سمیع الحق مولانا سمیع الحق ایک پاکستانی مذہبی اسکالر، عالم اور سیاست دان تھے۔ وہ اس وقت دار العلوم حقانیہ کے مہتمم اور سربراہ تھے۔ دار العلوم حقانیہ ایک دینی درس گاہ ہے جو دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ مولانا دفاع پاکستان کونسل کے چئیرمین تھے اور جمیعت علما اسلام کے سمیع الحق گروپ کے امیر تھے۔ صحافت میں بھی ان کے گران قدرخدمات ہیں پشتون سرزمین سے شائع ہونے والا ماہنامہ "الحق" اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سمیع الحق متحدہ مجلس عمل کے بانی رکن اور حرکت المجاہدین کے بانی بھی تھے جو ایک مذہبی تنظیم ہے۔وہ پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن بھی رہے اور متحدہ دینی محاذ کے بھی بانی تھے جو پاکستان کے چھوٹے مذہبی جماعتوں کا اتحاد ہے جو انھوں نے سال 2013 کے انتخابات میں شرکت کرنے کے لیے بنائی تھی۔

سمیع الحق
مولوی سمیع الحق.jpg
دوسرے نامفادر آف طالبان
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہخیبر پختونخوا ضلع نوشہرہ پاکستان
یوم وفات2 نومبر
وفات کی جگہراولپنڈی
مذہباسلام، سنی
مناصبجمعیت علمائے اسلام کا سربراہ

سوانح عمری

جمعیت علمائے اسلام(سمیع الحق) کے سربراہ مولانا سمیع الحق 1937 میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے اور دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی جس کی بنیاد ان کے والد مولانا عبدالحق نے رکھی تھی۔

تعلیم

ان کے والد محترم شیخ الحدیث مولانا عبد الحق کا شمار برصغیر کے جید علمائے دین میں ہوتا تھا اور دنیا بھر میں مقیم ہزاروں علمائے کرام نے ان سے تعلیم حاصل کی تھی جبکہ جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر جید عالم بھی جامعہ حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں، ان کا مدرسہ حقانیہ دارالعلوم دیوبند کے بعد دیوبندی مکتب فکر کا سب سے اہم مدرسہ گردانہ جاتا ہے۔

مولانا سمیع الحق نے 1946 میں دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں تعلیم شروع کی جس کی بنیاد ان کے والد محترم نے رکھی تھی۔ وہاں انہوں نے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا،ان کو عربی زبان پر عبور حاصل تھا لیکن ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی زبان اردو اور علاقائی زبان پشتو پر بھی عبور حاصل تھا۔مولانا سمیع الحق کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (س)حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی تھی اور کے پی کے حکومت نے ان کے مدرسے میں جدید نصاب کے لیےبھاری فنڈنگ بھی کی تھی جس پر مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر مخالف سیاسی جماعتوں نے شدید تنقید بھی کی تھی ۔

دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی، اردو، عربی، پشتو سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے مدرسہ حقانیہ سے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، عربی گرامر، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا۔ انہیں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور پشتو سمیت دیگر علاقائی زبانوں پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔

سند فضیلت و فراغت اور سند دورہ تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث بھی تھے اور علما میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ 1988ء میں مولانا عبدالحق کی وفات کے بعد مولانا سمیع الحق دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم بن گئے تھے، یہ بھی مانا جاتا ہے کہ طالبان کے متعدد سرکردہ رہنماؤں نے ان کے مدرسے سے تعلیم حاصل کی، جس کی وجہ سے انہیں ’فادر آف طالبان‘ بھی کہا جاتا تھا۔

سیاسی سرگرمیاں

سیاست میں قدم رکھنے کے بعد مولانا سمیع الحق جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کا اہم حصہ تھے اور اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے سے قبل 1970، 1977 اور 1985 کے انتخابات کی کامیابی سے مہم چلائی اور رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ لیکن سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں جمعیت علمائے اسلام میں اختلافات پیدا ہوئے، ان کے نتیجے میں مولانا سمیع الحق نے اپنی سابقہ جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام(سمیع الحق گروپ) کی بنیاد رکھی۔

آپ 1974 کی تحریک ختم نبوت اور 1977 کی تحریک نظام مصطفیٰ کا بھی اہم حصہ تھے۔ وہ 83-1985 تک جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی امور کی صدارتی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ آپ 1985 میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور سینیٹ میں تاریخی شریعت بل پیش کیا۔ 1991 میں وہ ایک مرتبہ پھر اگلے 6سال کے لیے سینیٹر منتخب ہوئے اور کئی اہم کمیٹیوں کے رکن کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔

مولانا سمیع الحق کا سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں بھی اہم کردار رہا اور وہ طالبان کے تمام دھڑوں میں یکساں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کے مدرسہ حقانیہ سے افغان طالبان کے امیر ملا عمر نے بھی تعلیم حاصل کی جبکہ ان کے ملا عمر سے انتہائی قریبی مراسم تھے۔ آپ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے بانی اراکین میں شامل تھے جبکہ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔

مولانا سمیع الحق نے پولیو کے خلاف حکومتی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جب 2013 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پولیو کے حفاظتی قطروں کی مہم کو غیراسلامی قرار دیا تھا, تو اس وقت مولانا سمیع الحق نے اس مہم کے حق میں فتویٰ جاری کیا تھا۔ دسمبر 2013 میں سمیع الحق کی جانب سے دیئے گئے فتوے میں کہا گیا تھا کہ مہلک بیماریوں کے خلاف حفاظتی قطرے پولیو کے خلاف بچاؤ میں مددگار ہوتے ہیں اور طبی ماہرین کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان بیماریوں سے بچاؤکے قطرے کسی بھی طرح سے مضر نہیں ہیں۔

طالبان پر اثرورسوخ کے سبب افغانستان کی جانب سے مولانا سمیع الحق سے مستقل مطالبہ کیا جاتا تھا کہ وہ افغانستان میں امن اور سیاسی حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ وزیر اعظم عمران خان کا بھی مولانا سمیع الحق سے قریبی تعلق رہا جس کی وجہ سےموجودہ وزیر اعظم کو کئی مرتبہ ’طالبان خان‘ کا لقب دیا گیا۔ رواں سال سینیٹ الیکشن میں عمران خان نے جمعیت علمائے اسلام(س) کے سربراہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود مولانا سمیع الحق کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا سمیع الحق کی عمر 80سال سے زائد تھی اور آج راولپنڈی کی نجی سوسائٹی میں واقع گھر میں انہیں چھریوں کے وار کر کے ہلاک کردیا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے[1]۔

راولپنڈی کی مشہور ہاؤسنگ سوسائٹی میں اپنے گھر پر شہید ہونے والے جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق پاکستانی سیاست میں کئی دہائیوں سے نمایاں مقام رکھتے تھے ،ان کا شمار پاکستان کے جید علمائے کرام میں سر فہرست تھا جبکہ ملکی سیاست میں بھی انہوں نے انمٹ نقوش چھوڑے ،وہ ملکی سیاست میں قائم ہونے والے کئی اتحادوں میں اہم حیثیت رکھتے تھے، جہاد افغانستان میں بھی ان کے مدرسے نے اہم کردار ادا کیا جبکہ افغان طالبان میں بھی وہ ’’باپ ‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے ،مولانا سمیع الحق پر اس سے قبل بھی کئی مرتبہ قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں لیکن ان حملوں میں وہ ہمیشہ محفوظ رہے[2]۔

مولانا عبدالحق نے 1970ء میں قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کوشکست دی، مولانا عبدالحق 1970ء سے 1977ء تک قومی اسمبلی کے رکن رہے، مولانا عبدالحق ،مولانا مفتی محمود، مولانا غلام ہزاروی ، مولانا عبداللہ درخواستی کے ہم عصر تھے۔ ان کا مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک ، دارالعلوم دیوبند کے بعد دیوبندی مکتبہ فکر کا سب سے اہم مدرسہ گردانا جاتا ہے۔

مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالحق اور جمعیت کے دوسرے اکابرین کی رحلت کے بعد جمعیت علمائے اسلام دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک دھڑے کی قیادت مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن کے حصہ میں آئی جب کہ دوسرے دھڑے کی قیادت مولانا سمیع الحق نے کی۔ مولانا سمیع الحق نے ملک کی دینی و مذہبی سیاست میں انتہائی متحرک کردار ادا کیا، مولانا 1988ء میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتم بنے۔ افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مدد چاہیے تھی تو اس وقت افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف جدوجہد میں مولانا سمیع الحق کے مدرسے نے کلیدی کردار ادا کیا، اس وجہ ان کی اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ انتہائی قربت تھی۔

سماجی سرگرمیاں

مولانا سمیع الحق نے ہمہ جہت خدمات سرانجام دیں،درس و تدریس کو دیکھ لیجئے کہ ڈھیر سارے مشاغل،آئے روز کے اندرون وبیرون ملک اسفار،حالات کے نشیب و فراز اور زندگی کے مختلف مراحل میں عشروں سے مولانا سمیع الحق جامعہ حقانیہ کے دارالحدیث میں مسند تدریس پر رونق افروزنظر آتے ہیں۔اگر انہوں نے زندگی میں اور کوئی خدمت نہ بھی سرانجام دی ہوتی تو محض یہی ایک خدمت کافی تھی کہ وہ عشروں سے درس حدیث دے رہے تھے اور ان سے بلاواسطہ اور بالواسطہ کسب فیض کرنے والوں کی تعداد بلا مبالغہ لاکھوں میں ہے۔

کیا پاکستان اور افغانستان اور کیا دنیا کے دیگر خطے ۔۔۔!جہاں جانا ہوتا ہے جامعہ حقانیہ کے فضلاء اور مولانا سمیع الحق کے تلامذہ گرانقدر خدمات سرانجام دیتے نظر آتے ہیں پھر مولانا کی محض تدریس ہی نہ تھی بلکہ اہتمام و انصرام میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھے ،جامعہ حقانیہ جیسی عظیم درسگاہ کو انہوں نے خون جگر دے کرسینچا- ان کی سیاسی سرگرمیوں,ان کے تنظیمی مشاغل,بدلتے ہوئے حالات کی گرمی سردی کچھ بھی تواس درسگاہ پر اثرانداز نہ ہو سکا اتنے بڑے ادارے کی ضروریات کا بندوبست ہی کارے دارد مگر آفرین ہے کہ مولانا نے اسے عمر بھر بڑی کامیابی سے نبھایا-

جامعہ حقانیہ کی کامیابی میں مولانا سمیع الحق کا کردار

جامعہ حقانیہ کی کامیابی میں مولانا سمیع الحق کی وسعت ظرفی کا بڑا دخل تھا، انہوں نے کیسے کیسے اہل فن چن کر لائے۔کیسے کیسے اساطین علم کو جامعہ حقانیہ سے وابستہ کیا اور کھل کر کام کرنے کا موقع دیا، جامعہ حقانیہ کے مشائخ،اساتذہ حتی کہ طلبہ میں بڑی تعداد ایسی تھی جن کے نظریات و افکار مولانا سمیع الحق سے مختلف اور تنظیمی و جماعتی وابستگی بھی مولانا سمیع الحق سے جدا تھی لیکن مولانا سمیع الحق نے تعلیمی اور انتظامی معاملات میں اپنی پسند ناپسند،اپنے افکار و نظریات اور اپنی تنظیمی و جماعتی ترجیحات سمیت کسی چیز کو آڑے نہ آنے دیا اور ہمیشہ جامعہ حقانیہ کا گلشن سرسبز و شاداب رہا،آباد رہا۔

تصنیف و تالیف

مولانا سمیع الحق نے تصنیف و تالیف کے حوالے سے ماہنامہ الحق سے جو سفر شروع کیا ،اس کا بھی ایک پورا جہان آباد کیا،ہم نے تو ابتداء میں مولانا سمیع الحق کو ماہنامہ الحق میں ہی دیکھا،قلم پر کیا گرفت تھی،حالات پر کیسی نظر تھی اور علمی طور پر کیا رسوخ تھا اور پھر اکابر کی نسبت و صحبت نے ان کے اندر کے قلم کار کو کندن بنا دیا تھا،مولانا سمیع الحق کا قلم یوں تو تاریخ کے ہر موڑ پر اپنی جولانیاں دکھاتا نظر آتا ہے لیکن 1974ء میں قادیانیت کے حوالے سے قومی اسمبلی میں جو محضر نامہ پیش کیا گیا اس پر علمی و تحقیقی کام کے حوالے سے اس عہد کے جن چند باہمت نوجوانوں نے شبانہ روز محنت کر کے پوری امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا۔

ان میں مولانا سمیع الحق پیش پیش تھے-مولانا سمیع الحق کا یہ کمال تھا کہ وہ دوسروں سے لکھوانے اور پھر اسے چھپوانے میں خاص مہارت رکھتے تھے چنانچہ ماہنامہ الحق کی پرانی فائلیں اور خاص نمبر اٹھا کردیکھ لیجئے مولانا کا یہ کمال جابجا نظر آئے گا۔مولانا سمیع الحق کا یہ بھی کمال تھا کہ وہ اہل زبان نہ ہونے کے باوجود بہت شستہ اور نستعلیق اردو لکھتے تھے اور اس سے بھی بڑا کمال یہ کہ وہ کوئی برگد کا ایسادرخت نہ ثابت ہوئے جس کے سائے تلے کوئی اوردرخت پروان ہی نہ چڑھ پاتا ،آپ نے موتمر المصنفین کی بنیاد ڈالی اور کیسے کیسے ہیرے تراشے صرف مولانا عبدالقیوم حقانی،مولانا مفتی غلام الرحمن،حافظ راشد الحق کی تحریری و تصنیفی خدمات کو ہی سامنے رکھیے تو مولانا سمیع الحق کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مولانا سمیع الحق کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے علمی ذخیرہ سنبھال کر رکھا اورصرف سنبھال کر ہی نہ رکھا بلکہ اسے سجا کر اور چھپوا کر امت کے سامنے پیش بھی کر دیا، اس حوالے سے مشاہیر کے خطوط و پیغامات اور مراسلات پر مولانا نے جو کام کیا وہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد کارنامہ ہے۔مولانا سمیع الحق کی تصنیفی و تالیفی زندگی میں جو سب سے اہم بات تھی وہ یہ کہ انہوں نے ہمیشہ وقت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا۔

ابھی آخری عمر میں انہوں نے جس کام کا بیڑہ اٹھایا تھا اسی کودیکھ لیجئے کہ امام التفسیر حضرت شیخ لاہوری رحمہ اللہ کے تفسیری نکات اورترجمہ ڈھونڈے سے نہ ملتا تھا حالانکہ وہ ایک تاریخی ورثہ اور علمی ذخیرہ تھا مولانا سمیع الحق نے اسے جس انداز سے سجا سنوار کر اورعام فہم بناکرامت کے سامنے پیش کرنے کا عظیم منصوبہ شروع کیا تھا وہ جب منظر عام پر آئے گا تب خبر ہوگی کہ مولانا سے اللہ رب العزت نے کتنا عظیم کام لیا۔

عسکری سرگرمیاں

مولانا سمیع الحق کی تحریکی زندگی بھی ایک مکمل داستان ہے گزشتہ چار عشروں کی ہر تحریک میں مولانا سمیع الحق گھنٹہ گھر دکھائی دیتے ہیں۔سب تحریکوں کو ایک طرف رکھیے صرف جہاد افغانستان کی بات کیجیے تو مولانا سمیع الحق اس کے صحیح معنوں میں ماسٹر مائنڈ نظر آتے ہیں۔وہ تحریک ِجہاد جس نے دو سپر پاورز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اس کے جی ایچ کیو کو سلیس زبان میں مولانا سمیع الحق اور ان کی درسگاہ کہا جا سکتا ہے-مولانا سمیع الحق اگرچہ عسکری دنیا کے آدمی نہ تھے۔

لیکن عسکری میدانوں کے لیے جس فکری،علمی، اخلاقی، نظریاتی کمک کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب مہیا کرنے کا ڈپو مولانا اور ان کے رفقاء کے پاس تھا اور کمال یہ کہ حالات کے جبر نے مولانا سمیع الحق کے لہجے کے بانکپن کو کبھی متاثر نہیں ہونے دیا اور انہوں نے کمال استقامت اور پامردی سے جہاد،مزاحمت،آزادی اور پاکستان و افغانستان کے دفاع کی جنگ لڑی اور آخر تک سرنڈر نہ ہوئی[3]۔

ماہانہ جریدہ الحق کا اجراء

مولانا سمیع الحق اپنے دارالعلوم سے ماہانہ جریدہ الحق شائع کرتے تھے۔ مولانا مرحوم اس جریدہ میں اپنی یادداشتوں پر مشتمل ڈائری بھی شائع کر رہے تھے۔ مولانا سمیع الحق کے بیٹے مولانا حامد الحق نے انکشاف کیاہے کہ ان کے والد کو افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے خطرہ تھا ،کیوں کہ وہ افغانستان کو امریکا کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے، جب کہ ہمیں ملکی خفیہ اداروں نے بھی کئی بار بتایا تھا کہ مولانا سمیع الحق بین الاقوامی خفیہ اداروں کے ہدف پر ہیں۔

مولانا سمیع الحق پر اس سے قبل بھی کئی مرتبہ قاتلانہ حملے ہو چکے تھے لیکن ان حملوں میں وہ ہمیشہ محفوظ رہے۔ مولانا حامد الحق کا کہنا ہے کہ ہم نے پولیس اور سکیورٹی اداروں کو دھمکیوں کے حوالے سے آگاہ کیا تھا، جب کہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک میں بھی سکیورٹی سخت کردی گئی تھی تاہم مولانا صاحب سکیورٹی کو پسند نہیں کرتے تھے اس لیے سفر میں ان کے ساتھ دوستوں کے علاوہ کوئی سکیورٹی اہلکار نہیں ہوتا تھا۔

مولانا حامد الحق نے مزید کہا کہ ایسی قوتیں جو ملک میں اسلام کا غلبہ نہیں چاہتیں، جو جہاد مخالف ہیں، جو مدرسوں اور خانقاہوں کی مخالفت ہیں وہی طاقتیں ان کے قتل میں ملوث ہیں، انہوں نے کہا کہ میں اس موقع پر مولانا سمیع الحق کے چاہنے والے کارکنان اور عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور دشمن قوتوں کو تنقید کا موقع نہ دیں۔

اتحاد بین المسلمین میں اس کا کردار

مولانا سمیع الحق نے ملک کی دینی و مذہبی سیاست میں انتہائی متحرک کردار ادا کیا ،وہ دو بار سینیٹ کے رکن بھی رہے ہیں،وہ 1985ء سے 1991ء اور 1991ء سے 1997ء تک سینیٹر رہے جبکہ حالیہ سینیٹ الیکشن میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا تھا تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے ،وہ متحدہ دینی محاذ کے بھی بانی تھے جو پاکستان کے چھوٹے مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا۔

جبکہ دفاع پاکستان کونسل کے بھی وہ سربراہ تھے جس میں پاکستان کی بڑی مذہبی و سیاسی جماعتیں جن میں جماعت الدعوۃ ، اہلسنت والجماعت ،عوامی مسلم لیگ سمیت دیگر بھی شامل تھیں ۔مولانا سمیع الحق نےمختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے ساتھ مل کر ’’ملی یکجہتی کونسل ‘‘اور دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔

تاہم وہ بعض اختلافات کے باعث ایم ایم اے سے علیحدہ ہو گئے تھے ۔افغانستان پر امریکی حملے کے بعد انہوں نے مذہبی تنظیموں کا ایک اتحاد’’دفاع پاکستان و افغانستان کونسل‘‘ بھی بنایا تھا جس نے امریکی حملوں کے خلاف پورے ملک میں بڑے بڑے مظاہرے کیے ،اس اتحاد میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر)حمید گل اور شیخ رشید احمد بھی شامل تھے ۔مولانا سمیع الحق افغان طالبان پر کافی اثرو رسوخ رکھتے تھے اور ملا عمر جو طالبان کے بانی اور امیر تھے کہ بارے میں کہا جا تا تھا کہ وہ مولانا سمیع الحق کے شاگرد ہیں۔

افغانستان میں قیام امن میں اس کا کردار

وہ جہادی رہنماؤں کے لیے ’’روحانی باپ‘‘ کی سی حیثیت رکھتے تھے،مولانا جلال الدین حقانی کے علاوہ کالعدم تحریکِ طالبان کے بھی کئی رہنما ان کے شاگرد رہے اور پاکستانی طالبان سے مذاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم کا بھی وہ حصہ تھے،افغانستان میں دیر پا امن اور استحکام کے سلسلے میں اکثر پاکستانی اور افغان اعلیٰ حکام ان سے ملاقاتیں کرتے تھے جبکہ حال ہی میں افغان حکومت کے ایک وفد نے دالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ان سے ملاقات کرتے ہوئے افغان امن عمل کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی ۔افغانستان پر امریکی حملے کے بعد انہوں نے مذہبی تنظیموں کا ایک اتحاد بھی بنایا تھا، جس نے امریکی حملوں کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے کیے۔

مولانا سمیع الحق نے ہمیشہ اپنے عمل سے ثابت کیا تھا کہ وہ ایک محب وطن اور پر امن پاکستانی ہیں ،انہوں نے کبھی بھی ملک میں پر تشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اس کی مذمت کی ،مولانا سمیع الحق نے ایک ایسے وقت میں پولیو سے بچاؤ کی سرکاری مہم کی حمایت کی تھی جب طالبان اس کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔مولانا سمیع الحق کے افسوسناک قتل کے تانے بانے افغان انٹیلی جنس سے ملتے نظر آتے ہیں، بظاہر پاکستان میں کسی گروہ سے مولانا سمیع الحق کی ایسی دشمنی نہ تھی کہ ان کو یوں قتل کیا جاتا، پاکستانی حساس اداروں سے انکے اچھے مراسم رہے ہیں جبکہ ہر مشکل مرحلہ میں انہوں نے پاکستانی اداروں کی مدد کی تھی جبکہ ’’پاک افغان طالبان‘‘ بھی انہیں عزت دیتے تھے مگر حتمی بات پھر بھی تحقیقات کے بعد ہی پتہ چل سکے گی کہ مولانا سمیع الحق کے اصل قاتل کون تھے اور اس قتل کی اصل وجہ کیا تھی ؟۔

تعلیمی سرگرمیاں

مولانا سمیع الحق کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے جہاں دنیا بھر میں مقیم ہزاروں علمائے کرام نے ان سے تعلیم حاصل کی ہے ۔ مولانا سمیع الحق دو بار 1985ء سے 1991ء اور 1991ء سے 1997ء تک سینیٹ کے رکن رہے جبکہ حالیہ سینیٹ الیکشن میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا تھا تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ متحدہ دینی محاذ کے بھی بانی تھے جو پاکستان کے چھوٹے مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا، جبکہ دفاع پاکستان کونسل کے بھی سربراہ تھے جس میں پاکستان کی بڑی مذہبی و سیاسی جماعتیں جن میں جماعت الدعوۃ ، اہلسنت والجماعت، عوامی مسلم لیگ سمیت دیگر جماعتیں بھی شامل تھیں۔

ملی یکجہتی کونسل کا قیام

مولانا سمیع الحق نے مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے ساتھ مل کر ’’ملی یکجہتی کونسل ‘‘اور دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تاہم وہ بعض اختلافات کے باعث بعد ازاں ایم ایم اے سے علیحدہ ہو گئے تھے۔

دفاع پاکستان و افغانستان کونسل کا قیام

افغانستان پر امریکی حملے کے بعد انہوں نے مذہبی تنظیموں کا ایک اتحاد’’دفاع پاکستان و افغانستان کونسل‘‘ بھی بنایا تھا جس نے امریکی حملوں کے خلاف پورے ملک میں بڑے بڑے پرامن مظاہرے کیے، اس اتحاد میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر)حمید گل اور شیخ رشید بھی شامل تھے۔مولانا سمیع الحق افغان طالبان پر کافی اثرو رسوخ رکھتے تھے اور ملا عمر جو طالبان کے بانی اور امیر تھے کہ بارے میں کہا جا تا تھا کہ وہ مولانا سمیع الحق کے شاگرد ہیں۔

جہادی رہنماؤں کے لیے روحانی باپ

مولانا سمیع الحق جہادی رہنماؤں کے لیے "روحانی باپ" کی سی حیثیت رکھتے تھے،مولانا جلال الدین حقانی کے علاوہ کالعدم تحریک طالبان کے کئی رہنما ان کے شاگرد رہے۔افغانستان میں دیر پا امن اور استحکام کے سلسلے میں اکثر پاکستانی اور افغان اعلیٰ حکام ان سے ملاقاتیں کرتے تھے، اور افغانستان کے پاکستان میں تعینات سفیر ان سے باقاعدگی سے ملتے رہتے تھے۔ جبکہ حال ہی میں افغان حکومت کے ایک وفد نے دالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ان سے ملاقات کرتے ہوئے افغان امن عمل کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی۔

انہوں نے ہمیشہ اپنے عمل سے ثابت کیا تھا کہ وہ ایک محب وطن اور پر امن پاکستانی ہیں ،انہوں نے ملک میں پر تشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ہمیشہ اس کی مذمت کی، انہوں نے پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات کی ایک کوشش میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

وفات

تفصیلات کے مطابق ملک کے بڑے اور قدیم دینی ادارے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتم ،جمعیت علمائے اسلام (س) اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق راولپنڈی کی مشہور ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے سفاری ولاز میں رہائش پذیر تھے کہ نامعلوم افراد نے انہیں گھر میں گھس کر چاقوؤں کے بے رحمانہ وار کرتے ہوئے شہید کر دیا ،حملہ آوروں نے جس وقت یہ سفاکانہ کام کیا اس وقت مولانا سمیع الحق اپنے گھر میں اکیلے تھے ،ان کے داماد اور گن مین قریبی مارکیٹ میں گئے ہوئے تھے ،کچھ دیر بعد جب وہ گھر واپس آئے تو بیڈ روم میں ان کی خون میں لت پت لاش پڑی ہوئی تھی۔

گزشتہ روز پاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں کو انتہائی افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں نامعلوم شخص نے چھریوں کے وار کر کے اس وقت شہید کردیا جب وہ عصر کے بعد اپنے گھر میں آرام کر رہے تھے ۔ راولپنڈی پولیس کے تحقیقاتی افسر کے مطابق دو افرادجوماضی میں بھی مولانا سمیع الحق سے ملاقات کے لیے آتے رہے ہیں، جمعہ کے دن بھی انہوں نے مولانا سے ملاقات کی ، مولانا نے خود اپنے گھریلو ملازم کو باہر بھیجاتا کہ وہ مہمانوں کے لیے ریفریش منٹ کچھ لا سکے۔

ڈرائیور اور گن مین دونوں مولانا کو مہمانوں کے پاس اکیلاچھوڑ کرایک ساتھ باہر چلے گئے، واپسی پر انہوں نے دیکھا کہ مولانا سمیع الحق خون میں لت پت اور بے ہوشی کی حالت میں اپنے بیڈ پر پڑے ہیں ، ان کے جسم پرتیز دھار آلے کے گہرے زخم ہیں، جسم کا بالائی حصہ خون میں بھیگا ہوا ہے، خون ان کے بیڈکے میٹرس سے نچڑ رہا تھا۔ فوری طور پر انہیں قریبی سفاری ہسپتال لیجایا گیا جہاں ڈاکٹر وں نے ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہوجانے کی تصدیق کر دی۔

رد عمل

ملک کی معروف سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ مولانا کی شہادت سے ملک جید عالم دین اور اہم سیاسی رہنما سے محروم ہو گیا۔ مولانا سمیع الحق ایک عظیم شخصیت تھے ان کی دینی اور سیاسی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مولانا سمیع الحق گفتار میں انتہائی نرم اور خوش اخلاق لیکن جب ممبر یا سٹیج پر تقریر کے لیے آتے تو یکسر ایک مختلف شخصیت محسوس ہوتے تھے[4]۔

حوالہ جات

  1. مولانا سمیع الحق کون تھے؟- شائع شدہ از: 2 نومبر 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 مارچ 2025ء۔
  2. مولانا سمیع الحق کون تھے؟ وہ باتیں جو آپ کو معلوم نہیں- شائع شدہ از: 2 نومبر 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 مارچ 2025ء۔
  3. محمد حنیف جالندھری، مولانا سمیع الحق، عہد ساز شخصیت-شائع شدہ از: 5 نومبر 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 فروری 2025ء۔
  4. رانا اعجاز حسین، مولانا سمیع الحق کی دینی و سیاسی خدمات۔۔۔!-شائع شدہ از: 3 نومبر 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 فروری 2025ء۔