حماس
حماس | |
---|---|
پارٹی کا نام | حماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامی) |
بانی پارٹی | احمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی |
پارٹی رہنما | اسماعیل ہنیہ |
مقاصد و مبانی |
|
حماس یا اسلامی مزاحمتی تحریک(عربی: حرکۃ المقاومۃ الاسلامی ) فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے ، جس کی بنیاد 1987 میں شیخ احمد یاسین نے رکھی۔ شہر غزہ میں حماس کے قیام کی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر ہونی والی ایک ریلی میں چالیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔
تاریخ
حماس کی بنیاد 1987 میں شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور محمد طہ نے اخوان المسلمین کی فلسطینی شاخ کے طور پر پہلیے انتفاضہ کے دوران رکھی تھی۔ اب تک حماس اسرائیلی فوجیوں کے خلاف متعدد فوجی راکٹ حملے کر چکی ہے۔ انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ صرف فوجی کارروائیوں تک محدود نہیں رکھا اور متعدد سماجی پروگراموں کو نافذ کرکے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے لوگوں کی زندگیوں میں اپنی مضبوط موجودگی قائم کی ہے۔ ہسپتالوں، تعلیمی مراکز اور لائبریریوں کی تعمیر فلسطینیوں کے ایک اہم حصے میں ان کی مقبولیت کا باعث بنی ہے [1]۔
حماس کے بارے میں مختلف ممالک کی رائے
امریکہ، اسرائیل اور کینیڈا حماس کو دہشت گرد گروپ سمجھتے ہیں۔ آسٹریلیا اور برطانیہ نے صرف حماس کے عسکری شعبہ عزالدین قسام بریگیڈ کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ ان کی سرگرمیاں اردن میں 1999 سے غیر قانونی قرار دی گئی ہیں۔
اگرچہ 2012 میں حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ خالد مشعل اور اردن کے شاہ عبداللہ کے درمیان قطر کے ولی عہد کی ثالثی سے ملاقات ہوئی تھی لیکن اردنی حکومت نے حماس کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی [2] ۔
دسمبر 2014 میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے فیصلے کے مطابق حماس کا نام جو پہلے اس یونین کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل تھا، اس فہرست سے نکال دیا گیا تھا، تاہم اس پر عائد پابندیاں نہیں ہٹائی گئیں۔ اس عدالت واضح طور پر کہا کہ حماس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنا یورپی معیار کے مطابق نہیں تھا اور سابقہ فیصلے میں عدالت کے موافق شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے تاہم یہ فیصلہ کمزور ذرائع بشمول معلومات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ تاہم، یہ حکم یورپی یونین کے رکن ممالک کو پابند نہیں بناتاہے، اور برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک اس گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نہیں نکال سکتے۔
سیاسی سرگرمیاں
حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے:
پہلا سماجی امور جیسے کہ اسکولوں ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کے لئے مختص ہے اور دوسرا گروہ اسکی عسکری شاخ، شہید عزالدین القسام بریگیڈ ہے جو فلسطین کا دفاع کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حماس کی ایک شاخ اردن میں بھی ہے جہاں اس کے ایک رہنما خالد مشعل کو اسرائیل نے متعدد مرتبہ قتل کرنےکی کوشش کی۔ شاہ حسین نے تو کسی نہ کسی طرح حماس کو برداشت کیے رکھا البتہ ان کے جانشین شاہ عبداللہ دوم ، جس کی والدہ ایک انگریز عورت ہے، نے حماس کا ہیڈ کوارٹر بند کر دیا۔ اس کے بعد تنظیم کے بڑے رہنما قطر جلا وطن کر دیے گئے۔ اس خطے میں امریکی پشت پناہی سے قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں ہونے والے عمل اوسلو معاہدے کی مخالفت میں حماس پیش پیش تھی۔ اس معاہدے میں فلسطین کی جانب سے اسرائیلی ریاست کے تحفظ کی یقین دہانی کے بعد اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں سے جزوی اور مرحلہ وار انخلاء شامل تھا۔
انیس سو پچانوے میں حماس نے اپنے ایک بم بنانے والے کارکن یحییٰ عیاش کے اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد فروری اور مارچ انیس سو چھیانوے کے دوران بسوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا۔یحییٰ عیاش بنیادی طور پر ایک انجینئر اور عز الدین القسام برگیڈ کی کاروائیوں میں جدت لانے والا گوریلا کمانڈر تھا جس کو اسرائیلی مھندس الموت(موت کا انجینئر)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ان خودکش حملوں کے بعد اسرائیل نے امن کے منصوبے پر عمل درآمد روک دیا اور اس کے بعد اسرائیل کےقدامت پسند رہنما بنیامین نیتن یاہو نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ وہ اوسلو معاہدے کے مخالفین میں سے ایک ہیں۔
اپنی پالیسیوں کی وجہ سے حماس نے 2006 کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی۔2006, 2007ء میں حماس اور الفتح کے درمیان اختلافات کافی شدت اختیار کر گئے۔ اور اس طرح فلسطین میں ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مفاہمت کی کئی کوششیں ہوئیں۔ لیکن ان میں ناکامی ہوئی۔ آخر کار صدر محمود عباس نے جن کا تعلق الفتح سے ہے۔ جون 2007ء میں حماس کی جمہوری حکومت کو توڑ کر اپنی خودساختہ کابینہ اور وزیراعظم کا اعلان کر دیا۔ حماس نے غزہ کی جنگ جیت کر غزہ کی پٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
امریکہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک ہے
حماس کے اعلی رہنما اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ نتن یاہو جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتے ہیں، غزہ سے حماس کے رہنماوں کو بے دخل کرنے کی سوچ احمقانہ ہے۔
فلسطینی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا ہے کہ حماس کے اعلی رہنما اسامہ حمدان نے جنگ کے بعد غزہ کا انتظام اسرائیل کو سپرد کرنے کی تجویز کی سخت مخالفت کی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ غزہ کا انتظام فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہوگا۔
حمدان نے کہا کہ کسی بھی قیمت پر دشمن کی شرائط کے آگے نہیں جھکیں گے۔ غزہ سے حماس کے رہنماوں کو نکالنے کی خواہش رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی فورسز جنگ کے بعد ایک یرغمالی کو بھی رہا کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی ہے۔ اس سلسلے میں صہیونی حکومت کی کوششیں نقش برآب ثابت ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی وزیراعظم غزہ میں جنگ بندی کے حق میں نہیں ہیں۔ نتن یاہو جنگ بندی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ القسام کے رہنما کی شہادت کے حوالے سے وائٹ ہاوس کا بیان دلیل ہے کہ امریکہ غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام میں شریک ہے[3]۔
حوالہ جات
- ↑ «Palestinian election raises varying opinions within U. The Minnesota Daily». بایگانیشده از اصلی در ۹ ژوئن ۲۰۰۸. دریافتشده در ۲۰ ژانویه ۲۰۰۹
- ↑ خالد مشعل با پادشاه اردن دیدار کرد بیبیسی فارسی، ۲۹ ژانویه ۲۰۱۲
- ↑ [ https://ur.mehrnews.com/news/1922872/امریکہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک ہے، حماس].mehrnews.com،-شائع شدہ از:27مارچ 2024ء-اخذ شده به تاریخ:28مارچ 2024ء