عیسی قاسم
عیسی قاسم | |
---|---|
![]() | |
دوسرے نام | شیخ عیسی احمد قاسم |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1937 ء، 1315 ش، 1355 ق |
یوم پیدائش | 1جنوری |
پیدائش کی جگہ | بحرین |
اساتذہ | شیخ عبدالحسین حالی |
مذہب | اسلام، شیعہ |
مناصب |
|
شیخ عیسی قاسمایک ممتاز شیعہ عالم اور بحرینی شیعوں کے رہنما اور رہبر ہیں۔بحرینی حکومت نے 21 مئی 2017ء کو انہیں ایک سال قید اور جائداد ضبط کرنے کی سزا سنائی تھی۔ بحرینی فورسز نے 23 مئی 2017 کو ان کے گھر میں گھس کر انھیں گرفتار کیا، ان کے دو حامیوں کو شہید اور 100 کو زخمی کر دیا۔
سوانح عمری
عیسی قاسم بحرین کے موجودہ دار الحکومت منامہ کے قریب ایک دراز گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کسی معروف گھرانے سے نہیں تھا اور اس کے والد ایک سادہ مچھیرے تھے۔انہوں نے ابتدائی اسکول میں شاندار درجات تھے، اس لیے اس نے اپنی طویل تعلیم جاری رکھنے کے لیے چھوڑ دیا۔انہوں نے منامہ کے ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔
دینی تعلیم
منامہ شہر میں اپنی ثانوی تعلیم کے ساتھ ساتھ، آپ شام کو شیخ عبدالحسین حالی کے پاس دین کی تعلیم حاصل کرنے گئے۔ اور 1962ء ( 1340-41 ) میں وہ نجف گئے اور سید محمد باقر صدر جیسے لوگوں کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔آپ مزید چار سال تک نجف سے بحرین واپس آیا اور خمیس کے مڈل اسکولوں میں پڑھایا۔ دو سال کے بعد وہ نجف واپس آئے اور "عبد اللہ غریفی"، "عباس رئیس"، "عبد اللہ مدنی"، "عبدالامیر جمری" جیسے لوگوں سے ملے۔
60 کی دہائی کے آخر میں وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے ایران چلے گئے۔ قم میں انھوں نے سید محمود ہاشمی ، سید کاظم حائری اور آیت اللہ فاضل لنکرانی جیسے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ 29 مارچ 2000ء تک ایران میں تھا اور پھر بحرین واپس چلا گیا۔
ہم ذلت اور شہادت کے دو راہے پر کھڑے ہیں
بحرین کے اہم اور سینئر راہنما "آیت اللہ شیخ عیسی قاسم" نے منامہ کی نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بحرین کے حکام کے ہاتھوں عوام کے قتل عام پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ شیخ عیسی قاسم کی تقریر کے اہم ترین نکات:" میں میدان اللؤلؤة کی قتلگاہ میں بحرینی شہریوں کی شہادت کے سلسلے میں تمام مظلوم عرب اقوام اور پوری امت اسلامی کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ یہ افراد انسانی کرامت کی حفاظت کے سلسلے میں ظلم و جبر کے مقابل مزاحمت و استقامت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔
ان لوگوں، ان بوڑھوں، ان بچوں اور ان خواتین اور شیرخوار بچوں کی شہادت کا سبب کیا تھا؟ یہ بے گناہ افرد کیوں قتل کئے گئے جو نہایت پرامن انداز سے زمین پر بیٹھے یا لیٹے ہوئے تھے اور انہیں رات کی آخری پہر میں گھیرے میں لیا گیا اور مسلحانہ یلغار کا نشانہ بنائے گئے تا کہ ہولناک قتل عام وقوع پذیر ہو اور پاک خون کی ندیاں جاری ہوجائیں۔ان المیوں کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہے۔ یہ حملے کن لوگوں کی جانب سے ہوئے؟
ایسی حکومت کی جانب سے ہوئی جو شہریوں کی حفاظت اور ان کی دیکہ بھال کی ذمہ دار ہے اور لوگوں کی جان و مال اور امن و امان کی محافظ ہے۔ یہ حملہ کیوں ہوا؟ اس لئے ہوا کہ لوگ فریاد کررہے تھے کہ یہ ظلم کیوں ہے؟ کیونکہ وہ استغاثہ کررہے تھے اور حق و کرامت کا مطالبہ کررہے تھے۔ حکمرانوں نے ارادی طور پر یہ المناک اقدام کیا، یہ قتلگاہ سہوی اور غیر ارادی طور پر معرض وجود میں نہیں آئی یہ عمداً اور ارادتاً معرض وجود میں لائی گئی اور تمام شواہد اور قرائن بھی گواہی دے رہے ہیں
قائد انقلاب اسلامی کی مدد، امام حسین علیہ السلام کی مدد ہے
بحرین انقلاب کے رہبر نے اپنی ایک تقریر میں، قائد انقلاب اسلامی کو زمانے کا حسین بتایا ہے جو بہت سے یزیدوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بحرین انقلاب کے رہبر آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے ایران کے صوبہ زنجان میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے ولایت فقیہ کی حمایت کی تاکید کی اور کہا : اسلامی جمہوریہ ایران کے قائد، زمانے کے حسین ہیں۔
بحرین انقلاب کے رہبر نے ولی فقہ کی افادیت و نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : سرزمین ایران کی عوام خوش نصیب ہے کہ آج اس کو ولی فقیہ کی قیادت کی نعمت حاصل ہے اور قائد انقلاب اسلامی ایران کی مدد، امام حسین علیہ السلام کی مدد ہے۔ انہوں نے دنیا میں موجودہ یزیدیوں سے ایران کے مقابلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : آیت اللہ سید علی خامنہ ای آج ایک ایسے حسین ہیں جو دنیا میں ہزاروں یزیدوں کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے محرم کو ظالم و مظلوم کے درمیان فرق جاننے کا ایک مناسب زمانہ جانا ہے اور کہا : محرم ہمارے لیے ایک امتحان ہے کہ ہم اپنا ہاتھ امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ میں دیتے ہیں یا یزید کے ہاتھ میں اور ہمارا مسلک، حسینی مسلک ہے یا یزیدی؟ بحرین انقلاب کے رہبر نے خدائی ولایت اور شیطانی ولایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : امام حسین علیہ السلام اللہ کے ولی ہیں جبکہ یزید شیطان کا ولی ہے۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا : جس نے بھی امام حسین علیہ السلام کی ولایت کو تسلیم کیا اسے، اس شخص کی ولایت کو بھی قبول کرنا چاہیے جس کی قیادت سے امام حسین راضی ہیں۔ آیت اللہ عیسی قاسم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : اسی طرح جس نے بھی یزید کی ولایت قبول کر لی وہ امام حسین علیہ السلام اور ان کی ولایت کو تسلیم کرنے والوں سے جنگ کے میدان میں آ گيا ہے[1]۔
تشدد سے اقوام کو خاموش نہیں کیا جاسکتا
یہ کاروائی لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے نہیں تھی بلکہ انہیں قتل کرنے کے لئے تھی، دھرنے کو تھس نہس کرنے اور عوام کو قلع قمع کرنے کے لئے تھی اور اس کا مقصد عوام کو خوفزدہ کرنا اور حکومت کی قسی القلبی کا ثبوت فراہم کرنا تھا۔ تشدد اصلاح اور حالات کو سدھارنے کا وسیلہ نہیں ہے کیونکہ اتنے طویل عرصے سے اس حکومت نے تشدد کا راستہ اپنایا ہوا ہے اور اگر تشدد آمیز اقدامات لوگوں کو خاموش کرنے میں مؤثر ہوتے تو اس کے یہ طویل المدت تشدد آمیز اقدامات کسی نتیجے پر پہنچ چکے ہوتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور ان اقدامات کے ذریعے اقوام کو خاموش نہیں کیا جاسکتا۔
ان مظالم و جرائم اور ان تشدد آمیز اقدامات سے زیادہ بری اور بھونڈی وہ وسیع تشہیراتی مہم ہے جس کے ذریعے کوشش کی جارہی ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ اور مذہبی دشمنیوں کی بنیاد رکھی جائے اور بحرینی عوام کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جائے لیکن بحرینی عوام اس سے کہیں زیادہ ہوشیار، زیرک اور با کیاست ہیں کہ ان خبیث پروپیگنڈوں سے متأثر ہوجائیں۔
فرقہ واریت اقدامات سے پرہیز کریں
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے آخر میں بحرینی نمازگزاروں سے مخاطب ہوکر کہا:" ایہا المؤمنون! ایک دوسرے کو فرقہ واریت کی بنیاد پر قتل مت کیا کرو؛ وحدت کا تحفظ کرو، حبل اللہ المتین کا دامن تھامو کیونکہ اتحاد صرف حبل اللہ سے تمسک کرکے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔شیخ عیسی قاسم کے خطبوں کے دوران کئی بار "هیهات مناالذلة" (دور باد ہم سے ذلت)، "الله اکبر"، "النصر للاسلام" (کامیابی اسلام ہی لئے ہے)، "اخوان الشیعة والسنة هذاالوطن ما نبیعه" (شیعہ و سنی بھائی ہیں اور ہم اپنا وطن نہیں بیچ رہے)، "لن نرکعَ الا لله" خدا کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکیں گے)، اور "بالروح بالدم نفديك يا بحرين" (اپنی روح اور اپنے خون سے تیری راہ میں قربان ہونگے اے بحرین) جیسے نعرے لگائے گئے[2]۔
مجاہد عالم دین شیخ عیسیٰ قاسم سے جارحانہ برتاو پر شدید تنقید
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بحرین کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بحرین میں بھی مسئلہ شیعہ یا سنی کا نہیں ہے بلکہ اصل ماجرا وہاں کی اکثریت پر ایک مستکبر اقلیت کی خودخواہ اور جابرانہ حکمرانی کا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بحرینی حکومت کی شیخ عیسی قاسم کے خلاف جارحانہ کارروائی کو انکی حماقت قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ شیخ عیسی قاسم ایسے شخص ہیں کہ جب تک وہ بحرینی عوام سے بات چیت کر سکتے تھے انہیں شدت پسندی اور مسلح کارروائیوں سے روکتے رہے لیکن بحرینی حکومت کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ اس مجاہد عالم دین کے خلاف جارحانہ کارروائی کا مطلب حکومت کے ہر عمل کے مقابلے میں اقدامات انجام دینے کے سلسلے میں بحرین کے حماسی اور پرجوش نوجوانوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانا ہے[3]۔
سیاسی سرگرمیاں
بحرین کے اعلی شیعہ رہنما آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے کہا: ہم تمام دنیا والوں، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور انسانی ضمیروں کو بتانا چاہتے ہیں کہ: ہمیں ہماری حکومت نے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے: ایک راستہ یہ ہے کہ ظلم و جور کے سامنے سر تسلیم خم کریں اور اپنے گلے میں غلامی کا طوق ڈال دیں اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہمیں فرقہ واریت کی بنیاد پر قربان کیا جائے اور ہمیں قتلگاہوں میں لے جایا جائے اور یکے بعد دیگرے قربانگاہوں میں منتقل کیا جائے جبکہ اس تمام صورت حال کی ذمہ داری دنیا والوں پر عائد ہوتی ہے۔
ایوانِ نمائندگان
1971ء میں، جب بحرین نے باضابطہ طور پر فارسی اور برطانوی سلطنتوں سے علیحدگی اختیار کی اور آزادی حاصل کی، شیخ علمائے کرام کی درخواست پر نجف سے نئے قائم کردہ ملک بحرین واپس آئے۔ آپ بحرین کا آئین تیار کرنے میں شامل تھا۔ عوام کے زور پر انہیں 1973ء میں بحرین کی آئین ساز اسمبلی کے لیے نامزد کیا گیا اور آپ سب سے زیادہ ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں داخل ہوئے۔
شیخ عیسی قاسم پارلیمنٹ کی مذہبی کمیٹی کے سربراہ بنے اور اسلام پسند موجودہ کے ساتھ مل کر آئین کی اسلامی شقوں کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1350 میں عوام کے ووٹوں سے وہ بحرین کی قومی اسمبلی کے رکن بنے اور اسمبلی کی تحلیل تک وہیں رہے۔
بحرینی اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات
شیخ عیسیٰ 1350 میں بحرین میں " اسلامی بیداری سوسائٹی " کے بانیوں میں سے تھے۔ ان کا ایک اور کام 1950 میں ان کی بحرین آمد کے آغاز میں "اسلامک سوسائٹی آف دی روشن خیالی " کا قیام تھا۔ ان کا دوسرا کام واپسی کے آغاز میں ایک " اسلامی اسمبلی آف نالج " قائم کرنا تھا۔
پہلے دور میں پارلیمنٹ کے سپیکر نے اس پارلیمنٹ کے مذہبی حوالوں کا جائزہ لینے کے لیے دفتر جانے کے بعد صدارت ’’سید مجید مشعل‘‘ کو سونپ دی۔ 1379 میں ایران سے واپس آنے کے بعد وہ دوبارہ پارلیمنٹ کے اسپیکر بنے۔
عہدہ اور ذمہ داری
1995ء میں، بحرینی حکومت نے ان پر بغاوت میں ملوث ہونے اور بحرین میں حزب اللہ کے ساتھ تعاون کا الزام لگایا۔ بحرینیوں میں اس کے مقام اور ولایت فقیہ پر اس کے عقیدے کے پیش نظر، بعض لوگ اس الزام کو الخلیفہ کی سازش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
جمعہ کی امامت
2000ء میں بحرین واپس آنے کے بعد، آپ امام صادق مسجد کے خطبہ جمعہ کے مبلغ بن گئے۔
بحرینی حکومت مخالف کی قیادت
16فروری 2011ء کو بحرین میں بغاوت شروع ہونے کے بعد آپ اس انقلاب کے ڈی فیکٹو لیڈر بن گئے۔ ان کی تقاریر اور جمعہ کے خطبات انقلاب میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ جب وہ خواتین تک پہنچیں تو آل خلیفہ اور آل سعود کی افواج کا مقابلہ کریں۔
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی حمایت میں زبر دست ریلی
بحرینی عوام نے دارالحکومت منامہ میں بزرگ عالم دین آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی حمایت اور ان سے یکجہتی کے اظہار کے لئے بہت بڑی ریلی نکالی ہے۔ بحرینی ذرائع نے خبردی ہے کہ ریلی میں شریک بحرینی شہریوں نے بزرگ عالم دین آیت اللہ شیخ عیسی قاسم سے جو اس وقت زیرعلاج ہیں اپنی بھرپور یکجہتی کا اعلان کیا۔ بحرینی عوام نے ساتھ ہی ان سیاسی اور انقلابی قیدیوں سے بھی یکجہتی کا اظہار اور ان کے لئے اپنی حمایت کا اعلان کیا جو آل خلیفہ حکومت کی جیلوں میں بند ہیں۔
واضح رہے کہ بحرین کے انقلابی قائد آیت اللہ شیخ عیسی قاسم دوسال تک اپنے گھر میں نظر بند رہنے کے بعد سرانجام گذشتہ نوجولائی کو علاج کے لئے لندن روانہ ہوئے اور فورا انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ابھی تک آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی جسمانی حالت کے بارے میں تفصیلات معلوم نہیں ہوسکی ہیں۔
بحرین میں فروری دوہزار گیارہ سے آل خلیفہ حکومت کے خلاف عوامی تحریک جاری ہے۔ بحرینی عوام اپنے ملک میں سیاسی اصلاحات اور جمہوریت و آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ بحرین کی ظالم شاہی حکومت نے اس عرصے میں عوام کی پرامن انقلابی تحریک کو کچلنے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں بحرینی شہری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جبکہ بڑی تعددا میں لوگوں کی شہریت منسوخ کردی گئی ہے۔ آل خلیفہ حکومت نے ہزاروں سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں بھی بند کردیا ہے[4]۔
وزیر انصاف کی توہین
حکومت کے خلاف سرگرمیوں کے دوران وزارت انصاف نے لوگوں میں ان کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لیے ان کے خلاف توہین آمیز خطوط جاری کیے تھے۔ 25 ستمبر 2011 کو بھی لوگوں نے بحرین بھر میں نماز جمعہ بند کردی اور صرف شیخ قاسم کی نماز ادا کی گئی۔
سب سے بڑے مارچ کی دعوت
بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ الخلیفہ کی جانب سے مخالفین کو کچلنے کے بعد، شیخ عیسی قاسم کی دعوت پر منامہ میں "لبیک یا بحرین" کے نام سے ایک مظاہرہ ہوا جس میں 5 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔
یہ مظاہرہ بحرین کی تاریخ کا سب سے بڑا تھا، جس میں 50% سے زیادہ بحرینیوں نے شرکت کی اور اسے "ریفرنڈم" مارچ کہا گیا اور یہ پہلا موقع تھا جب شیخ عیسیٰ القاسم نے خود اس مظاہرے میں حصہ لیا۔
فیصلہ
حمیدرضا احمدآبادی 5 خرداد 1396 لبنان میں حزب اللہ کے جھنڈے کے ساتھ عیسی قاسم کی حمایت میں مارچ میں 20 مئی 2017 بروز اتوار بحرین کی ایک عدالت نے شیخ عیسیٰ قاسم اور ان کے دفتر کے دو دیگر اہلکاروں کو سال قید کی سزا سنائی اور 3 ملین دینار مالیت کی جائداد ضبط کرنے اور 1000 دینار معاوضہ ادا کرنے کی مذمت کی۔
اس فیصلے کے بعد بحرینیوں نے منامہ کے مغرب میں الدراز کے محصور علاقے میں گھر کے گرد احتجاج کیا۔ مظاہرے بحرین کے مختلف علاقوں جیسے سترہ، ابو سائبہ، کرانیح، العکر، دمستان اور البلاد القدیم میں بھی ہوئے جن میں سے بعض میں آل خلیفہ کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئیں۔
عراق میں موجودگی
26 دسمبر 2016 بروز بدھ عیسیٰ قاسم برطانیہ میں اپنے علاج کے دوران عراق کے شہر نجف میں لندن سے مقدس مزارات عالیہ کی زیارت کے لیے پہنچے۔ یہ سفر جس کا آغاز نجف کے علما اور حکام نے کیا تھا، 50 سالوں میں ان کا عراقی زیارتی شہروں کا پہلا دورہ تھا۔
نجف پہنچنے کے دو دن بعد اس نے عراقی شیعہ عالم سید علی سیستانی سے ملاقات کی۔ عیسی قاسم نے جمعرات 27 دسمبر 2016 کو سید محمود ہاشمی شاہرودی کی یاد میں تقریب میں شرکت کی جو نجف میں عراق میں رہبر معظم کے نمائندے کی طرف سے منعقد کی گئی تھی۔ عراقی سپریم اسلامی اسمبلی کے اسپیکر عمار حکیم اور عراق میں عصائب اہل الحق تحریک کے سیکرٹری جنرل قیس خزالی سمیت متعدد عراقی مذہبی اور سماجی شخصیات نے بھی ان کی ملک آمد کے بعد ان سے ملاقات کی۔
نجف میں قیام
پیر 31 دسمبر 2016ء کو الغدیر عراقی نیٹ ورک اور ارم نیوز نے نجف سٹی کونسل کی سیکورٹی کمیٹی کے رکن جواد الغزالی کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا کہ بحرینی شیعہ رہنما نے الامیر میں ایک مکان کرائے پر لیا تھا۔ شہر کے محلے اور وہیں قیام کرتے۔ اس نے مشہد کا سفر بھی کیا اور پھر علاج کے لیے تہران کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا۔
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کے ساتھ آیت اللہ مکارم شیرازی کی مخلصانہ ملاقات
شیعیان بحرین کے رہبر آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کے ساتھ آیت اللہ مکارم شیرازی کی ملاقات اور گفتگو ہوئی اور اس گفتگو میں عالم اسلام کی موجودہ صورت حال پر تبادل خیال کیا گیا ۔ شیعیان بحرین کے رہبر آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کے قم آفس میں جا کر مرجع تقلید کے ساتھ دوستانہ ملاقات اور گفتگو کی اور اس گفتگو میں عالم اسلام کی موجودہ صورت حال پر تبادل خیال کیا گیا ۔
آیت الله مکارم شیرازی نے اس ملاقات میں شیعیان بحرین کے رہبر آیت اللہ شیخ عیسی قاسم سے ان کی موجودہ جسمانی حالات اور صحت سے متعلق حالیہ صورت حال معلوم کی اور ان کی صحت و سلامتی کی دعا کی ۔ اس ملاقات میں عالم اسلام کی موجودہ صورت حال خصوصا بحرین کے اہم موضوع پر حضرت آیت الله مکارم شیرازی و شیخ عیسی قاسم کے درمیان تبادل نظر کیا گیا ۔
مرجع تقلید نے اپنی گفتگو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے اس بیان کے ساتھ کہ وہ چیز جو آپ کی خوشی کا سبب بنتی ہے اس میں ہماری خوشی ہے اور جو آپ کی ناراحتی کی وجہ بنے اس سے ہم بھی ناراحت ہوتے ہیں بیان کیا : الحمد للہ آپ اسلام و اہل بیت علیہم السلام کے خدمت گزار ہیں اور خاص کر بحرین کے مومن عوام کو نجات دلانے میں مشغول ہیں ہم لوگ اپ کی طولانی عمر کے لئے دعا کرتے ہیں ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے اسی طرح شیعیان بحرین کے رہبر آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی مجاہدت اور بحرینی عوام کی مشکلات حل کرنے میں پیش قدم ہرنے پر اس اسلامی ممالک میں قدر دانی کی ۔ اس ملاقات کے اختمامی مراحل میں حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے شیعیان بحرین کے رہبر آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی صحت و سلامتی اور نیز بحرین کے تمام مسلمان خاص کر مظلوم شیعوں کو ظالمین و مستکبرین کی شر سے رہائی پانے کی دعا کی ۔
آیت الله شیخ عیسی قاسم نے بھی نیز اس ملاقات میں بحرین اور اس ملک کے شیعوں کی حالیہ صورت حال کی رپورٹ پیش کی اور شہر مقدس قم میں مقیم ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت آیت الله مکارم شیرازی سے خطاب ہو کر کہا : آپ مسلمانوں کے مضبوط پشت و پناہ اور ہمدرد ہیں ؛ خداوند کریم آپ کی حفاظت کرے اور اپ کی عمر طولانی کرے اور عزت میں اضافہ کرے[5]۔
بحرین میں انقلابی مطالبات برقرار، ظلم میں اضافہ
ملک بحرین کے ممتاز عالم دین آیت اللہ شیخ عیسی احمد قاسم نے انقلاب 14 فروری کی چودہویں سالگرہ کے موقع پر اپنے بیان میں کہا کہ عوامی جدوجہد کے بنیادی مطالبات آج بھی برقرار ہیں، جبکہ ظلم اور جبر میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
شیخ عیسی قاسم نے واضح کیا کہ بحرین میں 2011 میں شروع ہونے والی عوامی تحریک محض جذبات پر مبنی نہیں تھی، بلکہ اس کی بنیاد حقیقی ضرورتوں اور جائز حقوق کے حصول پر تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے باوجود ان مطالبات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ عوام کے بنیادی حقوق سے جڑے ہوئے ہیں۔
بحرین کے روحانی پیشوا نے کہا کہ عوام کو اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر مجبور کرنے والی وجوہات کم نہیں ہوئیں، بلکہ مزید سنگین ہو چکی ہیں۔ انہوں نے حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ظلم میں اضافہ ہوا ہے، انسانی وقار مزید پامال ہو رہا ہے، اور پرانے مسائل کے ساتھ نئے بحران بھی جنم لے چکے ہیں۔
شیخ عیسی قاسم نے بعض عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی شدید تنقید و مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام امت مسلمہ اور اس کی عزت و وقار کے لیے تباہ کن ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف اسلامی تشخص اور دینی اقدار کو نقصان پہنچے گا، بلکہ انسانی کرامت بھی زوال پذیر ہوگی۔
انہوں نے واضح کیا کہ عوامی جدوجہد کے مطالبات سے دستبردار ہونا ممکن نہیں، کیونکہ یہ راستہ ذلت اور ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونے کا راستہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ظلم کو تسلیم کر لینا اس کی شدت میں اضافے کا باعث بنے گا اور بحرینی عوام کبھی بھی اپنے حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
بحرینی عالم دین نے بحرین میں قید سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ ان قیدیوں کی آزادی کے لیے عوام کو متحرک رہنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد کسی جرم کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے جائز حقوق کے مطالبے کی پاداش میں قید ہیں، اور ان کی رہائی کے لیے عوامی دباؤ ناگزیر ہے۔
عیسی قاسم نے حکومت کو خبردار کیا کہ سیاسی استحکام اسی وقت ممکن ہوگا جب حکمران عوام کے مطالبات پر توجہ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت یہ سوچتی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو نظر انداز کر کے استحکام حاصل کر سکتی ہے تو یہ ایک سنگین غلط فہمی ہے۔
شیخ عیسی قاسم نے زور دیا کہ بحران کے خاتمے کے دو ہی راستے ہیں: یا تو حکومت عوامی مطالبات کو تسلیم کرے یا پھر عوام اپنی طاقت واپس حاصل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمزور قوموں پر جبر مسلط کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ ہمیشہ کے لیے مغلوب نہیں رہتیں۔
یاد رہے کہ بحرین میں 14 فروری 2011 کو شروع ہونے والی عوامی تحریک، اصلاحات، سماجی انصاف اور سیاسی تبدیلی کے مطالبات پر مبنی تھی، تاہم اسے سخت ترین حکومتی کریک ڈاؤن اور غیر ملکی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا[6]۔
حوالہ جات
- ↑ قائد انقلاب اسلامی کی مدد، امام حسین علیہ السلام کی مدد ہے - شائع شدہ از: 5 ستمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 فروری 2025ء۔
- ↑ آیت اللہ شیخ عیسی قاسم : ہم ذلت اور شہادت کے دو راہے پر کھڑے ہیں- شائع شدہ از: 19 فروری 2011ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 فروری 2025ء۔
- ↑ مجاہد عالم دین شیخ عیسیٰ قاسم سے جارحانہ برتاو پر شدید تنقید- شائع شدہ از: 26 جون 2016ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 فروری 2025ء۔
- ↑ آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی حمایت میں زبر دست ریلی- شائع شدہ از: 20 جولائی 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 فروری 2025ء۔
- ↑ شیعیان بحرین کے رہبر آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کے ساتھ آیت اللہ مکارم شیرازی کی مخلصانہ ملاقات- شائع شدہ از: 27 فروری 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 فروری 2025ء۔
- ↑ بحرین میں انقلابی مطالبات برقرار، ظلم میں اضافہ: شیخ عیسی قاسم- شائع شدہ از: 15 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 فروری 2025ء۔