مندرجات کا رخ کریں

اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی

ویکی‌وحدت سے

ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان مکمل اور جامع جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ جنگ بندی تقریباً 6 گھنٹے بعد، جب دونوں فریق اپنی حتمی کارروائیاں مکمل کر لیں گے، شروع ہوگی۔ یہ 12 گھنٹے جاری رہے گی اور اس کے بعد جنگ کا باضابطہ اختتام عالمی سطح پر جشن کے طور پر منایا جائے گا۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ جنگ بندی کی ابتدا ایران کرے گا اور 12 گھنٹے بعد اسرائیل بھی جنگ بندی پر عمل کرے گا۔ ٹرمپ نے اس موقع پر ایران اور اسرائیل کی "بردباری، بہادری اور حکمت" پر بھی تعریف کی

ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک متنازعہ بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان مکمل اور جامع جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ جنگ بندی تقریباً 6 گھنٹے بعد، جب دونوں فریق اپنی حتمی کارروائیاں مکمل کر لیں گے، شروع ہوگی۔ یہ 12 گھنٹے جاری رہے گی اور اس کے بعد جنگ کا باضابطہ اختتام عالمی سطح پر جشن کے طور پر منایا جائے گا۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ جنگ بندی کی ابتدا ایران کرے گا اور 12 گھنٹے بعد اسرائیل بھی جنگ بندی پر عمل کرے گا۔ ٹرمپ نے اس موقع پر ایران اور اسرائیل کی "بردباری، بہادری اور حکمت" پر بھی تعریف کی۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ جنگ سالوں تک جاری رہ سکتی تھی اور پورے مشرق وسطیٰ کو تباہ کر سکتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ بیان کے آخر میں ٹرمپ نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ خدا ایران کی حفاظت کرے، اسرائیل کی حفاظت کرے، مشرق وسطیٰ کو سلامت رکھے، امریکہ پر رحم کرے اور پوری دنیا کو برکت دے۔

دوسری جانب ٹرمپ کے نائب جی ڈی ونس نے بھی دعویٰ کیا کہ "کل ایک نیا دن ہوگا — جنگ کے خاتمے کا دن۔ ایرانی ذرائع نے ٹرمپ کے اس دعوے کو "جھوٹ اور پروپیگنڈا" قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کسی قسم کی جنگ بندی پر کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ "حقیقی امن صرف جارحیت ختم ہونے اور قابضین کی پسپائی سے ممکن ہے۔

ایران کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے امریکی چینل سی این این سے گفتگو میں واضح کیا ہے کہ تہران کو کسی قسم کی جنگ بندی کی پیشکش موصول نہیں ہوئی۔ ایرانی عہدیدار نے مزید کہا کہ ایران اس وقت تک جنگ جاری رکھے گا جب تک پائیدار اور حقیقی امن قائم نہ ہو جائے۔ اسرائیل اور امریکہ کے بیانات محض فریب ہیں تاکہ ایران پر جاری حملوں کو جواز فراہم کر سکیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اس وقت دشمن ایران پر حملہ آور ہے اور ایران اپنے جوابی حملے مزید شدت کے ساتھ جاری رکھنے والا ہے۔ ایرانی حکام کے مطابق حقیقی امن صرف دشمن کی جارحیت کے مکمل خاتمے اور ایرانی خودمختاری کے احترام سے ہی ممکن ہے[1]۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی

جنگ بندی سے پہلے ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ، تل ابیب زوردار دھماکوں سے لرز اٹھا

جنگ بندی کا آغاز ہونے سے پہلے ایران کی جانب سے اسرائیل پر شدید میزائل حملوں میں تل ابیب سمیت کئی شہروں میں زور دار دھماکے ہوئے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر میزائلوں کا شدید حملہ کیا گیا ہے جو کامیابی سے اپنے پہلے سے طے شدہ اہداف پر جالگے۔

تفصیلات کے مطابق، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے صہیونی حکومت کی جانب سے کی جانے والی حالیہ جارحیت کے جواب میں مقبوضہ علاقوں کی جانب میزائل داغے، جو دشمن کے دفاعی حصار کو عبور کر کے اپنے اہداف پر کامیابی سے جا گرے۔ دوسری جانب قابض صہیونی افواج نے دعوی کیا ہے کہ ایران کی طرف سے آج میزائل حملے کی چھٹی لہر بھی شروع کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ایران نے جنگ بندی کے آغاز سے تقریباً ایک گھنٹہ قبل کئی مرحلوں پ مشتمل حملے میں 20 میزائل داغے۔ مقبوضہ علاقوں کا روزمرہ منظر، الجلیل، نہاریا اور بئر السبع میں میزائل گرنے کی اطلاعات

صہیونی ریڈیو نے اطلاع دی ہے کہ ایران کے میزائل حملوں کے نتیجے میں بئر السبع میں سینکڑوں میٹر کے دائرے میں تباہی پھیل چکی ہے، جہاں کئی عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں۔ عبرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران نے ان حملوں میں ایسے وزنی بیلسٹک میزائل استعمال کیے ہیں جو اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں کیے گئے تھے۔ یہ ایک نیا اور سنگین حملہ تھا۔

اسی دوران، صہیونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ میزائل حملے کی پانچویں لہر کے دوران حیفا اور شمالی علاقوں میں سائرن بجائے گئے ہیں، اور پورا شمالی اسرائیل ممکنہ میزائل حملوں کی زد میں ہے۔

تل ابیب اور نقب میں زوردار دھماکے؛ بئر السبع میں جانی نقصان کی اطلاع

عبرانی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے میزائل حملوں کے نتیجے میں بئر السبع کی ایک عمارت پر میزائل گرنے سے کم از کم ایک شخص ہلاک اور چھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسی دوران تل ابیب اور جنوبی علاقے النقب میں بھی متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں، تاہم فوری طور پر نقصان کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ صہیونی چینل 12 نے کہا ہے کہ اسرائیلی طیارے تقریباً ایک گھنٹے سے فضاء میں چکر لگا رہے ہیں لیکن انہیں لینڈنگ کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ یہ صورتحال خطے میں کشیدگی اور حفاظتی اقدامات کے عروج کی علامت ہے[2]۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی عمل درآمد کے مرحلے میں داخل

ذرائع کے مطابق ایران اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی عملی میدان میں داخل ہوگئی ہے۔ ذرائع نے کہا ہے کہ ایران اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی اب عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اس سے پہلے ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا تھا "ہماری طاقتور مسلح افواج کی جانب سے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کارروائیاں آخری لمحے یعنی صبح 4 بجے تک جاری رہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں تمام ایرانیوں کے ساتھ مل کر اپنی بہادر مسلح افواج کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو اپنے خون کے آخری قطرے تک وطن عزیز کا دفاع کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں، اور انہوں نے دشمن کے ہر حملے کا آخری لمحے تک جواب دیا۔ ایک اور پوسٹ میں عراقچی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر ردعمل دیا جس میں جنگ بندی کی بات کی گئی تھی۔ انہوں نے لکھا کہ جیسا کہ ایران بارہا واضح کر چکا ہے کہ اس جنگ کو ایران نے نہیں بلکہ اسرائیل نے شروع کیا ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فی الوقت جنگ بندی یا فوجی کارروائیوں کے خاتمے پر کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔ تاہم اگر صہیونی حکومت صبح 4 بجے تک ایرانی عوام کے خلاف اپنی غیر قانونی جارحیت ختم کر دیتی ہے، تو ایران بھی جواب کاروائی جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔" عراقچی اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہماری فوجی کارروائیوں کے مکمل خاتمے کا حتمی فیصلہ بعد میں کیا جائے گا[3]۔

رد عمل

ایران

صہیونی جارحیت کو پشیمانی میں بدل دیا، مسلح افواج مزید جواب دینے کے لیے تیار ہیں ایران۔ ایران نے کہا ہے کہ 12 روزہ مزاحمت، قیادت کی حکمت عملی اور عوامی اتحاد کے سہارے دشمن کو پشیمانی پر مجبور کیا، افواج اب بھی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کو تیار ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی قومی سلامتی کونسل نے صہیونی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے حوالے سے بیان میں کہا ہے کہ صہیونی حکومت کی جارحیت کے جواب میں، اسلامی جمہوری ایران کی مسلح افواج کے دلیر اور جانثار جوانوں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے فرمان پر لبیک کہا اور بے مثال شجاعت کے ساتھ دشمن کی ہر شرارت کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان کارروائیوں کا نقطۂ عروج امریکی اڈے "العدید" پر حملہ اور اس کے بعد مقبوضہ علاقوں پر وسیع پیمانے پر میزائل حملے تھے۔

ایرانی عوام کی ہوشیاری، بروقت بصیرت، بے مثال مزاحمت، اتحاد اور ہم دلی نے دشمن کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا۔ اس کے نتیجے میں مسلح افواج کو برسوں کی مسلسل مجاہدت سے حاصل ہونے والی طاقت کو مؤثر انداز میں استعمال کرنے کا موقع میسر آیا اور مسلح افواج نے جارحیت کا بروقت اور موزوں جواب دیا۔

اس حکیمانہ قیادت، مسلح افواج کی تدبیر اور قوم کی بیداری کا نتیجہ خدائی نصرت اور فتح کی صورت میں ظاہر ہوا، جس نے دشمن کو پشیمانی، شکست تسلیم کرنے اور اپنی یکطرفہ جارحیت روکنے پر مجبور کردیا۔

اسی بنیاد پر عظیم اور مجاہد ایرانی قوم کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج دشمن کے بیانات پر رتی برابر اعتماد کیے بغیر، پوری طرح چوکنا اور تیار ہیں؛ ہمارے ہاتھ ٹریگر پر ہیں اور کسی بھی جارحانہ اقدام پر فیصلہ کن اور پشیمان کن جواب کے لیے پوری تیاری میں ہیں[4]۔

اسرائیل

ایران نے جنگ بندی کے لیے شرائط اور وقت کا تعین کیا، صہیونی جنرل۔ صہیونی فوجی جنرل نے اعتراف کیا ہے کہ ایران نے جنگ کے علاوہ سفارتی اور سیاسی میدان میں بھی برتری دکھائی۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، المیادین نے اسرائیلی ریزرو فوج کے جنرل یوم سامیا کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ ایران ہی ہے جس نے حالات پر قابو پایا اور جنگ بندی کے لئے شرائط اور وقت کا تعین کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے صرف چند سال کی خاموشی خریدی ہے۔ وہ بھی بہت بڑی قیمت، درد اور آئندہ نسلوں کی اذیت کے بدلے میں۔ یہ بیان اس بات کا واضح اعتراف ہے کہ حالیہ کشیدگی کے دوران ایران نے نہ صرف میدان جنگ میں برتری دکھائی بلکہ سفارتی اور اسٹریٹجک لحاظ سے بھی بالا دستی حاصل کی[5]۔

نتن یاہو باقاعدہ طور پر جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہوگئے

صہیونی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق نتن یاہو نے باضابطہ طور پر ایران کے ساتھ جنگ بندی سے اتفاق کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنیامین نتانیاہو نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل نے امریکہ کے صدر کی جانب سے پیش کردہ ایران کے ساتھ جنگ بندی کی تجویز پر باضابطہ طور پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خود اسرائیل نے ایران کے خلاف فریبکارانہ اور وحشیانہ حملے شروع کیے تھے اور یہ 12 روزہ جنگ ملت ایران پر مسلط کی گئی۔ نتانیاہو نے اپنی روایتی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے ایران کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو تباہ کرنے میں اپنے اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ یہ دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا جب خود اسرائیلی سابق عہدیدار اور ماہرین، جیسے سابق وزیر جنگ آویگدور لیبرمین، نے اسرائیل کی اس جنگ کے انجام کو تلخ اور شرمناک شکست قرار دیا ہے[6]۔

آج کی صبح انتہائی تلخ اور ناگوار گزری، صہیونی وزیر

آج کی صبح انتہائی تلخ اور ناگوار گزری، صہیونی وزیر ایرانی میزائل حملوں کے بعد تباہی پر صہیونی وزیر نے کہا ہے کہ آج کی صبح اسرائیل کے لئے نہایت تلخ اور ناگوار ثابت ہوئی۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سپاہ پاسداران انقلاب کے تازہ میزائل حملوں کے بعد تل ابیب اور بئر السبع سمیت دیگر شہروں میں تباہی کے مناظر سامنے آئے ہیں۔ ایرانی میزائل حملوں اور ان کے نتیجے میں مقبوضہ علاقوں میں وسیع تباہی کے بعد انتہاپسند اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل اسموتریچ نے اعتراف کیا ہے کہ بلاشبہ آج کی صبح اسرائیلیوں کے لیے انتہائی تلخ ثابت ہوئی۔ دوسری جانب عرب مبصر نے کہا ہے کہ ایران نے جنگ بندی سے پہلے آخری اور شدید وار کرنے پر اصرار کیا تھا[7]۔

ایران اب بھی قائم و دائم اور ہمیں نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، صہیونی رکن پارلیمنٹ

ایران اب بھی قائم و دائم اور ہمیں نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، صہیونی رکن پارلیمنٹ صہیونی پارلیمنٹ کے نمائندے عمیت ہالیوی نے کہا ہے کہ یہ کہنا پڑے گا کہ ایرانی نظام اب بھی پوری طرح قائم ہے۔ تہران کے پاس اب بھی بے شمار میزائلوں کا ذخیرہ ہے اور ہمیں نشانہ بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ "عمیت ہالیوی" جو کہ صیہونی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کے رکن ہیں، نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا ضروری ہے کہ ایرانی نظام بدستور قائم ہے اور ایران کے پاس اب بھی بڑی تعداد میں میزائل موجود ہیں، جو ہمیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔

ادھر اسرائیلی ٹی وی چینل نیٹ ورک 12 نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل میں کی جانے والی تازہ ترین تجزیاتی رپورٹس کے مطابق ایران نے ابھی تک اپنے تمام دور مار اور خطرناک ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ایران کے پاس ایسے بھاری میزائل موجود ہیں جو ایک ٹن سے زائد بارودی مواد لے جا سکتے ہیں، اور کروز میزائل بھی اس کے پاس ہیں جن کا سراغ لگانا اور روکنا انتہائی مشکل ہے[8]۔

جنگ کا ہدف ایران کو جھکانا تھا جو حاصل نہ ہوسکا، عرب مبصر

عرب مبصر نے کہا ہے کہ امریکہ اور صہیونی حکومت جنگ کے ذریعے ایران کو جھکنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے لیکن ناکام رہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مشرق وسطی کے امور کے تجزیہ کار اور مبصر خلیل نصراللہ ایران اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران آخری وار کرنے پر تاکید کررہا تھا۔ ایران نے اسی سلسلے میں آج صبح شدید ترین حملے کیے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ جنگ کو شروع کرنے کا مقصد ایران کو امریکہ اور اسرائیل کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنا تھا لیکن یہ منصوبہ بری طرح ناکام رہا۔ نصراللہ نے واضح کیا کہ جنگ ظاہری طور پر ختم ہوگئی لیکن مقابلہ جاری رہے گا[9]۔

ایرانی وزیر خارجہ

آخری دم تک دشمن سے لڑنے پر مسلح افواج کا شکریہ، ایرانی وزیر خارجہ۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایرانی مسلح افواج کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے آخری دم تک دشمن کا مقابلہ کیا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایرانی مسلح افواج کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے دشمن کے مقابلے میں آخری دم تک استقامت کا مظاہرہ کیا۔

ایکس پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ہماری بہادر مسلح افواج نے صہیونی حکومت کو سزا دینے کے لیے صبح 4 بجے تک اپنی کاروائیاں جاری رکھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام ایرانیوں کے ساتھ میں بھی مسلح افواج کے جوانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے دشمن کے حملوں کا جواب دینے اور ملک کے دفاع کے لئے آخری لمحے تک استقامت کا مظاہرہ کیا[10]۔

آیت اللہ محسن اراکی

دشمن نے جنگ بندی کی درخواست کے ذریعے اپنی شکست کا اعلان کر دیا: آیت اللہ محسن اراکی مجلس خبرگان رہبری کے رکن آیت اللہ محسن اراکی نے تاکید کی ہے کہ صہیونی حکومت کی طرف سے جنگ بندی کی درخواست درحقیقت اس کی شکست کا واضح اعلان ہے اور یہ ملت ایران کی انقلابی استقامت اور رہبر معظم انقلاب کی حکیمانہ قیادت کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ملت ایران کو ایک عظیم نصرت عطا کی۔ آیت اللہ اراکی نے واضح کیا کہ امریکہ خصوصاً اس کا موجودہ حکمران جو بدعہد، بے شرم اور فریب کار ہے، اس شکست کا اصل ذمہ دار ہے۔

انہوں نے کہا کہ دشمن قابل اعتماد نہیں ہے اور ہمیں کسی بھی حال میں اس پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگرچہ جنگ وقتی طور پر رکی ہے، لیکن ہماری فوجی اور سیکیورٹی آمادگی باقی رہنی چاہیے۔ آیت اللہ اراکی نے وحدت کو اللہ کی رحمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ کامیابی اسی اتحاد کی مرہون منت ہے، لہٰذا اس نعمت کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہر وہ عمل یا بیان جو وحدت کو نقصان پہنچائے، درحقیقت دشمن کی مدد کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ وحدت کا سب سے مضبوط مظہر رہبر معظم کی اطاعت ہے، اور ہمیں ان کے ہر فیصلے کے سامنے سراپا تسلیم ہونا چاہیے۔ آیت اللہ اراکی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جنگ بندی کے باوجود سیکیورٹی خامیوں کا ازالہ ناگزیر ہے، تاکہ آئندہ دشمن کو ضرب لگانے کا موقع نہ ملے۔ انہوں نے آخر میں خیانت کرنے والوں کے خلاف سخت عدالتی اقدام پر زور دیا اور کہا کہ ملت کی سلامتی سے کھیلنے والوں کو ہرگز معاف نہیں کیا جانا چاہیے[11]۔

امام جمعہ

فتح کے بعد استغفار و شکر خدا، قوم کی ذمہ داری ہے: امام جمعہ کاشان نمائندہ ولی فقیہ اور امام جمعہ کاشان، حجت الاسلام والمسلمین سید سعید حسینی نے کہا ہے کہ دشمن کی شکست کے بعد ہماری سب سے بڑی ذمہ داری تسبیح خدا، حمد، استغفار اور شکرگزاری ہے۔ انہوں نے یہ بات بدھ کے روز حسینیہ حضرت علی اکبر علیہ السلام کاشان میں درس فقہ کے آغاز پر کہی۔

حجت الاسلام والمسلمین حسینی نے اپنے خطاب میں سورۂ نصر کی تلاوت کرتے ہوئے کہا: "جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے، تو اس وقت بندوں پر لازم ہے کہ وہ اللہ کی تسبیح کریں، شکر بجا لائیں، اور اپنے گناہوں پر استغفار کریں۔"

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ: "ہمیں اللہ تعالیٰ کو ہر نقص اور عیب سے پاک و منزہ جاننا چاہیے اور ہر طرح کی کوتاہی و قصور کو اپنی جانب منسوب کرنا چاہیے۔ جو نعمت ملت ایران کو عطا ہوئی ہے اور جس کے اثرات تمام دنیا کے حریت پسندوں تک پہنچے ہیں، اس پر ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے۔" امام جمعہ کاشان نے آخر میں کہا: "یہ نصرت اسلامی انقلاب کے رہبر اور ملت ایران کے لیے مبارک ہو، اور یہ استقامت، آخری فتح اور ہمارے مولا حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کا پیش خیمہ ثابت ہو۔"[12]۔

ٹرمپ کی جنگ بندی؛ "سیاسی ہذیان گوئی" سے اسرائیل کے "اسٹریٹجک لاچاری" تک

ٹرمپ کی ایران اسرائیل جنگ میں جنگ بندی تک پہنچنے میں جلد بازی کی وجہ ان کی "سیاسی ہذیان گوئی" سے زیادہ امریکہ اور صیہونی رژیم کی "اسٹریٹجک لاچاری" اس جلد بازی کا سبب بنی۔ ایران کی جانب سے قم، اصفہان اور نطنز میں پر امن ایٹمی تنصیبات پر حملے کے جواب میں ایران نے قطر میں خطے میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے پر چند میزائل داغے؛ اس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو ختم کرنے یا ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی بے تکی بات کی تھی، اپنے فوجی اڈے پر حملہ کے بعد ٹرمپ نے فوری طور پر اپنا لہجہ بدلا اور خطے میں جنگ بندی اور کشیدگی کے خاتمے کی ضرورت پر بات کی۔

اسی اثنا میں ٹرمپ کے بیانات کی اچانک اور پے در پے تبدیلیاں بین الاقوامی حلقوں میں طنز کا باعث بنے، اس نے تل ابیب اور تہران کے مابین جنگ بندی کی خواہش کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ 24 جون کی صبح سات بجے جنگ بندی ہوگی۔ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی صیہونی حکومت نے ایک اور غلط اندازے کے ساتھ سوچا کہ جنگ بندی سے پہلے آخری گھنٹوں میں حملوں کی بوچھاڑ کرکے جنگ میں فتح اپنے نام کر ے گی۔

جنگ بندی کے آخری گھنٹوں میں ہونے والے حملوں کے بعد، اسلامی جمہوری کی مسلح افواج کا آپریشن وعدہ صادق 3 کا آخری مرحلہ جنگ بندی سے دو گھنٹے قبل شروع ہوا اور آخری لمحات تک جاری رہا، جس کے ساتھ مقبوضہ علاقے میں غیر معمولی جانی و مالی نقصانات بھی ہوئے۔

مقبوضہ علاقوں میں داخلی طور پر لاچاری کی فضا قائم ہوئی

اگرچہ نتن یاہو نے اپنی کابینہ کو جنگ بندی کے بارے میں کسی بھی قسم کا بیان جاری کرنے سے منع کیا تھا، صیہونیوں کے غلط اندازے نے ان کے لیے معاملات کو اس حد تک پیچیدہ کر دیا کہ صیہونی حکومت کی کئی سابقہ اعلیٰ شخصیات اور بین الاقوامی مبصرین نے جنگ کے خاتمے کو ایک انتہائی تلخ واقعہ اور نتن یاہو اور اسرائیل کے لیے ایک افسوسناک سانحہ قرار دیا۔

اسرائیل کے سابق وزیر اور "اسرائیل ہمارا گھر" نامی تنظیم کے سربراہ ایویگڈور لائبرمین نے ایک بیان میں کہا کہ کسی خاص معاہدے کے بغیر جنگ بندی ہمیں اگلے دو یا تین سالوں کے لیے ایک اور جنگ کی طرف لے جائے گی جس میں بہت زیادہ خراب حالات میں ہوسکتے ہیں۔ لائبرمین نے مزید کہا کہ ایران یورینیم افزودگی اور میزائیل بنانے کے عمل کو نہیں روکے گا۔

اسرائیلی ٹی وی کے چینل 12 نے بھی یہ خبر شائع کی کہ اسرائیل میں لگائے گئے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے ابھی تک اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے اور خطرناک ہتھیار استعمال نہیں کیے ہیں۔ بھاری میزائل جو ایک ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مواد لے جاسکتے ہیں اور کروز میزائل جن کو ٹریک کرنا اور روکنا مشکل ہوتا ہے۔

ایران اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر جنگ سے نکل رہا ہے

اسرائیلی فوج کی ریزرو فورسز کے ایک جنرل ٹام سامیہ نے بھی کہا: یہ ایران تھا جس نے صورتحال پر قابو پالیا اور جنگ بندی کا وقت مقرر کیا۔ انہوں نے مزید کہا: ہم نے صرف چند سال کا امن خریدا وہ بھی بہت گراں قیمت پر اور آنے والی نسلوں کے لیے بڑی تکلیف میں مبتلا کرکے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ 12 دنوں سے جاری جنگ کی صورت حال ایسی نہیں تھی جیسا کہ صیہونیوں نے منصوبہ بنایا تھا۔ تل ابیب کا خیال تھا کہ اس کی ابتدائی فوجی کارروائی سے وہ ایران کے اندرونی حالات کو تبدیل کردے گا اور چند ہی دنوں میں اسلامی جمہوری حکومت بیرونی حملوں پر قابو پانے میں ناکام ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی حالات پر بھی اپنا کنٹرول کھو بیٹھی گی اور تباہی کے قریب پہنچ جائے گی۔ایران کے مختلف علاقوں پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں اور تہران اور ایران کے دیگر شہروں میں موجودہ حالات کی مخالفت میں عوامی اتحاد اور عوامی اتفاق ایک ایسا مسئلہ تھا جس کا صیہونی تجزیہ نگار صحیح اندازہ لگانے سے قاصر تھے۔ جو ہوا اس کے بالکل برعکس ہوا اور ایران نے ابتدائی دھچکا لگنے کے بعد 24 گھنٹے سے بھی کم عرصے میں اپنا فوجی آپریشن شروع کر دیا۔

دوسری جانب امریکی اور صیہونی حلقوں کے مطابق ایران کے میزائل ہتھیاروں کی صلاحیت امریکہ اور صیہونی حکومت کے تصور سے کہیں زیادہ تھی۔ یہ ایسے وقت میں تھا کہ جب امریکی اور صیہونی فضائی دفاع کا چرچا تھا ۔جن کا دعوا ان کے عسکری حکام نے بھی کیا تھا، اس کے باوجود وہ ایران کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہے۔

صیہونیوں کی ایک اور تشویش ایرانی میزائلوں کی بڑی مقدار اور تعداد تھی، جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ جنگ کی طوالت ایران کے عسکری ساختار کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرے گی۔ یہ امر امریکی میڈیا کی ان رپورٹوں کے برعکس تھا جس میں صیہونی حکومت کے فضائی دفاعی نظام کو میزائلوں کی شدید کمی کا سامنا تھا۔

ایرانی میزائلوں کا درست نشانہ پر لگنا اور رفتار میں اضافہ اور صیہونی اہداف کو نشانہ بنانے کی تیز رفتاری نے جو جنگ کے آغاز کے بعد سے گزشتہ چند دنوں سے بڑھ رہی تھی، صیہونیوں کے لیے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا، یہاں تک کہ اس حکومت کے وجود کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوجی سنسر شپ نافذ کی گئی تاکہ اسرائیل میں آپریشن وعدہ صادق3 کی تباہ کاریوں کی نشریات کو روکا جا سکے۔

مذکورہ تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران جنگ کو بڑھانے کے لیے پوری طرح تیار تھا، لیکن امریکی میڈیا کی رپورٹس نے جنگ میں شدت لانے کے لیے عوام اور صیہونی حکومت کے رہنماؤں کی لچک کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ بدلتی ہوئی صورت حال نے نتن یاہو کو ایک بند گلی میں ڈال دیا، جس سے نکلنے کا واحد راستہ امریکہ کے لیے براہ راست جنگ میں داخل ہونا تھا۔ تاہم گزشتہ چند مہینوں کی پیش رفت، خاص طور پر یمن کی جنگ سے امریکہ کے اچانک اور یکطرفہ انخلاء سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایسی جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا جس سے خطے میں اس کے فوجی اہلکاروں کی جانوں کو خطرہ ہو۔

ایران کی پر امن ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے میں امریکیوں کے غلط اندازے کے مطابق ان کا خیال تھا کہ ایران اس حملے سے ہتھیار ڈال دے گا اور صیہونی حکومت کی مسلسل جارحیت اور یورینیم افزودگی کو روکنے کی روشنی میں مذاکرات جاری رکھنے پر راضی ہو جائے گا۔ لیکن اس طرح کی خام خیالیاں صرف قیاس آرائیاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قطر میں امریکی فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے کے فوراً بعد ٹرمپ کا لہجہ بدل گیا اور انہوں نے فوری جنگ بندی کا معاملہ اٹھایا۔

جنگ کے خاتمے کا تعین ایران کرے گا

صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیت، جیسا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا تھا، صیہونیوں کی ایک "غلطی" سے شروع ہوئی، لیکن اس جنگ کے خاتمے کا تعین ایرانی مسلح افواج کرے گی۔ ابھی بھی امریکی اور صیہونی دشمن کی کسی بھی نئی سٹریٹیجک غلطی کا اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آئے گا اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اس جنگ کا جاری رہنا نتن یاہو اور ٹرمپ کے لیے بہت زیادہ خوفناک اور تکلیف دہ ہے۔ کیونکہ اسلامی جمہوری ایران کی جیت یقینی ہے[13]۔

اسرائیل اور اس کی شکست کی نوعیت

جنگ میں فتح و شکست کا معیار جنگی اہداف پر منحصر ہے۔ اگر وہ اہداف حاصل ہو جائے تو فاتح کہلایا جاتا ہے۔ جنگ میں فتح و شکست کا معیار جنگی اہداف پر منحصر ہے۔ اگر وہ اہداف حاصل ہو جائے تو فاتح کہلایا جاتا ہے۔ ابھی ایران اور غاصب اسرائیل کے درمیان صلح نہیں بلکہ موقتی جنگ بندی ہوئی ہے۔ جنگ بندی دونوں طرف کےلئے سانس لینے کی ایک فرصت ہے۔ لیکن جنگ بندی ہو بھی جائے تو اسرائیل نے موقع پاکر پھر حملہ کرنا ہے۔ دنیا کو ذرہ برابر اس غاصب پر اعتماد نہیں ہے۔ اس کی دلیل تاریخی تجربہ ہے۔

لیکن اس جنگ کا آغاز بھی غاصب اسرائیل نے کیا ہے اور جنگ بندی کا التماس بھی اس نے کیا ہے۔ اس غیر منصفانہ جنگ میں امریکہ و اسرائیل کے چند اہداف تھے۔ ان میں سب سے پہلا ہدف عوام کو نظام سے جدا کر کے بغاوت پر ابھارنا تھا۔ لیکن ان کے ہدف کے برعکس تمام ایرانی عوامل مکمل طور پر اپنی تمام تر اختلافات ختم کر کے نظام کے ساتھ ہم سو ہو گئی۔ اس طرح اپنے ابتدائی اہداف میں ہی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

دوسرا ہدف ان کے میزائل سسٹم کو مکمل نابود کرنا تھا۔ جس کےلئے ان کے تمام صف اول کے کمانڈرز کو ٹارگٹ کلنگ کر کے راستے سے ہٹا لیا۔ لیکن ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی مدبرانہ اور ہوشمندانہ حکمت عملی کی وجہ سے نئے کمانڈرز معین ہوگئے اور چوبیس گھنٹے کے اندر پشیمان کنندہ جوابی کاروائی کر کے ان کے غرور کو خاک میں ملایا۔

تیسرا ہدف ایرانی ایٹمی پلانٹ اور افزودہ یورنیم کو مکمل ختم کرنا تھا۔ تمام بین الاقوامی اور NPT کے قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے جنگی جنایت کا مرتکب ہوا جس کےلئے جدید ترین جنگی جہازوں کا استعمال کیا اور ایران کے تین اہم ایٹمی تنصیبات اصفہان، فردو اور نطنز پر حملہ کیا۔ لیکن اس ہدف میں نہ صرف کامیاب نہیں ہوے بلکہ پوری دنیا سے طنز و طعنوں اور مذمت کا سامنا کرنا پڑا اور خود ان کی میڈیا نے مکمل اعتراف کیا کہ اس حملے سے کچھ نقصان نہیں ہوا۔

ایک اور ہدف نظام جمہوری اسلامی کا تختہ الٹنا تھا۔ جس کےلئے موساد اور سی آئی اے نے منافقین کے ساتھ ملکر جو چالیس سال بیٹھ کے برنامہ بنایا تھا۔ اس جاسوسی نیٹ ورک کو چار دنوں میں پکڑنا اسرائیل کےلئے کوئی کم نقصان نہیں ہے۔ اس نیٹ ورک نے اسلحہ ساز فیکٹریوں سے لیکر سائیبر سپیس ہیکر کی تربیت تک، سائنٹسٹ اور کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ سے لیکر حساس جگہوں کی شناسائی تک، تعلیمی اداروں سے لیکر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اپنی جگہ بنانے تک، فضائی، دریائی اور امنیتی انفارمیشن سے لیکر معاشیات اور کرنسی کی نشیب و فراز تک ان جاسوس کی رسائی تھی۔ لیکن اس جنگ کی برکت سے اس نیٹ ورک کا شیرازہ بکھر گیا۔

اس کے بدلے میں انقلاب اسلامی نے آپریشن وعدہ صادق 3 کی اکیسویں لہر تک مختلف میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے اسرائیل جیسے سرطان پر تابڑ توڑ حملے کرتا رہا جو تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ یہ شکست نہ فقط اسرائیل کی بلکہ پوری مغربی تہذیب کی کھلی شکست تھی جو خود کو دنیا کی تمام ترقیاتی معیاروں میں اول و آخر سمجھتی ہے۔ دوسری طرف ملت اسلامیہ کے عوام میں ایک خوشی کی لہر دوڑی اور ملت میں عظیم اتحاد و ہمدلی کی باعث بنی۔ تیسری بات یہ کہ ایران میں موجود تمام تر سیاسی، عوامی ، نژادی اختلافات اپنے اختتام کو پہنچیں۔ عوام نے اتحاد و انسجام ملی، ایثار و قربانی ، حماسہ و شجاعت اور میھن پرستی اور نظام اسلامی کے ساتھ حمایت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے[14]۔

غاصب صہیونی حکومت کو بچانے کےلیے امریکا جنگ میں کودا لیکن اسے کچھ حاصل نہ ہوا

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک پیغام میں فرمایا کہ میں ایرانی قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ایران پر غاصب صیہونی حکومت کے حملے کے بعد اپنے تیسرے ویڈیو پیغام میں رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران کی عزیز اور عظیم قوم پر بے شمار درود و سلام ہو۔ سب سے پہلے میں حالیہ واقعات کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ شہید کمانڈرز، شہید سائنسداں جو حقیقی معنی میں اسلامی جمہوریہ کے لیے گرانقدر تھے اور انھوں نے بڑی خدمات سر انجام دیں اور آج پروردگار عالم کے یہاں اپنی نمایاں خدمات کا صلہ حاصل کر رہے ہیں، ان شاء اللہ۔

میں ایران کی عظیم قوم کو مبارکباد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں قوم کو کئی ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں:

پہلی، جعلی صیہونی حکومت پر فتح کی مبارکباد ہے۔ اتنے زیادہ شور ہنگامے، اتنے زیادہ دعووں کے باوجود صیہونی حکومت، اسلامی جمہوریہ کی ضرب سے تقریباً زمیں بوس ہو گئي اور اور کچل دی گئي۔ ان کے تصور میں اور ان کے ذہن میں کبھی یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی کہ ممکن ہے اسلامی جمہوریہ کی جانب سے اس حکومت کو ایسی ضرب پڑے، لیکن ایسا ہوا۔

ہم خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہماری مسلح فورسز کی مدد کی اور وہ صیہونیوں کے پیشرفتہ ڈیفنس کے کئی لیئرز کو عبور کر گئیں اور انھوں نے ان کے بہت سے شہری اور فوجی علاقوں کو اپنے میزائيلوں کے ذریعے اور اپنے پیشرفتہ ہتھیاروں کے مضبوط حملے سے مٹی میں ملا دیا۔ یہ اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کو جان لینا چاہیے کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف جارحیت کی اسے قیمت چکانی پڑے گي، قیمت ادا کرنی پڑے گی، اسے بھاری قیمت چکانی ہوگي اور بحمد اللہ یہ کام بھی ہوا۔ اس کا افتخار مسلح فورسز اور ہمارے عزیز عوام سے متعلق ہے جنھوں نے اپنے درمیان سے ان مسلح فورسز کو پیدا کیا، ان کی پرورش کی، ان کی حمایت کی اور اس طرح کے ایک بڑے کام کے لیے ان کے بازو مضبوط کیے۔

دوسری مبارکباد، امریکی حکومت پر ہمارے عزیز ایران کی فتح سے متعلق ہے۔ امریکی حکومت، جنگ میں، براہ راست جنگ میں شامل ہو گئی کیونکہ اسے محسوس ہوا کہ اگر وہ جنگ میں شامل نہ ہوئی تو صیہونی حکومت پوری طرح سے نابود ہو جائے گي۔ وہ جنگ میں اس لیے شامل ہوئی کہ اسے نجات دے لیکن اسے اس جنگ سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ ہمارے ایٹمی مراکز پر حملہ کیا، جو علیحدہ طور پر کسی عالمی عدالت میں قانونی مقدمے کے لائق ہے لیکن وہ کوئي اہم کام نہیں کر سکے۔

امریکی صدر نے جو کچھ ہوا تھا، اس کے بارے میں بڑھا چڑھا کر باتیں کیں اس سے پتہ چلا کہ انھیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ جو بھی ان باتوں کو سنتا وہ سمجھ جاتا کہ ان ظاہری باتوں کے پیچھے ایک الگ حقیقت پائي جاتی ہے۔ وہ کچھ نہیں کر سکے، جو ہدف حاصل کرنا چاہتے تھے، اسے حاصل نہیں کر سکے۔ اور بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کو چھپائيں اور اسے پوشیدہ رکھیں۔ یہاں بھی اسلامی جمہوریہ فتحیاب ہوئی اور اسلامی جمہوریہ نے جواب میں امریکا کے رخسار پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔

اس نے خطے میں امریکا کے ایک اہم اڈے، العدید بیس پر حملہ کیا اور اسے نقصان پہنچایا۔ اُس مسئلے میں جن لوگوں نے بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، انھوں نے اِس مسئلے میں بات کو ہلکا کر کے پیش کرنے کی کوشش کی، یہ کہا کہ کچھ نہیں ہوا ہے جبکہ ایک بڑا واقعہ ہوا تھا۔ یہ کوئي معمولی واقعہ نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو خطے میں امریکا کے اہم مراکز تک دسترسی حاصل ہو اور وہ جب بھی ضروری سمجھے ان کے خلاف کارروائي کرے، یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ مستقبل میں بھی یہ واقعہ دوہرایا جا سکتا ہے، اگر کوئی جارحیت ہوتی ہے تو دشمن کو بھاری قیمت، جارح کو یقینی طور پر بہت بھاری قیمت چکانی ہوگی۔

تیسری مبارکباد ایرانی قوم کے غیر معمولی اتحاد اور اتفاق رائے کی ہے۔ بحمد اللہ قریب نو کروڑ کی آبادی والی ایک قوم، متحدہ طور پر، ایک آواز ہو کر، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ، مطالبات اور اہداف میں بغیر کسی اختلاف کے ڈٹ گئی، نعرے لگائے، بیان دئے، مسلح فورسز کی کارروائيوں کی حمایت کی، آئیندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ ایرانی قوم نے اس مسئلے میں اپنی عظمت کو، اپنی نمایاں اور ممتاز شخصیت کو دکھا دیا اور بتا دیا کہ ضروری موقع پر اس قوم سے ایک ہی آواز سنائی دے گي اور بحمد اللہ ایسا ہی ہوا۔

میں اپنے معروضات میں ایک بنیادی نکتے کے طور پر جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ایرانی قوم کو سر جھکانا ہوگا، سرینڈر کرنا ہوگا، اب یورینیم کی افزودگي کی بات نہیں ہے، ایٹمی صنعت کی بات نہیں ہے، بات ایران کے سرینڈر ہونے کی ہے۔ امریکی صدر کی یہ بات، چھوٹا منہ، بڑی بات کا مصداق ہے۔ اتنی عظمت والے ایران، تاریخ رکھنے والے ایران، ثقافت رکھنے والے ایران، ایسا فولادی قومی عزم رکھنے والے ایران اور ایسے ملک کے لیے سرینڈر ہونے کی بات ان لوگوں کی نظر میں مضحکہ خیز ہے جو ایرانی قوم کو پہچانتے ہیں۔

لیکن ان کی اس بات نے اس حقیقت کو عیاں کر دیا کہ امریکی، انقلاب کی ابتداء سے ایران اسلامی سے جنگ کر رہے ہیں، متصادم ہیں۔ وہ ہر بار کوئي نہ کوئي بہانہ لے آتے ہیں۔ کبھی انسانی حقوق ہے، کبھی جمہوریت کا دفاع ہے، کبھی خواتین کے حقوق کی بات ہے، کبھی یورینیم کی افزودگي ہے، کبھی ایٹمی مسئلے کی ہی بات ہے، کبھی میزائیل بنانے کا مسئلہ ہے، وہ مختلف بہانے پیش کرتے ہیں لیکن اصل میں صرف ایک ہی بات ہے اور وہ ہے ایران کا سر جھکا دینا، سرینڈر ہو جانا۔ پہلے والے یہ بات نہیں کہتے تھے۔

کیونکہ یہ قابل قبول نہیں، کسی بھی انسانی منطق میں یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ ایک قوم سے کہا جائے کہ وہ سرینڈر کر دے۔ لہذا وہ اسے دوسرے ناموں کے پیچھے چھپا دیا کرتے تھے۔ اس شخص نے اسے برملا کر دیا، اس حقیقت کو عیاں کر دیا، اس نے سمجھا دیا کہ امریکی صرف ایران کے سرینڈر ہونے پر ہی راضی ہوں گے، اس سے کم پر نہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ ایرانی قوم جان لے کہ امریکا سے ٹکراؤ اسی بات پر ہے۔ امریکی، ایرانی قوم کی اتنی بڑی توہین کر رہے ہیں اور ایسا ہرگز نہیں ہوگا، کبھی نہیں ہوگا۔ ایرانی قوم ایک عظیم قوم ہے، ایران ایک مضبوط اور وسیع و عریض ملک ہے، ایران قدیم تمدن کا مالک ہے، ہمارا ثقافتی اور تمدنی سرمایہ، امریکا اور امریکا جیسوں سے سیکڑوں گنا زیادہ ہے۔

کوئي ایران سے یہ توقع رکھے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے سامنے گھٹنے ٹیک دے، یہ پوری طرح سے بکواس اور ہرزہ سرائی ہے جس کا یقینی طور پر عقلمند اور دانا افراد مذاق اڑائيں گے۔ ایرانی قوم، صاحب وقار ہے اور صاحب وقار رہے گی۔ وہ فاتح ہے اور اللہ کی توفیق سے فاتح ہی رہے گي۔

ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال اپنے لطف و کرم سے اس قوم کو ہمیشہ باعزت اور باشرف رکھے، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے درجات بلند کرے، حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کو اس قوم سے راضی و خوشنود رکھے اور ان کی مدد، اس قوم کی پشت پناہ رہے[15]۔

سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن

سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن کا اسرائیل کیخلاف عظیم فتح پر ایرانی قوم کو سلام۔ گلگت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ اسرائیل کا پہلی مرتبہ کسی قوم کے ساتھ مقابلہ ہوا اور سلام ہے ایرانی قوم کو، جس نے اسرائیل کو سبق سکھا دیا۔ اگر یہ جنگ جاری رہتی تو اسرائیل مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہوتا۔

سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ اسرائیل کو سبق سکھانے پر ہم ایرانی قوم کو سلام پیش کرتے ہیں، اسرائیل نے پہلی مرتبہ کسی قوم سے مقابلہ کیا، ورنہ وہ پہلے مختلف گروپوں اور تنظیموں سے لڑتا رہا ہے۔ گلگت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ اسرائیل کا پہلی مرتبہ کسی قوم کے ساتھ مقابلہ ہوا اور سلام ہے ایرانی قوم کو، جس نے اسرائیل کو سبق سکھا دیا۔

اگر یہ جنگ جاری رہتی تو اسرائیل مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ انڈیا اور پاکستان کی جنگ میں بھی اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سرخرو کیا۔ انڈیا کو شکست ہوئی، جس پر پاکستان فوج کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں[16]۔

متعلقہ تلاشیں

حوالہ جات

  1. ٹرمپ کا خیالی منصوبہ، ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا جھوٹا دعویٰ- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 جون 2025ء
  2. جنگ بندی سے پہلے ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ، تل ابیب زوردار دھماکوں سے لرز اٹھا- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  3. ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی عمل درآمد کے مرحلے میں داخل- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24جون 2025ء
  4. صہیونی جارحیت کو پشیمانی میں بدل دیا، مسلح افواج مزید جواب دینے کے لیے تیار ہیں، ایران- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  5. ایران نے جنگ بندی کے لیے شرائط اور وقت کا تعین کیا، صہیونی جنرل- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  6. نتن یاہو باقاعدہ طور پر جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہوگئے- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  7. آج کی صبح انتہائی تلخ اور ناگوار گزری، صہیونی وزیر- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  8. ایران اب بھی قائم و دائم اور ہمیں نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، صہیونی رکن پارلیمنٹ- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  9. جنگ کا ہدف ایران کو جھکانا تھا جو حاصل نہ ہوسکا، عرب مبصر- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  10. آخری دم تک دشمن سے لڑنے پر مسلح افواج کا شکریہ، ایرانی وزیر خارجہ- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  11. دشمن نے جنگ بندی کی درخواست کے ذریعے اپنی شکست کا اعلان کر دیا: آیت اللہ محسن اراکی- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  12. فتح کے بعد استغفار و شکر خدا، قوم کی ذمہ داری ہے: امام جمعہ کاشان-شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  13. ٹرمپ کی جنگ بندی؛ "سیاسی ہذیان گوئی" سے اسرائیل کے "اسٹریٹجک لاچاری" تک- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  14. عارف بلتستانی، اسرائیل اور اس کی شکست کی نوعیت- شائع شدہ از: 23 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  15. غاصب صہیونی حکومت کو بچانے کےلیے امریکا جنگ میں کودا لیکن اسے کچھ حاصل نہ ہوا، رہبر معظم انقلاب- شائع شدہ از: 26 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 جون 2025ء
  16. سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن کا اسرائیل کیخلاف عظیم فتح پر ایرانی قوم کو سلام- شائع شدہ از: 27 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 جون 2025ء