مندرجات کا رخ کریں

نمر باقر النمر

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 20:41، 12 اکتوبر 2025ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (Saeedi نے صفحہ مسودہ:باقر النمر کو باقر النمر کی جانب منتقل کیا)
نمر باقر النمر
دوسرے نامآیت اللہ شہید شیخ باقر النمر
ذاتی معلومات
پیدائش1959 ء، 1337 ش، 1378 ق
پیدائش کی جگہقطیف سعودی عرب
وفات2016 ء، 1394 ش، 1436 ق
یوم وفات2 فروری
وفات کی جگہسعودی عرب
مذہباسلام، شیعہ
مناصبسعودی عرب شیعوں کا رہبر

باقر النمرسعودی عرب کے ایک شیعہ عالم دین تھے۔ 1959ء کو سعودی عرب میں پیدا ہوئے۔ ان کی گرفتاری اور پھر پھانسی کے باعث شیعہ اور سنی حکومتوں میں سفارتی تلخیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ نمر باقر النمر نواجونوں میں خاصے مقبول اور سعودی شاہی خاندان اور حکومت کے نقاد تھے۔ ان کے مطالبات میں سعودی عرب میں شفاف انتخابات کرانا بھی شامل تھا۔ انھیں 2006ء میں گرفتار کیا گیا، اپنی گرفتاری کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ اس وقت انھیںزدوکوب بھی کیا گیا۔ 2009ء میں انھوں نے سعودی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ اگر سعودی عرب میں شیعوں کو حقوق نہیں ملتے تو مشرقی صوبوں کو علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے۔ اس کے جواب میں سعودی حکومت نے النمر اور 35 دیگر افراد کو گرفتار کر لیا۔ سنہ 2011ء اور 2012ء میں سعودی عرب میں ہونے والی کشیدگی کے دوران میں نمر نے مظاہرین کو کہا کہ وہ پولیس کی گولیوں کا جواب تشدد کی بجائے الفاظ کی گرج سے دیں۔ انھوں نے کشیدگی بڑھنے کی صورت میں تصادم کی پیش گوئی بھی کر دی تھی۔ دی گارڈین اخبار نے النمر کو اس شورش کے سربراہ کے طور پر ذکر کیا ہے۔ 8 جولائی 2012ء کو پولیس نے ان کی ٹانگ میں گولی ماری اور گرفتار کر لیا۔ پولیس کا دعوی ہے کہ گولیوں کے تبادلے میں گولی نمر کی ٹانگ میں لگی۔ پولیس نے ہزاروں افراد کے اس ہجوم پر بھی فائر کھول دیا جو نمر کی گرفتاری پر احتجاج کر رہا تھا۔ اس فائرنگ سے دو افراد اکبر الشخوری اور محمد الفلفل، ہلاک ہو گئے۔ النمر نے بھوک ہڑتال کر دی اور کہا کہ ان پر تشدد کیا جا رہا ہے اشرق سنٹر فار ہیومن رائٹس نے نمر کی بھوک ہڑتال پر 21 اگست کو اپنے تحفظات کا اظہار کیا، نیز انھوں نے نمر تک اُن کے خاندان کی رسائی کے لیے عالمی سطح پر کوششیں بھی کیں۔

15 اکتوبر 2014ء کو خصوصی جرائم کی عدالت نے انھیں سعودی عرب میں دوسرے ملک کے اشارہ پر مداخلت کرنے، حکمران کی حکم عدولی اور سیکورٹی افواج کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے جرم میں سزائے موت کی سزا سنائی، اسی دن اُن کے بھائی محمد النمر کو سزائے موت کی معلومات ٹویٹ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ بعد ازاں 2 جنوری 2016ء کو النمر کو 46 دیگر افراد کے ساتھ سزائے موت دے دی گئی۔ ان کی سزائے موت ایران اور مشرق وسطیٰ کے اہل تشیع نیز مغربی ممالک اور مسلک پرستی پر یقین نہ کرنے والے سنی افراد نے مذمت کی۔ سعودی حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ نمر کی نعش ان کے خاندان کے حوالے نہیں کی جائے گی۔

سوانح عمری

شہید آیت اللہ شیخ باقر آلنمر 1379 ہجری بمطابق 1968ء عیسوی صوبہ قطیف کے شہر العوامیہ میں ایک علمی اور دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کے چچا آیت اللہ شیخ محمد بن ناصر آل نمر رحمہ اللہ اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے اور اس خاندان میں کئی نمایاں علماء و ذاکرین ہوگذرے ہیں جن میں ان کے دادا الحاج علی بن ناصر آل نمر قابل ذکر ہیں۔

تعلیم

انھوں نے ابتدائی تعلیم العوامیہ میں مکمل کرنے کے بعد سنہ 1400ھ (1989ء) کو انقلاب اسلامی کو بہتر سمجھنے اور اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کی غرض سے اسلامی جمہوریہ ایران ہجرت کی اور تہران کے حوزہ علمیہ حضرت قائم(عج) میں حاضر ہوئے جو اسی سال آیت اللہ سید محمد تقی مدرسی نے تاسیس کیا تھا۔

شیخ باقر النمر نے حوزہ علمیہ حضرت قائم (عج) میں 10 سال تک تعلیم جاری رکھی اور اس کے بعد شام میں حوزہ علمیہ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا پہنچے اور وہاں تعلیم جاری رکھی۔ انھوں نے اصول الفقہ میں اصول المظفر، رسائل شیخ انصاری اور آخوند خراسانی کی کتاب کفایۃ الاصول کے ساتھ ساتھ علم فقہ میں شہید اول کی کتاب اللمعۃ الدمشقیہ، خوانساری کی کتاب جامع المدارک، شیخ انصاری کی کتاب المکاسب اور سید حکیم کی کتاب مستمسک عروۃ الوثقی مکمل کرلی۔

انہوں نے اس عرصے میں کئی نامور ایرانی، عراقی، شامی اور افغانی علما سے فیض حاصل کیا اور مشہد میں بھی کافی عرصے تک آیت اللہ شیرازی کے درس میں حاضر ہوئے جبکہ قم میں بھی درس اخلاق کے مراتب طے کیے جس کے بعد انھیں علمی مراکز میں تدریس کی اجازت مل گئی۔

تدریس

آیت اللہ نمر باقر النمر حوزات علمیہ کے نمایاں ترین اساتذہ میں شمار ہوتے تھے اور ایران اور شام میں بھی لمعہ، جامع المدارک، مستمسک العروۃ الوثقی اور شہید آیت اللہ محمد باقر الصدر کی کتاب الحلقات کی تدریس کرتے رہے اور کئی سالوں تک تہران اور دمشق میں حوزہ علمیہ حضرت قائم(عج) کے منتظم رہے اور ان مراکز کی ترقی میں شاندار کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

علمی خدمات

انھوں نے سعودی عرب جاکر العوامیہ میں مذہبی مرکز "الامام القائم (عج)" کی بنیاد رکھی اور اس مرکز کا سنگ بنیاد 2001ء میں رکھا گیا۔ اخلاقی حوالے سے نہایت اعلیٰ خصلتوں کے مالک ہیں اور دینی اقدار کے تحفظ کے حوالے سے کسی قسم کی سودے بازی کے قائل نہیں ہیں اور یہ خصلتیں آل سعود کی فاسد اور ظالم ملوکیت کے خلاف ان کی جہادی تحریک میں نمایاں ہیں۔

آیت اللہ نمر سعودی عرب کے اندر اور خطے کی سطح پر گرد و پیش کے حالات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں جس کے باعث ان کا نظریہ علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے حوالے سے مدلل تجزیئے پر مبنی ہے اور وہ خود کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ قرآن اور اہل بیت (ع) کے ساتھ مسلسل تعلق کا نتیجہ ہے۔

آیت اللہ نمر سعودی عرب کے اندر اور خطے کی سطح پر گرد و پیش کے حالات کا بخوبی ادراک رکھتے تھے جس کے باعث ان کا نظریہ علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے حوالے سے مدلل تجزیئے پر مبنی تھا اور وہ خود کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ قرآن اور اہل بیت(ع) کے ساتھ مسلسل تعلق کا نتیجہ ہے۔

آلِ سعود کے بارے میں شہید آیت اللہ نمر باقر النمر کے خیالات

  • نجد و حجاز اور مشرق و جنوب پر ایک صدی سے مسلط آل سعود نامی خاندان کی ملوکیت پورے ملک میں منظم فرقہ وارانہ امتیازات پر استوار ہے اور خاص طور پر الشرقیہ کے دو علاقوں الاحساء اور القطیف کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
  • میں کلمۂ حق کے اظہار سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوتا خواہ سعودی خاندان مجھے گرفتار کرے، خواہ مجھے تشدد کا نشانہ بنائے اور اذیت و آزار دے اور حتی مجھے شہید کردے۔
  • ہم آل سعود کی طرف سے عوام اور بالخصوص شیعیان آل رسول(ص) کی عزت و حیثیت پر تجاوز اور انہیں تمام شہری حقوق سے محروم کرکے انہیں دوسرے درجے کے شہریوں کا درجہ دیئے جانے کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور ہم اس ملک میں رہنے والے شیعیان آل محمد (ص) کا بہرصورت، تحفظ کریں گے۔
  • میں آل سعود کے خلاف جدوجہد کے اگلے مورچے میں خود ہی بیٹھا ہوا ہوں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ جدوجہد کے بغیر کسی مقصد تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اور مقاصد کے حصول کے لئے ایثار اور شجاعت وجہاد کی ضرورت ہے؛ اور ہم پرامن جدوجہد پر اصرار کرتے ہیں کیونکہ ہمارے خیال میں مسلح تحریک کبھی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا کرتی، اور ملک میں عدل و انصاف قائم نہیں ہوا کرتا اور ملک کے باشندے حریت کے ساتھ نہيں جی سکتے؛ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے خطبہ جہاد میں بھی زور دیا گیا ہے کہ عدل جہاد کے سوا قائم نہیں کیا جاسکتا اور حق ایثار، جہاد اور شجاعت کے بغیر نہیں لیا جاسکتا۔
  • شیعیان آل رسول(ص) آل سعود کے ظلم و تجاوز کے سامنے خاموش نہيں رہیں گے؛ اے آل سعود! ہم خاموش نہیں رہیں گے، تم جو ظلم بھی چاہو ہم پر روا رکھو، جو بھی چاہتے ہو کرو اور ہماری شخصیت اور ہماری حیثیت کو پامال کرو۔
  • سعودی عرب کے تمام ذرائع ابلاغ اور اخبارات و جرائد آل سعود سے وابستہ ہونے کی وجہ سے حکمران خاندان کی تشہیری مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور ان کا رویہ آزاد صحافت سے کوسوں دور ہے۔
  • سعودی مفتی آل سعود کے بنے بنائے افراد ہیں؛ سعودی حکام انہیں پیسہ دیتے ہیں تاکہ وہ فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دے کر شیعہ اور سنی مسلمانوں کو آپس میں الجھائے رکھیں اور یوں سعودی شہزادے پورے چین و سکون کے ساتھ ملکی وسائل لوٹتے رہیں۔
  • اے آل سعود! میں جاتنا ہوں کہ آج نہیں تو کل مجھے گرفتار کرنے کے لئے آؤ گے؛ میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں کیونکہ تمہاری منطق ہی یہی ہے : " گرفتاری، ٹارچر اور قتل و غارت"۔ لیکن ہم قتل و غارت سے نہيں ڈرتے، ہم کسی بھی مصیبت سے نہيں ڈرتے۔
  • اگر آل سعود کے حکام ہمیں پرامن مظاہروں کی مخالفت کرتے ہيں اور دھرنوں پر پابندی لگاتے ہیں تو ہم اپنا احتجاج جاری رکھنے کے لئے نئے نئے راستے اختیار کریں گے اور اپنے جائز حقوق لے کر رہیں گے۔ اور مظاہرے اور دھرنے ہمارے احتجاجی طریق کار کا ایک ہی جز ہے۔

ثقافتی سرگرمیاں

النمر 2008ء یا پہلے سے ہی العوامیہ میں شیعہ شیخ تھے۔ انھوں نے 10 سالتہران اور سوریہ میں تعلیم حاصل کی۔ وہ پہلے آیت اللہ محمد حسین شیرازی اور پھر بمطابق 2008، آیت اللہ Mohammad Taqi al-Modarresi کی تقلید کرتے رہے۔ یہ دونوں شیعہ عالم ایران اور عراق میں چلنے والی شیعہ تحریکوں کے اہم ترین رہنماؤں میں سے تھے اور انھوں نے عراق اور ایران کی شیعی سیاسی نظریات میں اپنا اہم ترین کردار ادا کیا – اور آیت اللہ محمد حسین شیرازی نے ” فقہا اسلامی کی حکومت ” کا نظریہ پیش کیا تھا جو آیت اللہ خمینی کے ” ولایت فقیہ” سے ملتا جلتا تھا لیکن اس میں فقہا ہی پارلیمنٹ تشکیل دیتے ہیں اور ان کا انتخاب عوام کرتے ہیں۔

بمطابق 2008 میں وہ Eastern Province کی شیعہ کمیونٹی کے دونوں سیاسی گروپوں Islahiyyah (شیرازی) اور Hezbollah Al-Hejaz (سعودی حزب اللہ) سے آزاد ہو گئے۔۔ نمر عوامیہ میں 2009ء یا اس سے بھی پہلے سے نماز جمعہ کی امامت بھی کراتے تھے۔

ان کے وطن کی علاقائی اہمیت

نمر باقر النمر سعودی عرب کے مشرقی صوبے عوامیہ سے تعلق رکھتے تھے، اس صوبے کا دار الخلافہ ” دمام ” ہے اور اس صوبے کا واحد سمندری راستہ خلیج فارس سے ملتا ہے جہاں سے ایران سے اس کی سرحد ملتی ہے جبکہ پانچ ملکوں سے اسی صوبے کی زمینی سرحد ملتی ہے اور وہ ہیں عراق، کویت، اومان، متحدہ عرب امارات اور قطر – یہیں پہ ” جسر فہد الملک ” ہے پلوں کا ایک سلسلہ جس سے بحرین اور عوامیہ کے درمیان میں لنک تعمیر کیا گیا ہے اور یہیں پر کنگ فہد انٹرنیشنل ائرپورٹ بھی ہے، عوامیہ صوبے کی ایک اور انتہائی اہمیت یہ ہے کہ اسی صوبے میں سعودی عرب کے تیل کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں اور یہیں پر سعودی عرب کی کیمیکل انڈسٹری بھی موجود ہے جو دنیا کی چند بڑی انڈسٹریز میں شمار ہوتی ہے۔ تو یہ صوبہ سٹریٹجک اور سعودی عرب کی مالیاتی ریڑھ کی ہڈی کہا جا سکتا ہے۔

شیعہ آبادی اور ان کی محرومیاں

سعودی عرب کے حاکم اس صوبے میں اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ شیعہ آبادی کو خیال کرتے ہیں جو اس صوبے کی اکثریتی آبادی ہے سعودی عرب کی تشکیل سے پہلے یہ علاقہ ”الاحصاء” کہلاتا تھا اور اس میں بحرین تک کا علاقہ شامل تھا – اور شیعہ آبادی کا مرکز اور ان کی سرگرمیوں کا ہیڈ کوارٹر ” القطیف ” ہے اور یہ سعودی کیمکل انڈسٹری، خلیج فارس اور آئل انڈسٹری کے درمیان میں گھرا ہوا ہے – شیعہ سعودی آبادی کا 15 فیصد ہیں اور ایک اندازے کے مطابق سعودی باشندوں میں 20 ملین باشندے شیعہ مذہب رکھتے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد مدینہ المنورہ اور مکّہ میں بھی آباد ہے۔

آل سعود کے جد ابن سعود جس نے سعودی عرب کی بنیاد رکھی نے 1913ء میں الاحصاء پر قبضہ کیا اور اس کا نام ” الشرقیہ عوامیہ ” رکھ دیا –یہ قبضہ حجاز، نجد اور یمن کے کچھ حصّوں پر قبضوں کی طرح ” پرامن قبضہ ” نہیں تھا بلکہ یہاں بھی بڑے پیمانے پر قبل و غارت گری، لوٹ مار ہوئی، عورتوں سے عصمت دری کی گئی، قطیف کو جلادیا گیا، شیعہ اور مذاہب اربعہ (سنّی مسالک اربعہ) کی عبادت گاہوں پر قبضہ کر لیا گيا اور وہاں پر ” وہابی علما ” مسلط کردئے گئے اور سوائے ” وہابیت ” کے باقی سب مسالک پر پابندی لگادی گئی

سیاسی تحریکیں

سعودی عرب کے مشرقی صوبے عوامیہ اور اس کے مرکز ” قطیف ” میں ” سعودی عرب ” کے خلاف ہمیشہ سے مزاحمتی تحریک موجود رہی ہے اور یہاں کے لوگوں میں سعودی حکومت کے ساتھ ٹکراؤ بھی موجود رہا ہے اور یہاں پر ” آل- سعود ” کے خلاف تحریک ایران میں شیعہ اسلامی انقلاب آنے سے بہت پہلے موجود تھی، اس تحریک مزاحمت کا واضح اور مکمل اظہار 1978ء میں ہوا جب قطیف میں 60 ہزار سے زائد شہریوں نے سعودی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے سے تحریک کا آغاز کر دیا

اور اس تحریک کا بنیادی مطالبہ سعودی عرب میں بادشاہت کا خاتمہ، پارلیمانی ڈیموکریسی کا احیاء اور مشرقی صوبے کی شہری آبادی کے حقوق پر لگی پابندیوں کو اٹھانا تھا، یہ احتجاج جب پھیلنے لگا تو شاہ فہد نے مشرقی صوبے کی احتجاجی عوام سے کوئی مذاکرات کرنے کی بجائے وہاں پر سعودی افواج کو بھجوادیا، زبردست کریک ڈاؤن ہوا، بڑے پیمانے پر گرفتایاں ہوئیں، ہلاکتیں بھی ہوئیں اور وقتی طور پر سیاسی مزاحمتی تحریک دب گئی اور اس کی جگہ پرتشدد اور مسلح مزاحمت نے لے لی۔

ایک تنظیم ” الثورۃ االسلامیہ ” سامنے آئی اور ایک ” حزب الحجاز ” سامنے آئی، ان کا مرکز کربلا عراق تھا اور عراقی شیعہ مراجع المدرسی شیرازی اس کے دماغ سمجھے جا رہے تھے لیکن 80ء کی دہائی میں 86ء کے قریب کنگ فہد نے ریفارمسٹ شیعہ لیڈروں سے مذاکرات شروع کیے اور شیخ سافر کی قیادت میں ایک گروہ سامنے آیا جس نے سعودی حکمرانون اور شیعہ آبادی کے درمیان میں تعلقات کو بہتر بنانے کے راستے پر سفر شروع کیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہیں رہا، اس دوران مشرقی صوبے کے اندر ” بادشاہت کے خلاف، انسانی حقوق کی بازیابی اور جمہوریت کے لیے تحریک میں شدت آگئی اور اس مرتبہ مشرقی صوبے عوامیہ کے اندر اس تحریک کی قیادت ایک اور شیعہ عالم نمر باقر النمر کے ہاتھ میں تھی ۔

سیاسی جد وجہد

اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ براہ کرم مضمون میں قابل اعتماد مآخذ کے حوالہ جات درج کرنے میں مدد کریں۔ بلا حوالہ مواد قابل اعتراض ہوتا ہے اس لیے ممکن ہے اسے حذف کر دیا جائے۔ شیخ باقر النمر 2000ء میں ” بہار عرب ” تحریک کے تناظر میں سعودی مشرقی صوبے میں جاری ہونے والے ” انتفاضہ ” کے سب سے مقبول لیڈرتھے۔

شیخ باقر النمر سعودی عرب میں پارلیمانی جمہوریت اور فقہا کی سینٹ سے مل کر بننے والے ایک مخلوط سیاسی نظام کی حمایت کرتے تھے، وہ سعودی بادشاہت کے خاتمے، اسلامی جمہوریہ حجاز کی تشکیل کے قائل تھے اور مشرقی صوبے کے عوام کی سیاسی، مذہبی، ثقافتی، معاشی آزادی کے علمبردار تھے وہ سعودی عرب کو امریکی سامراجی بلاک سے واپس لانے کے خواہش مند تھے شیخ باقر النمر عراق، ایران، شام اور ترکی میں شامل ” کرد” علاقوں کو ملا کر ” آزاد خود مختار کرد ریاست ” کے قیام کی حمایت کرتے تھے۔ اپنے نظریات کے اعتبار سے ان کو ” یوٹوپیائی اسلامی سوشلسٹ ” کہا جا سکتا ہے۔ وہ ” تعلیم، صحت، روزگار، رہائش سمیت سماجی سروسز کی فراہمی کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیتے تھے۔

شیخ باقر النمر ان شیعہ عرب میں شامل تھے جنھوں نے ” انقلاب ایران ” کو آزادی کی راہ میں ایک مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھا تھا اور وہ اس سے متاثر ہوئے تھے۔

گرفتاری سے پہلے کی تقریر

اپنی گرفتاری سے پہلے انھوں نے قطیف کی مسجد میں ایک تقریرکی تھی جس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔ ان کی سزائے موت کی وجہ بھی یہی تقریر قرار دی جا رہی ہے۔

الحمد للہ رب العالمین والصلوات والسلام علی سید المرسلین و علی عترتہ اہل بیتہ وسلم

اما بعدہ!

  • گذشتہ سو سالوں سے ہمیں ظلم، جور، ناانصافی، ڈرائے دھمکائے جانے کا سامنا ہے ۔
  • آپ جیسے ہی اس دنیا میں آتے ہیں اسی وقت سے اس ظلم، جور، تعدی، ناانصافی اور ڈرائے دھمکائے جانے کے ساتھ بدسلوکی آپ کا مقدر بنادی جاتی ہے ۔
  • ہم ڈر اور خوف کے ماحول میں آنکھیں کھولتے ہیں اور یہ خوف اتنا ہوتا ہے کہ ہم دیواروں سے بھی خوف کھاتے ہیں۔
  • ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس ظلم، جور، تعدی، ناانصافی اور خوف سے آشنا نہ ہو جس کا ہمیں اس ملک میں سامنا ہے۔
  • میری عمر 55 سال ہو چکی یعنی میں عمر رواں کی نصف صدی سے زیادہ سفر کرچکا لیکن میں اپنی پیدائش سے لے کر آج تک اس ملک میں کبھی خود کو محفوظ و مامون خیال نہیں کرسکا۔
  • آپ پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی الزام، دشنام، تہمت دھر دی جاتی ہے۔
  • آپ یہاں ہمیشہ خطرات میں گھرے ہوئے رہتے ہیں۔
  • جب مجھے گرفتار کر لیا گیا تو اس صوبے (عوامیہ ) کے سٹیٹ سیکورٹی افسر نے میرے سامنے برملا کہا۔
  • تم جتنے بھی شیعہ ہو لازم ہے کہ تمھیں قتل کر دیا جائے۔
  • یہ ہے ان کا فلسفہ زندگی، یہ ہے ان کی منطق۔
  • یہ بات کوئی اور نہیں کہہ رہا بلکہ ہمارے صوبے کا سٹیٹ سیکورٹی افسر کہہ رہا ہے۔
  • وہ ہر وقت بڑے قتل عام کا منصوبہ بناتے رہتے ہیں۔
  • ہم یہاں موجود ہیں، مرحبا! آئیں بڑے شوق سے ہمیں قتل کیجئے۔
  • اپنے اقدار کے دفاع کے لیے ہمارے خون کا ں ذرانہ تو بہت ہی ہلکی قیمت ہے جو ہم چکانے کے لیے تیار ہیں۔
  • ہم موت سے ڈرنے والے لوگ نہیں ہیں، ہم تو ” شہادت ” کی آرزو رکھنے والے لوگ ہیں۔
  • کچھ ماہ پہلے اس صوبے کے نوجوانوں کے دلوں میں ” عزت و تکریم ” کی شمع روشن ہو گئی – انھوں نے مشعل حریت فروزاں کی – لوگ گلیوں میں نکل آئے اور انھوں نے اصلاحات، عزت نفس کی بحالی اور آزادی کا مطالبہ کیا۔
  • ان میں وہ لوگ بھی جنھوں نے 16 سال قید کاٹی تھی۔
  • جب گلف کونسل کی افواج نے سعودی افواج کی قیادت میں بحرین پر دھاوا بولا تو اس وقت یہاں پر جو احتجاج شروع ہوا تھا تو زیادہ سے زیادہ گرفتاریاں اور تشدد ہوا تھا، تو کس نے اس کشیدگی اور تناؤ کو جنم دیا تھا؟
  • عوامیہ میں کشیدگی و تناؤ سعودی حکومت نے پیدا کیا نہ کہ عوام نے۔
  • ہم پرانے اور نئے قیدیوں کا دفاع جاری رکھیں گے۔
  • ہم ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
  • چاہے ہمارا خون بہا دیا جائے، ہم پروا نہیں کریں گے۔
  • ہم بحرین کے ساتھ یک جہتی جاری رکھیں گے۔
  • بحرین کی عوام ہماری اپنی ہے، ہم ان کے اہل ہیں۔ اگر بحرین کے اندر سعودی قیادت میں فوجی مداخلت نہ بھی ہوتی تب بھی ہم بحرین کی عوامی جدوجہد سے اظہار یک جہتی جاری رکھتے اور ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہمارا فرض تھا۔
  • ہم ان کو کیسے تنہا چھوڑ دیں جبکہ ان پر سعودی افواج ظلم کر رہی ہوں، ان کا قتل کر رہی ہوں، ان کی عورتوں سے بدسلوکی کی جاتی ہو اور ان کی دولت کی لوٹ مار کی جا رہی ہو۔
  • سعودی حکومت کہتی ہے کہ ہم ایک غیر ملک کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں،وہ ہم پر تشدد کے جواز کے لیے یہ غلط الزام تراشتی ہے اور غیر ملک سے اکثر ان کی مراد ایران ہوتا ہے۔
  • میں اس الزام کا جواب تاریخ سے دوں گا۔
  • ء کا سال تھا جب عوامیہ صوبے کے لوگ اپنی عزت نفس کی بحالی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھا اور اس وقت سعودی فوج قطیف پر ٹوٹ پڑی تھی۔
  • یہ انتفاضہ، آزادی کی تحریک دسمبر 1978ء میں شروع ہوئی تھی جب شاہ ایران کی حکومت ابھی قائم تھی، ایران میں انقلاب نہیں آیا تھا اور یہ اس انقلاب کے آنے سے چار ماہ پہلے کا قصّہ تھا۔
  • کیا ہوا تھا، لوگ امام حسین کا تعزیہ کا جلوس لے کر جا رہے تھے، یہ کوئی سیاسی یا دفاعی معاملہ نہ تھا لیکن سیکورٹی فورسز نے ان پر حملہ کر دیا اور اس طرح سے ایک ” محاذ آرائی ” شروع کردی گئی –لوگ اپنی حرمت، عقیدے اور عزت کا دفاع کر رہے تھے، اس رات انھوں نے 100 افراد پکڑے اور یہ سب ” انقلاب ایران ” سے بہت پہلے، شاہ ایران کی حکومت کے گرنے سے چار ماہ پہلے ہوا تھا تو وہ کیسے ” بیرونی مداخلت کا الزام دے سکتے ہیں؟“
  • آپ کو اپنے اوپر خود شرم آنی چاہئیے۔

سعودی حکومت کہتی ہے:-

  • اگر احتجاج ختم نہ ہوا تو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
  • آپ 40 / 50 سالوں سے کمزور و ضعیف لوگوں کے ساتھ انہی آہنی ہاتھوں سے نمٹ رہے ہیں۔
  • ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی بیرونی ملک آپ کے یہاں مداخلت کر رہا ہے تو اس سانپ کا سر آپ اٹھنے سے پہلے کچل کیوں نہیں دیتے؟ اگر یہ سب ایران کر رہا ہے تو جائیں، اس پر حملہ کر دیں۔
  • ہمارا ایران یا کسی اور ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم اپنی لڑائی خود لڑ رہے ہیں، ہم اپنی اقدار سے جڑے ہیں (جو کسی سے مستعار نہیں لی ہوئیں ) ہم ان کا دفاع کریں گے – اگر چہ سرکاری میڈیا ہمارے موقف کو کتنا ہی مسخ کیوں نہ کرے۔
  • یہ دفاع ہم تشدد سے نہیں بلکہ اپنے عزم، عقیدے، صبر و تحمل سے کریں گے اور انہی سے آپ کو شکست دیں گے، ناانصافی کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور ہم سرنڈر نہیں کریں گے۔
  • زیادہ سے زیادہ آپ ہمیں ماردیں گے۔
  • ہم اللہ کی راہ میں شہادت پانے کو خوش آمدید کہیں گے۔
  • ایک آدمی جب مرجاتا ہے تو زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ حقیقی زندگی کا آغاز تو تبھی ہوتا ہے یا تو ہم اس دھرتی پر ” فرد آزاد ” کی طرح رہیں گے یا ایک مرد پاکباز کی طرح مرجائیں گے اور اس دھرتی میں ہی ایک پاکباز کی طرح دفن ہوں گے، ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
  • سعودی ویکی لیکس کی ایک امریکی سفارٹی کیبل کے مطابق شیخ باقر نمر النمر کو ” ایرانی ایجنٹ ” کہلوانے یا ” ایران نواز ملّا ” کہلانے پر سخت اعتراض تھا۔

عالمی رد عمل

احتجاج

نمر کے عدالتی قتل کے خلاف دنیا کے کئی ممالک میں احتجاج کیے گئے ایران کی سیاسی اور دینی حلقوں نے شدید مذمت کی (اور ایران نے سعودیہ سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا)، عراق (کی متعدد شخصیات من جملہ مذہبی شخصیات جیسے مقتدا صدر اور سیاسی اور عوامی شخصیات جیسے عوامی رضا کار عراق)، فلسطین، حزب اللہ اور لبنان کی دیگر شیعہ تنظیموں، بحرین اور سعودی عرب کے شیعہ رہنماہان،[30] یمن کے انصار اللہ یمن، پاکستان کے اہل تشیع، بھارت کے اہل تشیع جرمنی کے بعض حکومتی عہدے داران، برطانیہ اور متحدہ یورپ نیز انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں کچھ بین الاقوامی تنظیموں نے اس عدالتی فیصلے کو دھوکا اور سیاسی فیصلہ قرار دیا ہے۔

البتہ عرب امارات اور بحرین کی حکومتوں اور الازہر کے سنی علما کی انجمن نے اس سزا کی حمایت کی ہے۔

مقبولیت

امریکی سفارت کار نے 2008ء میں نمر کے مقامی طور پر مشہور ہونے سے متعلق بیان دیا۔ دی گارڈین نے اپنے تجزیہ میں لکھا کہ [بظاہر]2011ء اور 2012ء میں نمر، شیعہ نوجوانوں میں سب سے مشہور شیعہ عالم بن گئے تھے۔ 2012ء قطیف احتجاج میں ہزاروں افراد نے نمر کا ساتھ دیا، جس وجہ سے جولائی 2012ء میں ان کو گرفتار کیا گیا۔ 2004ء اور 2006ء کی گرفتاریاں

2004ء کو نمر کو کئی دنوں تک حراست میں رکھا گیا۔[17] 2006ء میں النمر کو گرفتار کیا گيا اور دوران میں حراست ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ال عوامیہ کے رہائشیوں نے اس کی رہائی کے لیے مہم چلائی،[4] جس کے چند دن بعد، انھیں رہا کر دیا گیا۔

آیت اللہ شیخ "نمر باقر النمر" کا تعارف، وہابیوں نے آپ کو کیوں قتل کیا؟

آل سعود وزارت داخلہ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ شیخ نمر باقر النمر کو پھانسی دی ہے!! آیت اللہ شیخ نمر 1379ھ،قمری کو بلاد الحرمین صوبہ القطیف، "العوامیہ" قصبہ اور خاندان علم واخلاق میں پیدا ہوئے اور ارض حجاز کا بزرگ عالم دین شیخ علی بن ناصر آل نمر، آپ کے دادا تھے۔

شہید شیخ نمر النمر نے اپنے وطن لوٹنے کے بعد، العوامیہ میں دینی مرکز "الامام القائم(عج)" کی بنیاد رکھی نیــز سیاسی اور سماجی مسائل میں باریک بینی اور دور اندیشی نیــز تمام امورات کا دقیق تجزیہ، یقیناً قرآن اور اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کے ساتھ آپ کا قریبی تعلق کی وجہ حاصل ہوا تھا۔

آیت اللہ شیخ نمر کی سیاسی سماجی سرگرمیوں اور عوامی اقبال کے نتیجہ میں آل منحوس سعود نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہر قسم کی اذیتوں اور پابندیوں کا آغاز کیا یہاں تک کہ آپ کو گاڑی میں گولی مار کر شدت سے زخمی کرکے گرفتار کیا اور سالہا اسی حالت میں صعوبتیں جھیلی ہیں۔

2006 ء میں بحرین میں منعقدہ "قرآن کریم کانفرنس" میں شرکت کی اور آل خبیث سعود سے درخواست کی تھی کہ "جنت البقیع کی طرف توجہ اور بلاد میں تشیع علوی جعفری کو اسلامی فرقہ تسلیم کرنا چاہیے اور ملک میں تعلیمی، تربیتی امور کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے لہذا اسلامی محمدی(ص) زوایہ نگاہ سے ان امور کا نفاذ ہونا چاہئے"۔ اب جب شیخ نمر وطن لوٹے تو سعودی وہابیوں نے آپ کو گرفتار کیا!!

انھوں نے مولا علی علیہ السلام کے کلام سے استناد کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ عدل وانصاف کا قیام جہاد کے بغیر ممکن نہیں اور پامال شدہ حقوق ایثــار، قربانی اور جہاد وشجاعت بغیر حاصل ہونا ممکن نہیں ہوں گے، اس لئے آیت اللہ بار بار اس حقیقت پر زور دیا کرتے تھے کہ وہ آل سعود نیــز خلیجی حکام عرب کے مطلق العنان حکمرانی اور ان کے جرائم و مظالم کے مقابلے میں صف اول کے مجاہد میں ہیں۔

نتیجتـاً، سامراجی اور استکباری حکام کا منافقانہ حوصلہ لبریز ہوا اور آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر کو جولائی دو ہزار بارہ میں قاتلانہ حملہ کرکے اغوا کیا گیا اور ان کی گرفتاری پر وسیع عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہوا، مظاہروں کے دوران متعدد شیعہ نوجوان، آل سعود کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید اور زخمی ہوگئے تھیں۔

آل سعود عدالت نامی ادارے نے گزشتہ برس آپ کو ملک میں امن و سلامتی کی صورتحال خراب کرنے اور لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانے جیسے بے بنیاد الزامات کے تحت پھانسی کی سزا سنائی تھی[1]۔

گرفتاری اور جیل

شیخ نمر باقر النمر اس سے پہلے بھی 2006ء اور 2008ء میں آل سعود کے اذیت کدوں میں پابند سلاسل رہے ہیں۔ ایک بار بحرین میں قرآن کریم بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر گرفتار کئے گئے تھے اور الزام یہ تھا کہ انھوں نے اس سے قبل آل سعود سے جنت البقیع کی تعمیر اور مذہب اہل بیت(ع) کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کی درخواست کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ سعودی طرز تعلیم کو تبدیل کیا جائے یا پھر اس کو سرے سے منسوخ کرکے نیا نظام تعلیم متعارف کرایا جائے۔

اس کے بعد 23 اگست 2008ء کو القطیف شہر میں گرفتار کئے گئے اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے منطقۃالشرقیہ کے شیعہ اکثریتی شہروں کے عوام کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے اور اپنے معاشروں کے دفاع کی تیاری کریں! اور یہ کہ وہ الشرقیہ کے عوام کو حکومت کے خلاف بغاوت کرنے اور اپنے علاقے آل سعود کی عملداری سے جدا کرنے کی دعوت دے رہے ہیں! بہر حال سعودی حکام جانتے تھے کہ الزامات جھوٹے ہیں چنانچہ انہيں 24 گھنٹے قید کرکے رہا کیا گیا اور ایک بار 2009ء میں بھی مختصر مدت تک قید کئے گئے۔

سزائے موت

آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر سعودی حکام کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں بھی استبدادی اور آمر حکمرانوں پر تنقید کرتے رہے ہیں اور خاص طور پر بحرین پر مسلط آل خلیفہ کو کڑی نکتہ چینی کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب کی درباری عدالت کی طرف سے آیت اللہ شیخ نمر کو سزائے موت کا حکم سنانے کے بعد 2 جنوری 2016ء کو آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر کو نہایت بے دردی کے ساتھ شهید کردیا گیا، جس کے بعد سے تمام مراجع عظام اور دینی و مذہبی شخصیات نے سعودی عرب کے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں شیخ نمر کی بیہمانہ شہادت پر اور آل سعود کے ظلم و بربریت کے خلاف کئی دنوں تک مظاہرے ہوتے رہے[2]۔

رد عمل

آیت اللہ باقر النمر کی شہادت کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی کا بیان

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آیت اللہ باقر النمر کی شہادت اور ان کا خون ناحق بہائے جانے کو سعودی حکومت کی ایک بڑی سیاسی غلطی قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے سعودی عرب کے مظلوم و مومن عالم دین کو شہید کرنے سے متعلق اس ملک کی حکومت کے ہولناک جرم کی شدید مذمت کی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اتوار کی صبح، فقہ کے درس خارج میں معروف عالم دین شیخ باقر النمر کو شہید کئے جانے سے متعلق سعودی حکومت کے جرم اور یمن و بحرین میں بھی اسی طرح کے جرائم کے ارتکاب کے سلسلے میں عالمی برادری کے احساس ذمہ داری کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ یقینا اس مظلوم شہید کا، ناحق بہایا جانے والا خون، جلد اپنا رنگ لائے گا اور سعودی حکمرانوں کو الہی انتقام سے دوچار کردے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس مظلوم عالم نے نہ تو عوام کو ہتھیاروں کے ساتھ تحریک چلانے کی ترغیب دلائی اور نہ ہی کسی خفیہ سازش کا اقدام کیا بلکہ اس عالم دین نے صرف سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دینی غیرت کی بنیاد پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مظاہرہ کیا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شیخ باقر النمر کی شہادت اور ان کا خون ناحق بہائے جانے کو سعودی حکومت کی ایک بڑی سیاسی غلطی قرار دیا اور فرمایا کہ خداوند متعال، بے گناہوں کے خون کو کبھی معاف نہیں کرے گا اور سعودی حکمرانوں کو، خون ناحق بہانے کا جلد ہی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے جمہوریت و آزادی اور انسانی حقوق کا دم بھرنے والوں کی خاموشی اور حکومت پر تنقید اور اس کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے بے گناہوں کا خون بہانے والی سعودی حکومت کی حمایت کیے جانے پر، شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ عالم اسلام اور پوری دنیا کو چاہیے کہ معروف سعودی عالم دین شیخ باقر النمر کی دردناک شہادت کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اس کا مظاہرہ کرے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سعودی فوجیوں کے ہاتھوں بحرینی عوام کی ایذا رسانی اور ان کے رہائشی مکانات و مساجد کی مسماری و تباہی اور اسی طرح یمنی عوام پر گذشتہ دس مہینوں سے جاری بمباری کو سعودی جارحیت کے دیگر نمونوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ صداقت کے ساتھ انسانیت و انسانی حقوق کی حمایت کرنے اور انصاف پسندی کا مظاہرہ کرنے والوں کو چاہئے کہ ان تمام واقعات اور جرائم کا جائزہ لیں اور اس سلسلے میں ہرگز خاموش نہ بیٹھیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یقینا خدا کا لطف و کرم اور اس کی رحمت، شہید باقر النمر کے شامل حال ہو گی اور بلا شبہ ان ظالموں کو انتقام الہی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جنھوں نے اس مظلوم عالم دین کی شہادت میں اپنا کردار ادا کیا اور یہ الہی انتقام ہی، وہ چیز ہے جو تسلّی کا سرچشمہ ہے[3]۔

آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی

بسم الله الرّحمن الرّحیم

إنا لله و إنا إلیه راجعون

شهادت مظلومانه عالم مجاهد حجت الاسلام والمسلمین آقای شیخ نمر باقر النمر کا سعودی عرب کے آمریکائی حکومت کے ہاتھوں مظلومانہ طور پر شھادت سے تمام مسلمانوں ، شیعوں اور حوزہ ھای علمیہ کے شدید تاسف اور تاثر کا سبب ہوا ہے ۔

یہ عالم دین دینی ، اسلامی اور قرآنی تعلیمات کے مطابق ظلم ، بے عدالتی اور آل سعود کے جنایات کے مقابل میں کھڑے ہو گیا اور سختیاں ، شکنجہ اور جیل کی صعوبتیں جھیل کر بالآخر اپنی آروز جو کہ خدا کے راہ میں شہادت تھا پر فائز ہو گیا۔

آل سعود کے ستمگر اور وحشی حکومت جان لیں کہ اس بزرگ شہید کے خون سے ایسے مجاہدین پیدا ہو جائيں گے کہ ہمیشہ کے لئے ان کی زندگی ختم ہو جائے گی ۔ یہاں پر جس چیز پر بہت زیادہ افسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ درباری اور وہابی علماء جن کی وجود ہی ہتک دین ہو اور حرمین شریفین کو غبار آلود کرتے ہیں ان کے ذریعہ اس برے نظام کی تائید ہوتی ہے ۔

عالم اسلام خصوصا حجاز ، مصر اور دوسرے اسلامی ممالک کے بزرگ علماء کو چاہئے کہ اس وحشیانہ کام پر خاموشی اختیار نہ کرے ۔ میں حجاز کے شیعوں کو اس عظیم مصیبت پر تسلیت اور تبریک عرض کرتا ہوں اور آپ سب جان لیں کہ یہ شہادت حجاز کے شیعوں اور علماء کے لئے ایک عظیم افتحار اور برگ زرین ہے ۔ خداوند متعال سے اسلام و مسلمین کی عزت اور عظمت کا طلبگار ہوں[4]۔

حوالہ جات

  1. آیت اللہ شیخ "نمر باقر النمر" کا تعارف، وہابیوں نے آپ کو کیوں قتل کیا؟- شائع شدہ از: 2 فروری 2016ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 اکتوبر 2025ء
  2. شہید شیخ باقرالنمر کی چوتھی برسی، مجاہد اسلام کی زندگی پر ایک نظر- شائع شدہ از: 2 جون 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:12 اکتبر 2025ء
  3. آیت اللہ باقر النمر کی شہادت کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی کا بیان- شائع شدہ از: 2 فروری 2016ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 اکتوبر 2025ء
  4. شیخ نمر باقر النمر(قدس سرّه) کی شھادت کی مناسبت سے پیام تسلیت- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 اکتوبر 2025ء