محمدحسن اختری

نظرثانی بتاریخ 23:36، 15 دسمبر 2024ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

محمدحسن اختری اہل بیت عالمی اسمبلی کے سابق سکریٹری جنرل اور فقہ اور اصول میں اعلی تعلیم حاصل کی ہے، اور لبنان کی امام موسی صدر یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی ہے اور آپ عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی سپریم کونسل کے سابق رکن ہیں۔

محمدحسن اختری
محمد حسن اختری.jpg
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہسمنان ایران
اساتذہ
مذہباسلام، شیعہ
مناصب

سوانح حیات

محمد حسن اختری سنہ 1324ء میں شہر سمنان میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔

اساتذہ

انہوں نے ابتدائی اور درمیانی تعلیم اور دروس کو مندرجہ ذیل اساتذہ سے حاصل کیے:

  • آدینہ وند،
  • کوکبی،
  • حاج حسن‏ آقا تهرانی،
  • جلال گلپایگانی،
  • سید علی محقق داماد،
  • رضوانی،
  • شیخ نصرالله شاه ‏آبادی،
  • قدیری،
  • جنتی،
  • راستی کاشانی،
  • شهید بهشتی،
  • شهید مدنی
  • ایت اللہ مشکینی۔

اور انہوں اعلی سطح کے تعلیم ان اساتذہ سے حاصل کیے:

محمد حسن اختری شہید مطہری اور امام موسیٰ صدر کے فلسفہ اور کلام کی تعلیم حاصل کی اور جدید اور کلاسیکی عربی پر مکمل عبور کے علاوہ، ان کے پاس ابوالنور یونیورسٹی اور عرب رائٹرز یونین سے دو اعزازی ڈاکٹریٹ ہیں۔

سیاسی جدوجہد

1351 ش میں ایران واپس آنے کے بعد، پہلوی حکومت کے آلہ کاروں اور سیکورٹی فورس نے انہیں دوسری بار گرفتار کر کے قید کر دیا، اور رہائی کے بعد اسے دوبارہ ملک سے باہر سے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس لیے آپ حوزہ کے اعلیٰ سطح پر اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے قم واپس آگئے۔ ان کی سیاسی جدوجہد کا تسلسل انہیں تیسری بار قید کا باعث بنا اور یہ اسیری انقلاب کے کامیابی یعنی 12 بہمن 1357ش یوم اللہ تک جاری رہی۔

اسلامی انقلاب کی فتح اور بعض قومی بدامنی کے پیدا ہونے کے بعد، امام خمینی کے حکم پر انہیں امور کو منظم کرنے کے لیے بافت کرمان روانہ کر دیا۔ تعمیراتی جہاد (جہاد سازنگی) کے مقدس ادارے کے قیام کے ساتھ ہی آپ کو امام راحل نے اس شہری اور جہادی تنظیم میں اپنا نمائندہ مقرر کیا اور ساتھ ہی سمنان کا امام بھی نمائندہ مقرر کیا۔

جہاد سازندگی کے ادارے کو وزارت میں تبدیل کرنے کے بعد، انہوں نے اس وزارت کے پارلیمانی نائب کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہاں تک کہ جب لبنان اور فلسطین کے حالات مزید نازک ہوتے گئے، 1365 میں انہیں شام میں اسلامی جمہوریہ ایران کا سفیر بنا کر دمشق بھیجا گیا۔ یہ مشن معمول کے برعکس اور سپریم لیڈر کی منظوری سے 12 سال سے زائد عرصے تک جاری رہا۔

سفارتخانے کے سالوں کے دوران ان کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک یہ تھی کہ آپ لبنان کی حزب اللہ تحریک کی حمایت کریں اور خطے میں اس تحریک کو وسعت دینے اور مضبوط کرنے کی کوشش کریں اور لبنان اور فلسطین کی اسلامی مزاحمت کا دفاع کریں۔ حزب اللہ کی مرکزی کونسل کے اجلاسوں میں مسلسل شرکت کرتے ہوئے اور اس تحریک کی حمایت کرتے ہوئے، لبنان میں کمر توڑ اندرونی تنازعات کو حل کرنے میں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ، انہوں نے ایک ایسا عمل شروع کیا جو بالآخر جنوب میں مقبوضہ علاقوں کو صیہونی غاصبوں اور ناپاک وجود سے آزاد کرانے کا باعث بنا۔

1377ش میں، وطن واپسی پر، آپ سپریم لیڈر کے دفتر کے بین الاقوامی امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر مقرر ہوئے، جو 1385 تک جاری رہا۔ آپ مادام العمر عالمی اہل بیت اسمبلی کی سپریم کونسل کے رکن ہیں اور سپریم لیڈر کے حکم سے انہیں عالمی اہل بیت اسمبلی کا چوتھا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ اپریل 1383۔ اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں اتحاد اور اسلامی مذاہب کے بارے میں بہت سی تقاریر اور سرگرمیاں سر انجام دیے ہیں۔

نظریات

ان کے خیالات ان کے الفاظ میں دیکھے جا سکتے ہیں، جیسے: ہم سب مذاہب اسلامی کے درمیان کے اتحادا اور وحدت کی بات کرتے ہیں، لیکن ہم بھول گئے کہ خدا نے قرآن میں اتحاد قائم کرنے کے لیے کیا کہا ہے۔ قرآن پاک میں خدا نے فتنہ پھیلانے والوں اور تفرقہ ڈالنے والوں کی طرف اشارہ ہے۔ خدا قرآن میں فرماتا ہے: نہ آپس میں لڑو اور نہ لڑو اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے والوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اور ہمیں فتنہ پھیلانے والوں سے خود کو الگ کرنا چاہیے۔

علماء اسلام کو چاہیے کہ وہ اسلامی معاشرے میں تفرقہ پھیلانے والوں کی نشاندہی کریں اور ان کا تعارف کرائیں۔ کچھ حکومتیں ہیں جو حرمین شریفین کا پرچم لہرا کر مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرتی ہیں۔ خدا فرماتا ہے کہ تفرقہ ڈالنے والوں کو اپنے سے دور رکھو تاکہ تمہارے معاشرے میں اتحاد پیدا ہو۔ ہمارا معاشرہ اس وقت تک اتحاد تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہمارے علماء، اساتذہ اور طلباء منحرف تحریکوں کے خلاف کھڑے نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف اتحاد کو نقصان پہنچانے والے میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔

ہمیں میڈیا کے سامنے میڈیا کی سہولیات استعمال کرنا ہوں گی جو اتحاد کو نقصان پہنچاتی ہیں تاکہ ہم ان کے خلاف کھڑے ہو سکیں۔ قرآن کریم میں خدا کے الفاظ کے مطابق، انہوں نے واضح کیا: کچھ اسلامی حکومتیں ہیں جو یمن پر بمباری کرنے کے لئے اتحاد تشکیل دیتی ہیں، جبکہ خدا قرآن پاک میں فرماتا ہے: جنگ کو بھڑکانے کے لئے کچھ نہ کرو۔ لیکن کچھ اسلامی ممالک جنگیں شروع کر دیتے ہیں [1]۔

آیت اللہ اختری کی جانب سے شیعہ مرجعیت اور شہدائے مچھ کے اہل خانہ کی قدردانی

آیت اللہ محمد حسن اختری نے مچھ کے گیارہ کان کنوں کی بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس حوالے سے آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کا شکریہ ادا کیا اور حکومت پاکستان سے اس طرح کی دھشتگردانہ کاروائیوں پر روک تھام لگانے کی اپیل کی۔ اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری کے قتل عام پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے آیت اللہ محمد حسن اختری نے ایک تسلیتی اور مذمتی پیغام جاری کیا ہے۔ آیت اللہ اختری نے اپنے پیغام میں ہزارہ برادری کے گیارہ کان کنوں کی شہادت پر امام زمانہ (ع)، شہیدوں کے اہلخانہ اور تمام پیروان اہل بیت(ع) کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے اپیل کی ہے کہ اس واقعہ کے عاملین کو ان کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ کے متن کا ترجمہ حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

﴿ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُون ﴾

(اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جسے آیات الٰھیہ کی یاد دلائی جائے اور پھر اس سے اعراض کرے تو ہم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ہیں۔) (قرآن مجید۔ سورہ سجدہ۔ آیت ۲۲) انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ عالمی معاشرہ خصوصا امت اسلامی کئی دہائیوں سے انتہا پسند تکفیری گروہوں کی وحشتناک بربریت کی چکی میں پس رہی ہے اور آل سعود کی جرائم پیشہ رژیم اور اس کے مزدور وہابی مختلف ممالک خاص طور پر پاکستان میں مسلسل پیروان اہل بیت(ع) کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

تکفیری وہابیوں کے جرائم کا نہ تھمنے والا سلسلہ اور بے گناہ انسانوں کے مسلسل قتل عام پر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی ذلت آمیز خاموشی انتہائی افسوس ناک ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان ممالک کی حکومتیں، عدالتی، سکیورٹی اور عسکری ادارے بھی ان ٹولیوں کی شناخت میں یا ناکام رہے ہیں یا جان بوجھ کر انہیں سامنے نہیں لا رہے ہیں تاکہ انہیں سزا دیں یا ان کا قلع قمع کریں اور ہر آئے دن دھشتگردانہ کاروائیوں کے نتیجے میں دسیوں بے گناہ انسانوں کے دلسوز واقعات کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے "مچھ" میں حالیہ دردناک دھشتگرانہ کاروائی اور گیارہ بے گناہ کان کنوں اور زحمت کشوں کے بے دردی سے قتل نے تمام مسلمانوں اور پیروان اہل بیت (ع) کے دلوں کو غم و اندوہ سے بھر دیا۔ میں اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی مجلس اعلیٰ کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے اس دلسوز سانحے پر امام عصر حجت بن الحسن العسکری (عج)، حوزات علمیہ اور ستم دیدہ گھرانوں کی خدمت میں تسلیت پیش کرتا ہوں۔

نیز اس دردناک سانحے کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے بزور اپیل کرتا ہوں کہ جتنا جلدی ممکن ہو اس جرم کے مرتکبین کی شناخت کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ دوسرے سنگ دل دھشتگردوں کے لیے درس عبرت ہو۔ میں خود پر لازم سمجھتا ہوں کہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کا شکریہ ادا کروں کہ انہوں نے بروقت مکمل ہوشیاری اور ہمدردی سے پیغام جاری کر کے ایک نئے بحران سے بچا لیا نیز علمائے اسلام، مسلمان حکومتوں اور علمی و سماجی شخصیات کا بھی شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے حادثات و واقعات کی روک تھام کے لیے ان سے ٹھوس اقدام کرنے اور مظلوم و ستمدیدہ افراد کی حمایت کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔

شہدائے مچھ کے اہل خانہ کی دل کی گہرائیوں سے قدردانی کرتا ہوں کہ انہوں نے مرجعیت کی اتباع میں اپنے پاک عزیزوں کے خون کی پاسداری کی۔ خداوند عالم متعال سے دعا کرتا ہوں کہ شہدائے اسلام خصوصا اس دردناک واقعے کے شہدا کو ائمہ طاہرین کے ساتھ محشور فرمائے اور پسماندگان کو صبر و اجر عنایت فرمائے۔

و انا للہ و انا الیہ راجعون

محمد حسن اختری

چیئرمین سپریم کونسل برائے اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی

مینیجنگ ڈائریکٹر برائے عاشورا بین الاقوامی فاؤنڈیشن [2]

انقلابی جوانوں کو ثابت قدم رہنے کے لیے امام خمینی کی شخصیت کو پہچاننا ہو گا

محمد حسن اختری نے عشرہ فجر کے آغاز اور امام خمینی(رہ) کی پیرس سے ایران واپسی کی سالگرہ پر اصفہان میں منعقد ہوئے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ۳۶ سال گزرنے کے باوجود لوگ ویسے ہی شوق و جذبے کے ساتھ انقلاب اسلامی کی کامیابی کا جشن مناتے ہیں اور اپنے شہداء کی راہ پر چلتے ہوئے ابھی تک انقلاب کے پاسبان ہیں۔

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے انقلابی جوانوں کو اسلامی انقلاب کے تئیں مزید ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا: ہمارا فریضہ ہے کہ سب سے پہلے امام (رہ) کی شخصیت کو پہچانیں کہ انہوں نے کس طرح انقلابی تحریک کا آغاز کیا؟ ان کے وجود میں ایسے کون سے کمالات تھے جس کی بنا پر پورے ایران کے عوام ان کے گرویدہ بن گئے؟ آج دنیا کے کونے کونے میں امام کا نام روشن ہے اور اسلامی انقلاب کی لہر پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کی: امام خمینی(رہ) خدا اور مرضی خدا کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں نہیں سوچتے تھے ان کی شخصیت شجاعت کا پیکر تھی اور اپنے زمانے کے تمام حالات سے آگاہ تھے۔ انہوں نے سن ۴۱ یا ۴۲ (ایرانی سال) میں شاہ کو مخاطب کر کے کہا کہ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں اور میں ان بچوں کے ذریعے تیرے ساتھ جنگ لڑوں گا جو ماوں کی گودیوں میں پل رہے ہیں اور تجھے ملک سے نکال باہر کروں گا۔

اس وقت کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ امریکہ کے ساتھ اس طرح سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ امام نے اس وقت اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ کا صدر ایران میں سب سے زیادہ قابل نفرت شخص ہے اور آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا امریکی صدر سے نفرت کرتی ہے۔

امام خمینی (ع) کے تواضع و انکساری

حجت الاسلام محمد حسن اختری نے امام خمینی (ع) کے تواضع و انکساری کو آپ کی نمایاں صفت بیان کرتے ہوئے کہا: علما اور عوام سب کے لیے یہ عظیم درس ہے کہ امام (رہ) جب نجف میں تھے تو ایک معمولی سے گھر میں زندگی کرتے تھے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد اقتدار حاصل کرنے کے باوجود وہ ایک چھوٹے اور معمولی گھر میں ہی رہتے تھے در حقیقت امام نے سادہ زیستی سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور آج رہبر انقلاب بھی اسی سادہ طرز زندگی پر جی رہے ہیں۔

انقلاب اسلامی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے کہا: سب یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اسلامی انقلاب نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے دنیا کو ایک ایسا نیا نظام حکومت پیش کیا جس کا ماضی میں کوئی وجود نہیں تھا۔ ایسا نظام حکومت جو الہی، دینی اور اسلامی اصولوں پر مبنی ہو جبکہ اس میں عوام کی رائے بھی شامل ہو۔ اسی وجہ سے آج دنیا کے لوگ حتی غیر مسلمان بھی دینی حکومت کی فکر میں ہیں اگر چہ دشمن کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے اندر سے اس فکر کو ختم کریں۔

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ دشمن، اسلامی بیداری کی اس لہر کو برداشت نہیں کر سکتے کہا: افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ حکومتیں جو آزادی اور ڈیموکریسی کا ڈھونگ رچاتی ہیں وہ اسلامی مقدسات کی توہین کرنے والوں کی حمایت کرتی ہیں۔ اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے کہا: دشمن کی یہ کوشش ہے کہ وہ ہمارے درمیان پائے جانے والے دینی اور اسلامی تقید کو کم کرے، مختلف حربوں کے ذریعے سماجی خرابیاں پیدا کرکے، بے حجابی اور بے راہ روی پھیلا کر کے انقلاب اور انقلابیوں کے درمیان رخنہ اندازی کرے۔ انہوں نے آخر میں کہا: ہمیں اندرونی اور بیرونی سیاستوں کو سمجھنا چاہیے اور اپنے دینی اور اخلاقی معیاروں کو بھولنا نہیں چاہیے اس لیے کہ اگر دین اور ہمارے ملک کا استقلال محفوظ رہا تو لوگ دیگر مشکلات کو آسانی سے تحمل کر لیں گے[3]۔

آل سعود عالمی سطح پر جاری جرائم میں ملوث

عالمی اہلبیت تنظیم کے سکریٹری جنرل نے شیخ باقر النمر پر سعودی عرب کے وحشیانہ مظالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ باقر نمر ایک مظلوم اور پاک انسان ہیں انھوں نے صرف بحرین پر سعودی عرب کی یلغار کی مخالفت اور سعودی عرب کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔ مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں عالمی اہلبیت تنظیم کے سکریٹری جنرل حجۃ الاسلام والمسلمین محمد حسن اختری نے شیخ باقر النمر پر سعودی عرب کے وحشیانہ مظالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ باقر نمر ایک مظلوم اور پاک انسان ہیں انھوں نے صرف بحرین پر سعودی عرب کی یلغار کی مخالفت اور سعودی عرب کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔

محمد حسن اختری نے کہا کہ شیخ باقر النمر پر سعودی عرب کی جیل میں بیشمار مظالم ڈھائے گئے ہیں اور اب انھیں موت کی سزا دینے کی سازش کی جارہی ہے انھوں نے کہا کہ اگر آل سعود اور نجدی شیاطین نے اس پاک انسان کے بےگناہ خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کرنے کی کوشش کی تو پورے جزیرہ عرب میں ایک عظيم انقلاب برپا ہوجائے گا اور عجب نہیں کہ آل سعود اور نجدی شیاطین ، انقلاب کی اس لہر میں تباہ و برباد ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ نجد کے مٹھی بھر شیاطین نے پورے عالم اسلام میں بدامنی پھیلا رکھی ہے اور وہ کوناگوں بہانوں کے ذریعہ علاقہ میں امریکی مداخلت کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ جناب اختری نے کہا کہ یمن ایمان اور حکمت کا ملک ہے اور پیغمبر اسلام (ص) یمنیوں کے ساتھ والہانہ محبت رکھتے تھے اور آج یمن کی مظلوم قوم کو نجد کے شیاطین کی بمباری اور ظلم و ستم کا سامنا ہے [4] ۔

شام میں دشمن کے مقاصد پورے نہیں ہوں گے

حمایت فلسطین کمیٹی کے سربراہ آیت اللہ اختری نے کہا ہے کہ دشمن شام کے حالات کو اپنے حق میں بدلنا چاہتے ہیں تاہم ان کو ناکامی ہوگی۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی کمیٹی برائے حمایت فلسطین کے سربراہ آیت اللہ محمد حسن اختری نے کہا ہے کہ دشمن شام کو حالات کا رخ اپنے حق میں موڑنا چاہتے ہیں تاہم اس میدان میں بھی دشمن کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

مہر نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے شام میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد مقاومتی بلاک کے مستقبل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ تمام شہداء اور ان افراد کے لیے بلندی درجات کی دعا کرتا ہوں جو اسلام، قرآن اور مزاحمت کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ اللہ تعالی فلسطین اور مقاومت کو کامل فتح دے گا اور اپنے وعدوں کے مطابق اسرائیل کو نابود کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مشرق وسطی میں جو صورتحال آج دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ مختلف ادوار میں مختلف واقعات کا نتیجہ ہے۔ فلسطینی مقاومت کے حامیوں، خصوصا لبنان، شام، اردن، مصر اور دیگر ممالک میں مقاومت کے حامیوں نے سالوں تک محدود وسائل کے ساتھ جدوجہد کی۔ اسلامی مقاومت خاص طور پر حزب اللہ لبنان کی کامیابیوں کے بعد، فلسطین میں بھی اسلامی مزاحمت کا آغاز ہوا اور حماس و جہاد اسلامی نے اس میں بھرپور حصہ ڈالا اور حالیہ دہائیوں میں زبردست کامیابیاں حاصل کیں۔

آیت اللہ اختری نے مزید کہا کہ جو کچھ آج شام میں ہو رہا ہے وہ ہمیشہ کے لیے نہیں رہے گا۔ شام کے عوام اسرائیلی حملوں اور ان کے دوبارہ ملک پر قبضے کی کوششوں کو برداشت نہیں کریں گے اور وہ اس جارحیت کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں موجود گروہ آپس میں مختلف نظریات اور اختلافات کے سبب کسی مشترکہ لائحہ عمل پر نہیں پہنچ پائیں گے۔ فی الحال یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ شام میں آگے کیا ہوگا، یہ ممکن ہے کہ وہاں صدام جیسا کوئی آمر حکومت قائم کرے یا کچھ اور ہی شکل اختیار کرے۔

آیت اللہ محمد حسن اختری نے مزید کہا کہ ہم نے دیکھا کہ سات اکتوبر کو طوفان الاقصی آپریشن کے ذریعے مقاومت نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کے اندر مزاحمت بھرپور طریقے سے سرگرم ہے اور ان کی جدوجہد آگے بڑھ رہی ہے۔ لبنان میں بھی سید حسن نصر اللہ اور حزب اللہ کے بڑے کمانڈروں کی شہادت کے بعد مقاومت کمزور نہیں ہوئی بلکہ حزب اللہ نے ثابت قدمی سے اسرائیل پر سنگین حملے کیے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل جو حزب اللہ کو ختم کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا اور سمجھتا تھا کہ سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کا وجود ختم ہوجائے گا، وہ دیوانے کا خواب ثابت ہوا اور حزب اللہ نے مزید جوش و جذبے کے ساتھ اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ بالآخر 2006 کی جنگ کی طرح اسرائیل کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا اور اسرائیل اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔

آیت اللہ اختری نے مزید کہا کہ فلسطین میں بھی مقاومت کے رہنما ہنیہ اور یحیی سنوار کی شہادت کے باوجود مقاومت مضبوطی سے کھڑی ہے۔ اسرائیل مشکلات سے دوچار ہے۔ فلسطینی مقاومت کی فتح یقینی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ اس کے راستے پر ڈٹ کر کھڑے رہیں گے، وہ کامیاب ہوں گے۔

انہوں نے ترکی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کا شام میں داخلہ اور مخالف گروپوں کی حمایت جاری رکھنا اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا۔ ترکی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان گروپوں کی حمایت سے اس کے لیے مستقبل میں مسائل پیدا ہوں گے۔ علاقے کے حالات کئی عوامل پر مبنی ہیں لہذا دشمنوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے مفادات کے مطابق علاقے کی تقدیر کو بدل سکیں۔ یقیناً علاقے میں مزید پیچیدہ واقعات رونما ہوں گے[5]۔

حوالہ جات

  1. محمدحسن اختری: تفرقه افکنان را از خود دور کنیم(محمد حسن اختری: تفرقہ ڈالنے والوں کو خود سے دور رکھیں)-fa.shafaqna.com(فارسی زبان)- شائع شدہ از:15 دسمبر 2016ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:16 نومبر 2024ء۔
  2. آیت اللہ اختری کی جانب سے شیعہ مرجعیت اور شہدائے مچھ کے اہل خانہ کی قدردانی-ur.abna24.com- شائع شدہ از: 16 جنوری 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 نومبر 2024ء۔
  3. انقلابی جوانوں کو ثابت قدم رہنے کے لیے امام خمینی کی شخصیت کو پہچاننا ہو گا-erfan.ir/urdu- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 نومبر 2024ء۔
  4. آل سعود عالمی سطح پر جاری جرائم میں ملوث / نجدی شیاطین کا یمن پر حملہ-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 11 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 نومبر 2024ء۔
  5. شام میں دشمن کے مقاصد پورے نہیں ہوں گے، آیت اللہ اختری- شائع شدہ از: 15 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء۔