حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور

ویکی‌وحدت سے
حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور

حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور پاکستان کے شہر لاہور میں ساٹھ سال سے قائم پاکستان بھر میں اہل تشیع کی سب بڑی دینی درسگاہ ہے۔ اس کی تاسیس 1954ء میں ہوئی۔

تاسیس

سید صفدرحسین نجفی نے مرحوم اختر عباس نجفی کے ساتھ مل کر اس جامعہ کی بنیاد رکھی اور لوگوں کو اس کام کی طرف توجہ دلائی ۔ شیخ محمد طفیل کو اس عظیم کام کے آغاز کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس وقت کے لاہور کے اہم علاقہ موچی دروازہ میں حسینیہ ہال ایک سو روپے ماہوار کرایے پر حاصل کیا گیا۔ 1956ء میں ادارہ رجسٹرڈ کرایا گیا۔ 1958ء میں ایک عمارت محلہ داراشکوہ میں خریدی گئی مگر محکمہ اوقاف سے تنازع کی بنا پر استعمال میں نہ لائی جا سکی۔

دسمبر 1960ء میں دارالشریعہ وسن پورہ 32 ہزار روپے میں خریدا گیا۔ 1965 ء میں جامعۃ المنتظر کا ٹرسٹ تشکیل پایا۔ 1969 ء میں سید محمد حسین نقوی، شیخ غلام حسین اور جناب محمد عباس مرزا کی کاوشوں سے حسینی ٹرسٹ ماڈل ٹاؤن نے ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن میں 21 کنال سے زائد رقبہ جامعۃ المنتظر کے لیے وقف کیا اس طرح دونوں ٹرسٹ، باہمی انضمام سے خدمت دین و تعلیمات اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت کے لیے یکجا ہو گئے۔

مبلغین

ان ساٹھ برسوں میں جہاں اس حوزہ علمیہ نے ہزاروں کی تعداد میں علما اور مبلغین قوم کو فراہم کیے وہیں ساتھ ساتھ شیعہ مطالبات کمیٹی سے لے کر وفاق علماء شیعہ پاکستان تک۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان سے لے کر تحریک جعفریہ پاکستان تک اسلامی تحریک پاکستان سے لے کر جعفریہ کونسل تک جملہ اداروں کو وسیع بنیادیں فراہم کیں۔ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور امامیہ آرگنائزیشن کے تئین بھی اس کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ [1]

شہدائے خدمت کی یاد میں مجلسِ ترحیم

آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی شہادت سے انقلابِ اسلامی کو تقویت ملی، علامہ محمد افضل حیدری

حوزہ/حوزہ علمیہ جامعتہ المنتظر ماڈل ٹاون میں ایران کے شہید صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان اور دیگر ساتھیوں کی یاد میں مجلس تجلیل و ترحیم برائے بلندی درجات شہدائے خدمت منعقد کی گئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ جامعۂ المنتظر ماڈل ٹاون میں ایران کے شہید صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان اور دیگر ساتھیوں کی یاد میں مجلس تجلیل و ترحیم برائے بلندی درجات شہدائے خدمت منعقد کی گئی، جس میں ایرانی قونصل جنرل سمیت اہم شخصیات نے شرکت کی۔

مجلس سے خطاب کرتے ہوئے وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری نے کہا کہ آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی شہادت نے انقلابِ اسلامی کو کمزور نہیں کیا، بلکہ اسے تقویت دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاستدان کی نظر آئندہ الیکشن تک، جبکہ رہبرِ انقلابِ اسلامی کی نظر آئندہ نسلوں تک ہوتی ہے۔ بانی انقلابِ اسلامی امام خمینی سیاستدان نہیں رہبر تھے۔ امریکہ جتنی کوشش کر لے انقلابِ اسلامی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ امام خمینی کے بعد آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای اور ابراہیم رئیسی انقلابِ اسلامی کے مشن کو لے کر چلے، اب مزید سینکڑوں خمینی پیدا ہو چکے ہیں۔

قونصل جنرل ایران آغا موحد فر

قونصل جنرل ایران آغا موحد فر نے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی حکومت اور عوام کا شہید ابراہیم رئیسی کی شہادت پر تعزیت اور ہمدردی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ صدر جمہوری اسلامی نے اپریل میں اپنے دورے کے دوران لاہور آمد کا پروگرام رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے مشورے سے بنایا، کیونکہ مشہور ہے کہ جس نے’ لاہور نہیں دیکھا وہ گویا پیدا ہی نہیں ہوا۔ ابراہیم رئیسی نے کہا تھا کہ انہیں لاہور میں اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں شہید صدر کا استقبال کیا گیا اور اپنی تقریر میں انہوں نے غزہ میں ہونے والے مظالم پر پاکستان اور ایران کے مشترکہ مؤقف کا اظہار کیا۔ ابراہیم رئیسی کی پالیسی ہمسایہ مسلم ممالک سے بہتر تعلقات تھے۔ ہم رئیسی کی پالیسی کو جاری رکھیں گے۔

ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران اصغر مسعودی

ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران اصغر مسعودی نے کہا کہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی عاشق اور مدافع قرآن تھے، جب کچھ ممالک میں قرآن مجید جلانے کی ناپاک جسارت کی گئی تو ابراہیم رئیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرآن مجید کو بوسہ دے کر عالمی سطح پر پیغام دیا کہ مسلمان کلام الٰہی سے کس قدر محبت کرتے ہیں اور واضح کیا کہ دین اسلام اور قرآن ہمیشہ رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابراہیم رئیسی ایران کے صدر اور چیف جسٹس بھی رہے، مگر وہ ہمیشہ آٹھویں تاجدار امامت حضرت امام رضا علیہ السلام کے خادم ہونے پر فخر کرتے اوران کی خوش قسمتی دیکھیں کہ انہیں مزار اقدس کے صحن میں دفن ہونے سے امام کے قدموں میں جگہ ملی۔

مولانا محمد حسن نقوی

مولانا محمد حسن نقوی نے کہا کہ اسلامی انقلاب کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔ دفاع اسلام، قرآن اور مسلمان پر سیاست مشتمل ہے۔ ابراہیم رئیسی بچپن کے بعد جوانی میں انقلاب میں قدم رکھ چکے تھے۔

مجلس تجلیل و ترحیم سے مولانا محمد باقر گھلو، علامہ اظہر شیرازی، مولانا حسنین موسوی، حافظ کاظم رضا نقوی، مولانا غلام مصطفی نیر، چیئرمین تحریک وحدت اسلامی صاحبزادہ پرویز اکبر ساقی اور سابق چیئرمین امامیہ آرگنائزیشن لعل مہدی خان نے بھی خطاب کیا، جبکہ علامہ مرید حسین نقوی، قاسم علی قاسمی اور دیگر بھی شریک ہوئے[2]۔

حوالہ جات