"اخوان المسلمین فلسطین" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 38: سطر 38:
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
* [https://farsi.palinfo.com/news/2017/1/27/%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ae%d9%88%d8%a7%d9%86-%d8%a7%d9%84%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85-%d9%86-%d9%81%d9%84%d8%b3%d8%b7-%d9%86-%d8%aa%d8%a7-%d8%ad%d9%85%d8%a7%d8%b3 از اخوان المسلمین فلسطین تا حماس] ( اخوان المسلمین سے حماس تک)-farsi.palinfo.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 27/جنوری/2017 ء تاریخ اخذ شده:  2می 2024ء
* [https://farsi.palinfo.com/news/2017/1/27/%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ae%d9%88%d8%a7%d9%86-%d8%a7%d9%84%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85-%d9%86-%d9%81%d9%84%d8%b3%d8%b7-%d9%86-%d8%aa%d8%a7-%d8%ad%d9%85%d8%a7%d8%b3 از اخوان المسلمین فلسطین تا حماس] ( اخوان المسلمین سے حماس تک)-farsi.palinfo.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 27/جنوری/2017 ء تاریخ اخذ شده:  2می 2024ء
 
{{اخوان المسلمین}}
{{فلسطین}}
{{فلسطین}}
[[زمرہ:اخوان المسلمین]]
[[زمرہ:اخوان المسلمین]]
[[زمرہ:فلسطین]]
[[زمرہ:فلسطین]]

حالیہ نسخہ بمطابق 09:24، 1 جون 2024ء

اخوان المسلمین فلسطین
اخوان المسلمین فلسطین.jpg
قیام کی تاریخ1946 ء، 1324 ش، 1364 ق
بانی پارٹی
  • أسعدالإمام
  • محمد العمد
  • عبدالباری برکات
پارٹی رہنما
  • احمد یاسین
  • خالد مشعل
  • موسی ابو مرزوق

اخوان المسلمین فلسطین ایک اسلام پسند تنظیم ہے جس کا آغاز 1919ء کے اوائل میں جہادی گروپ کی تشکیل سے ہوا تھا، اور اس کی تخلیق میں حاج امین حسینی، شیخ حسن ابو سعود اور شیخ محمد یوسف عالمی جیسے متعدد علماء نے اپنا کردار ادا کیا تھا۔ فلسطین میں یهودیوں کے خطرات سے نمٹنے اور اسرائیل کے خلاف بر سر پیکار تحریکوں کے تعاون اور ان کو اپنے اہداف میں کامیاب بنانے کے لئے مقدمات فراهم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے.اخوان المسلمین نے فلسطین کے مسئلے پر توجه دینے سے پهلے یهودیت کے خطرات اور مسلم دنیا کے خلاف ان کے ناپاک عزائم کو برملا کرنے کی طرف توجه دی. اخوان المسلمون فلسطین نے 1948 کی جنگ میں بھرپور حصہ لیا اور جفا، قدس، غزہ اور دیگر علاقوں میں نمایاں کردار ادا کیا اور فلسطینیوں میں بہت مقبولیت اور عزت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

تاسیس

اخوان المسلمین فلسطین کی بنیاد 19 مارچ 1946 ء کو بیت المقدس میں اسد الامام، محمد العمید اور عبدالباری برکات کے ہاتھوں رکھی گئی۔ فلسطینی اخوان المسلمین کا خیال ہے کہ اس کی جهادی سرگرمیوں کے آغاز کا 1987 ء میں حماس کی تشکیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ گروہ اپنے آپ کو اسلام پسندی کی جدوجہد کا ایک توسیع اور تسلسل سمجھتا ہے، جو عثمانی حکومت کے خاتمے اور فلسطین پر برطانوی قبضے کے آغاز (1918 ءکے آخر میں) کے ساتھ قائم ہوئی تھی۔ ایک تحریک جس کا آغاز 1919 کے اوائل میں جہادی گروپ کی تشکیل سے ہوا تھا، اور اس کی تخلیق میں حاج امین حسینی، شیخ حسن ابو سعود اور شیخ محمد یوسف علمی جیسے متعدد علماء نے اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد مذکورہ مہم "الجہادیہ" گروپ اور "جهاد مقدس " تحریک کی شکل میں جاری رہی۔ الجہادیہ گروپ شیخ شہید عزالدین قسام نے بنایا تھا اور "مقدس جہاد" تحریک 1934 ءمیں شہید عبدالقادر حسینی کی قیادت میں قائم ہوئی تھی۔

اخوان المسلمین فلسطین کی جہادی سرگرمیاں

اخوان المسلمون فلسطین نے 1948 ءکی جنگ میں بھرپور حصہ لیا اور جفا، قدس، غزہ اور دیگر علاقوں میں نمایاں کردار ادا کیا اور فلسطینیوں میں بہت مقبولیت اور عزت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ غزه کی پٹی میں فلسطینی اخوان المسلمین نے اپنے حالات کو منظم کرنا شروع کیا، اور اس گروہ کی شاخیں غزہ کی پٹی کے بیشتر علاقوں میں سرگرم تہیں۔ فلسطینی اخوان المسلمین تنظیم (جس کے انتظامی دفتر کی قیادت شیخ عمر صوان کر رہے تھے) کے ارکان کافی مقبولیت حاصل کرنے اور وسیع سرگرمیاں انجام دینے میں کامیاب رہے یهاں تک کہ جمال عبدالناصر کی سربراہی میں مصری حکومت نے 1954 ء میں اخوان المسلمون کو دبایا اور اس گروپ کو خفیہ سرگرمیاں کرنے پر مجبور کردیا۔ 1952 اور 1954 کے درمیانی عرصے میں، غزہ میں اخوان المسلمون نے ایک خفیہ عسکری تنظیم (ایک خصوصی تنظیم کی شکل میں) بنائی جس کا بانی کامل شریف تھے ، جو 1948 ء کی جنگ میں مصری اخوان المسلمین کے سب سے نمایاں رہنماؤں میں سے ایک تھے، اور سینا نامی شهر کے العریش علاقے میں سکونت پذیر تھے۔ اس تنظیم کا انتظام -غزہ اور اس پٹی کے شمال میں ابو جہاد خلیل کی سربراہی میں هوتا تھا ۔ خانیونس اور غزہ کی پٹی کے مرکزی علاقوں میں تنظیم کی قیادت ابو اسامہ خیری الآغا کررهے تھے ، جو بعد میں فلسطینی اخوان المسلمین کے سربراہ اور حماس تحریک کے پہلے سربراہ بنے۔ رفح اور غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے میں مذکورہ فوجی تنظیم کی قیادت محمد یوسف نجار کر رہے تھے۔ ان لوگوں اور کامل شریف کے درمیان تعلقات کی ذمه داری بھی محمد ابوسیدو نامی شخص کےذمه تھی۔ 1948 ء کی جنگ کے بعد جب اردن نے فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے( کرانه باختری ) کو اپنی سرزمین میں ضم کر لیا تو فلسطینی اخوان المسلمین نے اردن کے مشرق میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ایک واحد تنظیم بنائی اور اس طرح اخوان کی مختلف شاخیں زیادہ تر مغربی کنارے کے علاقوں بالخصوص قدس، حبرون، نابلس اور عقبہ جبر فعال هوئیں ۔ اخوان المسلمون نے 1953 ءمیں قدس کانفرنس کے زریعے پنی خصوصی فوجی سرگرمیوں کو بڑھانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں فلسطین کی اخوان المسلمون نے کانفرنس کی آڑ میں اپنے عسکری کام کو انجام دینے کے لیے کامل شریف کو کانفرنس کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے طور پر منتخب کیا۔ اسی طرح خوان المسلمین فلطین کے ارکین کے توسط سے مختلف انداز میں جهادی سرگرمیوں کا تسلسل جاری رها یهاں تک که دسمبر 1987 ء میں ایک واقعه پیش آیا جس کے نتیجے میں چار فلسطینی کارکنان کی شہادت ہوئی، اخوان المسلمون کے رہنماؤں نے رات کے وقت غزہ کی پٹی میں شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور عبدالفتاح دخان کی موجودگی میں ایک اجلاس منعقد کیا اور فیصلہ کیا۔ غزہ کی پٹی سے مختلف علاقوں میں قابضین سے محاذ آرائی کا سلسلہ شروع کریں گے اور عملی طور پر یہ جدوجہد 9 دسمبر ء 1987 کو صبح کی نماز کے بعد جبالیہ کیمپ میں صہیونیوں کے خلاف مظاہرے سے شروع ہوئی۔ اخوان کے دو ارکان، جو انتفاضہ کے پہلے شہید تھے، کی شہادت کے ساتھ ہی فلسطینی اخوان المسلمین کی قابضین کے کے ساتھ با قاعده طور پر جنگی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔

فلسطین لبریشن موومنٹ فتح کی تاسیس

اخوان المسلمین گروپ کو شدید ترین حملوں اور ظلم و ستم کا نشانہ بنائے جانے کے بعد جمال عبدالناصرکی حکومت نے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جس کی وجه سے اس گروہ کو روپوش ہونا پڑا۔ لیکن بہت سے اراکین جو جهادی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی رکھتے تھے، مصری حکومت اور حزب اختلاف کی اسلام پسند تحریکوں کے مخالف حکومتوں کے دباؤ سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک قوم پرست تنظیم (واضح اسلامی شناخت کے ساتھ نہیں) بنانے کا منصوبه بنایا۔ خلیل الوزیر نے 1957ء میں غزہ کی پٹی میں اخوان المسلمین کے رہنماؤں کو ایک منصوبہ بھی پیش کیا تھا، لیکن وہ مشکل حالات سے دوچار تھے، اس لیے انھیں ان کی تجویز کا کوئی جواب نہیں ملا۔ خلیل الوزیر نے یاسر عرفات کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے، جو اخوان المسلمون کے قریبی شخصیات میں سے ایک تھے، "فلسطین لبریشن موومنٹ" (فتح) کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی ۔ اخوان المسلمین کے بہت سے فعال اور قابل نوجوان ارکان نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کی جن میں ریاض زعون، سلیم زنون، محمد یوسف نجار، عبدالفتاح حمود، یوسف عمیرہ، کمال عدوان، صلاح خلف، سلیمان حماد، رفیق نیتشے اور دیگر شامل تھے۔

اخوان المسلمین اور فلسطین کا مسئله، سیاسی اور سماجی جدو جهد

1977 ء میں فلسطینی اخوان المسلمین کونسل کے اجلاس میں اخوان کے مختلف گروپوں کو علاقائی تنظیموں کی شکل میں ضم کرنے کا مسئله اٹھایا گیا جس کی بنیاد پر یه بات طے هوگئی که اردن، شام، فلسطین اور لبنان کی اخوان المسلمین کو اخوان المسلمین بلاد شام کے عنوان سے ایک جماعت میں ضم کر دیا جائے ۔ یه تجویز خیری الاغا اور سلیمان حماد کی قیادت میں اردن کی اخوان المسلمین کونسل میں پیش کی گئی یہ تجویز متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ سنه 1978ء میں اخوان المسلمین فلسطین اور اردن کی کونسل کو تحلیل کر دی گئی اور محمد عبدالرحمن خلیفہ کی سربراہی میں ایک نئی قیادت والی ٹیم کے ساتھ ایک نئی کونسل تشکیل دی گئی ۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینی اخوان المسلمین، کویت، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس نئے گروپ میں شمولیت اختیار کی، جسے اخوان المسلمون بلاد شام کا نام دیا گیا تھا۔ البتہ شام اور لبنان میں اخوان المسلمون کے خصوصی حالات نے انہیں مذکورہ گروپ میں شامل ہونے سے روک دیا۔ اخوان المسلمین بلاد شام کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، اس میں سرگرم اہم ترین شخصیات میں قندیل شاکر اور ابو بشیر ضامنی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یوسف اعظم نے بھی بطور سیکرٹری اس معاملے میں اهم کردار ادا کیا۔ کویت میں 350,000 فلسطینیوں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ اس ملک میں فلسطینیوں کے لیے پیدا کی گئی وسیع آزادی کے سائے میں خالد مشعل کی قیادت میں فلسطینی طلبہ کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہ۔ 1979 ء میں کویت یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد، خالد مشعل نے اپنی سیاسی، جهادی اور تنظیمی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔ 1980 ء کے آغاز سے، وہ فوجی اور سیکیورٹی گروهوں کی تخلیق اور ترقی پر نگرانی کرنے کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں ماہر عملے کی تربیت کے انچارج تھے۔ غزہ کی پٹی میں شیخ احمد یاسین نے قابضین سے لڑنے کے لیے ایک فوجی تنظیم بنائی جس کی نشاندہی کے بعد 1984 میں دشمنوں نے حملہ کر کے اس کو منحل کردیا ۔ مذکورہ تنظیم 1986ء میں ’’فلسطینی مجاہدین‘‘ کے عنوان سے دوبارہ قائم کی گئی۔ دوسری جانب غزہ کی پٹی میں اخوان المسلمون کا سیکیورٹی اپریٹس ’’مجد‘‘ بھی 1981 ءمیں تشکیل دیا گیا تھا جو اخوان کے فوجی منصوبوں کا حصہ تھا۔ اس فوجی سازوسامان 1985 ءمیں دوبارہ تعمیر اور توسیع کی گئی تھی۔ مصری یونیورسٹیوں میں، ایک فلسطینی اسلام پسند رجحان ابھرا، اس رجحان میں موجود نمایاں ترین شخصیات میں موسیٰ ابو مرزوق، بشیر نافی، فتحی شقاقی اور عبدالعزیز عودہ شامل ہیں۔ مصری اخوان المسلمون کی طرف سے فلسطینی طلباء کو جہادی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا گیا۔ 1979 ءمیں ایرانی انقلاب مذکورہ جماعت کے لیے ایک مضبوط محرک بن گیا اور اس کی وجہ سے فتحی شقاقی نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اخوان المسلمون سے علیحدگی اختیار کی اور 1980 میں فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کی بنیاد رکھی۔ یمارچ 1983 میں جب خالد مشعل نے یوسف اعظم کو - اپنے دورہ کویت کے دوران - فلسطین کے لیے ایک خصوصی داخلی کانفرنس کے انعقاد کا منصوبہ پیش کیا، ایک کانفرنس جس کا مقصد مسئله فلسطین کے حل کے حوالے سے تمام نظریات، منصوبوں اور سرگرمیوں کے طریقہ کار کو یکجا کرنا اس حوالے سے مختلف فعالیتوں کا آغاز کرنا تھا ۔ یہ کانفرنس 20 اور 21 اکتوبر 1983 کو غزہ کی پٹی سمیت مختلف علاقوں میں اخوان المسلمون کے نمائندوں کی موجودگی کے ساتھ تشکیل دی گئی۔ کانفرس کے دس صفحات پر مشتمل فیصلوں میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مسئلہ فلسطین کے لیے سرگرمی اور آزادی کے منصوبے کا ایک جامع اسلامی ملک بنانے کے منصوبے سے کوئی تضاد نہیں ہے۔ بلکہ، یہ دو متوازی راستوں میں چلنے کے مترادف ہے جو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے کی جانے والی سرگرمیوں کو بڑھانے کے حوالے سے 26 فیصلے کیے گئے، جن میں فلسطینی اخوان المسلمین کی سرگرمیوں کے لیے ایک خصوصی کمیٹی کا قیام بھی شامل تھا ، جس کی ذمه داری ان پروگراموں کی تشکیل تھی جس میں مسئله فلسطین کا حل اور اس حوالے سے مقدمات کی فراهمی کے لئے اقدامات عمل میں لانا تھا۔

حوالہ جات