"بعثت" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 46: | سطر 46: | ||
۱۲رکعت نماز ہے جس کی ہر رکعت میں سورہ سورۂ حمد کے بعد سورۂ محمد کی تلاوت کرے ۔اور ہر دو رکعت کے بعد سلام کے ساتھ نماز کو تمام کرے ۔۱۲ رکعت نماز تمام ہو جانے کے بعد سات مرتبہ چار وں قل کی تلاوت کرے ۔پھر سات مرتبہ انا انزلناہ اور آیۃ الکرسی کی تلاوت کرے اور اس کے بعد اس دعا کو پڑھے ۔ | ۱۲رکعت نماز ہے جس کی ہر رکعت میں سورہ سورۂ حمد کے بعد سورۂ محمد کی تلاوت کرے ۔اور ہر دو رکعت کے بعد سلام کے ساتھ نماز کو تمام کرے ۔۱۲ رکعت نماز تمام ہو جانے کے بعد سات مرتبہ چار وں قل کی تلاوت کرے ۔پھر سات مرتبہ انا انزلناہ اور آیۃ الکرسی کی تلاوت کرے اور اس کے بعد اس دعا کو پڑھے ۔ | ||
﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدا وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيرا اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعَاقِدِ عِزِّكَ عَلَى أَرْكَانِ عَرْشِكَ وَ مُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِكَ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ وَ ذِكْرِكَ الْأَعْلَى الْأَعْلَى الْأَعْلَى وَ بِكَلِمَاتِكَ التَّامَّاتِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَفْعَلَ بِي مَا أَنْتَ أَهْلُهُ﴾ .اپنی حاجت طلب کریں انشاء اللہ مستجاب ہو گی۔ | |||
۲۔ زيارت حضرت امير المؤمنين عليہ السلام کہ اس رات کے افضل ترین اعمال میں سے ہے ۔ | ۲۔ زيارت حضرت امير المؤمنين عليہ السلام کہ اس رات کے افضل ترین اعمال میں سے ہے ۔ | ||
سطر 52: | سطر 52: | ||
۳۔ شيخ كفعمى بلد الامين میں فرماتے ہیں کہ شب مبعث میں اس دعا کی تلاوت کریں : | ۳۔ شيخ كفعمى بلد الامين میں فرماتے ہیں کہ شب مبعث میں اس دعا کی تلاوت کریں : | ||
﴿اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِالتَّجَلِّي [بِالنَّجْلِ] الْأَعْظَمِ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ وَ الْمُرْسَلِ الْمُكَرَّمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا مَا أَنْتَ بِهِ مِنَّا أَعْلَمُ يَا مَنْ يَعْلَمُ وَ لا نَعْلَمُ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ الَّتِي بِشَرَفِ الرِّسَالَةِ فَضَّلْتَهَا وَ بِكَرَامَتِكَ أَجْلَلْتَهَا وَ بِالْمَحَلِّ الشَّرِيفِ أَحْلَلْتَهَا اللَّهُمَّ فَإِنَّا نَسْأَلُكَ بِالْمَبْعَثِ الشَّرِيفِ وَ السَّيِّدِ اللَّطِيفِ وَ الْعُنْصُرِ الْعَفِيفِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَجْعَلَ أَعْمَالَنَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَ فِي سَائِرِ اللَّيَالِي مَقْبُولَةً وَ ذُنُوبَنَا مَغْفُورَةً وَ حَسَنَاتِنَا مَشْكُورَةً وَ سَيِّئَاتِنَا مَسْتُورَةً وَ قُلُوبَنَا بِحُسْنِ الْقَوْلِ مَسْرُورَةً وَ أَرْزَاقَنَا مِنْ لَدُنْكَ بِالْيُسْرِ مَدْرُورَةً اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَرَى وَ لا تُرَى وَ أَنْتَ بِالْمَنْظَرِ الْأَعْلَى وَ إِنَّ إِلَيْكَ الرُّجْعَى وَ الْمُنْتَهَى وَ إِنَّ لَكَ الْمَمَاتَ وَ الْمَحْيَا وَ إِنَّ لَكَ الْآخِرَةَ وَ الْأُولَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَذِلَّ وَ نَخْزَى وَ أَنْ نَأْتِيَ مَا عَنْهُ تَنْهَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِكَ وَ نَسْتَعِيذُ بِكَ مِنَ النَّارِ فَأَعِذْنَا مِنْهَا بِقُدْرَتِكَ وَ نَسْأَلُكَ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ فَارْزُقْنَا بِعِزَّتِكَ وَ اجْعَلْ أَوْسَعَ أَرْزَاقِنَا عِنْدَ كِبَرِ سِنِّنَا وَ أَحْسَنَ أَعْمَالِنَا عِنْدَ اقْتِرَابِ آجَالِنَا وَ أَطِلْ فِي طَاعَتِكَ وَ مَا يُقَرِّبُ إِلَيْكَ وَ يُحْظِي عِنْدَكَ وَ يُزْلِفُ لَدَيْكَ أَعْمَارَنَا وَ أَحْسِنْ فِي جَمِيعِ أَحْوَالِنَا وَ أُمُورِنَا مَعْرِفَتَنَا وَ لا تَكِلْنَا إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ فَيَمُنَّ عَلَيْنَا وَ تَفَضَّلْ عَلَيْنَا بِجَمِيعِ حَوَائِجِنَا لِلدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ ابْدَأْ بِآبَائِنَا وَ أَبْنَائِنَا وَ جَمِيعِ إِخْوَانِنَا الْمُؤْمِنِينَ فِي جَمِيعِ مَا سَأَلْنَاكَ لِأَنْفُسِنَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الْعَظِيمِ وَ مُلْكِكَ الْقَدِيمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا الذَّنْبَ الْعَظِيمَ إِنَّهُ لا يَغْفِرُ الْعَظِيمَ إِلا الْعَظِيمُ اللَّهُمَّ وَ هَذَا رَجَبٌ الْمُكَرَّمُ الَّذِي أَكْرَمْتَنَا بِهِ أَوَّلُ أَشْهُرِ الْحُرُمِ أَكْرَمْتَنَا بِهِ مِنْ بَيْنِ الْأُمَمِ فَلَكَ الْحَمْدُ يَا ذَا الْجُودِ وَ الْكَرَمِ فَأَسْأَلُكَ بِهِ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَجَلِّ الْأَكْرَمِ الَّذِي خَلَقْتَهُ فَاسْتَقَرَّ فِي ظِلِّكَ فَلا يَخْرُجُ مِنْكَ إِلَى غَيْرِكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ الطَّاهِرِينَ وَ أَنْ تَجْعَلَنَا مِنَ الْعَامِلِينَ فِيهِ بِطَاعَتِكَ وَ الْآمِلِينَ فِيهِ لِشَفَاعَتِكَ اللَّهُمَّ اهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ السَّبِيلِ وَ اجْعَلْ مَقِيلَنَا عِنْدَكَ خَيْرَ مَقِيلٍ فِي ظِلٍّ ظَلِيلٍ وَ مُلْكٍ جَزِيلٍ فَإِنَّكَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ اللَّهُمَّ اقْلِبْنَا مُفْلِحِينَ مُنْجِحِينَ غَيْرَ مَغْضُوبٍ عَلَيْنَا وَ لا ضَالِّينَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِعَزَائِمِ مَغْفِرَتِكَ وَ بِوَاجِبِ رَحْمَتِكَ السَّلامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ وَ الْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَ الْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ وَ النَّجَاةَ مِنَ النَّارِ اللَّهُمَّ دَعَاكَ الدَّاعُونَ وَ دَعَوْتُكَ وَ سَأَلَكَ السَّائِلُونَ وَ سَأَلْتُكَ وَ طَلَبَ إِلَيْكَ الطَّالِبُونَ وَ طَلَبْتُ إِلَيْكَ اللَّهُمَّ أَنْتَ الثِّقَةُ وَ الرَّجَاءُ وَ إِلَيْكَ مُنْتَهَى الرَّغْبَةِ فِي الدُّعَاءِ اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ اجْعَلِ الْيَقِينَ فِي قَلْبِي وَ النُّورَ فِي بَصَرِي وَ النَّصِيحَةَ فِي صَدْرِي وَ ذِكْرَكَ بِاللَّيْلِ وَ النَّهَارِ عَلَى لِسَانِي وَ رِزْقا وَاسِعا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَ لا مَحْظُورٍ فَارْزُقْنِي وَ بَارِكْ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي وَ اجْعَلْ غِنَايَ فِي نَفْسِي وَ رَغْبَتِي فِيمَا عِنْدَكَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ﴾ | |||
سجده مین جاکر یہ کہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِمَعْرِفَتِهِ وَ خَصَّنَا بِوِلايَتِهِ وَ وَفَّقَنَا لِطَاعَتِهِ شُكْرا شُكْرا ۔سو مرتبہ سجدہ سے سر اٹھا کر یہ کہے: | سجده مین جاکر یہ کہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِمَعْرِفَتِهِ وَ خَصَّنَا بِوِلايَتِهِ وَ وَفَّقَنَا لِطَاعَتِهِ شُكْرا شُكْرا ۔سو مرتبہ سجدہ سے سر اٹھا کر یہ کہے: |
نسخہ بمطابق 03:22، 28 جنوری 2025ء
بعثت اس کا مطلب ہے کسی شخص کو خدا کی طرف سے نبی منتخب کرنا اور اس کی نبوت کے دور کا آغاز۔ اگرچہ بعثت کو تمام انبیاء کے انتخاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا استعمال حضرت محمد کو بطور نبی منتخب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسلامی ثقافت میں اس دن کو کہا جاتا ہے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔ بعث کے لفظی معنی ہیں بیدار کرنا۔ اس کا مطلب بھی بھیجنا ہے۔ بعثت کو قرآن پاک میں لوگوں کی رہنمائی اور مردوں کو جمع کرنے کے لیے انبیاء کو اٹھانے اور بھیجنے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت وہ دن ہے جب پیغمبر اسلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رہنمائی اور ہمیشہ کے لیے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اٹھایا تھا۔ شیعوں کی رائے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 27 رجب کو 40 ویں سال الفیل (610 عیسوی کے مطابق) میں ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ اسلام کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے [1]۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت
اہل السنۃ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کی 17 یا 18 یا 19 تاریخ بروز پیر کو ایک نبی کی طرف مبعوث کیا گیا۔
لیکن شیعوں کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیامت 40ویں سال الفیل (610ء کے مطابق) میں رجب کے مہینے کی 27 تاریخ کو ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ شیعہ منابع میں اس امر کی تائید کرنے والی بہت سی روایات ہیں، ان میں سے مرحوم کلینی نے اپنی سند کے ساتھ امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: رجب کی ستائیسویں تاریخ کو مت بھولو، کیونکہ یہ وہ دن ہے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت پر مامور کیا گیا تھا [2]۔
شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی دوسری احادیث بھی دوسرے ائمہ یا صحابہ کرام سے نقل ہوئی ہیں۔
پہلی وحی
جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب غار حرا میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔
جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب غار حرا میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔
روایت کی گئی ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو بیان کر رہے تھے، فرمایا: انہوں نے سب سے زیادہ فرمانبردار دل پائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کے دروازے کھول دیے اور فرشتوں کو اجازت دی اور وہ نیچے آگئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تو اس پر عرش سے رحمت نازل ہوئی اور وہ روح الامین کی طرف دیکھ رہا تھا، جبرائیل - فرشتوں کا مامور - جبرائیل اس کے پاس اترے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا اور کہا: اے محمد! پڑھو، محمد نے کہا: کیا پڑھوں؟ اس نے کہا: اے محمد! اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذی خَلَقَ * خَلَقَ الْاِنسانَ مِنْ عَلَقَ * اِقْرَا وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ * اَلَّذی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ... [3]
محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ سے نیچے اترے جبکہ خدا کی عظمت اور عظمت الٰہی نے انہیں چکرا دیا تھا اور وہ بخار اور کپکپاہٹ میں مبتلا تھے۔ جس چیز نے اسے مزید پریشان کر دیا وہ یہ تھا کہ اسے ڈر تھا کہ قریش اس کا انکار کر دیں گے اور اسے پاگل پن سے منسوب کر دیں گے، جبکہ وہ ان میں سب سے زیادہ عقلمند اور قابل احترام اور ان کی نظروں میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا۔ لہٰذا، خدا نے چاہا کہ اس کے دل کو ہمت سے بھر دے اور اسے فراخ دل بنائے۔ اس لیے آپ ان کو ہر پتھر اور درخت کے پاس سے یہ کہتے ہوئے سن سکتے تھے۔
السلام علیک یا رسول اللّه
ایک روایت میں ہے کہ جبرائیل امین ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ اترے اور میکائیل ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ اترے اور ان کو عزت و تکریم کا تختہ لایا اور نبوت و رسالت کا تاج آپ کے سر پر رکھا اور ان کی تعریف و توصیف کی۔ کہا بیٹھو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔
ایک اور روایت میں ہے کہ وہ کرسی سرخ یاقوت کی تھی، اس کی بنیاد آزور جیڈ سے بنی ہوئی تھی اور اس کی بنیاد موتیوں سے بنی ہوئی تھی، اور جب فرشتے آسمان پر چڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ حرہ سے نیچے تشریف لائے اور روشنیاں روشن ہوئیں۔ اس کے جلال نے اسے ڈھانپ لیا، تاکہ کوئی نہ دیکھ سکے کہ اس کا چہرہ مبارک نہیں تھا اور ہر درخت، پودے اور پتھر پر جس سے وہ گزرتا تھا، انہوں نے اسے سجدہ کیا اور فصیح زبان میں کہا:
السلام علیک یا نبی الله، السلام علیک یا رسول الله
گھر میں داخل ہوتے ہی خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا کا گھر آپ کے چہرے مبارک کے نور سے منور ہو گیا اور اس نیک خاتون نے پوچھا: اے محمد! یہ کیا نور ہے جو میں تم میں دیکھ رہا ہوں؟ حضرت نے فرمایا: یہ ایک نبی کا نور ہے، کہو: لا الہ الا اللہ، محمد اللہ کے رسول ہیں۔
خدیجہ نے کہا: میں آپ کو برسوں سے نبی کے طور پر جانتی ہوں اور اب بھی گواہی دیتی ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ خدا کے رسول اور نبی ہیں۔ اس طرح حضرت خدیجہ پہلی شخصیت تھیں جو اپنے شوہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں ۔
مردوں میں سے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی آپ پر ایمان لایا اور اپنی شہادتوں کا اظہار کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے گھر کے پاس نماز پڑھتے اور خدیجہ سلام اللہ علیہا اور علی علیہ السلام آپ کے پیچھے پیچھے نماز پڑھتے۔ ان تینوں لوگوں نے اپنی جان و مال سے اسلام کی آبیاری کی اور پھیلایا [4]۔
بعثت اسلام کے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دن مسلمانوں کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
27 رجب المرجب، یوم نجات عالم بشریت / اعمال شب و روز عید مبعث
عید مبعث اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن حضرت محمد مصطفیٰ (ص) رسالت پر مبعوث ہوئے، اس دن دین اسلام کا باقاعدہ آغاز ہوا، یہ واقعہ ۲۷ رجب ۱۳ سال قبل از ہجرت پیش آیا۔ حوزہ نیوز ایجنسی। امام ابو جعفر جواد علیہ السلام سے مروی ہے کہ: ماہ رجب میں ایک رات ہے کہ وہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج چمکتا ہے اور وہ ستائیسویں رجب کی رات ہے کہ جس کی صبح رسول اعظم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ ہمارے پیروکاروں میں جو اس رات عمل کرے گا تو اس کو ساٹھ سال کے عمل کا ثواب حاصل ہوگا۔
میں نے عرض کیا اس رات کا عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : نماز عشا کے بعد سوجائے اور پھر آدھی رات سے پہلے اٹھ کر بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد قرآن کی آخری مفصل سورتوں ﴿سورہ محمد سے سورہ ناس﴾ میں سے کوئی ایک سورہ پڑھے۔ نماز کا سلام دینے کے بعد سورہ حمد، سورہ فلق سورہ ناس، سورہ توحید، سورہ کافرون اور سورہ قدر میں سے ہر ایک سات سات مرتبہ نیز آیۃ الکرسی بھی سات مرتبہ پڑھے اور ان سب کو پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے:
ستائیس رجب کی رات کے اعمال اور دعائیں
- 1- غسل کرنا.
- 2- بارہ رکعت نماز جو کہ امام محمد بن علي الجواد عليہما السلام سے مروی ہے.
- 3- زيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليہ السلام.
- 4- یہ دعا پڑھنا: ﴿اَللّـهُمَّ إِنّي أَساَلُكَ بِالتَّجَلِي الأعْظَمِ في هذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ...﴾.
ستائیس رجب کے دن کے اعمال
غُسل، روزہ رکھنا،اس دن کا روزہ ستر سال کے روزے کا ثواب رکھتا ہے۔کثرت سےمحمد وآل محمد پر درود بھیجنا۔زيارة خاتم الأنبياء وسيّد المرسلين محمد صلى الله عليه آلہ وزيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليہ السلام۔ تیس رکعت نماز پڑھنا ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد 10 مرتبہ سورہ توحید پڑھنا۔
شب مبعث کے اعمال
مستحب ہے کہ انسان شب بیداری کرے اور وارد شدہ اعمال کو بجالاءے ۔اعمال کی کیفیت مندرجہ ذیل ہے : ۱۲رکعت نماز ہے جس کی ہر رکعت میں سورہ سورۂ حمد کے بعد سورۂ محمد کی تلاوت کرے ۔اور ہر دو رکعت کے بعد سلام کے ساتھ نماز کو تمام کرے ۔۱۲ رکعت نماز تمام ہو جانے کے بعد سات مرتبہ چار وں قل کی تلاوت کرے ۔پھر سات مرتبہ انا انزلناہ اور آیۃ الکرسی کی تلاوت کرے اور اس کے بعد اس دعا کو پڑھے ۔
﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدا وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيرا اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعَاقِدِ عِزِّكَ عَلَى أَرْكَانِ عَرْشِكَ وَ مُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِكَ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ وَ ذِكْرِكَ الْأَعْلَى الْأَعْلَى الْأَعْلَى وَ بِكَلِمَاتِكَ التَّامَّاتِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَفْعَلَ بِي مَا أَنْتَ أَهْلُهُ﴾ .اپنی حاجت طلب کریں انشاء اللہ مستجاب ہو گی۔
۲۔ زيارت حضرت امير المؤمنين عليہ السلام کہ اس رات کے افضل ترین اعمال میں سے ہے ۔
۳۔ شيخ كفعمى بلد الامين میں فرماتے ہیں کہ شب مبعث میں اس دعا کی تلاوت کریں :
﴿اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِالتَّجَلِّي [بِالنَّجْلِ] الْأَعْظَمِ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ وَ الْمُرْسَلِ الْمُكَرَّمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا مَا أَنْتَ بِهِ مِنَّا أَعْلَمُ يَا مَنْ يَعْلَمُ وَ لا نَعْلَمُ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ الَّتِي بِشَرَفِ الرِّسَالَةِ فَضَّلْتَهَا وَ بِكَرَامَتِكَ أَجْلَلْتَهَا وَ بِالْمَحَلِّ الشَّرِيفِ أَحْلَلْتَهَا اللَّهُمَّ فَإِنَّا نَسْأَلُكَ بِالْمَبْعَثِ الشَّرِيفِ وَ السَّيِّدِ اللَّطِيفِ وَ الْعُنْصُرِ الْعَفِيفِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَجْعَلَ أَعْمَالَنَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَ فِي سَائِرِ اللَّيَالِي مَقْبُولَةً وَ ذُنُوبَنَا مَغْفُورَةً وَ حَسَنَاتِنَا مَشْكُورَةً وَ سَيِّئَاتِنَا مَسْتُورَةً وَ قُلُوبَنَا بِحُسْنِ الْقَوْلِ مَسْرُورَةً وَ أَرْزَاقَنَا مِنْ لَدُنْكَ بِالْيُسْرِ مَدْرُورَةً اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَرَى وَ لا تُرَى وَ أَنْتَ بِالْمَنْظَرِ الْأَعْلَى وَ إِنَّ إِلَيْكَ الرُّجْعَى وَ الْمُنْتَهَى وَ إِنَّ لَكَ الْمَمَاتَ وَ الْمَحْيَا وَ إِنَّ لَكَ الْآخِرَةَ وَ الْأُولَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَذِلَّ وَ نَخْزَى وَ أَنْ نَأْتِيَ مَا عَنْهُ تَنْهَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِكَ وَ نَسْتَعِيذُ بِكَ مِنَ النَّارِ فَأَعِذْنَا مِنْهَا بِقُدْرَتِكَ وَ نَسْأَلُكَ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ فَارْزُقْنَا بِعِزَّتِكَ وَ اجْعَلْ أَوْسَعَ أَرْزَاقِنَا عِنْدَ كِبَرِ سِنِّنَا وَ أَحْسَنَ أَعْمَالِنَا عِنْدَ اقْتِرَابِ آجَالِنَا وَ أَطِلْ فِي طَاعَتِكَ وَ مَا يُقَرِّبُ إِلَيْكَ وَ يُحْظِي عِنْدَكَ وَ يُزْلِفُ لَدَيْكَ أَعْمَارَنَا وَ أَحْسِنْ فِي جَمِيعِ أَحْوَالِنَا وَ أُمُورِنَا مَعْرِفَتَنَا وَ لا تَكِلْنَا إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ فَيَمُنَّ عَلَيْنَا وَ تَفَضَّلْ عَلَيْنَا بِجَمِيعِ حَوَائِجِنَا لِلدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ ابْدَأْ بِآبَائِنَا وَ أَبْنَائِنَا وَ جَمِيعِ إِخْوَانِنَا الْمُؤْمِنِينَ فِي جَمِيعِ مَا سَأَلْنَاكَ لِأَنْفُسِنَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الْعَظِيمِ وَ مُلْكِكَ الْقَدِيمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا الذَّنْبَ الْعَظِيمَ إِنَّهُ لا يَغْفِرُ الْعَظِيمَ إِلا الْعَظِيمُ اللَّهُمَّ وَ هَذَا رَجَبٌ الْمُكَرَّمُ الَّذِي أَكْرَمْتَنَا بِهِ أَوَّلُ أَشْهُرِ الْحُرُمِ أَكْرَمْتَنَا بِهِ مِنْ بَيْنِ الْأُمَمِ فَلَكَ الْحَمْدُ يَا ذَا الْجُودِ وَ الْكَرَمِ فَأَسْأَلُكَ بِهِ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَجَلِّ الْأَكْرَمِ الَّذِي خَلَقْتَهُ فَاسْتَقَرَّ فِي ظِلِّكَ فَلا يَخْرُجُ مِنْكَ إِلَى غَيْرِكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ الطَّاهِرِينَ وَ أَنْ تَجْعَلَنَا مِنَ الْعَامِلِينَ فِيهِ بِطَاعَتِكَ وَ الْآمِلِينَ فِيهِ لِشَفَاعَتِكَ اللَّهُمَّ اهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ السَّبِيلِ وَ اجْعَلْ مَقِيلَنَا عِنْدَكَ خَيْرَ مَقِيلٍ فِي ظِلٍّ ظَلِيلٍ وَ مُلْكٍ جَزِيلٍ فَإِنَّكَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ اللَّهُمَّ اقْلِبْنَا مُفْلِحِينَ مُنْجِحِينَ غَيْرَ مَغْضُوبٍ عَلَيْنَا وَ لا ضَالِّينَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِعَزَائِمِ مَغْفِرَتِكَ وَ بِوَاجِبِ رَحْمَتِكَ السَّلامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ وَ الْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَ الْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ وَ النَّجَاةَ مِنَ النَّارِ اللَّهُمَّ دَعَاكَ الدَّاعُونَ وَ دَعَوْتُكَ وَ سَأَلَكَ السَّائِلُونَ وَ سَأَلْتُكَ وَ طَلَبَ إِلَيْكَ الطَّالِبُونَ وَ طَلَبْتُ إِلَيْكَ اللَّهُمَّ أَنْتَ الثِّقَةُ وَ الرَّجَاءُ وَ إِلَيْكَ مُنْتَهَى الرَّغْبَةِ فِي الدُّعَاءِ اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ اجْعَلِ الْيَقِينَ فِي قَلْبِي وَ النُّورَ فِي بَصَرِي وَ النَّصِيحَةَ فِي صَدْرِي وَ ذِكْرَكَ بِاللَّيْلِ وَ النَّهَارِ عَلَى لِسَانِي وَ رِزْقا وَاسِعا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَ لا مَحْظُورٍ فَارْزُقْنِي وَ بَارِكْ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي وَ اجْعَلْ غِنَايَ فِي نَفْسِي وَ رَغْبَتِي فِيمَا عِنْدَكَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ﴾
سجده مین جاکر یہ کہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِمَعْرِفَتِهِ وَ خَصَّنَا بِوِلايَتِهِ وَ وَفَّقَنَا لِطَاعَتِهِ شُكْرا شُكْرا ۔سو مرتبہ سجدہ سے سر اٹھا کر یہ کہے:
اللَّهُمَّ إِنِّي قَصَدْتُكَ بِحَاجَتِي وَ اعْتَمَدْتُ عَلَيْكَ بِمَسْأَلَتِي وَ تَوَجَّهْتُ إِلَيْكَ بِأَئِمَّتِي وَ سَادَتِي اللَّهُمَّ انْفَعْنَا بِحُبِّهِمْ وَ أَوْرِدْنَا مَوْرِدَهُمْ وَ ارْزُقْنَا مُرَافَقَتَهُمْ وَ أَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ فِي زُمْرَتِهِمْ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ[5]۔
روز بعثت خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے
علامہ سیدساجد علی نقوی نے کہا: بعثت رسول اکرم (ص) انسانیت کو خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سیدساجد علی نقوی نے 27 رجب المرجب، یوم بعثت رسول اکرم (ص) کی مناسبت سے جاری پیغام میں کہا ہے کہ بعثت رسول اکرم (ص) انسانیت کو خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے۔
انہوں نے کہا: بعثت پیغمبر اکرم (ص) سے قبل انسانیت جس ابتری اور زوال کا شکار تھی، انسانی معاشرہ جس بیگاڑ میں دھنسا ہوا تھا اور قدم قدم پر مفاسد نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اسے قرآن کریم نے ضلال مبین سے تعبیر کیا ہے۔ ایسے ماحول اور اس زمانے میں حضور اکرم (ص) کا مبعوث ہونا عالم ِ انسانیت کے لیے ایک عظیم خوشخبری اور دائمی نجات کی نوید ثابت ہوا۔
سید ساجد علی نقوی نے کہا: واقعہ معراج پلک جھپکنے میں ہزاروں لاکھوں میلوں اور کئی آسمانوں کو عبور کرکے ایک خاص مقام پر پہنچنا ہے جو قدرت کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی اور انسانی بلندی کی بے نظیر مثال ہے اگرچہ واقعہ معراج سائنس کی رینج سے ماورا ہے اس کے باوجو دروز افزوں سائنسی علوم کا ارتقا ، انسانی علوم کی پیشرفت اور سیٹیلائٹ و نجوم کا سفر واقعہ معراج کو حتمی بنا رہا ہے[6]۔
حواله جات
- ↑ سورہ ہاں آیت 52; سورہ بقرہ آیت 56۔ سورہ حج آیت نمبر 7
- ↑ تحقیق تاریخ اسلام، جلد 1، ص 315
- ↑ علق: 1-3
- ↑ منتہا العمل، ج1، ص47
- ↑ 27 رجب المرجب، یوم نجات عالم بشریت / اعمال شب و روز عید مبعث- شائع شدہ از: 27 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 جنوری 2025ء۔
- ↑ روز بعثت خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے- شائع شدہ از: 27 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 جنوری 2025ء۔