مندرجات کا رخ کریں

سید علی سیستانی

ویکی‌وحدت سے
سید علی سیستانی
پورا نامسید علی سیستانی
دوسرے نامسید علی حسینی سیستانی
ذاتی معلومات
پیدائش1930 ء، 1308 ش، 1348 ق
یوم پیدائش9 ربیع الاول
پیدائش کی جگہمشہد،ایران
اساتذہ
  • آیت اللہ خوئی
  • آیت اللہ محسن الحکیم
  • آیت اللہ بروجردی
  • شیخ حسین حلی
مذہباسلام، شیعہ
مناصبمرجع تقلید اثنائے عشری

سید علی حسینی سیستانی المعروف آیت اللہ سیستانی، عراق کے معروف ایرانی عالم دین ہیں اور اثنا عشری شیعوں میں اصولی گروہ کے مرجع تقلید ہیں۔ آپ نجف کے حوزہ علمیہ کے مرجع ہیں یا آسان الفاظ میں آیت اللہ العظمٰی ہیں۔ آپ 9 ربیع الاول 1349 ه( 4 اگست 1930) کو مشہد، ایران میں پیدا ہوئے اور 1951 سے نجف اشرف عراق میں قیام پزیر ہیں۔ اس کے علاوہ عراق میں جنگ کے بعد ایک اہم سیاسی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ آپ متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ آپ نے 2014ء میں داعش کے خلاف فتوی دیا جس کے بعد عراق کی رضا کار فورس نے داعش کو نیست نابود کر دیا۔ آپ کئی اداروں کے سرپرست ہیں ۔ آپ 8 اگست 1992 سے آیت اللہ خوئی کے بعد حوزہ علمیہ نجف اشرف کے زعیم بھی ہیں ۔ آپ کا دفتر ایران اور عراق دونوں ممالک میں واقع ہے۔

سوانح عمری

سید علی حسینی سیستانی ۱۳۰۹ مرداد ۱۳۰۹ ہجری شمسی مطابق ۹ ربیع الاول ۱۳۴۹ ہجری قمری میں شہر مشہد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد باقر شیعہ علما میں سے ہیں اور ان کی والدہ سید رضا مہربانی سرابی کی بیٹی تھیں، ان کے جد سید علی سیستانی نجف اشرف میں میرزائے شیرازی کے شاگردوں میں سے تھے وہ سن ۱۳۱۸ ق میں ایران واپس آ گئے تھے۔

تعلیم

سید سیستانی نے ابتدائی اور مقدماتی تعلیم مشہد میں حاصل کی اور سن ۱۳۶۰ ق کی ابتدائ میں انہوں نے حوزوی علوم کی مقدماتی تعلیم کا آغاز کیا۔ ادبیات عرب ادیب نیشاپوری سے، شرح لمعہ و قوانین سید احمد مدرس یزدی سے، فقہ و اصول کی اعلیٰ سطح کی کتابیں میرزا ہاشم قزوینی سے پڑھیں اور فلسفہ کے دروس سیف اللہ ایسی میانجی، شیخ مجتبی قزوینی اور میرزا مھدی اصفہانی سے پڑھے، اسی طرح انہوں نے میرزا مہدی آشتیانی اور میرزا ھاشم قزوینی کے درس خارج میں بھی شرکت کی۔

قم

سید علی سیستانی سن ۱۳۶۸ ق میں شہر قم میں وارد ہوئے اور وہاں آیت اللہ بروجردی کے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کی اور اسی طرح وہ آیت اللہ حجت کوہ کمرہ ای کے درس خارج میں بھی شرکت کرتے تھے۔

اسی دور میں انہوں نے سید علی بھبھانی سے جو محقق تھرانی کے مکتب فقہی کے پیروکار تھے، خط و کتابت کے ذریعہ سے رابطہ رکھتے ہوئے قبلہ شناسی کے موضوع پر خامہ فرسائی کی۔ جس کے نتیجہ میں سید علی بھبھانی نے انہیں ۷ رجب ۱۳۷۰ ق کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے سید علی سیستانی کو جن کی عمر اس وقت ۲۱ سال تھی، عمدۃ العلماء و نخبۃ الفقہاء المدققین کے لقب سے سرفراز کیا اور باقی بحث کو ملاقات کے وقت پر موکول کیا۔

نجف کی طرف ہجرت

انہوں نے سن ۱۳۷۱ ق میں نجف اشرف کا سفر اختیار کیا اور وہاں مدرسہ بخارایی میں سکونت اختیار کی۔ آیت اللہ خویی اور شیخ حسین حلی کے درس خارج میں شرکت کی۔ ان دونوں دروس میں طولانی مدت تک شرکت کرنے کے علاوہ انہوں نے سید محسن حکیم اور سید محمود شاہرودی کے دروس سے بھی کسب فیض کیا۔

اجتہاد و مرجعیت

سن ۱۳۸۰ ق میں ۳۱ سال کی عمر میں اپنے دو اساتذہ آیت اللہ خویی اور شیخ حسین حلی سے اجتہاد کا اجازہ مطلق حاصل کیا۔ شیخ حسین حلی سے اجتہاد کا اجازہ مطلق حاصل کرنے والے وہ فرد فرید ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے بھی سن ۱۳۸۰ ق کی اپنی ایک تحریر میں ان کے علم رجال اور حدیث پر تسلط کی گواہی دی ہے۔

جمادی الثانیۃ ۱۴۰۹ ق میں اپنے استاد آیت اللہ خوئی کی خواہش پر مسجد خضراء کے امام جماعت متعین ہوئے۔ اس سے پہلے تک آیت اللہ خوئی مسجد خضراء میں نماز جماعت کا فرائض انجام دے رہے تھے، بیماری کے سبب انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے شاگرد کے سپرد کر دی۔ سید سیستانی ذی الحجہ ۱۴۱۴ ق کے آخری جمعہ اور عراقی حکومت (صدام حسین کے زمانہ میں) کی طرف سے اس مسجد کا دروازہ بند ہونے تک اس میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

وہ ۸ صفر ۱۴۱۳ ق میں آیت اللہ خوئی کے انتقال کے بعد مرجعیت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ۱۴۱۴ ق میں سید عبد الاعلی سبزواری اور سید محمد رضا گلپایگانی کی رحلت کے بعد اور اس کے بعد محمد علی اراکی اور سید محمد روحانی انتقال کے بعد ان کے مقلدین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا [1]

تصنیفات

آیت اللہ سیستانی کی تالیفات میں کچھ کتابیں نشر ہو چکی ہیں جبکہ بعض تصنیفات ابھی بھی غیر مطبوعہ شکل میں ہیں۔ مطبوعہ کتابوں میں زیادہ تر ان کے فتاوی اور دروس کی تقریرات ہیں، جن کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:

  • منھاج الصالحین:فتاوی پر مشتمل ہے جو تین جلدوں میں سن ۱۳۱۵ ق میں قم میں طبع ہوئی ہے۔ منھاج الصالحین سید محسن الحکیم کی تالیف ہے، آیت اللہ خوئی نے اپنے فتاوی کو اس پر تطبیق دے کر اور اس میں بعض ابواب و فصول کا اضافہ کرکے شائع کیا ہے۔ اور ان کے بعد ان کے شاگرد سید علی سیستانی نے بھی اسی روش کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کتاب پر آیت اللہ سیستانی کی طرف سے مقدمہ لکھے جانے کی تاریخ ۲۰ ذی الحجۃ ۱۴۱۳ ق ہے [2]۔
  • قاعدہ لا ضرر و لا ضرار: فقہ کے دروس کی تقریرات ہیں، جنہیں سید محمد رضا سیستانی نے تحریر کیا ہے اور یہ کتاب سن ۱۴۱۴ ق میں شائع ہوئی ہے [3]
  • اختلاف الحدیث:دروس حدیث کی تقریرات ہیں، جنہیں سن ۱۳۹۶ میں ان کے ایک شاگرد سید ہاشم ھاشمی نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۵ صفحات پر مشتمل ہے اور اسے ذاتی طور پر (غیر رسمی طور پر) شائع کیا گیا ہے۔ اس تالیف سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف احادیث کے رفع کے سلسلہ میں آیت اللہ سیستانی کے نظریات، تعادل و تراجیح پر مبتنی ہونے سے زیادہ اس کے اسباب اور سبب پیدائش کی تجدید پر مشتمل ہیں [4]
  • الرافد فی علم اصول سید منیر سید عدنان القطیفی کی تالیف ہے۔ اس میں آیت اللہ سیستانی کے دروس اصول کی تقریرات ہیں۔ یہ کتاب ایک جلد پر مشتمل ہے اور عربی زبان میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں مکتب امامیہ میں علم اصول فقہ کی اہمیت و منزلت، اس کے ادوار فکری وغیرہ کے سلسلہ میں بحث کی گئی ہے [5]

وابستہ ادارے

  • امام علی (ع) سینٹر، قم؛
  • آل البیت ثقافتی سینٹر، استانبول؛
  • اعتقادی تحقیقاتی سینٹر، قم؛
  • المصطفی اسلامی تحقیقاتی سینٹر، قم؛
  • اسلامی میراث کے احیائ کا مزکر، قم؛
  • فلکیات و نجومی تحقیقات کا مرکز، قم؛
  • امام صادق کلچرل کامپلیکس، بیروت؛
  • آل البیت گلوبل انفارمیشن سینٹر، قم؛
  • شہر قم میں تخصصی کتب خانے (کتب خانہ تخصصی تفسیر علوم قرآن، کتب خانہ تخصصی علوم حدیث، کتب خانہ تخصصی فقہ و اصول، کتب خانہ تخصصی فلسفہ و کلام، کتب خانہ تخصصی
  • ادبیات عرب، کتب خانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران)؛
  • مدینۃ العلم ثقافتی رہائشی کامپلیکس، نجف اشرف؛
  • مدرسہ علمیہ بلاغی و نجم الائمہ نجف اشرف؛
  • فلاحی اسپتال حضرت امام صادق (ع).

سیاسی و سماجی

  • آیت اللہ خویی کی نماز جنازہ کی امامت: آیت اللہ خوئی کی وفات کے بعد، سید علی سیستانی نے جو ان کے مہم ترین شاگردوں میں سے تھے، ان کی نماز جنارہ پڑھائی۔ حوزہ کی سنت کے مطابق، جو بھی گزشتہ مرجع تقلید کے جنازہ پر نماز پڑھاتا ہے وہی اس کا جانشین بنتا ہے۔ اگر چہ صدام حسین کی حکومت کے زمانہ میں شیعوں اور حوزہ علمیہ نجف کے حالات سخت اور پیچیدہ ہونے اور آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری کے ۲۵ مرداد ۱۳۷۲ ش تک حیات ہونے کے سبب خاموشی کے ساتھ آیت اللہ سیستانی کی مرجعیت کا آغاز ہوا۔

البتہ آیت اللہ خوئی کے ایک شاگرد جعفر نطنزی کا ماننا ہے کہ آیت اللہ خوئی کے جنازہ پر آیت اللہ سیستانی کا نماز پڑھانا ان کے جانشین ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا ہے کیونکہ اس وقت نجف اشرف میں کوئی بچا ہی نہیں تھا۔ نطنزی اسی طرح سے آیت اللہ خوئی کی تشییع جنازہ اور آیت اللہ سیستانی کے نماز پڑھانے کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ کوئی تشییع کا ماحول یا ہلچل نہیں تھی، جنازہ کو لایا گیا انہوں نے نماز پڑھائی اور چلے گئے۔ بعد میں بھی کوئی ایسی علامت دیکھنے میں نہیں آئی جو ان کی مرجعیت کی دلیل بن سکتی ہو۔ وہ ایک فہیم اور با فراست انسان ہیں۔ ان کے بعد آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری مرجع تقلید تھے۔

  • عراقی حکومت اور قانون انہوں عراق پر امریکی فوج کے حملہ اور صدام حسین کی حکومت کے سقوط کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کی مزاحمت میں دلچسبی نہیں دکھائی۔ اور انہوں نے ہمیشہ جی گارنر اور پال بارمر جیسی امریکی شخصیات سے ملاقات سے پرہیز کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے عراق میں جدید حکومت کے قیام اور جدید ملی قوانین کی تدوین کے سلسلہ میں ہونے والے مختلف انتخابات میں عوام کو اس میں شرکت کرنے کی طرف تشویق کرنے میں نہایت اہم اور کلیدی کرداد ادا کیا۔
  • امریکی و عراقی افواج اور مقتدی صدر کے تنازع کا حل: جیش المہدی کے نیم فوجی دستوں اور عراق میں موجود امریکی افواج کے ساتھ جھڑپوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ یہ بحران امریکی فوج کے ٹینکوں کے کربلا، نجف اور کوفہ جیسے شہروں میں داخل ہونے اور وہاں لڑائی اور جھڑپوں کا سبب بنا۔جس کے نتیجہ میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ اپریل 2004سے لیکر جولائی 2004 تک سپاہ مہدی اور امریکی و عراقی افواج کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ جس کے نتیجہ میں شہر نجف کا محاصرہ کر لیا گیا اور امیر المومنین (ع) کے حرم کو نقصان پہنچا اور عراق کے شیعہ نشین علاقوں میں بسنے والے دسیوں افراد جاں بحق ہوئےور امیر المومنین علیہ السلام کے حرم میں سپاہ مہدی نے اپنے سنگر بنا لئے۔ آخر کار اس بحران کا حل آیت اللہ سیستانی کے اس میں وارد ہونے اور اس مسئلہ پر ان کی طرف پیش کی گئیں امن پسند تجاویز سے نکالا گیا اور 27 اگست 2004 کو اس کا سد باب ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد سے امیر المومنین علیہ السلام کے حرم اور مسجد کوفہ کی تمام تر ذمہ داریوں کو مرجعیت کے سپرد کر دیا گیا [6] ۔
  • داعش سے جہاد کا فتوا: آیت اللہ سیستانی نے عراقی شہر موصل کے سقوط اور داعش کے عراق کے مرکزی اور جنوبی علاقوں کی طرف رخ کرنے کے بعد ملک و ملت اور مقدسات دینی کے دفاع کے سلسلہ میں واجب کفائی کا حکم دیا۔ اور جنگ کرنے کی توانائی رکھنے والے شہریوں کو دفاع اور مقابلہ کے لئے اسلحہ اٹھانے اور فوج کے ساتھ ملحق ہونے کے لئے طلب کیا۔ ان کےاس حکم کا شہر کربلا کے امام جمعہ اور آیت اللہ سیستانی کے نمایندہ عبد المہدی کربلائی نے اعلان کیا اگر چہ یہ حکم فتوی کی شکل میں نہیں تھا۔ لیکن بعض تجزیوں کے مطابق فتوی کے حکم میں تھا اور یہ حکم سبب بنا کہ لاکھوں افراد داعش کے ساتھ مقابلہ کے لئے عراقی افواج کے ساتھ ملحق ہو گئے [7]

آیت اللہ سیستانی اور پوپ فرانسس کی ملاقات

شیعوں کے عظیم مرجع تقلید اور کیتھولک عیسائیوں کے سربراہ پوپ فرانسس نے سنیچر کے روز 27 فروری 2021 کو نجف میں ملاقات کی۔ یہ ملاقات تقریبا پونے گھنٹے جاری رہی ۔ دونوں مذہبی راہنماؤں نے مختلف موضوعات پر بات کی۔ ملاقات کے بعد پوپ نے یہ بیان دیا کہ وہ آیت اللہ سیستانی کی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں اور وہ مسلم دنیا کی ایک ایسے شخص سے ملے ہیں جوکہ روحانی طور پر زیادہ مضبوط ہیں [8]

اسرائیل کی طرف سے آیت اللہ سیستانی کو ٹارگٹ

اسرائیلی اشیاء کے خرید و فروش کو حرام قرار دینے اور اسرائیل کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کا فلاں کی وجہ سے آيت الله العظمى سيد علي الحسينی السستاني حفظه الله تعالى کو اس رجيم نے ٹارگٹ کرنے کا عھد کرلیا ہے۔ == صیہونی حکومت کی جانب سے آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کی توہین کے خلاف جامعہ مدرسین کا مذمتی بیان ==

جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے صیہونی حکومت کے چینل 14 کی جانب سے حضرت آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کو قتل کے ہدف کے طور پر پیش کیے جانے پر شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مرجعیت کی شان میں گستاخی قرار دیا۔

رپورٹ کے مطابق، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے صیہونی حکومت کے چینل 14 کی جانب سے حضرت آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کو قتل کے ہدف کے طور پر پیش کیے جانے پر شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مرجعیت کی شان میں گستاخی قرار دیا۔

جامعہ مدرسین نے ایک مذمتی بیان جاری کیا اور کہا: مرجع تقلید حضرت آیت اللہ العظمیٰ سیستانی -دامت برکاتہ- کو صیہونی حکومت کی جانب سے ہدف قرار دینا ایک شرمناک اقدام ہے، جو اس غاصب حکومت کی مزید رو سیاہی کا باعث بنے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ "صیہونی حکومت کے مسلسل جرائم، فلسطین کے مختلف علاقوں خصوصاً غزہ، لبنان، شام، عراق اور یمن میں کیے جانے والے اقدامات، اور اسلامی دنیا کی اہم شخصیات کے قتل، اس حکومت کی بے بسی اور ناکامی کی علامت ہیں۔"

جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے اس گستاخی کی شدید مذمت کرتے ہوئے دنیا کے آزاد فکر انسانوں اور علمی شخصیات سے مطالبہ کیا کہ وہ اس شیعہ مرجع تقلید کا بھرپور دفاع کریں اور اس اہانت کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے عالمی سطح پر مذمت کا نشانہ بنائیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل کے چینل 14 نے چند روز قبل ایت اللہ العظمی سیستانی کی تصویر کو اگلے ٹارگٹ کے عنوان سے دکھایا تھا جس پر دنیا بھر کے لوگوں نے احتجاج کیا اور اس گھٹیا حرکت پر صحیح ہونی حکومت کی بھرپور مذمت کی [9]۔

آیت اللہ العظمی سیستانی کا اہم فتوی، اسرائیلی مصنوعات کی خرید و فروخت ناجائز

عالم تشیع کے ایک اہم مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے اسرائیلی مصنوعات کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو فائدہ پہنچانے والی کمپنیوں کی مصنوعات کی خرید و فروخت کو ناجائز قرار دے دیا ہے۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے یہ حکم اس سوال کے جواب میں دیا ہے جس میں پوچھا گیا تھا: سوال: کیا ایسی سپرمارکیٹوں سے خرید و فروخت جائز ہے جن کے منافع کا ایک حصہ اسرائیل کے حمایت کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔"

جواب: آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ "اسرائیلی مصنوعات اور ایسی کمپنیوں کی پیداوار کی خرید و فروخت جن کے بارے میں یقین ہے کہ وہ موثر طور پر اسرائیل کی حمات کرتی ہیں، جائز نہیں۔"[10]۔

پاپ کی وفات پر آیت سیستانی دام ظلہ الوارف کا تعزیتی پیغام

بسم الله الرحمن الرحیم

جناب کارڈینل پیترو پارولین معزز سیکریٹری آف اسٹیٹ، ویٹی کن سٹیٹ

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

گہرے رنج و غم کے ساتھ ہمیں پاپائے اعظم، پوپ فرانسیس، کے انتقال کی خبر موصول ہوئی۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جنہیں دنیا کی بہت سی اقوام میں روحانی اور معنوی مقام حاصل تھا اور جو عالمگیر احترام سے بہرہ‌ور تھے۔ انہوں نے دنیا بھر کے مظلوموں اور ستم رسیدہ انسانوں کے ساتھ یکجہتی، رواداری اور امن کے فروغ کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔

نجف اشرف میں پاپائے اعظم کی اعلیٰ شیعہ مرجع کے ساتھ تاریخی ملاقات ایک نہایت اہم موڑ تھی، جس میں دونوں فریقین نے خداوندِ متعال پر ایمان اور الٰہی پیغامات کے کلیدی کردار، بلند اخلاقی اقدار کی پاسداری، اور عصر حاضر میں انسانیت کو درپیش بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں ان عوامل کی بنیادی حیثیت پر زور دیا۔ نیز، پرامن بقائے باہمی کی ثقافت کے فروغ، تشدد اور نفرت سے اجتناب، اور مختلف ادیان و مکاتبِ فکر کے ماننے والوں کے درمیان باہمی احترام اور حقوق کی بنیاد پر ہمدلی و ہم‌آہنگی کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر تاکید کی۔

اعلیٰ دینی مرجعیت اس عظیم سانحے پر دنیا بھر کے کیتھولک چرچ کے پیروکاروں سے دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے، ان کے لیے صبر و سکون کی دعا کرتی ہے اور خداوندِ بلند و برتر سے التجا کرتی ہے کہ وہ اپنی وسیع رحمت سے ان کے لیے اور تمام انسانیت کے لیے خیر، برکت اور امن عطا فرمائے۔

۲۲ شوال ۱۴۴۶ ہجری مطابق ۲۱ اپریل ۲۰۲۵ عیسوی

دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ سیستانی (دام ظلہ) – نجف اشرف [11]۔

آیت‌اللہ العظمی جوادی آملی کی آیت‌اللہ العظمی سیستانی سے نجف اشرف میں ملاقات

آیت‌اللہ العظمی جوادی آملی نے شہر مقدس نجف میں آیت‌اللہ العظمی سیستانی کے بیت پر حاضری دی اور اُن سے ملاقات و گفتگو کی۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نجف اشرف: آیت‌اللہ العظمی جوادی آملی نے شہر مقدس نجف میں آیت‌اللہ العظمی سیستانی کے بیت پر حاضری دی اور اُن سے ملاقات و گفتگو کی۔

پایگاه اطلاع‌رسانی اسراء کے مطابق، یہ ملاقات پیر کی صبح انجام پائی جس میں آیت‌اللہ العظمی جوادی آملی نے اپنی تفسیر قرآن "تفسیر تسنیم" کے مکمل 80 جلدوں کا سیٹ آیت‌اللہ العظمی سیستانی کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا اور نمونتاً 80ویں جلد کو خود اُن کی خدمت میں تقدیم کیا۔

آیت‌اللہ العظمی سیستانی نے ان کا پُر خلوص استقبال کرتے ہوئے فرمایا: "آپ نے چالیس سال قرآن کریم کی خدمت میں گزارے اور اس عظیم تفسیر کی تدوین میں شب و روز محنت کی۔ یہ تفسیر اہل تشیع کے لیے باعثِ افتخار ہے۔"

انہوں نے مزید فرمایا: "اصل اور بنیاد قرآن کریم ہے، اہل بیت علیہم السلام کی روایات کو بھی قرآن کے ساتھ پرکھنا چاہیے اور صرف وہی روایت معتبر ہے جو قرآن سے ہم آہنگ ہو۔" آیت‌اللہ سیستانی نے تاکید کی: "ہمارا حوزہ علمیہ قم کے ساتھ ویسا ہی تعلق ہے جیسا حوزہ نجف کے ساتھ ہے، اور جہاں تک ممکن ہو، ہم دونوں حوزات کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔"

انہوں نے آیت‌اللہ جوادی آملی سے ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "ہم آپ کی علمی خدمات اور صفات کے بارے میں بہت کچھ سن چکے تھے، مگر دیکھنے میں جو کیفیت ہے وہ سننے میں کہاں!"

اس موقع پر آیت‌اللہ جوادی آملی نے بھی آیت‌اللہ سیستانی کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: "آپ جیسی عظیم المرتبت شخصیت حوزات علمیہ اور امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم نعمت ہیں۔ آپ شیعیان اہل بیت اور عراقی قوم کے لیے ایک مشفق و مہربان باپ کی مانند ہیں، خدا کرے آپ کا سایہ تادیر باقی رہے۔"

انہوں نے مزید کہا: "مرجعیت نے عراق میں جو تاریخی کردار ادا کیا ہے، خصوصاً داعش جیسے تکفیری گروہوں کے مقابلے میں، وہ ناقابل فراموش ہے۔" آیت‌اللہ جوادی آملی نے آخر میں آیت‌اللہ سیستانی کی علمی خدمات اور حوزات علمیہ، خواہ وہ عراق میں ہوں یا بیرون عراق، کے لیے ان کی کوششوں کو سراہا اور علمی حوزات کے مابین مزید روابط کی ضرورت پر زور دیا[12]۔

صیہونی ریاست کی جارحیت اور امریکی صدر کی رہبرِ انقلاب کو دھمکی کی شدید مذمت

آیت اللہ العظمٰی سیستانی کی صیہونی ریاست کی جارحیت اور امریکی صدر کی رہبرِ انقلاب کو دھمکی کی شدید مذمت حضرت آیت اللہ العظمٰی سیستانی نے ایک بیان میں، غاصب اسرائیل کی ایران پر جارحیت اور رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی کو دھمکی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی سیستانی نے ایک بیان میں، غاصب اسرائیل کی ایران پر جارحیت اور رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی کو امریکی صدر کی دھمکی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سیستانی کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ مذمتی بیان کا متن مندرجہ ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحيم

مرجعیت دینی نجف اشرف ایک مرتبہ پھر، اسلامی جمہوریہ ایران پر نظامی جارحیت اور رہبرِ دینی اور سیاسی کے خلاف ہر قسم کی دھمکیوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور واضح الفاظ میں انتباہ کرتی ہے کہ دینی و اخلاقی اور عرف و بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر مشتمل مجرمانہ اقدامات سے خطے میں خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اور بعض اوقات بڑے پیمانے پر حالات کے مکمل طور پر کنٹرول سے خارج ہونے کا سبب بنیں گے۔ یہ اقدامات، خطے کی اقوام کے غصے کو بڑھا دیں گے اور سب کے مفادات کو شدید خطرہ لاحق ہو گا۔

لہٰذا ہم واضح طور پر، بین الاقوامی مؤثر اداروں اور خاص طور پر اسلامی ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس ظالمانہ جنگ کی روک تھام اور ایران کا جوہری پروگرام بین الاقوامی قوانین کے تحت جاری رہنے کے لیے صلح آمیز اور منصفانہ راہ حل پیدا کرنے کی پوری کوشش کریں۔

دفترِ آیت اللہ سیستانی نجف اشرف

19 جون 2025[13]۔

عرب و اسلامی ممالک غزہ میں قحط و تباہی کو روکنے کے لیے فوری اقدام کریں

دفتر مرجع تقلید آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی نے غزہ میں جاری سنگین انسانی بحران کے تناظر میں ایک ہنگامی بیان جاری کیا ہے، جس میں اسلامی اور عرب ممالک سمیت پوری عالمی برادری سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو قحط، بمباری اور قتل عام سے بچانے کے لیے فوری اقدام کریں۔

بیان میں غزہ کی موجودہ صورتحال کو ایک المناک انسانی المیہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ محاصرہ، شدید غذائی قلت، مسلسل حملے اور علاج و دوا کی عدم دستیابی نے وہاں کے بچوں، عورتوں، مریضوں اور بزرگوں کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ دفتر آیت اللہ سیستانی نے عرب و اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس المناک صورتحال کے خاتمے کے لیے اپنی اخلاقی، انسانی اور دینی ذمہ داری کو نبھائیں اور فوری عملی اقدامات کریں۔

دفتر آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کی جانب سے جاری کردہ بیان کا مکمل متن درج ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

غزہ میں قریب دو سال سے جاری مسلسل قتل و غارت اور تباہی سے لاکھوں افراد شہید اور زخمی ہو چکے ہیں اور پورے شہر و رہائشی علاقوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے، جس کے بعد آج فلسطین کے مظلوم عوام، خصوصاً غزہ کی پٹی میں، نہایت ہی برے حالات سے دوچار ہیں۔

خاص طور پر غذائی اشیاء کی شدید قلت نے صورت حال کو ایک ہولناک قحط میں بدل دیا ہے، جس کی زد میں معصوم بچے، بیمار اور بزرگ بھی آ چکے ہیں۔ البتہ قابض صہیونی افواج کی جانب سے ایسی درندگی کی توقع کی جا سکتی ہے، کیونکہ وہ مسلسل فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، لیکن یہ ناقابل قبول ہے کہ دنیا، بالخصوص عرب و اسلامی ممالک، خاموشی اختیار کیے رہیں اور اس عظیم انسانی المیے کے جاری رہنے کی اجازت دیں۔

ہم ان سب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے انسانی و اخلاقی فریضے کو ادا کریں اور ہر ممکن کوشش کریں کہ اس تباہی کو روکا جائے۔ قابض حکومت اور اس کے حامیوں پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جائے تاکہ امدادی سامان اور خوراک فوری طور پر معصوم اور غیر مسلح شہریوں تک پہنچ سکے۔

غزہ میں جاری قحط کی لرزہ خیز تصویریں، جو میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچ رہی ہیں، ہر باضمیر انسان کی روح کو دہلا دیتی ہیں اور ایسی تکلیف دیتی ہیں کہ انسان کھانے پینے سے بے رغبت ہو جاتا ہے۔

اسی حالت کو حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس وقت بیان فرمایا تھا جب ایک مسلمان سرزمین میں کسی عورت پر ظلم ہوا تھا: «اگر کسی مسلمان کو اس ظلم کے بعد رنج میں موت آ جائے تو نہ صرف قابلِ ملامت نہیں بلکہ قابلِ تحسین ہے»۔

و لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم

(۲۹ محرم الحرام ۱۴۴۷ھ / ۲۵ جولائی ۲۰۲۵ء)

دفتر آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی – نجف اشرف[14]۔

آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کے نصیحت آموز فتویٰ کا تجزیہ اور تحریف کرنے والوں کے شبہات کا جواب

حال ہی میں بعض میڈیا پلیٹ فارمز پر آیت اللہ سیستانی حفظہ اللہ کی اس نصیحت کو بنیاد بنا کر یہ شبہ پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جن ائمہ جماعت کو حکومت سے تنخواہ ملتی ہے ان کے پیچھے نماز پڑھنا باطل ہے۔

حالیہ دنوں ایک تازہ استفتاء اور اس کا جواب منتشر ہوا ہے جس میں آیت اللہ سیستانی نے سفارش فرمائی ہے کہ ایسے ائمہ جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے جو حکومت سے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں۔ اس جواب کے بعد بعض افراد نے یہ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی کہ چونکہ زیادہ تر ائمہ جماعت اداروں اور کمپنیوں میں نماز پڑھاتے ہیں اور کچھ حکومتی بجٹ سے بھی وابستہ ہوتے ہیں لہٰذا ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے چند نکات پیش کئے جا رہے ہیں:

استفتاء اور شُبہہ سازی میں فرق

استفتاء کسی مرجع تقلید سے شرعی ذمہ داری واضح کرنے کے لیے کیا جانے والا ایک ذاتی فقہی سوال ہوتا ہے۔ لیکن شبہ ایک سیاسی یا سماجی نتیجہ ہوتا ہے جو مخصوص مقاصد کے تحت اس جواب سے نکالا جاتا ہے۔ یہاں پھیلایا جانے والا شبہ یہ ہے کہ ’’پس جو بھی امام جماعت حکومت سے تنخواہ لیتا ہے اس کے پیچھے نماز باطل ہے‘‘۔ حالانکہ آیت اللہ سیستانی کا جواب محض ایک شرعی رہنمائی ہے نہ کہ کوئی سیاسی اعلان وغیرہ۔

مسئلہ کا فقہی پس منظر

امام جماعت کا حاکم کا عامل ہونا‘‘ یا ’’حکومتِ غیر عادل کے بیت المال سے وظیفہ لینا‘‘ جیسے مسائل قدیم فقہی متون میں بارہا بحث ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی نیا یا خلافِ معمول مسئلہ نہیں۔ آیت اللہ سیستانی کا جواب اسی تاریخی فقہی بحث کا تسلسل ہے۔

فتویٰ کی "تجویز کردہ" اور "احتیاطی" نوعیت

آیت اللہ سیستانی کے جواب میں استعمال ہونے والے الفاظ جیسے ’’ننصح المؤمنین‘‘ (مومنین کو تجویز و مشورہ یا نصیحت کرتا ہوں) اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ کوئی قطعی حرمت یا نماز کے بطلان کا حکم نہیں بلکہ ایک احتیاطی ہدایت ہے تاکہ مقلد عبادت میں شک یا تردّد سے بچ سکے۔

علتِ فتویٰ کا صراحت سے بیان ہونا

آیت اللہ العظمیٰ سیستانی نے واضح فرمایا کہ علت یہ ہے کہ ’’مبادا امام جماعت اپنے استقلال کو کھو دے‘‘۔ اس علت کی چند خصوصیات ہیں:

  • کلی ہے اور کسی خاص حکومت پر منحصر نہیں۔
  • احتمالی ہے، یعنی ممکنہ خطرے کی طرف اشارہ ہے۔
  • قابلِ تحقیق ہے، یعنی اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ امام جماعت حکومتی تنخواہ لینے کے باوجود آزاد فکر اور آزاد فیصلہ رکھتا ہے اور حکومتی دباؤ کے سامنے سر نہیں جھکاتا تو اس کے پیچھے نماز میں کوئی اشکال نہیں کیونکہ اس طرح وہ علت ہی منتفی ہو گئی۔

استفتاء کے سیاق و سباق اور مخاطبین (بین الاقوامی حیثیت)

آیت اللہ العظمیٰ سیستانی بین الاقوامی اثر رکھنے والے مراجع میں سے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی عالمی سیاق میں پوچھا گیا ہے۔ بعض میڈیا اسے اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے یہ صرف کسی ایک ملک کے بارے میں ہو۔ جبکہ یہ ایک عمومی فقہی قاعدہ ہے جو دنیا کی ہر اس حکومت پر لاگو ہوتا ہے جو ائمہ جماعت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرے۔ اس اعتبار سے یہ مسئلہ ایران و پاکستان وغیرہ ہی نہیں بلکہ سعودی عرب، بحرین اور دیگر حکومتوں کے بارے میں بھی صادق آتا ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ فتویٰ کی اصل مناسبت زیادہ تر انہی حکومتوں سے جڑی ہوئی ہے[15]۔

حوالہ جات

  1. زندگی‌نامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
  2. سیستانی، منهاج الصالحین، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۵.
  3. سیستانی، قاعدة لا ضرر و لا ضرار، قم، ۱۴۱۴ق.
  4. آیت الله العظمی سیستانی و اختلاف الحدیث.
  5. سیستانی، الرافد فی علم الاصول، ۱۴۱۴ق.
  6. سفر درمانی حضرت آیت الله سیستانی؛ بازگشت به عراق و حل بحران نجف - بخش پایانی
  7. آیت الله سیستانی فتوای جهاد صادر کرد
  8. ndtv.com
  9. صیہونی حکومت کی جانب سے آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کی توہین کے خلاف جامعہ مدرسین کا مذمتی بیان-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 13 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 اکتوبر 2024ء۔
  10. آیت اللہ العظمی سیستانی کا اہم فتوی، اسرائیلی مصنوعات کی خرید و فروخت ناجائز- شائع شدہ از:5 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 نومبر 2024ء۔
  11. مولانا سید مظہر سبزواری کی فیس بک سے ماخوذ
  12. آیت‌اللہ العظمی جوادی آملی کی آیت‌اللہ العظمی سیستانی سے نجف اشرف میں ملاقات- شائع شدہ از: 13 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 مئی 2025ء
  13. آیت اللہ العظمٰی سیستانی کی صیہونی ریاست کی جارحیت اور امریکی صدر کی رہبرِ انقلاب کو دھمکی کی شدید مذمت- شائع شدہ از: 19 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جون 2025ء
  14. عرب و اسلامی ممالک غزہ میں قحط و تباہی کو روکنے کے لیے فوری اقدام کریں: آیت اللہ العظمیٰ سیستانی- شائع شدہ از: 26 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 جولائی 2025ء
  15. آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کے نصیحت آموز فتویٰ کا تجزیہ اور تحریف کرنے والوں کے شبہات کا جواب- شائع شدہ از:1 دسمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 دسمبر 2025ء