"بعثت" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(2 صارفین 8 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
[[فائل:بعثت.jpg|250px|بدون_چوکھٹا|بائیں|بعثت]]
[[فائل:مبعث 3.jpg|بدون_چوکھٹا|بائیں]]
'''بعثت''' اس کا مطلب ہے کسی شخص کو خدا کی طرف سے نبی منتخب کرنا اور اس کی نبوت کے دور کا آغاز۔ اگرچہ بعثت کو تمام انبیاء کے انتخاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا استعمال حضرت محمد کو بطور نبی منتخب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسلامی ثقافت میں اس دن کو کہا جاتا ہے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔ بعث کے لفظی معنی ہیں بیدار کرنا۔ اس کا مطلب بھی بھیجنا ہے۔ اور بھیجنا بھی آ گیا ہے۔ بعثت کو قرآن پاک میں لوگوں کی رہنمائی اور مردوں کو جمع کرنے کے لیے انبیاء کو اٹھانے اور بھیجنے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم]] کا یوم ولادت وہ دن ہے جب پیغمبر اسلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رہنمائی اور ہمیشہ کے لیے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اٹھایا تھا۔ شیعوں کی رائے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 27 رجب کو 40 ویں سال الفیل (610 عیسوی کے مطابق) میں ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ اسلام کے پیارے نبی [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم]] کی ولادت باسعادت کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے <ref>سورہ ہاں آیت 52; سورہ بقرہ آیت 56۔ سورہ حج آیت نمبر 7</ref>۔
'''بعثت''' اس کا مطلب ہے کسی شخص کو خدا کی طرف سے نبی منتخب کرنا اور اس کی نبوت کے دور کا آغاز۔ اگرچہ بعثت کو تمام انبیاء کے انتخاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا استعمال [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمد]] کو بطور نبی منتخب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسلامی ثقافت میں اس دن کو کہا جاتا ہے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔ بعث کے لفظی معنی ہیں بیدار کرنا۔ اس کا مطلب بھی بھیجنا ہے۔ بعثت کو [[قرآن|قرآن پاک]] میں لوگوں کی رہنمائی اور مردوں کو جمع کرنے کے لیے انبیاء کو اٹھانے اور بھیجنے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم]] کا یوم ولادت وہ دن ہے جب پیغمبر اسلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رہنمائی اور ہمیشہ کے لیے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اٹھایا تھا۔ شیعوں کی رائے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 27 رجب کو 40 ویں سال الفیل (610 عیسوی کے مطابق) میں ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ [[اسلام]] کے پیارے نبی [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم]] کی ولادت باسعادت کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے <ref>سورہ ہاں آیت 52; سورہ بقرہ آیت 56۔ سورہ حج آیت نمبر 7</ref>۔
== بعثت انبیاء قرآن کی روشنی میں ==
تمام انبیاء کا پہلا پیغام یہی تھا کہ قولوا لا الہ اللہ تفلحوا کہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور نجات پا جاؤ۔ یہ عقیدہ انسان کی شخصیت سازی کا معمار ہے جس کا عقیدہ اللہ پر ہوگا وہ کبھی غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکائے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے نہیں جھکے گا وہ ہر ایرے غیرے کے سامنےجھکا ہوا ملے گا ۔
== بعثت کا معنیٰ و مفہوم ==
لفظ بعثت کی اصل بعث ہے جو عربی لفظ ہے۔ اسی کا حقیقی معنیٰ ابھارنا ہے <ref>التحقیق فی کلمات القرآن ج ۱ ص ۲۹۵</ref>۔
[[قرآن|قرآن مجید]] میں یہ لفط موت کے بعد دوبارہ قبر سے اٹھائے جانے کے بارے میں استعمال ہوا ہےقرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: بعثت انبیاء قرآن کی روشنی میں
تمام انبیاء کا پہلا پیغام یہی تھا کہ قولوا لا الہ اللہ تفلحوا کہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور نجات پا جاؤ۔ یہ عقیدہ انسان کی شخصیت سازی کا معمارہےجس کا عقیدہ اللہ پر ہوگا وہ کبھی غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکائے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے نہیں جھکے گا وہ ہر ایرے غیرے کے سامنےجھکا ہوا ملے گا ۔
 
== بعثت کا معنیٰ و مفہوم ==
لفظ بعثت کی اصل بعث ہے جو عربی لفظ ہے۔ اسی کا حقیقی معنیٰ ابھارنا ہے<ref>التحقیق فی کلمات القرآن ج ۱ ص ۲۹۵</ref>۔
قرآن مجید میں یہ لفط موت کے بعد دوبارہ قبر سے اٹھائے جانے کے بارے میں استعمال ہوا ہےقرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہےمَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ۔ہمیں ہماری قبروں سے کون اٹھائے گا۔(سورہ یا سین ۵۲) اور اسی معنیٰ میں قیامت کو یوم البعث کہا گیا ہے۔
 
اس کے علاوہ قرآن مجید میں یہ لفظ بھیجنے کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ (فطری اعتبار سے ) سارے انسان ایک قوم تھے ، پھر خدا نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے۔<ref>سورہ بقرہ آیت ۲۱۳</ref>۔
اور اصطلاح میں بعثت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنی طرف سے ہادی و رہبر بھیجے۔ اسی لئے جس دن رسول اکرم ﷺپر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ کواپنا پیغام رسالت لوگوں تک پہنچانے کا حکم ملااس دن کو روز بعثت اور عید مبعث کہا جاتا ہے۔اور اس دن کے بعد سے ہجری تک کے زمانے کو سن بعثت کہا جاتا تھا۔
== ضرورت بعثت ==
دنیا کےتمام مذاہب و ادیان میں کسی نہ کسی صورت میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ان کی ہدایت کے لئےاللہ کی جانب سے کوئی ہادی و رہبر آیا ہے۔ مثلا عیسائی جناب [[حضرت عیسی  علیہ  السلام|عیسیٰ علیہ السلام]] اور ان سے قبل کے انبیاءکو اللہ کے پیغمبر مانتے ہیں،یہودی موسیٰ اور انبیاء بنی اسرائیل کو اللہ کے نمائندےسمجھتے ہیں،ہندو دھرم کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بھگوان وشنو، رام اور کرشن کے بھیس میں؛بھولے ناتھ شنکر، ہنومان کے روپ میں اور دیگر دیوتا لباس بشر میں انسانوں کی ہدایت کے لئے آئے۔
 
دنیا کےتمام انسانوں کایہ عقیدہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو ہر دور میں ایک الہی ہادی و رہبر کی ضرورت ہے، انسان صرف اپنی ناقص عقل کی بنیاد پر زندگی کا سفر طے نہیں کر سکتا۔
قرآن مجید بھی اس عقیدہ کی تائید کرتا ہےکہ ہر دور میں ایک ہادی و رہبر رہا ہےارشاد ہوتا ہے۔ إِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں ڈرانے والا نہ گذرا ہو۔ <ref>سورہ فاطر آیت ۲۴</ref>۔
 
قرآن مجید میں سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے۔لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎﴿١٦٤﴾‏‏ خدا وند عالم نے مؤمنین پر احسان کیا انہیں میں ایک رسول کو بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات سناتا ہےاور ان کا تزکیہ کرتا ہےاور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
مذکورہ بالا آیت میں تعلیم و تربیت کو رسول کے اہم وظائف میں بتایا گیا ہے۔
 
کیوں کہ انسان جاہل پیدا ہوتا ہےاور جاہل انسان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے اورصحیح راہ دکھانے کے لئےہادی و رہبر کا ہونا ضروری ہے۔اور اگر ہادی نہیں ہوگا تو لوگ جہالت کے تاریک سمندر میں غرق ہو جائےگیں۔ اس جانب آیت کے آخری حصہ میں اشارہ کیا گیا ہے کہإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ جو ہادی کے نہ ہونے کا لازمہ ہے۔ اسی لئے اللہ ہر زمانے میںکسی نبی یا رسول کو بھیجا۔
== مقصد بعثت ==
بالائی سطور سے انبیاء الٰہی اور ہادیان بر حق کی ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ذیل میں ہم قرآ ن کریم کی رو سے انبیاء ِالٰہی کےاہم مقاصدکی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
 
=== (۱)خدا کی عبادت اور طاغوت سے پرہیز ===
خدا کے وجود کا عقیدہ انسان کے فطرت میں ہے۔ اس فطری غریزہ کی صحیح راہ کی جانب راہنمائی ضروری ہے ورنہ انسان کم عقلی اور صحیح تعلیمات سے دوری کی وجہ سےگمراہ ہو جائے گا۔شاید اسی لئے انبیاء الہی کی تمام تر تعلیمات کا دارومدار عقیدہ توحید رہا ہے۔تمام رسولوں کا یہی پیغام تھا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ کے سامنے اپنا سر نہ جھکاؤ۔ انسان حقیقت توحید کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک غیر اللہ کی عبادت سے پرہیز نہ کرے۔
 
اس لئےکہ دو متضاد چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی اس لئے خدا کی عبادت کے ساتھ طاغوت کی اطاعت سے پرہیز کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ کلمہ توحید میں بھی پہلے غیر اللہ کی نفی ہے پھر اللہ کی الوہیت کا اقرار ہے۔انبیاء کی تمام تر تعلیات کا دارمدار یہی پیغام تھا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ اور یقیناہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے پرہیز کرو۔ <ref>سورہ نحل ایت ۳۶</ref>۔
 
اس آیت میں اللہ نے بعثت انبیاء کا مقصد اللہ کی عبادت اور طاغوت سے دوری بتایا ہے ۔تمام انبیاء کا پہلا پیغام یہی تھا کہ قولوا لا الہ اللہ تفلحواکہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور نجات پا جاؤ۔ یہ عقیدہ انسان کی شخصیت سازی کا معمارہےجس کا عقیدہ اللہ پر ہوگا وہ کبھی غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکائے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے نہیں جھکے گا وہ ہر ایرے غیرے کے سامنےجھکا ہوا ملے گا۔
 
اور جو اللہ کے سامنے سر جھکائے گا وہ دنیا میں بھی با عزت رہے گا اور آخرت میںکامیاب و کامران رہے گا اگر اس کامشاہدہ کرنا ہو تو دور حاضر میں ایران اور دیگر اسلامی ممالک کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران کسی سوپر پاؤر کے اگے نہیں جھکا آج بھی سر بلند ہے ۔بقیہ ممالک ہر ایرے غیرے کے سامنے جھکے ہیں نتیجہ میں آج ذلیل و خوار ہیں۔
 
=== (۲)تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ نفوس ===
تعلیم انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے انسان جب دنیا میں آتا ہے تو جاہل آتا ہے ۔ اسی لئے اللہ نے اس کے لئے سب سے پہلے ایسے معلم کا انتظام کیا جسے اپنے پاس سے علم دے کر بھیجا ۔ اور ہر دور میں ایک معلم و ہادی کا انتظام کیا۔ تا کہ انسان اپنی جہالت و کم عقلی کی بنا پر راہ راست سے بہک نہ جائے۔
رسول اسلام ﷺ پر روز مبعث جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں ارشاد ہوا
 
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ‎﴿١﴾‏ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ‎﴿٢﴾‏ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ‎﴿٣﴾‏ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ‎﴿٤﴾‏ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ‎﴿٥﴾ اپنے پروردگار کے نام سے پڑھو جس نے خلق کیا ہے اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ جس نےقلم کے ذریعہ تعلیم دی اور انسان کو سب کچھ بتایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ <ref>سورہ علق</ref>۔
رسول ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی سے دو باتیں آشکار ہو جاتی ہیں ایک تعلیم ہے جو بعثت انبیاءکےبنیادی مقاصد میں سے ہے۔ دوسرے لباس و جود میںآنے کے بعد انسان سب سے پہلی ضرورت علم ہے۔
 
اور انسان حقیقت علم تک اس وقت تک نہیں پہونچ سکتا جب تک تعلیم کی منفی چیزوں کو دور نہ کرے اسی کا نام تزکیہ ہے ۔ تزکیہ انسان کے نفس کو اس لائق بنا دیتا ہے کہ انسان علم کی حقیقت کو درک کر سکے۔ اور اگر انسان بغیر تزکیہ کےلفظیں رٹ بھی لیتا ہے تو یہ علم اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتا۔ یہی وجہ کہ انسان اتنی ترقی اور علم کی اس بلندی پر ہونے کے باجود بھی پر سکون نہیں ہے اس کی حیرانی اور پریشانی کی وجہ حقیقت علم سے دوری ہے۔ جو بغیر تزکیہ کے نصیب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے انبیاء کے مقاصد میں تعلیم و تربیت قرآن مجید میں باربار بیان کیا گیا ہے سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے۔
 
’’پروردگار ان کے درمیان ایک رسول کو بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے بے شک تو عزیز و حکیم ہے۔‘‘
 
سورہ جمعہ میں ارشاد ہوتا ہے
 
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎ ‎﴿٢﴾‏اللہ وہی ہے جس نے مکہ والوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
 
مندرجہ بالا آیات سے یہ واضح ہے تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ نفوس انبیاء کی بعثت کے اہم مقاصد میںسے ہے۔اور اگر تعلیم اور تزکیہ نہیں ہوگا انسان تو ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتابلکہ ہمیشہ گمراہی میں رہے گا جیسے بعثت سے قبل کے لوگوں کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ گمراہی میں تھے۔
=== قیام عدل و انصاف ===
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عدل و انصاف معاشرہ کی بنیادی ضروریات میں سے ہیںکیوں کہ اگر معاشرہ میں عدل و انصاف نہیں ہوگا ایک دوسرے کے حقوق پائمال کئے جائیں گے۔ کمزوراوربے سہارا افراد کو ستایا جائے گا ۔اورمعاشرہ ظلم و ستم سے بھر جائے گا۔ اس لئے ہر ملک، ہر صوبہ اور ہر شہر و دیہات میں ایک حاکم کاانتخاب کیا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ معاشرہ کے مسائل کو حل کرے اور عد ل و انصاف قائم کرے۔
 
خداوندعالم نے روز اول سے اس ضرورت کا خیال رکھا اور ہر دور میںہادی عادل بھیجاتا کہ وہ لوگوں کے درمیان عد ل و انصاف کرے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے
 
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تا کہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں شدید جنگ کا سامان ہے اور بہت سے فائدے ہیں ۔
 
مذکورہ آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ نے رسولوں کے ساتھ کتاب و میزان کو نازل کیا۔ اس لئے کہ عدل و انصاف کے لئے ایک پیمانہ اور معیار ہونا چاہیے جو اللہ نے رسولوںکو کتاب و میزان کی شکل میں دے کر بھیجا۔ اور معاشرہ میں عدل انصاف کا قیام اسان نہیں ہے اس کے لئے کبھی تلوار اٹھانا پڑے گی کھبی جنگ کرنا ہوگی اسی لئے اللہ نے آسمان سے لوہا بھی نازل کیا۔ تا کہ اس کے نمائندوں کو عدل و انصاف کے قیام میں کو ئی مشکل پیش نہ آئے۔
 
مذکورہ آیت میںایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ تاکہ لوگ عدل و انصاف کے ساتھ قیام کریں۔ یہ نہیں کہا گیا کہ انبیاء عدل و انصاف قائم کریں۔ بلکہ لوگ خود عدل و انصاف کو ساتھ قیام کریں گے۔یہ رہبران الٰہی کی معراج انصاف ہے کہ اگر انہیں عدل و انصاف کرنے دیا جائے تو وہ معاشرہ کو اس بلندی پر پہونچا دیں گے کہ پھر انہیں کسی عدل و انصاف کرنے والے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ لوگ خود عدل و ا نصاف سے قیام کرنے لگیں گے۔ خدا وندعالم ہمارےامام عادل کے ظہور میں تعجیل فرمائے عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرنے والوں میں سے قرار دے اور اس کے ظہور میں تعجیل فرما جو معاشرہ کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔آمینمَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا"۔ ہمیں ہماری قبروں سے کون اٹھائے گا۔(سورہ یا سین ۵۲) اور اسی معنیٰ میں قیامت کو یوم البعث کہا گیا ہے۔
 
اس کے علاوہ قرآن مجید میں یہ لفظ بھیجنے کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ (فطری اعتبار سے ) سارے انسان ایک قوم تھے ، پھر خدا نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے۔(سورہ بقرہ آیت ۲۱۳)
 
اور اصطلاح میں بعثت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنی طرف سے ہادی و رہبر بھیجے۔ اسی لئے جس دن رسول اکرم ﷺپر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ کواپنا پیغام رسالت لوگوں تک پہنچانے کا حکم ملااس دن کو روز بعثت اور عید مبعث کہا جاتا ہے۔اور اس دن کے بعد سے ہجری تک کے زمانے کو سن بعثت کہا جاتا تھا<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/377896/%D8%A8%D8%B9%D8%AB%D8%AA-%D8%A7%D9%86%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D8%A1-%D9%82%D8%B1%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D9%88%D8%B4%D9%86%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA  محمد تبریز، بعثت انبیاء قرآن کی روشنی میں]- شائع شدہ از: 28 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 جنوری 2025ء۔</ref>۔
== محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ==
== محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ==
[[سنی|اہل السنۃ]] کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کی 17 یا 18 یا 19 تاریخ بروز پیر کو ایک نبی کی طرف مبعوث کیا گیا۔
[[سنی|اہل السنۃ]] کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کی 17 یا 18 یا 19 تاریخ بروز پیر کو ایک نبی کی طرف مبعوث کیا گیا۔


لیکن شیعوں کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیامت 40ویں سال الفیل (610ء کے مطابق) میں رجب کے مہینے کی 27 تاریخ کو ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ [[شیعہ]] منابع میں اس امر کی تائید کرنے والی بہت سی روایات ہیں، ان میں سے مرحوم کلینی نے اپنی سند کے ساتھ امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: رجب کی ستائیسویں تاریخ کو مت بھولو، کیونکہ یہ وہ دن ہے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت پر مامور کیا گیا تھا <ref>تحقیق تاریخ اسلام، جلد 1، ص 315</ref>۔
لیکن شیعوں کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیامت 40ویں سال الفیل (610ء کے مطابق) میں رجب کے مہینے کی 27 تاریخ کو ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ [[شیعہ]] منابع میں اس امر کی تائید کرنے والی بہت سی روایات ہیں، ان میں سے مرحوم کلینی نے اپنی سند کے ساتھ [[جعفر بن محمد|امام صادق علیہ السلام]] سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: رجب کی ستائیسویں تاریخ کو مت بھولو، کیونکہ یہ وہ دن ہے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت پر مامور کیا گیا تھا <ref>تحقیق تاریخ اسلام، جلد 1، ص 315</ref>۔


شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی دوسری احادیث بھی دوسرے ائمہ یا صحابہ کرام سے نقل ہوئی ہیں۔
شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی دوسری احادیث بھی دوسرے ائمہ یا صحابہ کرام سے نقل ہوئی ہیں۔
== پہلی وحی ==
== پہلی وحی ==
جب وہ [[مکہ مکرمہ]] کے قریب [[غار حرا]] میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔
جب وہ [[مکہ مکرمہ]] کے قریب [[غار حرا]] میں عبادت اور [[نماز]] پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔


جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب غار حرا میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔
جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب غار حرا میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔


روایت کی گئی ہے کہ [[امام حسن عسکری علیہ السلام]] جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو بیان کر رہے تھے، فرمایا: انہوں نے سب سے زیادہ فرمانبردار دل پائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کے دروازے کھول دیے اور فرشتوں کو اجازت دی اور وہ نیچے آگئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تو اس پر عرش سے رحمت نازل ہوئی اور وہ روح الامین کی طرف دیکھ رہا تھا، جبرائیل - فرشتوں کا مور - جبرائیل اس کے پاس اترے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا اور کہا: اے محمد! پڑھو، محمد نے کہا: کیا پڑھوں؟ اس نے کہا: اے محمد! اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذی خَلَقَ * خَلَقَ الْاِنسانَ مِنْ عَلَقَ * اِقْرَا وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ * اَلَّذی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ... <ref>علق: 1-3</ref>
روایت کی گئی ہے کہ [[امام حسن عسکری علیہ السلام]] جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو بیان کر رہے تھے، فرمایا: انہوں نے سب سے زیادہ فرمانبردار دل پائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کے دروازے کھول دیے اور فرشتوں کو اجازت دی اور وہ نیچے آگئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تو اس پر عرش سے رحمت نازل ہوئی اور وہ روح الامین کی طرف دیکھ رہا تھا، جبرائیل - فرشتوں کا مامور - جبرائیل اس کے پاس اترے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا اور کہا: اے محمد! پڑھو، محمد نے کہا: کیا پڑھوں؟ اس نے کہا: اے محمد! اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذی خَلَقَ * خَلَقَ الْاِنسانَ مِنْ عَلَقَ * اِقْرَا وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ * اَلَّذی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ... <ref>علق: 1-3</ref>


محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ سے نیچے اترے جبکہ خدا کی عظمت اور عظمت الٰہی نے انہیں چکرا دیا تھا اور وہ بخار اور کپکپاہٹ میں مبتلا تھے۔ جس چیز نے اسے مزید پریشان کر دیا وہ یہ تھا کہ اسے ڈر تھا کہ قریش اس کا انکار کر دیں گے اور اسے پاگل پن سے منسوب کر دیں گے، جبکہ وہ ان میں سب سے زیادہ عقلمند اور قابل احترام اور ان کی نظروں میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا۔ لہٰذا، خدا نے چاہا کہ اس کے دل کو ہمت سے بھر دے اور اسے فراخ دل بنائے۔ اس لیے آپ ان کو ہر پتھر اور درخت کے پاس سے یہ کہتے ہوئے سن سکتے تھے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ سے نیچے اترے جبکہ خدا کی عظمت اور عظمت الٰہی نے انہیں چکرا دیا تھا اور وہ بخار اور کپکپاہٹ میں مبتلا تھے۔ جس چیز نے اسے مزید پریشان کر دیا وہ یہ تھا کہ اسے ڈر تھا کہ قریش اس کا انکار کر دیں گے اور اسے پاگل پن سے منسوب کر دیں گے، جبکہ وہ ان میں سب سے زیادہ عقلمند اور قابل احترام اور ان کی نظروں میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا۔ لہٰذا، خدا نے چاہا کہ اس کے دل کو ہمت سے بھر دے اور اسے فراخ دل بنائے۔ اس لیے آپ ان کو ہر پتھر اور درخت کے پاس سے یہ کہتے ہوئے سن سکتے تھے۔
سطر 24: سطر 91:
خدیجہ نے کہا: میں آپ کو برسوں سے نبی کے طور پر جانتی ہوں اور اب بھی گواہی دیتی ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ خدا کے رسول اور نبی ہیں۔ اس طرح حضرت خدیجہ پہلی شخصیت تھیں جو اپنے شوہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں ۔
خدیجہ نے کہا: میں آپ کو برسوں سے نبی کے طور پر جانتی ہوں اور اب بھی گواہی دیتی ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ خدا کے رسول اور نبی ہیں۔ اس طرح حضرت خدیجہ پہلی شخصیت تھیں جو اپنے شوہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں ۔


مردوں میں سے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی آپ پر ایمان لایا اور اپنی شہادتوں کا اظہار کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے گھر کے پاس نماز پڑھتے اور [[خدیجہ سلام اللہ علیہا]] اور علی علیہ السلام آپ کے پیچھے پیچھے نماز پڑھتے۔ ان تینوں لوگوں نے اپنی جان و مال سے اسلام کی آبیاری کی اور پھیلایا <ref>منتہا العمل، ج1، ص47</ref>۔
مردوں میں سے [[علی ابن ابی طالب|امام علی بن ابی طالب علیہ السلام]] نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی آپ پر ایمان لایا اور اپنی شہادتوں کا اظہار کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے گھر کے پاس نماز پڑھتے اور [[خدیجہ سلام اللہ علیہا]] اور علی علیہ السلام آپ کے پیچھے پیچھے نماز پڑھتے۔ ان تینوں لوگوں نے اپنی جان و مال سے اسلام کی آبیاری کی اور پھیلایا <ref>منتہا العمل، ج1، ص47</ref>۔


بعثت اسلام کے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دن مسلمانوں کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
بعثت اسلام کے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دن مسلمانوں کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
== 27 رجب المرجب، یوم نجات عالم بشریت / اعمال شب و روز عید مبعث ==
عید مبعث اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن حضرت محمد مصطفیٰ (ص) رسالت پر مبعوث ہوئے، اس دن [[ اسلام|دین اسلام]] کا باقاعدہ آغاز ہوا، یہ واقعہ ۲۷ رجب ۱۳ سال قبل از ہجرت پیش آیا۔
حوزہ نیوز ایجنسی। [[محمد بن علی بن موسی|امام ابو جعفر جواد علیہ السلام]] سے مروی ہے کہ: ماہ رجب میں ایک رات ہے کہ وہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج چمکتا ہے اور وہ ستائیسویں رجب کی رات ہے کہ جس کی صبح رسول اعظم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ ہمارے پیروکاروں میں جو اس رات عمل کرے گا تو اس کو ساٹھ سال کے عمل کا ثواب حاصل ہوگا۔
میں نے عرض کیا اس رات کا عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : نماز عشا کے بعد سوجائے اور پھر آدھی رات سے پہلے اٹھ کر بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد قرآن کی آخری مفصل سورتوں ﴿سورہ محمد سے سورہ ناس﴾ میں سے کوئی ایک سورہ پڑھے۔ نماز کا سلام دینے کے بعد سورہ حمد، سورہ فلق سورہ ناس، سورہ توحید، سورہ کافرون اور سورہ قدر میں سے ہر ایک سات سات مرتبہ نیز آیۃ الکرسی بھی سات مرتبہ پڑھے اور ان سب کو پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے:
== ستائیس رجب کی رات کے اعمال اور دعائیں ==
* 1- غسل کرنا.
* 2- بارہ رکعت نماز جو کہ امام محمد بن علي الجواد عليہما السلام سے مروی ہے.
* 3- زيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليہ السلام.
* 4- یہ دعا پڑھنا: ﴿اَللّـهُمَّ إِنّي أَساَلُكَ بِالتَّجَلِي الأعْظَمِ في هذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ...﴾.
== ستائیس رجب کے دن کے اعمال ==
غُسل، روزہ رکھنا،اس دن کا روزہ ستر سال کے روزے کا ثواب رکھتا ہے۔کثرت سےمحمد وآل محمد پر درود بھیجنا۔زيارة خاتم الأنبياء وسيّد المرسلين محمد صلى الله عليه آلہ وزيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليہ السلام۔
تیس رکعت نماز پڑھنا ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد 10 مرتبہ سورہ توحید پڑھنا۔
== شب مبعث کے اعمال ==
مستحب ہے کہ انسان شب بیداری کرے اور وارد شدہ اعمال کو بجالاءے ۔اعمال کی کیفیت مندرجہ ذیل ہے :
۱۲رکعت نماز ہے جس کی ہر رکعت میں سورہ سورۂ حمد کے بعد سورۂ محمد کی تلاوت کرے ۔اور ہر دو رکعت کے بعد سلام کے ساتھ نماز کو تمام کرے ۔۱۲ رکعت نماز تمام ہو جانے کے بعد سات مرتبہ چار وں قل کی تلاوت کرے ۔پھر سات مرتبہ انا انزلناہ اور آیۃ الکرسی کی تلاوت کرے اور اس کے بعد اس دعا کو پڑھے ۔
﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدا وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيرا اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعَاقِدِ عِزِّكَ عَلَى أَرْكَانِ عَرْشِكَ وَ مُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِكَ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ وَ ذِكْرِكَ الْأَعْلَى الْأَعْلَى الْأَعْلَى وَ بِكَلِمَاتِكَ التَّامَّاتِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَفْعَلَ بِي مَا أَنْتَ أَهْلُهُ﴾ .اپنی حاجت طلب کریں انشاء اللہ مستجاب ہو گی۔
۲۔ زيارت حضرت امير المؤمنين عليہ السلام کہ اس رات کے افضل ترین اعمال میں سے ہے ۔
۳۔ شيخ كفعمى بلد الامين میں فرماتے ہیں کہ شب مبعث میں اس دعا کی تلاوت کریں :
﴿اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِالتَّجَلِّي [بِالنَّجْلِ‌] الْأَعْظَمِ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ وَ الْمُرْسَلِ الْمُكَرَّمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا مَا أَنْتَ بِهِ مِنَّا أَعْلَمُ يَا مَنْ يَعْلَمُ وَ لا نَعْلَمُ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ الَّتِي بِشَرَفِ الرِّسَالَةِ فَضَّلْتَهَا وَ بِكَرَامَتِكَ أَجْلَلْتَهَا وَ بِالْمَحَلِّ الشَّرِيفِ أَحْلَلْتَهَا اللَّهُمَّ فَإِنَّا نَسْأَلُكَ بِالْمَبْعَثِ الشَّرِيفِ وَ السَّيِّدِ اللَّطِيفِ وَ الْعُنْصُرِ الْعَفِيفِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَجْعَلَ أَعْمَالَنَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَ فِي سَائِرِ اللَّيَالِي مَقْبُولَةً وَ ذُنُوبَنَا مَغْفُورَةً وَ حَسَنَاتِنَا مَشْكُورَةً وَ سَيِّئَاتِنَا مَسْتُورَةً وَ قُلُوبَنَا بِحُسْنِ الْقَوْلِ مَسْرُورَةً وَ أَرْزَاقَنَا مِنْ لَدُنْكَ بِالْيُسْرِ مَدْرُورَةً اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَرَى وَ لا تُرَى وَ أَنْتَ بِالْمَنْظَرِ الْأَعْلَى وَ إِنَّ إِلَيْكَ الرُّجْعَى وَ الْمُنْتَهَى وَ إِنَّ لَكَ الْمَمَاتَ وَ الْمَحْيَا وَ إِنَّ لَكَ الْآخِرَةَ وَ الْأُولَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَذِلَّ وَ نَخْزَى وَ أَنْ نَأْتِيَ مَا عَنْهُ تَنْهَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِكَ وَ نَسْتَعِيذُ بِكَ مِنَ النَّارِ فَأَعِذْنَا مِنْهَا بِقُدْرَتِكَ وَ نَسْأَلُكَ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ فَارْزُقْنَا بِعِزَّتِكَ وَ اجْعَلْ أَوْسَعَ أَرْزَاقِنَا عِنْدَ كِبَرِ سِنِّنَا وَ أَحْسَنَ أَعْمَالِنَا عِنْدَ اقْتِرَابِ آجَالِنَا وَ أَطِلْ فِي طَاعَتِكَ وَ مَا يُقَرِّبُ إِلَيْكَ وَ يُحْظِي عِنْدَكَ وَ يُزْلِفُ لَدَيْكَ أَعْمَارَنَا وَ أَحْسِنْ فِي جَمِيعِ أَحْوَالِنَا وَ أُمُورِنَا مَعْرِفَتَنَا وَ لا تَكِلْنَا إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ فَيَمُنَّ عَلَيْنَا وَ تَفَضَّلْ عَلَيْنَا بِجَمِيعِ حَوَائِجِنَا لِلدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ ابْدَأْ بِآبَائِنَا وَ أَبْنَائِنَا وَ جَمِيعِ إِخْوَانِنَا الْمُؤْمِنِينَ فِي جَمِيعِ مَا سَأَلْنَاكَ لِأَنْفُسِنَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الْعَظِيمِ وَ مُلْكِكَ الْقَدِيمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا الذَّنْبَ الْعَظِيمَ إِنَّهُ لا يَغْفِرُ الْعَظِيمَ إِلا الْعَظِيمُ اللَّهُمَّ وَ هَذَا رَجَبٌ الْمُكَرَّمُ الَّذِي أَكْرَمْتَنَا بِهِ أَوَّلُ أَشْهُرِ الْحُرُمِ أَكْرَمْتَنَا بِهِ مِنْ بَيْنِ الْأُمَمِ فَلَكَ الْحَمْدُ يَا ذَا الْجُودِ وَ الْكَرَمِ فَأَسْأَلُكَ بِهِ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَجَلِّ الْأَكْرَمِ الَّذِي خَلَقْتَهُ فَاسْتَقَرَّ فِي ظِلِّكَ فَلا يَخْرُجُ مِنْكَ إِلَى غَيْرِكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ الطَّاهِرِينَ وَ أَنْ تَجْعَلَنَا مِنَ الْعَامِلِينَ فِيهِ بِطَاعَتِكَ وَ الْآمِلِينَ فِيهِ لِشَفَاعَتِكَ اللَّهُمَّ اهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ السَّبِيلِ وَ اجْعَلْ مَقِيلَنَا عِنْدَكَ خَيْرَ مَقِيلٍ فِي ظِلٍّ ظَلِيلٍ وَ مُلْكٍ جَزِيلٍ فَإِنَّكَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ اللَّهُمَّ اقْلِبْنَا مُفْلِحِينَ مُنْجِحِينَ غَيْرَ مَغْضُوبٍ عَلَيْنَا وَ لا ضَالِّينَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِعَزَائِمِ مَغْفِرَتِكَ وَ بِوَاجِبِ رَحْمَتِكَ السَّلامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ وَ الْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَ الْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ وَ النَّجَاةَ مِنَ النَّارِ اللَّهُمَّ دَعَاكَ الدَّاعُونَ وَ دَعَوْتُكَ وَ سَأَلَكَ السَّائِلُونَ وَ سَأَلْتُكَ وَ طَلَبَ إِلَيْكَ الطَّالِبُونَ وَ طَلَبْتُ إِلَيْكَ اللَّهُمَّ أَنْتَ الثِّقَةُ وَ الرَّجَاءُ وَ إِلَيْكَ مُنْتَهَى الرَّغْبَةِ فِي الدُّعَاءِ اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ اجْعَلِ الْيَقِينَ فِي قَلْبِي وَ النُّورَ فِي بَصَرِي وَ النَّصِيحَةَ فِي صَدْرِي وَ ذِكْرَكَ بِاللَّيْلِ وَ النَّهَارِ عَلَى لِسَانِي وَ رِزْقا وَاسِعا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَ لا مَحْظُورٍ فَارْزُقْنِي وَ بَارِكْ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي وَ اجْعَلْ غِنَايَ فِي نَفْسِي وَ رَغْبَتِي فِيمَا عِنْدَكَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ﴾
سجده مین جاکر یہ کہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِمَعْرِفَتِهِ وَ خَصَّنَا بِوِلايَتِهِ وَ وَفَّقَنَا لِطَاعَتِهِ شُكْرا شُكْرا ۔سو مرتبہ سجدہ سے سر اٹھا کر یہ کہے:
اللَّهُمَّ إِنِّي قَصَدْتُكَ بِحَاجَتِي وَ اعْتَمَدْتُ عَلَيْكَ بِمَسْأَلَتِي وَ تَوَجَّهْتُ إِلَيْكَ بِأَئِمَّتِي وَ سَادَتِي اللَّهُمَّ انْفَعْنَا بِحُبِّهِمْ وَ أَوْرِدْنَا مَوْرِدَهُمْ وَ ارْزُقْنَا مُرَافَقَتَهُمْ وَ أَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ فِي زُمْرَتِهِمْ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/377893/27-%D8%B1%D8%AC%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B1%D8%AC%D8%A8-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%AA-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85-%D8%A8%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%AA-%D8%A7%D8%B9%D9%85%D8%A7%D9%84-%D8%B4%D8%A8-%D9%88-%D8%B1%D9%88%D8%B2-%D8%B9%DB%8C%D8%AF-%D9%85%D8%A8%D8%B9%D8%AB 27 رجب المرجب، یوم نجات عالم بشریت / اعمال شب و روز عید مبعث]- شائع شدہ از: 27 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 جنوری 2025ء۔</ref>۔
== روز بعثت خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے ==
علامہ سیدساجد علی نقوی نے کہا: بعثت رسول اکرم (ص) انسانیت کو خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، [[سید ساجد علی نقوی|قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سیدساجد علی نقوی]] نے 27 [[رجب |رجب المرجب]]، یوم بعثت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|رسول اکرم (ص)]] کی مناسبت سے جاری پیغام میں کہا ہے کہ بعثت رسول اکرم (ص) انسانیت کو خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے۔
انہوں نے کہا: بعثت پیغمبر اکرم (ص) سے قبل انسانیت جس ابتری اور زوال کا شکار تھی، انسانی معاشرہ جس بیگاڑ میں دھنسا ہوا تھا اور قدم قدم پر مفاسد نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اسے قرآن کریم نے ضلال مبین سے تعبیر کیا ہے۔ ایسے ماحول اور اس زمانے میں حضور اکرم (ص) کا مبعوث ہونا عالم ِ انسانیت کے لیے ایک عظیم خوشخبری اور دائمی نجات کی نوید ثابت ہوا۔
سید ساجد علی نقوی نے کہا: واقعہ معراج پلک جھپکنے میں ہزاروں لاکھوں میلوں اور کئی آسمانوں کو عبور کرکے ایک خاص مقام پر پہنچنا ہے جو قدرت کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی اور انسانی بلندی کی بے نظیر مثال ہے اگرچہ واقعہ معراج سائنس کی رینج سے ماورا ہے اس کے باوجو دروز افزوں سائنسی علوم کا ارتقا ، انسانی علوم کی پیشرفت اور سیٹیلائٹ و نجوم کا سفر واقعہ معراج کو حتمی بنا رہا ہے<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/406533/%D8%B1%D9%88%D8%B2-%D8%A8%D8%B9%D8%AB%D8%AA-%D8%AE%D8%AF%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%D8%B3%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA%D9%88%D8%AD%DB%8C%D8%AF-%D8%B4%D9%86%D8%A7%D8%B3%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%85%D8%AA-%D9%84%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9-%D8%AF%D9%86 روز بعثت خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے]- شائع شدہ از: 27 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 جنوری 2025ء۔</ref>۔
== حواله جات ==
== حواله جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ: اسلامی تصورات]]


{{اسلامی اصطلاحات}}
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]]
[[fa:بعثت]]
[[fa:بعثت]]

حالیہ نسخہ بمطابق 03:48، 28 جنوری 2025ء

مبعث 3.jpg

بعثت اس کا مطلب ہے کسی شخص کو خدا کی طرف سے نبی منتخب کرنا اور اس کی نبوت کے دور کا آغاز۔ اگرچہ بعثت کو تمام انبیاء کے انتخاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا استعمال حضرت محمد کو بطور نبی منتخب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسلامی ثقافت میں اس دن کو کہا جاتا ہے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔ بعث کے لفظی معنی ہیں بیدار کرنا۔ اس کا مطلب بھی بھیجنا ہے۔ بعثت کو قرآن پاک میں لوگوں کی رہنمائی اور مردوں کو جمع کرنے کے لیے انبیاء کو اٹھانے اور بھیجنے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت وہ دن ہے جب پیغمبر اسلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رہنمائی اور ہمیشہ کے لیے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اٹھایا تھا۔ شیعوں کی رائے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 27 رجب کو 40 ویں سال الفیل (610 عیسوی کے مطابق) میں ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ اسلام کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے [1]۔

بعثت انبیاء قرآن کی روشنی میں

تمام انبیاء کا پہلا پیغام یہی تھا کہ قولوا لا الہ اللہ تفلحوا کہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور نجات پا جاؤ۔ یہ عقیدہ انسان کی شخصیت سازی کا معمار ہے جس کا عقیدہ اللہ پر ہوگا وہ کبھی غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکائے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے نہیں جھکے گا وہ ہر ایرے غیرے کے سامنےجھکا ہوا ملے گا ۔

بعثت کا معنیٰ و مفہوم

لفظ بعثت کی اصل بعث ہے جو عربی لفظ ہے۔ اسی کا حقیقی معنیٰ ابھارنا ہے [2]۔ قرآن مجید میں یہ لفط موت کے بعد دوبارہ قبر سے اٹھائے جانے کے بارے میں استعمال ہوا ہےقرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: بعثت انبیاء قرآن کی روشنی میں تمام انبیاء کا پہلا پیغام یہی تھا کہ قولوا لا الہ اللہ تفلحوا کہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور نجات پا جاؤ۔ یہ عقیدہ انسان کی شخصیت سازی کا معمارہےجس کا عقیدہ اللہ پر ہوگا وہ کبھی غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکائے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے نہیں جھکے گا وہ ہر ایرے غیرے کے سامنےجھکا ہوا ملے گا ۔

بعثت کا معنیٰ و مفہوم

لفظ بعثت کی اصل بعث ہے جو عربی لفظ ہے۔ اسی کا حقیقی معنیٰ ابھارنا ہے[3]۔ قرآن مجید میں یہ لفط موت کے بعد دوبارہ قبر سے اٹھائے جانے کے بارے میں استعمال ہوا ہےقرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہےمَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ۔ہمیں ہماری قبروں سے کون اٹھائے گا۔(سورہ یا سین ۵۲) اور اسی معنیٰ میں قیامت کو یوم البعث کہا گیا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید میں یہ لفظ بھیجنے کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ (فطری اعتبار سے ) سارے انسان ایک قوم تھے ، پھر خدا نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے۔[4]۔ اور اصطلاح میں بعثت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنی طرف سے ہادی و رہبر بھیجے۔ اسی لئے جس دن رسول اکرم ﷺپر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ کواپنا پیغام رسالت لوگوں تک پہنچانے کا حکم ملااس دن کو روز بعثت اور عید مبعث کہا جاتا ہے۔اور اس دن کے بعد سے ہجری تک کے زمانے کو سن بعثت کہا جاتا تھا۔

ضرورت بعثت

دنیا کےتمام مذاہب و ادیان میں کسی نہ کسی صورت میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ان کی ہدایت کے لئےاللہ کی جانب سے کوئی ہادی و رہبر آیا ہے۔ مثلا عیسائی جناب عیسیٰ علیہ السلام اور ان سے قبل کے انبیاءکو اللہ کے پیغمبر مانتے ہیں،یہودی موسیٰ اور انبیاء بنی اسرائیل کو اللہ کے نمائندےسمجھتے ہیں،ہندو دھرم کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بھگوان وشنو، رام اور کرشن کے بھیس میں؛بھولے ناتھ شنکر، ہنومان کے روپ میں اور دیگر دیوتا لباس بشر میں انسانوں کی ہدایت کے لئے آئے۔

دنیا کےتمام انسانوں کایہ عقیدہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو ہر دور میں ایک الہی ہادی و رہبر کی ضرورت ہے، انسان صرف اپنی ناقص عقل کی بنیاد پر زندگی کا سفر طے نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید بھی اس عقیدہ کی تائید کرتا ہےکہ ہر دور میں ایک ہادی و رہبر رہا ہےارشاد ہوتا ہے۔ إِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں ڈرانے والا نہ گذرا ہو۔ [5]۔

قرآن مجید میں سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے۔لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎﴿١٦٤﴾‏‏ خدا وند عالم نے مؤمنین پر احسان کیا انہیں میں ایک رسول کو بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات سناتا ہےاور ان کا تزکیہ کرتا ہےاور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں تعلیم و تربیت کو رسول کے اہم وظائف میں بتایا گیا ہے۔

کیوں کہ انسان جاہل پیدا ہوتا ہےاور جاہل انسان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے اورصحیح راہ دکھانے کے لئےہادی و رہبر کا ہونا ضروری ہے۔اور اگر ہادی نہیں ہوگا تو لوگ جہالت کے تاریک سمندر میں غرق ہو جائےگیں۔ اس جانب آیت کے آخری حصہ میں اشارہ کیا گیا ہے کہإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ جو ہادی کے نہ ہونے کا لازمہ ہے۔ اسی لئے اللہ ہر زمانے میںکسی نبی یا رسول کو بھیجا۔

مقصد بعثت

بالائی سطور سے انبیاء الٰہی اور ہادیان بر حق کی ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ذیل میں ہم قرآ ن کریم کی رو سے انبیاء ِالٰہی کےاہم مقاصدکی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

(۱)خدا کی عبادت اور طاغوت سے پرہیز

خدا کے وجود کا عقیدہ انسان کے فطرت میں ہے۔ اس فطری غریزہ کی صحیح راہ کی جانب راہنمائی ضروری ہے ورنہ انسان کم عقلی اور صحیح تعلیمات سے دوری کی وجہ سےگمراہ ہو جائے گا۔شاید اسی لئے انبیاء الہی کی تمام تر تعلیمات کا دارومدار عقیدہ توحید رہا ہے۔تمام رسولوں کا یہی پیغام تھا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ کے سامنے اپنا سر نہ جھکاؤ۔ انسان حقیقت توحید کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک غیر اللہ کی عبادت سے پرہیز نہ کرے۔

اس لئےکہ دو متضاد چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی اس لئے خدا کی عبادت کے ساتھ طاغوت کی اطاعت سے پرہیز کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ کلمہ توحید میں بھی پہلے غیر اللہ کی نفی ہے پھر اللہ کی الوہیت کا اقرار ہے۔انبیاء کی تمام تر تعلیات کا دارمدار یہی پیغام تھا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ اور یقیناہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے پرہیز کرو۔ [6]۔

اس آیت میں اللہ نے بعثت انبیاء کا مقصد اللہ کی عبادت اور طاغوت سے دوری بتایا ہے ۔تمام انبیاء کا پہلا پیغام یہی تھا کہ قولوا لا الہ اللہ تفلحواکہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور نجات پا جاؤ۔ یہ عقیدہ انسان کی شخصیت سازی کا معمارہےجس کا عقیدہ اللہ پر ہوگا وہ کبھی غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکائے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے نہیں جھکے گا وہ ہر ایرے غیرے کے سامنےجھکا ہوا ملے گا۔

اور جو اللہ کے سامنے سر جھکائے گا وہ دنیا میں بھی با عزت رہے گا اور آخرت میںکامیاب و کامران رہے گا اگر اس کامشاہدہ کرنا ہو تو دور حاضر میں ایران اور دیگر اسلامی ممالک کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران کسی سوپر پاؤر کے اگے نہیں جھکا آج بھی سر بلند ہے ۔بقیہ ممالک ہر ایرے غیرے کے سامنے جھکے ہیں نتیجہ میں آج ذلیل و خوار ہیں۔

(۲)تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ نفوس

تعلیم انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے انسان جب دنیا میں آتا ہے تو جاہل آتا ہے ۔ اسی لئے اللہ نے اس کے لئے سب سے پہلے ایسے معلم کا انتظام کیا جسے اپنے پاس سے علم دے کر بھیجا ۔ اور ہر دور میں ایک معلم و ہادی کا انتظام کیا۔ تا کہ انسان اپنی جہالت و کم عقلی کی بنا پر راہ راست سے بہک نہ جائے۔ رسول اسلام ﷺ پر روز مبعث جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں ارشاد ہوا

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ‎﴿١﴾‏ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ‎﴿٢﴾‏ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ‎﴿٣﴾‏ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ‎﴿٤﴾‏ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ‎﴿٥﴾ اپنے پروردگار کے نام سے پڑھو جس نے خلق کیا ہے اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ جس نےقلم کے ذریعہ تعلیم دی اور انسان کو سب کچھ بتایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ [7]۔ رسول ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی سے دو باتیں آشکار ہو جاتی ہیں ایک تعلیم ہے جو بعثت انبیاءکےبنیادی مقاصد میں سے ہے۔ دوسرے لباس و جود میںآنے کے بعد انسان سب سے پہلی ضرورت علم ہے۔

اور انسان حقیقت علم تک اس وقت تک نہیں پہونچ سکتا جب تک تعلیم کی منفی چیزوں کو دور نہ کرے اسی کا نام تزکیہ ہے ۔ تزکیہ انسان کے نفس کو اس لائق بنا دیتا ہے کہ انسان علم کی حقیقت کو درک کر سکے۔ اور اگر انسان بغیر تزکیہ کےلفظیں رٹ بھی لیتا ہے تو یہ علم اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتا۔ یہی وجہ کہ انسان اتنی ترقی اور علم کی اس بلندی پر ہونے کے باجود بھی پر سکون نہیں ہے اس کی حیرانی اور پریشانی کی وجہ حقیقت علم سے دوری ہے۔ جو بغیر تزکیہ کے نصیب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے انبیاء کے مقاصد میں تعلیم و تربیت قرآن مجید میں باربار بیان کیا گیا ہے سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے۔

’’پروردگار ان کے درمیان ایک رسول کو بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے بے شک تو عزیز و حکیم ہے۔‘‘

سورہ جمعہ میں ارشاد ہوتا ہے

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎ ‎﴿٢﴾‏اللہ وہی ہے جس نے مکہ والوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

مندرجہ بالا آیات سے یہ واضح ہے تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ نفوس انبیاء کی بعثت کے اہم مقاصد میںسے ہے۔اور اگر تعلیم اور تزکیہ نہیں ہوگا انسان تو ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتابلکہ ہمیشہ گمراہی میں رہے گا جیسے بعثت سے قبل کے لوگوں کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ گمراہی میں تھے۔

قیام عدل و انصاف

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عدل و انصاف معاشرہ کی بنیادی ضروریات میں سے ہیںکیوں کہ اگر معاشرہ میں عدل و انصاف نہیں ہوگا ایک دوسرے کے حقوق پائمال کئے جائیں گے۔ کمزوراوربے سہارا افراد کو ستایا جائے گا ۔اورمعاشرہ ظلم و ستم سے بھر جائے گا۔ اس لئے ہر ملک، ہر صوبہ اور ہر شہر و دیہات میں ایک حاکم کاانتخاب کیا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ معاشرہ کے مسائل کو حل کرے اور عد ل و انصاف قائم کرے۔

خداوندعالم نے روز اول سے اس ضرورت کا خیال رکھا اور ہر دور میںہادی عادل بھیجاتا کہ وہ لوگوں کے درمیان عد ل و انصاف کرے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تا کہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں شدید جنگ کا سامان ہے اور بہت سے فائدے ہیں ۔

مذکورہ آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ نے رسولوں کے ساتھ کتاب و میزان کو نازل کیا۔ اس لئے کہ عدل و انصاف کے لئے ایک پیمانہ اور معیار ہونا چاہیے جو اللہ نے رسولوںکو کتاب و میزان کی شکل میں دے کر بھیجا۔ اور معاشرہ میں عدل انصاف کا قیام اسان نہیں ہے اس کے لئے کبھی تلوار اٹھانا پڑے گی کھبی جنگ کرنا ہوگی اسی لئے اللہ نے آسمان سے لوہا بھی نازل کیا۔ تا کہ اس کے نمائندوں کو عدل و انصاف کے قیام میں کو ئی مشکل پیش نہ آئے۔

مذکورہ آیت میںایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ تاکہ لوگ عدل و انصاف کے ساتھ قیام کریں۔ یہ نہیں کہا گیا کہ انبیاء عدل و انصاف قائم کریں۔ بلکہ لوگ خود عدل و انصاف کو ساتھ قیام کریں گے۔یہ رہبران الٰہی کی معراج انصاف ہے کہ اگر انہیں عدل و انصاف کرنے دیا جائے تو وہ معاشرہ کو اس بلندی پر پہونچا دیں گے کہ پھر انہیں کسی عدل و انصاف کرنے والے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ لوگ خود عدل و ا نصاف سے قیام کرنے لگیں گے۔ خدا وندعالم ہمارےامام عادل کے ظہور میں تعجیل فرمائے عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرنے والوں میں سے قرار دے اور اس کے ظہور میں تعجیل فرما جو معاشرہ کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔آمینمَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا"۔ ہمیں ہماری قبروں سے کون اٹھائے گا۔(سورہ یا سین ۵۲) اور اسی معنیٰ میں قیامت کو یوم البعث کہا گیا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید میں یہ لفظ بھیجنے کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ (فطری اعتبار سے ) سارے انسان ایک قوم تھے ، پھر خدا نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے۔(سورہ بقرہ آیت ۲۱۳)

اور اصطلاح میں بعثت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنی طرف سے ہادی و رہبر بھیجے۔ اسی لئے جس دن رسول اکرم ﷺپر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ کواپنا پیغام رسالت لوگوں تک پہنچانے کا حکم ملااس دن کو روز بعثت اور عید مبعث کہا جاتا ہے۔اور اس دن کے بعد سے ہجری تک کے زمانے کو سن بعثت کہا جاتا تھا[8]۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت

اہل السنۃ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کی 17 یا 18 یا 19 تاریخ بروز پیر کو ایک نبی کی طرف مبعوث کیا گیا۔

لیکن شیعوں کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیامت 40ویں سال الفیل (610ء کے مطابق) میں رجب کے مہینے کی 27 تاریخ کو ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ شیعہ منابع میں اس امر کی تائید کرنے والی بہت سی روایات ہیں، ان میں سے مرحوم کلینی نے اپنی سند کے ساتھ امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: رجب کی ستائیسویں تاریخ کو مت بھولو، کیونکہ یہ وہ دن ہے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت پر مامور کیا گیا تھا [9]۔

شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی دوسری احادیث بھی دوسرے ائمہ یا صحابہ کرام سے نقل ہوئی ہیں۔

پہلی وحی

جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب غار حرا میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔

جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب غار حرا میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔

روایت کی گئی ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو بیان کر رہے تھے، فرمایا: انہوں نے سب سے زیادہ فرمانبردار دل پائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کے دروازے کھول دیے اور فرشتوں کو اجازت دی اور وہ نیچے آگئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تو اس پر عرش سے رحمت نازل ہوئی اور وہ روح الامین کی طرف دیکھ رہا تھا، جبرائیل - فرشتوں کا مامور - جبرائیل اس کے پاس اترے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا اور کہا: اے محمد! پڑھو، محمد نے کہا: کیا پڑھوں؟ اس نے کہا: اے محمد! اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذی خَلَقَ * خَلَقَ الْاِنسانَ مِنْ عَلَقَ * اِقْرَا وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ * اَلَّذی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ... [10]

محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ سے نیچے اترے جبکہ خدا کی عظمت اور عظمت الٰہی نے انہیں چکرا دیا تھا اور وہ بخار اور کپکپاہٹ میں مبتلا تھے۔ جس چیز نے اسے مزید پریشان کر دیا وہ یہ تھا کہ اسے ڈر تھا کہ قریش اس کا انکار کر دیں گے اور اسے پاگل پن سے منسوب کر دیں گے، جبکہ وہ ان میں سب سے زیادہ عقلمند اور قابل احترام اور ان کی نظروں میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا۔ لہٰذا، خدا نے چاہا کہ اس کے دل کو ہمت سے بھر دے اور اسے فراخ دل بنائے۔ اس لیے آپ ان کو ہر پتھر اور درخت کے پاس سے یہ کہتے ہوئے سن سکتے تھے۔

السلام علیک یا رسول اللّه

ایک روایت میں ہے کہ جبرائیل امین ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ اترے اور میکائیل ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ اترے اور ان کو عزت و تکریم کا تختہ لایا اور نبوت و رسالت کا تاج آپ کے سر پر رکھا اور ان کی تعریف و توصیف کی۔ کہا بیٹھو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔

ایک اور روایت میں ہے کہ وہ کرسی سرخ یاقوت کی تھی، اس کی بنیاد آزور جیڈ سے بنی ہوئی تھی اور اس کی بنیاد موتیوں سے بنی ہوئی تھی، اور جب فرشتے آسمان پر چڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ حرہ سے نیچے تشریف لائے اور روشنیاں روشن ہوئیں۔ اس کے جلال نے اسے ڈھانپ لیا، تاکہ کوئی نہ دیکھ سکے کہ اس کا چہرہ مبارک نہیں تھا اور ہر درخت، پودے اور پتھر پر جس سے وہ گزرتا تھا، انہوں نے اسے سجدہ کیا اور فصیح زبان میں کہا:

السلام علیک یا نبی الله، السلام علیک یا رسول الله

گھر میں داخل ہوتے ہی خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا کا گھر آپ کے چہرے مبارک کے نور سے منور ہو گیا اور اس نیک خاتون نے پوچھا: اے محمد! یہ کیا نور ہے جو میں تم میں دیکھ رہا ہوں؟ حضرت نے فرمایا: یہ ایک نبی کا نور ہے، کہو: لا الہ الا اللہ، محمد اللہ کے رسول ہیں۔

خدیجہ نے کہا: میں آپ کو برسوں سے نبی کے طور پر جانتی ہوں اور اب بھی گواہی دیتی ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ خدا کے رسول اور نبی ہیں۔ اس طرح حضرت خدیجہ پہلی شخصیت تھیں جو اپنے شوہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں ۔

مردوں میں سے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی آپ پر ایمان لایا اور اپنی شہادتوں کا اظہار کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے گھر کے پاس نماز پڑھتے اور خدیجہ سلام اللہ علیہا اور علی علیہ السلام آپ کے پیچھے پیچھے نماز پڑھتے۔ ان تینوں لوگوں نے اپنی جان و مال سے اسلام کی آبیاری کی اور پھیلایا [11]۔

بعثت اسلام کے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دن مسلمانوں کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

27 رجب المرجب، یوم نجات عالم بشریت / اعمال شب و روز عید مبعث

عید مبعث اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن حضرت محمد مصطفیٰ (ص) رسالت پر مبعوث ہوئے، اس دن دین اسلام کا باقاعدہ آغاز ہوا، یہ واقعہ ۲۷ رجب ۱۳ سال قبل از ہجرت پیش آیا۔ حوزہ نیوز ایجنسی। امام ابو جعفر جواد علیہ السلام سے مروی ہے کہ: ماہ رجب میں ایک رات ہے کہ وہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج چمکتا ہے اور وہ ستائیسویں رجب کی رات ہے کہ جس کی صبح رسول اعظم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ ہمارے پیروکاروں میں جو اس رات عمل کرے گا تو اس کو ساٹھ سال کے عمل کا ثواب حاصل ہوگا۔

میں نے عرض کیا اس رات کا عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : نماز عشا کے بعد سوجائے اور پھر آدھی رات سے پہلے اٹھ کر بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد قرآن کی آخری مفصل سورتوں ﴿سورہ محمد سے سورہ ناس﴾ میں سے کوئی ایک سورہ پڑھے۔ نماز کا سلام دینے کے بعد سورہ حمد، سورہ فلق سورہ ناس، سورہ توحید، سورہ کافرون اور سورہ قدر میں سے ہر ایک سات سات مرتبہ نیز آیۃ الکرسی بھی سات مرتبہ پڑھے اور ان سب کو پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے:

ستائیس رجب کی رات کے اعمال اور دعائیں

  • 1- غسل کرنا.
  • 2- بارہ رکعت نماز جو کہ امام محمد بن علي الجواد عليہما السلام سے مروی ہے.
  • 3- زيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليہ السلام.
  • 4- یہ دعا پڑھنا: ﴿اَللّـهُمَّ إِنّي أَساَلُكَ بِالتَّجَلِي الأعْظَمِ في هذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ...﴾.

ستائیس رجب کے دن کے اعمال

غُسل، روزہ رکھنا،اس دن کا روزہ ستر سال کے روزے کا ثواب رکھتا ہے۔کثرت سےمحمد وآل محمد پر درود بھیجنا۔زيارة خاتم الأنبياء وسيّد المرسلين محمد صلى الله عليه آلہ وزيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليہ السلام۔ تیس رکعت نماز پڑھنا ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد 10 مرتبہ سورہ توحید پڑھنا۔

شب مبعث کے اعمال

مستحب ہے کہ انسان شب بیداری کرے اور وارد شدہ اعمال کو بجالاءے ۔اعمال کی کیفیت مندرجہ ذیل ہے : ۱۲رکعت نماز ہے جس کی ہر رکعت میں سورہ سورۂ حمد کے بعد سورۂ محمد کی تلاوت کرے ۔اور ہر دو رکعت کے بعد سلام کے ساتھ نماز کو تمام کرے ۔۱۲ رکعت نماز تمام ہو جانے کے بعد سات مرتبہ چار وں قل کی تلاوت کرے ۔پھر سات مرتبہ انا انزلناہ اور آیۃ الکرسی کی تلاوت کرے اور اس کے بعد اس دعا کو پڑھے ۔

﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدا وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيرا اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعَاقِدِ عِزِّكَ عَلَى أَرْكَانِ عَرْشِكَ وَ مُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِكَ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ وَ ذِكْرِكَ الْأَعْلَى الْأَعْلَى الْأَعْلَى وَ بِكَلِمَاتِكَ التَّامَّاتِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَفْعَلَ بِي مَا أَنْتَ أَهْلُهُ﴾ .اپنی حاجت طلب کریں انشاء اللہ مستجاب ہو گی۔

۲۔ زيارت حضرت امير المؤمنين عليہ السلام کہ اس رات کے افضل ترین اعمال میں سے ہے ۔

۳۔ شيخ كفعمى بلد الامين میں فرماتے ہیں کہ شب مبعث میں اس دعا کی تلاوت کریں :

﴿اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِالتَّجَلِّي [بِالنَّجْلِ‌] الْأَعْظَمِ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ وَ الْمُرْسَلِ الْمُكَرَّمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا مَا أَنْتَ بِهِ مِنَّا أَعْلَمُ يَا مَنْ يَعْلَمُ وَ لا نَعْلَمُ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ الَّتِي بِشَرَفِ الرِّسَالَةِ فَضَّلْتَهَا وَ بِكَرَامَتِكَ أَجْلَلْتَهَا وَ بِالْمَحَلِّ الشَّرِيفِ أَحْلَلْتَهَا اللَّهُمَّ فَإِنَّا نَسْأَلُكَ بِالْمَبْعَثِ الشَّرِيفِ وَ السَّيِّدِ اللَّطِيفِ وَ الْعُنْصُرِ الْعَفِيفِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَجْعَلَ أَعْمَالَنَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَ فِي سَائِرِ اللَّيَالِي مَقْبُولَةً وَ ذُنُوبَنَا مَغْفُورَةً وَ حَسَنَاتِنَا مَشْكُورَةً وَ سَيِّئَاتِنَا مَسْتُورَةً وَ قُلُوبَنَا بِحُسْنِ الْقَوْلِ مَسْرُورَةً وَ أَرْزَاقَنَا مِنْ لَدُنْكَ بِالْيُسْرِ مَدْرُورَةً اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَرَى وَ لا تُرَى وَ أَنْتَ بِالْمَنْظَرِ الْأَعْلَى وَ إِنَّ إِلَيْكَ الرُّجْعَى وَ الْمُنْتَهَى وَ إِنَّ لَكَ الْمَمَاتَ وَ الْمَحْيَا وَ إِنَّ لَكَ الْآخِرَةَ وَ الْأُولَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَذِلَّ وَ نَخْزَى وَ أَنْ نَأْتِيَ مَا عَنْهُ تَنْهَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِكَ وَ نَسْتَعِيذُ بِكَ مِنَ النَّارِ فَأَعِذْنَا مِنْهَا بِقُدْرَتِكَ وَ نَسْأَلُكَ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ فَارْزُقْنَا بِعِزَّتِكَ وَ اجْعَلْ أَوْسَعَ أَرْزَاقِنَا عِنْدَ كِبَرِ سِنِّنَا وَ أَحْسَنَ أَعْمَالِنَا عِنْدَ اقْتِرَابِ آجَالِنَا وَ أَطِلْ فِي طَاعَتِكَ وَ مَا يُقَرِّبُ إِلَيْكَ وَ يُحْظِي عِنْدَكَ وَ يُزْلِفُ لَدَيْكَ أَعْمَارَنَا وَ أَحْسِنْ فِي جَمِيعِ أَحْوَالِنَا وَ أُمُورِنَا مَعْرِفَتَنَا وَ لا تَكِلْنَا إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ فَيَمُنَّ عَلَيْنَا وَ تَفَضَّلْ عَلَيْنَا بِجَمِيعِ حَوَائِجِنَا لِلدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ ابْدَأْ بِآبَائِنَا وَ أَبْنَائِنَا وَ جَمِيعِ إِخْوَانِنَا الْمُؤْمِنِينَ فِي جَمِيعِ مَا سَأَلْنَاكَ لِأَنْفُسِنَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الْعَظِيمِ وَ مُلْكِكَ الْقَدِيمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا الذَّنْبَ الْعَظِيمَ إِنَّهُ لا يَغْفِرُ الْعَظِيمَ إِلا الْعَظِيمُ اللَّهُمَّ وَ هَذَا رَجَبٌ الْمُكَرَّمُ الَّذِي أَكْرَمْتَنَا بِهِ أَوَّلُ أَشْهُرِ الْحُرُمِ أَكْرَمْتَنَا بِهِ مِنْ بَيْنِ الْأُمَمِ فَلَكَ الْحَمْدُ يَا ذَا الْجُودِ وَ الْكَرَمِ فَأَسْأَلُكَ بِهِ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَجَلِّ الْأَكْرَمِ الَّذِي خَلَقْتَهُ فَاسْتَقَرَّ فِي ظِلِّكَ فَلا يَخْرُجُ مِنْكَ إِلَى غَيْرِكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ الطَّاهِرِينَ وَ أَنْ تَجْعَلَنَا مِنَ الْعَامِلِينَ فِيهِ بِطَاعَتِكَ وَ الْآمِلِينَ فِيهِ لِشَفَاعَتِكَ اللَّهُمَّ اهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ السَّبِيلِ وَ اجْعَلْ مَقِيلَنَا عِنْدَكَ خَيْرَ مَقِيلٍ فِي ظِلٍّ ظَلِيلٍ وَ مُلْكٍ جَزِيلٍ فَإِنَّكَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ اللَّهُمَّ اقْلِبْنَا مُفْلِحِينَ مُنْجِحِينَ غَيْرَ مَغْضُوبٍ عَلَيْنَا وَ لا ضَالِّينَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِعَزَائِمِ مَغْفِرَتِكَ وَ بِوَاجِبِ رَحْمَتِكَ السَّلامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ وَ الْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَ الْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ وَ النَّجَاةَ مِنَ النَّارِ اللَّهُمَّ دَعَاكَ الدَّاعُونَ وَ دَعَوْتُكَ وَ سَأَلَكَ السَّائِلُونَ وَ سَأَلْتُكَ وَ طَلَبَ إِلَيْكَ الطَّالِبُونَ وَ طَلَبْتُ إِلَيْكَ اللَّهُمَّ أَنْتَ الثِّقَةُ وَ الرَّجَاءُ وَ إِلَيْكَ مُنْتَهَى الرَّغْبَةِ فِي الدُّعَاءِ اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ اجْعَلِ الْيَقِينَ فِي قَلْبِي وَ النُّورَ فِي بَصَرِي وَ النَّصِيحَةَ فِي صَدْرِي وَ ذِكْرَكَ بِاللَّيْلِ وَ النَّهَارِ عَلَى لِسَانِي وَ رِزْقا وَاسِعا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَ لا مَحْظُورٍ فَارْزُقْنِي وَ بَارِكْ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي وَ اجْعَلْ غِنَايَ فِي نَفْسِي وَ رَغْبَتِي فِيمَا عِنْدَكَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ﴾

سجده مین جاکر یہ کہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِمَعْرِفَتِهِ وَ خَصَّنَا بِوِلايَتِهِ وَ وَفَّقَنَا لِطَاعَتِهِ شُكْرا شُكْرا ۔سو مرتبہ سجدہ سے سر اٹھا کر یہ کہے:

اللَّهُمَّ إِنِّي قَصَدْتُكَ بِحَاجَتِي وَ اعْتَمَدْتُ عَلَيْكَ بِمَسْأَلَتِي وَ تَوَجَّهْتُ إِلَيْكَ بِأَئِمَّتِي وَ سَادَتِي اللَّهُمَّ انْفَعْنَا بِحُبِّهِمْ وَ أَوْرِدْنَا مَوْرِدَهُمْ وَ ارْزُقْنَا مُرَافَقَتَهُمْ وَ أَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ فِي زُمْرَتِهِمْ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ[12]۔

روز بعثت خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے

علامہ سیدساجد علی نقوی نے کہا: بعثت رسول اکرم (ص) انسانیت کو خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سیدساجد علی نقوی نے 27 رجب المرجب، یوم بعثت رسول اکرم (ص) کی مناسبت سے جاری پیغام میں کہا ہے کہ بعثت رسول اکرم (ص) انسانیت کو خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے۔

انہوں نے کہا: بعثت پیغمبر اکرم (ص) سے قبل انسانیت جس ابتری اور زوال کا شکار تھی، انسانی معاشرہ جس بیگاڑ میں دھنسا ہوا تھا اور قدم قدم پر مفاسد نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اسے قرآن کریم نے ضلال مبین سے تعبیر کیا ہے۔ ایسے ماحول اور اس زمانے میں حضور اکرم (ص) کا مبعوث ہونا عالم ِ انسانیت کے لیے ایک عظیم خوشخبری اور دائمی نجات کی نوید ثابت ہوا۔

سید ساجد علی نقوی نے کہا: واقعہ معراج پلک جھپکنے میں ہزاروں لاکھوں میلوں اور کئی آسمانوں کو عبور کرکے ایک خاص مقام پر پہنچنا ہے جو قدرت کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی اور انسانی بلندی کی بے نظیر مثال ہے اگرچہ واقعہ معراج سائنس کی رینج سے ماورا ہے اس کے باوجو دروز افزوں سائنسی علوم کا ارتقا ، انسانی علوم کی پیشرفت اور سیٹیلائٹ و نجوم کا سفر واقعہ معراج کو حتمی بنا رہا ہے[13]۔

حواله جات

  1. سورہ ہاں آیت 52; سورہ بقرہ آیت 56۔ سورہ حج آیت نمبر 7
  2. التحقیق فی کلمات القرآن ج ۱ ص ۲۹۵
  3. التحقیق فی کلمات القرآن ج ۱ ص ۲۹۵
  4. سورہ بقرہ آیت ۲۱۳
  5. سورہ فاطر آیت ۲۴
  6. سورہ نحل ایت ۳۶
  7. سورہ علق
  8. محمد تبریز، بعثت انبیاء قرآن کی روشنی میں- شائع شدہ از: 28 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 جنوری 2025ء۔
  9. تحقیق تاریخ اسلام، جلد 1، ص 315
  10. علق: 1-3
  11. منتہا العمل، ج1، ص47
  12. 27 رجب المرجب، یوم نجات عالم بشریت / اعمال شب و روز عید مبعث- شائع شدہ از: 27 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 جنوری 2025ء۔
  13. روز بعثت خدا پرستی اور توحید شناسی کی سمت لے جانے کا مبارک دن ہے- شائع شدہ از: 27 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 جنوری 2025ء۔