قاسم سلیمانی
قاسم سلیمانی | |
---|---|
پورا نام | قاسم سلیمانی |
دوسرے نام | لیفٹیننٹ جنرل سلیمانی، دلوں کا سردار |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1956 ء، 1334 ش، 1375 ق |
پیدائش کی جگہ | ایران |
وفات | 2019 ء، 1397 ش، 1440 ق |
وفات کی جگہ | عراق |
مذہب | اسلام، شیعہ |
مناصب |
|
قاسم سلیمانی، ایران کی قدس برگیڈ کے کمانڈر، جنہوں نے مزاحمتی محاذ کی سرگرمیوں کو مضبوط کرنے اور وسعت دینے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ وہ عراق کی طرف سے ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں مختلف کارروائیوں جیسے والفجر 8، کربلا 1 اور کربلا 5 میں موجود تھے۔ شہید سلیمانی نے مزاحمت کے محور گروپوں جیسے النجیاء موومنٹ، کتائب حزب اللہ اور زینبون و فاطمیون اور ایران اور شام کے کچھ جوانوں پر مشتمل ایک عوامی رضاکار فورس تشکیل دی اور شام و عراق میں داعش کے ظہور کےبعد سپاہ قدس کے کمانڈر کی حیثیت سے ان ملکوں میں حاضر ہوکر عوامی رضاکار فورس کو منظم کرکے داعش کا مقابلہ کیا۔ 30 نومبر 2016 کو آیت اللہ خامنہ ای کے نام ایک خط میں، انہوں نے دہشت گرد گروہ داعش کی حکومت کے باضابطہ خاتمے کا اعلان کیا۔ انہوں نے عرب اور غیر عرب اور مختلف قبائل کے ساتھ شیعہ و سنی اور اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
سوانح عمری
شہید قاسم سلیمانی 20 مارچ 1335 ہجری کو کرمان کےشہر رابر، قنات ملک نامی گاؤں میں پیدا ہوۓ۔ جب آپ اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کرمان گئے تو آپ کی عمر 11 سال سے زیادہ نہیں تھی۔ ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد، آپ نے تعمیراتی کارکن کے طور پر کام کیا اور بعد میں کرمان کے محکمۂ آب میں بطورملازم اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔
نوجوانی کا دور اور انقلاب اسلامی کی کامیابی
1357ہجری میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی آپ کرمان کے محکمہ آب میں ملازمت کے ساتھ ساتھ، کرمان کی سپاہ فورس میں رضکار کی حیثیت سےشامل ہوگئے۔ دفاع مقدس کے آغاز سے قبل وہ کرد باغیوں کا مقابلہ کرنے کےلئے ملک کے مغربی علاقوں میں گئے۔ انقلاب اسلامی ایران کی جد و جہد کے دوران ان کی ملاقات مشہد کے ایک عالم رضا غیب سے ہوئی جس نے انہیں انقلاب سے متعارف کرایا۔ شہید کے بھائی سہراب سلیمانی کا کہنا ہے کہ آپ انقلاب کے دوران کرمان کے مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں کے اہم منتظمین میں سے ایک تھے۔
دفاع مقدس کا آغاز
1359ہجری میں جب عراق نے ایران پر حملہ کیا تو حاج قاسم سلیمانی نے کرمان سے کئی بٹالین کو تربیت دی اور ان کے ساتھ ملک کے جنوب میں آپریشنل علاقوں میں گئے۔ وہ مغربی آذربائیجان کی فوج کے کمانڈر بھی تھے۔ کرد بغاوت کے خاتمے کے بعد، وہ کرمان واپس آئے اور کرمان فوج کے قدس گیریژن کے کمانڈر بن گئے۔
برگیڈ ثار اللہ کا قیام اور اس کی کمان
1360کے آخر میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل محسن رضائی نے جنرل سلیمانی کو ثار اللہ بریگیڈ کا کمانڈر مقرر کیا۔ وہ بہت ہوشیار اور ذہین تھے اور اس خصوصیت کو استعمال کرتے ہوئے وہ مختلف آپریشنز جیسے والفجر 8، کربلا 1، کربلا 5، اور کئی دوسرے آپریشنز میں بہت کامیاب رہے۔
قدس فورس کے دوسرے کمانڈر
1379میں انقلاب اسلامی کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے حکم سے سردار احمد واحدی کے بعد شہید قاسم سلیمانی کو قدس فورس کا دوسرا کمانڈر منتخب کیا گیا۔ اس فورس میں رہتےہوئے انہوں نے مزاحمتی سرگرمیوں کو مضبوط کرنے اور پھیلانے کی بہت کوششیں کیں۔ درحقیقت یہ شہید عماد مغنیہ کے شانہ بشانہ جنرل سلیمانی کی سرگرمیاں ہی تھیں جنہوں نے اس فورس کو مضبوط بنایا اور صیہونی حکومت فلسطین اور لبنان کے حوالے سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
میجر جنرل کے عہدے پر ترقی
بریگیڈیئر جنرل حاج قاسم سلیمانی کو 1389 میں آرمی کے سپریم کمانڈر اور رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔
مجرموں اورا سمگلروں کے خلاف جنگ
1367ہجری میں ایران- عراق جنگ کے خاتمے کے بعد، شہید سلیمانی کرمان واپس آئے اور ایران کی مشرقی سرحدوں سے آنے والے مجرموں کا مقابلہ کیا۔ قدس فورس کے کمانڈر کے طور پر تعینات ہونے سے پہلے وہ ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر منشیات فروش گروہوں سے لڑتے رہے۔
عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ
جنرل شہید قاسم سلیمانی کو مزاحمتی محاذ میں، خاص طور پر داعش کے خلاف لڑائی کے دوران ایک بہت ہی نمایاں شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ وہ پوری دنیا میں مزاحمتی محاذ بنانے میں کامیاب ہوئے اور اسی وجہ سے امریکہ ،صیہونی اور تمام کفار ان کے خلاف تھے۔ وہ دفاع مقدس میں 41ویں ڈویژن کے کمانڈر، لبنان میں 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی افواج کے منتظم اور پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر اور داعش اور جبہتہ النصرہ کے لئے ایک ڈراؤنا خواب تھے۔
داعش اور مغربی ایشیا میں اس کا تباہ کن کردار
جب داعش نے 2011 میں عراق اور شام میں اپنی پیش قدمی شروع کی تھی تو یہ سردار سلیمانی ہی تھے جنہوں نے ان علاقوں میں جاکر اور مزاحمتی محاذ بنا کر یزیدیوں کی کمر توڑ دی۔
اس وقت، دولتِ اسلامیہ نے عراق میں کئی دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دی۔ ابو عمر البغدادی کی گرفتاری کے بعد ابوبکر البغدادی کو 2010 میں اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ شام میں بحران کے آغاز کے ساتھ ہی دہشت گرد گروہ دولت اسلامیہ عراق وشام کے عناصر نے شام میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دی۔
داعش کے دہشت گرد بہت جلد عراق کے صوبہ الانبار کے شہر فلوجہ میں داخل ہوگئے اور 2014 کے آغاز میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے لوگوں کو بے رحمی سے قتل کیا اور اس کے بعد اس ملک کے مختلف شہروں میں نقل و حرکت بھی کی۔
جون 2014 میں داعش کے دہشت گردوں نے، جنہیں عراق اور مغربی ایشیا کی آزادی کے دشمنوں کی حمایت حاصل تھی، عراق کے صوبہ نینویٰ کے صدر مقام موصل پر حملہ کیا اور صرف چند گھنٹوں میں اس شہر پر قبضہ کر لیا۔
النجباء موومنٹ اور کتائب حزب اللہ جیسی قوتوں کے ساتھ ساتھ عراق میں حشد الشعبی اور شام کے عوامی رضا کار فورس جیسے گروہوں کے ساتھ مزاحمت کا محور بنا کر اور فاطمیون اور زینبیون اور ایران کے مدافعین حرم کو باہم متحدکرکے آپ داعش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئےا اور آخر کار بڑی ہمت کے ساتھ، جبکہ داعش کے بہت سے فوجی کمانڈروں کے مطابق، داعش شام کے صدارتی محل کے دروازے تک پہنچ چکا تھا اور کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ داعش کو شکست دی جا سکتی ہے، سردار سلیمانی نے مدافعین حرم کے ساتھ کھڑے ہو کر مغربی ایشیا کے خطے میں داعش کو مزید پھیلنے اور ابھرنے سے روکا۔
آخرکار، نومبر 2016 میں قاسم سلیمانی نے رہبر انقلاب کے نام ایک خط میں داعش دہشت گرد گروہ کی حکومت کے باضابطہ خاتمے کا اعلان کیا۔ شام کے شہر بوکمال میں داعش کے جھنڈے کو نیچے اتارتے ہی اس کا اعلان کیا گیا۔ درحقیقت یہ ایک مخلصانہ وعدہ تھا جس کا اعلان سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر نے اسی سال موسم گرما کے آخری دنوں میں لنگرود کے گلزار شہداء میں مزاحمتی محاذ کے کمانڈر شہید مرتضی حسین پور کی مجلس چہلم میں کیا تھا۔
حرم رضوی کا خادم
جولائی 2014 میں آستان قدس رضوی کے انچارج آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے حکم سے آپ کو حضرت علی بن موسیٰ علیہ السلام کے خادم ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
نشان ذوالفقار
آئی ایس آئی ایس کے خلاف جنگ میں جنرل سلیمانی کی موثر موجودگی اور اس گمراہ گروہ کی شکست کی وجہ سے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے انہیں ذوالفقار ملٹری میڈل سے نوازا جو ایران کا سب سے بڑا فوجی تمغہ ہے۔ 1398 میں اپنی شہادت کے بعد وہ لیفٹیننٹ کرنل کے فوجی عہدے تک پہنچے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجی تمغوں سے نوازنے کے ضوابط کے مطابق یہ تمغہ مسلح افواج میں اعلیٰ سطح کے کمانڈروں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز چیف آف اسٹاف کو دیا جاتا ہے، جن کے جنگی آپریشنز کی منصوبہ بندی اور ہدایت کاری کے اقدامات نے مطلوبہ نتائج حاصل کیے ۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سردار حاج قاسم سلیمانی یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے شخص ہیں۔ بلاشبہ شہید سلیمانی کو یہ تمغہ ملنے سے پہلے سپریم کمانڈر کے ہاتھوں سے تین اور تمغے مل چکے تھے۔
عالمی پوزیشن
2019میں، شہید قاسم سلیمانی کو اس خصوصی شمارے میں دفاع اور سلامتی کے شعبے میں دس اعلیٰ ترین مفکرین کی فہرست میں شامل کیا گیا جسے امریکی میگزین فارن پالیسی ہر سال دنیا کے 100 بہترین مفکروں کو متعارف کرانے کے لیے شائع کرتا ہے۔
شہادت
میجر جنرل حاج قاسم سلیمانی کو مجاہدانہ زندگی گزارنے کے بعد بالآخر 13 جنوری 2018 کی صبح امریکی ڈرون لیزر میزائلوں کے ذریعے حشد الشعبی کے نائب سربراہ شہید ابو مہدی المہندس، شہید سلیمانی کے دفتر کے مسؤول سردار پور جعفری اور شہید وحیدی زمانی نیا، شہید ہادی طارمی، اور حشد الشعبی کے استقبالیہ دفتر کے سربراہ شہید محمد رضا الجابری کے ہمراہ امریکی صدر کے حکم پر شہید کر دیا گیا ۔
رہبر انقلاب کا پیغام
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر ایک اہم پیغام جاری کیا :
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ملت عزیز ایران!
اسلام کے عظیم، باعث فخر اور مایۂ ناز کمانڈر عالم ملکوت کی جانب پرواز کر گئے۔گزشتہ شب شہدا کی پاکیزہ ارواح نے قاسم سلیمانی کی پاکیزہ روح کو اپنی آغوش میں لیا۔دنیا کے شیطانوں اور شرپسندوں کے مقابلے میں برسوں کی مخلصانہ اور شجاعانہ جد و جہد اور راہ خدا میں شہید ہونے کی ان کی آرزو رنگ لائی اور سلیمانی کو اس بلند و بالا مقام سے ہمکنار کیا اور ان کا خون بشریت کے شقی ترین افراد کے ہاتھوں زمین پر بہا دیا گیا۔ میں اس عظیم شہادت پر حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ اور خود شہید کی روح کی خدمت میں مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایرانی عوام کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔ وہ مکتب اسلام اور مکتب خمینی کے ہاتھوں پروان چڑھنے والوں میں ایک نمایاں چہرہ تھے جنہوں نے اپنی تمام تر عمر راہ خدا میں جہاد کرتے ہوئے گزاری۔ برسوں پر مشتمل ان کی انتھک جدو جہد کا پھل انہیں شہادت کی شکل میں ملا اور ان کے چلے جانے سے بلطف و اذن خدا ان کا مشن رکنے اور تعطل کا شکار ہونے والا نہیں ہے۔مگر سخت انتقام ان مجرموں کے انتظار میں ہے جنہوں نے اپنے ناپاک ہاتھوں کو ان کے اور گزشتہ شب شہید ہونے والوں کے خون سے رنگا ہے۔ شہید سلیمانی مزاحمتی و استقامتی محاذ کا ایک بین الاقوامی چہرہ ہیں اور اس محاذ سے وابستہ تمام افراد ان کی خونخواہی اور انتقام کے طالب ہیں۔ سبھی دوست اور سبھی دشمن یہ سمجھ لیں کہ مزاحمت و استقامت کی راہ مزید مستحکم عزم و حوصلے کے ساتھ جاری و ساری رہے گی اور یقینی طور پر کامیابی اس مبارک راہ میں گامزن رہنے والوں کے قدم چومے گی۔ ہمارے عزیز اور جانثار کی شہادت ہمارے لئے تلخ ضرور ہے مگر آخری کامیابی کے حصول تک اپنی جد و جہد قاتلوں اور مجرموں کے لئے اِس سے کہیں زیادہ تلخ ثابت ہوگی۔ ایرانی عوام شہید والا مقام میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ہمراہ شہید ہونے والوں بالخصوص عظیم مجاہدِ اسلام جناب ابو مہدی المہندس کی قدرداں رہے گی۔ میں ملک میں تین روزہ عام سوگ کا اعلان کرتا ہوں اور ان کی اہلیہ، ان کے بچوں اور دیگر اعزا و اقارب کو مبارکباد اور تعزیت پیش کرتا ہوں۔ [1]
سید علی خامنہ ای
۱۳ دی ۱۳۹۸ مطابق ۳ جنوری ۲۰۲۰
سیاسی و مذہبی شخصیات کا پیغام
ایران کے تینوں محکموں مجریہ ،مقننہ اور عدلیہ کے سربراہان اور ایران و عراق کے مراجع تقلید سمیت سیاسی اور مذہبی شخصیات نے الگ الگ پیغامات میں ان کی جرات، خلوص اور قربانیوں کی تعریف کی۔
لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ، یمن میں انصار اللہ کے رہنما سید عبدالملک بدر الدین الحوثی اور شام، لبنان، عراق اور ترکی کے صدر غیر ایرانی سیاسی شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے قاسم سلیمانی کےقتل کی مذمت کی۔ اسی طرح مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایران کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور امریکہ کے اقدامات کی مذمت کی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے منصوبہ بند قتل کو غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ایک امریکی مورخ یروند ابراہیمیان نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اہل ایران پہلے ہی امریکہ کو ایک سازشی حکومت سمجھتے تھے اور اب سے وہ مذکورہ حکومت کو دہشت گرد حکومت بھی تصور کریں گے۔ ایک امریکی فلم ساز مائیکل مور نے امریکی حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا اور امریکی حکومت کو واضح طور پر جنگجو قرار دیا۔
نتائج
- عراق سے امریکیوں کے انخلاء کے منصوبے کی منظوری: شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد عراق کی بعض سیاسی جماعتوں اور اس ملک کے متعدد افراد نے عراق سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کا مطالبہ کیا۔ 5 جنوری 2020 کو ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس میں عراقی پارلیمنٹ نے عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے ایک منصوبے کو منظوری دی۔ اگرچہ عراق سے امریکی افواج کو نکالنے کا معاملہ اس سے قبل حشد الشعبی کے ٹھکانوں پر امریکی حملوں کے بعد اٹھایا گیا تھا اور مرجع تقلید آیت اللہ سید کاظم حائری نے بھی عراق میں امریکی افواج کے قیام کو حرام قرار دیا تھا۔
- عین الاسد ایئر بیس پر ایران کا میزائل حملہ: 8 جنوری2020 کو پاسداران انقلاب اسلامی نے قاسم سلیمانی کےشہادت کے جواب میں عین الاسد ایئر بیس پر میزائل حملہ کیا جو عراق میں امریکی فوجی اڈہ تھا۔
- اسلامی جمہوریہ ایران کے کیلنڈر میں 3 جنوری کو مزاحمت کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔
ایران اور عراق میں سردار سلیمانی کی لاش کی تدفین میں کروڑوں لوگوں کی شرکت
قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ 4 جنوری 2020 کو ابومہدی المہندس اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ بغداد، کربلا اور نجف کے شہروں میں عراق کی سیاسی اور مذہبی شخصیات اور عام عوام کی موجودگی میں ادا کی گئی۔ کربلا میں روضہ حضرت عباس کےمتولی سید احمد الصافی نے اور نجف میں شیخ بشیر نجفی نے ان پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس کے بعد ایرانی شہداء اور ابو مہدی المہندس کے جسد خاکی کو ایران منتقل کیا گیا اور 5 جنوری کو اہواز اور مشہد میں اور 6 جنوری کو تہران اور قم میں دفن ان کی تشییع کی گئی۔ قاسم سلیمانی کی میت کو 7 جنوری کو کرمان لایا گیا اور 8 جنوری 2020 کو اسی شہر میں سپرد خاک کیا گیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 6 جنوری 2020 کو تہران میں قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس اور ان کے دیگر ساتھیوں کی میت پر نماز ادا کی۔ روسی نیوز سائٹ "روسیا الیوم" نے ان کی تشیع جنازہ کو امام خمینی کی تشییع جنازہ کے بعد تاریخ کی سب سے تشیع جنازہ قرار دیا۔ کرمان میں قاسم سلیمانی کی تشییع جنازہ کے دوران ہجوم کی وجہ سے متعدد افراد فوت اور زخمی ہوئے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ترجمان کے مطابق سلیمانی کی نماز جنازہ میں تقریباً 25 ملین افراد نے شرکت کی۔
سلیمانی کے چالیسویں کی تقریب ایران اور بعض دیگر ممالک کے مختلف شہروں میں منعقد ہوئی۔ تہران میں یہ تقریب 24 فروری 2020 کو امام خمینی کے مزار پر منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں قدس فورس کے کمانڈر اسماعیل قاآنی نے قاسم سلیمانی کا وصیت نامہ پڑھا۔ رہبر معظم کی پیروی اور حمایت، شہداء کے بچوں کا خیال رکھنا اور ایرانی مسلح افواج کا احترام ان کی وصیت میں شامل ہے [2]۔
شہید قاسم سلیمانی اور عالم اسلام کا اتحاد
اس سلسلے میں آپ کہتے ہیں: تکفیر اور تکفیری خود برادران اہل سنت کے گھروں کو جلانے کے درپے ہے۔جن لوگوں نے تکفیر کو جنم دیا وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اس طرح وہ جمہوری اسلامی ایران اور شیعوں کو جھکنے پر مجبور کر دیں گے۔آج تکفیری جماعتوں کے ہاتھوں انسانیت کے اوپر سب سے زیادہ حملے خود سنی دنیا میں ہو رہے ہیں۔ کیا اسلامی جمہوریہ کا جان و مال سے مسلمانوں کا دفاع کرنا کوئی مہم جوئی ہے؟کیا اسلامی جمہوریہ کا ایک ایسے گروہ کا مقابلہ کرنا غلط کام ہے جو ایک علاقے میں 2000 نوجوان عورتوں کی خرید و فروخت کرتا ہے؟۔
اسلامی دنیا میں اسلامی جمہوریہ کا مقام
آپ یقین رکھتے ہیں اور اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ کیا یہ بڑا عیب ہے کہ اسلامی جمہوریہ اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے اور مسلمانوں کی مسجدوں اور گھروں کی حفاظت کررہا ہے اور ان کی تخریب میں رکاوٹ بن رہاہے۔ چونکہ اسلامی جمہوریہ کو عالم اسلام اور شیعیت میں مرکزیت حاصل ہوئی ہے، اس لئے دشمنی میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور آج کی دشمنی کل کے محاذ سے بالکل مختلف ہے اور استعمال کیے جانے والے ہتھیار بھی مختلف ہیں۔
سردار سلیمانی بعض سنی علماء کی نظر میں
اس سلسلے میں جمعیت علمائے اہل سنت عراق کے سربراہ شیخ خالد المولا نے عالم اسلام کے اتحاد کے دفاع میں جنرل سلیمانی کے کردار کے بارے میں کہا: جب عراق کے سنی علاقوں پر داعش کا قبضہ ہوا اور امریکہ اور عرب ممالک نے عراق کو تنہا چھوڑ دیا تاکہ داعش بغداد پر قبضہ نہیں کر لے تو اس وقت شہید قاسم سلیمانی نے کہا: ہم بغداد پر داعش کو قابض نہیں ہونے دیں گے۔
مسجد النبی اہل سنت بجنورد کے امام جمعہ امان دردی آخوند یزدانی، نے کہا: شہید سلیمانی نہ صرف اپنی زندگی میں دنیا کے مظلوموں کے لئے باعث خیر و برکت تھے بلکہ ان کی شہادت بھی خیر و برکت اور امت مسلمہ کی وحدت کا سبب بنی۔
اس سلسلے میں سنندج شہر کے عبوری امام جمعہ نے بھی کہا کہ عالمی استکبار کا جرم اہل سنت کے نقطہ نظر سےقابل مذمت ہے اور شہید سلیمانی کا مشن شدت کے ساتھ آگے بڑے گا۔ [3]
گیلری
سید حسن نصراللہ کے ساتھ سردار