100 مسلمان علماء کا غزہ کے بارے میں تاریخی فتویٰ

100 مسلمان علماء کا غزہ کے بارے میں تاریخی فتویٰ ایک غیر معمولی اور تاریخی اقدام میں، مختلف اسلامی ممالک کے ایک سو ممتاز علماء نے غزہ کی پٹی اور مسجد اقصیٰ پر صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت کے حوالے سے"نداء الاقصیٰ و غزہ" کے عنوان سے ایک فتویٰ جاری کیا ہے، جس میں واضح اور فیصلہ کن موقف اختیار کیا گیا ہے۔ یہ بیان قرآن پاک کی آیت سورہ البقرہ، آیت 159) ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ﴾ (بے شک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں ہماری نازل کردہ روشن دلیلوں اور ہدایت کو بعد اس کے کہ ہم اسے لوگوں کے لیے کتاب میں واضح کر چکے، ایسے لوگوں پر اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں) کے حوالے سے شروع ہوتا ہے۔ اس فتوے میں مسلمان علماء نے واضح کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کی حمایت ایک شرعی فرض اور مقدس جہاد ہے، اور قابضین کے خلاف مزاحمت اسلامی اقدار میں سرفہرست ہے۔ اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں سرفہرست موریطانیہ کے معروف عالم شیخ محمد حسن الددو اور غزہ میں فلسطینی علماء کی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر مروان محمد ابو ر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، آیت اللہ سیستانی اور آیت اللہ نوری ہمدانی نے بھی غزہ کے عوام کی حمایت میں بیانات جاری کیے ہیں۔
علمائے اسلام کا فلسطین پر موقف:
علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطین اسلام کے لیے وقف کردہ سرزمین ہے اور کسی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کے ایک انچ حصے کو بھی قابضین کے حوالے کرے۔ مسجد اقصیٰ کی آزادی اسلامی عقیدے کا حصہ ہے۔
غزہ کی امداد میں رکاوٹ خدا، رسول اور مؤمنین سے خیانت
علمائے اسلام نے اپنے بیان کے ایک اور حصے میں غزہ کے لوگوں تک امداد پہنچانے کے لیے رفح کراسنگ اور دیگر سرحدوں کی بندش کو اللہ، اس کے رسول اور مؤمنین کے ساتھ خیانت قرار دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ بیماروں اور زخمیوں کی اموات کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو امداد کی ترسیل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
فلسطینیوں کی حمایت
یہ بیان اس بات پر زور دیتا ہے کہ قابض شہری نہیں سمجھا جاتا، اور اس نے تمام مسلمانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی حمایت اور قابض القدس حکومت (اسرائیل) کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع، بشمول میڈیا، اقتصادی، سماجی، اور حتیٰ کہ عملی شرکت کے ذریعے قدم اٹھائیں۔
فتوای کے اہم نکات
بیان کے اہم نکات میں یہ شامل ہیں:
- ولایت مقاومت کے ساتھ ہے: جو کوئی بھی قابضین کے ساتھ تعاون کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔
- مقاومت فرض عین ہے: مقاومت اب فرض کفایہ نہیں رہی، بلکہ فرض عین بن چکی ہے، اور اسے ترک کرنا میدان جنگ سے فرار کے مترادف ہے۔
- اقتصادی بائیکاٹ جہاد کا حصہ ہے: صیہونی حکومت اور اس کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کا اقتصادی بائیکاٹ موجودہ دور میں جہاد کے مصادیق میں سے ہے۔
- تمام معاہدے باطل ہیں: قابض حکومت کے ساتھ تمام امن معاہدے اور تعلقات کی بحالی کے معاہدے باطل اور شرعی طور پر ناجائز ہیں۔
غزہ کے مظلوموں کی آواز بنیں
اس بیان کے آخر میں تمام مسلمانوں سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس اپیل کو سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ پھیلا کر غزہ کے مظلوم عوام کی آواز دنیا تک پہنچائیں اور فلسطین کے دفاع کے لیے ہر ممکن صلاحیت کو بروئے کار لائیں۔[1]
آیت اللہ سیستانی کے دفتر سے جاری بیان

تقریباً دو سال کی مسلسل ہلاکت اور تباہی، جس کے نتیجے میں لاکھوں شہداء اور زخمی ہوئے، اور شہروں و رہائشی بستیوں کی مکمل تباہی ہوئی، ان دنوں غزہ کی پٹی کے مظلوم فلسطینی عوام کو انتہائی مشکل اور صبر آزما حالات کا سامنا ہے۔ خاص طور پر خوراک کی شدید قلت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر قحط پیدا ہو گیا ہے، جس سے بچے، بیمار اور بوڑھے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اگرچہ قابض افواج سے ان کی مسلسل کوششوں کے دائرہ کار میں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کے لیے ایسی وحشیانہ کارروائیوں کے سوا کوئی توقع نہیں۔
تاہم دنیا کے ممالک، خاص طور پر عرب اور اسلامی ممالک سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس عظیم انسانی المیے کو جاری نہ رہنے دیں۔ بلکہ انہیں اس کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں دگنی کرنی چاہئیں اور اپنی زیادہ سے زیادہ طاقت بروئے کار لانی چاہیے تاکہ قابض حکومت اور اس کے حامیوں کو امدادی راستے کھولنے اور بے دفاع شہریوں تک خوراک اور زندگی کی دیگر ضروری اشیاء جلد از جلد پہنچانے پر مجبور کیا جا سکے۔ غزہ کی پٹی میں بھوک کے ان دل دہلا دینے والے مناظر کو جو ذرائع ابلاغ دکھا رہے ہیں، کسی بھی باضمیر انسان کو آرام سے کھانا یا پینا ہضم نہیں ہونے دینا چاہیے۔ جیسا کہ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) نے اسلامی سرزمین میں ایک عورت پر ہونے والے ظلم کے بارے میں فرمایا: "اگر اس واقعے کے بعد کوئی مسلمان غم سے جان دے دے تو وہ قابل ملامت نہیں، بلکہ میری نظر میں یہ مناسب ہے۔[2]
غزہ کے موجودہ حالات پر آیت اللہ نوری ہمدانی کا بیان
بسم اللہ الرحمن الرحیم اے عالم اسلام کی معزز اقوام! معزز علمائے کرام! مسلمان اور آزاد خیال حکومتیں! "...وَ إِنِ اسْتَنْصَرُوکُمْ فِی الدِّینِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ..." (الانفال–72) ایک بار پھر انسانیت کا ضمیر اور پاکیزہ فطرتیں صہیونی بچوں کی قاتل حکومت کے ایک خوفناک اور شرمناک جرم سے لرز اٹھی ہیں۔ مظلوم غزہ اب نہ صرف بے پناہ بمباری کی آگ میں جل رہا ہے، بلکہ خوراک، ادویات اور انسانی محاصرے میں بھی پھنسا ہوا ہے۔ بڑے پیمانے پر بھوک، بچوں، خواتین، بوڑھوں اور بیماروں کی مظلومانہ شہادتیں، اور بے گناہ لوگوں کے بے بسی سے دم توڑنے کے دل دہلا دینے والے مناظر ہر آزاد انسان کے دل کو تکلیف دے رہے ہیں۔
یہ اقدامات نہ صرف واضح طور پر نسل کشی اور جنگی جرائم ہیں، بلکہ کسی بھی انسانی، قانونی، شرعی اور بین الاقوامی معیار سے ان کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ غزہ کے عوام کی مظلومیت کی چیخ آج علمائے اسلام، اسلامی ممالک کے رہنماؤں اور بین الاقوامی اداروں کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب فلسطینی قوم، خاص طور پر غزہ کی مظلومیت کی چیخ دنیا بھر میں سنی جا رہی ہے، دنیا بھر کے بیدار انسانی ضمیر نہتے عوام پر صہیونی حکومت کے کھلے ظلم پر غصے میں ہیں۔
اس دوران، علمائے دین اور اسلامی حکومتوں پر ایک سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛ کیونکہ وہ نہ صرف انسانی معیاروں پر، بلکہ قرآن و سنت کے حکم کے مطابق بھی مظلوموں کا دفاع کرنے اور ظلم کا مقابلہ کرنے کے پابند ہیں۔ ان نازک اور تاریخی حالات میں علمائے دین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حمایتی فتوے جاری کر کے، مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد کی دعوت دے کر، اور صہیونی حکومت کی کھلی مذمت اور اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کر کے مؤثر اور اہم اقدامات کریں۔ عوام کو فلسطینی قوم کی مادی اور روحانی مدد کرنے کی ترغیب دینا، اور جمعہ و جماعات کے خطبوں کے منبروں کا استعمال کرنا، اور امت مسلمہ کو بیدار کرنے کے لیے حوزوی، یونیورسٹی اور میڈیا کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ہم سب کی اہم دینی، سیاسی اور سماجی ذمہ داریوں میں سے ہے، اور ظاہر ہے کہ اس سے غفلت اور نرمی دنیاوی اور اخروی سزا کا باعث بنے گی۔
اسلامی حکومتیں بھی نہ صرف دینی یکجہتی کی بنیاد پر، بلکہ انسانی اور حقوق بشری نقطہ نظر سے بھی قابض قدس حکومت کے جنگی جرائم کے خلاف ایک فیصلہ کن مؤقف اپنانے کی پابند ہیں۔ بدقسمتی سے، بہت سے معاملات میں، ہم نے کچھ حکومتوں کی خاموشی یا حتیٰ کہ اس حکومت کے ساتھ تعاون دیکھا ہے۔ اسلامی حکومتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع یا معطل کریں، اور اس حکومت کی مذمت اور سزا کے لیے بین الاقوامی اداروں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ نیز، غزہ کے عوام کو انسانی امداد اور طبی امداد بھیجیں اور فلسطینی قوم کی جائز مزاحمت کی حمایت کو اپنے ایجنڈے میں شامل کریں۔
علمائے دین اور اسلامی حکومتوں کی بے حسی نہ صرف ظلم کے تسلسل کا باعث بنے گی، بلکہ عالمی سطح پر اسلام کی پوزیشن کو بھی کمزور کرے گی۔ اسلامی اتحاد اور امت کی بیداری صرف مظلوموں کی عملی کارروائی اور حقیقی حمایت کے سائے میں ہی ممکن ہے۔ نوجوان مسلمان نسل بھی علمائے دین اور سیاسی رہنماؤں کی کارکردگی کا بغور جائزہ لے رہی ہے، اور خاموشی کو نفاق یا دینی ارادے کی کمزوری کی علامت سمجھتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عالم اسلام کی تمام سچی قوتیں، بشمول علماء، روشن خیال اور حکومتی اہلکار، اندرونی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر غزہ کے عوام کے تئیں اپنی اسلامی اور انسانی ذمہ داری پوری کریں۔ امت مسلمہ کی بیداری کے لیے عدل کی پکار اور ہم آہنگ کارروائی کی ضرورت ہے۔
غزہ کا المیہ نہ صرف ایک انسانی بحران ہے، بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک تاریخی امتحان ہے۔ علمائے اسلام کو اس بیداری کی تحریک کے علمبردار کا کردار ادا کرنا چاہیے، اور اسلامی حکومتوں کو بھی یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ "اسلامی" نام کی مستحق ہیں۔ اگر آج بہائے گئے پاکیزہ خون پر خاموشی اختیار کی گئی، تو کل دوسرے علاقوں کی باری ہو گی۔ ہمیں یقین ہے کہ مظلوموں کی نصرت اور ظالموں کے زوال کے بارے میں الٰہی وعدہ ناقابل فراموش ہے: "...إِنَّهُ لَا یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ" (الانعام–135)۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ[3]
متعلقہ تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ فتوای بیسابقه 100 عالم مسلمان در خصوص غزه درج شده تاریخ: 21/جولائی/2025ء اخذ شده تاریخ: 27/جولائی/ 2025ء
- ↑ حضرت آیتالله سیستانی: جهان اسلام نباید در برابر فاجعه انسانی در غزه سکوت کند درج شده تایخ: 25/جولائی/2025ء اخذ شده تاریخ: 27/ جولائی/2025ء
- ↑ واکنش آیتالله نوری همدانی به فاجعه انسانی در غزه درج شده تاریخ: ... اخذشده تاریخ: 27/ جولائی/2025ء