حجۃ الوداع

حجۃ الوداع اسلام پورے جزیرۂ العرب میں پھیل چکا تھا۔ لوگ یکے بعد دیگرے تقریباً سبھی قبائل مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالٰی کی طرف سے سورۂ فتح نازل ہوئی۔ جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اشارہ کے طور پر آگاہ کیا گیا تھا کہ آپ کا کام اب مکمل ہو گیا ہے چنانچہ آپ نے وصال سے پہلے تعلیمات اسلامیہ کو سارے عرب تک پہنچانے کے لیے حج کا ارادہ فرمایا مدینہ میں اعلان فرما دیا گیا کہ اس مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود حج کی قیادت فرمائیں گے۔ اس لیے تمام عرب سے مسلمان اُس میں شریک ہوں۔ اطراف عرب سے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اس شرف کو حاصل کرنے کی خاطر مدینہ پہنچی۔ ذوالحلیفہ کے مقام پر احرام باندھا گیا تو لبیک اللہم لبیک کی آواز سے فضا گونج اٹھی اور فرزندانِ توحید کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر حج بیت اللہ کی غرض سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوا۔
اعمال
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر مرحلہ کے مناسک سے مسلمانوں کو آگاہ کیا حج کی رسومات میں سے جو مشرکانہ رسوم باقی تھیں ختم کر دی گئیں ہیں اور صدیوں کے بعد خالص ابراہیمی سنت کے مطابق فریضہ حج ادا کیا گیا۔ آپ نے مقام سرف میں قیام فرمایا۔ مقام ابراہیم میں دو رکعت نماز پڑھی اور اس کے بعد تعلیمات اسلامیہ کو لوگوں کے سامنے پیش فرمایا۔ توحید و قدرت الٰہی کا اعلان آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر فرمایا:
"خدا کے سوا کوئی اقتدار اعلٰی کا حامل اور لائق پرستش و بندگی نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کے لیے سلطنت ملک اور حمد ہے وہ مارتا ہے اور جلاتا ہے۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے۔ کوئی خدا نہیں مگر وہ اکیلا۔ خدا نے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے تمام قبائل کو شکست دی۔"
کوہ صفا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ مروہ پر مناسک حج طواف و سعی ادا کیے اور 8 ذوالحجہ کو مقام منٰی میں قیام فرمایا۔
خطبہ حجۂ الودع
تفصیلی مضمون کے لیے خطبہ حجۃ الوداع ملاحظہ کریں۔
خطبہ حجۃ الودع کی اہمیت
- یہ خطبہ تمام دینی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اس کا نقطہ آغاز اللہ اور اس کے بندے کے درمیان صحیح تعلق کی وضاحت کرتا ہے اور بھلائی کی تلقین کرتا ہے۔
- خطبۂ حجۃ الوداع اسلام کے معاشرتی نظام کی بنیادیں مہیا کرتا ہے۔ معاشرتی مساوات، نسلی تفاخر کا خاتمہ، عورتوں کے حقوق، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت کا احترام، یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر اسلام کا معاشرتی نظام ترتیب پاتا ہے۔
- اس خطبہ نے معاشی عدم توازن کا راستہ بند کرنے کے لیے سود کو حرام قرار دیا کیونکہ سود سرمایہ دار طبقہ کو محفوظ طریقہ سے دولت جمع کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے اور ان کی تمام افائش دولت سودی سرمائے کے حصول ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
- خطبۂ حجۂ الوداع نے بہت سے اہم قانونی اصول متعین کیے ہیں۔ مثلاً انفرادی ذمہ داری کا اصول وراثت کے بارے میں ہدایت۔
- سیاسی طور پر خطبہ اسلام کے منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا بھر کو اس خطبہ کے ذریعہ بتایا گیا کہ اسلامی حکومت کن اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پائے گی۔ اور ان اصولوں پر تعمیر ہونے والا یہ نظام انسانیت کے لیے رحمت ثابت ہوگا۔ اسی بنا پر ڈاکٹر حمید اللہ اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اسے انسانیت کا منشور اعظم قرار دیا ہے
- یہ ہمارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آخری پیغام ہے اور اس میں ہم ہی مخاطب بنائے گئے ہیں۔ اس کی نوعیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت کی سی ہے۔ اس کے ایک ایک بول پر حضور نے درد بھرے انداز سے آواز بلند کی ہے۔ کہ میں نے بات پہنچا دی ہے لہٰذا لازم ہے کہ اسے پڑھ کر ہماری روحیں چونک جائیں۔
ہمارے جذبے جاگ اٹھیں۔ ہمارے دل دھڑکنے لگیں۔ اور اہم اپنی اب تک کی روش پر نادم ہو کر اور کافرانہ نظاموں کی مرعوبیت کو قلاوہ گردنوں سے نکال کر محسن انسانیت کا دامن تھام لیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک دعوت انقلاب ہے۔
خطبۂ حجۃ الوداع ایک عالمی منشور
خطبۂ حجۃ الوداع دنیا بھر کے خطبوں میں الگ شان رکھتا ہے۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ایک خطبے میں اسلام کا پورا منشور بیان فرما دیا ہے۔ یہ خطبہ عرفات کے میدان میں اس وقت دیا گیا جب ایک لاکھ سے زائد جانثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبروموجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " اے لوگو! میں جو کچھ کہوں اسے غور سے سنو، شاید آئندہ سال اور اس کے بعد پھر کبھی یہاں تم سے ملاقات نہ ہو سکے۔"
پھر آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے درج ذیل آٹھ عنوانات پربات فرمائی:
- حقیقی روشن خیالی
- انسانی جان کی حرمت
- ادائے امانت
- سود کی حرمت
- قتل و قتال کی ممانعت
- عملِ صالح
- حقوقِ زوجین کا تحفظ
- گمراہی سے حفاظت
دورِ حاضر میں روشن خیالی کا بڑا چرچا ہے۔ مسلمانوں کو رجعت پسند اور بنیاد پرست ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے، لیکن ہمارے نبی نے جس روشن خیالی کا درس آج سے چودہ سو برس قبل دیا تھا، اس کے مطابق دورِ حاضر کی روشن خیالی، جہالت کا دوسرا نام ہے، مثلاً آج کی روشن خیالی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کی عمر تقریباً سوا دو سو سال ہے۔ اس کی ابتدا انقلابِ فرانس سے ہوئی جب یورپ نے اپنی تمام فرسودہ باتوں سے جان چھڑا لی اور اپنی روایات، اپنی تہذیب حتیٰ کہ اپنے مذہب تک سے پیچھا چھڑا لیا، انسانی خواہشات کو اپنا حکمران بنا لیا اور درج ذیل کام کیے:
- مذہب ہر انسان کاذاتی معاملہ ٹھہرا۔
- قتلِ عام کو دہشت پسندی کے خلاف جنگ کا نام دے کر امن کے بخیے اُدھیڑ دئیے گئے۔
- گھر کی ملکہ عورت کو پاکیزگی کی دہلیز سے کھینچ کر کلبوں کے میدان میں کھڑا کر دیا گیا اور اسے حقوقِ نسواں کا حسین عنوان دیا گیا، نیز اسے پیسہ کمانے کی مشین بنا دیا۔
- عریانی و فحاشی کا نام کلچر رکھ دیا گیا۔
- سود کو منافع اور پرافٹ کا نام دے کربینکوں کا کاروبار بڑھایا گیا، نیز سرمایہ دارانہ نظام کو ورلڈ آرڈر کا نام دے کر دنیا پر ٹھونسنے کی کوشش کی گئی۔
- انسانی اخلاق کی قدر وقیمت گرا دی گئی اور ہر مسئلے کا حل روپیہ کمانا ٹھہرا۔
- خیانت اور دھوکے بازی کو سیاست کی پیکنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔
یہ تھا مغرب کی روشن خیالی کا تصور، جبکہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے ان تمام اقدار کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے فرمایا تھا: "میں نے جاہلیت کی تمام روایات اپنے قدموں تلے روند دی ہیں۔" اس ایک جملے میں آپ نے شرک، زنا، جوا، سود، بے حیائی، قتل، حق تلفی، تمام جاہلی معاملات کو یکسر ختم فرما دیا۔ مسلمانوں کے ہاں روشن خیالی‘ ربِ ذوالجلال کے حکم کے سامنے اپنی خواہشات کو دبادینے کا نام ہے، جبکہ اہلِ مغرب کے نزدیک معاشرے میں جنم لینے والے منتشر خیالات روشن خیالی ہیں، چنانچہ وہ ایسی اشیاء کو قانون کا حصہ بنا لیتے ہیں، اگرچہ اخلاقی اعتبار سے کتنی ہی گری ہوئی ہوں، جیسے ہم جنس پرستی کے جواز کا قانون، وغیرہ۔
مذہبی رواداری
دوسری چیز جسے اہلِ مغرب اپنے لیے فخر کی چیز سمجھتے ہیں وہ ہے دہشت گردی کے خلاف قتلِ عام، جبکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں بھی لائحہ عمل تجویز فرمادیا۔ فرمایا: "اے لوگو! تم پر ایک دوسرے کی جان و مال تا قیامت حرام ہیں، جس طرح آج کے دن اور اس مہینہ ذوالحجہ میں ایک دوسرے کی بے حرمتی نہیں کرتے۔" آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوسرے مذاہب کے افراد، خواتین، بچے، بوڑھے حتیٰ کہ زمینوں اور فصلوں تک کے حقوق متعین فرمادئیے اور انہیں بلا ضرورت کاٹنے، اور جلانے سے منع فرما دیا۔ فتح مکہ کے عظیم موقع پر اپنے جانی دشمنوں کو ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘ (آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا) کی خوشخبریوں سے نواز دیا، حتیٰ کہ اپنے دشمن امیہ بن خلف کے بیٹے ربیعہ کو اسی خطبۂ حجۃ الوداع کا مُکبّر بنادیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطبہ بلند آواز سے لوگوں تک انہی ربیعہؓ نے پہنچایا۔
مغربی اور اسلامی حقوق انسان کا بنیادی فرق
جبکہ تصویر کے دوسرے رخ کا جائزہ لیں تو دنیا کے بڑے بڑے انقلابات میں کروڑوں انسان ’’امن‘‘ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ انقلابِ فرانس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے، پہلی جنگ عظیم میں کم از کم ایک کروڑ انسان قتل ہوئے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب میں طرفین کے صرف ایک ہزار اٹھارہ (۱۰۱۸) آدمی موت کی نیند سوئے۔ پھر یہ انقلاب ایسا پُر اثر تھا کہ اس کی گونج آج بھی پوری قوت سے اطرافِ عالم میں سنائی دے رہی ہے۔ تیسری چیز جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی وہ ادائے امانت ہے۔ اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جس کسی کے پاس دوسرے کی امانت جمع ہو اس کے مالک کو لوٹا دی جائے۔"۔
نیز فرمایا: "اے لوگو! میری بات گوشِ ہوش سے سنو! دیکھو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور اس رشتہ کی وجہ سے کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان بھائی کی کسی شے پر اس کی اجازت کے بغیر تصرف روا نہیں ہے، ورنہ یہ ایک دوسرے پر ظلم ہو جائے گا۔"
سودی نظام کا خاتمہ
چوتھی چیز سود ہے جس کے خاتمے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے بارے میں یہ حکم فرمایا: "آج سے ہر قسم کا سود ختم کیا جاتا ہے راس المال کے سوا۔ نہ تم ایک دوسرے پر ظلم کرو، نہ قیامت کے دن تمہارے ساتھ ظلم کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے ہی سود کو ممنوع فرما دیا ہے۔(میرے چچاحضرت) عباسؓ کا جو سود دوسروں کے ذمہ واجب الادا ہے، اسے موقوف کیا جاتا ہے۔"
انگریزی کے مشہور مقولے’’ Charity begins at the home ‘‘ کے تحت سود کے خاتمے کی ابتدا اپنے گھر سے کی اور پھر اسلام میں سود کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ پانچویں چیز جس کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا، وہ قتل و قتال کی حرمت ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر سے اس کی ابتدا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جاہلیت کے مقتولین کا قصاص و دیت دونوں کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے میں ہی بنو ہاشم کے (ایک بچے) ابن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا بدلہ اور دیت معاف کرتا ہوں۔‘‘ نیز یہ بھی فرمایا:
عمل صالح فضیلت کا معیار
"اے لوگو! تم پر ایک دوسرے کی جان اور اسی طرح مال ہر ایک قیامت تک حرام ہے، جیسا کہ آج کے دن اور اس مہینہ میں تم کسی قسم کی بے حرمتی نہیں کر سکتے۔" چھٹی چیز جس کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں فرمایا، اخلاقِ حسنہ، تقویٰ اور اعمالِ صالح ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع دیتے ہوئے اس بات کی طرف نشاندہی فرمائی کہ: ’’غور سے سنیے! اب عرب میں شیطان کی پرستش نہ کی جائے گی، لیکن اس کی پرستاری کی بجائے اگر شیطان کی صرف اطاعت ہی کی گئی تب بھی وہ بہت خوش ہوگا، اس لیے دینی امور میں شیطانی وساوس کو اپنے قریب نہ آنے دو۔"
نیز فرمایا: "اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ بھی ایک ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت نہیں ہے، کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت نہیں ہے، ہاں! البتہ تقویٰ کی بنیاد پر (ان کو ایک دوسرے پر فضیلت ہوسکتی ہے)۔" اسلام کے اسی سنہری اصول کی وجہ سے حبشی بلالؓ کو سیدنا بلالؓ کہہ کر پکارا گیا اور عطاء بن ابی رباحؒ جیسے سادہ شکل والے کے سامنے امیرالمومنین سلیمان بن عبدالملک بھی زانوئے تلمذ تہہ کرنا فخر سمجھتے تھے۔
ایک عجمی النسل محمد بن اسماعیل بخاریؒ کو امیر المومنین فی الحدیث کہا گیا اور ایک فارسی النسل امام غزالیؒ کے فلسفے کی دھوم چہار دانگ عالم میں ہے اور ایک غیر عرب نعمان بن ثابتؒ امام اعظم کہلاتا ہے، جبکہ ایک عربی النسل ہاشمی خانوادے کے فرزند ابولہب، اپنے زمانے کے ابوالحکم، عمرو بن ہشام (ابو جہل)کو انہی کی کیٹگری کے لوگ بھی اچھے الفاظ میں یاد کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ ساتویں چیز جس کا ذکر اپنے خطبہ میں فرمایا، وہ خاندانی نظام کا تحفظ ہے۔
اسلام اور مغرب میں حقوق نسواں کا تصور
مغرب اپنے حقوقِ نسواں کے نعرے پر بہت زور دیتا ہے۔ مغرب کا دعویٰ ہے کہ ہم نے عورت کو وہ حقوق دئیے ہیں جو اس سے پہلے کسی نے بھی اسے عطا نہیں کیے، لیکن غور کیا جائے تو مغرب نے عورت کو بجائے حقوق دینے کے اسے انہی خطوط پر چلانے کی سعی کی ہے جنہیں اسلام نے چودہ سو سال قبل جہالت کہہ کر پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔ ذرا غور فرمائیں! مغرب‘ عورت کو گھر کی دہلیز سے کھینچ کر سرِ بازار لے آیا ہے، مغربی مفکرین نے عورت کو مرد کے ہم پلہ قرار دیا، نتیجۃً مغرب نے عورت سے اس پر دوگنا بوجھ لاد دیا ہے۔
ایک تو وہ بوجھ ہے جو اس پر فطرتاً مسلط ہے، یعنی گھریلو امور کی نگرانی، بچے جننا، اور ان کی پرورش کرنا، وغیرہ، یہ کام مرد نہیں کر سکتا اور دوسرا بوجھ کمائی کرنا، نوکریاں کرنا، ڈیوٹیاں سرانجام دینا، وغیرہ، جبکہ اسلام نے دونوں فریقوں کے حقوق متعین کردئیے۔ اسلام نے مرد و عورت کو گاڑی کے دو پہیے قرار دیا، جس کی وجہ سے زندگی کی گاڑی کا چلنا نہایت آسان ہوگیا، جبکہ مغرب نے برابر کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ کر دونوں پہیے گاڑی کی ایک ہی سمت میں لگادئیے، چنانچہ ان کا گھریلو نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا، جس کا اقرار اب خود مغربی مفکرین بھی کر رہے ہیں۔
عورت‘ جسے یونانیوں نے سانپ، سقراط نے فتنہ، قدیس جرنا نے شیطانی آلہ اور یوحنا نے شر کی بیٹی اور امن وسلامتی کی دشمن لکھا، جب گھر سے باہر نکلی تو اپنی حشر سامانیوں سمیت نکلی، مردوں کے سفلی جذبات کی تسکین ہوئی اور بے حیائی نے جڑ پکڑ لی، جب کہ اسلام نے اسی عورت کے قدموں تلے جنت بتلائی اور ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے حقوق وضع کر کے اس کی باقاعدہ حیثیت متعین کر دی۔ خاندانی نظام کے تحفظ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ ارشاد فرمایا: ’’میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے جواب دہ ہیں، نیزکسی عورت کے لیے غیر مرد کو اپنے قریب کرنے کا حق نہیں، ورنہ شوہر کے تن بدن میں آگ لگ جائے گی۔‘‘
اور یہ کہ ’’عورتوں کو بے حیائی کے ارتکاب سے مطلقاً کنارہ کش رہنا چاہیے، اگر ان سے یہ قصور ہو جائے تو ان کے شوہر انہیں بدنی سزا دے سکتے ہیں، مگر وہ سزا ضربِ شدید کی حد کے قریب نہ پہنچ جائے، (یعنی بدن پر داغ نہیں پڑنا چاہیے)۔ اگر عورتیں ایسا لا اُبالی پن چھوڑدیں تو دستورِ عام کے مطابق ان کے خوردونوش اور ان کے لباس کا پورا لحاظ رکھو اور ان کے معاملہ میں حسنِ سلوک سے ہاتھ نہ کھینچو، وہ تمہارے نکاح میں آجانے سے تمہاری پابند ہو جاتی ہیں اور (ان معنوں میں) اپنے نفس کی مالک نہیں رہتیں، لیکن تم بھی خیال رکھو کہ آخر کلمہ ایجاب و قبول کے ساتھ ہی تو تم نے اللہ کی اس امانت کو اپنی تحویل میں لیا ہے اور انہی کلمات کے ساتھ انہیں خود پر حلال کیا ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ کے آخر میں اپنی اُمت کو گمراہ ہونے سے بچانے کے لیے یہ جملہ ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! غور سے سنو! جو کچھ تم سے کہہ رہا ہوں اس کی وضاحت کے لیے جو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو گے تو کبھی ٹھوکر نہ کھاؤ گے۔ وہ چیز بجائے خود نہایت واضح ہے اور وہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت ہے۔‘‘ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک ایسی چیز ہے جس پر عمل کر کے کوئی بھی فتنوں و شرور سے بچ سکتا ہے اور راہِ جنت کا راہی بن سکتا ہے۔ سب سے آخر میں ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! تو سن رہا ہے کہ میں نے اپنا فرض ادا کردیا۔‘‘ اور ہر طرف سے آوازیں بلند ہوئیں : ’’اللّٰھم اشہد، اللّٰھم اشہد‘‘ (یا اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا فرض ادا فرما دیا)۔ اب ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اس پر کتنے عمل پیرا ہوتے ہیں؟[1]۔
غدیر کی فضاؤں میں اعلانِ ولایت علیؑ کی گونج

بلاشک و شبہ یہ حدیث صحیح ہے بلکہ بعض حفاظ نے اسے متواتر شمار کیا ہے
جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ مولا ہے۔
من کنت مولاہ فعلی مولاہ
آقائے دو جہاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے 10 ہجری کو آخری حج کا ارادہ فرمایا۔ لوگوں میں منادی کرادی گئی تو تمام مسلمان حج کےلیے جمع ہوئے۔ آپؐ نے ہجرت کے بعد اس حج تک کوئی دوسرا حج ادا نہیں فرمایا تھا۔
جب رسول محتشم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مناسک حج ادا کرکے واپس ہوئے تو 18 ذی الحجۃ بروز جمعرات مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مقام غدیر خم پر پہنچے تو وہاں جناب جبرائیل امین اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر نازل ہوئے۔ "يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ" [2]۔
اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپؐ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا
حضرت براء بن عازبؓ کی روایت
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ غدیر خم کے میدان میں پہنچے ہمارے درمیان منادی کرائی گئی الصلوٰۃ جامعہ اور دو درختوں کے پیچھے حضور پرنور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کےلیے پردہ بنایا گیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے نماز ظہر ادا فرمائی۔ نماز کے فوراً بعد خطبہ شروع کیا اورحضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
الست اولی بکم من انفسکم؟ قالو ابلی۔ قال فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ اللھم و ال من والاہ و عاد من عاداہ کہ کیا میں تمہاری جانوں سے بھی زیادہ ان پر حق تصرف نہیں رکھتا ہوں؟ تمام صحابہ کرامؓ نے کہا جی ہاں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ مولا ہے۔ اے اللہ تو اس کے ساتھ محبت کر جو علیؑ سے محبت کرے اور اس کے ساتھ عداوت رکھ جو علیؑ سے عداوت رکھے[3]۔
محدث ابن شاہین بغدادی
محدث ابن شاہین بغدادی متوفی 385 ھ نے اپنی کتاب شرح مذاہب اہل السنۃ صفحہ 103 پر لکھا ہے کہ کم و بیش سو صحابہ کرامؓ جن میں عشرہ مبشرہ بھی ہیں، نے خطبہ غدیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ یہ حدیث ثابت ہے میں (ابن شاہین) اس حدیث میں کوئی جرح نہیں پاتا۔ حضرت علی علیہ السلام کی اس فضیلت میں دوسرا کوئی ایک بھی شریک نہیں ہے۔ مزید برآں حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ غدیر سے فارغ ہوئے تو حضرت عمرؓ نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: اے ابو طالب کے بیٹے آپ کو مبارک ہو کہ آپ میرے اور تمام مسلمانوں کے مولا و آقا بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
"اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا" [4]۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے [5]۔
حوالہ جات
- ↑ خطبۂ حجۃ الوداع .... ایک عالمی منشور- شائع شدہ از: 1 جولائی 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 جون 2025ء
- ↑ سورہ مائدہ، آیۂ 67)
- ↑ علامہ آفتاب حسین جوادی، غدیر کی فضاؤں میں اعلانِ ولایت علیؑ کی گونج-شائع شدہ از: 18 جولائی 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:13 جون 2025ء
- ↑ سورہ مائدہ، آیہ 3
- ↑ تاریخ بغداد جلد 8 ص 290، الامالی للشجری جلد 1 ص 42، 146