخر)). اور (بدا)كےبارے مىں ناشر كے تعلىقے مىں آىا ہے جس كا نص ىہ ہے: ((ىعنى اللہ كے علم مىں آىا ہواتھا پس اس نےاس ارادے كا اظہار كىا))۔ اور ىہ بالكل وہى بداء ہے جس كا امامىہ قائل ہے۔ ۲-ان مىں سے اىك ترمذى كى رواىت ہے جسے اس نے سلىمان: ((كہا: رسول اللہصلى الله عليه وسلم نے فرماىا: لا يرد القضاء إلا الدعاء" ولايزيد في العمر إلا البر.قضاء ٹل نہىں سكتا مگر دعا كے ساتھ، اور عمر بڑھ نہىں سكتى مگر نىكى كے ساتھ))[23].

3-ابن ماجہ نے ثوبان سے رواىت كى: ((لا يزيد في العمر إلا البر، ولا يرد القدرإلا الدعاء، وإن الرجل ليحرم الرزق بخطيئة يعملها. اس نے كہا: رسول خداصلى الله عليه وسلم نے فرماىا: عمر مىں زىادتى كا سبب صرف نىكى ہے، قدر كو دعا كے ساتھ ہى رد كىا جاتا ہے، اور آدمى اپنے فعل مىں غلطى اس كے رزق سے محرومى كا باعث ہے)) [24]. حاكم نے مستدرك اور اس كے صحىح سے رواىت كى،اور ذہبى بھى پىچھے نہ رہا۔ [25] ۔

۴-عمر، ابن مسعود اور ابى وائل نے اپنى دعا مىں رواىت كى: ((إن كنت كتبتني في السعداء فأثبتني فيهم، أو الأشقياء فامحني منهم.اگر تو نے مجھے خوس قسمت لوگوں مىں درج كىا ہے تو ان مىں ثابت ركھىں، ىا بد بختوں مىں لكھا ہے تو ان سں محو كرنا)) [26]۔

5-ابن عباس نے رواىت نقل كى: ((أن الله لوحا محفوظا، لله تعالى فيه في كل يوم ثلاثمائة وستون نظرة، يثبت ما يشاء ويمحو ما يشاء.اللہ تعالى كے نزدىك اىك لوح محفوظ ہے، اللہ تعالى ہر روز اس مىں تىن سو ساٹھ مرتبہ نگاہ كرتا ہے ، جسے چاہتا ہے ثابت اور جسے چاہتا ہے محو كرتا ہے)) [27].

6-انہى سے مروى ہے: ((الكتاب: اثنان: كتاب يمحو الله مايشاء فيه، وكتاب لا يغيّر ، وهو علم الله والقضاء المبرم.كتاب: دو ہىں: اىك كتاب جس مىں اللہ جسے چاہتا ہے محو كرتا ہے، اور اىك جس مىں تغىر نہىں، اور وہ اللہ كا علم اور قضاء حتمى ہے)) [28].

7-ابي درداء سے منقول حدىث ہے: أنه تعالى يفتح الذكر في ثلاث ساعات بقية من الليل فينظر ما في الكتاب الذي لا ينظر فيه أحد غيره فيمحو ما يشاء ويثبت ما يشاء.اللہ تعالى رات كے تىن گھنٹے جب باقى رہتا ہے اپنى كتاب كھول كر اس مىں جو كچھ ہے نگاہ كرتا ہےكہ جس مىں اس كے علاوہ كوئى دىكھ نہىں سكتا، پس جسے چاہتا ہے محواور ثبت كرتا ہے)). حاشىہ الجمل، ج ۲۔ص ۵۷۴ 8-اور غزنوي نے كہا: ((ما في اللوح المحفوظ خرج عن الغيب لإحاطة بعض الملائكة فيحتمل التبديل، وإحاطة الخلق بجميع علم الله تعالي، وما في علمه تعالى من تقدير الأشياء لا يبدل.جو لوح محفوظ مىں ہےوہ غىب سے خارج ہوا كىونكہ بعض ملائكہ اس سے واقف ہوئےپس اس مىں تبدىلى كا احتمال ہے، اور خلق كو اللہ تعالى كے تمام علم كا احاطہ ہے، اور اللہ تعالى كے علم مىں سے اشىاء كى تقدىر بھى ہےجس مىں كوئى تبدىلى نہىں))[29]. 9-بخارى نے قصہ معراج نقل كىا، كہ جوبہت طوىل ہے،اوروہ قول ہمارے ىہاں كے موضوع سے مرتبط ہے : ((فأوحى إليه فيما أوحى خمسين صلاة على أمتك كل يوم وليلة.پس ان كى طرف وحى كى جس مىں سے پچاس نمازىں آپ كى امت پر دن رات مىں ہے)) [30]. اس كاايك اور قول جوكہ نبى محمدصلى الله عليه وسلم كا حضرت موسى كى طرف رجوع كے قصے كے بعد آىا ہےاور حضرت محمد صلى الله عليه وسلمنبى نے اللہ تعالى سے اصرار كىا ىہ كہتے ہوئے كہ واجب نمازوں كى تعداد كم كى جائے۔((فقال الجبار: يا محمد، قال: لبيك وسعديك. قال: إنه لا يبدل القول لديّ كما فرضتُ عليك في أم الكتاب، قال: فكل حسنة بعشر أمثالها، فهي خمسون في أم الكتاب، وهي خمس عليك. پس جبارنے كہا:اے محمد۔كہا: حاضر ہوں اور آپ كے حكم كا تابع۔كہا: مىرے پاس قول كى تبدىلى نہىں،جىساكہ تجھ پرامّ كتاب مىں فرض كىا، كہا: ہر نىكى كا اس كے دس برابر ہے، پس ىہ ام كتاب مىں پچاس ہے،اور تجھ پر ىہ پانچ ہے)) ۔ اور اس حدىث كى بداء پر دلالت كى صراحت سمجھنے كے قابل ہے كہ جس پر مصرى ادارہ مىگزىن(أزہر) سے صادر كتابچے كے مؤلف نے تعلىقہ لكھاجو كہ (إسراء اور معراج) كے عنوان سے علماء كے اىك گروہ ، اور معراج سے خاص شعبے كے شىخ توفىق اسلام ىحى نے تىار كىا، اس نے (شرح حدىث) كے عنوان كے تحت صفحہ ۷۰ پر ذكر كىا: ((۷-دوسرے انبىاء كو چھوڑ كے صرف موسىؑ كى طرف رجوع كرنے مىں كىا حكمت ہے، اور حضرت محمدصلى الله عليه وسلم اور موسىؑ كے درمىان گفتگو اور مراجعہ كسے جائز ہوا؟ جواب دىا گىا:جب نماز واجب كى تو جس كى طرف سب سے پہلے سبقت كى وہ حضرت موسىؑ تھے، پس اللہ نے اسے موسىؑ كے قلب پہ قرار دىا، تاكہ اللہ تعالى كے گذشتہ علم كامل ہوجائے كہ ىہ عمل مىں پانچ اور ثواب مىں پچاس ہے۔ اور ان دونوں كے آپس مىں تكرار اور مراجعہ كا وقوع جائز ہوا كىونكہ ان كو علم تھا كہ پہلى تعىىن قطعا واجب نہىں ہے، اور اگر وجوب قطعى ہوتا تو اس مىں تخفىف كو قبول نہ كرتا اور نہ ہى دونوں انبىاء ىہ كام كرتے))۔ اور اسى مىں سے ىہ بھى ہے: جو پندرہ شعبان كى رات كى دعا مىں آئى وہ اہل سنّت كے ہاں معروف ہے: (اللهم إن كنت كتبتني عندك في ام الكتاب شقيا أو محروما، أو مقترا عليّ في الرزق، فامح اللهم بفضلك شقاوتي وحرماني وتقتير رزقي، فإنك قلت وقول الحق: يمحو الله مايشاءويثبت وعنده أم الكتاب ۔اے مىرےپروردگار! اگر تو نے مجھے اپنے پاس ام كتاب مىں بد بخت ىا محروم لكھا ہے، ىا مجھ پر رزق تنگ كر دى ہو، اے مىرے اللہ اپنے فضل سے مىرى بد بختى، محرومى اور تنگى رزق كو پس اسے مٹادے،بے شك آپ ہى نے كہا اور تىرى بات حق ہے:اللہ جسے چاہتا ہے مٹاتا ہےاور ثابت كرتا ہے اور اس كے پاس ام كتاب ہے)) [31]. اور شىخ محمد كنعان (مواہب الجلىل) مصنف نے اس دعا پر بہت شدىد حملہ كىا، اور كہا: ((ىہ دعا جائز نہىں كىونكہ اس كى گذشتہ تقدىر مىں كسى قسم كى تبدىلى نہىں ہے))۔ مىں كہونگا: اگر اس دعا پر اعتماد صحىح ہو تو شىخ كنعان كا اشكال (ام كتاب )وہ اصل جو تبدىل نہىں ہوتا اور اللہ نے ازل سے لكھا ہوا ہے كى تفسىر كى بناء پر تام ہے ، جىسا كہ تفسىرجلالىن [32] . مىں آىا ہے، اور جس طرح مشہور ہے، اور دعا مىں ارادہ بھى كىا كہ محو واثبات وقوع پذىر ہے۔ لىكن ابن عطىہ كے قول كى مانند كہ أصح تفسىر(أم كتاب) ہے كہ ىہ ان جدىد امور كا رجسٹر ہے جس مىں ان كى تبدىلى ،محو ىا اثبات كى تقدىر پہلے سے معىن ہوچكى ہے۔ ىا دعا سے مقصود آىت كرىمہ كے لىے بطور مثال تھى كہ وہاں محو اثبات كا ذكرہے، اور اس كا قول (ام كتاب)بطور شاہد ىا مثال ذكر نہىں كىا، بلكہ اس اس لىے ذكر كىا كہ ىہ آىت كرىمہ كے اىك پىراگراف كا تتمہ ہے۔ پس كنعان كا اشكال وارد نہىں ہوتا، اور دعا بداء پر دال رہے گى۔ قرآني آيات اور بداء كا اثبات قرآني آيات بهي اسي بداء پر دلالت کرتی هین جو اہل بىتؑ سے مروى هے، چنانچه آىت كرىمہ: (الْآنَ خَفَّفَ‏ اللَّهُ‏ عَنْكُمْ وَ عَلِمَ‏ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَ اللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ) [33]. ۔(ترجمہ: اب اللہ نے تمہارا بار ہلکا کردیا ہے اور اس نے دیکھ لیا ہے کہ تم میں کمزوری پائی جاتی ہے)، یه آىت بعد والی آیت کی تفسىر كرتى ہے :(يا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لا يَفْقَهُونَ) [34] .۔ترجمہ:( اے پیغمبر آپ لوگوں کو جہاد پر آمادہ کریں اگر ان میں بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر سو ہوں گے تو ہزاروں کافروں پر غالب آجائیں گے اس لئے کہ کفاّر سمجھدار قوم نہیں ہیں)۔جىسا که اللہ كو علم نہ ہو كہ مسلمانوں مىں كمزورى ہے كہ بیس مومن دو سو كافروں كو مقابلے سے روكتے هين ، اور سوكو ہزار سے۔پھر اس كے بعد ضعف كا علم ہواتو اس بىان كے ساتھ ان سے تخفىف كى :(فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَ اللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ) [35]. ترجمہ:( اگرتم میں سو بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر ہزار ہوں گے تو بحکم خدا دو ہزار پر غالب آجائیں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)۔ لىكن تصور كسى بھى صورت مىں صحىح نہىں هے كىونكہ اس سے اللہ تعالی کے ساته جهل كى نسبت دینا لازم آتا ہےحالانكہ اس كى ذات اس سے بلند وبرتر ہے۔

بداء کے متعلق آیات کی درست تفسیر

اور اس بناء پر: آیت مین (علم)كى تفسىر سواءے بداء كے ممكن نہىں هے۔ اس معنى مىں كہ اللہ تعالى نےاپنے پاس موجود خاص علم كہ جس سے اس كا رسولصلى الله عليه وسلممطلع نہىں روشن اور ظاہر كىا، پس اس نے امر كو اىك دوسرے امر سے تبدىل كىا۔ اور بداء اسی معند مین: اسماعىل نبىؑ كو ذبح كرنے كے قصے مىں آىا ہے، اللہ تعالى فرماتا ہے: (فَلَمَّا بَلَغَ‏ مَعَهُ السَّعْيَ‏ قالَ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى‏ فِي الْمَنامِ‏ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ ما ذا تَرى‏؟ قالَ يا أَبَتِ افْعَلْ ما تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ. فَلَمَّا أَسْلَما وَ تَلَّهُ لِلْجَبِينِ. وَ نادَيْناهُ أَنْ يا إِبْراهِيمُ. قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيا إِنَّا كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ. إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ. وَ فَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ) [36].( پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشائ اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹادیا ۔ اور ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم علیہ السّلام ۔ تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم اسی طرح حسن عمل والوں کو جزا دیتے ہیں ۔ بیشک یہ بڑا کھلا ہوا امتحان ہے ۔ اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کو قرار دے دیا ہے) آیت مین قول ابراهیم كى توجىہ فقط بداء كے ساتھ سازگارہے. اسی طرح حضرت خضر نبىؑ كا اىك لڑكے كے قتل كا واقعہ بھى چنانچه ارشاد باری هوتا ہے: «وأمّا الغُلَامُ‏ فَكَانَ‏ أبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِيْنَا أنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَاناً وَكُفْراً» [37]. ( اور یہ بچّہ .... اس کے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا کہ یہ بڑا ہوکر اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر ان پر سختیاں کرے گا)۔ بىضاوى كہتا ہے: بے شك وہ اس سےڈرا كىونكہ اللہ تعالى اس سے جانتا تھا [38]. اور ہادى زىدى كہتا ہے: ((اگر وہ(خضر لڑكے ) اس كو قتل نہ كرتا تو (لڑكا) قطعا زندگى كرتاىہاں تك كہ وہ والدىن كو سركشى اور كفر كى طرف لے جاتا جىسا كہ كہ اللہ عزوجل نے خبر دى ہے))۔ [39] . ىہاں اس آیت مین بداء كے قائل ہونےكى صورت مین علم خدا وند مىں تبدىلى لازم نہىں آتا ۔

بداء پر اىمان کا اعتقادى اور علمى آثار

بداء پر اىمان سے اعتقادى اور علمى آثار مترتب ہوتے هین اس بارے ہمارے سىد خوئى فرماتے ہىں: (بداء قضاء موقوف مین پایا جاتا ہےجسكو لوح محو واثبات سے تعبىر كرتے ہىں۔اور ابداء كے جواز كاقائل ہونے سے اللہ تعالى كى نسبت جہل لازم نہىں آتا ،اور نه ہى اس كے پابند رهنا خدا كى عظمت وجلالت کےسےمنافات ركھتا ہے۔ 1. بداء كا قائل ہونا ، اسعالَم كا حدوث وبقا دونون مىں اللہ كى سلطنت اور قدرت كے زىر ساىہ ہونے ، اور اللہ تعالى كا ارادہ ازل اور ابد سے اشىاء مىں نافذ ہونے كا صرىح اعتراف ہے۔

2. بلكہ بداء كے قول سے علم الہى اور علم مخلوقات كے مابىن فرق بھى واضح ہوجاتا ہے۔ مخلوق كا علم-اگرچہ وہ انبىاء اور اوصىاء ہوں-اس چىز كااحاطہ نہىں كرسكتا جس پر علم خدامحىط ہے،كىونكہ ان سے بعض اگرچہ عالم كيون نه ہوں ليكن تمام عوالم ممكنات كا علم نہىں ركھتا كہ جن پر اللہ تعالى كا خزىنہ علم محىط ہے، پس وہ عالم مشىت الہى -كسى شئى كے وجود سے متعلق-ىا عدم مشىت سے واقف نہىں مگر ىہ كہ اللہ تعالى اس كے بارے مىں اس كو بطور قطعى خبر دے۔ 3. بداء پر عقیده بندے كا اللہ تعالى سے انقطاع ، اس سے اپنى دعا كا طلب استجابت،اس كى ضرورىات پورى كرنے ، اس كى اطاعت كى توفىق اور اس كى معصىت سے دورى طلب كرنے كا موجب ہے۔

بداء سے انکار کا اعتقادى اور علمى آثار

بےشك بداء سے انكار اور جو كچھ ہورہا ہے بغىركسى استثناء كےالله كى تقدىردخىل ہونے كا قائل ہونا کے اسے عقیدے پر متعدد منفی آثار مترتب هوتے هین من جمله:

1. اس عقىدے پر اىمان ركھنے والے كى دعا مستجاب كرنے كے بارے مىں ماىوسى پر منتج كرتا ہے، چونکه جب بندہ جوچىز اپنے پروردگار سے جو طلب كرتا ہےاگر وہ تقدىر كى وجہ سےنافذ ہواہے تو وہ حتما ثابت ہے،اور اس كے بارے دعا اور توسل كى ضرورت ہى نہىں، اوراگر تقدىر اس كے برعكس ہے تو كبھى بھى واقع نہىں ہوتا، اور اس بارے اس دعا اور تضرع وزارى بے سود ہے، اور جب بندہ اپنى دعا مستجاب ہونے سے ماىوس ہوتا ہے تو وہ اپنے خالق سے تضرع كرنا ہى چھوڑ دىتا ہے، كىونكہ اس مىں كوئى فائدہ ہى نہىں۔ 2. اور ىہى حال تمام عبادات اور صدقات كا ہےكہ جو شارع سے وارد هوئي ہين كہ ىہ عمر ىا رزق بڑھاتى ہے ىا ان كے علاوہ وہ اشىاء جو بندہ اپنے خالق سے طلب كرتا ہے ۔ اور ىہ در حقيقت اہل بىتؑ كا بداء كى اہمىت سے متعلق اہتمام مىں كثرت كے ساتھ وارد رواىات كى حكاىت كرتي هے۔ چنانچه صدوق نے كتاب(التوحىد) مىں اپنے سنَد كے ساتھ زرارہ سے كہ انهون نے دونوں (ىعنى امام باقرؑ اور امام صادقؑ)مىں سے كسى اىك سے رواىت نقل كى ہے، فرماتے: ((بداء جىسى كسى شئى مىں الله تعالى كى عبادت نہىں ہوئى)) :ما عُبد الله عزوجل بشيئ مثل البداء ۔ اور اس نے اپنے اسناد كے ساتھ محمد بن مسلم سے اس نے ابى عبد اللہ(امام صادقؑ) سے رواىت كى: ((ما بعث الله عزوجل نبيّاً حتى يأخذ عليه ثلاث خصال: الإقرار بالعبودية.وخلع الأنداد. وأن الله يقدم ما يشاء ويؤخر ما يشا [40]. . اللہ نے كسى نبى كو نہىں بھىجا مگر ىہ كہ ان سےتىن خصال كا اقرار لىا: عبودىت كا اقرار۔ شرك سے پاكىزہ۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر كرتا ہے))۔ اور اس اہتمام كا رازىہ ہے كہ بداء سے انكار لازمه یه کهنا هے كہ تقدىر كے بعد اللہ تعالى قادر نہىں كہ اس كو تبدىل كرے، حالانكہ اللہ تعالى اس سے بلند وبالا ہے۔ ىہ نظریه بندےكو اس كى دعا كا مستجاب ہونے كے بارے مىں ماىوس كرنا ہے، اور ىہ سبب بنتا ہے كہ بندہ اپنى ضرورىات اللہ سے طلب كرنے مىں عدم توجہى کا روبرو ہوجائے)) [41]. ۔

بجث کا نتیجه

بداء وہ خالص عقيدے کا نام ہےكہ جس مىں اللہ تعالى کےساته كسى قسم کی جہل کی نسبت نہىں پائی جاتی، اور اس سے انكار ذات اقدس الهي كا -نعوذ بالله – عاجز هونا لازم آتا ہے،چناچه جس نےبھى بداء كا ذكراس لحاظ سےكہ ىہ امامىہ كا عقىدہ ہے سمجه کر استہزا اور عىب كى زبان مىں كىا۔ شفافىت اورموضوعىت سے دور ره گیا ۔پس بہتر تھا كہ مسئلے سے بحث علمى ہوتا، اس كے رد ّوقبول مىں حق كو معىار ومقصود قرار دىتے۔

حوالہ جات

  1. سورانعام أیت :28.
  2. سورہ اعراف آىت ۲۲
  3. النہاىة فى غرىب الحدىث والأثر، ج۱، ص۱۰۹۔
  4. تاج العروس من جواہر القاموس ج۱۹، ص۱۸۹
  5. سورہ ىوسف آىت ۳۵
  6. سوره ممتحنه أیت 4
  7. فضلي، عبد الهادي، خلاصة الالهيات، ص 320.
  8. العياشي، تفسير العياشى، ج2، ص 215.
  9. البىان ۴۱۰ عن عىون أخبار الرضا باب ۱۳
  10. الصدوق، ابن بابويه، التوحيد للصدوق،ج1، ص 444 ،66
  11. سوره رعد، آىت 39۔
  12. سوره رعد، آىت 38۔
  13. طباطبائی« محمد حسین، المىزان ۱۱، ۳۷۶۔
  14. خوئی، ابو القاسم، البىان، ص۴۰۹
  15. خوئی، ابو القاسم، ابو البىان، ص۴۱۰
  16. سوره دخان:آيت 3
  17. سوره دخان،آيت۴۔
  18. طباطبائي، محمد حسين، مىزان، ج ۱۸، ص ۱۳۴
  19. تفسىر العىاشى ج۲، ص۲۱۶۔
  20. سورہ رعد،آىت ۳۹۔
  21. خويي، ابو القاسم، البيان 423
  22. بخاري، صحىح بخارى باب ما ذكر عن بنى اسرائىل ج۴ ص۳۲۹
  23. ن ترمذى سے: باب ماجاء لا ىرد القدر إلا الدعاء ۸، ۳۵۰
  24. سنن ابن ماجہ: باب قدر۱۰۔ ۲۴
  25. احمد نے اپنے مسند مىں نقل كىا ۵۔۲۷۷۔ ۲۸۰۔ ۲۸۲۔
  26. الاندلوسي، ابوحيان، البحر المحىط ج۵، ۳۹۸
  27. الاندلوسي، ابوحيان، البحر المحىط ، ج۵، ص ۳۹۸
  28. الجمل، سليمان، حاشىہ الجمل، ج ۲۔ص ۵۷۴
  29. الجمل، سليمان، حاشىہ الجمل، ج ۲۔ص ۵۷۴
  30. بخارى، ج۹، ج۲۶۵- ۲۶۸،باب قولہ : وكلم اللہ موسى تكلىما، ط منىرىہ .
  31. البضاوي، مواہب الجلىل من تفسىر البىضاوى ۳۲۸۔.
  32. حاشىہ الجمل ج۲ ص۵۷۴۔
  33. سورة انفال آىت ۶۶
  34. سورة انفال آىت 65
  35. سورة انفال آىت ۶۶
  36. سورہ الصافات ۱۰۲- ۱۰۷
  37. سورہ الصافات ۱۰۲- ۱۰۷
  38. سورہ الصافات ۱۰۲- ۱۰۷
  39. الارتكاني، سيد احمد، الزىدىہ ۱۷۹
  40. الكليني، محمد بن يعقوب، الكافي، ج‏1، ص147 .
  41. خویی، ابو القاسم، البىان، ص ۴۱۴-۴۱۵