"یوسف حمدان" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
| سطر 43: | سطر 43: | ||
غزہ کی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ صہیونی حکومت جنگ بندی کے معاہدے پر عمل نہیں کر رہی، جبکہ عرب دنیا غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور امدادی راہداری بنانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود فلسطینی قوم اور غزہ کے عوام کے دل و دماغ میں یہ یقین راسخ ہو چکا ہے کہ وہ خالی ہاتھ بھی قابض دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ | غزہ کی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ صہیونی حکومت جنگ بندی کے معاہدے پر عمل نہیں کر رہی، جبکہ عرب دنیا غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور امدادی راہداری بنانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود فلسطینی قوم اور غزہ کے عوام کے دل و دماغ میں یہ یقین راسخ ہو چکا ہے کہ وہ خالی ہاتھ بھی قابض دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ | ||
وہ اپنی سرزمین پر باقی ہیں اور اس جنگ کا اختتام صرف صہیونی قبضے کے خاتمے پر ہی ممکن ہے۔ مزاحمتی قوتیں پہلے سے زیادہ تیار ہیں اور اپنے عوام، سرزمین اور مقدسات کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم اس جنگ میں تنہا نہیں ہیں۔ ہمارے سچے بھائی یمن میں اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ اگر صہیونی جارحیت بڑھی تو وہ بھی جنگ میں شریک ہوں گے۔ یہ مجاہدین کی حوصلہ افزائی کا باعث بنی ہے کہ وہ اپنے جائز اور فطری حقوق کے لیے قابض دشمن کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1933290/%D8%B7%D9%88%D9%81%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D8%B5%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81-%D8%B5%DB%81%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D8%AE%D8%A7%DA%A9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%84%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%A7 طوفان الاقصیٰ نے فلسطینوں کے خلاف صہیونی منصوبوں کو خاک میں ملادیا]- شائع شدہ از: 8 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 جون 2025ء</ref>۔ | وہ اپنی سرزمین پر باقی ہیں اور اس جنگ کا اختتام صرف صہیونی قبضے کے خاتمے پر ہی ممکن ہے۔ مزاحمتی قوتیں پہلے سے زیادہ تیار ہیں اور اپنے عوام، سرزمین اور مقدسات کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم اس جنگ میں تنہا نہیں ہیں۔ ہمارے سچے بھائی یمن میں اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ اگر صہیونی جارحیت بڑھی تو وہ بھی جنگ میں شریک ہوں گے۔ یہ مجاہدین کی حوصلہ افزائی کا باعث بنی ہے کہ وہ اپنے جائز اور فطری حقوق کے لیے قابض دشمن کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں | ||
<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1933290/%D8%B7%D9%88%D9%81%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D8%B5%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81-%D8%B5%DB%81%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D8%AE%D8%A7%DA%A9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%84%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%A7 طوفان الاقصیٰ نے فلسطینوں کے خلاف صہیونی منصوبوں کو خاک میں ملادیا]- شائع شدہ از: 8 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 جون 2025ء </ref>۔ | |||
== خان یونس سے صہیونی فوج کی عقب نشینی اسرائیلی شکست کی علامت ہے == | == خان یونس سے صہیونی فوج کی عقب نشینی اسرائیلی شکست کی علامت ہے == | ||
یوسف حمدان نے جنوبی غزہ سے صہیونی فوج کی عقب نشینی کو غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی سٹریٹیجک شکست کی دلیل قرار دیا ہے۔ | یوسف حمدان نے جنوبی غزہ سے صہیونی فوج کی عقب نشینی کو غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی سٹریٹیجک شکست کی دلیل قرار دیا ہے۔ | ||
نسخہ بمطابق 15:18، 16 جون 2025ء
| یوسف حمدان | |
|---|---|
![]() | |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش کی جگہ | فلسطین، غزه |
| مذہب | اسلام، سنی |
| مناصب | الجزائر میں حماس کا نمائندہ |
یوسف حمدان تحریک حماس کے رہبروں میں سے ایک ہے جو اس وقت الجزائر میں اس تنظیم کے نمائندہ کی حيثیت سے خدمات انجام دے رہا ہے۔ وہ مختلف مواقع پر غزہ اور فلسطین کے بارے میں مختلف اخبار اور ٹی چینلز کو انٹریو دے چکا ہے۔ اس کی نظر میں طوفان الاقصی نے اسرائیلی تمام منصوبوں کو خاک کو ملایا دیا ہے۔
طوفان الاقصیٰ نے فلسطینوں کے خلاف صہیونی منصوبوں کو خاک میں ملادیا
الجزائر میں حماس کے نمائندے نے فلسطین کی حمایت میں عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ طوفان الاقصی نے فلسطینی قوم کے خلاف صہیونی سازشوں کو نابود کردیا۔ صہیونی حکومت غزہ کے فلسطینیوں کے قتلِ عام اور نسل کشی کے لئے بھوک اور اقتصادی محاصرے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے اسی وجہ سے اس جنگ زدہ علاقے میں انسانی بحران روز بہ روز شدت اختیار کررہا ہے۔ دوسری طرف، غزہ میں صہیونی نسل کشی اور لبنان پر وحشیانہ حملے کے باوجود اسلامی ممالک کے سربراہان نے قاہرہ اجلاس میں کوئی ٹھوس اور عملی اقدام کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
مہر نیوز: عرب ممالک امریکی منصوبے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ اور منصوبہ عرب میڈیا میں کیوں شدت اختیار کرگیا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ عرب ممالک امریکہ کے فلسطین مخالف رویے اور خطے کی سلامتی سے متعلق اس کی بے پروائی کو نظر انداز کر دیں؟ جس طرح وہ ماضی میں فلسطینی عوام اور صہیونی مظالم کو نظر انداز کرتے رہے؟
یوسف حمدان: فلسطین کو اس کے عرب و اسلامی تشخص سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ غزہ پر صہیونی حکومت کا ناجائز قبضہ جاری رہنا عرب حکومتوں کے اس موقف کا نتیجہ ہے جسے عرب امن اقدام کہا جاتا ہے جو کہ صہیونیوں کے ساتھ امن و امان اور مزاحمتی اتحاد کو مسترد کرنے پر مبنی ہے۔ اس رویے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ عرب حکومتیں فلسطین میں صہیونی وجود کو نہ صرف تسلیم کرنا چاہتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ تعلقات بھی قائم کر رہی ہیں۔ صہیونی حکومت نے بعض عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے، جبکہ فلسطینی مسئلے کو دانستہ طور پر صرف فلسطینیوں کا داخلی مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا لیکن طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کے تمام سازشی منصوبوں، تعلقات قائم کرنے کی کوششوں، اور فلسطینی کاز کو کمزور بنانے کے منصوبوں کو شدید دھچکہ لگایا دیا۔
طوفان الاقصی کے بعد امریکہ نے صہیونی حکومت کو مکمل فوجی، مالی اور سیاسی حمایت فراہم کی، جبکہ عرب حکومتیں صرف لفظی مذمت تک محدود رہیں اور یہاں تک کہ غزہ کے بھوکے عوام کے لیے خوراک و ادویات بھی نہ پہنچا سکیں۔ جب صہیونی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے فلسطینی قوم کی ارادے کو توڑنے اور مزاحمت کو ختم کرنے کے منصوبے ناکام ہوئے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی تجویز دی تو عرب ممالک کو بھی احساس ہوا کہ یہ منصوبہ صرف غزہ یا غرب اردن تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
عرب ممالک نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو مسترد کیا
اسی بنیاد پر عرب ممالک نے ایک اجلاس منعقد کیا تاکہ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات پر غور کیا جائے اور ٹرمپ کے منصوبے پر ردعمل ظاہر کیا جائے۔ عرب ممالک نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو مسترد کیا، جو کہ ایک مثبت اقدام ہے۔ انہوں نے غزہ کی تعمیر نو اور ایک انتظامی ڈھانچے کی تشکیل میں تعاون کی آمادگی کا اظہار کیا ہے، لیکن یہ تمام دعوے تبھی مؤثر ہوں گے جب ان کے پیچھے عملی اقدامات ہوں۔ جب تک غزہ کا محاصرہ ختم نہیں ہوتا، امدادی سامان اور تعمیر نو کا سامان نہیں پہنچتا، اور صہیونی مظالم کا حقیقی مقابلہ نہیں ہوتا، اس وقت تک صہیونی حکومت فلسطین کے ساتھ ساتھ لبنان، شام، اردن اور حتیٰ کہ مصر کے لئے بھی خطرہ بنی رہے گی۔
اسرائیلی فوجیوں کی لاشوں کی واپسی کے ساتھ ہونے والے حالیہ قیدیوں کے تبادلے میں، چند فلسطینی قیدیوں کو صہیونی جیلوں سے رہا کیا گیا، جس کے نتیجے میں نتن یاہو کو شدید سیاسی دھچکا لگا۔ انہیں ان اسرائیلی یرغمالیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا فلسطینی مزاحمت نتن یاہو کی جانب سے فتح کے دعووں کو جھوٹا ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے؟ اور ان حالات کے مقبوضہ علاقوں کی اندرونی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
صہیونی فوج نہ تو فلسطینی مزاحمت کو شکست دے سکی ہے، نہ ہی غزہ میں کوئی انتظامی خلا پیدا کرسکی ہے
غزہ سے جاری ہونے والے سیاسی و میڈیا پیغامات نے بین الاقوامی برادری کو جو اب تک صہیونی بیانیے پر یقین رکھتی تھی، یہ سمجھا دیا کہ صہیونی فوج نہ تو فلسطینی مزاحمت کو شکست دے سکی ہے، نہ ہی غزہ میں کوئی انتظامی خلا پیدا کرسکی ہے۔
یہ بات بھی آشکار ہوئی کہ غزہ میں انتظامی و حکومتی نظام پوری طرح فعال ہے، اور مزاحمتی قوتیں مکمل اقتدار اور دفاعی صلاحیت کے ساتھ نہ صرف موجود ہیں بلکہ صہیونی تجاوزات کے خلاف ثابت قدمی سے دفاع کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت نے صہیونی یرغمالیوں کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ اس کے برعکس صہیونی حکومت نے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا ہے۔ یہ تمام حقائق نتن یاہو کے جھوٹے دعووں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
فلسطینی خالی ہاتھ بھی قابض دشمن کو شکست دے سکتے ہیں
انہوں نے یرغمالیوں کے خاندانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ باقی قیدی ہلاک ہوچکے ہیں تاہم مزاحمتی میڈیا کی مہم نے ایک بار پھر اسرائیلی عوام کو یہ باور کرایا کہ ان کا وزیر اعظم جھوٹ بول رہا ہے، قیدی زندہ ہیں اور مزاحمت انہیں انسانیت کے دائرے میں رکھ کر تحفظ دے رہی ہے۔ جبکہ خود نیتن یاہو ان قیدیوں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس ساری صورتحال نے صہیونی داخلی نظام اور رائے عامہ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
غزہ جنگ کے اہداف کے حصول میں صہیونی حکومت کی ناکامی اور منتشر رائے عامہ کو دیکھتے ہوئے مستقبل کا منظرنامہ کیا ہوسکتا ہے؟ غزہ کی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ صہیونی حکومت جنگ بندی کے معاہدے پر عمل نہیں کر رہی، جبکہ عرب دنیا غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور امدادی راہداری بنانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود فلسطینی قوم اور غزہ کے عوام کے دل و دماغ میں یہ یقین راسخ ہو چکا ہے کہ وہ خالی ہاتھ بھی قابض دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔
وہ اپنی سرزمین پر باقی ہیں اور اس جنگ کا اختتام صرف صہیونی قبضے کے خاتمے پر ہی ممکن ہے۔ مزاحمتی قوتیں پہلے سے زیادہ تیار ہیں اور اپنے عوام، سرزمین اور مقدسات کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم اس جنگ میں تنہا نہیں ہیں۔ ہمارے سچے بھائی یمن میں اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ اگر صہیونی جارحیت بڑھی تو وہ بھی جنگ میں شریک ہوں گے۔ یہ مجاہدین کی حوصلہ افزائی کا باعث بنی ہے کہ وہ اپنے جائز اور فطری حقوق کے لیے قابض دشمن کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں [1]۔
خان یونس سے صہیونی فوج کی عقب نشینی اسرائیلی شکست کی علامت ہے
یوسف حمدان نے جنوبی غزہ سے صہیونی فوج کی عقب نشینی کو غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی سٹریٹیجک شکست کی دلیل قرار دیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کے نمائندہ برائے الجزائر نے مہر خبررساں ایجنسی سے فلسطین کے حالات کے بارے میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے گذشتہ دنوں جنوبی غزہ کے شہر خان یونس سے صہیونی فورسز کے انخلاء کو اسرائیل کی اسٹریٹیجک شکست قرار دیا ہے۔
یوسف حمدان نے کہا کہ خان یونس کے علاقے الزنہ میں صہیونی فورسز کے حملے میں صہیونیوں کو شدید نقصان ہوا تھا جس کے بعد اسرائیل نے عملی طور پر شکست تسلیم کرتے ہوئے خان یونس سے سیکورٹی فورسز کو نکالنے کا اعلان کردیا۔ صہیونی حکومت کو رفح میں مقاومتی رہنماوں کو ختم کرنے اور صہیونی یرغمالیوں کی رہائی میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی خان یونس میں اپنی فورسز کو تعیینات کرکے حماس اور مقاومت پر دباو ڈالنا چاہتے تھے لیکن خان یونس اور غزہ کے تمام علاقوں میں مقاومتی جوانوں نے جرائت اور بہادری کے ساتھ صہیونی سیکورٹی فورسز کو ناکوں چنے چبوادیا جس کی وجہ سے دشمن خان یونس سے عقب نشینی پر مجبور ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی مقاومت غزہ کو صہیونی فوجیوں کی قبرستان بنائے گی اور غزہ میں ہمیشہ رہنا صہیونیوں کے لئے ڈراونا بن جائے گا۔ یوسف حمدان نے کہا کہ اگر فلسطینی عوام کی مقاومت نہ ہوتی تو غزہ تک امدادی اشیاء کی فراہمی ممکن نہ ہوتی۔ فلسطینی عوام کی بہادری کی وجہ سے ہی صہیونی اپنی فوج کو فوری طور پر جنوبی غزہ سے نکالنے پر مجبور ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام سیاسی میدان میں کامیابی کے ساتھ دشمن کا سامنا کریں گے۔ دشمن کے پاس معاہدہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ورنہ فلسطینی مقاومتی غاصب صہیونیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے گی۔ مقاومت صہیونی حکومت کو معاہدہ کرنے پر مجبور کرے گی جس کے تحت صہیونی جارحیت کا خاتمہ، غزہ سے غاصب صہیونی کے انخلاء کے بعد امدادی اشیاء کی ترسیل اور صہیونی قید سے فلسطینی بے گناہ اسیروں کی رہائی یقینی ہوجائے گی [[2]۔
کسی بھی معاہدے کے خاتمے کے لیے مستقل جنگ بندی کی ضمانت ہونی چاہیے
الجزائر میں تحریک حماس کے نمائندے "یوسف حمدان" نے عرب 21 ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حماس کا موقف مکمل طور پر واضح ہے اور اس نے ثالثوں کو اپنے موقف سے آگاہ کیا اور صیہونیوں کو حماس کے موقف سے آگاہ کیا تاکہ قابض حکومت بھی اپنے مؤقف کا اعلان کر سکے، اور یہ کہ ہم کبھی بھی اپنی شرائط سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور دباؤ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حماس کے ایک عہدیدار نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ جنگ بندی کے مذاکرات میں اسرائیل کی نئی تجویز کی شقیں مزاحمت کے موقف سے کسی حد تک مطابقت رکھتی ہیں، اس بات پر زور دیا کہ قابضین کے پاس ہماری شرائط تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اور ہم نے مستقل جنگ بندی کے حصول پر اپنے موقف کی بنیاد رکھی ہے۔
تسنیم نیوز کے مطابق، جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات سے متعلق حالیہ پیش رفت کی روشنی میں جو حال ہی میں قاہرہ میں ہوئے تھے اور جن کے حتمی نتائج کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا ہے، حماس کے ایک عہدیدار نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ تحریک نے کل بدھ کو ثالثوں کو اسرائیلی حکومت کی جانب سے اس دستاویز میں شامل کچھ نکات، دفعات اور شرائط کے بارے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، ان سے اس معاملے کی وضاحت کے لیے کہا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات کے اس نئے دور میں قابض حکومت غزہ کی پٹی کے خلاف اپنی وحشیانہ جارحیت کے 7 ماہ بعد مزاحمت کی شرائط کو تسلیم کرنے کے قریب پہنچ گئی ہے اور اس نے ان میں سے بعض شرائط کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اس وقت گیند قابضین کے کورٹ میں ہے اور اگر وہ معاہدہ کرکے اپنے قیدیوں کو رہا کرنا چاہتے ہیں تو ان کے پاس مزاحمت کی شرائط پر راضی ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ زیادہ وقت ضائع کرنے کا مطلب غزہ کی پٹی سے زندہ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کا موقع ضائع کرنا اور صہیونی فوج کو مزید نقصان پہنچانا ہے جو کئی مہینوں سے غزہ کی ریت میں بغیر کسی فوجی یا سیاسی فائدے کے دھنسی ہوئی ہے۔
حماس نے اس بات پر زور دیا کہ قابض حکومت کی جانب سے جن شقوں پر اتفاق کیا گیا ان میں سے ایک جنگ بندی کا قیام اور نیٹزارم کراسنگ سے صیہونی افواج کا انخلاء شامل ہے، یہ وہ کراسنگ ہے جسے قابض حکومت نے غزہ شہر کے قریب قائم کیا تھا اور شمالی غزہ کو اس کے جنوبی حصے سے الگ کیا تھا۔ نیز اس تجویز کے مطابق صیہونی حکومت نے شمالی غزہ میں پناہ گزینوں کی واپسی پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن ہمیں اس بات کی بنیادی ضمانتیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ معاہدے کے اختتام پر ہم ایک مستقل اور جامع جنگ بندی پر پہنچ جائیں گے اور یہ کہ قابض افواج غزہ کی پٹی سے مکمل طور پر نکل جائیں گی اور یہ فوجی قیدیوں کا تبادلہ شروع ہونے سے پہلے ہونا چاہیے۔
مذاکرات کا موجودہ دور گزشتہ دور سے بہت مختلف ہے
یوسف حمدان نے کہا کہ حماس تحریک کی درخواستوں اور تحفظات پر صہیونی ردعمل ملنے کے بعد ثالثوں کو اپنے موقف سے آگاہ کرے گی اور ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسا ہی ہوگا۔ موجودہ مذاکرات اور ماحول گزشتہ ادوار سے کافی مختلف ہے جس میں صیہونی حکومت کی تخریب کاری کی وجہ سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ابھی تک قابضین کے ان مشاہدات کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں جو حماس تحریک نے صیہونی حکومت کی تجویز کردہ دستاویز کے حوالے سے ثالثوں تک پہنچائی ہیں۔ حماس کا موقف اور مطالبات وہی ہیں جس پر وہ پہلے بھی زور دے چکے ہیں اور اس مرحلے پر قابضین کو سمجھنا چاہیے کہ وہ سیاسی فریب کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔
معاہدے کے آخری مرحلے میں مستقل جنگ بندی کی ضمانت ہونی چاہے
حماس رہنما نے ثالثوں کے سامنے اسرائیلی حکومت کی تجویز کی دفعات کے حوالے سے پیش کردہ تحفظات کی تفصیلات کے بارے میں کہا کہ ہم نے ثالثوں سے کہا کہ معاہدے میں واضح اور واضح عہد شامل ہونا چاہیے کہ معاہدے کے آخری مرحلے کا مطلب ہے کہ غزہ کی پٹی پر جارحیت کا جامع انداز میں خاتمہ ہو اور مستقل جنگ بندی قائم کی جائے۔ نیز دشمن کی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیلی فوجی قیدیوں کے تبادلے کا عمل شروع ہونے سے پہلے، اسرائیلی قابض افواج کو غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں سے مکمل طور پر دستبردار ہونا چاہیے، اور پناہ گزینوں کی آزادی اور ان جگہوں پر واپسی کے حق کے لیے کوئی پابندی یا
شرائط نہیں ہوں گی جہاں سے وہ بے گھر ہوئے تھے
الجزائر میں حماس کے نمائندے نے یہ بتاتے ہوئے کہ قیدیوں کے تبادلے کی بحث میں تحریک پر کبھی بھی غیر منصفانہ اور دھوکہ دہی کے معیار کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، اس بات پر زور دیا کہ ہم نے ثالثوں کو اسرائیلی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ دستاویز میں شامل کچھ شرائط کے بارے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، جو ہم نے محسوس کیا کہ وہ غزہ کی تعمیر نو کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کر سکتے ہیں اور غزہ، غزہ اور غزہ کی طرف سے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم کسی بھی منظر نامے کے لیے تیار ہیں اور ہمارے ہاتھ محرک پر ہیں۔
ہم صیہونیوں کو دھوکہ دینے کا موقع نہیں دیں گے
انہوں نے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور امریکی صدر جو بائیڈن کے دعوؤں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں صرف حماس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی بات چیت یا دباؤ سے متاثر نہیں ہوں گے، اور یہ کہ ہم نے قابض حکومت کی طرف سے پیش کی گئی تجویز کا بغور جائزہ لیا اور پایا کہ ہم حماس کے موقف کے مطابق کچھ شقوں کے خلاف ہیں۔ ہوشیار اور احتیاط سے.
انہوں نے مزید کہا کہ قابض حکومت کا خیال ہے کہ وہ غزہ کی پٹی سے اپنے فوجیوں کے انخلاء سے قبل اپنے فوجی قیدیوں کو رہا کر سکتی ہے لیکن ہم نے اپنے تحفظات کو ثالثوں تک اس طرح پہنچایا جس سے معاہدے کی کامیابی یقینی ہو اور قابضین کو دھوکہ دینے کا موقع نہ ملے۔
ہمدان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کسی بھی معاہدے پر پہنچنے سے روک رہے ہیں اور خطے کو مزید تشدد اور تنازعات کی طرف گھسیٹنے اور جنگ کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حماس پر غیر ضروری الزامات لگانے کے بجائے واشنگٹن بہتر ہو گا کہ وہ قابض حکومت کے لیے ہتھیاروں کی حمایت بند کر دے جو فلسطینی عوام کے خلاف انسانیت کے خلاف ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔
اس سے قبل ایک باخبر فلسطینی ذریعے نے جنگ بندی کے مذاکراتی عمل کی تفصیلات اور ان کے تازہ نتائج کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ تحریک حماس کو پیش کی گئی نئی مجوزہ دستاویز میں ہم صیہونی فریق کو اپنے بعض مؤقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
باخبر فلسطینی ذریعے نے المیادین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں حماس کو پیش کی گئی مجوزہ دستاویز میں مثبت نکات اور اسرائیلی حکومت کے موقف سے پیچھے ہٹنا شامل ہے۔ تاہم، حماس کو اب بھی کلیدی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ایک مستق جنگ بندی اور غزہ کی پٹی سے قابض افواج کے مکمل انخلاء[3]۔
حوالہ جات
- ↑ طوفان الاقصیٰ نے فلسطینوں کے خلاف صہیونی منصوبوں کو خاک میں ملادیا- شائع شدہ از: 8 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 جون 2025ء
- ↑ [1]-]- شائع شدہ از: 11 اپریل 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 جون 2025ء
- ↑ حماس : پایان هر توافقی باید تضمین کننده آتش بس دائمی باشد(کسی بھی معاہدے کے خاتمے کے لیے مستقل جنگ بندی کی ضمانت ہونی چاہیے)-شائع شدہ از: 2 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 جون 2025ء
