یوم النکبہ

یوم النکبہ ہر سال منایا جاتا ہے یہ اسرائیل کے قیام کے بعد 1948ء میں تقریبا 8 لاکھ فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ نکبہ مئی 1948ء میں بھی قتل عام ہوا تھا اور 15 ہزار سے 18 ہزار لوگ شہید ہوئے تھے۔ یوم النکبہ طور پر یہ 15 مئی کو منایا جاتا ہے۔
تعریف
1984ء فلسطینی کا خروج یا فلسطینی ہجرت جسے نكبة یا نكبت بھی کہتے ہیں (عربی: النكبة لفظی معنی آفت، تباہی ، مصیبت) وہ واقعہ ہے جب 700،000 سے زائد فلسطینی عرب - قبل از جنگ فلسطینی عرب آبادی کا تقریباً نصف حصہ - 1948ء کی فلسطینی جنگ کے دوران فرار ہوئے یا اپنے گھروں سے نکالے گئے۔ جنگ کے دوران 400 سے 600 فلسطینی گاؤں کے تخت و تاراج کیے گئے ، جبکہ فلسطینی شہر تقریباً مکمل طور پر ختم کر دئے گئے تھے۔ یہ اصطلاح نکبہ جنگ کی مدت اس کے بعدفلسطینیوں کو متاثر کرنے والے دسمبر 1947 سے جنوری 1949 کے درمیانی واقعات کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔
1948ء کے واقعات کو فلسطینی مقبوضہ علاقوں اور دوسری جگہوں پر 15مئی کو مناتے ہیں، اب اس دن کو نکبه کا دن کہا جاتا ہے-
فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد
پناہ گزینوں کی صحیح تعداد ،جن میں سے بہت سے لوگ پڑوسی ریاستوں کی پناہ گزین خیمہ بستی میں آباد ہوئے، متنازع معاملہ ہے۔ لیکن جو علاقہ بعد میں اسرائیل کہلایا اس کے عرب باشندوں کے تقریباً 80 فیصد لوگ (انتداب فلسطین کی نصف عرب آبادی ) ہجرت کر گئے تھے یا اپنے گھروں سے نکال دئے گئے تھے- 15 مئی 1948ء کے اسرائیلی اعلامیہ سے قبل تقریباً 250،000-300،000 فلسطینی فرار ہوئے یا بیدخل کیے گئے، اس امرکو عرب لیگ کے فلسطین میں داخلے کے لیے ایک سبب کے طور پر نامزد کیا گیا، جس کی وجہ سے 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ ہوئی۔
انخلا کے اسباب
اس انخلا کے اسباب ماضی میں بھی مؤرخوں کے درمیان بنیادی اختلاف کا موضوع رہی ہیں- عوامل ہجرت میں یہودی عسکری پیشقدمی ،عرب بستیوں کی تباہی ، نفسیاتی جنگ اور ڈیر یاسین قتل عام کے بعد صیہونی رضاکار جنگجؤں(ملیشیاء) کا ایک اور قتل عام کے خدشات شامل ہیں، 239–240 جس میں بہت سے لوگ خوف کی وجہ سے نکل گئے تھے، اسرائیلی حکام کے براہ راست خروج کے احکامات؛ امیر طبقات کے رضاکارانہ خود خروجی، فلسطینی رہنماؤں میں انہدام اور عرب انخلائی احکامات ؛ اور عربوں کی یہود کے زیر تسلط نہ رہنے کی خواہش۔
بعد ازاں، پہلی اسرائیلی حکومت نے منظور کیے گئے سلسلہ وارقوانین میں عربوں کو واپسی یا جائداد کا دعوی کرنے سے روک دیا تھا، چنانچہ وہ اور ان کی بہت سی اولاد ابھی تک پناہ گزین کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ بعض مؤرخوں نے فلسطینیؤں کی بیدخلی کو نسلی تخلیص قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر اس الزام کو متنازع کہتے ہیں۔ پناہگزینوں کی حیثیت اور خاص طور پر یہ کہ کیا اسرائیل ان کا اپنے گھروں پر واپس لوٹنے کے حق کے دعوے کو قبول کریگا یا اس بیدخلی کا معاوضہ دے گا، یہ اسرائیلی فلسطینی تنازع میں اہم مسائل ہیں۔
"یوم النکبہ" کی 78 ویں سالگرہ اور صہیونیوں کے سیاہ کارنامے
رواں سال "یوم النکبہ" کے موقع پر صہیونی حکومت کو مقاومت کے حملوں کی وجہ سے مختلف میدانوں میں شکست اور سیاسی و اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ 15 مئی 1948 فلسطین اور عالم اسلام کے لئے یوم سانحہ ہے جس دن مغرب کی حمایت کے تحت منحوس اور جعلی صہیونی حکومت تشکیل دی گئی۔ مسلمان اس دن کو "یوم النکبہ" سے یاد کرتے ہیں۔
اس دن کے بعد 80 فیصد فلسطینی سرزمین پر صہیونیوں نے قبضہ کیا اور قتل عام کے بعد 70 فیصد فلسطینی بے گھر ہوکر مہاجرت پر مجبور ہوئے۔ یوم النکبہ کے بعد ابتدائی سالوں میں کم از کم 15 ہزار فلسطینی شہید اور ساڑھے سات لاکھ فلسطینی اپنے ملک سے بے دخل کئے گئے جوکہ اس زمانے میں فلسطین کی آدھی آبادی کے برابر تھا۔
جعلی صہیونی حکومت قائم ہونے کے بعد 1948 سے 1950 تک 530 سے زائد فلسطینی شہروں اور قصبوں کو تباہ کیا گیا۔ ان شہروں اور قصبوں کو تباہ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ فلسطینیوں کے گھر بار کی طرف لوٹنے کا امکان ختم کیا جائے۔ کئی ملین فلسطینی عرب ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے جبکہ لاکھوں فلسطینیوں نے غیر مسلم ممالک کا رخ کیا۔
گذشتہ 76 سالوں کے دوران صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ کبھی نہیں رکا۔ دیریاسین، کفر قاسم، صابرا اور شتیلا میں فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام صہیونی حکومت کے ان سیاہ کارناموں میں سے ہیں جو عالمی سطح پر مشہور ہیں اور صہیونی حکومت کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں۔
گذشتہ 76 سالوں کے دوران ایک لاکھ پچاس ہزار فلسطینی اسرائیل فورسز کی براہ راست فائرنگ سے شہید ہوگئے ہیں۔ حالیہ جنگ غزہ کے دوران اب تک کی اطلاعات کے مطابق 35 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
طوفان الاقصی آپریشن اور صہیونی حکومت تباہی کے دہانے پر
طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت کی سب سے بڑی شکست صہیونیوں کی آبائی ممالک کی طرف واپسی ہے۔ 1948 کے بعد صہیونی حکومت نے دنیا کے مختلف کونوں سے یہودیوں کو اسرائیل لاکر آباد کیا ہے جس کے لئے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا۔ طوفان الاقصی کے بعد واضح ہوگیا کہ یہودی مقبوضہ علاقوں میں قیام کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ جو پہلے سے مقیم ہیں وہ بھی اسرائیل سے باہر نکلنے کا موقع تلاش کررہے ہیں۔
فلسطینی مقاومت کے حملوں سے پہلے ہی نتن یاہو کی حکومت کو درپیش اقتصادی اور سیاسی مشکلات کی وجہ سے صہیونی مشکلات کا شکار تھے۔ طوفان الاقصی کے بعد مقبوضہ علاقوں سے تقریبا 80 ہزار صہیونی اپنے آبائی ممالک کی طرف واپس چلے گئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق صہیونی حکومت کو شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈھائی لاکھ صہیونی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ سیاحت کا شعبہ بحران سے دوچار ہے۔ 73 فیصد سیاحت ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی میں قابل قدر کمی واقع ہوئی ہے۔
جنگ غزہ کی وجہ سے صہیونی حکومت کو افراط زر، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ، اسٹاک مارکیٹ میں مندی اور کرنسی کی قدر میں گراوٹ جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار فرار کررہے ہیں۔
صہیونی حکومت کی اقتصادی مشکلات کی ایک بڑی وجہ یمنی فوج کے حملے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق بحیرہ احمر پر یمنی فوج کے حملوں کی وجہ سے صہیونی بندرگاہوں پر آنے کے لئے کشتیوں کو 13 ہزار کلومیٹر طویل مسافت طے کرنا پڑتا ہے جس سے اخراجات بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سفری اخراجات میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یمنی فوج کی جانب سے حملے جاری رہنے کی صورت میں صہیونی حکومت کے اقتصادی نقصانات میں مزید اضافہ ہوگا۔
مشکل حالات میں مقاومتی تنظیموں کے حملوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اس وجہ سے صہیونی آبادکار مقبوضہ علاقوں میں مزید قیام کے لئے تیار نہیں ہیں۔
حاصل سخن
گذشتہ سالوں کی نسبت رواں سال "یوم النکبہ" مختلف ماحول میں منایا جارہا ہے۔ صہیونی حکومت مختلف بحرانوں کا شکار ہوکر سقوط کے دہانے پہنچ گئی ہے۔ مبصرین نتن یاہو کی کابینہ اور حکومت سے بالاتر ہوکر اسرائیل کے سقوط کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔
خطے کی مقاومتی تنظیمیں عراق، شام، لبنان، یمن اور فلسطین سے صہیونی حکومت پر حملے کررہی ہیں جس سے صہیونی حکومت شدید مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر صہیونی دہشت گرد حملے کے بعد ایران کی جانب سے "وعدہ صادق" آپریشن نے بخوبی ثابت کردیا ہے کہ صہیونی حکومت انتہائی کمزور اور آخری سانسیں لے رہی ہے۔
طوفان الاقصی میں صہیونی حکومت کی انٹیلی جنس اور سیکورٹی ناکامی آشکار ہونے کے بعد نتن یاہو اور ان کی کابینہ غزہ پر انسانیت سوز جرائم کے باوجود حماس کو ختم کرنے اور صہیونی یرغمالیوں کو رہا کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔ ایران کی طرف سے جوابی حملے اور صہیونی حکومت کی بے بسی نے زوال پذیر اسرائیل کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے[1]۔
اس وقت صہیونی حکومت غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور بے پناہ مظالم کی وجہ سے عالمی سطح پر شدید تنقید کا شکار ہے۔ عالمی عدالت کی جانب سے صہیونی حکومت کو جرائم میں ملوث قرار دینا اور اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ پڑنا دلیل ہے کہ صہیونی حکومت کو "نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن" کی صورتحال درپیش ہے۔
پاکستان، یوم نکبہ کی مناسبت سے فلسطینیوں کی حمایت میں غاصب اسرائیل کے خلاف ریلی

پاکستان کے شہر کراچی میں ملی یکجہتی کونسل اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے یوم نکبہ کے موقع پر کراچی پریس کلب کے باہر فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے 77 ویں سال کی یاد میں غاصب رژیم کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔
مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے شہر کراچی میں ملی یکجہتی کونسل اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے یوم نکبہ کے موقع پر کراچی پریس کلب کے باہر فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے 77ویں کی یاد میں قابض صیہونی رژیم کے خلاف احتجاج کیا۔ نکبہ کا مطلب عربی میں "تباہی" ہے، جس سے مراد 1948 میں ناجائز ریاست "اسرائیل" کے قیام کے دوران ایک اندازے کے مطابق 700,000 فلسطینیوں کی جبری بے دخلی ہے۔
ریلی میں کراچی کے ہزاروں شہریوں نے شرکت کی اور اسرائیل کے ناجائز قبضے کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ پاکستان، یوم نکبہ کی مناسبت سے فلسطینیوں کی حمایت میں غاصب اسرائیل کے خلاف ریلی مظاہرے کی قیادت ملی یکجہتی کونسل کے صدر اسد اللہ بھٹو اور فلسطین فاونڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے کی۔
مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں کے حق واپسی کی حمایت کا اعادہ کیا گیا تھا۔ ریلی کی بعض شرکاء کے ہاتھوں میں علامتی چابیاں تھیں، جو بے گھر فلسطینیوں کے اپنے وطن کے دعوے کی نمائندگی کرتی تھیں۔
ریلی کے مقررین نے غزہ میں جاری مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کو روزانہ نکبہ (تباہی) کا سامنا ہے جبکہ دنیا خاموش ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی حمایت کرنے پر امریکی پالیسیوں پر بھی کڑی تنقید کی اور مسلم رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ تعلقات کو معمول پر لانے کے بجائے "صیہونی رژیم" سے تمام تعلقات منقطع کر لیں۔ مقررین نے بیرونی خطرات بالخصوص ہندوستان کو فیصلہ کن جواب دینے پر ملک کی مسلح افواج کی تعریف کی۔
مقررین نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیلی ڈرون ہندوستانی سرزمین کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بناسکتے ہیں، تو پھر حکومت کو بھی فلسطین کی مکمل سیاسی، اخلاقی، سفارتی حتی فوجی حمایت کرنی چاہئے۔
مقررین نے زور دے کر کہا کہ "غاصب اسرائیل" پاکستان کا نظریاتی دشمن ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان اور قائداعظم کے نظریہ سے واضح انحراف ہے۔
ریلی کے خطباء نے ان نام نہاد پاکستانی شہریوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا جو اسرائیل کا سفر کرتے ہیں یا فلسطین کے بارے میں پاکستان کے موقف کو مجروح کرنے والے بیانات دیتے ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل اور فلسطین فاونڈیشن نے فلسطین کی حمایت میں ملک گیر پروگراموں کے ساتھ 7 مئی سے 16 مئی تک 10 روزہ نکبہ منانے کا اعلان کیا۔
انہوں نے فلسطین میں جاری امریکا اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف 16 مئی کو یوم سیاہ منانے کا بھی اعلان کیا۔ اس احتجاجی مظاہرے میں پاکستان کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے شرکت کی اور اسرائیلی رژیم کے خلاف شدیدچغم و غصے کا اظہار کیا[انہوں نے فلسطین میں جاری امریکا اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف 16 مئی کو یوم سیاہ منانے کا بھی اعلان کیا۔
اس احتجاجی مظاہرے میں پاکستان کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے شرکت کی اور اسرائیلی رژیم کے خلاف شدیدچغم و غصے کا اظہار کیا[2]۔
حوالہ جات
- ↑ "یوم النکبہ" کی 78 ویں سالگرہ اور صہیونیوں کے سیاہ کارنام- 15 مئی 2024ء -اخڈ شدہ بہ تاریخ: 15 مئی 2025ء
- ↑ پاکستان، یوم نکبہ کی مناسبت سے فلسطینیوں کی حمایت میں غاصب اسرائیل کے خلاف ریلی- شائع شدہ از: 16 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 مئی 2025ء