مصطفی چمران
مصطفی چمران | |
---|---|
دوسرے نام | شہید ڈاکٹر مصطفی چمران |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1311 ش، 1933 ء، 1350 ق |
یوم پیدائش | 15 اپریل |
پیدائش کی جگہ | ساوہ ایران |
وفات | 1360 ش، 1982 ء، 1401 ق |
یوم وفات | 13 خرداد |
وفات کی جگہ | دہلاویہ |
اساتذہ | سید محمود طالقانی،مهدی بازرگان و شہید مرتضی مطہری |
مذہب | اسلام، شیعہ |
اثرات |
|
مناصب | لبنان، کردستان، ترجمہ دعاء کمیل |
مصطفی چمران اسلامی جمہوریہ ایران کی عارضی حکومت کے وزیر دفاع اور ایران عراق جنگ میں غیر منظم جنگوں کے ہیڈ کوارٹر کے بانی تھے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے امام موسیٰ صدر کی دعوت پر لبنان گئے اور آٹھ سال تک وہاں رہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی فتح کے بعد آپ اسلامی جمہوریہ کی عارضی حکومت کے وزیر دفاع، پارلیمنٹ کے رکن اور عراق اور ایران کی جنگ میں نامنظم جنگوں کے کمانڈر آف دی اسٹاف رہے۔ مصطفی چمران 31 جون 1360 کو دہلویہ میں شہید ہوئے۔
پیدائش اور تعلیم
مصطفی چمران 10 مئی 1311 کو تہران، خیانان پانزادہ خرداد، اہنگربا بازار، سرپولک میں پیدا ہوئے۔ شہید چمران کے والد محترم حاج حسن چمران ساوہ شہر کے قریب ایک گاؤں میں رہتے تھے اور جب انہوں نے دیکھا کہ وہ وہاں اچھی کمائی نہیں کر سکتے تو اپنے بچوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے تہران آگئے۔
انہوں نے اپنی تعلیم کے دوران میں ہر کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اور سن 1959 ء میں اعلٰی تعلیم کی غرض سے اسکالرشپ پر امریکا تشریف لے گئے۔ انھوں نے امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی اور برکلے یونیورسٹی میں الیکٹرونیکس اور پلازما فزیکس کے شعبوں میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
انہوں نے تہران یونیورسٹی کی ٹیکنیکل فیکلٹی میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور 1336 میں الیکٹرو مکینکس کے شعبے میں گریجویشن کیا اور ایک سال تک ٹیکنیکل فیکلٹی میں پڑھایا۔ آپ اپنی پوری تعلیم کے دوران بو کا پہلا طالب علم تھا۔
سماجی سرگرمیاں
15 سال کی عمر سے، آپ نے ہدایت مسجد میں آیت اللہ طالقانی مرحوم کی تفسیر قرآن کی کلاس اور شہید مرتضی مطہری اور کچھ دوسرے اساتذہ کی فلسفہ اور منطق کی کلاسوں میں شرکت کی، اور تہران کے یونیورسٹی اسٹوڈنٹس اسلامک ایسوسی ایشن کے اولین اراکین میں سے ایک تھے۔ انہوں نے 14ویں پارلیمنٹ سے لے کر تیل کی صنعت کو قومیانے تک ڈاکٹر مصدق کے دور کی سیاسی مہموں میں حصہ لیا اور اس دور کی زندگی اور موت کی کشمکش میں ایرانی قومی تحریک کی حفاظت کرنے والے محنتی عناصر میں سے ایک تھے۔
چمران تہران یونیورسٹی میں اسلامک اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے ابتدائی اراکین میں سے تھے۔ اسی طرح امریکا میں اپنے قیام کے دوران میں انھوں نے اپنے بعض دوسرے دوستوں کی مدد سے پہلی بار اسلامک اسٹوڈنٹس سوسائٹی ( انجمن دانشجویان اسلامی ) کی بنیاد رکھی۔
28 اگست کی شرمناک بغاوت اور ڈاکٹر مصدق کی حکومت کے خاتمے کے بعد، انہوں نے ایرانی قومی مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور استبداد اور استعمار کے خلاف اپنی مشکل ترین جدوجہد اور ذمہ داریوں کا آغاز کیا، اور انہوں نے ایران سے ہجرت تک، انتھک محنت اور تمام تر کوششوں کے ساتھ۔ شاہ کی ظالم حکومت کا مقابلہ کیا اور انتہائی مشکل حالات میں انتہائی خطرناک مشن کو کامیابی سے مکمل کیا۔
امریکہ میں قیام
انہوں نے امریکہ میں اپنے قیام کے دوران اپنے بعض دوسرے دوستوں کی مدد سے پہلی بار اسلامک اسٹوڈنٹس سوسائٹی ( انجمن دانشجویان اسلامی ) کی بنیاد رکھی اور اس کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے انتھک جدوجہد کی۔ امریکہ میں موجود ایرانی اسٹوڈنٹ کمیونٹی میں ان کا شمار اس سوسائٹی کے سرگرم رکن کی حیثیت سے ہوتا تھا ۔ ان کو اپنی سرگرمیوں کی سزا یہ ملی کہ ایران میں موجود شاہ حکومت نے ان کا تعلیمی وظیفہ روک دیا۔
امریکہ میں انہوں نے اپنے چند دوستوں کے تعاون سے پہلی بار اسلامک اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن آف امریکہ کی بنیاد رکھی اور وہ کیلیفورنیا میں ایرانی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے بانیوں اور امریکہ میں ایرانی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے سرگرم کارکنوں میں سے ایک تھے۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے شاہ کی حکومت کی طرف سے ملنے والا اسکالر شپ ختم کردیا گیا۔ 15 جون 1342 کی خونریز بغاوت اور امام خمینی (رح) کی قیادت میں ایرانی عوام کے مظاہروں کو کچلنے کے بعد، آپ نے ایک جرات مندانہ اور فیصلہ کن اقدام کیا
آپ تمام رکاوٹوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنے کچھ مومنین اور انقلابی سوچ کے مالک دوستوں کے ساتھ مصر کا سفر دورہ کیا اور عبد الناصر کے دور میں دو سال تک سب سے مشکل گوریلا جنگ کا مطالعہ کیا۔ اور اسے اس دور کا بہترین طالب علم تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے فوراً ایرانی جنگجوؤں کی تربیت کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ گہری مذہبی بصیرت رکھنے کی وجہ سے انہوں نے قوم پرستی سے اجتناب کیا اور جب اس نے مصر میں دیکھا کہ عرب قوم پرستی کا دھارا مسلمانوں کی تقسیم کا سبب بن رہا ہے
تو انہوں نے جمال عبدالناصر پر اعتراض کیا اور ناصر نے اس اعتراض کو قبول کرتے ہوئے کہا۔ عرب قوم پرستی کا دھارا اتنا مضبوط ہے کہ اس کا مقابلہ آسانی سے نہیں کیا جا سکتا اور افسوس کے ساتھ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ ان میں سے زیادہ تر اشتعال دشمن کی طرف سے ہے اور مسلمانوں میں تقسیم ہے۔ اس کے بعد، وہ چمران اور اس کے ساتھیوں کو مصر میں اپنی رائے کا اظہار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
معاشرتی سرگرمیاں
جب آپ کی عمر 15 سال ہوئی تو مسجد ِ ہدایت میں مرحوم آیت اللہ طالقانی کے درسِ تفسیر قرآن اور استاد شہید مرتضیٰ مطہری کے درس منطق اور فلسفے کی کلاسوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ شہید چمران نے ایران میں اپنی تعلیم کے دوران شاہی حکومت کے خلاف انقلاب میں بھر پور حصہ لیا ،شاہ کے خلاف جاری تحریک کے لئے مخفیانہ طور پر پمفیلٹ اور پوسٹر بھی تقسیم کیئے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ لبنان چلے گئے۔اور امام موسیٰ صدر کے ساتھ مل کر صہیونی حکومت کے خلاف جدوجہد شروع کی اور لبنان کے محروم طبقات اور فلسطینیوں کی امداد کے لئے ’’تحریکِ محرومین ‘‘ کی بنیاد رکھی۔
لبنان میں
عبدالناصر کی موت کے بعد ایرانی جنگجوؤں کی تربیت کے لیے ایک آزاد گوریلا اڈے کا قیام ضروری ہو جاتا ہے اور اسی لیے ڈاکٹر چمران ایسا اڈہ قائم کرنے کے لیے لبنان روانہ ہو جاتا ہے۔ لبنان میں شیعوں کے رہنما امام موسیٰ صدر کی مدد سے حرکت محرومین اور پھر اس کے عسکری ونگ نے اسلامی اصولوں اور بنیادوں پر مبنی امل تنظیم کی بنیاد رکھی جو بائیں اور دائیں کی سازشوں اور دشمنیوں کے درمیان تھی۔
خدا پر ایمان اور شہادت کے ہتھیار سے وہ انقلابی اسلام کے صحیح خطوط کو نافذ کرے گا اور علی کی طرح زندگی اور موت کی جنگوں میں خطرے کے بھنور اور طوفانوں میں گرے گا۔ قسمت کی تقدیر، حسین کی طرح، شہادت کے استقبال کے لیے دوڑتی ہے اور اس وقت کے سب سے طاقتور جابروں، قابض صیہونیت اور ان کے خونخوار ساتھیوں، حق پرستوں کے خلاف اور بیروت کے قلب سے بلندی تک شیعہ مذہب کا خونی پرچم بلند کرتی ہے۔
جبل امل پہاڑوں کی چوٹیوں اور مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں میں اپنے ہیروز کی یادیں چھوڑی ہیں۔ محروم اور مظلوم شیعوں کے دلوں میں اس کا مقام ہے اور ان شاندار جدوجہد کی تفصیل سرخ قلم سے اور لبنانی شہداء کے پاکیزہ خون کی گواہی کے ساتھ گرم گلیوں اور سرحد اسرائیل کے سرحدی پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر درج ہے۔
شہید ڈاکٹر مصطفی ٰچمران نےجبل عامل لبنان کے یتیم، محروم اور مستضعف بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے "جبل عامل ٹیکنیکل اسکول" کا سنگ بنیاد رکھا۔جن بچوں کے والدین، اسرائیلی حملوں سے شہید ہو گئے تھے وہ یتیم 24 گھنٹے اسی اسکول میں ہی رہتے اور اسکول کی تمام سہولیات ان کو میسر تھیں۔یہاں بچوں کوٹیکنیکل موضوعات بڑھئی، لوہاری، ویلڈنگ، الیکٹرک،ایگریکلچرل مشین ٹھیک کرنے کے فنون سکھائے جاتے تھے، 4 سال بعد جب یہ بچے اس اسکول سے فارغ ہوتے تھے تو آرام سے اپنے گھر کا خرچہ چلا سکتے تھے۔آپ نے ہزاروں نوجوانوں کی معاشی، دینی ،عسکری ،اداری و تنظیمی تربیت کی اور جنوبی لبنان کے مستقبل کے لئے مضبوط بنیاد ڈالی۔
اسی اسکول کے اسٹوڈنٹ نے ایران کے شہر نیشابور میں طلباء کے ایک اجتماع میں چمران کے بارے میں کہا کہ : ’’چمران اس مدرسے میں اسلامی انسان کی ایک عملی تصویر تھے او رات کو سب سے آخر میں سوتے اور صبح سب سے پہلے بیدار ہوا کرتے تھے۔ وہ اس مدرسے کے شاگردوں کے برتن بھی خود دھوتے تھے اور 24 گھنٹے سخت اور دشوار حالت میں انہی یتیم اور محروم طلباء کے ساتھ رہتے تھےاور آج لبنان میں جو حزب اللہ کے صف ِاوّل کے مجاہدین نظر آتے ہیں وہ سب 20 سال پہلے شہید چمران کی تربیت کا عملی ثمرہ ہیں۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد چمران 23 سال بعد ایران واپس آئے تو آپ کا پہلا کام یہ تھا کہ آپ نےسپاہ پاسداران کے جوانوں کوعسکری ٹریننگ دی اور سپاہِ پاسداران کی عسکری تربیتی کمیٹی کےعہدیداروں کے رکن کےطور پر شامل ہو گئے۔1979 میں انقلاب اسلامی کی شوریٰ اور امام خمینی ؒ کے حکم سے وزیرِ دفاع کے عہدے پر فائز ہوئے اور فوج کے مختلف شعبہ جات کی اصلاح میں مشغول ہو گئے۔
آپ انقلاب اسلامی کی شوریٰ کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 1 ملین سے زائد ووٹوں سے تہران کے نمائندے منتخب ہوئے اور 1980 میں آپ کو امام خمینی ؒ کے حکم پر ولیِ فقیہ کے دفاع کی شورائے عالی کے مشاور اور نمائندے کے طور پر منتخب کیا گیا۔ایران عراق جنگ کے شروع میں آپ چند سپاہیوں کے ساتھ کردستان میں جنگ میں مصروف رہے اور بعد میں عوامی سپاہیوں کے دستوں کو منظم کرنے کے لئے اہواز چلے گئے۔
آپ اپنے تمام انقلابی اور علمی تجربات کو انقلاب کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ خاموشی سے، لیکن فعال طور پر اور فیصلہ کن طور پر، وہ سعد آباد میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے پہلے گروپوں کو تربیت دینے کے لیے اپنی تمام کوششیں تیار اور وقف کرتا ہے۔ اس کے بعد ڈپٹی پرائم منسٹر برائے انقلابی کی ملازمت میں، انہوں نے کردستان کے مسئلے کو زیادہ تیزی اور فیصلہ کن طریقے سے حل کرنے کے لیے دن رات اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیا، یہاں تک کہ پایو کے ناقابل فراموش معاملے میں، ایمان اور آہنی عزم کی طاقت، ہمت اور قربانی وہ سب پر ثابت ہے۔
مجلس
ڈاکٹر مصطفی چمران کو اسلامی کونسل کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں تہران کے عوام نے بطور نمائندہ منتخب کیا اور انہوں نے ماضی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے نئے انقلابی قوانین اور نظام خصوصاً فوج میں تشکیل دینے میں پوری کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔ فوج کو انقلابی نظام میں ڈھالنا اور اسلامی فوج کے قابل بننا۔ اسلامی کونسل میں عوامی نمائندے کے انتخاب کے بعد اپنی ایک دعا میں، انسان نے خدا کا شکر ادا کیا: خدا، لوگوں نے مجھ سے اتنی محبت کی اور مجھے اپنے فضل اور محبت کی بارش سے اس قدر بھر دیا کہ میں واقعی شرمندہ ہوں
اور میں۔ اپنے آپ کو اتنا چھوٹا سمجھتا ہوں کہ میں اسے سنبھال نہیں سکتا۔ خدا، مجھے موقع دے، مجھے یہ صلاحیت دے کہ میں اس سب کا مقابلہ کر سکوں اور اس محبت اور پیار کے لائق بن سکوں۔ اس کے بعد انہیں سپریم کونسل آف ڈیفنس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے نمائندے کے طور پر مقرر کیا گیا اور انہیں فوج کے کام کی باقاعدگی سے رپورٹنگ کرنے کا کام سونپا گیا۔
وزارت دفاع
ڈاکٹر چمران کو اس انوکھی فتح کے بعد تہران طلب کیا گیا اور رہبر انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) کی طرف سے وزارت دفاع میں تعینات کیا گیا۔ نئی پوسٹ میں، فوج کو ظالم نظام سے بدلنے کے لیے، انھوں نے وسیع بنیادی پروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس کا مقصد فوج کو صاف کرنا اور ایسے اصلاحاتی پروگراموں کو نافذ کرنا ہے، تاکہ اللہ کی مدد اور مدد سے۔ قوم، فوج انقلاب کی نگہبان اور ملک کی آزادی کی حفاظت کرے اور ہمارے مقدس اسلامی مشن کو اس کی منزل تک پہنچائے۔
خوزستان میں سرگرمیاں
خوزستان میں سرگرمیاں: اہواز میں کچھ رضاکار نوجواں آپ کے پاس آئے اور آپ نے ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے اس گروہ کو قوت بخشی جس کا نتیجہ اہواز میں رونما ہونے والی مختلف جنگوں میں سامنا آیا۔ اہواز میں آپ کی منجملہ سرگرمیوں میں ایک یہ تھی کہ آپ نے اپنی کاوشوں و محنتوں کے نتیجہ میں فوج، سپاہ اور عوام الناس کے درمیان ہم آہنگی ایجاد کی اور جنگ کو نئی ٹیکنیک سے ایک نیا رخ دیا جس کے بارے میں استعماری طاقتوں نے پہلے ہرگز نہیں سوچا تھا۔
شہادت کی تمنا
۳۱ خرداد ۱۳۶۰ ھجری شمسی میں دہلاویہ کے کمانڈر جناب ایرج رستمی شہید ہو گئے تو ان کی شہادت کی خبر سنتے ہی ڈاکٹر شہید چمران کو بہت بڑا صدمہ پہنچا۔ ڈاکٹر چمران نے اس غم و اندوہ کے عالم میں ایک اور کمانڈر کو بلایا اور دہلاویہ جانے کا حکم دیا جن کی تعییناتی پر ایک سپاہی نے نہایت خوبصورت لفظوں میں کہا کہ روز عاشورہ کی طرح امام حسین (ع) کے اصحاب کی طرح ایک ایک کر کے تمام سپاہی قربان ہو چکے ہیں اور اب وہ خود میدان میں جانے کی سوچ رہے ہیں۔
آخر کار ڈاکٹر مصطفیٰ چمران نے سب کو دہلاویہ کے قریب اکھٹا کیا اور ایرج رستمی کی شہادت پر سب کو تعزیت و تسلئت عرض کرنے کے بعد کہا: "خداوند متعال رستمی کو چاہتا تھا لہذا انہیں اپنے بارگاہ میں بلا لیا اور اگر وہ ہمیں بھی دوست رکھتا ہو تو ہمیں بھی بلائے گا۔ المختصر ایک وقت ایسا آیا کہ آپ نے سب سپاہیوں سے خدا حافظی کی اور دشمن کے سامنے فرنٹ لائن پر لڑنے چلے گئے۔
جنگ مسلسل جاری تھی اور اسی اثناء میں دشمن کی طرف سے ایک گولی آپ کے سر پر لگی گولی لگتے ہی سپاہیوں کے درمیان نالہ و شیون برپا ہو گیا اور آپ کو فوری طور پر ایک ہسپتال پہنچایا گیا جس کا نام بعد میں چمران رکھا گیا اس میں ابتدائی علاج کرنے کے بعد اہواز منتقل کرنا چاہا لیکن اہواز پہنچنے سے پہلے آپ کی روح پرواز کر گئی اور آپ شہید ہو گئے اور جس مالک حقیقی سے ملنے کی تمنا دل میں لئے ہوئے تھے اس سے جا ملے[1]۔
شہید چمران کی شہادت
ڈاکٹرچمران کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ایک رات مصطفٰی نے مجھ سے کہا: "میں کل شہیدہوجاؤں گا۔" میں سمجھی مذاق کررہے ہیں؛ میں نے کہا:کیاشہادت آپ کے ہاتھ میں ہے جوآپ اتنےیقین کے ساتھ کہہ رہےہیں ؟ کہا:"نہیں مگرمیں نے خداسے شہادت کی دعاکی ہے اورمیں جانتاہوں کہ خدا میری اس آرزوکوپوراکرے گا۔لیکن میں یہ بھی چاہتاہوں کہ تم راضی رہو۔میں کل یہاں سے چلاجاؤں گا،میں چاہتاہوں کہ تمہاری مکمل رضایت بھی میرے ساتھ رہے۔"
انہوں نے آخرکار مجھے راضی کرہی لیا مگرمجھے خودبھی پتہ نہیں کہ میں نے کیسے رضایت دے دی۔ صبح جب مصطفٰی محاذ کی طرف جانے لگے تومیں نے ہمیشہ کی طرح ان کی وردی اوراسلحہ تیارکرکے رکھااورراستے کے لئے پانی بھی دے دیا۔ آپ کی اہلیہ کابیان ہے۔
ٹھیک ظہرکے وقت فون کی گھنٹی بجی اورمجھےخبرملی کہ ڈاکٹرچمران زخمی ہوگئے ہیں۔ آپ کے ساتھی آکر مجھے اسپتال لے گئے میں جب اسپتال کےصحن میں داخل ہوئی تو سیدھا مردہ خانہ کی طرف بڑھی اس لئے کہ میں جانتی تھی کہ مصطفیٰ زخمی نہیں، بلکہ شہید ہوگئے ہیں جب میری نظر مصطفٰی کے جسم پرپڑی توزبان سےبےساختہ نکلا: اللھم تقبل مناھذاالقربان
(خدایاہماری اس قربانی کوقبول فرما) غادہ چمران
مصطفی چمران نے مئی 1360 میں سوسنجرڈ اور اللہ اکبر پہاڑیوں کی آزادی میں حصہ لیا۔ اللہ اکبر کی بلندیوں کو فتح کرنے کے بعد، شہید چمران نے فاسد جنگوں کے ہیڈ کوارٹر کے سپاہیوں کی مدد سے دہلویہ پر قبضہ کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور 31 جون 1360 کو سوسنگرد دہلویہ محاذ پر دشمن کے مارٹر گولے سے شہید ہو گئے۔ بہشت زہرا میں دفن کیا گیا۔ ڈاکٹر مصطفی چمران کی شہادت کے موقع پر امام خمینی نے 31 جون 1986 کو ایران، لبنان کے عوام اور شہید چمران کے خاندان کے نام ایک پیغام جاری کیا۔
امام خمینی (رہ) کا شہید چمران کی شہادت پر تعزیتی بیان
بسم اللہ الراحمٰن الرحیم
انّا للہ و انّا الیہ راجعون
میں اسلام کے مایہ نازکمانڈر،بیدارمجاہد،اورراہ کمال کے ساتھ عہد نبھانے والے ڈاکٹرمصطفٰی چمران کی انسان سازشہادت کی مناسبت سے حضرت ولی عصر(ارواحنافداہ)کی خدمت میں تسلیت ومبارک باد پیش کرتاہوں۔ تسلیت اس لحاظ سے کہ ہماری شہید پرور قوم نے ایک ایسے سپاہی کوکھو دیاہ ےکہ جس نے لبنان اورایران میں حق کی باطل کےساتھ معرکہ آرائی میں ایک انقلاب برپاکردیاتھا۔
اسلام ِعزیزاورحق کی باطل پرکامیابی اس کانصب العین تھاوہ پرہیزکارسپاہی اورذمہ داراستاد تھا اور ہمارے اسلامی ملک کواس کی اوراس جیسوں کی اشدضرورت تھی۔ مبارک باد اس لحاظ سے کہ عظیم اسلام ،مستضعف اقوام اور عوام کو ایسے فرزند پیش کرتارہتاہے اوراپنے دامنِ تربیت میں ان جیسے کمانڈروں کو پروان چڑھاتاہے؛کیاایسا نہیں کہ زندگی کادوسرا نام عقیدہ اور اُس عقیدے کی راہ میں جہادہے؟
چمرانِ عزیزنے پاک وخالص عقیدے کےساتھ سیاسی دستوں اور پارٹیوں سے غیروابستہ رہ کر،عظیم خدائی ہدف پراعتقادرکھتے ہوئے ابتدائےزندگی سے ہی خداکی راہ میں جہادشروع کردیاتھااورزندگی کااختتام بھی اسی پرکیا۔
میں اس نقصان کی ایران اور لبنان کی شریف قوم ، بلکہ ساری مسلم اقوام، مسلح دستوں ، راہ حق کے مجاہدوں ، اس عزیز مجاہد کے گھروالوں اور بھائی کی خدمت میں تسلیت عرض کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اُن کےلئے رحمت اوراُن کے اہلِ خانہ کےلئے صبر و اجر کا طلبکار ہوں۔
روح اللہ الموسوی الخمینی[2]۔
ڈاکٹر چمران کی شہادت کی برسی پر رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام
عظیم مفکر و مجاہد اور سیاستداں شہید ڈاکٹر مصطفی چمران کے یوم شہادت 31 خرداد مطابق 21 جون اور اسی دن منائے جانے والے 'بسیجی' (رضاکار) اساتذہ کے قومی دن کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا اور کچھ ہدایات دیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حسب ذیل ہے؛
یونیورسٹیوں کے رضاکار پروفیسروں اور رضاکار پروفیسروں کے قومی دن پر ان کے اجتماع پر درود سلام بھیجتا ہوں اور مجاہد دانشور شہید مصطفی چمران اور یونیورسٹیوں کے دوسرے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ملک کی یونیورسٹیوں پر ذمہ دار، دیندار اور مجاہد اساتذہ کا مبارک سایہ، اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک اور ایرانی قوم کی سرفرازی اور اس کے تابناک مستقبل کی نوید ہے۔
آپ کا سودمند اور پیشرفتہ علم، چاہے وہ اسٹریٹیجک اور بنیادی مسائل میں ہو یا پریکٹیکل مسائل میں ہو، ملک کی فوری اور حتمی ضرورت ہے۔ رضاکار استاد کا کام، صرف پڑھانا نہیں ہے، علمی و سائنسی پیشرفت، نئی ایجادات، علم کی ماہیت اور اخلاق و نفسیاتی تربیت، نئي علمی کاوشوں کو عام کرنا، اجتہاد، علم کی پیداوار کے لیے کوشش کرنا اور اسی طرح کی دوسری ذمہ داریاں بھی، استاد کے فرائض میں شامل ہیں اور آپ عزیز رضاکار ان تمام میدانوں میں علمبردار اور سب سے آگے ہو سکتے ہیں۔
خداوند متعال سے آپ کی توفیقات میں اضافے کی دعا کرتا ہوں۔ سید علی خامنہ ای 20 جون 2022[3]۔
حوالہ جات
- ↑ شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کی زندگی پر طائرانہ نظر- 20 جولائی 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 جنوری 2025ء
- ↑ مجاہدِ اسلام شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران- اخذ شدہ از: 13 جنوری 2025ء۔
- ↑ ڈاکٹر چمران کی شہادت کی برسی پر رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام- شائع شدہ از: 21 جولائی 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 جنوری 2025ء۔