"سید محمد ہادی میلانی" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
| سطر 40: | سطر 40: | ||
۱۳۲۰ھ ش کی دہائی میں تجدیدِ حیات اور تثبیت کے مرحلے سے گزرنے کے بعد، ۱۳۳۰ھ ش کی دہائی میں حوزۂ علمیہ مشہد نے ایک نمایاں علمی و فکری ترقی کا آغاز کیا۔ اس ترقی کی بنیادی وجہ سید محمد ہادی میلانی کی مشہد ہجرت اور وہاں دو دہائیوں سے زائد قیام تھا۔ | ۱۳۲۰ھ ش کی دہائی میں تجدیدِ حیات اور تثبیت کے مرحلے سے گزرنے کے بعد، ۱۳۳۰ھ ش کی دہائی میں حوزۂ علمیہ مشہد نے ایک نمایاں علمی و فکری ترقی کا آغاز کیا۔ اس ترقی کی بنیادی وجہ سید محمد ہادی میلانی کی مشہد ہجرت اور وہاں دو دہائیوں سے زائد قیام تھا۔ | ||
۱۳۳۲ھ ش میں مشہد کے ممتاز علما نے، تاکہ باصلاحیت طلبہ اور اساتذہ کی قم اور نجف کی طرف ہجرت روکی جا سکے، [[کربلا]] میں مقیم سید محمد ہادی میلانی سے مشہد آنے اور تدریس کی درخواست | ۱۳۳۲ھ ش میں مشہد کے ممتاز علما نے، تاکہ باصلاحیت طلبہ اور اساتذہ کی قم اور نجف کی طرف ہجرت روکی جا سکے، [[کربلا]] میں مقیم سید محمد ہادی میلانی سے مشہد آنے اور تدریس کی درخواست کی <ref>صالحی، مشهد، ص۱۰۰</ref>۔ | ||
میلانی ۱۳۳۳ھ ش میں مشہد آئے اور ۲۲ برس تک عملاً حوزۂ علمیہ مشہد کی قیادت کی۔ مرجعیت کے منصب پر فائز ہونے کے ساتھ، بالخصوص [[سید محمد حسین بروجردی|آیتاللہ بروجردی]] کی وفات کے بعد، انہوں نے جدید طرز کے مدارس قائم کیے اور تعلیمی و تحقیقی نظام کو منظم کیا۔ | میلانی ۱۳۳۳ھ ش میں مشہد آئے اور ۲۲ برس تک عملاً حوزۂ علمیہ مشہد کی قیادت کی۔ مرجعیت کے منصب پر فائز ہونے کے ساتھ، بالخصوص [[سید محمد حسین بروجردی|آیتاللہ بروجردی]] کی وفات کے بعد، انہوں نے جدید طرز کے مدارس قائم کیے اور تعلیمی و تحقیقی نظام کو منظم کیا۔ | ||
ان کے درسِ خارج اصول میں شیخ محمد حسین غروی اصفہانی اور محمد حسین نائینی کے علمی مبانی محور تھے۔ ان کے درس میں تقریباً چار سو مجتہد بننے کے قریب طلبہ شریک ہوتے تھے۔ | ان کے درسِ خارج اصول میں شیخ محمد حسین غروی اصفہانی اور محمد حسین نائینی کے علمی مبانی محور تھے۔ ان کے درس میں تقریباً چار سو مجتہد بننے کے قریب طلبہ شریک ہوتے تھے۔ | ||
== آیتاللہ میلانی کے اقدامات == | == آیتاللہ میلانی کے اقدامات == | ||
زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے دینی مدارس کے قیام اور سرپرستی پر خصوصی توجہ دی، جن میں: | زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے دینی مدارس کے قیام اور سرپرستی پر خصوصی توجہ دی، جن میں: | ||
نسخہ بمطابق 21:54، 24 دسمبر 2025ء
سید محمد ہادی حسینی میلانی(۱۳۱۳–۱۳۹۵ھ)، چودھویں صدی ہجری کے ممتاز شیعہ مراجعِ تقلید میں شمار ہوتے ہیں۔ آیت اللہ میلانی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ عراق میں گزارا اور وہاں شیخ الشریعہ اصفہانی، آقا ضیاء عراقی اور محمد حسین نائینی جیسے اکابر علما کے دروس سے استفادہ کیا۔ وہ ۱۳۳۲ھ ش میں مشہد مقدس میں مقیم ہوئے۔ رہبرِ انقلاب اسلامی ایران، سید علی خامنہای نے بھی ایک مدت تک ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے۔ میلانی کی تصانیف میں محاضرات فی الفقه الامامیہ اور قادتنا کیف نعرفهم نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ آیتاللہ میلانی سیاسی و سماجی میدانوں میں بھی فعال تھے۔ وہ انقلابِ اسلامی ایران، اس کی قیادت اور عراق کے عوامی اسلامی تحریک کے حامی تھے۔ انہوں نے متعدد دینی مدارس کے قیام میں کردار ادا کیا، جن میں مدرسۂ حقانی بھی شامل ہے۔ ان کی مشہد میں موجودگی سے وہاں کی حوزۂ علمیہ کو نمایاں فروغ حاصل ہوا۔
زندگی نامہ
سید محمد ہادی میلانی ۷ محرم ۱۳۱۳ھ کو نجف اشرف میں پیدا ہوئے۔ ان کا نسب امام علی بن حسین زین العابدینؑ تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد سید جعفر حسینی، محمد حسن مامقانی کے شاگرد تھے۔ سید محمد ہادی نے کم عمری میں اپنے والد کو کھو دیا [1]۔ ان کی والدہ، محمد حسن مامقانی کی صاحبزادی تھیں اور ان کی اہلیہ، عبد اللہ مامقانی (جو سید محمد ہادی کے ماموں تھے) کی بیٹی تھیں، جو تنقیح المقال کے مؤلف تھے۔
میلانی نے اپنی تعلیم نجف میں شروع کی اور وہیں تدریس بھی کرنے لگے۔ انہوں نے کئی بار ایران کا سفر کیا۔ ۱۳۳۲ھ ش میں جب وہ امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لیے مشہد گئے تو وہاں کے عوام اور خراسان کے بعض علما کے اصرار پر وہیں قیام پذیر ہو گئے اور درسِ خارج فقہ و اصول کا آغاز کیا۔ وہ ۲۹ رجب ۱۳۹۵ھ (مطابق ۱۷ مرداد ۱۳۵۴ھ ش) کو ۸۲ برس کی عمر میں مشہد میں وفات پا گئے اور حرمِ امام رضا علیہ السلام میں دفن کیے گئے۔
اساتذہ
- شیخ ابو القاسم مامقانی
- شیخ الشریعہ اصفہانی
- آقا ضیاء عراقی
- میرزا حسین نائینی
- محمد حسین غروی اصفہانی
- محمد جواد بلاغی
- غلام علی قمی سامرائی
- سید ابو القاسم خوانساری
- شیخ ابراہیم سالیانی
- سید جعفری اردبیلی
- میرزا علی ایروانی
- میرزا ابراہیم ہمدانی
- ملا محسن تبریزی
مشایخِ اجازت
- سید حسن صدر
- عبد الحسین شرف الدین
- شیخ عباس قمی
- آقا بزرگ طہرانی
شاگردان
- سید علی خامنہای
- عزیز اللہ عطاردی
- سید محمد حسینی زنجانی
- محمد رضا شفیعی کدکنی
- محمد تقی جعفری
- کاظم مدیر شانہ چی
حوزۂ علمیہ مشہد میں تحول
۱۳۲۰ھ ش کی دہائی میں تجدیدِ حیات اور تثبیت کے مرحلے سے گزرنے کے بعد، ۱۳۳۰ھ ش کی دہائی میں حوزۂ علمیہ مشہد نے ایک نمایاں علمی و فکری ترقی کا آغاز کیا۔ اس ترقی کی بنیادی وجہ سید محمد ہادی میلانی کی مشہد ہجرت اور وہاں دو دہائیوں سے زائد قیام تھا۔
۱۳۳۲ھ ش میں مشہد کے ممتاز علما نے، تاکہ باصلاحیت طلبہ اور اساتذہ کی قم اور نجف کی طرف ہجرت روکی جا سکے، کربلا میں مقیم سید محمد ہادی میلانی سے مشہد آنے اور تدریس کی درخواست کی [2]۔
میلانی ۱۳۳۳ھ ش میں مشہد آئے اور ۲۲ برس تک عملاً حوزۂ علمیہ مشہد کی قیادت کی۔ مرجعیت کے منصب پر فائز ہونے کے ساتھ، بالخصوص آیتاللہ بروجردی کی وفات کے بعد، انہوں نے جدید طرز کے مدارس قائم کیے اور تعلیمی و تحقیقی نظام کو منظم کیا۔
ان کے درسِ خارج اصول میں شیخ محمد حسین غروی اصفہانی اور محمد حسین نائینی کے علمی مبانی محور تھے۔ ان کے درس میں تقریباً چار سو مجتہد بننے کے قریب طلبہ شریک ہوتے تھے۔
آیتاللہ میلانی کے اقدامات
زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے دینی مدارس کے قیام اور سرپرستی پر خصوصی توجہ دی، جن میں:
- مدرسۂ حقانی: ابتدا ہی سے مالی و معنوی حمایت، جو ۱۳۵۷ھ ش تک جاری رہی۔
- مدرسۂ امام صادقؑ: مشہد میں مسجد شاہ کے قریب قائم ہوا۔
- ایک اور مدرسہ جس میں ۵۰۰ طلبہ زیرِ تعلیم تھے، بعد میں منہدم ہو کر فلکۂ آستانہ میں شامل ہو گیا۔
- بتدائی و متوسط درجے کے لیے ایک مدرسہ، جہاں خط، انشا، املا، ریاضی، صرف، نحو اور منطق پڑھائی جاتی تھی (مدت: ۶ سال)۔
- اس کے بعد اعلیٰ متون کے لیے الگ مرحلہ، جس میں فقہ، اصول، کلام، تفسیر، حدیث، نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ اور تاریخِ ادیان شامل تھے (مدت: ۵ سال)۔
طلبہ جدید درسی کتب جیسے عربی آسان اور اصول الفقہ مظفر سے بھی تعلیم حاصل کرتے تھے، جو اس سے قبل مشہد میں رائج نہ تھیں۔ اس مرحلے کے لیے پہلا مدرسہ ۱۳۴۵ھ ش میں “مدرسۂ آیتاللہ میلانی” کے نام سے قائم ہوا۔ یہ مدارس مشہد کے پہلے حوزوی مدارس تھے جہاں باقاعدہ امتحانات کا نظام رائج ہوا۔
آیتاللہ میلانی تبلیغِ دین کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے۔ ان کی سرپرستی میں متعدد علما کو ایران کے مختلف شہروں اور دیہات میں تبلیغ کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ انہوں نے غیر حوزوی دینی اداروں، جیسے **کانون نشر حقائق اسلامی** (قائم کردہ: محمد تقی شریعتی) کی بھی حمایت کی، جس نے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے میں دینی افکار کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
سیاسی سرگرمیاں
آیتاللہ میلانی نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز عراق میں جوانی کے زمانے میں کیا۔ انہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف عراقی مسلمانوں کی تحریک میں حصہ لیا۔ مشہد آمد کے بعد وہ نہضتِ ملی تیل کے کارکنان سے قریبی رابطے میں رہے اور ۱۵ خرداد ۱۳۴۲ھ ش کی تحریک میں روحانیت کے پیشرو علما میں شامل تھے۔
کاپیٹولیشن کے مسئلے میں انہوں نے امام خمینی کا ساتھ دیا۔ ۱۳۴۶ھ ش میں جنگِ شش روزہ کے موقع پر عرب مسلمانوں کی حمایت میں بیان جاری کیا، جس پر انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں۔ شاہ کو تاج پوشی پر مبارکباد نہ دینے کے سبب ان کا پاسپورٹ ضبط ہوا، مگر عوامی نفوذ کے باعث فیصلہ نافذ نہ ہو سکا۔
تصانیف
- محاضرات فی الفقه الامامیہ (۱۰ جلدیں)
- قادتنا کیف نعرفهم؟ (۹ جلدیں)
- تفسیر سورۂ تغابن و جمعہ
- توضیح المسائل
- دیدگاههای علمی
- حاشیہ بر مکاسب
- قواعد فقهیہ و اصولیہ
- مختصر الاحکام
- ایک سو دس پرسش (ائمہؑ کے بارے میں)
- مناسکِ حج
- متعدد فقہی و اصولی رسائل
اولاد
آیتاللہ میلانی کے تین بیٹے (سید نور الدین، سید عباس، سید محمد علی) اور ایک بیٹی تھیں۔
بیرونی ممالک دورہ جات
۱۳۷۰ھ میں حج، ۱۳۵۹ھ میں شام و لبنان کا سفر کیا، جہاں سید عبد الحسین شرف الدین، سید محسن امین اور دیگر علما سے ملاقات کی۔ چھٹے سفرِ ایران میں روزِ عرفہ مشہد آئے اور علما و عوام کی درخواست پر وہیں مستقل قیام اختیار کیا۔