بیت لحم
بیت لحم، فلسطین کی ایک بستی کا نام ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے۔ یہ بستی فصیل کے اندر سفید پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے، اور یہ گاؤں یروشلم کے قدیم شہر سے 5 میل(8کلومیٹر) جنوب کو واقع ہوچکا ہے۔ اس مکان پر حضرت یسوع مسیح کی روایتی جائے پیدائش کے اوپر صلیب کی شکل کا ایک گرجا بنا ہوا ہے۔ جس کے نیچے ایک تہ خانہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق، حضرت داؤد علیہ السلام کی جائے پیدائش اور مسکن تھا۔ اس بستی کے رہنے والے عام طور پر مسیحی ہیں، جن کی گزراوقات زائرین کی آمد پر ہے۔ یہ گاؤں سلطنت اردن میں شامل تھا۔ جون 1967ء کی جنگ میں اس پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا ہے۔
تعارف
بیت اللحم کا لفظی معنی تو عجیب ساہے یعنی گوشت یا روٹی کا گھر یا وہ علاقہ جہاں کثرت سے پھل اور رزق پایا جاتا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ بیت اللحم کنعانیوں کے خدا ’’لحمو‘‘ یا ’’لاخاما‘‘ کی طرف منسوب ہے۔ یاد رہے کہ آرامی خداؤں میں اس نام کا معبود ’’واؤ کی شد کے ساتھ قوت بمعنی طاقت یا قوت بمعنی روزی کا معبود سمجھا جاتا تھا …وھو الہ القوۃ … او الہ القوت (روزی) وھی کلمۃ آرامیۃ تعنی الخصب والثمار۔ عبرانی بائبل کے مطابق یہ کنعانی شہر اسرائیلی بادشاہ ’’رحبحام‘‘ کی طرف منسوب ہے۔ اس شہر کی تاریخ ، کوئی ساڑھے تیرہ سو سال قبل ولادت مسیح بتائی جاتی ہے۔ان میں سے اکثر کے نزدیک وہ کھجور کا درخت جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ہے [1]۔ اور حضرت مریم علیہا السلام نے اس کی کھجوریں کھائی تھیں وہ اسی شہر میں ہے۔
بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں جب یہ علاقہ تقسیم ہوا تو یہ علاقہ بنی بنیامین (جو یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی بنیامین کی اولاد) کے حصے میں آیا تھا۔ اسی لیے اسی علاقے میں حضرت یوسف اور بنیامین کی والدہ حضرت یعقوب نبی کی زوجہ حضرت راحیل کی قبر موجود ہے۔ ’’بیت اللحم‘‘ کو شہر داؤد بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی ولادت بھی بیت اللحم میں ہوئی تھی۔ شہر کے شمالی جانب حضرت داؤد کی طرف منسوب ایک کنواں بھی ہے اور انہوں نے ایک بہت بڑا محل بھی یہاں بنایا تھا۔ اسی صدی میں اس محل داؤدی کے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں۔ شہر بیت اللحم، یروشلم سے مشرقی جانب صرف چھ سات میل دور ہے، دوسری صدی میں رومی بادشاہ قیصر ہیڈریان نے اسے تباہ کر دیا تھا۔ نبیﷺ کی ولادت سے تین سو سال پہلے ایک اور رومی بادشاہ قنسطنطین Constanstineنے یہودیت چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ اس بادشاہ کی والدہ ہیلن بڑی مذہبی عورت تھی، اس نے 327عیسوی میں اسے دوبارہ آباد کیا اور 330عیسوی میں جائے ولادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر گرجا گھر ’’کنیسۃ المھد‘‘ کے نام سے تعمیر کرا دیا۔ یاد رہے کہ اسی بیگم ہیلن نے یروشلم کا کنیسۃ القیامۃ بھی تعمیر کروایا تھا۔
جغرافیا
یہ فلسطین کے قدیم ترین اور قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے جس کی تاریخ فلسطینی قوم کی تاریخ اور اس کی صداقت سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ شہر قدس پہاڑی سلسلے کے جنوبی جانب اور بیت المقدس شہر سے 10 کلومیٹر جنوب میں سطح سمندر سے تقریباً 780 میٹر کی بلندی کے ساتھ ایک پہاڑ پر واقع ہے۔ بیت اللحم شہر دو شہروں بیت جالا اور بیت سہور کے ساتھ مل کر تین آباد کمپلیکس بناتا ہے اور ہر شہر دوسرے شہر سے تقریباً 2-3 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔بیت جالا بیت المقدس کے شمال مغرب میں واقع ہے اور بیت سہور مشرق میں.
اس شہر کی مساحت 10611ایکڑ یا 4.097مربع میل ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں 30سے زیادہ ہوٹل 300سے زیادہ گھریلو صنعتیں، 70بستیاں، تین مہاجر کیمپ ایک کا نام ’’مخیم عایدہ‘‘ دوسرا ’’مخیم بیت جبرین‘‘ اور تیسرے کا نام ’’مخیم الدھیشہ‘‘ ہے جو 1949اور 1950میں قائم ہوئے تھے۔ یہاں31تعلیمی مدارس کام کر رہے ہیں، اعلیٰ تعلیم کیلئے’’بیت اللحم یونیورسٹی‘‘ بھی ہے جہاں کئی قسم کے علوم و فنون پڑھانے کیلئے مخصوص کالجز ہیں۔ بیت لحم کی غاریں بھی بڑی مشہور ہیں۔ جنوب مشرق میں ایک ’’مغارات الحلیب، ہے۔ مشہور ہے کہ حضرت عیسیٰ کو ان کی والدہ اس غار میں دودھ پلایا کرتی تھیں۔ اسی طرح کئی خانقاہیں مختلف ادوار میں بنائی گئی تھیں۔ ایک خانقاہ عبید وادی قدرون کے سامنے ہے۔ یہ خانقاہ عبید نامی گاؤں کی مناسبت سے عبید کہلاتی ہے جبکہ خانقاہ جنت مکمل طور پر بند ہے اور ’’خانقاہ مارسابا‘‘جو 482 عیسوی میں یونانی دور میں تعمیر کی گئی تھی (خاتم النبین ﷺ کی ولادت شریفہ سے تقریباً کوئی ایک صدی پہلے) اس خانقاہ کی خاص بات یہ ہے کہ شروع دن ہی سے اس خانقاہ میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے، روایت کے مطابق یہ خانقاہ ابھی تک انہی پرانے اصولوں پر قائم ہے۔ یوں بھی مذہبی طور پر عیسائیت میں عورتوں کو سوائے نن بننے کے کبھی کوئی اختیار نہیں دیا گیا اور مظلوم ننوں کے ساتھ جبر وظلم کی بڑی المناک داستانیں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔ اسلام میں عورت کو مسجد جانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ شہر بیت اللحم میں کئی گرجا گھر واقع ہیں جن میں سب سے بڑا کنیسۃ القدیس ہے۔ یہ اس جگہ بنا ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔ اہل اسلام کی دریا دلی اور دیگر مذاہب کے احترام کی دلیل یہ چرچ بھی ہے کہ اب بھی اس چرچ کی نگرانی مسلمان کر رہے ہیں اور عیسائیوں کو اپنے مذہب کے مطابق رسومات ادا کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ یہودیوں نے اپنے دور میں ان پر پابندیاں لگا رکھی تھیں جنہیں مسلمان حکمرانوں نے ختم کر دیا اب یہودی اور عیسائی تو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرنے کیلئے بالکل آزاد ہیں جبکہ یروشلم کے مسلمان مسجد اقصیٰ میں آزادانہ آنے جانے کے روادار نہیں ہیں پھربھی کہتے ہیں اسلام جبر کا دین ہے اور مسلمان جابر لوگ !!![2]۔
مذہبی اور تاریخی مقامات
بیت لحم کا شہر دنیا کے مقدس ترین عیسائی مقامات میں سے ایک ہے، کیونکہ یہ وہ شہر ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی اور عیسائی دنیا کے لیے بیت المقدس شہر کے تقدس کی وجہ سے اس شہر کے وجود میں آنے کی وجہ تھی۔ بہت سے عیسائی مقدس مقامات، جیسے شیر کا غار چرچ، وغیرہ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش کے طور پر، یہ کرسمس کے ساتھ بہت مشہور اور منسلک ہے۔ چرچ آف جیسس کرائسٹ ان تین گرجا گھروں میں سے پہلا تھا جسے شہنشاہ قسطنطین نے چوتھی صدی عیسوی کے شروع میں تعمیر کیا تھا جب عیسائیت سرکاری مذہب بن گئی تھی۔ 326ء میں 2012 میں جیسس کرائسٹ چرچ عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہوا۔ چرچ آف دی نیٹیٹی یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہونے والا پہلا فلسطینی مقام ہے۔ اس شہر میں متعدد مساجد بھی ہیں جن میں سب سے اہم مسجد عمر بن الخطاب ہے جو کہ نیٹیویٹی چرچ کے سامنے واقع ہے۔ یہ تاریخی اور مذہبی مقامات سے بھی مالا مال خطہ ہے۔ اس میں رومن، بازنطینی، اسلامی اور صلیبی کھنڈرات ہیں۔ اس کے علاوہ تین توحیدی مذاہب کے پیروکاروں کے لیے بہت سے مقامات خاص اہمیت کے حامل ہیں، اس لیے اس سرزمین کو مقدس سمجھا جاتا ہے، جیسا کہ ان مقدس مقامات میں سے راحیل کا مقبرہ، داوود بادشاہ کے کنویں، پانی کی نہر، یاسر کا محل، سلیمان کا تالاب وغیرہ۔ یہ دنیا کے اہم ترین سیاحتی شہروں میں سے ایک ہے، جہاں ہر سال اس میں داخل ہونے والے زائرین اور سیاحوں کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ بیت لحم میں 30 زیادہ ہوٹل اور سیاحتی ریزورٹس اور 138 سے زیادہ ریستوراں ہیں۔
بیت لحم پر مسلمانوں کا قبضہ
ہجرت کے سولہویں سال637ء میں خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کے عہد میں اسے بھی یروشلم کے ساتھ فتح کر لیا گیا تھا۔ اس وقت یہاں یہودیوں کا داخلہ بند کیا ہوا تھا لیکن عمر فاروقؓ نے یروشلم کی طرح بیت اللحم میں بھی ہر قسم کی پابندیاں ختم کر دی تھیں۔ اس چرچ میں حضرت عمر نے نماز بھی ادا کی تھی، جس سے غیرمسلم عبادت گاہوں میں چند شرائط کے ساتھ نماز پڑھنے کا جواز ملتا ہے۔ بیت اللحم میں دور عباسی یعنی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں بڑی ترقی ہوئی۔ یہاں کئی مساجد و مدارس قائم کیے گئے، گیارہویں صدی تک یروشلم کی طرح بیت اللحم بھی مسلم ریاست کا حصہ رہا۔ 1099میں صلیبیوں نے قبضہ کر کے یہاں بھی یروشلم کی طرح بڑی خونریزیاں کیں۔ یونانی آرتھو ڈوکس کو ہٹا کر لاطینی پادریوں کا تقرر کیا جنہوں نے جی بھر کر کفرو جہل پھیلایا۔ پھر سلطان صلاح الدین نے اسے فتح کرنے کے بعد یہاں سے صلیبیوں کے اثرات بد کا خاتمہ کر دیا اور اسے ایک پرامن شہر ڈکلیئر کیا جہاں تمام مذاہب کو آزادی حاصل رہی۔ 1250میں ممالیک حکمرانوں (جیسے تاریخ ہند میں خاندان غلاماں کی حکمرانی تھی، یہی صورتحال شام و نواحی علاقوں میں بھی تھی) نے اس شہر کی دیواریں تباہ کر دیں جنہیں 16ویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یورپی ممالک کی سازشوں کی وجہ سے 1917میں یہ علاقہ برطانوی فورسز کے قبضے میں آگیا۔ عثمانیوں کا برائے نام ہی سہی، لیکن کنٹرول سمجھا جاتا تھا جو عالمی جنگ کے اختتام کے بعد ان کے ہاتھوں سے بھی نکل گیا۔ 1948میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اردن کو کنٹرول مل گیا۔ لیکن 1967کی چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل اس پر قابض ہوگیا۔ 1995کے اوسلو معاہدے کے تحت بیت اللحم فلسطینی اتھارٹی کنٹرول میں دے دیا گیا۔
ہاؤسنگ اور تعمیراتی پیشرفت
قدیم زمانے میں بیت المقدس ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو تین طرف سے گہری وادیوں میں گھرا ہوا تھا۔ رومی دور حکومت میں یہ شہر تجارتی مرکز کے طور پر مشہور ہوا کیونکہ یہ بحیرہ احمر اور بلاد شام کے درمیان تجارتی سڑک کے کنارے واقع تھا اور وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے نتیجے میں اس کی شہرت اور اہمیت بڑھ گئی۔ 15 ویں صدی میں، بیت اللحم میناروں اور دیواروں سے گھرا ہوا تھا۔ 19ویں صدی میں، اس میں اسکول، گرجا گھر، خانقاہیں، مساجد اور صنعتی مقامات تھے۔ اس کے باشندوں کی تعداد کا تخمینہ اس صدی کے آخر میں 10 پہلی جنگ عظیم کے دوران جنگ، بیماریوں، بھوک اور ہجرت کی وجہ سے بیت المقدس کے مکینوں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہوئی اور 1922 میں اس کی تعداد کم ہو کر 6658 رہ گئی، لیکن یہ بتدریج اور آہستہ آہستہ بڑھ گئی اور 1931 میں یہ تعداد 6814 تک پہنچ گئی۔ اضلاع کے باشندے، جن کی تعداد اس وقت 506 بتائی گئی تھی۔ 1945 میں بیت المقدس کے رہائشیوں کی تعداد 8820 کے لگ بھگ بتائی گئی۔ برطانوی قیمومیت کے دور میں آبادی کی سست ترقی کے باوجود، اس شہر نے بیرون ملک مقیم بیت المقدس کے شہریوں کی طرف سے فنڈز کی آمد کی وجہ سے شہر کی ترقی اور ترقی کا مشاہدہ کیا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے جدید رہائشی یونٹس، مختلف فیکٹریوں اور کمرشل یونٹس کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی۔ اس کے نتیجے میں شہر میں مکانات کی تعداد 1931 میں 1506 سے بڑھ کر 1945 میں 2000 ہو گئی۔ اس کے علاوہ شہری ترقیات کے نتیجے میں شہر کا رقبہ بھی ترقی پذیر ہوا اور 1945 میں یہ 1964 ایکڑ تک پہنچ گیا۔ 1948 کے بعد کے سالوں میں بیت المقدس کے حالات میں تبدیلی آئی اور فلسطینی پناہ گزینوں کی اس شہر کی طرف ہجرت کے نتیجے میں اس کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ یہ شہر میں مکانات کی تعداد بڑھانے میں شامل تھا۔ 1961 میں اس کے مکینوں کی تعداد 22 یہ شہر آہستہ آہستہ ترقی کرتا گیا اور اس کی آبادی 1966 میں 3500 گھروں میں رہنے والے تقریباً 24 1967 میں اسرائیل کی طرف سے شہر پر قبضے نے سال کے آخر میں اس کے رہائشیوں کی تعداد کم کر کے 16 یہ شہر خاص طور پر اس کا وہ حصہ جو بیت المقدس کی سڑک کے متوازی تھا حبرون تعمیر کے لحاظ سے بتدریج ترقی کرتا گیا [3]۔
بیت لحم جو کرسمس کی آمد پر ویران نظر آ رہا ہے
بیت لحم میں عام طور پر کرسمس کے موقع پر گہماگہمی ہوتی ہے لیکن رواں سال غزہ اسرائیل جنگ نے مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی قصبے سے آنے والے سیاحوں اور زائرین کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ بیت لحم میں ہوٹل، ریستوراں اور کرسمس کے حوالے سے یادگاری اشیا فروخت کرنے والی دکانیں ویران پڑی ہیں۔
بیت المقدس میں کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے اور مغربی کنارے میں پرتشدد کارروائیوں سے یہاں پیدا ہونے والے حالات کی عالمی پیمانے پر پھیل جانے والی خبروں کے باعث یہاں کوئی نہیں آ رہا۔ بیت لحم میں اپنے خاندان کی چار نسلوں سے آباد اور یہاں الیگزینڈر ہوٹل کے مالک جوئی کیناوتی کا کہنا ہے کہ اب تک ہمارے پاس کوئی ایک بھی مہمان نہیں ہے۔ جوئی کیناوتی نے بتایا کہ یہ اب تک کی مایوس کن کرسمس کا موقع ہے، بیت لحم کو مذہبی رسومات کے لیے بند کر دیا گیا ہے، کوئی کرسمس ٹری نہیں، کوئی خوشی نہیں اور کرسمس منانے کا جذبہ نہیں۔ بیت المقدس کے جنوب میں واقع بیت لحم میں قائم چرچ آف دی نیٹیٹی (کلیسا ولادت) کے باعث اس علاقے کی خاص اہمیت ہے، پوری دنیا سے آنے والے عیسائی زائرین یہاں پہنچ کر محسوس کرتے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کی جائے پیدائش پر موجود ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد سے فلسطین میں مغربی کنارے کے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے، جسے فلسطینی مستقبل کی آزاد ریاست کے مرکز کے طور پر چاہتے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل نے پورے علاقے میں یہودی بستیاں تعمیر کر دی ہیں جنہیں زیادہ تر ممالک غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ اسرائیل اس سر زمین کو مذہبی عقیدت اور تاریخی حیثیت کے حوالے سے بیان کرتا ہے اور کئی وزراء اس علاقے میں رہتے ہیں اور بستیوں کی توسیع کے حامی ہیں بیت لحم کا معروف سکوائر جہاں کرسمس کے موقع پر چہل پہل دیکھی جاتی تھی ان دنوں تقریباً خالی نظر آ رہا ہے، یادگاری اشیاء فروخت کرنے والی اکثر دکانیں بند ہیں۔
علاقے کے رہائشی رونی تابش نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ مل کر ایک سٹور پر کرسمس کی مناسبت سے یادگاری اشیاء فروخت کرتے ہیں اور اب صرف وقت گزارنے کے لیے دکان کی شیلف اور سامان صاف کر رہے ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ سورہ مریم/25
- ↑ زیارت بیت المقدس، عبدالاعلیٰ درانیjang.com.pk،-شائع شدہ از:8 اپریل 2018ء-اخذ شده به تاریخ:23مارچ 2024ء
- ↑ حنا عبدالله جقمان، جولة في تاریخ بیت لحم من أقدم الأزمنة حتی الیوم، مطبعة بطریرکیة الووم الأرثوذکس - قدس - فلسطین، 1983ء،ص56۔
انہوں نے بتایا کہ تقریباً دو ماہ سے یہاں آنے والے زائرین یا سیاحوں کا انتظار کر رہے ہیں اور ناامیدی ختم کرنے کے لیے اپنا سٹور کھلا رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری دعا ہے کہ تمام حالات معمول کی زندگی کی طرح واپس آ جائیں[1]۔
- ↑ بیت لحم جو کرسمس کی آمد پر ویران نظر آ رہا ہے.urdunews.com،-شائع شدہ از:11 دسمبر 2023ء-اخذ شده به تاریخ:23مارچ 2024ء