ناصر مکارم شیرازی
ناصر مکارم شیرازی | |
---|---|
![]() | |
پورا نام | ناصر مکارم شیرازی |
دوسرے نام | آیت الله مکارم شیرازی |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1305 ش، 1927 ء، 1344 ق |
پیدائش کی جگہ | ایران شیراز |
اساتذہ | محسن حکیم، ابوالقاسم خویی، سید روحالله موسوی خمینی، میرزا هاشم آملی، سید حسین بروجردی |
مذہب | [[اسلام]]، [[شیعہ]] |
مناصب | مرجع تقلید، مفسر قرآن مجید، سینکڑوں کتابوں کا مولف. |
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی عصر حاضر کے جید مراجع تقلید میں سے ایک ہیں۔ وہ فقہ، اصول فقہ، تفسیر، اور کلام میں مہارت رکھتے ہیں اور شیعہ علمی حلقوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انهوں نے اب تک اسلامی اهم موضوعات پر سینکڑوں کتابیں تالیف کرچکیں ہیں۔ تفسیر قرآن اور کلام الهی کے معارف کے حوالے سے بھی انهوں نے بهت کام کیا اور نفسیر نمونه ان کی زیرنگرانی تایف ہوئی ہے۔اس کے علاوه انهوں نے فقہ و اصول میں کئی گراں قدر کتابیں تصنیف کیں اور آج بھی ان کے دروس حوزہ علمیہ قم میں جاری ہیں۔ ان کی فقہی تحقیقات جدید مسائل کا احاطہ کرتی ہیں، اور وہ عصری موضوعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔آپ اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام میں امام خمینی کے ساتھ تھے اور انقلاب اسلامی کے بعد بھی علمی و سیاسی میدان میں متحرک رہے۔ وہ ہمیشہ اسلامی اتحاد اور اخلاقی و سماجی مسائل پر اپنی آراء پیش کرتے رہتے ہیں اور مغربی ثقافتی یلغار کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں۔
سوانح حیات
مکارم شیرازی 1305 ھ شمسی میں شہر شیراز میں ایک مذهبی اور متدین محب اهل بیت(ع) خاندان میں متولد ہوئے جو فضایل نفسانی و مکارم اخلاقی میں مشہور تھا. آپ کے جدا علی ”حاج محمد باقر“ کا شمار شیراز کے تاجروں میں ہوتا تھا .وہ شیراز کی ”سرای نو“کے اندر تجارت کیا کرتے تھے، آپ کے دادا علماء جیسالباس پہنتے تھے اور شیراز کی ”مولای“ نامی مسجد میں جماعت میں شرکت کرتے تھے . لوگ آپ کا بہت اکرام و احترام کرتے اور آپ پر اطمینان رکھتے تھے۔
آپ کے دادا ”حاج محمد کریم بن حاج محمد باقر“ ہمیشہ ایک عمامہ پہنتے تھے اور ذرات کے بازار میں کام کرتے وقت کھال کی ٹوپی پہنتے تھے ، پہلے آپ شیراز کے ”سرای گمرک“ اور اس کے بعد ”وکیل بازار“ میں تجارت میں مشغول تھے، ہمیشہ شیراز کی ”مولای“ نامی مسجد میں جماعت میں شرکت کرتے تھے . اور مرحوم آیة اللہ العظمی حاج شیخ بہاء الدین محلاتی کے والدگرامی مرحوم آیة اللہ العظمی حاج شیخ محمد جعفر محلاتی رحمة اللہ علیہ اور مرحوم آیة اللہ حاج سید محمد جعفر طاہری رحمةاللہ علیہ کے نزدیک لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا. آپ کے والد گرامی حاج محمد علی بھی شیراز کے مشہور تاجر تھے ، اپنے والد گرامی کے متعلق اس طرح فرماتے ہیں:
”میرے ولد کو قرآن کی آیات سے بہت لگاؤ تھا، بچپنے میں جب میں ابتدائی تعلیم میں مشغول تھا تو کبھی کبھی رات کو مجھے اپنے کمرہ میں بلاتے تھے اورمجھ سے کہتے تھے : ناصر! منتخب آیات اور ترجمہ کی کتاب اٹھا کر لاؤ اور مجھے سناؤ(یہ کتاب آیات کا ایک مجموعہ تھی جس کو بعض دانشوروں نے انتخاب کیا تھااور رضا خان کے زمانے میں مدارس میں دینی تعلیم کے عنوان سے پڑھائی جاتی تھی)میں آیات اور ان کا ترجمہ ان کو سناتا تھا اور وہ اس سے مستفیذ ہوتے تھے.
تعلیمی سفر
انہوں نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم شیراز میں مکمل کی۔ ان کی غیر معمولی استعدادِ سیکھنے کی وجہ سے وہ ہمیشہ اپنی کلاس کے ممتاز طلبہ میں شمار ہوتے تھے اور بعض اوقات دو درجات کو ایک ہی سال میں مکمل کر لیتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے دینی علوم و معارف حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ ابتدائی دینی تعلیم کے حصول کا آغاز مدرسه بابا خان شیراز میں کیا اور بعد ازاں مزید علوم کے حصول کے لیے قم المقدسہ چلے گئے۔
رضا خان کی حکومت کے زوال نے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ شیراز کے بزرگ مجاہد عالمِ دین اور مرجع تقلید، مرحوم آیت اللہ سید نورالدین حسینی شیرازی، ایک بار پھر شیراز میں دینی مدارس کو فروغ دے سکیں اور نوجوانوں کو اسلامی معارف کے حصول کی ترغیب دے سکیں۔ یہاں تک کہ ایک ہی وقت میں پانچ سو طلبہ دینی مدارس میں داخل ہوئے۔ آیت اللہ مکارم شیرازی اپنے دینی علوم کی طرف راغب ہونے کی ایک بڑی وجہ مرحوم نورالدین حسینی شیرازی کی تقاریر اور ان کی شخصیت کے سحر انگیز اثرات کو قرار دیتے ہیں۔ جب انہوں نے شیراز کے دینی مدرسے میں قدم رکھا تو نہایت سرعت سے مقدماتی اور سطحی دروس آیت اللہ موحد سے حاصل کیے اور تقریباً چار سال کے قلیل عرصے میں سطح کے دروس مکمل کر لیے۔ یہ ان کی غیر معمولی ذہانت اور انتھک محنت کا واضح ثبوت ہے۔
ان سالوں میں وہ خود بھی دیگر طلبہ کو درس دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کے بقول وہ روزانہ آٹھ گھنٹے تدریس کیا کرتے تھے۔ انہوں نے صرف اٹھارہ سال کی عمر میں اصولِ فقہ کی مشہور اور پیچیدہ کتاب کفایۃ الأصول پر ایک حاشیہ لکھا، جو ان کی علمی گہرائی اور استعداد کا مظہر ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ حوزہ علمیہ قم میں داخل ہوئے اور وہاں کے جید اساتذہ اور اکابر علما کے درسِ خارج میں شرکت کی۔ فقہی اور اصولی نظریات سے مزید آشنائی حاصل کرنے کے لیے 1329 ہجری شمسی میں نجف اشرف کا سفر کیا، جہاں انہوں نے وہاں کے عظیم علما سے بھرپور علمی استفادہ کیا اور ان کے درسِ خارج میں شرکت کی۔
انہوں نے 24 سال کی عمر میں وہاں کے علما سے اجتہاد کی ڈگری حاصل کی اور 1330 ہجری شمسی میں وسائل کی کمی کے سبب ایران واپس آ کر دوبارہ حوزہ علمیہ قم کا رخ کیا۔ وہاں انہوں نے آیت اللہ العظمیٰ بروجردی، امام خمینی اور دیگر بزرگ اساتذہ سے استفادہ کیا۔ ان کی علمی صلاحیت کے باعث وہ کم عمری میں ہی اجتہاد کے درجے پر فائز ہوگئے۔
اساتذه
یہاں آپ کے متن کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے: اساتذہ اور رفقا آیت اللہ مکارم شیرازی نے اپنی علمی زندگی میں کئی عظیم اساتذہ سے کسبِ فیض کیا۔ انہوں نے اپنے مقدماتی اور سطحی دروس کا ایک حصہ شیراز میں آیت اللہ موحد سے حاصل کیا اور ہمیشہ مرحوم آیت اللہ العظمیٰ سید نورالدین حسینی شیرازی کے اخلاقی دروس اور خطبات سے، ان کی حیاتِ مبارکہ کے اختتام تک، استفادہ کرتے رہے۔ قم میں انہوں نے مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے درسِ خارج میں شرکت کی، جہاں ان کی ذہانت، محنت اور لگن ہمیشہ اس عظیم مرجع تقلید کی توجہ اور تحسین کا مرکز رہی۔ اس کے علاوہ، وہ آیاتِ عظام حجت کوہ کمرہای اور محقق داماد کے دروس میں بھی شریک ہوتے تھے۔
نجف اشرف میں داخل ہونے کے بعد، وہ آیت اللہ العظمیٰ خویی کے درسِ خارج میں شریک ہوئے، لیکن وہ صرف درس پر اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ راستے میں اور مسجد میں بھی اپنے علمی مسائل ان سے دریافت کرتے، اور آیت اللہ خویی شفقت و بزرگواری کے ساتھ ان کے سوالات کے جوابات دیتے۔ اس کے علاوہ، وہ آیت اللہ العظمیٰ سید محسن حکیم کے دروس میں بھی حاضر ہوتے رہے۔
جب وہ نجف سے واپس آنے لگے تو انہوں نے وہاں کے چند ممتاز علما سے اجازتِ اجتہاد حاصل کرنے کا ارادہ کیا اور آیت اللہ اصطہباناتی اور آیت اللہ کاشف الغطا سے اجتہاد کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آیت اللہ مکارم شیرازی نے اپنے ابتدائی اور سطحی دروس کے دوران اپنے علمی ساتھیوں کے ساتھ مباحثے کیے، یہاں تک کہ ان مباحثوں نے استاد کی کمی کو پورا کر دیا۔ وہ اپنی علمی کامیابی کا راز مسلسل محنت اور تعطیلات کے دنوں کا مؤثر استعمال قرار دیتے ہیں۔ تعلیمی دور میں انہوں نے کئی جید علما و فضلا کے ساتھ علمی مباحثے کیے، جن میں آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی، امام موسیٰ صدر اور آیت اللہ شبیری زنجانی شامل ہیں۔[1]
تدریس
آیت الله مکارم شیرازی نے تحصیل کے دوران ہی تدریس شروع کیا ۔ انهوں نے سطح میں تحصیل کے سالوں میں وہ خود بھی دیگر طلبہ کو درس دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کے بقول وہ روزانہ آٹھ گھنٹے تدریس کیا کرتے تھے۔ وہ حوزہ علمیہ قم میں داخل ہوئے اور تقریباً پانچ سال تک آیت اللہ سید حسین بروجردی جیسے جید اساتذہ کے دروس میں شرکت کی۔ سن ۱۳۶۹ ہجری قمری میں وہ حوزہ علمیہ نجف میں داخل ہوئے اور ایک سال بعد، یعنی ۱۳۷۰ ہجری قمری میں، ایران واپس آئے۔ قم میں انہوں نے اعلیٰ سطوح کی تدریس کا آغاز کیا اور بعد ازاں فقہ و اصول کے دروسِ خارج بھی پڑھانے لگے۔
اس وقت ان کے درسِ خارج کو حوزہ علمیہ قم کے سب سے زیادہ پررونق اور پُرہجوم دروس میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں ۲۰۰۰ سے زائد طلاب باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔ وہ تقریباً چالیس سال سے فقہ و اصول کی اعلیٰ سطح (درس خارج) کی تدریس کر رہے ہیں۔ اس عرصے میں انہوں نے بے شمار قابل شاگردوں کی تربیت کی، جن میں سے کئی آج کلیدی ملکی مناصب پر فائز ہیں یا حوزہ ہائے علمیہ میں علمی و تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تحقیقاتی سرگرمیاں
وہ اپنی جوانی کے ابتدائی سالوں سے ہی دینی کتب کی تصنیف و تالیف میں مشغول رہے ہیں، یہاں تک کہ ان کی زندگی کے اخراجات اسی ذریعے سے پورے ہوتے ہیں اور وہ اپنی معیشت کے لیے وجوہاتِ شرعیہ سے استفادہ نہیں کرتے۔ سنہ ۱۳۳۶ شمسی میں، انہوں نے دیگر چند افراد کے ساتھ مل کر ماہنامہ مکتب اسلام کا آغاز کیا، جو آیت اللہ سید محمد کاظم شریعتمداری کی نگرانی میں اور دارالتبلیغ اسلامی کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا۔ یه حوزہ علمیہ کے قدیم ترین نشریات میں شمار ہوتا ہے، یہ نشریہ تقریباً 40 سال سے مسلسل شائع ہو رہا ہے اور اس میں حوزہ علمیہ کے علما و فضلا کے مختلف علمی و تحقیقی مضامین شائع کیے جاتےہیں۔
آیت الله مکارم اس رساله کے حوالے سے لکھتے ہیں: یہ جریدہ اس وقت شائع ہونا شروع ہوا جب ملک تاریک ترین دورِ ستم شاہی سے گزر رہا تھا۔ اس وقت ملک بھر میں کوئی قابلِ ذکر دینی مجلہ شائع نہیں ہو رہا تھا۔ چنانچہ چند فاضل، عالم اور بیدار افراد اکٹھے ہوئے اور یہ طے پایا کہ ایک دینی مجلہ شائع کیا جائے تاکہ فکری انحرافات اور اخلاقی برائیوں کے خلاف علمی و فکری جدوجہد کی جائے۔ یہ مجلہ تقریباً چالیس سال قبل چند نیکوکار افراد اور تہران کے تاجروں کی مالی مدد سے شائع ہونا شروع ہوا۔ چونکہ مسلمان عوام دینی معارف کے پیاسے تھے، اس لیے یہ مجلہ گویا تپتے ہوئے صحرا میں ٹھنڈے پانی کا ایک گھونٹ اور گھپ اندھیرے میں ایک روشن چراغ ثابت ہوا۔ عوام کی طرف سے اس قدر زبردست پذیرائی ملی کہ جس کا تصور بھی نہیں تھا۔ ابتداء میں اس کی اشاعت دو ہزار نسخوں سے شروع ہوئی، لیکن یہ تعداد مسلسل بڑھتی گئی، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا جب اس کا شمارہ ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر گیا۔ یہ پورے ملک میں، مدارس، جامعات، دفاتر، بازاروں اور مختلف اداروں تک پہنچایا جانے لگا اور ایک زبردست فکری اور ثقافتی تحریک کا ذریعہ بن گیا۔
انہوں نے عقائد، اسلامی معارف، مسئلہ ولایت، تفسیر، فقہ اور اصول کے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی تصنیفات کی تعداد ۲۰۰ سے زائد ہے، جن میں سے بعض ۳۰ سے زیادہ مرتبہ شائع ہو چکی ہیں اور کچھ کتابیں دنیا کی ۱۰ سے زائد زندہ زبانوں میں ترجمہ ہو کر مختلف ممالک میں نشر ہو چکی ہیں۔ ان کا سب سے اہم قرآنی کام تفسیر نمونہ ہے، جو ۲۷ جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کے ساتھ ایک جلد میں تفسیر موضوعی قرآن کریم بھی شامل ہے۔ اس کتاب کی تدوین میں کئی علما و محققین نے حصہ لیا، جن میں محسن قرائتی، محمدرضا آشتیانی، سید محسن شجاعی، محمد جعفر امامی، داود الهامی، عبدالرسول حسنی، سید نورالله طباطبائی، محمود عبداللهی اور محمد محمدی شامل ہیں۔ ان کی فقہی کتب میں انوار الفقاهہ، القواعد الفقیة، انوار الاصول اور تعلیقات مستدل شامل ہیں، نیز انہوں نے پوری عروۃ الوثقی پر مفصل حواشی تحریر کیے ہیں جو کئی مرتبہ شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی رسالہ عملیہ (توضیح المسائل) کئی بار طبع ہو چکی ہے اور عربی، اردو، ترکی آذربائجانی اور انگریزی زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔ مزید برآں، ان کا یہ فقہی مجموعہ، بعض استفتاءات کی کتب کے ساتھ، موبائل فون کے لیے سافٹ ویئر کی شکل میں بھی دستیاب ہے۔
آثار اور تالیفات
- ۱۱۰ سرمشق از سخنان حضرت علی علیهالسلام؛
- ۱۵۰ درس زندگی؛
- ۱۸۰ پرسش و پاسخ؛
- ۵۰ درس اصول عقاید برای جوانان؛
- آفریدگار جهان؛
- آیات ولایت در قرآن؛
- آیین رحمت؛
- آیین ما (اصل الشیعه)؛
- احکام بانوان (جدید)؛
- احکام خانواده در پرتو فقه اسلامی؛
- احکام عزاداری؛
- اخلاق اسلامی در نهجالبلاغه ۲ جلد؛
- اخلاق در قرآن ۳ جلد؛
- ارتباط با ارواح؛
- از تو سؤال میکنند؛
- استفتائات ۳ جلد؛
- اسرار عقبماندگی شرق؛
- اسلام در یک نگاه؛
- اسلام و آزادی بردگان؛
- اسلام و کمکهای مردمی؛
- اعتقاد ما؛
- اعتکاف، عبادتی کامل؛
- انوار هدایت جلد۱؛
- اهداف قیام حسینی؛
- فاجعهٔ تمدن؛
- بازاریابی شبکهای یا کلاهبرداری مرموز؛
- بررسی طُرُق فرار از ربا؛
- برگزیده تفسیر نمونه ۵ جلد؛
- پاسخ به پرسشهای مذهبی؛
- پیام امام امیرالمؤمنین ۱۱ جلد؛
- پیام قرآن ۱۰ جلد؛
- پیدایش مذاهب؛
- تعزیر و گسترۀ آن؛
- تفسیر نمونه ۲۷ جلد؛
- تقیّه، سپری برای مبارزه عمیقتر؛
- جامعۀ سالم در پرتو اخلاق؛
- جلوۀ حق؛
- چند نکتۀ مهم دربارهٔ رؤیت هلال؛
- چهرۀ منافقان در قرآن حدیث غدیر: سند گویای ولایت؛
- حکومت جهانی مهدی؛
- حیلههای شرعی و چارهجوییهای صحیح؛
- خدا را چگونه بشناسیم؛
- خطوط اساسی اقتصاد اسلامی؛
- خمس: پشتوانۀ استقلال بیتالمال؛
- دائرةالمعارف فقه مقارن جلد ۱؛
- در جستجوی خدا؛
- راه غلبه بر نگرانیها و ناامیدیها؛
- ربا و بانکداری اسلامی؛
- رسالۀ احکام بانوان؛
- رسالۀ احکام پزشکی؛
- رسالۀ احکام (پسران)؛
- رسالۀ احکام (دختران)
- رسالۀ احکام نوجوانان؛
- رسالۀ توضیح المسائل؛
- رمی جمرات در گذشته و حال؛
- رهبران بزرگ و مسئولیتهای بزرگتر؛
- زندگی در پرتو اخلاق؛
- زهرا برترین بانوی جهان؛
- سوگندهای پربار قرآن؛
- سیگار پدیدۀ مرگبار عصر ما؛
- شأن نزول آیات قرآن؛
- شیعه پاسخ میگوید؛
- شیوۀ همسری در خانوادۀ نمونه؛
- عاشورا: ریشهها، انگیزهها، رویدادها، پیامدها؛
- عقیدۀ یک مسلمان؛
- فضیلت سورههای قرآن؛
- فیلسوفنماها؛
- قرآن کریم؛
- قرآن و آخرین پیامبر؛
- قهرمان توحید؛
- گفتار معصومین ۲ جلد؛
- مثالهای زیبای قرآن ۲ جلد؛
- مدیریت و فرماندهی در اسلام؛
- مشروعیت سقیفه؛
- مشکات هدایت؛
- مشکلات جنسی جوانان؛
- معاد و جهان پس از مرگ؛
- معراج، شقّ القمر، عبادت در قطبین؛
- معمای هستی؛
- مفاتیح نوین؛
- مناسک جامع حج؛
- مناسک حج؛
- مناسک عمره مفرده؛
- مناظرات تاریخی امام رضا؛
- وهابیت بر سر دوراهی؛
- بحثی دربارهٔ ماتریالیسم و کمونیسم؛
- از تبعید تا پیروزی:(زندگینامه، مقالات و مصاحبههای ناصر مکارم شیرازی).
سیاسی جدو جهد
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے انقلابِ اسلامی سے پہلے اور بعد میں ہمیشہ اسلامی انقلاب کے قیام اور اس کی حفاظت کے لیے سیاسی جدوجہد کی۔ انقلابِ اسلامی ایران سے قبل، انہیں محمد رضا پہلوی کی حکومت کے کارندوں نے کئی بار گرفتار کیا اور قید میں ڈال دیا۔ نیز، انہیں تین شہروں—چاہ بہار، مہاباد اور انارک—میں جلا وطن کیا گیا۔ انارک میں، چونکہ یہ شہر اصفہان کے قریب تھا، اس لیے انہوں نے وہاں وسیع سیاسی سرگرمیاں انجام دیں اور مختلف انقلابیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ اس دوران، ساواک (شاہی حکومت کی خفیہ ایجنسی) نے کئی مرتبہ اس گھر پر حملہ کیا جہاں وہ مقیم تھے، جو موسی ملکی انارکی کی رہائش گاہ تھی۔ آیت اللہ مکارم شیرازی، "جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم" کے بانیوں میں شامل ہیں اور ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شاہی حکومت کے خلاف سیاسی سرگرمیوں میں شریک رہے ہیں۔ ان کی دستخطیں متعدد بیانیوں اور اعلامیوں میں موجود ہیں۔ وہ امام خمینی (رح) کے خصوصی اجتماعات میں بھی شریک ہوتے تھے اور انقلاب کے دوران اور اس کے بعد امام خمینی کی حمایت کرتے رہے۔ آیت اللہ مکارم شیرازی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی تدوین میں اہم کردار ادا کیا اور ہمیشہ عوام کو ولی فقیہ کی اطاعت اور نظام کی اسلامیت اور جمہوریت کو برقرار رکھنے کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ انقلاب کے بعد، وہ مجلسِ خبرگانِ اوّل کے رکن کے طور پر ایران کے آئین کی تدوین میں مؤثر کردار ادا کرنے والوں میں شامل تھے۔
عقدتی اور فکری انحرافات سے مقابله
انہوں نے شاہی حکومت کے دوران نوجوانوں کی ذہنی حالت کو سمجھا اور دشمنوں کی کوششوں کو پہچانا جو طلباء اور دانشجویان میں ملا جلا عقیدہ (تکفیری سوچ) اور مارکسیزم، کمیونزم کو فروغ دینے کی کوششیں کر رہے تھے۔ اس ضمن میں، ان کی اہم کاوشوں میں سے ایک کتاب "فیلسوف نماہ" تھی، جس میں مغربی فلسفوں اور مادی فلسفیوں کے دعووں کی تنقید کی گئی۔ یہ کتاب تقریباً 30 مرتبہ چھپ چکی ہے اور آج بھی اپنی جامعیت اور تازگی کے لحاظ سے باقی کتابوں میں اہمیت رکھتی ہے۔ ان کی دوسری اہم کتاب "جلوہ حق" ہے، جو صوفیوں اور درویشوں کے نظریات کا رد کرتی ہے۔ یہ کتاب بھی آیت اللہ بروجردی کی حمایت اور توجہ کا مرکز رہی۔ آیت اللہ مکارم شیرازی نے جوانوں کی فکری اصلاح کے لیے اعتقادی نشستوں اور علمی مجالس کا انعقاد کیا اور انہیں قرآن و اہل بیت کے راستے پر چلنے کی ترغیب دی۔ ان دنوں، انہوں نے "مکتب اسلام" مجلے کے اداریہ میں شاہی حکومت کی حقیقت بے نقاب کرنے کی کوشش کی، جس کے باعث اس مجلے کی اشاعت کو روک دیا گیا۔[2]
آیت الله مکارم شیرازی کا حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری سید حسن نصرالله کی شہادت پر تعزیتی پیغام
بسم الله الرحمن الرحیم.
مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجالٌ صَدَقُوا ما عاهَدُوا اللّهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضى نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَ ما بَدَّلُوا تَبْدِیلاً
عالم مجاہد ، عبد صالح خدا اور حزب اللہ کے مرحوم سکریٹری جنرل جناب حجت الاسلام والمسلمین سید حسن نصر اللہ (رضوان الله تعالی علیه) کی شہادت کی خبر نے تمام مسلمانوں اورپوری دنیا مین آزادی کے متلاشی عوام کے دلوں کو ماتم و عزا سے بھر دیا ۔ راہ خدا میں مجاہدین کی شہادت نہ شکست ہے نہ ذلت۔ بلکہ یہ ان کے دل کی تمنا اور سب سے زیادہ اجر اور الٰہی نعمت ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح اور کفر و باطل کے محاذ پر آپ کی مزاحمت مثالی اور قابل تعریف ہے اور وہ اس کی مخلصانہ بہادری کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ اور مزاحمت کا جھنڈا ہمیشہ سربلند رہے گا اور دشمن کی خواہش پوری نہیں هوگی ۔کیونکہ اس راه کے بہت سے جنگجو اور مخلص لوگ موجود ہیں جو سید الشہداء علیہ السلام کی مخلصانہ خواہش اور پختہ عزم کے ساتھ اپنے عظیم شہداء کے راستے پر چلیں گے اور خدا کی مدد سے خونخوار صیہونی ذلیل و رسوا ہوں گے۔ ان شاء الله. میں سید مقاومت کی شہادت پر حضرت ولی عصر (ارواحنا فداه)، حزب اللہ کے مزاحمتی جنگجوؤں، غیور لوگوں، لبنان کے قابل فخر علماء اور عام آزادی پسند مسلمانوں بالخصوص ان کےمعزز خاندان کو ان کی شہادت پر تبریک اور تعزیت پیش کرتا ہو۔ اور میں خدا سے ان کے درجات کی بلندی، پسماندگان کے صبر اور اجر، مزاحمت کے محاذ کی جلد فتح اور جنایتکار صہیونیوں کی تباہی اور اسلام کے دشمنوں اور استکبار عالم کی شکست و رسوائی کی دعا کرتا ہوں.[3]
حوالہ جات
- ↑ میرزا باقر علیان نژاد، از تبعید تا پیروزی(شرح حال آیت الله مکارم شیرازی)
- ↑ آیت الله العظمی ناصر مکارم شیرازی -jameehmodarresin.org (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: تاریخ اخذ شده:23/فروری/ 2025ء
- ↑ آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی مدظلہ العالی کا حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری کی شہادت پر تعزیتی پیغام www.makarem.ir تاریخ درج شده: 28/ستمبر/2024 ء تاریخ اخذ شده:23/فروری/2025ء