مندرجات کا رخ کریں

مولا

ویکی‌وحدت سے

مولا ایک تاریخی لمحہ، جو آج بھی امت سے سوال کرتا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں کچھ لمحات ایسے ہیں جن کی گونج صرف ماضی تک محدود نہیں رہتی، بلکہ وہ ہر زمانے کو سوچنے، سمجھنے اور راستہ تلاش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

لفظ مولا کا معنیٰ و مفہوم

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ"[1] سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مدد گار ہیں ۔ مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے جس کی جمع ”موالی“ ہے ، جس کے تقريباً 20 معانی ہيں ، جن ميں سے چند معانی یہ ہيں :

  • آقا ،
  • مالک،
  • پرورش کرنے والا ،
  • دوست ،
  • آزاد کرنے والا ،
  • آزاد کيا ہوا غلام اور
  • مہربان ۔

مولا کا معنی پر غور

آئیے اس اعلان پر غور کریں: اگر "مولا" کا مطلب صرف "دوست" ہے، تو کیا یہ اعلان اتنی شدت سے، اتنے بڑے مجمع میں، اتنے خاص وقت پر ضروری تھا؟ کیا امت پہلے سے نہیں جانتی تھی کہ حضرت علیؑ، رسول اللہ ص کے پہلے سے محبوب اور قریبی ساتھی ہیں؟

کیا محض دوستی کے لیے نبی ص نے لاکھوں حاجیوں کو گرمی میں روک کر یہ اعلان کیا؟ یہ سوال صرف تاریخ کا نہیں — بلکہ ہمارے ایمان، سوچ اور امت کی وحدت کا سوال ہے۔

مولا کا مفہوم: لغت اور قرآن کی روشنی میں

"مولا" عربی زبان کا گہرا اور بامعنی لفظ ہے، جس کے کئی معانی ہیں:

  • محب (محبت کرنے والا)
  • ناصر (مددگار)
  • ولی (سرپرست)
  • أولى (سب پر حق رکھنے والا، صاحبِ اختیار)۔

قرآن کہتا ہے: "النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ " [2]۔ (نبی مومنین پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں) اسی طرز پر جب نبی فرماتے ہیں: "من کنت مولاه فعليٌّ مولاه" تو سیاق و سباق صاف بتاتا ہے کہ یہاں جانشینی، ولایت اور رہبری کی بات ہو رہی ہے — نہ کہ صرف محبت کی۔

قرآن کریم میں لفظ مولا

قرآن کريم ميں بھی مولیٰ کا لفظ مختلف معانی ميں استعمال ہوا ہے ۔ صرف مولیٰ کا لفظ تنہا بھی استعمال ہوا اور متعدد ضميروں کے ساتھ بھی يہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ سورة الحج ، آيت 78 ميں 2جگہ مولیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، ايک جگہ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جبکہ دوسری مرتبہ بغير ضمير کے اور دونوں جگہوں پر اللہ کی ذات مراد ہے۔ قرآن کريم ميں مولیٰ کا لفظ دوسرے معانی ميں بھی استعمال ہوا ہے۔ سورة الدخان آيت 41 میں ہے: ”جس دن کوئی حمايتی کسی حمايتی کے ذرا بھی کام نہيں آئے گا اور ان ميں سے کسی کی کوئی مدد نہيں کی جائے گی۔

اس ميں مولیٰ” اللہ“ کے لئے نہيں بلکہ دوست کے معنیٰ ميں يعنی انسان کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح سورة الحديد، آيت15 میں ہے : ”چنانچہ آج نہ تم سے کوئی فديہ قبول کيا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنہوں نے کفر اختيار کيا تھا، تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے ، وہی تمہاری رکھوالی ہے اور يہ بہت برا انجام ہے ۔ اس ميں لفظ مولیٰ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جگہ يا ٹھکانے کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کريم ميں يہ واضح کرديا کہ مولیٰ کے متعدد معانی ہيں ۔

قرآن کريم ميں لفظ مولیٰ ”نا“ ضمير کے ساتھ 2 جگہ سورة ا لبقرة آيت286 اور سورہ التوبہ آيت51 میں استعمال ہوا ہے اور دونوں جگہ پر اللہ کی ذات مراد ہے يعنی ليکن اس کا مطلب ہرگز يہ نہيں کہ مولانا ايک لفظ ہے اور وہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے ۔ مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے اور اس کے ساتھ مختلف ضميريں استعمال کی جاسکتی ہيں :

  • مولائی ،
  • مولانا ،
  • مولاکم ،
  • مولاہ وغيرہ ۔

مفسّرِین کے نزدیک مولیٰ کے معنیٰ

وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ [3]۔ تفسیرِ نَسفی صفحہ1257 ۔ اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘(یعنی مددگار) کئے گئے ہیں ۔ [4]۔ النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیئے گئے ہیں:

  • رب (پرورش کرنیوالا
  • مالک۔ سردار
  • انعام کرنیوالا
  • آزاد کرنیوالا
  • مدد گار
  • محبت کرنیوالا
  • تابع (پیروی کرنے والا)
  • پڑوسی
  • ابن العم (چچا زاد)
  • حلیف(دوستی کا معاہدہ کرنیوالا )
  • عقید (معاہدہ کرنے والا )
  • صھر (داماد، سسر)
  • غلام
  • آزاد شدہ غلام
  • جس پر انعام ہوا
  • جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔
  • جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ

[5]۔

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست، مددگار، آزاد شُدہ غلام،(غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ۔اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست(اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اورواقِعی حضرتِ سیِّدُناعلیُّ الْمُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مسلمانوں کے دوست بھی ہیں ، مددگار بھی، اِس لئے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں۔[6]۔

مولىٰ کا مطلب

اہل سنت کے نزدیک

علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں :”چچازاد، آزاد کرنے والے ، آزاد ہونے والے ، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے ، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو ((مولىٰ)) کہتے ہیں. نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((من كنت مولاه فعلي مولاه))

ترجمہ : جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے. یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے ، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے ، ثعلب کہتے ہیں : رافضیوں کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں۔ یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے ، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟؟؟ مذکورہ حدیث میں لفظ مولا ، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ [7]۔

لفظ مولا یا لفظ مولانا کا اطلاق جس طرح باری تعالی پر ہوا ہے ، اسی طرح اس لفظ کا استعمال قرآن واحادیث میں دیگر مختلف معانی کے لیئے بھی ہوا ہے ۔ چنانچہ درج ذیل سطورمیں اس لفظ کی صحیح تحقیق اوراس کا استعمال کس انداز اور کس کس معنی میں ہوا ہے پیش کیا جا رہا ہے ۔

شیعوں کے نزدیک

"مولا" کا لفظ "ولايت" کے ساتھ بھي گہرا تعلق رکھتا ہے اور اس کے معني پيروي کرنے کے ہيں ليکن دوستي کے معني بھي ديتا ہے - قرآن کہتا ہے کہ خدا مومنين کا مولا ہے اور خدا بہترين مولا ہے کہ جس ميں ہر دو معني سموۓ ہوۓ ہيں يعني مومنين خدا کو دوست رکھتے ہيں اور اس کي پيروي کرتے ہيں ليکن مولا کے منفي معني بھي ہيں اور قرآن نے برے مولا کے نام بھي ليۓ ہيں -

"وَ إِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَوْلاكُمْ نِعْمَ الْمَوْلى‏ وَ نِعْمَ النَّصيرُ" [8]۔ "يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ لَبِئْسَ الْمَوْلى‏ وَ لَبِئْسَ الْعَشيرُ" [9]۔

اس ليۓ ہر دو الفاط " امام " اور " مولا " کے معني کلي ہيں اور اس کے دقيق معني کو سمجھنے کے ليۓ ضروري ہے کہ متعلقہ جملے ميں يہ ديکھا جاۓ کہ اس لفظ کو کس انداز ميں استعمال کيا گيا ہے - .

پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي طرف سے مناسب لفظ کا استعمال

نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے غدير خم کے موقع پر مولا کا لفظ استعمال کيا ہے اور يہاں پر نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے لفظ " امام " کو استعمال نہيں کيا - لفظ " مولا " کے دقيق معني کو سمجھنے کے ليۓ ضروري ہے کہ چند اطراف سے مدد حاصل کريں - اول ان لوگوں کے اجتماع سے جو نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے حکم پر ايک جگہ جمع ہوۓ اور دوم ان لوگوں کے حسن سلوک اور اعتراف سے جو انہوں نے غديد خم کے واقعہ کے موقع پر کيا -

يہاں پر ہم يہ چاہتے ہيں کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے کلمات سے رہنمائي لے کر لفظ " مولا " کے معني کو سمجھنے کي کوشش کريں - نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اس جملہ سے قبل جمله « مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ »، يوں فرمايا : کيا ميں تمہاري نسبت تم سے زيادہ حق دار نہيں ہوں ؟ أَلَسْتُ أَوْلَى بِكُمْ مِنْكُمْ بِأَنْفُسِكُم۔ لوگوں نے يک زبان ہو کر کہا کہ ہاں اے اللہ کے رسول آپ ص ہم پر ہماري نسبت زيادہ حق دار ہيں[10] ۔

مولا کااطلاق اللہ تعالی پرقرآن کریم میں

  • فانصرناأنت مولانا ۔ (البقرہ:۲۸۶)
  • بل اللہ مولاکم ۔ (آل عمران ۱۵۰)
  • فاعلموا أن اللہ مولاکم ۔ (انفال:۴۰)
  • واعتصموا باللہ ھومولاکم فنعم المولی ونعم النصیر ۔ (الحج:۷۸)
  • ذلک نأن اللہ مولی الذین اٰمنوا (محمد:۱۱)
  • واللہ مولاکم ۔ (تحریم:۲)
  • الاماکتب اللہ لنا ھومولانا ۔ (توبہ:۵)
  • فان اللہ ھومولاہ وجبرئیل وصالح المؤمنین ۔ (تحریم:۴)
  • ثم ردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (انعام:۶۲)
  • وردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (یونس:۳۰)

مولا کا اطلاق اللہ تعالی پر احادیث میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قولوا اللہ مولانا ولا مولالکم [11]۔ ، لوگو!تم کہوکہ اللہ ہمارامولی اورکاسازہے نہ کہ تمہارا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ولیقل …. سیدی ومولای ۔ [12]۔ کہ اسے چاہئے کہ وہ اللہ کے بارے میں میرا آقا اورمیرا مولی کہے ۔

’’مولا ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پرقرآن کریم میں لبئس المولی ۔ (حج:۱۳) فرماتے ہیں کہ : اس آیت میں مولی بت کے معنی میں ہے ۔ [13]۔ یوم یغنی مولی عن مولی شیئا ۔ [14]۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : أی لا ینفع قریب قریبا ۔ [15]۔ ، کہ کوئی رشتہ دار کسی بھی رشتہ دار کونفع نہیں پہنچائے گا اس جگہ رشتہ دار پرمولی کا اطلاق ہواہے ۔

مأوٰکم النارھی مولاکم [16]۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : ھی مولاکم : ھی أولی بکم من کل منزل علی کفرکم وارتیابکم ۔ [17]۔ ، کہ مولاکم سے مراد تمہارے لئے ہرمنزل پر تمہارے کفراورشک کی بناء پر جہنم بہتر ہے ۔ اس جگہ مولی کااستعمال جہنم کے لئے ہوا ہے ۔ وکل علی مولاہ ۔ (نحل:۷۶) امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ای غلیظ وثقیل علی مولاہ‘‘[18]۔ کہ وہ اپنے آقا پر بھاری اور بوجھ ہے ۔ اس جگہ مولی کا اطلاق مالک اور آقا پر ہوا ہے ۔

ولکل جعلنا موالی مماترک۔ اس آیت میں لفظ موالی کا اطلاق وارث پر ہوا ہے [19]۔ انی خفت الموالی [20]۔ امام مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اراد بالمولی العصبۃ [21]۔ کہ یہاں پرمولی کااطلاق ان رشتہ داروں پر ہوا ہے جن کو اصطلاح شرح میں عصبہ کہا جاتا ہے جنہیں میت کے ترکہ میں سے ذوی الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد بچا ہوا مال دیا جاتا ہے ۔

فاخوانکم فی الدین وموالیکم [22]۔ ای ’’أنا من اخوانکم فی الدین ‘‘ کہ میں تمہارا دینی بھائی ہوں ۔ اس آیت میں موالی بھائی کے میں استعمال ہوا ہے ۔ احادیث میں ’’مولانا ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پر وقال لزید:أنت أخونا ومولانا [23]۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ زید تم ہمارے بھائی اور مولی ہو ۔

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واما المولی فکثیرالتصرف فی الوجوہ المختلفۃ من ولی وناصر وغیرذلک ،ولکن لایقال السید ولا الموتی علی الاطلاق من غیراضافۃ الا فی صفۃ اللہ تعالی ۔۔۔ فکان اطلاق المولی أسھل وأقرب الی عدم الکراھۃ [24]۔

ترجمہ : لفظ مولی کا اطلاق بہت سے معانی پر ہوتا ہے ، مثلا ولی ، ناصر ، وغیرہ ، لیکن لفظ مولی اور سید مطلقا بغیرکسی اضافت کے اللہ تعالی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے ، اور لفظ مولی کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے (اس لئے کہ جب سید کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر ہو سکتا ہے جب کہ اس میں ایک ہی معنی [سردار] پائے جاتے ہیں تومولی میں چوں کہ بہت سارے معنی پائے جاتے ہیں اس اعتبار سے اللہ کے علاوہ پراستعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے)

من کنت مولاہ فعلی مولاہ

من کنت مولاہ فعلی مولاہ [25]۔ ، اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ جس کا میں ذمہ دارہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی ذمہ دارہے یا جس سے میں محبت کرتا ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ۔

علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ حدیث پاک میں لفظ مولی کا تزکرہ بکثرت آیا ہے ، اور لفظ مولی ایک ایسا نام ہے جوبہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ رب ، مالک ، آقا ، احسان کرنے والا ، آزاد کرنے والا ، مدد کرنے والا ، محبت کرنے والا ، الغرض ہر وہ شخص جوکسی معاملہ کا ذمہ دار ہو اس پر مولی اور ولی کا اطلاق ہوتا ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ثلاثۃ علی کثبان المسک یوم القیامۃ،عبدادی حق اللہ وحق مولاہ [26]۔ کہ قیامت کے دن تین لوگ مشک کے ٹیلوں پرہوگے ، وہ غلام جس نے اللہ تعالی کا حق ادا کیا اور اپنے آقا کا حق ادا کیا ۔ اس حدیث میں بھی مولی آقا اور سردار کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولابأس بقول العبد لسیدہ :مولای،فان المولی وقع علی ستۃ عشر معنی ۔۔۔ منھاالناصروالمالک [27]۔

غلام کے لئے اپنے آقا کومولا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ لفظ مولی سولہ معنی میں استعمال ہوتا اس میں سے مالک اور ناصر بھی ہے ۔ مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ مولی کا اطلاق اللہ عزّ و جل کے علاوہ دیگرمعانی میں بھی استعمال ہوتا ہے[28]۔

سال 10 ہجری، ذوالحجہ کا مہینہ، نبی کریم ص حجۃ الوداع سے واپسی پر تھے۔ ہزاروں حاجی قافلے کی صورت میں مکہ سے نکل چکے تھے۔ اچانک نبی ص نے قافلے کو ایک مقام پر رکنے کا حکم دیا — یہ مقام تھا: غدیرِ خم۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلمات میں لفظ مولا

نبی کریم ص نے فرمایا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ"۔ [29]۔ (جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی بھی مولا ہے۔ اے اللہ! اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھے، اور دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی کرے)

دعوتِ فکر: دوہرے معیار کیوں؟

ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات: جب "ولی" یا "مولا" کا لفظ حضرت ابوبکرؓ کے لیے آتا ہے تو اس کا مطلب لیا جاتا ہے خلیفہ، جانشین مگر یہی لفظ جب حضرت علیؑ کے لیے آتا ہے تو کہا جاتا ہے: "اس کا مطلب صرف دوست ہے"

کیا یہ انصاف ہے؟

کیا ایک ہی لفظ کے لیے دو الگ الگ معیار صحیح ہیں؟

غدیر کا پیغام: امت کی رہنمائی نبی کریم ص نے اپنی اُمت کو کبھی بغیر رہنمائی کے نہیں چھوڑا۔ جیسے نماز سکھائی، روزہ، حج، زکوٰۃ سب کچھ واضح کیا — ویسے ہی قیادت کا معاملہ بھی واضح فرمایا۔

غدیر پر اعلان ولایت کا مطلب یہ تھا کہ:

  • "جس پر میری ولایت ہے، اُس پر علیؑ کی بھی ولایت ہے"
  • "جس پر میرا حق ہے، اُس پر علیؑ کا بھی وہی حق ہے"

اگر آپ اہل سنت بھائی ہیں، تو آپ ہمارے ایمان والے بھائی ہیں — اور ہم آپ کے لیے وہی چاہتے ہیں جو اپنے لیے۔ ہم سب ایک ہی نبی ص کے امتی، ایک ہی قرآن کو ماننے والے، اور ایک ہی قبلہ کی طرف سجدہ کرنے والے ہیں۔ تو آئیے! دل کھولیں، تعصبات سے نکلیں، اور سوچیں کہ: کیا ولایتِ علیؑ کا انکار کرنا، نبی کی ہدایت سے انحراف تو نہیں؟ کیا ہمیں غدیر کا پیغام صرف روایتی انداز سے نہیں، بلکہ فکری انداز سے سمجھنے کی ضرورت نہیں؟

حدیثِ غدیر اور "مولا" کا مفہوم

جب نبی اکرم ص نے غدیر خم کے مقام پر سب کو جمع کر کے فرمایا: "من کنتُ مولاه فهذا عليٌّ مولاه"(جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی بھی مولا ہے) تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر "مولا" سے مراد صرف دوستی ہے، تو:

  • نبی ص نے اتنے شدید موسم، سخت حالات اور ہزاروں حاجیوں کو روک کر صرف "علی میرے دوست ہیں" بتانے کے لیے اتنا غیر معمولی اقدام کیوں کیا؟
  • کیا پہلے لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ حضرت علیؑ، نبی ص کے قریبی دوست، عزیز اور داماد ہیں؟
  • کیا یہ اعلان کچھ ایسا نہیں لگتا جو کوئی بہت بڑی ذمے داری یا ولایت کے اعلان کی صورت ہو؟

لہٰذا اہل تشیع علما کا یہ استدلال ہے کہ: لفظ "مولا" یہاں تصرف، ولایت، اور خلافت کے مفہوم میں آیا ہے — یعنی جانشینی۔

اہل سنت کی تاویل اور تضاد:

آپ نے ایک اور اہم نکتہ اٹھایا ہے: جب یہی لفظ "ولی" یا "مولا" حضرت ابوبکرؓ کے لیے استعمال ہوتا ہے (جیسے: "ابو بکر ولیّی علیکم" یا "خلفائی بعدی") تو وہی مفسرین اور علما اس کا مطلب لیتے ہیں جانشین یا خلیفہ۔ لیکن جب حضرت علیؑ کے لیے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے تو اسے صرف دوستی، محبت یا قربت تک محدود کیا جاتا ہے۔ یہ ایک تأویلی تضاد (Interpretive Inconsistency) ہے جس پر غور و فکر کی شدید ضرورت ہے۔

قرائن اور سیاق و سباق کا تقاضا

سیاق و سباق، زبان، وقت، جگہ اور نبی کا اندازِ خطبہ سب یہ بتاتے ہیں کہ یہاں: مولا کا مطلب عام دوستی کا اعلان نہیں ہو سکتا، بلکہ نبی ص امت کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ "میں جس پر اختیار رکھتا ہوں، علی بھی اس پر وہی اختیار رکھتے ہیں"[30]۔

حوالہ جات

  1. سورہ تحريم، آیہ66
  2. سورہ احزاب، آیۂ 6
  3. تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154، تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143، تفسیرِکبیرجلد 10 صفحہ 570،تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337، تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286
  4. تفسیرِجلالینصفحہ465، تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481) تفسیرِبیضاوی جلد 5صفحہ 356، تفسیرابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738،چشتی
  5. ابن اثير، النهايه، 5 : 228،چشتی
  6. مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۵،چشتی
  7. تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨، وسندہ صحیح
  8. سورہ انفال، آیہ 40
  9. سورہ حج، آیہ13
  10. کلمه مولا کے معني- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 جون 2025ء
  11. بخاری:۴۰۴۳
  12. بخاری:۲۵۵۲، مسلم:۲۲۴۹
  13. تفسیرابن کثیر:۳؍۷۸۰،چشتی
  14. سورہ دخان، آیہ۴۱
  15. تفسیرابن کثیر:۴؍۱۸۳
  16. سورہ تحدید، آیہ ۱۵
  17. تفسیرابن کثیر:۴؍۳۹۵
  18. التفسیر الکبیر:۲۰؍۸۸،چشتی
  19. تفسیرابن کثیر:۱؍۶۳۸
  20. سورہ مریم، آیہ ۵
  21. تفسیرابن کثیر:۳؍۱۵۰
  22. سورہ آیہ احزاب، آیہ ۵
  23. بخاری:۲۶۹۹
  24. فتح الباری:۶؍۹۸۶،چشتی
  25. سنن ترمذی:۳۷۲۲
  26. سنن ترمذی:۱۹۸۶
  27. شرح مسلم:۵؍۹۰۴،چشتی
  28. لفظ مولا کا صحیح معنیٰ و مفہوم- 8 مئی 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 جون 2025ء
  29. الحاكم النيسابوري، المستدرك على الصحيحين (بيروت: دار الكتب العلمية، ۱۴۱۱)، ج ۳، ۱۱۹.
  30. سید ذہین کاظمی، غدیرِ خم کا پیغام؛ "مولا" کا مفہوم اور امت کی رہنمائی- شائع شدہ 9 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 جون 2025ء