"ام" عربی زبان میں ماں کو کہتے ہیں ۔کیونکہ ماں بچہ کے لئے اصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ عربی زبان میں امام دو الفاظ ام سے مرکب ہو کر بنا ہے۔ ام کے لفظی معنی ابتدا، انجام، اصل اورجڑ کے ہیں۔ پس امام کے معنی ابتدا، اصل اور جڑ کے ہیں۔ چونکہ انسان کو ابتدا سے لے کر انجام تک یعنی شروع سے لے کر قیامت تک لے جانے والے صرف امام ہی ہیں اس لئے اسلامی فرقوں میں اماموں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

امام کے معنی

راہنما، بادی، پیش رو ( جمع ائمہ ) متکلمین کے نزدیک وہ شخص جو دین کو قائم رکھتا ہو اور رسول اللہ کا خلیفہ ( نائب ) ہو۔ محدثین کے نزدیک امام سے مراد محدث اور مفسروں کی اصطلاح میں حضرت عثمان کے حکم پر لکھے گئے قرآن مجید کے نسخےبھی امام کہلاتے ہیں۔ قرآن مجید کی رو سے لوح محفوظ ، راستے اور علمبردار شخص کو بھی امام کہتے ہیں ۔امام کا لفظ خاصے وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ عام طور پر اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی پیروی کی جائے یا جس کی اقتداء کی جائے۔ مسجد میں نماز پڑھانے والے کو بھی امام کہا جاتا ہے۔ جہاد میں سپہ سالار کو بھی امام ہی کہا جاتا ہے۔ نیز دینی علوم کے ان ماہرین کو بھی امام کہا جاتا ہے جنہوں نے اجتہاد سے کام لے کر فقہ وحدیث، تفسیر وکلام وغیرہ کی علمی بنیاد میں استوار کیں [1]۔

اہل تشیع کے نزدیک امام

اہل تشیع کے نزدیک امام کا خطاب حضرت علی اور ان اولاد کے لئے مخصوص ہے۔ ان کا فرقہ اثنا عشری حضرت علی کے بعد ان کی اولاد میں سے پہلے گیارہ افراد کو امام برحق سمجھتا ہے۔ فرقہ سبعیہ کے نزدیک اس کے مستحق پہلے سات امام ہیں۔

شیعوں کے عقیدے کے مطابق ایک امام غالب ہیں جو قیامت کے نزدیک مہدی کی صورت میں ظہور پذیر ہوں گے انہیں امام مہدی کہا گیا ہے۔ اسماعیلی، آغا خانی اور بوھرے فرقوں میں تو امامت تسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہے [2]۔

اہل سنت کے نزدیک امام

اہل سنت کے نزدیک امام کا مجتہد ہونا ضروری ہے۔ چار مجتہد اور امام، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل ہیں۔ کچھ مجتہد فی الذہب میں امام ابن تیمیہ، امام ابو یوسف، امام ابو داؤد، امام بخاری وغیرہ، دیگر علمائے شریعت مثلاً امام غزالی، امام رازی وغیرہ شامل ہیں۔

لغت ولسانیات کے کچھ علماء بھی امام کہلاتے ہیں ۔

عقیدہ امامت

جوکسی امام کا مقلد ہوگا قیامت میں رب تعالٰی بھی اپنے بندوں کو اماموں کے ساتھ پکارے گا۔ رب فرماتا ہے اس دن ہم ہر شخص کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ انبیا اور رسولوں کا کام خالق کے پیغام کو مخلوق تک پہنچانا ہے۔ خالق کا فرض تھا کہ وہ مخلوق کے لئے بھی کسی ہستی کو پیدا کرے جو مخلوق کو خالق تک لے جائے اس ہستی کو امام کہتے ہیں۔ گویا رسول اور نبی کا کام یہ ٹھہرا کہ وہ خالق کا پیغام مخلوق کو پہنچائے اور امام کا کام مخلوق کو خالق تک لے جائے۔ قیامت کے روز لوگ اپنے اپنے اماموں کے ساتھ پیش ہوں گے۔

اماموں کے متعلق نظریات

اسماعیلیہ کہتے ہیں کہ امام اس غرض سے ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ذات وصفات کی شناخت کرائے۔ اسماعیلیہ امام کو اللہ کی معرفت کا معلم قرار دیتے ہیں۔ امامیہ کہتے ہیں کہ معصوم یعنی امام کی ضرورت معرفت الہی کی تعلیم کے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے ہےکہ وہ واجبات عقلی وشرعی کے ادا کرنے اور قبائح عقلی وشرعی سے بچنے میں خدا کی طرف سے ایک لطف و کرم ہے۔

اہل سنت

سنی فرقہ کے نزدیک امام کا وجود مخلوق پر دلیل سمعی ( شرعی ) سے ثابت ہے ۔ سنی امام کو معصوم نہیں مانتے۔ اہلِ تشیع اور اہلِ سنت کا امام کے متعلق یہی اختلاف ہے۔ شیعہ اثنا عشری اماموں کو معصوم مانتے ہیں۔ اسماعیلیہ اور اثنا عشری کے نزدیک امام کا معصوم ہونا واجب ہے۔

اسلام میں امامت کا اختلاف

(1) جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہوا۔ امامت اور خلافت کا جھگڑا اُسی وقت شروع ہو گیا۔ ایک فرقہ حضرت علی کو حضور کا جانشین کہتا تھا دوسرا فرقہ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عثمان کو خلافت کا جانشین کہتا تھا۔ جو لوگ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کو مانتے تھے وہ گروپ (فرقہ ) سُنی کہلایا ۔ چونکہ سنی فرقہ کا یہ نظریہ تھاکہ حضرت ابو بکر صحابی تھے اور ہر وقت حضور کے ساتھ رہتے تھے اس لئے خلافت ان کا حق ہے۔ دوسرا یہ کہ حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی حضرت عائشہ حضور کی زوجہ تھی۔ اس لیئے لوگوں کی اکثریت ان کے ساتھ تھی۔

(۲) دوسرا گروپ جو حضرت علی کو جانشین مانتا تھا۔ اُن کا نظریہ تھا کہ امامت صرف حضور کے خاندان کے علاوہ کسی اور کا حق نہیں۔ وجہ یہ تھی کہ حضرت محمد نے اپنی زندگی میں خدا کے حکم سے امام علی علیہ السلام کی امامت کا اعلان فرمایا تھا ۔اور شیعوں نے متعدد قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احادیث کے ذریعے امام علی علیہ السلام اور دیگر اماموں کی امامت ثابت کی ہے۔

(۳) تیسرا گروپ جو ان دونوں کو نہیں مانتا تھا اور وہ صرف حضور کو مانتا تھا وہ خارجی مسلمان کہلائے۔

(۴) چوتھا فرقہ پھر ایک صدی کے بعد معرض وجود میں آیا وہ تصوف (صوفی ازم ) کا اور یہ پیران شیخ طریقت کہلائے۔ اس طرح اسلام کے چار فرقے بن گئے اور یہ

لوگ صرف اپنے اپنے اماموں کو ماننے لگ گئے ۔

1۔ سنی فرقہ کے لوگ فقہ کے چار ائمہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل کو ماننے لگے جو اپنا سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عثمان ،

حضرت عمر اور حضرت عائشہ تک مانتے ہیں۔

۲- شیعہ فرقہ حضرت علی علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد بارہ اماموں کو ماننے لگے اور اپنا سلسلہ حضرت علی سے حضور تک لے کر جانے لگے۔

۳۔اہل تصوف سلسلہ قادری، چشتی، سہروردی، نقشبندی کی تقلید کرنے لگے اور ان میں سے پہلے تین سلسلے اپنا تعلق حضرت علی سے جوڑتے ہیں اور چوتھا

نقشبندی اپنا سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق سے ملاتے ہیں اس طرح اسلام میں امامت کے جھگڑے سے فرقوں کی بنیاد پڑی۔

نظریہ

وہ فیصلہ جو قرآن وحدیث میں نہ ہو اور خُدا رسول کے حکم کے خلاف بھی نہ ہو اس کا نام اجتہاد ہے اور جو کوئی ایسا فیصلہ کر سکے اسے محبتد کہتے ہیں۔ تو حاصل کلام یہ ہے کہ ان اماموں نے دین اسلام کی باتوں میں اپنے اجتہاد سے ایسی باریکیاں نکالیں کہ جو کوئی سنتا ہے ان کی عقل کی داد دیتا ہے۔ اور اسلام میں نظریہ یہ ہے کہ اگر امام دین کی باتوں کو نہ بتاتے تو دین اندھیرے میں رہ جاتا۔

اثنا عشری اماموں کی علامات وصفات

  • امام آئندہ ہونے والے واقعات بتا دے (علم غیب)۔
  • امام ہر زبان اور بولی کو جانتا ہو۔ انسانوں، حیوانوں، چرند، پرند کی بولیاں سمجھے
  • امام وہ ہے جو مختون ( ختنہ شدہ ) پیدا ہو۔
  • امام وہ ہے جو سامنے سے اور پیچھے بھی دیکھ سکے۔
  • امام کی ولادت وفات پر دوسرے امام کا موجود ہونا ضروری ہے۔
  • امام وہ ہوتا ہے جس کا جسم کو ظاہر سو رہا ہو مگر دل ہر وقت بیدار رہتا ہے۔

امامت

(1) امامت وہ امتیازی اصول ہے جو شیعہ فرقہ اور دوسرے اسلامی فرقوں کے درمیان حد فاصل ہے۔

(۲) دوسرا یہ ہے کہ امام گناہوں سے معصوم اور عیبوں سے بری ہوتا ہے۔

(۳) تیسرا امام کی معرفت جزوایمان ہے۔

(۴) چوتھا کہ امامت کے حقدار صرف حضرت علی اور ان کی اولاد ہے۔

(۵) امام کا انتخاب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

(۶) امامت اہل تشیع کا اصل الاصول اور مرکزی نقطہ امام ہے [3]۔

رسول اور امام میں فرق

رسول کے پاس جبرائیل فرشتہ جب وحی لے کر آتا ہے تو رسول انہیں دیکھتے ہیں اُن سے بات چیت کرتے ہیں۔ مگر امام کے پاس فرشتہ جب وحی لے کر آتا ہے فرشتہ امام سے باتیں کرتا ہے مگر فرشتہ کو امام دیکھ نہیں سکتا۔

فقہ

فقہ لوگوں کی رائے کو کہتے ہیں فقہ ہر امام اور ہر فرقے کی علیحدہ علیحدہ ہے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ان سب کی اپنی اپنی فقہ ہے۔ فقہ حنفی بننے کے بعد ماتریدی بنا پڑتا ہے پھر قادری کبھی چشتی کبھی سہروردی ،کبھی نقشبندی فقہ دین کی سمجھ کو کہتے ہیں۔

فقیہ

ایسے عالم کو کہتے ہیں جو دین کی پوری سمجھ رکھا ہو اور لوگوں کو دینی مسئلے ایسے سمجھائے کہ اُن کو سمجھ آجائے ۔ یہ چاروں امام اپنے وقت کے بڑے فقیہ کہلاتے ہیں۔

سب نے ان کی برتری یعنی (اجتہاد ) کو مان لیا۔

ائمہ مجتہدین

(1) امام ابوحنیفہ (۲) امام مالک (۳) امام شافی (۴) عام احمد بن

حنبل کو سنی فرقے ائمہ مجتہدین کہتے ہیں۔

سواد اعظم

سواد اعظم سے مراد اہل سنت والجماعت ہے۔

جو فقہ کے چار ائمہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل کے مکتب فکر کے ارباب پر مشتمل ہے ان چاروں فقہ کے ائمہ کوسواد اعظم کہتے ہیں۔ اہل

سنت و جماعت کے چار فرقے ہیں ان کا آپس میں اصولی طور پر اتفاق ہے وہاں پر اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ اور روحانی سلاسل چشتیہ، قادریه، نقشبندیه، سہروردیہ و غیره

سب اپنے آپ کو اہل سنت و جماعت کہتے ہیں ان دونوں فرقوں فقہ اور تصوف کے درمیان نماز، روزہ، حج ، زکوۃ میں تقریباً کوئی اختلاف نہیں ۔ پانچ وقت نمازیں رمضان کا روزہ شادی بیاہ کے قوانین ایک جیسے ہیں یہ تمام فرقے سلاسل طریقت میں شامل ہیں [4]۔

امام ابو حنیفہ

امام ابوحنیفہ کا نام نعمان ابن ثابت ابن زوطی ہے۔ امام ابوحنیفہ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے، وفات ۱۵۰ ہجری میں پائی اُن کی کل عمر 70 سال تھی۔ امام ابو حنیفہ اسلام میں پہلے عالم دین ہیں جنہوں نے فقہ اور اجتہاد کی بنیادرکھ کر ساری امت رسول پر احسان کیا امام ابو حنیفہ تمام فقہاء و محدثین کے بلا واسطہ یا بالواسطہ استاد ہیں۔ امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل سب ان کے شاگرد ہیں ان کے علاوہ بلا واسطہ شاگرد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہیں جن میں سے اکثر محدثین ہیں ۔ اُمت محمدیہ کے بڑے بڑے اولیاء اللہ ،غوث و قطب، ابدال، اوتار امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں جس قدر اولیاء اللہ مذہب حنفی میں ہیں دوسرے مذہب میں نہیں ۔ مالکی شافعی خیلی غرضیکہ یہ سب حنفی مذہب کے اولیاء اللہ ہیں ۔ آج تقریباً سارے اولیاء اللہ حنفی میں اس طرح تمام چشتی، قادری، نقشبندی اور سہروردی مشائخ سب حنفی ہیں۔

لقب امام اعظم

امام ابوحیفه (امام اعظم ) شریعت کے امام اول ہیں اس لئے ان کو امام اعظم شریعت بھی کہتے ہیں امام اعظم کا مذہب حنفی ہے اکثر سنی مسلمان حنفی ہیں تمام ائمہ نے اس بنیاد پر عمارت قائم کی امام ابو حنیفہ تمام فقہا ء ومحد ثین کے اُستاد بھی ہیں۔ امام ابو حنیفہ نے حنیف کی نسبت سے یہ کنیت رکھی تھی کیونکہ وہ خدا کے معاملہ میں کسی کی زور عایت نہ کرتے تھے اور جو کچھ کہتے تھے حق سمجھ کر کہتے تھے کیونکہ وہ دین حنیف کے ماننے والے تھے۔ نعمان ابوحنیفہ پرانے مسلمان نہ تھے ، سید نہ تھے، صدیقی فاروقی نہ تھے، عثمانی اور علوی نہ تھے، کسی بادشاہ کے بیٹے نہ تھے، فارسی خاندان کے چشم و چراغ تھے مسلمان ہو جانے کے بعد زوطی کا نام بدل کر نعمان ہوا نعمان کے بیٹے ثابت اور ثابت کے بیٹے نعمان ابو حنیفہ ۔ امام اعظم صاحب نے اپنے دادا کے نام پر اپنا نام رکھ لیا تھا۔ امام ابو حنیفہ تابعی تھے امام ابوحنیفہ نے ۹۳ بزرگوں اور بڑے عالموں سے فیض حاصل کیا۔ تفسیر ، حدیث فقہ کا علم اور فیض اُن سے حاصل کیا اُن میں سے ایک کا نام سلمان ہے جو حضور پاک کی بی بی معمونہ کا نام تھا تو امام اعظم نے سلمان اور سالم دونوں بزرگوں سے حدیثیں نہیں اور سند لی اور امام باقر اور امام جعفر صادق سے بھی فیض حاصل کیا ماہ رجب میں انہوں نے جب وفات پائی قبل از دفن چھ بار نماز جنازہ پڑھی گئی۔ پہلی مرتبہ کم وبیش پچاس ہزار آدمیوں کا مجمع تھا دفن کے بعد ۲۰ دن تک لوگ جنازے کی نماز پڑھتے رہے۔ بغداد میں مقبرہ خیز زان کے باب الطاق میں دفن ہوئے امام ابوحنیفہ نے مذہب کا قانون اتنا سلجا دیا کہ کسی مسئلہ میں الجھاؤ نہیں ہوتا علماء کا خیال ہے کہ اگر امام ابوحنیفہ پیدا نہ ہوتے تو دین کی کتنی باتیں اندھیرے میں رہ جاتیں۔

حنفی مذہب

امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت اپنے علمی وعملی کمالات کی بدولت امام اعظم بھی کہلاتے ہیں تمام مشہور ائمہ فقہ میں سے تابعی ہونے کا شرف صرف امام ابو حنیفہ کو حاصل ہے امام ابوحنیفہ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ حنفی مسلک کے بانی بھی کہلاتے ہیں امام ابوحنیفہ کے مسلک کا نام اہل الرائے کے نام سے بھی مشہور ہے۔ حنفی مسلک چونکہ سلطنت عباسیہ کا عدل وقضا کے باب میں سرکاری مسلک تھا اہل عراق کا بالعموم یہی مذہب تھا۔ سلطنت عثمانیہ کا بھی سرکاری فقہی مسلک یہی تھا سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر ممالک یعنی ترکی ، مصر ، لبنان، تونس، البانی، بلقان، افغانستان، ترکستان، پاکستان و ہندوستان اور چین میں حنفی فقہ ہی غالب رہی ہے

دنیا بھر کے مسلمانوں کا ۲/۳ فقہی مسلک ہے۔

(1) یہ فقہ انسانی عقل و فکر سے قریب تر ہے۔

(۲) اس فقہ میں سادگی کا عنصر دوسرے مذاہب سے زیادہ ہے لہذا عوام کو اپیل کرتا ہے

(۳) اس فقہ میں ترامیم و اضافہ اور تغیر وتبدل کی وسیع گنجائش موجود ہے ہر زمانہ کے

احوال کے مطابق دیئے گئے احکام کو فقہ حنفی ہی کہا جاتا ہے۔

(۴) فقہ حنفی میں معاملات کے حصے میں وسعت اور استحکام جو تہذیب و تمدن کے لئے بہت ضروری ہے دوسری تمام فقہوں سے زیادہ ہے۔

(۵) فقہ حنفی نے غیر مسلم رعایا کو فیاضی سے حقوق بخشے ہیں جس سے نظام مملکت میں بڑی آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔

امام مالک

امام مالک ۹۰ھ میں مدینے کے اندر پیدا ہوئے۔ وفات: ۷۹ ہجری عمر : ۸۹ سال تھی امام مالک کے باپ کا نام انس تھا اُن کے

پردادا یمن کے رہنے والے تھے۔ عامر نام تھا اور مدینہ آگئے تھے امام مالک کے دادا کا نام بھی مالک تھا مالک بن عامر نے صحابہ کی زیارت کی تھی ۔ امام مالک نے

جب تک نافع زندہ رہے ان کے حلقہ درس میں رہے یہ نافع حضرت عائشہ کے بھانجے اور شاگرد تھے۔ جو لوگ حدیث کا علم رکھتے ہیں وہ شیخ الحدیث کا درجہ رکھتے

ہیں روایتوں کو اس طرح لکھتے ہیں [5]۔


سونے کی زنجیر

مالک نے سنا نافع سے اور نافع نے سنا حضرت عبداللہ بن عمر سے اس کو سونے کی زنجیر کہ کربھی پکارتے ہیں نافع کی عائد تھیں۔ امام مالک کی تمام تصانیف میں موطا کا درجہ سب سے بڑا ہے جسے علمائے دین نے قرآن کے بعد اول درجہ کی کتاب مانا ہے اور یہی وہ پہلا حدیث کا مجموعہ ہے جو مدینہ سے ضیابار ہوا قرآن کے بعد پہلی کتاب کلام الرسول ہے جو موطا کے نام سے اہل اسلام کے ہاتھ آئی۔ امام بخاری کی صحیح البخاری تقریبا سو سال بعد مرتب ہوئی تو یہ درجہ اس کو میسر آیا۔ ان کی فقہ کامدار اہلِ مدینہ کے علم و عمل پر ہے مالکی مذہب حجاز، مصر، بصرہ، سوڈان اور طرابلس میں غالب رہا ہے۔ اس مسلک پر عمل کرنے والوں کی تعداد چار کروڑ سے زائد ہے افریقہ میں اب تک مالکی مذہب غالب ہے مالکی فقہاء عقائد میں اشعری کے پیرو ہیں اور اشعریت میں انہیں غلو بھی ہے۔

مالکی فقہ کی خصوصیات

(1) اس فقہ میں اجتہاد کی کم نوبت آتی ہے زیادہ تر دارو مدار کتاب و سنت اور آثار صحابہ و تابعین پر رکھا جاتا ہے۔

(۲) کتاب وسنت اور اجماع و قیاس کے علاوہ اس فقہ میں عمل اہل مدینہ کو بھی ایک دلیل کا درجہ دیا جاتا ہے۔

(۳) اس فقہ میں مصالح مرسلہ ( مصلحت عامہ ) کو بھی اصول فقہ میں داخل کیا گیا ہے مالکی فقہ حنفی فقہ کے بالکل قریب ہے۔

(۴) اہل فقہ کے پیرو اہل حدیث کہلائے جب کہ حقیقی اہل الرائے کے لقب سے مشہور ہوئے۔

(۵) اس فرقہ میں تصنیف و تالیف کا وہ چرچا نہیں رہا جو حنفی اور شافعی مکاتب فقہ میں رہا ہے۔


(6) امام مالک جبری طلاق کو خلاف شریعت سمجھتے تھے امام مالک اگر کوئی جبر اور دباؤ سے طلاق دیدے تو اس طلاق کو طلاق نہیں مانتے اور زبردستی کی بیعت بھی خلاف شریعت سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بھی فتوی دے چکے تھے کہ خلافت نفس ذکیہ کا حق ہے ۔ فقہ مالکی بعض اوقات قیاس کو چھوڑ کر مصلحت عامہ کے موافق فتوئی

دیتے تھے اسے استعلاح کہتے ہیں۔

مشہور کتب

مختصر کبیر، مختصر اوسط، مختصر صغیر، کتاب المبسوط علی مذهب المالکیہ ۔

امام شافعی

شافعی مذہب کے بانی امام محمد بن ادریس شافعی ۱۵۰ ه (۱۷۶۷) میں صوبہ عسقلان بمقام غزہ میں پیدا ہوئے ۔ (۲۰۴ھ (۱۸۱۹) میں مصر میں وفات پائی دو برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ماں کی آغوش میں پرورش پائی دس برس کی عمر میں قرآن مجید اور موطا حفظ کر لیا۔ تیرہ سال کی عمر میں امام مالک کے درس میں شامل ہوئے۔ امام شافعی امام مالک کے شاگرد تھے بڑے بڑے ماہرین لغت، ائمہ اور مجتہدین نے امام شافعی کو مجتہدین کا سرتاج کہا ہے۔ وہ کلام عرب کے ماہر تھے اور بڑی وسیع معلومات رکھتے تھے ایک اندازے کے مطابق دنیا کے دس کروڑ مسلمان اس مسلک کے پیرو کار ہیں۔ مصر ،فلسطین ، اُردن، شام، لبنان، عراق، حجاز پاک و ہند میں پائے جاتے ہیں۔

شافعی فقہ

یہ مسلک امام محمد بن ادریس شافعی قریشی کی طرف منسوب ہے یہ امام مالک کے شاگرد تھے فقہ میں پہلے امام مالک کے پیرو تھے پھر کثرت اسفار اور تجربہ کی وسعت سے حنفی اور مالکی فقہ کے بین خود اپنا ایک الگ مسلک تجویز کیا۔ مصر آنے سے پہلے کے شافعی مذہب کو مذہب قدیم اور مصر آنے کے بعد والے مسلک کو مذہب جدید کہا جاتا ہے۔ مصر میں امام شافعی نے اپنے بہت اقوال سے رجوع کرکے جدید راے قائم کی تھی۔ انکی آمد سے پہلے حنفی اور مالکی تھا۔ لیکن اس کے بعد وہاں شافعی فقہ کا غلبہ ہوگیا۔ فاطمی حکومت نے اس فقہ کے رواج کو ختم کرایا مگر بعد میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے مصر کو فتح کر کے وہاں از سرنو شافعی فقہ رائج کی ۔ عراق اور فارس میں نظام الملک طوسی کے مدارس نے اور مصر و شام میں ایوبی خاندان کے حکمرانوں نے اس فقہ کو بہت تقویت پہنچائی۔

شافعی فقہ کے خصائص

  • یہ مسلک حنفی و مالکی مذاہب کے قریب قریب ہے۔ کیونکہ امام شافعی کو امام مالک اور محمد بن الحسن ہر دو کی شاگردی میسر آئی تھی۔
  • بر اختلافی مسئلہ میں امام شافعی کے دو قول ہیں قدیم اور جدید ۔
  • مذہب شافعی کے بانی اور شاگردوں کے فقہاء کو کثیر التصانیف ہونے کا شرف حاصل ہے۔
  • اکثر محدثین شافعی میں لہذا اب اہل الحدیث کا لقب مالکی کی بجائے تقریبا شافعی فقہاء کے لئے مخصوص ہو کہ رہ گیا ہے۔
  • اس مسلک میں استحسان اور مصالح مرسلہ کی نفی کی گئی ہے۔
  • علم عقائد و کلام میں اکثر شافعی حضرات اشعری ہیں۔
  • بڑے بڑے ائمہ تصوف بھی شافعی گزرے ہیں۔
  • علم اصول فقہ کی بنیاد و امام ابوحنیفہ نے رکھی لیکن امام شافعی اور اُن کے اصحاب و مقلدین نے بنایا۔
  • علم حدیث اور اصول حدیث کی خدمت میں بھی یہ حضرات پیش پیش رہے۔
  • امام شافعی لغت فقہ اور حدیث کے امام تھے اجماع ، اجتہاد کے موضوعات پر مفصل کلام کیا ۔ امام شافعی کی مشہور کتاب (الام) ہے جس میں انہوں نے عبادات، معاملات تعزیرات اور منا کات کے موضوعات پر فصل لکھا ہے۔

امام احمد بن حنبل

امام احمد بن حنبل قریش کے خاندان میں سے تھے ان کا شجرہ نسب حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے امام احمد بن مقبل شیبانی کی ولادت ۶۴ ھ بغداد میں ہوئی وفات ۲۳۱ ھ میں ہوئی عمرے کے 77سال تھی۔ بقول شاہ ولی اللہ کے امام احمد بن حنبل محدثین میں سے جلیل القدر تھے۔ امام احمد بن حنبل کے فقہی مسلک کی بنیاد پانچ اصولوں پر ہے۔

1) کتاب وسعت سے استدلال۔

(۲) صحابہ کے متفق علیہ قادی۔

(۳) ممالیہ کے مختلف اقوال بشر طیکہ کتاب سنت کے مطابق ہوں۔

(4) مرسل اور تعریف احادیث

(5) قیاس ظاہر ہے کہ اس مسلک میں اجتہاد و قیاس کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ مگران پر اجتہاد اور قیاس کی بجائے حدیث کا غلبہ ہے آج کل سلفی بالحدیث کا لقب بالعموم قبلی

حضرات کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔ حدیث کی کتاب مسند احمد کے علاوہ امام احمد بن حنبل کی اور بھی کئی تصانیف میں متلا کتاب الطاعة الرسول ، کتاب الصلوة

اور بھی بہت سی کتب ہیں۔ ابتدائی صدی میں حنبلی مذہب عراق تک محدود رہا پھر یہ مصر، شام تک پہنچا حنفی فقہ کے مانے والوں کی تعداد میں لاکھ سے زائد ہے [6]۔

حنبلی فقہ کی خصوصیات

(1) اس فقہ میں اجتہاد و قیاس کی نوبت شاذ و نادری ہے۔

(۲) حنبلی حضرات کا مسلک ظاہریہ سے قریب تر ہے وہ ظواہر حدیث اور الفاظ پر زیادہ انحصار رکھتے ہیں۔

(۳) ان حضرات میں تشدد و تعصب کا عنصر کافی حد تک نمایاں ہے۔ یہ لوگ سخت گیری سے امر بالمعرف ونہی عن المنکر کے قائل رہے ہیں ۔

(4) مشہور تصنیف المسند ہے اس میں چالیس ہزار سے زائد احادیث ہیں۔

(۵) امام احمد بن حنبل مسائل کا استنباط قرآن ، حدیث ، اقوال، وافتاء صحابہ کرام اور قیاس سے کرتے تھے۔

(۶) سعودی عرب کی حکومت کا یہ سرکاری فقہی مسلک ہے۔ اس فقہی مسلک کی اشاعت بہت کم رہی ہے موجودہ دور میں اس کا طوطی نجد حجاز میں بولتا ہے۔

ابن تیمیہ

شیخ تقی الدین احمد بن تیمیه مولانا شاہ ولی اللہ اپنی کتاب اشعری میں لکھتے ہیں کہ میں صفات الہی کے مسئلے میں اور اللہ کے فوق العرش ہونے کے بارے میں امام احمد کے مذہب پر ہوں اور اس میں شک نہیں کہ اللہ و عرش کے ساتھ جو خصوصیت ہے وہ اور مخلوق کے ساتھ نہیں۔

(۲) نبی ﷺ کی زیارت کو جانا ممنوع قرار دیتے ہیں زیارت کو منع نہیں کیا بلکہ خاص زیارت کے ارادے سے سفر اختیار کرنے کو منع کیا ہے۔

(۳) غوث و قطب و خضر سے انکار کیا ہے اور صوفیہ کے ساتھ اس بات میں متفق نہیں۔

(۴) محمد بن حسن عسکری کو امام محبوب نہیں مانتے۔ جو شیعہ کے نزدیک امام دواز دہم ہیں یہی عقیدہ اہل سنت کا بھی ہے،

(۵) ابن تیمیہ کا طلاق کے باب میں یہ عقیدہ ہے کہ جب عورت کو ایک کلمے سے تین طلاقیں دی جائیں تو ایک ہی طلاق لازم آتی ہے [7]۔

حوالہ جات

  1. موسیٰ خان جلائر، ۷۳ فرقے، کی فکشن ہاؤس ۱۸۔ مزنگ روڈ لاہور ۔ (۲) ائمہ مجتبدین ، مولانا مقبول احمد ، مکتبہ رشید یه قاری منزل پاکستانی چوک کراچی، ص79
  2. اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص257
  3. سید احمد حسین، بارہ امام،کتب خانہ اثنا عشری مغل حویلی اندرون موچی درواز و لاہور ص122
  4. محمد نجم الغنی خاں، مذہب سلام، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ص38
  5. پروفیسر میاں منظور احمد، فقہ واصول فقہ، علمی کتاب خانہ کبیر سٹریٹ اردو بازار لاہور، ص300
  6. چوہدری غلام رسول ایم ۔اے مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ ، ، علمی کتاب خانہ کبیر سٹریٹ اردو بازار لاہور، ص129
  7. نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، ص162