ہیئت تحریر الشام (عربی: هيئة تحرير الشام، "تنظیم برائے آزادی شام" یا " Sham Liberation Army "لیونٹ لبریشن کمیٹی ")، جسے عام طور پر تحریر الشام کہا جاتا ہے ، ایک سرگرم سنی اسلامی عسکریت پسند گروپ ہے جو شام کی خانہ جنگی میں شامل ہے۔ اس کی تشکیل 28 جنوری 2017ء کو جبہۂ فتح الشام (سابقہ النصرہ فرنٹ)، انصارالدین فرنٹ ، جیش السنہ، لواء الحق اور نور الدین الزنگی تحریک کے درمیان انضمام کے طور پر کی گئی تھی۔ اس اعلان کے بعد اضافی گروپس اور افراد شامل ہو گئے۔ انضمام شدہ گروپ کی قیادت فی الحال جبہت فتح الشام اور سابق احرار الشام قائدین کر رہے ہیں، حالانکہ ہائی کمان دوسرے گروپوں کے رہنماؤں پر مشتمل ہے۔ بہت سے گروہوں اور افراد کو احرار الشام سے نظربند کر دیا گیا ، وہ اپنے زیادہ محافظ اور سلفی عناصر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کے بعد سے انصارالدین محاذ اور نور الدین زنگی تحریک تب سے التحریر الشام سے الگ ہو گئے ہیں۔ 2019ء میں اس کے اندازہ 20،000 ارکان تھے

ہیئت تحریر الشام
هیئت تحریر شام.png
بانی پارٹیابومحمد جولانی
پارٹی رہنماابو محمد جولانی
مقاصد و مبانی
  • شام پر تسلط

شام کے سیاسی افق پر چھائے گہرے بادل

شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کے سیاسی افق پر غیریقینی کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: گذشتہ دنوں شام میں ہونے والی تبدیلیوں کے پس منظر میں جہاں حکومت کا نظام تبدیل ہو رہا ہے اور دہشت گرد گروپوں کی طاقت زور پکڑ رہی ہے وہاں اس ملک کے مستقبل کے حوالے سے متعدد ابہامات پیدا ہو چکے ہیں۔

اس وقت جو سوالات اہمیت اختیار کر چکے ہیں، وہ تحریر الشام کے گروہ کے بارے میں ہیں، جو ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ یہ واقعات ایسے نہیں ہیں جو وقت کے ساتھ علاقے کے عوام اور خاص طور پر شام کے عوام کی یاد سے محو ہوجائیں۔ حال ہی میں ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے جس میں تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی نے اپنی تنظیم اور اپنے گروہ کی ایک معتدل اور مثبت شبیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جو کہ اس گروہ کے ماضی سے زمین و آسمان کا فرق رکھتی ہے۔

چند دن پہلے، جب الجولانی کی قیادت میں تکفیری دہشت گرد حماہ شہر میں داخل ہوئے، تو الجولانی نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ حماہ پر قبضہ مبنی عمل ہوگا۔ ان کا انتقام کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اسی دوران الجولانی نے ایک اور موقع پر عراق کے وزیرِ اعظم محمد شیاع السودانی کے جواب اپنے خطاب میں کہا کہ تحریر الشام کا عراق کے حوالے سے کوئی جارحانہ ارادہ نہیں ہے۔

اس کے بعد تحریر الشام کے رہنما نے سی این این کو ایک خصوصی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے ایران کے ساتھ اپنے گروہ کے تعاملی روئیے کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ شام کے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو وہ ایک نئے حکومتی نظام کے قیام تک اس ملک کے معاملات کو ایک مثبت اور معتدل انداز میں چلانا چاہتے ہیں۔

اس سب کے باوجود اب یہ سوالات پیدا ہو چکے ہیں کہ آیا ایک دہشت گرد گروہ جس کا ماضی اتنا متنازعہ اور خونریز ہے شام پر حکومت کر سکتا ہے؟ کیا اس گروہ کو ماضی کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود دہشت گرد نہ سمجھا جائے؟ اور کیا یہ قابل قبول ہوگا کہ ایک دہشت گرد گروہ صرف اپنے رویے میں کچھ تبدیلیاں لا کر ایک ملک میں سیاسی طور پر ایک باضابطہ جماعت بن جائے؟

تاریخی پس منظر

اس موضوع پر تحقیق کے لئے پہلے گروہ کے سرغنہ کی شخصیت پر تحقیق لازمی ہے۔ تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی جس کا اصلی نام احمد الشرع ہے، 1982ء میں سعودی عرب کے شہر ریاض میں پیدا ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا لقب "الجولانی" ان کے خاندان کے نام سے آیا ہے، جو شام کے جولان علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ الجولانی نے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں 2000ء میں القاعدہ میں شمولیت کے ساتھ شروع کیں۔ 2003ء میں کئی سالوں تک اس گروہ میں کام کرنے کے بعد وہ "سریہ المجاہدین" نامی ایک دہشت گرد گروہ میں شامل ہوئے جو القاعدہ کی عراق میں ذیلی شاخ تھا۔

الجولانی کو 2006ء میں امریکیوں نے عراق میں گرفتار کیا تھا اور 2010ء میں رہا کر دیا گیا۔ اس رہائی کے بعد 2011ء میں جب وہ شام میں دہشت گرد گروپوں میں شامل ہوئے۔ یہ واقعہ اس بات کا غماز تھا کہ امریکہ کا خطے میں کردار بالخصوص مزاحمتی محور کے خلاف کتنا واضح اور منفی تھا۔ الجولانی 2011ء میں عراق میں داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کے نمائندے کے طور پر سرگرم تھے اور بعد میں انہوں نے النصرہ فرنٹ تشکیل دی۔ 2013ء میں داعش سے علیحدگی کے بعد وہ دوبارہ القاعدہ کے سربراہ سے بیعت کرکے اس گروہ میں شامل ہوگئے۔

2016ء میں انہوں نے القاعدہ سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور "فتح الشام گروپ" قائم کیا، جس کا نام 2017ء میں "تحریر الشام" رکھا گیا۔ اس گروہ نے شام کی موجودہ تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے پہلے ترکی کی حمایت سے فائدہ اٹھا کر روس کی ثالثی کے ذریعے بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کی حالت میں تھا۔

تشکیل

عبد اللہ المحیسی، ابو طاہر الحموی اور عبد الرزاق المہدی نے اس گروپ کی تشکیل پر بنیادی کردار ادا کیا اور نئی تشکیل کا اعلان 28 جنوری 2017ء کو کیا گیا تھا۔ شام کے تجزیہ کار چارلس لیسٹر کے مطابق ، احرار الشام نے ایچ ٹی ایس سے 800-1000 کے قریب فریبوں کو کھو دیا ، لیکن اس نے انضمام سے کم از کم 6،000-8،000 مزید حصول اس کی صفور الشام ، جیش المجاہدین ، فتاق یونین اور مغرب کی صفوں میں حاصل کرلئے لیونٹ فرنٹ کے حلب یونٹ اور جیش الاسلام کے ادلیب میں قائم یونٹ۔ اس دوران جے ایف ایس نے احرار الشام سے کئی سو جنگجوؤں کو کھو دیا ہے۔

لیکن اس نے حرکت نور الدین زنکی ، لواء الحق ، جیش السنہ اور جبہت انصارالدین کو ایچ ٹی ایس میں ضم کرنے سے 3000-5000 جنگجو حاصل کرلئے۔ حکومت نواز میڈیا کے مطابق ، 28 جنوری 2017 کو ، جس دن تحریر الشام تشکیل دیا گیا تھا ، اس گروہ نے اپنی اشرافیہ یونٹوں ، "انجیمسی" کے قیام کا اعلان کیا ، جن میں سے کچھ ادلیب شہر میں تعینات تھے۔

پرانا مہرہ نیا نام، ھیئۃ تحریر الشام

اس مرتبہ عرب ممالک 2011ء کے برعکس اسد مخالف گروہوں کی حمایت کے معاملے میں محتاط ہیں، ترکیہ تحریر الشام کی پشت پر کھڑا ہے اور عالم اسلام کے عوام دوبارہ مسلکی شش و پنج سے دوچار ہیں۔ یہ اسرائیل کیلئے بہترین موقع ہے کہ وہ غزہ کے شمال میں نئی یہودی بستیاں بنائے، غزہ کے بیچ و بیچ ایک سکیورٹی زون قائم کرے، دنیا کی توجہ اسکی حرکتوں سے ہٹ کر ایک نئے محاذ کیجانب ہونے کو ہے۔ ایسے میں انسان بس یہی کہہ سکتا ہے کہ خدا "لا الہ الا اللہ" کہنے والوں کو حکمت و بصیرت بھی عطا کرے، تاکہ وہ اپنے حقیقی دشمن کی شناخت کرسکیں۔

شام میں "ھیئۃ تحریر الشام" نامی تنظیم نے ایک مرتبہ پھر بشار الاسد حکومت کے خلاف پیش قدمی کا آغاز کر دیا ہے، اس گروہ کی اچانک پیش قدمی کے سبب حکومتی افواج اور اس کے حامی گروہ حلب شہر میں کئی ایک اہم مقامات سے پسپائی پر مجبور ہوئے ہیں، جسے تزویراتی پسپائی قرار دیا جا رہا ہے۔ شامی حکومت کا کہنا ہے کہ ان دہشتگردوں کو حمص میں روکا جائے گا۔ شام میں حکومت مخالف کارروائیوں کا آغاز 2011ء میں بیداری اسلامی یا عرب بہار کے دوران ہوا۔

ھیئۃ تحریر الشام کا سرپرست کون؟

جس میں ترکی، مغربی اور عرب ریاستوں منجملہ اردن، عرب امارات، سعودی عرب، بحرین اور قطر کی آشیر باد اور سرپرستی میں کام کرنے والے مختلف گروہ پیش پیش تھے۔یہ تمام گروہ اپنے نظری اور فکری اختلافات کے باوجود انتہائی منظم انداز سے بہت تیزی سے دمشق کی مرکزی شاہراہوں تک پہنچ گئے۔ ان گروہوں کی ہم آہنگی، تربیت، سرپرستی اور آشیرباد کے حوالے سے بہت سے حقائق 2011ء سے 2016ء تک سامنے آئے۔

جن میں سابق قطری وزیراعظم کا یہ بیان بھی شامل تھا کہ یہ شامی صدر کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ایک کثیر ملکی منصوبہ تھا۔ سابق قطری وزیراعظم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اردن اور ترکی میں تربیت پانے والے ان جنگجوؤں کو امریکی اور اسرائیلی تزویراتی اور کمیونیکیشن مدد مہیا کرتے رہے اور اس کی فنڈنگ عرب ممالک نے کی۔ 2011ء میں شام میں حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے گروہوں میں فری سیرین آرمی، شامی فوج کا ایک باغی گروہ تھا۔

عناصر

داعش، جبھۃ النصرۃ شدت پسند عناصر تھے، جنھوں نے دمشق پر قبضے کے بعد حرم ہائے اہل بیؑت کو مسمار کرنے کا اعلان کیا، اسی طرح شامی کردوں کے دفاع کے لیے بھی ایک تنظیم قائم کی گئی، جسے امریکا کا تعاون حاصل رہا۔ 2011ء اور 2012ء میں داعش اور جبھۃ النصرۃ کی جانب سے شام میں موجود چند صحابہ کرام ؓ کے مزارات کی توہین کے واقعات نے پورے عالم اسلام میں تشویش پیدا کر دی۔

محبان اہل بیت ؑ و اصحاب رسولؐ تڑپنے لگے کہ وہ کسی طرح سے شام پہنچیں اور حرم ہائے مقدس کا دفاع کریں۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ حشد الشعبی کے قیام سے قبل عراقی نوجوان دمشق پہنچے اور حرم جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے ارد گرد موجود دہشتگردوں سے لڑتے رہے، اس وقت تک کوئی بھی ملک بحیثیت ریاست اس معرکے میں شریک نہیں ہوا تھا۔

اسی دوران میں عراق میں بھی داعش کے فتنے نے سر اٹھا لیا اور وہ موصل سے اٹھ کر سامرہ اور کاظمین کی حدود تک پہنچنے لگے، ساتھ ساتھ کربلا اور نجف میں موجود مزارات کو مسمار کرنے کے دعوے بھی سامنے آنے لگے۔ عراق میں داعش اس تیزی سے آئے کہ جس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ عراقی افواج کے بہت سے افسران ہتھیار پھینک کر یا تو داعش کا حصہ بن گئے یا پھر انھوں نے اپنی ذمہ داری یعنی عراقی عوام کے دفاع سے پہلو تہی کی۔

نوبت آئمہ اہل بیت ؑ کے مزارات کو دھماکوں سے اڑانے تک آن پہنچی۔ داعش نے ایک حملے میں سامرہ میں موجود امام علی نقی ؑور امام حسن عسکری کے مزار کو تباہ کر دیا۔ ایسے میں ایران میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قدس کے کمانڈر شہید قاسم سلیمانی وارد میدان ہوئے، انھوں نے عراق و شام میں تکفیریوں اور داعشی دہشت گردوں سے مقابلے کے لیے حزب اللہ اور عراقی کمانڈرز کے تعاون سے عوامی فورسز کی بنیاد رکھی۔

رد عمل

یہ وہ بے مثال جنگی صف بندی تھی، جو جنگ کے دوران ہی کی گئی، ایسے میں عراق کے مرجع عالی قدر سید علی حسینی سیستانی نے دفاع کا فتویٰ صادر کیا، جس کے سبب عراقی نوجوان سینکڑوں کی تعداد میں مزاحمتی محاذ کا حصہ بننے لگے۔ عراق میں مزاحتمی تنظیموں کا اتحاد معرض وجود میں آیا، جبکہ شام میں متعدد ممالک کے جنگجوو مختلف عناوین کے ساتھ برسر پیکار ہوگئے۔ ایک طویل جنگ کے بعد حشد الشعبی نے عراق میں داعش کو نابود کر دیا اور شام میں روسی فضائی تعاون کے ساتھ مختلف جنگجوو گروہ فری سیرین آرمی، جبھۃ النصرہ، داعش اور کرد جنگجوؤں پر تصرف پانے لگے۔

فری سیرین آرمی اور جبھۃ النصرہ کے بچے کچھے لوگ ادلب اور ترک سرحدی علاقوں میں چھپنے پر مجبور ہوئے اور شامی حکومت کے خلاف کسی بڑی کارروائی سے اجتناب کرتے رہے۔

27 نومبر 2024ء

برسوں کی خاموشی کے بعد 27 نومبر 2024ء کو عین حزب اللہ و اسرائیل کی جنگ بندی کے دن شام کے شمالی علاقوں میں "ھیئۃ تحریر الشام" نامی گروہ پھر سے منظر عام پر آیا اور حلب میں فتح کے جھنڈے گاڑنے لگا۔ حلب شام کا شمالی علاقہ ہے، جس کو گورنیٹ کہا جاتا ہے۔ حلب اور ترکی کے مابین ادلب کا گورنیٹ ہے، جہاں اہل سنت مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

خبروں کے مطابق تحریر الشام میں لڑنے والے نوجوان وہی ہیں، جو 2011ء کی خانہ جنگی میں ترکی کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔ ان نوجوانوں کو کس نے تربیت دی، یہ بذات خود اہم سوال ہے۔ 2011ء میں داعش سے جدا ہونے والی تنظیم جبهة النصرہ ہی آج "ھیئۃ تحریر شام" کے نام سے سامنے آئی ہے۔ سنہ 2016ء میں جبهة النصرہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے قطع تعلق کر لیا اور اس تنظیم کو تحلیل کرکے دیگر حکومت مخالف گروہوں سے اتحاد کرکے "ھیئۃ تحریر الشام" کی بنیاد رکھ دی۔

شام میں بنیاد پرست مذہبی حکومت قائم کرنا

القاعدہ سے تعلق توڑنے کے بعد "ھیئۃ تحریر الشام" کا بیان کردہ مقصد دنیا میں خلافت قائم کرنا نہیں بلکہ شام میں بنیاد پرست مذہبی حکومت قائم کرنا ہے۔ دیگر تفاصیل کے ہمراہ "ھیئۃ تحریر شام" کی حالیہ پیشقدمی کا وقت نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس پیشقدمی کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا گیا، جبکہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، پورا برس فلسطینی قتل ہوتے رہے، ھیئۃ تحریر شام نظر نہیں آئی، لبنان میں آبادیوں پر حملے ہوتے رہے، ھیئۃ تحریر الشام گمشدہ رہی۔

یہ گروہ ایسے وقت میں سامنے آیا، جب لبنان میں حزب اللہ کی قیادت میں سے اکثر شخصیات شہید کی جاچکی ہیں۔ حزب اللہ کی جنگی مشینری، اسرائیل کے مقابل لبنان کے تحفظ میں سرگرم عمل ہے، اسی طرح روس یوکرائن جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ ایسے میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ھیئۃ تحریر شام کے اصل اہداف کیا ہیں۔؟ اس سوال کا جواب نہایت سادہ ہے اور وہ یہ کہ دیکھنا چاہیئے کہ اس حملے سے حقیقی فوائد کسے حاصل ہوں گے۔

اگر بشار الاسد نہیں رہتا، حزب اللہ اور حماس کو ہتھیاروں کی ترسیل بند ہوتی ہے، روس کو اپنی افواج کو اس محاذ پر بھی مصروف کرنا پڑتا ہے تو یقیناً ان سب باتوں کا فائدہ اسرائیل اور ان مغربی قوتوں کو ہے، جو اس محاذ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ھیئۃ تحریر الشام والے تو شاید رافضیوں اور بشار الاسد سے کچھ پرانے حسابات بے باک کرنا چاہتے ہوں، تاہم وہ جنھوں نے ان کی بنیاد رکھی اور جنھوں نے ان کو پال پوس کر جوان کیا، ان کے اہداف کچھ اور ہیں۔ مسلمان کو اس قدر بھی سادہ نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ ہر ایرے غیرے کے ہاتھ میں کھلونا بنا رہے اور اپنے چھوٹے اہداف کے لیے اصل دشمن کو ہی فائدہ پہنچاتا رہے[1]۔

جنگ کے بعد شام کی صورتحال

حالیہ دنوں میں تحریر الشام کے دہشت گرد گروہ کی طاقت میں اضافے اور دمشق کے سقوط کے ساتھ علاقے کے ممالک اب اپنی سرحدوں کے قریب نئے چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں۔ جب تحریر الشام کے رہنما دمشق میں داخل ہوئے تو اس کا مطلب تھا کہ یہ گروہ شام کے دارالحکومت پر قابض ہو چکا ہے۔ اس نئی صورتحال میں جو ممالک شام کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، انہیں اس گروہ یا اس جیسے گروپوں کے ساتھ بات چیت کرنی ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ان گروپوں کو دہشت گرد، مخالف یا مسلح گروہ جیسی اصطلاحات سے خطاب کرنا ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔

دہشت گرد اور ان کے مجرمانہ کارنامے

گروہ تحریر الشام جس کا ماضی دہشت گردانہ کارروائیوں سے بھرا ہوا ہے، اگر وہ شام میں حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے ماضی سے فاصلہ اختیار کرنا ہوگا اور اپنے عمل میں نیا رویہ اپنانا ہوگا۔ اس وقت یہ گروہ شام کے سیاسی مستقبل میں اپنا کردار ادا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ چنانچہ یہ گروہ خطے کے ممالک اور بین الاقوامی سطح پر خود کو تسلیم کروانا چاہتا ہے، تو اسے شام میں موجود تمام گروپوں اور اقلیتی طبقات کی عزت کرنی ہوگی اور انہیں سیاسی عمل میں شامل کرنا ہوگا، چاہے وہ ہم آہنگ نہ ہوں۔

شام کی حالیہ صورتحال نے یہ واضح کر دیا ہے کہ دیگر گروپوں کے تعاون کے بغیر تحریر الشام کے لیے بڑی تبدیلیاں لانا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے شام کا مستقبل ایک اتحادی حکومت کی طرف بڑھنا چاہیے جس میں تمام اہم اور مؤثر گروپ شامل ہوں [2]۔

  1. پرانا مہرہ نیا نام، ھیئۃ تحریر الشام-islamtimes.com/ur- شائع شدہ از: 2 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 دسمبر 2024ء۔
  2. تحریر الشام کے مجرمانہ ریکارڈز، شام کے سیاسی افق پر چھائے گہرے بادل-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 9 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 دسمبر 2024ء۔