قاسم سلیمانی

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 21:01، 31 دسمبر 2024ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
قاسم سلیمانی
قاسم سلیمانی.jpg
پورا نامقاسم سلیمانی
دوسرے ناملیفٹیننٹ جنرل سلیمانی، دلوں کا سردار
ذاتی معلومات
پیدائش1956 ء، 1334 ش، 1375 ق
پیدائش کی جگہایران
وفات2019 ء، 1397 ش، 1440 ق
وفات کی جگہعراق
مذہباسلام، شیعہ
مناصب
  • ایران کی قدس برگیڈ کے کمانڈر

قاسم سلیمانی، ایران کی قدس برگیڈ کے کمانڈر، جنہوں نے مزاحمتی محاذ کی سرگرمیوں کو مضبوط کرنے اور وسعت دینے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ وہ عراق کی طرف سے ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں مختلف کارروائیوں جیسے والفجر 8، کربلا 1 اور کربلا 5 میں موجود تھے۔ شہید سلیمانی نے مقاومتی بلاک گروپوں جیسے النجیاء موومنٹ، کتائب حزب اللہ اور زینبون و فاطمیون اور ایران اور شام کے کچھ جوانوں پر مشتمل ایک عوامی رضاکار فورس تشکیل دی اور شام و عراق میں داعش کے ظہور کےبعد سپاہ قدس کے کمانڈر کی حیثیت سے ان ملکوں میں حاضر ہوکر عوامی رضاکار فورس کو منظم کرکے داعش کا مقابلہ کیا۔ 30 نومبر 2016 کو آیت اللہ خامنہ ای کے نام ایک خط میں، انہوں نے دہشت گرد گروہ داعش کی حکومت کے باضابطہ خاتمے کا اعلان کیا۔ انہوں نے عرب اور غیر عرب اور مختلف قبائل کے ساتھ شیعہ و سنی اور اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔

سوانح عمری

شہید قاسم سلیمانی 20 مارچ 1335 ہجری کو کرمان کےشہر رابر، قنات ملک نامی گاؤں میں پیدا ہوۓ۔ جب آپ اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کرمان گئے تو آپ کی عمر 11 سال سے زیادہ نہیں تھی۔ ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد، آپ نے تعمیراتی کارکن کے طور پر کام کیا اور بعد میں کرمان کے محکمۂ آب میں بطورملازم اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

نوجوانی کا دور اور انقلاب اسلامی کی کامیابی

1357ہجری میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی آپ کرمان کے محکمہ آب میں ملازمت کے ساتھ ساتھ، کرمان کی سپاہ فورس میں رضکار کی حیثیت سےشامل ہوگئے۔ دفاع مقدس کے آغاز سے قبل وہ کرد باغیوں کا مقابلہ کرنے کےلئے ملک کے مغربی علاقوں میں گئے۔ انقلاب اسلامی ایران کی جد و جہد کے دوران ان کی ملاقات مشہد کے ایک عالم رضا غیب سے ہوئی جس نے انہیں انقلاب سے متعارف کرایا۔ شہید کے بھائی سہراب سلیمانی کا کہنا ہے کہ آپ انقلاب کے دوران کرمان کے مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں کے اہم منتظمین میں سے ایک تھے۔

دفاع مقدس کا آغاز

1359ہجری میں جب عراق نے ایران پر حملہ کیا تو حاج قاسم سلیمانی نے کرمان سے کئی بٹالین کو تربیت دی اور ان کے ساتھ ملک کے جنوب میں آپریشنل علاقوں میں گئے۔ وہ مغربی آذربائیجان کی فوج کے کمانڈر بھی تھے۔ کرد بغاوت کے خاتمے کے بعد، وہ کرمان واپس آئے اور کرمان فوج کے قدس گیریژن کے کمانڈر بن گئے۔

برگیڈ ثار اللہ کا قیام اور اس کی کمان

1360کے آخر میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل محسن رضائی نے جنرل سلیمانی کو ثار اللہ بریگیڈ کا کمانڈر مقرر کیا۔ وہ بہت ہوشیار اور ‎ذہین تھے اور اس خصوصیت کو استعمال کرتے ہوئے وہ مختلف آپریشنز جیسے والفجر 8، کربلا 1، کربلا 5، اور کئی دوسرے آپریشنز میں بہت کامیاب رہے۔

قدس فورس کے دوسرے کمانڈر

1379میں انقلاب اسلامی کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے حکم سے سردار احمد واحدی کے بعد شہید قاسم سلیمانی کو قدس فورس کا دوسرا کمانڈر منتخب کیا گیا۔ اس فورس میں رہتےہوئے انہوں نے مزاحمتی سرگرمیوں کو مضبوط کرنے اور پھیلانے کی بہت کوششیں کیں۔ درحقیقت یہ شہید عماد مغنیہ کے شانہ بشانہ جنرل سلیمانی کی سرگرمیاں ہی تھیں جنہوں نے اس فورس کو مضبوط بنایا اور صیہونی حکومت فلسطین اور لبنان کے حوالے سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

میجر جنرل کے عہدے پر ترقی

بریگیڈیئر جنرل حاج قاسم سلیمانی کو 1389 میں آرمی کے سپریم کمانڈر اور رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔

مجرموں اورا سمگلروں کے خلاف جنگ

1367ہجری میں ایران- عراق جنگ کے خاتمے کے بعد، شہید سلیمانی کرمان واپس آئے اور ایران کی مشرقی سرحدوں سے آنے والے مجرموں کا مقابلہ کیا۔ قدس فورس کے کمانڈر کے طور پر تعینات ہونے سے پہلے وہ ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر منشیات فروش گروہوں سے لڑتے رہے۔

عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ

جنرل شہید قاسم سلیمانی کو مزاحمتی محاذ میں، خاص طور پر داعش کے خلاف لڑائی کے دوران ایک بہت ہی نمایاں شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ وہ پوری دنیا میں مزاحمتی محاذ بنانے میں کامیاب ہوئے اور اسی وجہ سے امریکہ ،صیہونی اور تمام کفار ان کے خلاف تھے۔ وہ دفاع مقدس میں 41ویں ڈویژن کے کمانڈر، لبنان میں 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی افواج کے منتظم اور پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر اور داعش اور جبہتہ النصرہ کے لئے ایک ڈراؤنا خواب تھے۔

داعش اور مغربی ایشیا میں اس کا تباہ کن کردار

جب داعش نے 2011 میں عراق اور شام میں اپنی پیش قدمی شروع کی تھی تو یہ سردار سلیمانی ہی تھے جنہوں نے ان علاقوں میں جاکر اور مزاحمتی محاذ بنا کر یزیدیوں کی کمر توڑ دی۔

اس وقت، دولتِ اسلامیہ نے عراق میں کئی دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دی۔ ابو عمر البغدادی کی گرفتاری کے بعد ابوبکر البغدادی کو 2010 میں اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ شام میں بحران کے آغاز کے ساتھ ہی دہشت گرد گروہ دولت اسلامیہ عراق وشام کے عناصر نے شام میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دی۔

داعش کے دہشت گرد بہت جلد عراق کے صوبہ الانبار کے شہر فلوجہ میں داخل ہوگئے اور 2014 کے آغاز میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے لوگوں کو بے رحمی سے قتل کیا اور اس کے بعد اس ملک کے مختلف شہروں میں نقل و حرکت بھی کی۔

جون 2014 میں داعش کے دہشت گردوں نے، جنہیں عراق اور مغربی ایشیا کی آزادی کے دشمنوں کی حمایت حاصل تھی، عراق کے صوبہ نینویٰ کے صدر مقام موصل پر حملہ کیا اور صرف چند گھنٹوں میں اس شہر پر قبضہ کر لیا۔

النجباء موومنٹ اور کتائب حزب اللہ جیسی قوتوں کے ساتھ ساتھ عراق میں حشد الشعبی اور شام کے عوامی رضا کار فورس جیسے گروہوں کے ساتھ مزاحمت کا محور بنا کر اور فاطمیون اور زینبیون اور ایران کے مدافعین حرم کو باہم متحدکرکے آپ داعش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئےا اور آخر کار بڑی ہمت کے ساتھ، جبکہ داعش کے بہت سے فوجی کمانڈروں کے مطابق، داعش شام کے صدارتی محل کے دروازے تک پہنچ چکا تھا اور کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ داعش کو شکست دی جا سکتی ہے، سردار سلیمانی نے مدافعین حرم کے ساتھ کھڑے ہو کر مغربی ایشیا کے خطے میں داعش کو مزید پھیلنے اور ابھرنے سے روکا۔

آخرکار، نومبر 2016 میں قاسم سلیمانی نے رہبر انقلاب کے نام ایک خط میں داعش دہشت گرد گروہ کی حکومت کے باضابطہ خاتمے کا اعلان کیا۔ شام کے شہر بوکمال میں داعش کے جھنڈے کو نیچے اتارتے ہی اس کا اعلان کیا گیا۔ درحقیقت یہ ایک مخلصانہ وعدہ تھا جس کا اعلان سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر نے اسی سال موسم گرما کے آخری دنوں میں لنگرود کے گلزار شہداء میں مزاحمتی محاذ کے کمانڈر شہید مرتضی حسین پور کی مجلس چہلم میں کیا تھا۔

حرم رضوی کا خادم

جولائی 2014 میں آستان قدس رضوی کے انچارج آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے حکم سے آپ کو حضرت علی بن موسیٰ علیہ السلام کے خادم ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

نشان ذوالفقار

آئی ایس آئی ایس کے خلاف جنگ میں جنرل سلیمانی کی موثر موجودگی اور اس گمراہ گروہ کی شکست کی وجہ سے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے انہیں ذوالفقار ملٹری میڈل سے نوازا جو ایران کا سب سے بڑا فوجی تمغہ ہے۔ 1398 میں اپنی شہادت کے بعد وہ لیفٹیننٹ کرنل کے فوجی عہدے تک پہنچے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجی تمغوں سے نوازنے کے ضوابط کے مطابق یہ تمغہ مسلح افواج میں اعلیٰ سطح کے کمانڈروں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز چیف آف اسٹاف کو دیا جاتا ہے، جن کے جنگی آپریشنز کی منصوبہ بندی اور ہدایت کاری کے اقدامات نے مطلوبہ نتائج حاصل کیے ۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سردار حاج قاسم سلیمانی یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے شخص ہیں۔ بلاشبہ شہید سلیمانی کو یہ تمغہ ملنے سے پہلے سپریم کمانڈر کے ہاتھوں سے تین اور تمغے مل چکے تھے۔

عالمی پوزیشن

2019میں، شہید قاسم سلیمانی کو اس خصوصی شمارے میں دفاع اور سلامتی کے شعبے میں دس اعلیٰ ترین مفکرین کی فہرست میں شامل کیا گیا جسے امریکی میگزین فارن پالیسی ہر سال دنیا کے 100 بہترین مفکروں کو متعارف کرانے کے لیے شائع کرتا ہے۔

شہادت

میجر جنرل حاج قاسم سلیمانی کو مجاہدانہ زندگی گزارنے کے بعد بالآخر 13 جنوری 2018 کی صبح امریکی ڈرون لیزر میزائلوں کے ذریعے حشد الشعبی کے نائب سربراہ شہید ابو مہدی المہندس، شہید سلیمانی کے دفتر کے مسؤول سردار پور جعفری اور شہید وحیدی زمانی نیا، شہید ہادی طارمی، اور حشد الشعبی کے استقبالیہ دفتر کے سربراہ شہید محمد رضا الجابری کے ہمراہ امریکی صدر کے حکم پر شہید کر دیا گیا ۔

رہبر انقلاب کا پیغام

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر ایک اہم پیغام جاری کیا :

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ملت عزیز ایران!

اسلام کے عظیم، باعث فخر اور مایۂ ناز کمانڈر عالم ملکوت کی جانب پرواز کر گئے۔گزشتہ شب شہدا کی پاکیزہ ارواح نے قاسم سلیمانی کی پاکیزہ روح کو اپنی آغوش میں لیا۔دنیا کے شیطانوں اور شرپسندوں کے مقابلے میں برسوں کی مخلصانہ اور شجاعانہ جد و جہد اور راہ خدا میں شہید ہونے کی ان کی آرزو رنگ لائی اور سلیمانی کو اس بلند و بالا مقام سے ہمکنار کیا اور ان کا خون بشریت کے شقی ترین افراد کے ہاتھوں زمین پر بہا دیا گیا۔ میں اس عظیم شہادت پر حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ اور خود شہید کی روح کی خدمت میں مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایرانی عوام کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔ وہ مکتب اسلام اور مکتب خمینی کے ہاتھوں پروان چڑھنے والوں میں ایک نمایاں چہرہ تھے جنہوں نے اپنی تمام تر عمر راہ خدا میں جہاد کرتے ہوئے گزاری۔ برسوں پر مشتمل ان کی انتھک جدو جہد کا پھل انہیں شہادت کی شکل میں ملا اور ان کے چلے جانے سے بلطف و اذن خدا ان کا مشن رکنے اور تعطل کا شکار ہونے والا نہیں ہے۔مگر سخت انتقام ان مجرموں کے انتظار میں ہے جنہوں نے اپنے ناپاک ہاتھوں کو ان کے اور گزشتہ شب شہید ہونے والوں کے خون سے رنگا ہے۔ شہید سلیمانی مزاحمتی و استقامتی محاذ کا ایک بین الاقوامی چہرہ ہیں اور اس محاذ سے وابستہ تمام افراد ان کی خونخواہی اور انتقام کے طالب ہیں۔ سبھی دوست اور سبھی دشمن یہ سمجھ لیں کہ مزاحمت و استقامت کی راہ مزید مستحکم عزم و حوصلے کے ساتھ جاری و ساری رہے گی اور یقینی طور پر کامیابی اس مبارک راہ میں گامزن رہنے والوں کے قدم چومے گی۔ ہمارے عزیز اور جانثار کی شہادت ہمارے لئے تلخ ضرور ہے مگر آخری کامیابی کے حصول تک اپنی جد و جہد قاتلوں اور مجرموں کے لئے اِس سے کہیں زیادہ تلخ ثابت ہوگی۔ ایرانی عوام شہید والا مقام میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ہمراہ شہید ہونے والوں بالخصوص عظیم مجاہدِ اسلام جناب ابو مہدی المہندس کی قدرداں رہے گی۔ میں ملک میں تین روزہ عام سوگ کا اعلان کرتا ہوں اور ان کی اہلیہ، ان کے بچوں اور دیگر اعزا و اقارب کو مبارکباد اور تعزیت پیش کرتا ہوں۔ [1]

سید علی خامنہ ای

۱۳ دی ۱۳۹۸ مطابق ۳ جنوری ۲۰۲۰

سیاسی و مذہبی شخصیات کا پیغام

ایران کے تینوں محکموں مجریہ ،مقننہ اور عدلیہ کے سربراہان اور ایران و عراق کے مراجع تقلید سمیت سیاسی اور مذہبی شخصیات نے الگ الگ پیغامات میں ان کی جرات، خلوص اور قربانیوں کی تعریف کی۔

لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ، یمن میں انصار اللہ کے رہنما سید عبدالملک بدر الدین الحوثی اور شام، لبنان، عراق اور ترکی کے صدر غیر ایرانی سیاسی شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے قاسم سلیمانی کےقتل کی مذمت کی۔ اسی طرح مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایران کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور امریکہ کے اقدامات کی مذمت کی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے منصوبہ بند قتل کو غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ایک امریکی مورخ یروند ابراہیمیان نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اہل ایران پہلے ہی امریکہ کو ایک سازشی حکومت سمجھتے تھے اور اب سے وہ مذکورہ حکومت کو دہشت گرد حکومت بھی تصور کریں گے۔ ایک امریکی فلم ساز مائیکل مور نے امریکی حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا اور امریکی حکومت کو واضح طور پر جنگجو قرار دیا۔

نتائج

  • عراق سے امریکیوں کے انخلاء کے منصوبے کی منظوری: شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد عراق کی بعض سیاسی جماعتوں اور اس ملک کے متعدد افراد نے عراق سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کا مطالبہ کیا۔ 5 جنوری 2020 کو ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس میں عراقی پارلیمنٹ نے عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے ایک منصوبے کو منظوری دی۔ اگرچہ عراق سے امریکی افواج کو نکالنے کا معاملہ اس سے قبل حشد الشعبی کے ٹھکانوں پر امریکی حملوں کے بعد اٹھایا گیا تھا اور مرجع تقلید آیت اللہ سید کاظم حائری نے بھی عراق میں امریکی افواج کے قیام کو حرام قرار دیا تھا۔
  • عین الاسد ایئر بیس پر ایران کا میزائل حملہ: 8 جنوری2020 کو پاسداران انقلاب اسلامی نے قاسم سلیمانی کےشہادت کے جواب میں عین الاسد ایئر بیس پر میزائل حملہ کیا جو عراق میں امریکی فوجی اڈہ تھا۔
  • اسلامی جمہوریہ ایران کے کیلنڈر میں 3 جنوری کو مزاحمت کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔

ایران اور عراق میں سردار سلیمانی کی لاش کی تدفین میں کروڑوں لوگوں کی شرکت

قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ 4 جنوری 2020 کو ابومہدی المہندس اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ بغداد، کربلا اور نجف کے شہروں میں عراق کی سیاسی اور مذہبی شخصیات اور عام عوام کی موجودگی میں ادا کی گئی۔ کربلا میں روضہ حضرت عباس کےمتولی سید احمد الصافی نے اور نجف میں شیخ بشیر نجفی نے ان پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس کے بعد ایرانی شہداء اور ابو مہدی المہندس کے جسد خاکی کو ایران منتقل کیا گیا اور 5 جنوری کو اہواز اور مشہد میں اور 6 جنوری کو تہران اور قم میں دفن ان کی تشییع کی گئی۔ قاسم سلیمانی کی میت کو 7 جنوری کو کرمان لایا گیا اور 8 جنوری 2020 کو اسی شہر میں سپرد خاک کیا گیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 6 جنوری 2020 کو تہران میں قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس اور ان کے دیگر ساتھیوں کی میت پر نماز ادا کی۔ روسی نیوز سائٹ "روسیا الیوم" نے ان کی تشیع جنازہ کو امام خمینی کی تشییع جنازہ کے بعد تاریخ کی سب سے تشیع جنازہ قرار دیا۔ کرمان میں قاسم سلیمانی کی تشییع جنازہ کے دوران ہجوم کی وجہ سے متعدد افراد فوت اور زخمی ہوئے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ترجمان کے مطابق سلیمانی کی نماز جنازہ میں تقریباً 25 ملین افراد نے شرکت کی۔

سلیمانی کے چالیسویں کی تقریب ایران اور بعض دیگر ممالک کے مختلف شہروں میں منعقد ہوئی۔ تہران میں یہ تقریب 24 فروری 2020 کو امام خمینی کے مزار پر منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں قدس فورس کے کمانڈر اسماعیل قاآنی نے قاسم سلیمانی کا وصیت نامہ پڑھا۔ رہبر معظم کی پیروی اور حمایت، شہداء کے بچوں کا خیال رکھنا اور ایرانی مسلح افواج کا احترام ان کی وصیت میں شامل ہے [2]۔

شہید قاسم سلیمانی اور عالم اسلام کا اتحاد

اس سلسلے میں آپ کہتے ہیں: تکفیر اور تکفیری خود برادران اہل سنت کے گھروں کو جلانے کے درپے ہے۔جن لوگوں نے تکفیر کو جنم دیا وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اس طرح وہ جمہوری اسلامی ایران اور شیعوں کو جھکنے پر مجبور کر دیں گے۔آج تکفیری جماعتوں کے ہاتھوں انسانیت کے اوپر سب سے زیادہ حملے خود سنی دنیا میں ہو رہے ہیں۔ کیا اسلامی جمہوریہ کا جان و مال سے مسلمانوں کا دفاع کرنا کوئی مہم جوئی ہے؟کیا اسلامی جمہوریہ کا ایک ایسے گروہ کا مقابلہ کرنا غلط کام ہے جو ایک علاقے میں 2000 نوجوان عورتوں کی خرید و فروخت کرتا ہے؟۔

اسلامی دنیا میں اسلامی جمہوریہ کا مقام

آپ یقین رکھتے ہیں اور اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ کیا یہ بڑا عیب ہے کہ اسلامی جمہوریہ اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے اور مسلمانوں کی مسجدوں اور گھروں کی حفاظت کررہا ہے اور ان کی تخریب میں رکاوٹ بن رہاہے۔ چونکہ اسلامی جمہوریہ کو عالم اسلام اور شیعیت میں مرکزیت حاصل ہوئی ہے، اس لئے دشمنی میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور آج کی دشمنی کل کے محاذ سے بالکل مختلف ہے اور استعمال کیے جانے والے ہتھیار بھی مختلف ہیں۔

سردار سلیمانی بعض سنی علماء کی نظر میں

اس سلسلے میں جمعیت علمائے اہل سنت عراق کے سربراہ شیخ خالد المولا نے عالم اسلام کے اتحاد کے دفاع میں جنرل سلیمانی کے کردار کے بارے میں کہا: جب عراق کے سنی علاقوں پر داعش کا قبضہ ہوا اور امریکہ اور عرب ممالک نے عراق کو تنہا چھوڑ دیا تاکہ داعش بغداد پر قبضہ نہیں کر لے تو اس وقت شہید قاسم سلیمانی نے کہا: ہم بغداد پر داعش کو قابض نہیں ہونے دیں گے۔

مسجد النبی اہل سنت بجنورد کے امام جمعہ امان دردی آخوند یزدانی، نے کہا: شہید سلیمانی نہ صرف اپنی زندگی میں دنیا کے مظلوموں کے لئے باعث خیر و برکت تھے بلکہ ان کی شہادت بھی خیر و برکت اور امت مسلمہ کی وحدت کا سبب بنی۔

اس سلسلے میں سنندج شہر کے عبوری امام جمعہ نے بھی کہا کہ عالمی استکبار کا جرم اہل سنت کے نقطہ نظر سےقابل مذمت ہے اور شہید سلیمانی کا مشن شدت کے ساتھ آگے بڑے گا۔ [3]

ایران شہید سلیمانی کے قتل کے مقدمے کی پیروی کے لئے پر عزم ہے

ایران شہید سلیمانی کے قتل کے مقدمے کی پیروی کے لئے پر عزم ہے، وزارت خاجہ ایران نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے مقدمے کی پیروی کے عزم کو دہرایا ہے۔

مہر نیوز کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایران سپاہ قدس فورس کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل شہید قاسم سلیمانی کے قاتلوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے اپنے حق کی پیروی کے لیے سنجیدگی سے پر عزم ہے۔ اسماعیل بقائی نے کہا کہ شہید سلیمانی کے قتل کیس کی کارروائی تہران کی ایک عدالت میں جاری ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکی حکام کی جانب سے گمراہ کن دعووں کا شہید سلیمانی کے قتل کے مقدمے کی پیروی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بقائی نے اپنے ایکس اکاونٹ پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ شہید قاسم سلیمانی کا قتل ایک بہت بڑا جرم تھا جسے ایران اور خطے کے عوام نہ کبھی معاف کریں گے اور نہ ہی بھولیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ گھناؤنا جرم، جسے اقوام متحدہ نے ایک غیر قانونی فعل اور 'صوابدیدی قتل' کے طور پر تسلیم کیا ہے، امریکی حکومت کے بین الاقوامی مواخذے جب کہ مجرموں کی انفرادی مجرمانہ چارج شیٹ کو واضح کرتا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر کئے گئے اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے اپنے حق کی پیروی کے لیے سنجیدہ ہے۔ اس سلسلے میں امریکی صدارتی امیدواروں یا حکام کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد دعوؤں کا اظہار محض سیاسی اور انتخابی مقاصد کے لیے ہے، جس سے ملکی عدالتوں میں کارروائی کی پیروی کرنے کے ایران کے عزم پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اگر ضرورت ہو تو بین الاقوامی عدالتوں میں اس کیس کی پیروی کی جائے گی [4]۔

یمنی راکٹوں نے صیہونیوں کا جینا دوبھر کر دیا، شہید سلیمانی کا غیر معمولی کردار

یمن کے بہادر عوام خونخوار اور طفل کش صیہونیوں کو نکیل ڈال چکے ہیں اور اپنی قوت ارادی سے غاصب رجیم کو تہس نہس کر رہے ہیں جب کہ صیہونی یمنی میزائلوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔

یمن کی میزائل طاقت نے صیہونی کو رسوا اور بے بس کر دیا ہے۔ یمنی راکٹوں کی گھن گرج سے صیہونیوں کی کی نیندیں حرام ہورہی ہیں۔ صنعاء پر اسرائیل کے حملے کے جواب میں یمنی بیلسٹک میزائل کے نئے حملے نے صیہونی غاصبوں کو وحشت میں ڈال دیا ہے۔ یمنیوں نے تل ابیب کو نشاننے پر رکھا ہے، وہی صیہونی مرکز کہ جس کو انتہائی ہائی ٹیک دفاعی نظاموں کے ذریعے محفوظ بنایا گیا تھا لیکن یمن میزائل اس کے حساس اہداف کو آسانی سے نشانہ بنا رہے ہیں۔"

یمنی میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بے چین صہیونیوں نے پہلی بار امریکی THAAD سسٹم کو فعال کیا تاکہ یہ انہیں یمنی میزائلوں کو روک سکے، لیکن یمن کے بیلسٹک میزائلوں کے آگے یہ بھ موم کی طرح پگھلنے لگا۔

شکست کا اعتراف

اعلی صہیونی حکام نے یمن کی میزائل پاور کے سامنے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے، اسرائیلی بحریہ کے سابق ایڈمرل شاول خرف نے کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا: اسرائیل یمنی حملوں کی شدت سے خوف زدہ ہے، کیونکہ ہمارے پاس ان کو روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے!

انہوں نے تسلیم کیا کہ اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے اور یمنی حملوں کی وجہ سے ہمارے بحری بیڑے، بندرگاہیں اور تجارت تک متاثر ہوئی ہے اور ہم انہیں نہیں روک سکتے! واضح رہے کہ تل ابیب پر یمن کے حملے کئی مقاصد کے تحت جاری ہیں۔ مثال کے طور پر لبنانی محاذ کے بند ہونے اور شام کے زوال کے ساتھ ہی محور مقاومت کی جنگی طاقت کو برقرار رکھنے اور صیہونی آباد کاروں کے عدم تحفظ کو بڑھانا ضروری ہے۔

دوسرا یہ کہ صیہونی دشمن اپنے جھوٹے دعوے کے مطابق عراق اور یمن سے ہوتے ہوئے ایران تک پہنچنے کے لئے تیزی سے کوشش کر رہا ہے، لیکن اسے یمن نامی ایک مضبوط رکاوٹ کا سامنا ہے۔ یمن کے بارے میں تہران کا نقطہ نظر عالمی صہیونی اتحاد کے مقابلے اسٹریٹجک ہے۔ یمن کے حملوں نے صیہونی فتنے کے قلب میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے اور دوسری طرف بحیرہ احمر اور بحر ہند میں نئے تعینات ہونے والے امریکی بحری بیڑے کو سخت چیلنج کیا ہے۔

دو سو صیہونی بحری جہازوں پر حملہ

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت میں یمن کے بہادروں نے یکے بعد دیگرے 200 سے زائد صہیونی بحری جہازوں کو ناکارہ بنا دیا ہے جو صیہونی رجیم کو گولہ بارود اور رسد فراہم کرتے تھے۔ آج یمنی میزائلوں کی رینج دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہو چکی ہے اور کسی بھی دفاعی نظام کی رکاوٹ سے گزر سکتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں صیہونی فوج نے امریکی Centcom کے تعاون سے یمن کے راس العیسیٰ، بندر السلف، بندر الحدیدہ میں تیل کی تنصیبات، پاور پلانٹس، میزائل ڈپو اور انصار اللہ کے تربیتی اڈوں کو نشانہ بنایا جس کے جواب میں یمنی مجاہدین نے مقبوضہ تل ابیب پر کئی بار بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا۔ یمنی مزاحمت کی میزائل پاور نے صیہونی رجیم کو مایوس کن صورت حال میں ڈال دیا ہے۔

یمن کے مقابلے میں صہیونی رجیم کی بے بسی

اسرائیل کاٹز" نے اس ہفتے یمن کے تیسرے میزائل حملے کو گھبراہٹ اور بے بسی کے ساتھ قابض رجیم کی سلامتی کے خلاف کارروائی قرار دیا۔ یمن سے نمٹنے کے لیے صیہونیوں کی بے بسی نے بہت سے صہیونی تھنک ٹینکس اور صحافیوں کو یمنی چیلنج پر قابو پانے کے لیے لکھنے اور حل تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یروشلم پوسٹ نے ایک مضمون میں یمنی مزاحمت کے خطرے سے نمٹنے کے لئے عالمی علاقائی اتحاد کی تشکیل اور ایران پر براہ راست حملے کی تجویز دی ہے۔

صیہونی آرمی ہرزی ہالیوی نے بھی مقبوضہ فلسطین پر یمن کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاریوں میں اضافے پر زور دیا ہے۔ بی بی سی انگلش کے تجزیہ نگار مسعود الفاک کا بھی خیال ہے: اسرائیل اور یمن کے درمیان موجودہ جنگ حوثیوں کو ختم کرنے کی جنگ کے بجائے دہشت گردی کے توازن کی جنگ ہے۔ اور یہ یمن کے ساتھ تنازع میں اسرائیل کے لیے سب سے اہم چیلنج ہے اور عرب ممالک بھی یمن سے نمٹنے کے لیے تعاون کے لیے تیار ہیں۔

یمن کی مزاحمتی طاقت میں شہید سلیمانی کا کردار

آج یمن کی عسکری بالادستی یمنیوں کے عزم، ہمت اور حوصلے کے علاوہ شہید قاسم سلیمانی کی رہنمائی اور مدد کا نتیجہ ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی برسی قریب ان کے یمنیوں کو طاقتور بنانے کے سلسلے میں ادا کئے گئے کردار کے بارے میں چند سطریں لکھنا بے جا نہ ہوگا۔

مزاحمتی محور کے عظیم شہید حاج قاسم سلیمانی نے مزاحمتی قوتوں کی رہنمائی اور اتحاد میں ایک غیر معمولی کردار ادا کیا۔ حاج قاسم سے متاثر مزاحمتی قوتوں میں سے ایک یمنی انصاراللہ تھی۔ یمنی عوام شہید حاج قاسم سلیمانی کو امریکی اور صیہونی دشمنوں کے خلاف جنگ میں ملت اسلامیہ کا شہید سمجھتے ہیں۔ یمن کی تحریک انصاراللہ کے سربراہ عبدالملک بدر الدین الحوثی نے حاج قاسم کی شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر ایک خط میں لکھا ہے: شہید سلیمانی اعلیٰ درجے کی بصیرت، ہوشیاری، اخلاص، لگن اور عاجزی کے مالک تھے۔

اس تحریک کے رکن فضل ابو طالب نے کہا: امت اسلامیہ کے شہید حاج قاسم سلیمانی ہمیشہ صہیونی دشمن کے مقابلے میں یمنی عوام اور مجاہدین کے حامی تھے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حملوں کے مقابلے میں شہید سلیمانی نے ہماری مدد کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ کیونکہ امریکہ اور صیہونی رجیم کو یمن کو تباہ کرنا چاہتی تھیں[5]۔

شہید قاسم سلیمانی، امن کے معمار اور دہشت گردی کے خلاف معرکے کے فاتح جنرل

شہید قاسم سلیمانی نے داعش کو شکست دے کر مشرق وسطی میں استکباری طاقتوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنادیا۔ مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، الناز رحمت نژاد: امام خمینی (رح) کی عالمی پیغام رسانی کے اہم نکات میں سے ایک یہ تھا کہ خطے کے مسلمانوں کی آزادی غیر ملکی طاقتوں کو نکالنے اور بدامنی کی جڑیں ختم کرنے سے مشروط ہے۔ شہید قاسم سلیمانی نے امام خمینی اور رہبر معظم انقلاب کے افکار سے متاثر ہو کر یہ فیصلہ کرلیا کہ خطے میں امن و استحکام لانے کے لیے ان چیلنجز سے نمٹنا اور بدامنی کی جڑوں کو ختم کرنا ضروری ہے۔

شہید قاسم سلیمانی اولین فوجی کمانڈر تھے جو شام اور عراق کی حکومتوں کی درخواست پر انتہائی خطرناک محاذوں پر پہنچے۔ اپنی عسکری حکمت عملی سے انہوں نے خطے کی اقوام کو اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیا؛ مختلف ممالک میں مقاومتی محاذ کو فعال کیا اور ایک نئی حکمت عملی کے ذریعے امریکی منصوبوں کو ناکام بنایا۔

انہوں نے امریکی اور صہیونی حمایت یافتہ تکفیری دہشت گردوں کو شکست دی؛ موصل کی آزادی ممکن بنائی؛ داعش کا خاتمہ کیا اور خطے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے عوام کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں۔ شہید بیت المقدس قاسم سلیمانی نے خطے میں امن و سلامتی کے قیام، تکفیری دہشت گردی کے خاتمے، داعش کی ایران کی سرحدوں سے دوری، امریکہ کے منصوبوں کی شکست اور مزاحمت کے محور کو مضبوط و وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے بارے میں رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: "وہ بین الاقوامی سطح پر مقاومت کا عملی نمونہ تھے۔

شہید جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر مہر خبررساں ایجنسی کی جانب سے ہفتۂ مزاحمت اور عالمی یومِ مزاحمت کے عنوان سے ایک خصوصی رپورٹ پیش کی جارہی ہے جس میں علاقائی اور عالمی سلامتی میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کے کردار کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ اس کئی قسطوں پر مشتمل رپورٹ میں مشرق وسطی میں جاری بحران میں امریکہ اور اس اتحادیوں کے کردار، خطے میں مقاومتی بلاک کی تشکیل اور توسیع، داعش کی نابودی، امریکی منصوبوں کی شکست، علاقائی ممالک کے درمیان اتحاد اور بھائی چارگی کا فروغ، خطے میں نئے سیاسی اتحاد کی تشکیل اور علاقائی امن و سلامتی میں سردار سلیمانی کے کردار پر روشنی ڈالی جائے گی۔

عراق میں اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودگی امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھائی

عراق میں اسلامی جمہوریہ ایران کا کردار بڑھنے سے مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کو سکون چھن گیا۔ ایران کے خلاف 8 سالہ جنگ کے بعد صدام کا کویت پر حملہ اور اس کا قبضہ، 11 ستمبر 2001 کے واقعات، اور خطے میں تبدیلیوں نے مغربی ایشیا کے حالات کو بدل دیا۔ اس دوران مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کے لئے صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراق میں نئے حالات پیدا ہوگئے جہاں شیعہ قیادت کو مستقبل کی حکومت میں اہم مقام ملنے لگا۔ ایران کا عراق کے معاملات میں بڑھتا ہوا کردار ان کے لیے ناقابلِ قبول تھا کیونکہ یہ تبدیلیاں ان کے منصوبوں کے خلاف تھیں۔

عراق پر قبضے کے ابتدائی مہینوں میں امریکہ نے ایسے اقدامات کیے کہ وہ حالات کو اپنی مرضی کے مطابق بدل سکے۔ ان میں سب سے اہم عراق میں شیعہ حکومت کو روکنا یا کمزور کرنا تھا۔ امریکہ نے عراق میں اپنی حکمت عملی کے تحت اس کے مخصوص حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اس نے سیاسی، ثقافتی، مذہبی، اور اقتصادی مسائل غلط فائدہ اٹھایا تاکہ عراق کو اپنے ایجنڈے کے مطابق ڈھال سکے۔ اس مذموم مقصد کے تحت فرقہ وارانہ اختلافات کو بڑھاوا دیا یگا اور شیعہ مخالف عناصر کو منظم کیا گیا۔

شیعہ حکومت کے خلاف سازشیں اور دہشت گرد گروہوں کی تشکیل

اس منصوبے کے تحت امریکہ نے سعودی عرب جیسے ہمسایہ ممالک کی مدد سے شیعہ مخالف گروہوں کو مالی اور عسکری مدد فراہم کی۔ انہوں نے مختلف دہشت گرد گروہوں کو قائم کیا تاکہ عراق میں شیعہ حکومت کے قیام کو روکا جاسکے یا کمزور کیا جاسکے۔ یہ تمام اقدامات عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور خطے میں اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے کیے گئے۔ تاہم ان پالیسیوں نے عراق اور پورے خطے میں بدامنی اور انتشار پیدا کیا، جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔

یہ دہشت گرد گروہ، جو سلفی اور تکفیری عقائد اور اسلام کے بارے میں خاص نظریات کے ساتھ سرگرم تھا، عرب ممالک کی حکومتوں کی مالی اور تشہیری مدد، اور علاقائی و عالمی طاقتوں کی سیاسی و لاجسٹک حمایت سے عراق اور دیگر عرب ممالک میں ابھرا۔ اس گروہ نے تیزی سے اپنی سرگرمیوں کو بڑھاتے ہوئے کئی شہروں پر قبضہ کر لیا اور بغداد کی سرحدوں تک پہنچ گیا۔ انہوں نے عراق اور شام میں داعش کے نام سے ایک نام نہاد اسلامی حکومت قائم کرنے کا دعوی کیا۔

10 جون 2014 کو موصل پر قبضے کے بعد مغربی ایشیا کی اقلیتی برادریوں، خصوصاً کرد، ترکمن، ایزدی، اور آرمینیائی مسیحیوں کے درمیان داعش کے ظلم و بربریت کو دیکھ کر خوف پھیل گیا۔ مغربی اور عرب ممالک کے حمایت یافتہ دہشت گرد عناصر کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے اقلیتی برادریوں کو اپنی حفاظت کے لیے کوششیں کرنے پر مجبور کیا، لیکن ہر دن نئے جنگجوؤں کی یورپ اور عرب ممالک سے آمد اور عرب بادشاہتوں کی مدد نے ان سے مقابلہ مزید مشکل بنادیا۔

چند مہینوں میں بغداد سقوط کے قریب پہنچ چکا تھا اور یہ لگ رہا تھا کہ پورا عراق اور شام اس خونی اور وحشی گروہ کے قبضے میں آ جائے گا۔ عراق اور کردستان کے حکام کی مدد کی درخواستوں کے باوجود مغربی ممالک حتیٰ کہ امریکہ نے بھی ان کی مدد سے منہ موڑ لیا۔ یہ واضح ہو گیا کہ داعش کے ذریعے خطے کا جغرافیائی و سیاسی نقشہ بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ وہ مقصد تھا جو امریکہ اور اس کے اتحادی عراق اور افغانستان پر حملوں کے ذریعے حاصل نہیں کر سکے تھے لیکن اب وہ اسے داعش کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے تھے۔

شہید قاسم سلیمانی کا فیصلہ کن اقدام

مشکل کی اس گھڑی میں صرف اسلامی جمہوریہ ایران نے فوری اور مؤثر جواب دیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور خاص طور پر سپاہ قدس کے عظیم کمانڈر شہید قاسم سلیمانی نے اس دہشت گرد گروہ کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کیے اور ان کی پیش قدمی کو روک کر خطے کو بڑی تباہی سے بچایا۔

سردار سلیمانی کی کامیاب حکمت عملی اور ذہانت نے نہ صرف داعش کو شام اور عراق میں شکست دی بلکہ امریکہ اور عرب بادشاہتوں کی بھرپور حمایت کے باوجود اس گروہ کی طاقت کو کمزور کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سردار سلیمانی کے ہاتھوں ہونے والی شکستوں کا بدلہ لینے کے لیے دہشت گردوں کے حامی امریکہ اور خاص طور پر ٹرمپ کی قیادت میں 3 جنوری کو ایک بزدلانہ، وحشیانہ اور ظالمانہ حملے میں جنرل سلیمانی کو شہید کردیا گیا۔

امریکہ کا یہ دہشت گردانہ اقدام ایک بار پھر یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ کا دہشت گردی کے خلاف جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ خود دہشت گردی کا منبع اور عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ انتہائی وثوق کے ساتھ یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ مغربی ایشیا مختلف مفادات اور خواہشات کے ٹکراؤ کا مرکز ہے۔ جہاں سے عالمی جنگوں، تشدد اور بڑی تبدیلیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ شہید جنرل سلیمانی کے تاریخی کارنامے خاص طور پر سب سے بڑے اور وحشی دہشت گرد گروہ کی شکست میں ان کے کردار کو ایران کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔

شہید قاسم سلیمانی نے کئی بار شہادت کے قریب پہنچ کر اپنے عزم اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ واضح طور پر امریکہ کا یہ اقدام اس کے احساس شکست کا نتیجہ تھا جو وہ مقاومتی بلاک، اسلامی جمہوریہ ایران اور شہید قاسم سلیمانی کی بہادری کے سامنے محسوس کر رہا تھا۔

شہید سلیمانی انسانیت کا عظیم نمونہ ہیں جو مظلوموں اور کمزوروں کے حق میں جدوجہد کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کے اثرات ایران اور اسلامی دنیا کی سرحدوں سے بہت آگے تک پھیل گئے ہیں۔ چنانچہ رہبر معظم نے فرمایا کہ شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کو ایک مکتب فکر، ایک راستہ اور ایک نظام کے طور پر دیکھنا چاہیے تاکہ اس کی حقیقی قیمت اور اہمیت کو سمجھا جاسکے۔

مغربی ایشیا کی کثیر الجہتی اہمیت

مغربی ایشیا جیوپولیٹک، جیواسٹریٹیجک، جیواکنامک اور جیوکلچرل حوالے سے دنیا کے لیے اہم اور حساس ہے کیونکہ یہ خطہ مفادات کے تصادم کا مرکز ہے۔ اس وجہ سے یہاں جنگوں، تشدد اور عالمی تبدیلیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ سے یہ خطہ امن، استحکام اور سلامتی کے حوالے سے نہ صرف علاقائی ممالک کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم رہا ہے۔

گذشتہ صدیوں اور دہائیوں میں عالمی طاقتوں کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ اس علاقے پر تسلط اور غلبہ حاصل کیا جائے جس کے نتیجے میں یہاں کی بہت سی ناامنیوں، تشدد اور جنگوں کی جڑیں ان غیر علاقائی ممالک کی مداخلت میں پنہاں ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں علاقے کی جغرافیائی سیاسی تبدیلی کے ساتھ ہی یہاں کے امن و سلامتی کو مختلف سازشوں کا نشانہ بنایا گیا۔

ان سازشوں کے خلاف مختلف مزاحمتی محاذوں نے جنم لیا، جیسے اسلامی بیداری کی تحریک (عرب بہار) جو مختلف وجوہات کی بناپر ناکام یا حقیقی ہدف سے دور ہوئی تاہم ان تحریکوں نے سازشی عناصر کو زیادہ ہوشیار کردیا۔ اس کے نتیجے میں دشمنوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور دہشت گردی اور شدت پسندی کے گروپوں کو تشکیل دیا، جس سے علاقے میں ایک نیا چیلنج پیدا ہوگیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران اس سازش کی تکمیل میں سب سے اہم رکاوٹ کے طور سامنے آیا۔ ایرانی رہنماؤں خاص طور پر شہید جنرل قاسم سلیمانی نے ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا[6]۔

گیلری

حوالہ جات