ثائر حماد
ثائر حماد | |
---|---|
![]() | |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1980 ء، 1358 ش، 1399 ق |
پیدائش کی جگہ | رام اللہ فلسطین |
مذہب | اسلام، سنی |
اثرات |
|
ثائر حماد، فلسطینی سنائپر جس نے ایک ہی کاروائی میں 17 صیہونی فوجیوں کو نشانہ بنایا۔ فلسطینی اسیر ثائر حماد جو باضابطہ فوجی تربیت یافتہ نہیں تھے اس کے باوجود گھات لگا کر حملہ کرکے 11 صیہونی فوجیوں کو ہلاک اور 6 کو زخمی کردیا۔ غاصب صہیونی حکومت کے خلاف فلسطینیوں کی جدوجہد کی تاریخ پرانی ہے۔ اس راہ میں زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں نے قربانیاں دیں۔ کچھ مجاہدین نے قید میں اپنی پوری عمر گزاری لیکن مسئلہ فلسطین پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان افراد میں سے ایک "ثائر کاید قدورہ حماد" ہے جو حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے نتیجے میں جیل سے رہا ہوگئے ہیں۔ ثائر اسرائیل مخالف کارروائیوں کی وجہ سے 11 بار عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔
سوانح عمری
ثائر حماد جولائی 1980ء میں رام اللہ کے شمال میں واقع قصبے سلواد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سابق طویل عرصے تک اسرائیلی جیلوں میں قید رہے جبکہ چچا نبیل صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے تھے۔ ثائر کے بھائی بھی فلسطینی مزاحمتی تحریک کا حصہ ہیں[1]۔
تعلیم
ثائر حماد نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی۔ دسویں جماعت کے بعد تعلیمی سلسلہ ترک کرکے کام کاج میں لگ گئے۔ وہ ایک تعمیراتی ورکشاپ میں مزدوری کرتے رہے۔ اسرائیلی جیل میں قید کے دوران انہوں نے خفیہ طور پر ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا اور پھر القدس اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لے کر سوشل سروسز میں بیچلرز کی ڈگری مکمل کی۔
تحریک میں شرکت
ثائر حماد بچپن سے فلسطینی تحریک کا حصہ رہے۔ نوجوانی میں صہیونی قبضے کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں شرکت کی۔ ان کا خاندان طویل عرصے سے اسرائیلی مظالم، گرفتاریوں اور تشدد کا شکار رہا ہے اس کے باوجود یہ خاندان فلسطینی مزاحمت میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔
نظریات اور عقیدہ
الفتح تحریک کے رکن ہونے کے باوجود وہ مسلح مزاحمت کے سخت حامی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انقلاب ہر اس شخص کا راستہ ہے جو ظلم کا سامنا کررہا ہو اور کوئی بھی وجہ مزاحمت سے دستبرداری کا جواز نہیں بن سکتی۔ وہ 2007ء میں محمود عباس کے حکم پر الاقصی بریگیڈ کے خاتمے کے شدید مخالف تھے۔ ان کے مطابق فلسطینی آزادی کا راستہ مذاکرات اور مزاحمت دونوں سے ہوکر گزرتا ہے۔
ان کا عقیدہ ہے کہ صرف سفارتی کوششیں کافی نہیں، بلکہ مسئلہ فلسطین کے حق میں منظور ہونے والی اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد تبھی ممکن ہے جب فلسطینی عوام کے پاس زمینی سطح پر طاقت ہو اور وہ قابض صہیونیوں پر دباؤ ڈال سکیں۔ ثائر حماد کا ماننا ہے کہ فلسطینی گروہوں کے درمیان قومی اتحاد ہی اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کی اصل بنیاد ہے۔ ان کے مطابق داخلی تقسیم ختم ہونی چاہیے اور فلسطینیوں کو ایک مشترکہ سیاسی حکمتِ عملی پر متفق ہوکر قابض صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
جہادی سرگرمیاں
ثائر حماد نے 1987 میں پہلی انتفاضہ کے دوران اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ چچا نبیل کی شہادت نے ان کے دل میں اسرائیلیوں کے خلاف شدید غصہ اور مزاحمت کا جذبہ بھڑکا دیا۔ صیہونی فوجیوں نے ان کے چچا کو پہلے پہاڑ سے دھکا دیا، جس سے ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں پھر تین گولیاں مار کر شہید کردیا۔ محض 11 سال کی عمر میں اپنے چچا کی تدفین کے دوران انہوں نے فلسطینی پرچم بلند کیا اور احتجاجی مظاہروں میں سرگرم ہوگئے۔ ثائر بچپن سے ہی قابض فوجیوں پر پتھر پھینکنے کی مزاحمتی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔
ثائر نے کوئی باضابطہ فوجی تربیت حاصل نہیں کی بلکہ ان کے دادا نے انہیں اسنائپنگ سکھائی۔ ان کے دادا اردنی فوج میں ماہر نشانہ باز تھے اور ایک خاص رائفل رکھتے تھے۔ 1990 کی دہائی کے وسط میں ثائر کو اس ہتھیار کے استعمال کی تربیت دی، جس کے بعد وہ ایک ماہر اور نشانہ باز بن گئے۔ اپنی مزاحمتی سرگرمیوں کے دوران انہوں نے 17 صیہونی فوجیوں کو نشانہ بنایا جو فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے۔
غیر معمولی کارروائی
جوانی میں ثائر حماد نے رقم جمع کرکے 1800 ڈالر میں ایک پرانی رائفل خریدی جو دوسری عالمی جنگ اور ویتنام جنگ میں استعمال ہوچکی تھی اور اس کے ساتھ 350 گولیاں تھیں۔ ثائر نے اس پرانی رائفل سے نشانہ بازی کی مشق اپنے گاؤں کے آس پاس کی پہاڑیوں اور میدانوں میں کی۔ یہی وہ ہتھیار تھا جو انہوں نے دوسری انتفاضہ کے دوران اسرائیلی فوج کے خلاف اپنی تاریخی کارروائی میں استعمال کیا۔
صہیونی چیک پوسٹ پر کامیاب حملہ
ثائر نے 3 مارچ 2002ء کو غرب اردن کے قصبے سلواد کے قریب واقع صہیونی چیک پوسٹ پر کامیاب حملہ کیا۔ انہوں نے 4 دن تک اسرائیلی چیک پوسٹ کا بغور مشاہدہ کیا اور صبح کی شفٹ کی تبدیلی کے وقت حملہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس وقت فوجی انتہائی تھکے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ وہ خود مکمل طور پر تیار تھے۔ فجر کی نماز کے بعد وہ 60 میٹر دور ایک پہاڑی پر پہنچے جہاں سے چیک پوسٹ مکمل نظر آتا تھا۔
انہوں نے اپنی رائفل کو ایک زیتون کے درخت پر نصب کیا تاکہ فوجیوں کی نظر سے پوشیدہ رہے۔ جیسے ہی کارروائی شروع ہوئی، انہوں نے دشمن فوجیوں کو ایک ایک کرکے نشانہ بنایا اور انہیں ہلاک کردیا۔ یہ غیر معمولی کارروائی فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں ایک اہم باب ہے، جس نے اسرائیلی فوج پر کاری ضرب لگائی اور انہیں حقیقی خوف میں مبتلا کردیا۔ ثائر حماد نے اس حملے میں 11 صیہونی فوجیوں کو ہلاک اور 6 کو زخمی کیا۔
تاہم فائرنگ کے دوران ان کی رائفل خراب ہوگئی اور وہ اسے ٹھیک نہ کرسکے۔ اس کے بعد کامیابی سے وہاں سے نکل گئے۔ اس حملے کے بعد بڑے پیمانے پر چھاپے مارے گئے اور بہت سے دیہاتیوں کو گرفتار کیا گیا جن میں ثائر حماد بھی شامل تھے۔ اسرائیلیوں کو یقین تھا کہ حملہ کسی بڑی عمر کے شخص نے کیا ہوگا کیونکہ یہ ایک پرانی رائفل سے کیا گیا تھا۔ ڈھائی سال تک قابض فوج ثائر کی شناخت نہ کرسکی۔
اکتوبر 2004 میں اسرائیلی فوج نے ان کے گھر پر حملہ کیا اور انہیں تین بھائیوں سمیت گرفتار کرلیا۔ 75 دن کی تفتیش اور تشدد کے بعد ان کی انگلیوں کے نشانات ہتھیار پر موجود نشانات سے مل گئے۔ اسرائیلی عدالت نے انہیں 11 بار عمر قید کی سزا سنائی۔ ثائر حماد کو اسرائیل کی ای شل جیل میں رکھا گیا، جہاں ان کا فتح تحریک کے رہنما مروان برغوثی سے قریبی رابطہ قائم ہوا۔ برغوثی نے انہیں شہداء الاقصی بریگیڈ کے امیر کا لقب دیا، جو فلسطینی مزاحمت میں ان کے مقام اور بہادری کی علامت ہے۔
قید تنہائی اور شکنجہ
ثائر حماد کو اسرائیلی حکومت نے ایک خطرناک قیدی قرار دیتے ہوئے قید تنہائی میں ڈالا۔ ان پر مختلف قسم کے مظالم کیے گئے جن میں سخت نگرانی، بار بار تلاشی اور مختلف جیلوں میں منتقلی شامل تھی۔ انہیں جسمانی اور ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جس میں مار پیٹ، قید تنہائی، رات کے وقت اچانک تلاشی اور ذہنی دباؤ شامل تھے۔ ان پر اپنے خاندان سے ملاقات پر پابندیاں لگائی گئیں اور طبی سہولتوں سے بھی محروم رکھا گیا۔ ان کی کمر میں شدید درد تھا اور آنکھوں کو سرجری کی ضرورت تھی اس کے باوجود اسرائیلی حکام نے علاج کی اجازت نہیں دی۔
زندان میں کتابوں کی تالیف
ثائر نے قید کے دوران علمی اور فکری سرگرمیوں میں وقت گزار کر اپنے غموں اور دکھوں کا علاج دریافت کیا۔ وہ باقاعدگی سے ورزش کرتے تھے اور اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے فلسطینی تاریخ پر تحقیق کرتے تھے۔
ثائر نے زندان میں تین کتابیں لکھیں۔ انہوں نے ایک کتاب میں اپنی زندگی اور فلسطینی قیدیوں کی کہانیاں بیان کیں۔ دوسری میں عیون الحرامیہ کے حملے کی تفصیلات شامل تھیں جبکہ تیسری کتاب میں فلسطینی مزاحمت اور قید کی زندگی کو موضوع بنایا[2]۔
عیون الحرامیہ آپریشن کیا ہے
اس کا تعلق کسی بھی گروہ سے نہیں ہے اور وہ عالمی جنگ سے بندوق استعمال کرتا ہے . غزہ کی پٹی پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران ، جو 7 اکتوبر کو طوفان الاقصی آپریشن کے بعد ، بہت سے فلسطینی نام جو اپنے بہادر اقدامات کے ساتھ تاریخ میں داخل ہوئے تھے ، ان میں ایک قیدی ثائر حماد شامل تھے۔
حماد نے قابض اسرائیلی کی جیلوں میں 20 سال گزارے ، اس پر الزام لگایا تھا کہ اس نے 11 اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور 6 دیگر زخمی فوجوں کو زحمی کر دیا ہے۔ جن میں مقبوضہ مغربی کنارے میں وادی الحرامیہ کے علاقے میں رام اللہ اور نابلس کے شہروں کے درمیان 3 سنگین مقدمات بھی شامل ہیں۔ اس نے اپنے غیر معمولی عمل کے نفاذ کے بارے میں جو کردار ادا کیا جس کی وجہ سے فلسطینی اور عرب میڈیا منظر میں ہلچل مچا دیا۔ اس حادثہ کی اہمیت کے باوجود ، اسرائیلی میڈیا نے اس فلسطینی نوجوانوں کی طرف سے تیار کی گئی ذلت آمیز شکست سے بچنے کے لئے اس کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا ، جس نے اپنی فوج کو ایک پرانی شکار رائفل کا استعمال کرتے ہوئے شکست دی۔
جو اس مقصد کے لئے بمشکل کافی ہے جو ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس کے لئے اس جوانی میں ، اس انقلابی نے فلسطینی مزاحمتی ریکارڈ میں ایک نئی تبدیلی لائی۔ اگرچہ اسرائیلی میڈیا نے اس واقعہ کو نظرانداز کیا ہے ، لیکن اس نے فلسطینی اور عرب میڈیا میں ایک بہت بڑا سایہ ڈالا ، کیونکہ یہ قابض اسرائیل کے مقابلہ میں ہمت اور چیلنج کی علامت بن گیا[3]۔
آپریشن کی تفصیلات
3 مارچ ، 2002ء کو ، ثائر عماد نے "عیون الحرامیہ" پر رام اللہ اور نابلس کے شہروں کے درمیان ایک غیر معمولی آپریشن کیا۔ اس نے اس کاروائی کا آغاز مذہبی اور دینی تیاریوں سے کیا تھا ، جب اس نے فجر کی نماز انجام دینے اور قرآن کو اٹھانے کے لئے وضو کی۔ عماد نے فلسطینی میڈیا کی ویب سائٹ کو بتایا ، اس نے ایک فوجی وردی پہنی تھی اور اس نے پرانی امریکی ایم ون رائفل کو اٹھایا تھا ، جو پہلی جنگ عظیم کا تھا اور اس کو 70 گولیوں سے آراستہ تھا۔
ثائر عیون الحرامیہ کے پہاڑ کی طرف نکلا۔ جہاں اس نے اسرائیلی فوجی رکاوٹ کو دیکھ کر دو گھنٹے گزارے ، تقریبا 120 میٹر دور۔ صبح 6 بجے ، اس کا حیرت انگیز حملہ شروع ہوا ، جس میں 11 اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کردیا گیا اور 9 دیگر افراد کو گولی مار کر زحمی کردیا گیا۔ گولیاں ختم ہونے کے بعد ، اس نے دو آباد کاروں کے ساتھ ایک سویلین کا انتظار کیا اور ان کے سروں پر دو گولیاں چلائیں۔
اس کے بعد اس نے اسرائیلی فوجیوں اور دوسرے آباد کاروں کا تصادفی طور پر سامنا کیا ، ان میں سے متعدد کو ختم کیا اور اس نے خود کو پہاڑ سے پھینک دیا۔ بارود کو استعمال کرنے بعد اور آپریشن کے اختتام کے بعد ، حماد اس علاقہ سے بھاگ گیا ، ناہموار درخت اور خطے نے اسے فرار ہونے میں مدد فراہم کی۔ دن کے اختتام پر ، اس آپریشن کا نتیجہ 11 ہلاک اور 9 زخمی ہوئے ، اور حماد نے اپنے ساتھ 26 گولیاں لگائیں۔
یہ عمل اسرائیلی فوج پر ایک انقلابی کاروائی تھا جس نے فلسطینیوں کو اپنے شہروں اور دیہاتوں تک پہنچنے سے توہین ، ظلم و ستم اور ذلیل کیا اور ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ، لہذا یہ عمل اس رکاوٹ کا بدلہ لینا تھا ، اور اس عمل کے بعد ، سیٹم کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔
تحقیق اور حراست
آپریشن کے نتیجے میں ، اسرائیلی کی افواج نے سلواد شہر کے آس پاس سیکیورٹی کورڈن نافذ کیا ، اور ممکنہ مجرموں کو حملہ کرنے کے لئے تلاش کرنے کے مقصد کے ساتھ ایک گہری کنگھی مہم چلائی۔ اس مہم کے دوران ، حماد کو گرفتار کیا گیا ، یہ سمجھا ہوا بندرگاہ ، جہاں اسرائیلی امداد کو سوشل میڈیا کی آنکھوں کے بعد گرفتار کرنے سے پہلے تین دن کے لئے اسے حراست میں لیا گیا تھا۔
اسرائیلی سیکیورٹی خدمات کے ذریعہ کی جانے والی دو سال کی تحقیق اور تفتیش کے بعد ، ثائر حماد کو 2 اکتوبر 2004 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ رام اللہ کے شمال میں ، سلواد شہر سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان ہے۔ اس کا مقدمہ عوفر میں فوجی عدالت کے روبرو کیا گیا ، جہاں سیشن 30 سیشن تک جاری رہے۔ مقدمے کی سماعت کے اختتام پر ، عدالت نے حماد کے انقلاب کے لئے 11 وقت کی عمر قید کی سزا جاری کی ، اور اسے ایشیل سنٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔ انہیں محکمہ موصلیت نمبر 4 میں رکھا گیا تھا ، جہاں اس کی ملاقات مروان البرغوتی سے ہوئی ، جسے العقسا شہدا کے بریگیڈ کا امیر کہا جاتا تھا[[4]۔
حوالہ جات
- ↑ الأسير ثائر حمّاد "قناص عيون الحرامية" المحكوم بـ11 مؤبدا-شائع شدہ از: 30 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20فروری 2025ء۔
- ↑ "ثائر حماد"، فلسطینی سنائپر جس نے ایک ہی کاروائی میں 17 صیہونی فوجیوں کو نشانہ بنایا- شائع شدہ از: 18 فروری 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ 20 فروری 2025ء۔
- ↑ لا ينتمي لأي فصيل واستخدم بندقية من الحرب العالمية.. من هو “ثائر حماد” الذي نفذ عملية عيون الحرامية؟(اس کا تعلق کسی بھی گروہ سے نہیں ہے اور وہ عالمی جنگ سے بندوق استعمال کرتا ہے)- شائع شدہ از: 22 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:24 فروری 2025ء۔
- ↑ لا ينتمي لأي فصيل واستخدم بندقية من الحرب العالمية.. من هو “ثائر حماد” الذي نفذ عملية عيون الحرامية؟(اس کا تعلق کسی بھی گروہ سے نہیں ہے اور وہ عالمی جنگ سے بندوق استعمال کرتا ہے)- شائع شدہ از: 22 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:24 فروری 2025ء۔