|
|
| سطر 106: |
سطر 106: |
|
| |
|
| یہی وجہ ہے کہ بعض روایت پسند علما اور اعتدال پسند لوگ ان کی حمایت کرتے تھے۔ تاہم وہ تبلیغ اِس بات کی کرتے تھے کہ سلطان/ خلیفہ سے وفاداری مشروط ہونی چاہیے۔ مشروط سے ان کی مراد یہ تھی کہ خلافت کو ’’آئینی‘‘ ہونا چاہیے اور یہ ان کا نیا ’’اجتہاد‘‘ تھا۔ مسلم حکمران ابھی ماضی میں جی رہے تھے، جبکہ زمانہ بدل گیا تھا۔ وہ مطلق العنان تھے۔ جابر و آمر تھے۔ نااہل اور ناقابل تھے، اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر رعایا کے مفادات کو قربان کرسکتے تھے<ref>[https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2018-01-21/20570 سید جمال الدین افغانی اور آمریت، تحریر : جاوید اقبال]-شائع شدہ از: 21 جنوری 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 ستمبر 2025ء</ref>۔ | | یہی وجہ ہے کہ بعض روایت پسند علما اور اعتدال پسند لوگ ان کی حمایت کرتے تھے۔ تاہم وہ تبلیغ اِس بات کی کرتے تھے کہ سلطان/ خلیفہ سے وفاداری مشروط ہونی چاہیے۔ مشروط سے ان کی مراد یہ تھی کہ خلافت کو ’’آئینی‘‘ ہونا چاہیے اور یہ ان کا نیا ’’اجتہاد‘‘ تھا۔ مسلم حکمران ابھی ماضی میں جی رہے تھے، جبکہ زمانہ بدل گیا تھا۔ وہ مطلق العنان تھے۔ جابر و آمر تھے۔ نااہل اور ناقابل تھے، اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر رعایا کے مفادات کو قربان کرسکتے تھے<ref>[https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2018-01-21/20570 سید جمال الدین افغانی اور آمریت، تحریر : جاوید اقبال]-شائع شدہ از: 21 جنوری 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 ستمبر 2025ء</ref>۔ |
| جمال الدین افغانی اور اقبال
| |
|
| |
| ڈاکٹر محمد ریاض
| |
|
| |
| سید جمال الدین اسد آبادی افغانی انیسویں صدی عیسوی کے صف اول کے با اثر مسلمان زعما میں سے تھے۔ علامہ اقبال نے ا ن کی مساعی و نظریات کا بڑا اثر قبول کیا ہے۔ علامہ مرحوم نے اپنی تصانیف اور بیانات میں افغانی کاکئی بار ذکر کیا اور ان کی متنوع اور انقلابی خدمات کو سراہا ہے۔ ’’بمبئی کرانیکل ‘‘ کے ایک نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے پین اسلامزم کی اصلاح سے بحث کی اور ا فغانی کی اس فکر صائب کو سراہا کہ افغانستان، ایران اور ترکی کو برطانیہ کے استعماری عزائم کے خلاف متحد ہو جانا چاہئے (۱)۔ اپنے انگریزی خطبات میں علامہ نے ایک جگہ افغانی کی تحریک اتحاد عالم اسلامی کی طرف ضمنی اشارہ کیا اور اسی کتاب کے چوتھے خطبے ’’انسانی انا، اس ی حریت اور باقا‘‘ میں فرمایا ہے :’’ ہمارا فرض ہے کہ ماضی سے اپنا رشتہ توڑے بغیر اسلام پر بحیثیت ایک نظام فکر کے دوبارہ غور کریں۔ بظاہر شاہ ولی اللہ دہلوی نے سب سے پہلے بیداریِ روح کا احساس دلایا مگر اس کام کی اہمیت کا اندازہ شید جمال الدین افغانی کو تھا جو اسلام کی ملی حیات اور ذہنی تاریخ میں عمیق نظر رکھنے کے علاوہ انسانی عادات و خصائل کا بے نظیر تجربہ رکھتے تھے۔ ان کی نظر میں بری وسعت تھی اس لئے ان کی ذات ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک زندہ رابطہ بن سکتی تھی۔ اگر ان کی عدیم النظیر صلاحیتیں اس کا (اسلامی اجتہاد) کی خاطر وقف ہوتیں اور وہ اسلامی علم و عمل کی قوتوں کو مزید نمایاں کر لیتے، تو ہم مسلمان آج فکری طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو سکتے تھے۔ ‘‘(۲)
| |
|
| |
| اقبال کے دوسرے بیان میں بھی افغانی کا ارادت مندانہ ذکر ملتا ہے۔ 1934 ء۔ 1935ء میں انہوں نے احمدیت اور قادیانیت کے بارے میں چند بیانات دیئے۔ عجیب بات ہے کہ آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو بھی اپنے خاص مقاصد کے تحت اس معاملے میں دلچسپی لے رہے تھے۔ پنڈت جی کے ایک بیان کے جواب میں علامہ نے تجدید دی کے موضوع پر گفتگو فرمائی اور متاخر مسلمان مصلحین کا ذکر کیا۔ آپ نے شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی، سر سید احمد خاں، مفتی عالم جان، سید جمال الدین افغانی اور مفتی شیخ محمد عبدہ کے بارے میں فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو مذہبی اور روحانی پیشوائیت کے دعویداروں کے ہاتھوں اور ملوکیت کے چنگل سے نجات پانے کی راہ بتائی اور ان ہی کی مساعی کے نتیجے میں سعد زاغلول پاشا،مصطفی کمال پاشا اتاترک اور شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی اصلاحات ممکن ہو سکی ہیں۔ اس سیاق میں آپ فرماتے ہیں :’’ قدرت خداوندی کے انداز بھی حیرت انگیز ہیں دینی فکر و عمل کے لحاظ سے موجود ہ دور کا سب سے ترقی یافتہ مسلمان افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔۔۔ ‘‘ مولانا سید جمال الدین افغانی نے لکھا کم اور کہا بہت ہے اور اس طریقے سے انہوں نے عالم اسلام کے جن با استعداد افراد سے ملاقات کی، انہیں اس بلا خیز شخصیت اور اسلام کے بطل جلیل نے چھوٹے چھوٹے ’جمال الدین ‘ بنا دیا۔ انہوں نے کبھی بھی مجدد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا مگر اس زمانے میں ’روح اسلام ‘ کو ان سے زیادہ کسی دوسرے نے تڑپ نہیں دی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کی بے قرار روح اب بھی سرگرم عمل ہو گی اور کیا خبر ان سرگرمیوں کی انتہا کیا ہو گی؟‘‘(۳) حضرت افغانی کے افکارو نظریات کا ایک معنی خیز خلاصہ علامہ اقبال کی شاہکار تالیف ’’جاوید نامہ‘‘ کے ’’فلک عطارد‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پورے باب میں افغانی اور ان کے ایک معتقد شہزادے سعید حلیم پاشا (مقتول 4 دسمبر 1921ء) کی تعلیمات کا عصارہ موجود ہے مگر اس کی کیفیت بیان کرنے کی خاطر افغانی کی حیات، تصانیف اور افکار کے بارے میں ایک تحقیقی شذرہ پیش کرنا اور ان ے بارے میں اردو، انگریزی، عربی اور فارسی میں موجود مآخذ پر ایک نظر ڈالنا ناگزیر ہے۔ البتہ اس گفتگو کو مجمل و مختصر رکھا جائے گا۔
| |
|
| |
| حیاتِ افغانی
| |
|
| |
| جمال الدین افغانی طباطبائی سید تھے۔ والد اور والدہ کا نام بالترتیب سید صفدر اور سیدہ سکینہ بیگم تھا۔ آپ کا علاقہ اسد(اسعد)آباد کے ایک گاؤں کونٹرنزدجلال آباد میں 1254 ہجری مطابق1839 ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے مولد میں حاصل کی اور اپنے والد سے بھی استفادہ کیا۔ تکمیل علوم و فنون کی غرض سے آپ نے کابل (جہاں انہیں سید فقر آباد کا شاہ جیسا یگانۂ روزگار استاد میسر آیا تھا) کے علاوہ ایران کے شہروں : مشہد، اصفہان اور ہمدان میں گزر کیا۔ اپنی فطری ذہانت اور ذکاوت کے بل بوتے پر اٹھارہ برس کی عمر میں (جب آپ کے والد کا انتقال ہو گیا تھا) آپ متداول علوم : تاریخ، حکمت و فلسفہ، ریاضی اور نجوم وغیرہ میں فارغ التحصیل ہو گئے تھے۔ اسی سال آپ ہندوستان تشریف لائے اور ایک سال تک یہاں قیام فرمایا اور اردو و نیز انگریزی سیکھی۔ یہاں سے حج بیت اللہ کی خاطر 1857 ء میں مکہ مکرمہ روانہ ہوئے اور عرب ممال اور ایران کی یک سالہ سیاحت کے بعد راہِ بلوچستان وطن لوٹ آئے۔ آپ نے فرمانروائے افغانستان امیر دوست محمد خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور اس کے بڑے بیٹے امیر محمد اعظم خاں کے اتالیق بھی مقرر ہوئے۔ امیر دوست محمد خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور اس کے بڑے بیٹے اور امیر مذکورہ کے انتقال کے بعد ان دو بھائیوں کے درمیان خانہ جنگی چھڑ سکتی تھی مگر سید جمال الدین کی صوابدید کے ذریعے یہ خطرہ ٹل گیا۔ آپ امیر شیر علی خاں کے مشیر خاص رہے اور اسی طرح امیر محمد اعظم خاں کے برسر اقتدار آ جانے کے بعد بھی آپ کا مقام محترم ہی رہا مگر امیر شیر علی خاں جب دوسری بار تخت پر قابض ہوا تو افغانی کو شک کی نظر سے دیکھنے لگا۔ اس دوران میں آپہ نے ملازمت ترک کر دی اور حج کی اجازت لے کر 1869ء میں ہندوستان کو سدھارے۔ ایک ماہ کے قیام کے بعد آپ عازم مکہ مکرمہ ہوئے اور واپسی قاہرہ تشریف لائے۔ مصر میں چالیس روز اقامت کے دوران میں آپ نے وہاں کے علماء اور ارباب بست و کشاد کو بے حد متاثر کیا اور وہاں سے دارالخلافہ استنبول آ گئے۔ استنبول میں افغانی کا بڑا احترام تھا مگر شیخ الاسلام حسن آفندی فہمی کے بغض و حسد کے نتیجے میں انہیں 1870ء میں حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ حج پر تشریف لے جائیں۔ یہ گویا قلمروئے عثمانی کو ترک کرنے کا اشارہ تھا۔ اس دفعہ حج کے بعد افغانی مصر آئے اور کم و بیش نو سال یہیں قیام فرمایا۔ وزیر اعظم ریاض پاشا کی سفارش پر خدیو مصر محمد علی پاشا نے افغانی کا ایک تعلیمی و تدریسی وظیفہ مقرر کر دیا تھا جس کی مالیت کوئی دو سو روپے ماہانہ بنتی تھی۔ وہ اپنے مکان میں گاہے گاہے جامعۃ الازہر میں در دیتے۔ وہاں پر انہوں نے اپنے جن تلامذہ کو بقول اقبال ’’چھوٹے چھوٹے جمال الدین بنا دیا تھا۔ ‘‘ ان میں محمد اسحق ادیب اور شیخ محمد عبدہ کے اسما قابل ذکر ہیں۔ شیخ احمد (مہدی) سوڈانی کے متعدد پیر و کار بھی افغانی کے حلقۂ درس میں شامل رہتے تھے مگر الازہر کے بعض اساتذہ کو افغانی کی فصاحت و بلاغت اور شخصی نفوذ سے حسد پیدا ہو گیا تھا۔ افغانی کے بعض تجدد آمیز افکار کی آڑ لے کر انہوں نے نئے استعمار دوست خدیو مصر توفیق پاشا کے کان بھرے۔ افغانی نے ’’المجلس الوطنیۃ‘‘ کے نام سے رفاہی کام انجام دینے والی ایک ’’جوانمردانہ‘‘ جماعت بنائی تھی۔ اسے بھی توفیق پاشا نے ایک خطرہ جانا اور بلطائف الحیل افغانی کا مال و اسباب مع کتب کے ضبط کر کے انہیں لندن بھجوا دیا۔ اس موقع پر ایرانی سفیر نے از راہ قدردانی افغانی کو تین ہزار پونڈ کی رقم پیش کرنا چاہتی تھی مگر آپ نے فرمایا:’’آپ اسے اپنے پاس ہی رہنے دیں۔ شیر جہاں جاتا ہے اپنا رزق پیدا کر لیتا ہے۔ ‘‘
| |
|
| |
| لندن سے افغانی امریکہ گئے اور جلد ہی لندن لوٹ آئے اور چند دن بعد وہاں سے پیرس آ گئے۔ پیرس میں آپ فرانسیسی زبان سیکھی۔ مصری سیاسی پناہ گزینوں سے رابطہ قائم کیا اور عالم اسلام کے بارے میں مقامی اخبارات میں بہت سے مضامین چھپوائے۔ ان کے عزیز شاگرد شیخ محمد عبدہ بھی مصر میں 1882ء کے حریت زا ہنگاموں کے نتیجے میں جلاوطن ہو کر پیرس آ گئے تھے اور اب دونوں کی ایک مشترکہ اقامت گاہ تھی۔ رسالہ ’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ جس کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا، دونوں نے یہیں سے جاری کیا تھا۔ پیرس کے قیام کے دوران میں افغانی روم (اٹلی)، لندن اور استنبول گئے مگر یہاں زیادہ عرصہ نہ ٹھہرے۔ استنبول سے آپ ایران آئے۔ ناصر الدین شاہ قاچار نے ابتدا میں ان کا بڑا احترام کیا مگر ان کی بے باکی اور ملوکیت دشمن عزائم کی تاب نہ لا سکا۔ ایران سے جلاوطنی کا حکم ملنے پر افغانی ماسکو(روس) گئے اور کچھ دن بعد وہاں سے جرمنی چلے گئے۔ ناصر الدین شاہ قاچار سے یہاں انہیں ملاقات اور مبادلہ خیالات کا ایک مزید موقع مل گیا تھا۔ بادشاہ نے انہیں ایران آنے کی دعوت دی مگر اب کی بار افغانی نے قاچاری استبداد کے خلاف زیادہ موثر آواز اٹھائی اور اپنے بہت سے حامی پیدا کر لیے۔ آپ حضرت شاہ عبدالعظیمؒ کے مزار کے جوار میں گوشہ گیر ہو کر قاچاری استبدادی ملوکیت کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کر رہے تھے۔ اس حالت میں آپ کو گرفتار کر کے عراق کی سرحد خانقین تک پہنچا دیا گیا۔ خانقین سے آپ بغداد گئے اور بڑی مشکل سے 1308 ہجری میں لندن چلے جانے کی اجازت لینے میں کامیاب ہو سکے۔ بغداد کے چند روزہ قیام کے دوران میں نیز لندن جا کر آپ نے ایران کے خراب حالات کے خلاف اپنی آواز کو بلند رکھا۔ لندن سے آپ نے انگریزی اور عربی زبان میں ’’ضیاء الخافقین‘‘ نامی ایک اخبار بھی جاری کیا جسے ایرانی حکومت کی شہ پر برطانوی حکومت نے جلد ہی بد کروا دیا۔ افغانی نے ایک ایرانی سیاسی جلاوطن شاہزادے ملکم خان(م۔ ۱۹۰۸ء) کے اخبار ’’قانون‘‘ میں بھی شاہ ایران کے خلاف چند مضامین لکھے تھے۔
| |
|
| |
| سنہ 1893ء میں سلطان عبدالحمید عثمانی کی دعوت پر افغانی استنبول آ گئے۔ سلطان نے انہیں سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرایا اور ان کی خاطر ایک خطیر رقم کا وظیفہ (ایک ہزار اور بقول بعض ستائیس سو روپیہ ماہانہ) مقرر کر دیا۔ سلطان عبدالحمید نے افغانی کی تحریک اتحاد عالم اسلامی کی حمایت کی اور اس ضمن میں ممالک میں اسلامی کے حکام کو خطوط و فرامین بھی بھیجے تھے۔ افغانی نے فرمایا کہ جو اسلامی ملک دوسروں سے دفاعی اتحاد نہ کرے، اس کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی جائے۔ شاہ ایران کو یہ بات پسند نہ تھی اور اس نے اس تحریک کی سخت مخالفت کی۔ افغانی نے شاہ ایران کی اس تازہ چال کا سختی سے نوٹس لیا اور اس روش کے خلاف بہت کچھ کہا۔ یکم مئی 1894ء کو ناصر الدین شاہ، تکیہ گاہ شاہ عبد العظیمؒ میں اپنی سالگرہ منا رہا تھا کہ افغانی کے ایک معتقد مرزا رضا کرمانی نے اسے گولے کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔ قاتل پر مقدمہ چلا اور اسی سال 12!اگست کو اسے پھانسی دے دی گئی مگر اس ضمن میں افغانی سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ایرانی حکومت نے ترکی سے مطالبہ کیا تھا کہ جمال الدین افغانی کو ان کے حوالے کیا جائے۔ سلطان عبدالحمید نے اس مطالبے کو رد کر دیا، مگر وہ بھی اب افغانی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ افغانی کے گرد جاسوسوں کا اتنا پہرہ بٹھا دیا گیا تھا کہ وہ سرکاری مہمان خانے کو زندان خانے سمجھنے لگے تھے۔ غالباً ان ہی پریشان کن حالات میں آپ مرض سرطان مبتلا ہو گئے اور اسی حال میں 5 شوال 1314ء ہجری مطابق 9 مارچ1897ء کو انتقال فرمایا اور استنبول میں دفن ہوئے۔ تقریباً نصف گزرجانے کے بعد1944ء میں اعلیٰ حضرت بادشاہ افغانستان نے مرحوم کے تابوت کو استنبول سے کابل میں منتقل کروایا اور کابل یونیورسٹی کے احاطے میں دفن کیا۔ حال ہی میں اس پر ایک شاندار مقبرہ تعمیر ہوا ہے۔
| |
|
| |
| متفرقاتِ حیات اور سیرت
| |
|
| |
| اصلاح کے آغاز منطقی طور پر گھر سے ہونا چاہیے، افغانی نے بھی اپنے وطن (افغانستان) میں کافی اصلاحات کیں، انہوں نے فوج کی تشکیلِ نو، سفیروں اور نمائندوں کے تقرر، ڈاک کے نظام کی بہتر تنظیم اور مدارس کی تاسیس کی خاطر حکام کورے صائب مشورے دیئے جن پر عمل کیا گیا، اخبار ’’شمس النہار‘‘ کو انہوں نے جاری کروایا اور خود بھی اس میں کئی مضامین لکھے، مصر میں ان کی تشویق و ترغیب پر دو اخبار جاری ہوئے ’’المصر‘‘ جس کی ادارت محمد ادیب اسحٰق نے سنبھالی اور ’’ابو نظارا‘‘ جسے جیمز نامی ایک شخص نے شائع کیا، استنبول میں آپ وہاں کی یونیورسٹی اور ایا صوفیہ کی مسجد میں تقریباً ہفتہ وار تقریر کرتے تھے اور سامعین نے انہیں ’’سحرالقلوب‘‘ کا لقب دے رکھا تھا، روس میں آپ تین بار تشریف لے گئے اور ان کی کوشش کے نتیجے میں زار کی حکومت نے قرآن مجید کے روسی ترجمے اور بعض اسلامی کتب کی اشاعت کی اجازت دی تھی۔
| |
|
| |
| افغانی کی خداداد استعداد اور قابلیت کو مخالفین نے بھی تسلیم کیا ہے، وہ اردو، انگریزی، پشتو، ترکی، جرمن، عربی، فارسی اور فرانسیسی زبانوں (نیز کسی قدر روسی زبان) پر دستگاہ (بعض میں متوسط اور بعض میں تبحر کی حد تک) رکھتے تھے، وہ ایک ترقی پسند اور ہمہ گیر اجتہادی نقطہ نظر رکھنے والے مسلمان تھے، دوسروں کی اندھا دھند تقلید کے بے حد مخالف تھے، نتائج ے بے پروا ہو کر حق گوئی، اسلامی اتحاد و اخوت اور مشترکہ دفاعی قوتوں کے یکجا ہونے کی خاطر کام کرنا، عالم اسلام کے مسلمانوں کو ممکن حد تک استعمار پسندوں کے عزائم یس آگاہ کرنا اور ان کی قوتوں کو میدان عمل میں گامزن کرنے کی خاطر سعی کرنا، افغانی کی سیرت و فعالیت کے خاص پہلو میں، ان کی نگاہوں میں جذب و تاثیر، زبان اور قلم میں غیر معمولی زور اور ظاہری رعب و جلال تھا، وہ کم خور و کم خواب شخص تھے، صرف دوپہر کا کھانا کھاتے، رات کو بہت کم سوتے اور آہ سحری سے بہرہ ور تھے، کاتکوف روسی، ارنسٹ ریناں، بلنٹ اور ای، جی، براؤن جیسے مستشرقین ان کی معنوی صفات سے بے حد اثر پزیر ہوئے ہیں، ارنسٹ ریناں لکھتا ہے کہ اس نے ایسا منفرد اور انقلابی مسلمان پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، براؤن نے انہیں ایک زبردست صحافی، صاحب قلم، عظیم مفکر، خطیب اور سیاست دان کے طور پر یاد کیا ہے، افغانی بڑے خود دار اور خود شناس شخص تھے، افغانستان، ایران، ترکی اور مصر کے حکام و سلاطین کے ساتھ ان کے برابر کے روابط تھے مگر یہ روابط ان کے اصلاحی مشن میں کبھی حائل نہ ہو سکے، انہوں نے کبھی کوئی تحفہ یا تمغہ قبول نہیں کیا، سلطان عبدالحمید کا عطا کردہ اعلیٰ تمغہ انہوں نے بلی کے گلے میں باندھ دیا تھا اور فرمایا: ’’یہ آدمیوں کی عزت و توقیر کی دلیل نہیں ہے ‘‘ ناصر الدین نے انہیں ایک انگشتری پہنائی تھی، افغانی نے اسے ایک شاہزادے کو پہنا کر حساب بے باک کر دیا، مصری، ایرانی، اور عثمانی حکومتوں سے انہیں جو وظیفہ ملتا تھا، اس کے معتدبہ حصے کو وہ محتاجوں پر صرف کر دیتے تھے، خود وہ عائلی بندشوں سے مدت العمر آزاد ہی رہے۔
| |
|
| |
| تصانیف اور افکار
| |
|
| |
| افغانی کے بارے میں اقبال نے بجا فرمایا ہے کہ انہوں نے لکھا کماور کہا بہت ہے، سید جمال الدین نے افغانوں کی ایک تاریخ فارسی میں لکھی تھی جس کا عربی (۴) اور اردو (۵) ترجمہ چھپ چکا ہے، ہندوستان کے قیام کے دوران میں آپ نے فارسی میں ایک مبسوط رسالہ ’’ردّ دہریان‘‘ لکھا تھا، شیخ محمد عبدہٗ، نے اسے ’’الرد علی الدھرئین‘‘ کے عنوان اور ایک مفصل مقدمے کے ساتھ عربی میں ترجمہ کر کے چھپوا دیا، افغانی نے اپنے اصلی اور بعض قلمی ناموں کے سیاحت افغانستان، مصر اور فرانس کے بعض روز ناموں میں کئی مقالے لکھے، کئی مشاہیر کے نام ان کے عربی اور فارسی میں خطوط بھی دستیاب ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے جو کچھ لکھا، وہ اخبار ’’قانون‘‘، ’’ضیاء الخافقین‘‘ اور ہفت روزہ ’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ کے چند شماروں کی زینت ہے اور بس، افغانی کا قول ہے ’’میں کتابیں نہیں لکھتا، زندہ کتابیں پیدا کرتا ہوں ‘‘۔
| |
|
| |
| ’’تاریخ افاغنہ‘‘ ایک مربوط اور محققانہ تالیف ہے، اگرچہ اس میں ضروری حوالے مفقود ہیں۔ ’’ردّ دہر یان‘‘ میں انہوں نے مذہب کی برتری کی خاطر وزنی دلائل دیئے ہیں۔ ان کی نظر میں عالم اسلام کے زوال و انحطاط کا مداواس میں نہیں کہ مسلمان تقلید مغرب، نیچر پرستی اور الحاد نما عقائد کو اپنائی بلکہ یہ کہ وہ رجوع الی القرآن کی راہ پر گامزن ہوں اور اپنی موجودہ تن آسانی اور غفلت شعاری کی روش کو بدل ڈالیں۔ ارشاد ربانی ہے :’’ بے شک اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت نہیں بدلتا جب تک اس کے افراد اپنے نفوس میں تغیر نہ پیدا کر لیں ‘‘(۶)۔ اس رسالے میں انگریزی استعمار کے حامیوں اور اہل مغرب کی سروری کے گن گانے والوں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ روزنامہ ’’ضیاء الخافقین ‘‘ کے چند شمارے ہی نکلے ان میں ناصر الدین قاچاری کی ہوس زر اور اس کی ملک فروشانہ سرگرمیوں کی قلعی کھولی گئی ہے۔ یہ اخبار ان بیسیوں دوسرے اخباروں کی اشاعت کا محرک و مشوق بنا جو قاچاری استبداد کے خلاف نکالے گئے اور جنہوں نے رائے عامہ کو اس طرح ہموار کیا کہ استبدادی سلطنت نے ’’مشروط‘‘ (آئینی حکومت کے حقوق) کو تسلیم کر لیا، چنانچہ اس کے کچھ عرصے بعد پہلو سلطنت کا دور شروع ہوا۔ ہفت روزہ ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘ کی اشاعت کا مقصد البتہ وسیع تر اور عالمی تھا۔ یہ مجلہ مارچ سے اکتوبر 1884ء تک کچھ تعطل اور توقف کے ساتھ جاری ہوتا رہا اور اس کے کل اٹھارہ شمارے شائع ہوئے۔ ابتدائی شمارہ 15! جمادی الاول 1301 ہجری،13 مارچ 1884ء کو نکلا اور آخری 26 ذی الحجہ 1301 ہجری/ 16 اکتوبر 1884ء کو۔
| |
|
| |
| ’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ کے مضامین سے ہم اس مجموعے کے ذریعے استفادہ کر رہے ہیں جسے 1328 ہجری میں حسین محی الدین جمال نے بیروت سے شائع کر دیا۔ مختلف سیاسی بیانات و مقالات کے علاوہ اس ہفت روزہ مجلہ میں کوئی ڈیڑھ درجن فکر انگیز مضامین چھپے ہیں جو بظاہر شیخ محمد عبدہ کی تحریر اور جمال الدین کی فکر کا نتیجہ ہیں یہ ہم اس بنا پر کہتے ہیں کہ خود عبدہ مرحوم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا، ’’العروۃ الوثقیٰ میں جو مضامین اور بیانات چھپے، ان میں سے کسی میں بھی میری فکر یا سید جمال الدی کی تحریر نہیں ہے، البتہ اس کے حرف حرف پر ہم دونوں کو اتفاق تھا۔ ‘‘ ان مقالات کی تحریر عظیم اور فکر عظیم تر ہے۔ بیشتر مقالات کے عنوانات قرآن مجید کی آیات کریمہ ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوا ہے یہ مجلہ افغانی اور عبدہٗ کی مشترک ادارت میں نکلتا تھا اور دنیا بھر کے مسلمان زعما اور مختلف اداروں کو مفت بھیجا جاتا تھا۔ بعض مخیر مسلمانوں ( جن میں افغانی کے حیدرآباد دکن کے چند دوست بھی تھے ) نے اس کے اجرا کی خاطر رقم فراہم کر رکھی تھی۔ چند ماہ بعد مصری اور برطانوی حکومتوں کے دباؤ پر فرانسیسی حکومت نے اسے فرانس سے باہر بھیجا جانا ممنوع قرار دے دیا( ہندوستان میں اس کی خریداری کو جرم قرار دیا گیا)۔ افغانی اور عبدہ اسے لفافوں میں بند کر کے ترسیل فرماتے رہے مگر اس طرح اخراجات اتنے بڑھ گئے کہ چار و نا چار اسے بند ہی کرنا پڑا۔ ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘ کی اہمیت کا اندازہ لگانے، افکار افغانی کی ایک جھلک دیکھنے نیز افغانی و اقبال کے فکری توافق و ہم آہنگی کو دیکھنے کی غرض سے ہم اس میں مندرج مقالات میں سے بعض کے اقتباسات کا اردو ترجمہ پیش کرتے ہیں :
| |
|
| |
| (1) زمین کا کوئی خطہ مسلمانوں کا مرزو بوم ہوا اور ان کی کوئی بھی قومیت ہو جب وہ اسلام پر ایمان لے آئے تو ایک بڑے اسلامی خانوادے کے فرد بن گئے۔ اب اگر کوئی عصبیت رکھتے ہوں تو وہ اسلام کی عصبیت ہونی چاہئے جس میں دیگر عصبیتیں مدغم و ضم ہو گئی ہیں۔ اسلام پر ایمان لانے والا جس قدر اپنے عقیدے میں پختہ ہوتا ہے اسی قدر وہ جنس،ذات، قبیلہ، نسل اور قومیت کے بندھنوں سے آزاد ہوتا ہے۔ ایمان بالغیب اور توحید کی نعمتوں سے مستفید ہو کر وہ محدود رابطوں کو توڑ کر ایک عالمگیر رابطۂ اخوت سے مستحکم ہو جاتا ہے۔۔۔ اس وقت اس عصبیت اور اس وحدت فکر و عمل کی ضرورت ہے۔ اے علمبرداران توحید ! دنیا کے گوشے گوشے سے اٹھو اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں عملاً شریک ہو جاؤ۔ ‘‘ (از: الجنسیۃ والدیانۃ الاسلامیۃ)
| |
|
| |
| (2) آپ کا کیا خیال ہے کہ آج دوسری قوموں کی نقالی کرنے، اسلامی محکم عقائد کا ابطال کرنے، الحاد کو اپنانے اور دوسری قوموں سے گٹھ جوڑ رکھنے سے آپ بحیثیت مسلمان ترقی کر لیں گے ؟ دوسری قومیں شدید ترین مذہبی عصبیت کے ساتھ آپ کے استیصال و انحلال کے درپے ہیں اور آپ کو تلقین کر رہی ہیں کہ عصبیت چھوڑ دو۔ آپ غیرت دینی اور باہمی اخوت کے جذبات کو ابھاریں۔ اسلام کا ماضی تابناک ہوا تھا۔ اے بہادروں کی اولاد! خدا نے ایمان والوں کی فتح و نصرت کا وعدہ کر رکھا ہے، کیا آپ کی خاکستری میں غیرت و حمیت کی کوئی چنگاری باقی نہیں رہی؟ کیوں نہیں، ہاں ان چنگاریوں کو شعلہ ور کرنے کی ضر رت ہے۔۔۔ خدا پر ایمان کامل رکھ کر آپ اپنی قوتوں کو متحد کریں اور استعماریوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیں۔ ( از سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا (7))
| |
|
| |
| (3) دین اسلام کی عبادات محض مراسم نہیں، یہ سیرت و کردار کی تشکیل کی خاطر ہیں تاکہ آدمی بڑی سے بڑی قربانی کی خاطر تیار ہو سکے۔ ان قربانیوں کی انتہا شہادت ہے جس مرگ با شرف کہنا چاہئے۔۔۔ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان صرف خدا سے ڈریں، دنیا کی ہر قوت کے ساتھ ٹکر لینے کے لئے تیار ہوں اور موت کو خاطر میں نہ لائیں۔ آخر آج کے علمائے دین فروعی اور اختلافی مسائل سے ہٹ کر مسلمانوں کی غیرت و حمیت کو کیوں بیدار نہیں کرتے؟ وہ جبن و خوف سے نجات پانے کا راستہ کیوں نہیں بناتے۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک کوئی قوم، انفرادی اور اجتماعی طور پر جدوجہد نہ کرے، خدا اس کی پست حالت کو بلندی نہیں ہو سکتا۔ ہماری تغافل شعاری کے نتیجے میں زوال و نکبت ہم پر مسلط کر دیئے گئے ہیں اور ہم اس حالتیں جادۂ اعتدال سے انحراف کی دلیلیں ہیں۔ د رد مندانِ قوم ! یاس و نا اُمیدی کی کوئی بات نہیں، ملت اسلامیہ کو احساس ندامت دلاؤ تاکہ سعی و عمل سے وہ پھر رحمت خداوندی کی سزاوار بن جائے۔ (از :ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیرو امابا نفسھم (8) )
| |
|
| |
| (4) لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ مسلمانوں کے جمود و انحطاط کا کیا سبب ہے ؟ ایسے بہت سے اسباب بیان ہو سکتے ہیں مگر ہمارے نزدیک افتراق و پراگندگی اور دوسروں کے دکھوں کا عدم احساس غالباً سب سے بڑا عامل ہے جس کی وجہ سے مسلمان معاشرے کا اجتماعی ارتقا رکود و تعطل سے دوچار ہے۔۔۔ ان سالوں کی بات ہے کہ اہل بلوچستان گھروں میں بیٹھے رہے اور افغانوں کے خلاف انگریزوں کی کار روائی جاریرہی، ان کی رگ حمیت نہ پھڑکی کہ وہ اپنے دینی بھائیوں کی حمایت میں ایک نعرہ بھی بلند کر لیتے۔ خود افغانوں کی بھی یہی حالت رہی ہے، وہ ایران میں انگریزوں کی سفاکیوں کا تماشا دیکھتے رہے اور مجھے تعجب ہوا کہ یہ لوگ کیوں بے تاب نہ ہوئے اور ان کا خون کیوں نہ کھولا؟ مصر میں کشتوں کے پشتے لگ گئے اور اخوت اسلامی کے دعویداروں نے غالباً آہ و فغاں بھی نہیں کیا ہے۔۔۔ تاریخ اسلام سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ مٹھی بھر مسلمانوں نے کیا کیا کارنامے انجام دیئے ہیں۔ آج کروڑوں نظر آتے ہیں مگر عملی وحدت کے فقدان کی وجہ سے بے بس ہیں، یہ اتنے بے بس یں کہ اپنا دفاع کرے اور اپنے اوطان کو سیاسی آزادی دلانے پر بھی قادر نہیں۔ یہ عقیدے اور عمل میں تفاوت کا نتیجہ ہے۔ (از: واعتصمو بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا۔۔۔ (9) )
| |
|
| |
| آخر میں ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘ سے ایک اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
| |
|
| |
| :اے بہادروں کی اولاد! اے دلیروں کے اخلاف! اے جوانمردوں کی نسل! کیا زمانہ تم سے پھر گیا ہے ؟ کیا حالت سنبھالنے کا وقت بیت گیا ہے ؟ کیا نا امیدی کا وقت آ پہنچاہے ؟ ہر گز نہیں۔ خدا نہ کرے کہ زمانہ تم سے امید منقطع کر دے۔ ادر نہ سے لے کر پشاور تک اسلامی حکومتیں ہیں، قلمروئیں ملی ہیں، قرآن مجید نے ان کو ایک عقیدے پر متحد کر رکھا ہے، ان کی تعداد (پچاس) کروڑ سے کم نہیں ہو گی اور یہ شجاعت و بہادری میں ممتاز ہیں۔ کیا ان سے یہ نہیں ہو سکتا کہ جس طرح دوسری قوموں نے اتحاد کر رکھا ہے، یہ بھی متحد ہو جائیں ؟ اگر یہ اتفاق کر لیں تو ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے، اتفاق و اتحاد ان کے دین کی بنیاد ہے۔ کیا ان کو اتنا شعور نہیں کہ اس بات کا احساس کریں کہ ان میں سے ہر ایک کی احتیاجات دوسرے سے وابستہ ہیں ؟ کیا ان میں کوئی ایسا نہیں رہا جو خدا کے اس حکم کے مطابق کہ ’’مومن بھائی بھائی ہیں ‘‘ اپنے بھائی کا بھی خیال رکھے ؟ اگر یہ ایک محکم دیوار کی مانند کھڑے ہو جائیں تو ان سیلابوں کو روک دیں گے جو اس وقت ان پر ہر سمت سے عود کر آ رہے ہیں۔ ‘‘
| |
|
| |
| افغانی کے حالات زندگی اور افکار کے بارے میں ہم اس مختصر خاکے پر اکتفا کریں گے مگر نامناسب ہو گا کہ آگے بڑھنے سے قبل ہم ضروری مآخذ کی فہرست یہیں درج نہ کر دیں :
| |
|
| |
| (الف) مقام جمال الدین افغانی،حیدرآباد دکن۔ (ب) مقالات جمالیہ مرتبہ پروفیسر عبدالغفور شہبازؔ، کلکتہ۔ (ج) جمال الدین افغانی،مطبوعہ جامعہ ملیہ،دہلی۔ (د) آثار جمال الدین مؤلفہ قاضی عبدالغفار، مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند، دہلی(ھ) انقلاب ایران(انگریزی سے فارسی ترجمہ) از ای۔ جی۔ براؤن)۔ (و) مشاہیر الشرق از جرجی زیدان، قاہرہ،1905ء۔ (ز) تاریخ بیداری ایرانیاں از ناظم الاسلام کرمانی، تہران (ح) مجموعہ مقالات العروۃ الوثقیٰ،بیروت 1328 ہجری۔ (ط) شرح حال وآثار فیلسوف شرق سید جمال الدین اسدآبادی افغانی مؤلفہ میر زالطف اللہ خان اسد آبادی، تبریز،1324۔ (ی)سید جمال الدین افغانی مؤلفہ ضیاء الدین احمد برنی، (طبع ثانی) کراچی، 1954ء۔ (ک) زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث از احمدامین مرحوم، قاہرہ، 1948ء۔ (ل)جمال الدین الافغانی بقلم محمود ابوریہ، قاہرہ۔
| |
|
| |
| افغانی اور اقبال
| |
|
| |
| اتحاد عالم اسلامی کے سلسلے میں افغنی کی مساعی اور افکار کی ایک جھلک ہم نے پیش کر دی ہے، اقبال اور افغانی کے درمیان یہ ایک بہت بڑا مشترک عامل ہے۔ افغانی، شیخ محمد عبدہٗ اور سعید حلیم پاشا کے بعد غالباً ہی وہ عظیم مفکر ہیں جنہوں نے پین اسلامزم کی خاطر بے حد توانائی صرف کی ہے اور اس کے ذکر سے علامہ مرحوم کی کوئی ایک شعری یا نثری رہے اور اسلامی اجتہادی فکر ونظر کے سلسلے میں بھی دونوں کے افکار یکساں ہیں۔ غرض افغانی سے علامہ فکری اور عملی دونوں لحاظ سے بے حد متاثر ہوئے اور اس کی نمایاں ترکیفیت ’’جاوید نامہ‘‘ میں نظر آتی ہے۔ وھو ھذا: فلک قمر سے گزرنے کے بعد اقبال، مولانا جلال الدین رومی کی معیت میں فلک عطارد پر پہنچتے ہیں۔ یہاں انہیں آواز اذان سنائی دی، وہ آگے بڑھ کر کیا دیکھتے ہیں کہ جمال الدین افغانی امامت فرما رہے ہیں اور سعید حلیم پاشا تاتار اقتدار کر رہے ہیں۔ رومی نے فرمایا: عصر حاضر کے مشرق میں ان دو افراد سے بہتر لوگ عالم وجود میں نہیں آئے۔ انہوں نے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی خاطر جان کھپائی ہے
| |
|
| |
| سید السادات مولانا جمال
| |
|
| |
| زندہ از گفتارِ او سنگ و سفال
| |
|
| |
| ترک سالار آں حلیم درد مند
| |
|
| |
| فکرِ او مثلِ مقامِ او بلند
| |
|
| |
| ترجمہ:
| |
|
| |
| ایک سیدالسادات جمال الدین جن کی گفتگو سے پتھر میں جان پڑ جائے،دوسرے تر کی نژاد،دردمند، ترک سالار (حلیم پاشا) جن کی فکر ان کے مقام کی طرح بلند ہے۔
| |
|
| |
| رومی اور اقبال بھی شریک نماز ہو جاتے ہیں۔ افغانی سورہ ’’النجم‘‘ کی قرأت فرما رہے تھے اور ان کا سوز قرأت حد بیان سے باہر ہے۔ اقبال(زندہ رود) نماز کے بعد از راہ عقیدت افغانی کی دست بوسی کرتے ہیں اور افغانی ان سے عالم اسلام کے بارے میں پوچھتے ہیں
| |
|
| |
| قرأت آں پیر مردے سخت کوش
| |
|
| |
| سورۂ و النجم و آں دشتِ خموش!
| |
|
| |
| دل از و در سینہ گردد ناصبور
| |
|
| |
| شور الا اللہ خیزد از قبور!
| |
|
| |
| من ز جابر خاستم بعد از نماز
| |
|
| |
| دستِ او بوسیدم از راہِ نیاز
| |
|
| |
| زندہ رود! از خاکدانِ مابگوے
| |
|
| |
| از زمین و آسمانِ ما بگوے
| |
|
| |
| خاکی و چوں قدسیاں روشن بصر!
| |
|
| |
| از مسلماناں بدہ ما راخبر
| |
|
| |
| ترجمہ:
| |
|
| |
| اس دشت خموش میں اس عظیم انسان (افغانی) سورۂ والنجم کی تلاوت کر رہے تھے جن کی قرأت کے سوز سے دل تڑپ جایئے اور قبروں سے ’’الا اللہ‘‘ کا شور بلند ہو۔ میں نے نماز کے بعد ان کا ہاتھ کو عقیدت مندی سے بوسہ دیا۔ انہوں نے زندہ رود(اقبال) سے کہا کہ ہماری دھرتی کا کچھ پتہ بتا اور زمین و آسماں کا حال سنا۔ انسان خاکی تو ہے لیکن فرشتوں کی طرح روشن بھر ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں مجھے کچھ خبر دے۔
| |
|
| |
| اقبال کہتے ہیں کہ مسلمان اس وقت ضعف ایمان اور نا امیدی کا شکار ہیں۔ چند بڑے بڑے فتنے جنہوں نے مسلمانوں کو تباہ کر رکھا ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں : افرنگ مآبی، ملوکیت کا استبداد اور اشتراکیت (جس کا تجربہ 1917ء سے روس میں شروع ہے )۔ افغانی فرماتے ہیں : اہل مغرب نے وطنیت کے نظریے کے ذریعے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کر رکھی ہے۔ خس و خاشاک بھی زمین گیر نہیں رہتا اور ہوا آنے پر پرواز کر جاتا ہے۔ کیا مسلمان اس سے بھی زیادہ گیا گزرا ہے کہ ایک خطۂ زمین ہی سے خود کو وابستہ کر لے ؟ آفتاب مشرق سے طلوع ہو کر ساری کائنات کو مستنیر کر دیتا ہے، اسے کوئی مشرق کیوں کہے گا؟ مومن کی بھی ایسی ہی آفاقی شان ہے کہ وہ ایک خطۂ خاک سے منسوب ہونے کے باوجود بھی کہتا ہے کہ ’’مومن کا جہاں ہر کہیں ہے ‘‘
| |
|
| |
| تو اگر داری تمیز خوب وزشت
| |
|
| |
| دل نہ بندی باکلوخ و سنگ و خشت
| |
|
| |
| می نگنجد آں کہ گفت اللہ ھو
| |
|
| |
| در حدودِ ایں نظارہ چار سو
| |
|
| |
| ترجمہ:
| |
|
| |
| تجھے اگر اچھے برے کی تمیز ہے تو اینٹ پتھر (یعنی زمین) سے دل نہ لگا۔ جس نے ’’اللہ ھو‘‘ کہا وہ نظامِ چار سو کے حدود میں گرفتار نہیں رہ سکتا۔
| |
|
| |
| اشتراکیت و ملوکیت دونوں استبدادی نظام ہیں جو کہ باہمی انسانی ہمدردی اور احساس اخوت کے لئے زہر ہلال ہیں۔ روحانی اقداران نظامون سے فروغ نہیں پاتے
| |
|
| |
| رنگ و بو از تن نگیرد جانِ پاک
| |
|
| |
| جز بہ تن کارے ندارد اشتراک
| |
|
| |
| ہم ملوکیت بدن را فربہی است
| |
|
| |
| سینۂ بے نورِ او از دل تہی است!
| |
|
| |
| ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب
| |
|
| |
| ہر دویزداں ناشناس آدم فریب
| |
|
| |
| زندگی ایں را خروج آں را خراج
| |
|
| |
| درمیان ایں دو سنگ آدم زجاج
| |
|
| |
| ترجمہ:
| |
|
| |
| جانِ پاک تن سے رنگ و بو حاصل نہیں کر سکتی اور اشتراکیت کا واسطہ صرف تن سے ہے اسی طرح بدن کی فربہی ہے جس سے سیہ بے نور اور دل سے خالی ہے۔ دونوں کا حاصل بے چینی اور اضطراب ہے۔ دونوں حق نا شناس اور انسان کو فریب دینے والے ہیں۔ ایک زندگی کے لئے خروج (بغاوت) ہے اور دوسرے خراج (استحصال) ہے اور انسان ان دو پتھروں کے درمیان شیشے کے مانند ہے۔
| |
|
| |
| یہاں سعید حلیم پاشا شرق و غرب کے معنوی فرق پر روشنی ڈالتے اور مسلمانوں کو رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ علامہ کا اشارہ پاشائے مرحوم کی کتاب ’’اسلام الشمق‘‘ اور ان کے واحد اصلاحی (۱۰) مقالے کی طرف ہے۔ علامہ نے اس کا خلاصہ پیش کر دیا ہے
| |
|
| |
| بندۂ مومن ز آیاتِ خداست
| |
|
| |
| ہر جہاں اندر برِ او چوں قباست!
| |
|
| |
| چوں کہن گردد جہانے در برش
| |
|
| |
| می دہد قرآں جہانے دیگرش!
| |
|
| |
| ترجمہ:
| |
|
| |
| مرد مومن آیات قراں کا امین ہے اور اس سے جسم پر ہر جہاں کی قبا چست ہوتی ہے۔ جب ایک جہاں (کا لباس) اس کے جسم پر پرانا ہو جاتا ہے تو قرآن اسے دوسرا جہاں عطا کرتا ہے۔ (یعنی زمانے کے تغیر کے باوجود اس کا وجود ایک نئے انداز سے باقی رہتا ہے )
| |
|
| |
| اقبال فرماتے ہیں کہ ’’جہانِ قرآنی‘‘ سے عصر حاضر کے مسلمان واقف کہاں ہیں ؟ ورنہ وہ ایسا جہانِ رعنا ہے کہ اس کے چند ہی مناظر حضرت عمر فاروق ص میں مکمل تبدیلی لے آئے تھے، یہاں حضرت عمر ص کے اسلام لانے کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے اپنی بہن سے سورہ ’’طہٰ‘‘ کی چند آیات سنیں اور اسلام لے آئے تھے، اس پر افغانی ’’جہان قرآنی‘‘ کے چہار گانہ محکمات پر روشنی ڈالتے ہیں : خلافت آدم، حکومت الہٰی، ارض ملک خداست اور حکمت خیر کثیر است، انسان کو خدا نے نیابت و خلافت کی جو اہلیت بخشی، وہ اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آنحضرت ا کی روش حقہ کی پیروی میں جلوت و خلوت کی زندگی میں ایسا تعادل و توازن رکھیں کہ وہ خَلعت خلافت کے سزاوار ہو سکیں اور شرف انسانیت کے بھی
| |
|
| |
| حرف اِنّی جاعل تقدیرِ او
| |
|
| |
| از زمیں تا آسماں تفسیرِ او
| |
|
| |
| بر تر از گردوں مقامِ آدم است
| |
|
| |
| اصلِ تہذیب احترامِ آدم است
| |
|
| |
| مصطفیٰ ا اندر حرا خلوت گزید
| |
|
| |
| مدتے جز خویشتن کس را ندید
| |
|
| |
| نقشِ مارا در دلِ اور ریختند
| |
|
| |
| ملتے از خلوتش انگیختند
| |
|
| |
| می توانی منکرِ یزداں شدن
| |
|
| |
| منکر از شانِ نبی ا نتواں شدن
| |
|
| |
| گرچہ داری جانِ روشن چوں کلیم
| |
|
| |
| ہست افکار تو بے خلوت عقیم
| |
|
| |
| از کم آمیزی تخیل زندہ تر
| |
|
| |
| زندہ تر، جویندہ تر، یابندہ تر
| |
|
| |
| صاحبِ تحقیق را جلوت عزیز
| |
|
| |
| صاحبِ تخلیق را خلوت عزیز
| |
|
| |
| آنچہ در آدم بگنجد عالم است
| |
|
| |
| آنچہ در عالم نگنجد آدم است!
| |
|
| |
| ترجمہ:
| |
|
| |
| انسان کی تقدیر خلافت ہے اور ساری کائنات حرف ’’انّی جاعلٌ‘‘ کی تفسیر ہے، مقامِ آدم آسمانوں سے بلند تر اور تہذیب کی بنیاد احترام آدم ہے، مصطفی ا نے ایک مدت غارِ حرا میں گزاری اور خلوت میں غور و فکر میں مصروف رہے، قلت کا نقش اسی خلوت سے ظاہر ہوا، خدا کا انکار ممکن ہو سکتا ہے لیکن نبی ا کی شان کا انکار نہیں ہو سکتا، گو تو کلیم ں (موسی ں ) کی طرح روشن جان رکھتا ہے لیکن بغیر خلوت کے تیرے افکار بے ثمر ہیں، کم آمیزی (خلوت) سے تخیل زندہ ہوتا ہے۔
| |
|
| |
| صاحبِ تحقیق کے لئے جلوت اور صاحبِ تخلیق کے خلوت عزیز ہوتی ہے،۔ عالم (آفاق)
| |
|
| |
| آدم کے اندر سما سکتا ہے، لیکن آدم، عالم میں نہیں سما سکتا۔ (گم نہیں ہو سکتا)
| |
|
| |
| ’’حکومت الہٰی‘‘ کے بارے میں افغانی فرماتے ہیں کہ انسانوں کا بنایا ہوا کوئی قانون وحی منزّل کا مقابلہ کیسے کر سکے گا؟ مغربی ممالک میں رائج مختلف استبدادی نظاموں کے دساتیر کی قدر مشترک یہی ہے کہ قوی کو قوی تر اور کمزور کو کمزور تر بنا دیا جائے، حکومت الہٰی کا قانون البتہ ہر کہ ومہ کا مساویانہ خیال رکھتا ہے۔ ’’لایراعی لایخاف‘‘ اس کا طرۂ امتیاز ہے
| |
|
| |
| عقلِ خود بیں غافل از بہبودِ غیر
| |
|
| |
| سودِ خود بیند نہ بیند سودِ غیر
| |
|
| |
| وحی حق بینندۂ سودِ ہمہ
| |
|
| |
| در نگاہش سود وبہبود ہمہ
| |
|
| |
| غیرِ حق چوں ناہی وآمر شود
| |
|
| |
| زور ور بر ناتواں قاہر شود
| |
|
| |
| حاصلِ آئین ودستورِ ملوک!
| |
|
| |
| دہ خدایاں فربہ ودہقاں چو دوک!
| |
|
| |
| وائے بر دستورِ جمہور فرنگ
| |
|
| |
| مردہ ترشد مردہ از صورِ فرنگ!
| |
|
| |
| ترجمہ:
| |
|
| |
| خود بین عقل دوسروں کی بہبود سے غافل رہتی ہے، وہ صرف اپنا ہی فائدہ دیکھتی ہے اور دوسروں کے فائدے سے بے نیاز ہوتی ہے، لیکن وحئی حق کی نظر میں ساری خلق خدا کی بہبود رہتی ہے، جب غیر حق کو اقتدار اور قوت حاصل ہو جائے تو طاقتور کمزور کے کئے قاہر (ظلم کرنے والا) بن جاتا ہے، ملوک (آمروں ) کا آئین و دستور زمیندار کو طاقتور اور دہقان (کسان) کو مزور بنا دیتا ہے، جمہورِ فرنگ کے دستور پر افسوس کہ اس کے صور سے مردہ، مردہ تر بن جاتا ہے۔
| |
|
| |
| ’’ارض ملک خداست‘‘ میں ’’ارض‘‘ کا لفظ وسیع تر معاشی اور معاشرتی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے، ’’الارض للہ‘‘ کے عنوان سے ’’بال جبریل‘‘ میں بھی اقبال نے اس کی روشنی میں ایک قطعہ لکھا ہے، ماحصل یہ ہے کہ مضاربت کرنے والوں کو زمین کے جملہ حقوق اور اس سے استفادہ ملے، زمین کے تمام وسائل انسانوں کا وسیلہ زیست (متاع) ہیں جس سے وہ کھانے اور مرنے کے بعد عام صورت میں اس کے کسی گوشہ میں دفن ہوتے ہیں، یہ غیر معمولی استفادہ کی ہوس اور زمین کو اپنی ملکیت میں لینے کے جھمیلے وجود انسانیت کا ناسور ہیں، ا تنازعوں میں اگر توانائی صرف نہ کی جائے تو کتنے ہی دیگر مفید کام انجام پا سکتے ہیں
| |
|
| |
| حق زمیں را جز متاعِ مانگفت
| |
|
| |
| ایں متاعِ بے بہا مفت است مفت
| |
|
| |
| وہ خدایا! نکتہ از من پزیر
| |
|
| |
| رزق وگور از وے بگیراور ا مگیر
| |
|
| |
| باطن الارض للہ ظاہر است
| |
|
| |
| ہر کہ ایں ظاہر نہ بیند کافر است
| |
|
| |
| از طریقِ آزری بیگانہ باش
| |
|
| |
| بر مرادِ خود جہان تو تراش
| |
|
| |
| مردنِ بے برگ وبے گور وکفن؟
| |
|
| |
| گم شدن در نقرہ وفرزند وزن!
| |
|
| |
| ترجمہ:
| |
|
| |
| حق تعالیٰ نے زمین کو آدم کی متاع قرار دیا ہے اور یہ متاعِ بے بہا اسے مفت حاصل ہوئی ہے، زمین سے تو اپنے لئے رزق اور قبر کی جگہ لے سکتا ہے لیکن اس پر تیرا حق نہیں، ’’زمین اللہ کی ہے ‘‘ کا نکتہ ظاہر ہے اور جس کی اس ظاہر پر نظر نہیں ہے وہ کفر میں مبتلا ہے، طریقِ آزری ترک کرے اور اپنے لئے ایک نیا جہاں تراش، مال، زن وفرزند کے چکر میں پھنس جانا، بے سرو ساماں اور بے گور وکفن موت کے مانند ہے۔
| |
|
| |
| ’’حکمت خیر کثیر است‘‘ در اصل رسالہ ’’ردّ دہریان‘‘ سے ماخوذ ومقتبس ہے، افغانی دیگر مصلحین اخلاق کی مانند ہمیشہ تلقین فرماتے رہے کہ علم وہی ہے جو عمل کے ساتھ توام ہو، جو زندگی کو سوز و ساز اور جنبش و تحریک دے، مسلمانوں نے ایک زمانے میں علوم و فنون کی برکت سے اخلاق و شرافت کو پھیلایا، اہل یورپ بھی علوم سے بہر ہ مند ہوئے مگر انسانی سوز و ہمدردی کے فقدان کی بنا پر وہ مخرب اخلاق مدنیت پھیلاتے اور مہلک ہتھیاروں کے ذریعے بنی نوع انسان کو راہ ہلاکت پر چلاتے رہتے ہیں، اس قسم کے خیالات کا خاکہ ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘ کے ایک اور مضمون میں بھی ملتا ہے جس کا عنوان ہے : ’’وذکر فان الذکریٰ تنفع المؤمنین‘‘ اور اس بحث کو اقبال نے مثنوی ’’پس چہ باید کر د‘‘ میں زیادہ شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں فرماتے ہیں
| |
|
| |
| علم حرف و صوت را شہپر دہد
| |
|
| |
| پاکی گوہر بہ نا گوہر دہد
| |
|
| |
| دل اگر بندد بہ حق، پیغمبری است
| |
|
| |
| ور زحق بیگانہ گر دو کافری است!
| |
|
| |
| علم را بے سوزِ دل خوانی شراست
| |
|
| |
| نورِ او تاریکئی بحر وبراست
| |
|
| |
| سینۂ افرنگ را نارے ازوست
| |
|
| |
| لذت شنجون ویلغارے ازوست
| |
|
| |
| سیرِ واژونے دہد ایام را
| |
|
| |
| می برد سرمایۂ اقوام را!
| |
|
| |
| ترجمہ:
| |
|
| |
| علم، حرف و گفتار کو پرواز اور موتی کی چمک اور پاکی عطا کرتا ہے، علم کا رشتہ اگر حق سے استوار ہو تو وہ پیغمبری ہے اور اگر حق سے بیگانہ ہو جائے تو وہ کافری ہے، اگر سوزِ دل نہ ہو تو علم شر ہے اور اس کا نور، نور نہیں بلکہ بحر و بر کی تاریکی ہے، افرنگ کے سیہ میں آگ (اسی بے سوز علم کی وجہ) سے ہے، شبخون اور یلغار میں لذت اسی کی وجہ سے ہے، وہ وقت کو پیچھے کی طرف موڑ دیتا ہے اور قوموں کا سرمایہ تباہ کر دیتا ہے۔
| |
|
| |
| افغانی نے جہانِ قرآن کے محکمات و مسلمات بیان کیے تو اقبال نے استفسار کیا کہ مسلمانوں کے موجودہ جمو دور کود کا کیا سبب ہے ؟ ایسی زندہ کتاب (قرآن مجید) کی حامل قوم خود کیوں مردہ ہو رہی ہے ؟ اس بات کا جواب سعید حلیم پاشا دیتے ہیں کہ جاہل مذہبی پیشواؤں کی کافر گری، تعلیم یافتہ اور با استبداد افراد کی افرنگ مآبی اور دین سے بے رغبتی کی بنا پر مسلمان جہانِ قرآن کی برکات سے محروم ہیں، اس کے بعد افغانی خطاب بہ اقبال فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہر عصر کی کامل رہنمائی موجود ہے مگر اس کی خاطر اجتہادی نقطۂ نگاہ پیدا کرنے اور آیات قرآنی کی ندرت و جدت پر غور و فکر کی ضرورت ہے
| |
|
| |
| از حدیثِ مصطفی ا داری نصیب؟
| |
|
| |
| دین حق اندر جہاں آمد غریب
| |
|
| |
| بہر آں مردے کہ صاحب جستجو است
| |
|
| |
| غربتِ دیں ندرتِ آیاتِ اوست
| |
|
| |
| غربتِ دیں ہر زماں نوعِ دگر
| |
|
| |
| نکتہ را در یاب اگر داری نظر
| |
|
| |
| دل بآیاتِ مبیں دیگر بہ بند
| |
|
| |
| تابگیری عصرِ نو را در کمند!
| |
|
| |
| ترجمہ:
| |
|
| |
| اگر اس حدیثِ مصطفی ا سے تجھے آگہی ہے کہ دین (اسلام) دنیا میں غربت کی حالت میں آیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے لئے جو صاحبِ جستجو ہے، غربتِ دیں اس کی آیات کی قدرت کا نام ہے، اس قدرتِ دیں کی ہر زمانہ میں ایک نئی شان ہوتی ہے،اگر تو نظر رکھتا ہے تو اس نکتہ کو سمجھ لے، اس کی روشن آیات کو دل نشین کر لے تاکہ تو اپنے زمانہ پر کمند ڈال سکے۔
| |
|
| |
| افغانی، اقبال سے فرماتے ہیں کہ اسرار قرآن مجید نہ جاننے کی بنا پر انسانیت نت نئے نظام قائم کرتی اور اندھیروں میں بھٹکتی پھرتی ہے مثلاً حال ہی میں اہل روس نے اشتراکیت کے نام سے ایک نقشِ نو بنایا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم اس ملت کو میرا ایک پیغام پہنچا دو، افغانی نے ملت روسیہ کو جو پیغام دیا اس کا ماحصل یہ ہے کہ: مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے یقیناً گلو خلاصی حاصل کی جائے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اشتراکیت جیسے بے بنیاد اور نا پائیدار نظام کو قائم کیا جائے جس نے ’’لا‘‘ پر تکیہ کر رکھا اور ’’اِلّا‘‘ کا منکر ہے، کائنات نفی کے ساتھ اثبات (لا الہ الا اللہ) کی حقیقت پر قائم ہے، رہی انسانی مساوات اور سب کو معاشی سہولتوں سے بہرہ مند کرنے کی بات تو اسے دین اسلام کے علاوہ کس نظام نے پیش کیا یا کر سکے گا؟ قرآن مجید اور سنت رسول کی رو سے تاریخ اسلام کے زرین دور میں جو معاشی نظام قائم ہوا، اس میں کبھی کسی کا استحصال نہیں ہوا مگر افسوس کہ خود مسلمان اس نظام کی برکات سے دوسروں کو مستفید کر دے، بہر حال ملت روسیہ کے لیے لمحۂ فکر یہ ہے کہ اسلامی معاشی نظام کا غائر مطالعہ کر کے اور ’’لا‘‘ (نفی) سے گزر کر ’’اِلّا‘‘ (اثبات) کی منزل کی طرف پیش قدمی کریں (ان باتوں کو اقبال نے مثنوی ’’پس چہ باید کر د‘‘ میں دوبارہ اور بانداز دیگر بیان فرمایا ہے، متعلقہ صفحات ملاحظہ ہوں )، پیغام افغانی کے چند اشعار درج ذیل ہیں
| |
|
| |
| اے کہ می خواہی نظامِ عالمے
| |
|
| |
| جستۂاور ا اساسِ محکمے ؟
| |
|
| |
| داستانِ کہنہ شستی باب باب
| |
|
| |
| فکر را روشن کن از اُمّ الکتاب
| |
|
| |
| چیست قرآں ؟ خواجہ را پیغامِ مرگ
| |
|
| |
| دستگیرِ بندۂ بے سازو برگ!
| |
|
| |
| نقشِ قرآں تا دریں عالم نشست
| |
|
| |
| نقشہائے کاہن وپایا شکست
| |
|
| |
| بامسلماں گفت جاں برکف بنہ
| |
|
| |
| ہرچہ از حاجت فزوں داری بدہ
| |
|
| |
| آفریدی شرع وآئینے دگر
| |
|
| |
| اند کے بانورِ قرآنش نگر
| |
|
| |
| محفلِ ما بے مے وبے ساقی است
| |
|
| |
| سازِ قرآں را نواہا باقی است
| |
|
| |
| حق اگر از پیشِ ما برداردش
| |
|
| |
| پیشِ قومے دیگرے بگزاردش
| |
|
| |
| از مسلماں دیدہ ام تقلید وظن
| |
|
| |
| ہر زماں جانم بلرزد در بدن!
| |
|
| |
| تر سم از روزے کہ محرومش کنند
| |
|
| |
| آتش خود بر دلِ دیگر زنند!
| |
|
| |
| ترجمہ:
| |
|
| |
| اگر تمہیں ایک نئے نظام کی تلاش ہے تو کیا تم نے اس کی مضبوط بنیاد کی جستجو کی ہے ؟ تم نے ماضی کی داستان کے ہر ورق کو دھو ڈالا ہے، اب اپنی فکر کو ام الکتاب (قرآن) سے روشن کرو۔ قرآن کیا ہے ؟ حاکموں ار سرمایہ دارو۲ں کے لئے موت کا پیغام ! اور بے سرو سامان بندوں کا دستگیر! اس نقشِ قرآنی نے دنیا سے کہانت اور پاپائیت کے نقوش کو مٹا دیا۔ مسلمانوں سے کہا پنی جان ہتھیلی پر لئے رہو اور جو بھی تمہارے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے دوسروں کو دے دو۔ تم نے (دنیا کو) ایک نئی شرع اور آئین عطا کیا۔ ذرا اسے نور قرآن کی روشنی میں دیکھو۔ اب ہماری محفل میں نہ مئے باقی ہے اور نہ ساقی ہے لیکن ساز قرآن کی نوا باقی ہے۔ اگر (یہ امانت ) ہم سے چھین لی جائے تو دوسری قوم کے سپرد کی جائے گی (کیونکہ ذکرِ حق امتوں سے بے نیاز ہے۔ یہ اسی کا حق ہے جو اس کا اہل ہے )۔ جب میں مسلمان کو دیکھتا ہوں کہ وہ بندۂ تقلید وطن بنا ہوا ہے تو ہر وقت میری جان بدن میں لرزتی رہتی ہے۔ مجھے یہ ڈر محسوس ہوتا ہے کہ کہیں وہ اس شعلہ سے محروم نہ ہو جائے اور یہ آگ کسی دوسرے مقسوم نہ بن جائے۔‘‘
| |
|
| |
| ملت روسیہ کو اقبال نے افغانی کی زبانی پیغام کیوں یا ہے ؟ اس کی متعدد توجیہیں کی جا سکتی ہیں۔ افغانی نے تین بار روس کا سفر کیا اور قفقاز نیز ماسکو میں طویل مدت تک قیام کیا، ان ہی کی مساعی سے قرآن مجید کا روسی ترجمہ اور متعدد دینی کتابیں وہاں طبع ہو سکی ہیں۔ اس طرح افغانی وہاں قرآنی پیغام پہنچا چکے تھے۔ وہ روسی زبان سے کس قدر آشنا(۱۱) اور اس ملت کی فعالیتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اپنے ایک مقالہ ’’واطیعواللہ ورسولہ ولاتنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم ‘ ‘ مطبوعہ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘میں افغانی نے روسیوں کی مدافعانہ سرگرمیوں، مستقل مزاجی اور باہمی اتحاد کی اپنی مدافعت کر سکیں، وہ عصری تقاضوں کا خیال رکھیں اور کامل اتفاق رائے اور مستقل مزاجی ے کام لیں۔ تیسرے یہ کہ وہ دوسرے اسلامی ممالک کے مسلمانوں کے افکار و آراء سے واقف ہوں اور ملت اسلامیہ پروار د ہونے والے تمام خطرات و حوادث کا متحداً مقابلہ کریں۔ ‘‘
| |
|
| |
| سطور گذشتہ کی روشنی میں اقبال شناسی کی خاطر مطالعہ افغانی کی اہمیت واضح ہے۔ علامہ نے افغانی کے افکار سے بھر پور استفادہ فرمایا اور ہمارا مقصد یہی ہے کہ مطالعہ اقبال کے لئے جمال الدین افغانی کی حیات و نگارشات کو سامنے رکھنے کی ضرورت محسوس کی جائے۔
| |
|
| |
| (در: اقبال (لاہور) جلد 19 شمارہ 2 (اکتوبر۔ دسمبر 1971ء)،ص 38-40 )
| |
|
| |
|
| |
| حواشی :
| |
|
| |
| 1۔ Speeches and Statements of Iqbal مرتبہ Shamloo، ص164۔
| |
|
| |
| 2۔ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ‘‘،اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی، بزم اقبال، لاہور، 1958ء، ص 152۔
| |
|
| |
| 3۔ ’’حرف اقبال‘‘ مرتبہ لطیف اللہ شروانی، لہ آباد، 1934ء۔
| |
|
| |
| 4۔ ’’تتمتہ البیان فی تاریخ الافغان ‘‘، مطبوعہ قاہرہ، 1900ء۔
| |
|
| |
| 5۔ مترجمہ محمود علی خان ابوالمحاسن، مطبوعہ لاہور، سن ندارد۔
| |
|
| |
|
| |
|
| |
| ==آثار == | | ==آثار == |
| * رساله نیجریه | | * رساله نیجریه |
| سید جمال الدین افغانی |
|---|
 |
| دوسرے نام | سید جمال الدین افغانی اسد آبادی |
|---|
|
| پیدائش کی جگہ | اسد آباد ایران |
|---|
| یوم وفات | 5 شوال |
|---|
| وفات کی جگہ | ترکی استانبول |
|---|
| اساتذہ | سید محمد صادق طباطبائی، شیخ مرتضی انصاری |
|---|
| مذہب | اسلام، شیعہ |
|---|
| مناصب | رساله نیجریه |
|---|
|
سید جمال الدین افغانیمسلمان رہنما۔ پورا نام سید محمد جمال الدین افغانی۔ والد کا نام سید صفدرخان۔ مشرقی افغانستان کے کنڑ صوبے کے اسعد آباد میں پیدا ہوئے۔ پان اسلام ازم یا وحدت عالم اسلام و ہندو مسلم اتحاد کے زبردست داعی اور انیسویں صدی میں دنیائے اسلام کی نمایاں شخصیت تھے۔
سوانح عمری
تیرہویں صدی ہجری کے عظیم اسلامی مفکر، با بصیرت عالم، فقیہ، مولف، مصنف، معلم اور مجاہد علامہ سید جمال الدین اسدآبادی ماہ شعبان ۱۲۵۴ ھ کو اسد آباد ہمدان (ایران) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ہمدان کے ایک دینی اور علمی خاندان سے تھا۔ آپ کے والد ماجد جناب سید صفدر رحمۃ اللہ علیہ اور والدہ ماجدہ محترمہ سکینہ بیگم رضوان اللہ تعالی علیہا دونوں ایک خاندان سے تھے، جنکا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔
سید جمال الدین نے کچھ عرصہ امیردوست محمد خان اور ان کے جانشینوں کی خدمت کی۔ افغانستان کے حکمرانوں کی خدمت کے دوران انھوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی بھی زیارت کی۔ 1869ء میں انھوں نے یہ ملازمت ترک کردی۔ افغانستان کو خیرباد کہا۔ ہندوستان آئے۔ یہاں سے قاہرہ گئے۔ وہاں ایک دو ماہ کے قیام کے دوران میں اسلامی اتحاد کی ضرورت و اہمیت پر لیکچر دیے اور قاہرہ سے قسطنطنیہ گئے اور 1871ء میں قاہرہ واپس آگئے۔ مصر میں ان کی سرگرمیاں، خاص طور پر وہاں کی قومی تحریک کے لیے ان کی عملی حمایت سے انگریز حکام مشکوک ہو گئے۔
تیرہویں صدی ہجری کے عظیم اسلامی مفکر، با بصیرت عالم، فقیہ، مولف، مصنف، معلم اور مجاہد علامہ سید جمال الدین اسدآبادی ایک اہم پیغام جو آپ نے رہتی دنیا تک کے عالم اسلام کے مبلغین کو دیا وہ یہ کہـــ’’ میںنے عوام کےساتھ ساتھ حکمراں طبقہ کی بیداری کے لئےبھی ان سے ملا ، عوام میں ہماری باتوں کا اثر ہوا لیکن حکمراں طبقہ کے سلسلہ میں ہمیں ناکامی ملی کیونکہ مردہ زمینوں میں کھیتی ممکن نہیں ہے[1]۔
تعلیم
سید جمال الدین جب چار برس کے ہوئے تو اہل علم والدین کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر کے قرآن کریم کی تعلیم سے علمی سفر کا آغاز کیا، انہیں ابتدائی برسوں میں ہی قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ہی عربی ادب اور دیگر ابتدائی تعلیم بھی مکمل کر لی۔ اسد آباد میں قبائلی اختلاف کے سبب مزید تعلیم ممکن نہ تھی لہٰذا اپنے والد کے ہمراہ قزوین چلے گئے اور چار برس وہاں قیام فرمایا۔ انہوں نے اس شہر کے حوزہ علمیہ میں مستعدی سے تعلیم حاصل کی۔
پورے جوش و خروش سے مختلف علوم کو حاصل کئے یہاں تک کہ عربی ادب ، منطق اور فقہ و اصول میں اپنے ہم جماعت طلاب پر سبقت حاصل کر لی۔ آپ مدرسہ میں جس موضوع کی بھی کوئی ایک کتاب پڑھتے تو اپنی ذہانت کی بنا پر اس موضوع کی دوسری کتابوں کا خود سے مطالعہ کرتے، مباحثہ کرتے اور اس کا درس دیتے تھے۔ آپ علم کی شدید تشنگی محسوس کرتے جس کی بنا پر اس کے حصول کی راہ میں کبھی تھکن کا احساس نہیں کیا۔
تہران
۱۲۶۶ ھ میں اپنے والد کے ہمراہ تہران تشریف لے گئے۔ تہران میں مختصر آرام کے بعد وہاں کے سب سے بڑے عالم و مجتہد آیۃ اللہ سید محمد صادق طباطبائی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شامل ہوئے اور اپنی علمی استعداد اور ذہانت کے سبب بہت جلد استاد کے شاگردِ خاص بن گئے۔ تہران کے علمی حلقوں میں آپ کا شہرہ ہو گیا۔ استاد نے اپنے عزیز شاگرد کی استعداد کو دیکھتے ہوئے سر پر دستار فضیلت یعنی عمامہ رکھ دیا۔علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم علمی شخصیت کے سبب تہران میں موجود اہل علم ان سے ملاقات کے مشتاق رہتے۔
نجف اشرف
جناب سید صفدر اسد آبادی نے اپنے نور نظر کی علمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے تہران میں زیادہ دن قیام مناسب نہ سمجھا لہٰذا پختہ ارادہ کر لیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو انہیں اس وقت کے عظیم شیعہ حوزہ علمیہ نجف اشرف منتقل کر دیا جائے لہٰذا تہران سے نجف کے لئے روانہ ہوئے۔ تین ماہ بروجرد میں قیام فرما کر نجف اشرف پہنچ گئے۔ جہاں استاذ الفقہاء آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ مرتضی انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شامل ہوئے۔ سید جمال الدین نے نجف اشرف میں چار سال قیام کیا اور اس مدت میں تفسیر ، حدیث ، فقہ، اصول ، کلام ، منطق ، فلسفہ ، ریاضی ، طب ، تشریح ، ہیئت اور نجوم جیسے علوم میں ایسی مہارت حاصل کی کہ نجف، کربلا اور سامرہ کے علماء حیرت میں پڑ گئے۔
لیکن جہاں تعریف کرنے والوں کی کمی نہ تھی وہیں حسد اور کینہ رکھنے والے بھی موجود تھے۔ لہٰذا آیۃ اللہ العظمی شیخ مرتضی انصاری کی نصیحت پر۱۲۷۰ ھ میں نجف اشرف سے بمبئی ہندوستان کے لئے روانہ ہوگئے اور دریائی راستہ سے آپ بمبئی پہنچے۔ بندرگاہ ہونے کے سبب بمبئی قدیم الایام سے ہندوستان کا ایک تجاری شہر اور اقتصادی مرکز رہا ہے۔
ہندوستان
چونکہ علامہ سید جمال الدین ایک علمی شخصیت تھے اس لئے وہ بمبئی میں اجنبیت محسوس کرتے لہٰذا کلکتہ پہنچے ، آپ نے تقریباً دو برس ہندوستان میں قیام کیا اور مختلف علماء، دانشوروں اور نامور شخصیتوں سے ملاقات کے بعد احساس کیا کہ ہندوستان پوری طرح برطانیہ کے قبضہ میں آچکا ہے، اگرچہ برطانیہ ہندوستان کے ایک صوبہ کے برابر بھی نہیں ہے اور نہ آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کے برابر ہے لیکن پورے ہندوستان پر قابض ہو گیا ہے اور یہاں کے تمام فوائد و منابع پر مسلط ہو گیا ہے ، ہندوستانی عوام اپنے ہی ملک میں نہ صرف غریب و محروم ہیں بلکہ ان کی جان، مال، عزت و ناموس بھی محفوظ نہیں ہے۔
سیاسی اور اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز
یہی وہ وقت تھا جب آپ نے سیاسی اور اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور حالات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ان کی تحلیل اور مشکلات کے راہ حل کی جستجو شروع کی۔
لیکن آپ کا ہندوستان میں مزید قیام ممکن نہ ہو سکا اور فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ حج کے بعد مدینہ، اردن ، دمشق ، حمص ، حلب ، موصل ، بغداد اور نجف اشرف گئے، جہاں بھی تشریف لے گئے وہاں کے حالات کا بغور جائزہ لیا اور آخر میں اپنے وطن ہمدان پہنچ گئے۔
لیکن ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ قاجار آپ کے وجود سے خوفزدہ تھا جس کے سبب ایران میں قیام ممکن نہ ہو سکا اور آپ افغانستان تشریف لے گئے۔ پانچ چھ برس افغانستان میں قیام کیا، حکومت اور عوام کو عالمی استعمار کے خطرات سے آگاہ کرتے رہے اور اس سلسلہ میں کتابیں لکھی اور میگزین بھی شائع کی۔
آخر کار افغانستان میں بھی آپ کا مزید قیام ممکن نہ ہو سکا تو دوبارہ ہندوستان تشریف لائے، بمبئی میں مقیم ایرانیوں نے آپ کا زبردست استقبال کیا اور یہ محرم کا زمانہ تھا۔ بمبئی میں مساجد اور امام بارگاہوں میں منعقد ہونے والی مجالس میں آپ شرکت کرتے جس سے برطانوی استعمار نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے آپ کو پہلے صرف دو ماہ قیام کی اجازت دی لیکن جب آپ نے اپنی تقریروں کے ذریعہ استعمار کی سازشوں کو بے نقاب اور اسلامی امت کو بیدار کرنے لگے تو ایک ماہ کے اندر ہی آپ کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
مصر
ہندوستان سے مصر تشریف لے گئے، جامعہ الازہر میں علماء سے ملاقات کی اور اپنی قیام گاہ پر عرب جوانوں کو درس دینے میں مصروف ہو گئے۔ جس میں انہیں علم دین کے ساتھ عصری علوم سے بھی آگاہ کرنے لگے تا کہ مصر میں عالمی استعمار کی مکر و سازش سے لوگ با خبر ہوں، لیکن یہ سلسلہ چالیس دن ہی چل سکا اور مصری حکومت نے آپ کو مصر سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔
ترکی
علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ مصر سے استانبول ترکی تشریف لے گئے جہاں حکومت نے آپ کی علمی استعداد کو دیکھتے ہوئے استقبال کیا اور حکومت میں آپ کا اثر و رسوخ ہو گیا لیکن درباریوں خصوصاً درباری ملّا یعنی عثمانی شیخ الاسلام کو حسد اور کج فکری کے سبب آپ کا وجود کھٹکنے لگا، لہٰذا آپ نے استانبول میں مزید قیام میں بہتری نہ سمجھی اور سیر و سیاحت کے بہانے۱۲۸۷ ھ میں دوبارہ مصر کی جانب روانہ ہو گئے۔ اس بار مصر میں حکومت نے آپ کا خاطر خواہ استقبال کیا اور قدر کی جس کے سبب آپ اپنی قیام گاہ پر کلاس کے انعقاد کے علاوہ جامعہ الازہر میں بھی درس دینے لگے۔
گذشتہ مطالب سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ آپ کے درس و تبلیغ کا عنوان امت مسلمہ کی بیداری اور استعمار کی سازشوں سے آگاہ کرانا تھا لہٰذا اس سلسلہ میں آپ طلاب اور علماء کے علاوہ دیگر طبقات سے بھی ملاقات کرتے اور اپنی فکر سے آگاہ کرتے یہاں تک کہ آپ چائے کے ہوٹلوں پربھی جاتے اور وہاں بھی لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے تھے، مصر میں بھی آپ نے میگزین کا سلسلہ شروع کیا تا کہ لوگ اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کے دشمنوں کو پہچانیں اور اپنے ملک سے ان کے اثر و رسوخ کو ختم کریں۔جہاں ایک جانب مغربی استعمار کے خلاف آپ سرگرم تھے وہیں دوسری جانب استعمار بھی آپ کے خلاف سرگرم تھا جس کے سبب آپ مصر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
مصر سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، حج کی ادائیگی کے بعد تیسری بار ہندوستان تشریف لائے۔ اس بار جب آپ ہندوستان تشریف لائے تو جہاں آپ کا مقابلہ برطانوی استعمار سے تھا وہیں اس کے حامی سر سید احمد خان کے خلاف بھی میدان میں اترے۔ علامہ سید جمال الدین نے سر سید احمد خان کے افکار کی رد میں فارسی زبان میں کتاب لکھی جس کا اردو اور عربی میں ترجمہ ہوا، نیز آپ نے سر سید احمد خان کی تفسیر کے جواب میں تفسیر مفسر تالیف فرمائی۔
انگریزوں نے علامہ سید جمال الدین کو حیدر آباد دکن بھیج دیا جہاں عمومی مقامات اور عام مجمع میں جانا منع تھا، لہٰذا آپ نے پوشیدہ طور پر ’’عروہ‘‘ نامی انجمن تشکیل دی تا کہ بہادر اور عظیم جوان کو تربیت دے سکیں کہ بعد میں علامہ محمد اقبال جیسے مفکرین نے اسی انجمن سے تربیت پائی اور آپ کی افکار کو نشر کیا ۔انہیں استعمار مخالف سرگرمیوں کے سبب علامہ سید جمال الدین کو ہندوستان سے ایک بار پھر نکالا گیا، پہلے آپ کا ارادہ تھا کہ امریکہ جائیں لیکن بعد میں ارادہ بدل گیا، جمادی الآخر یا رجب۱۳۰۰ ھ کو لندن پہنچ گئے۔
لندن
کچھ عرصہ لندن میں علمی اور ثقافتی سرگرمیوں میں مصروف رہے کہ اچانک آپ نے لندن کو خیر باد کہا اور فرانس کے شہر پیرس چلے گئے۔ علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ ایک عالمی دینی، علمی اور جہادی شخصیت تھے کہ اکیلے دم پر دنیا کے طاقتور ملکوں کو خوف زدہ کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے یورپ کے علمی اور سیاسی حلقوں میں آپ کی علمی اور سیاسی شخصیت پر مقالے لکھے جا چکے تھے اور تقریریں بھی ہوئی تھیں لہٰذا ہر انسان آپ کی زیارت کا مشتاق اور ملاقات کا خواہاں تھا۔
عروۃ الوثقیٰ میگزین کی بنیاد
یورپ میں آپ نے عروۃ الوثقیٰ میگزین کی بنیاد رکھی، معروف فرانسوی حکیم اور مورخ ارنست رنان سے علمی مذاکرہ کئے جس کے نتیجہ میں اسلام کے سلسلہ میں اس کی غلط فہمیاں کافی حد تک ختم ہو گئی۔ نیز یورپ کے علمی اور سیاسی شخصیات سے گفتگو کی، یورپ میں آپ کو سوڈان کی بادشاہت کی دعوت دی گئی تو آپ ناراض ہو گئے اور فرمایا کہ یہ تمہاری سیاسی غلطی ہے مجھے تعجب ہے کہ کیا تم سوڈان کے مالک ہو جو مجھے وہاِں کا بادشاہ بنا رہے ہو؟ اور انکار کر دیا۔
یورپ میں تین ماہ کے ناکام مذاکرات کے بعد آپ نے جزیرۃ العرب کا ارادہ کیا لیکن ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ قاجار کی دعوت پر۲۳ ؍ربیع الاول ۱۳۰۴ ھ کو تہران پہنچے۔ پہلے تو بادشاہ نے بلایا لیکن جب آپ پہنچ گئے تو آپ کو ایران سے نکل جانےکا حکم دے دیا لہٰذا آپ ایران سے روس چلے گئے۔ روسی حکومت نے آپ کو روسی مسلمانوں کا رہبر بنانا چاہا تو آپ نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے حقوق کا پاسبان ہوں مجھے یہاں محدود نہ کرو۔
اسی زمانے میں ناصر الدین شاہ کو یورپ میں دعوت دی گئی ، وہ پہلے روس گیا تو وہاں آپ کی شخصیت اور عظمت سے کافی متأثر ہوا اور جب یورپ پہنچا تو ہر جگہ علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر ہی سنا لہٰذا وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہوا اور ایران واپس پہنچ کر آپ کو دوبارہ ایران آنے کی دعوت دی تا کہ ایران کے علمی اور اقتصادی امور میں مدد لے، ملک و ملت کی خاطر آپ نے اس دعوت کو قبول کیا۔ محرم ۱۳۰۷ ھ کو روسیوں سے مذاکرہ کیا جس میں روسی ایران کے جن امتیازات کے قائل نہ تھے انہیں قائل کیا اور ربیع الاول ۱۳۰۷ ھ میں ایران تشریف لے گئے۔
ایران آئے ہوئے ابھی آپ کو چھ ماہ نہ گذرے تھے کہ آپ کے خلاف سازشوں کا بازار گرم ہو گیا۔ ناصر الدین شاہ نے آپ کو ایران سے نکلنے کا تحریری حکم بھیجا جس کے ملتے ہی آپ شہر ری میں امام زادہ حضرت عبدالعظیم حسنی علیہ السلام کے روضہ مبارک پہنچے اور شاہ کی خیانتوں کے خلاف تقریر کی اور روضۂ مبارک میں احتجاجاً بیٹھ گئے۔ برطانوی سفارت کے حکم پر ناصر الدین شاہ نے دوبارہ شدید حکم دیا اور اس کے کارندوں نے آپ کو ملک کے مغربی علاقہ میں بھیج دیا۔
علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ ایران سے عراق کے شہر بصرہ پہنچے اور سامرہ میں موجود مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھ کر شاہ ایران کے مظالم اور خیانتوں سے آگاہ کیا نیز تنباکو کے سلسلہ میں ایرانی عوام کے مفادات کے خلاف ناصر الدین شاہ کے برطانوی معاہدے کے سلسلہ میں استفتاء کیا جس کے نتیجہ میں تنباکو کی حرمت کا تاریخی فتویٰ صادر ہوا جس نے عالمی استعمار اور ان کے زر خریدوں کی نیندیں اڑا دیں۔ نیز آپ نے علمائے اسلام کو بھی خط لکھ کر استعمار کی سازشوں اور شاہ ایران کے مظالم اور خیانتوں سے آگاہ کیا۔
عراق سے آپ لندن گئے اوروہاں اخبارات میں بھی ناصرالدین شاہ کی خیانتوں کی شائع کرایا ۔ آپ کی انسانی اقدار کی پاسبان سرگرمیوں اور امت کی بیداری تحریک بلکہ تمام سرگرمیوں پر برطانوی حکومت نے پابندی لگا دی۔
آپ کی انہیں سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ترکی حاکم سلطان عبا الحمید نے موقع کو غنیمت جانا کہ اگر ان کا ساتھ دیا گیا تو کل نہ صرف ترکی بلکہ پورے عالم اسلام کی پیشوائی اس کا مقدر ہو گی لہٰذا اس نے آپ کو استانبول بلا لیا۔ استانبول میں چار برس آپ کی سرگرمیوں کو دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ اس سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے، عالم اسلام کی پیشوائی تو دور کی بات خود اپنی حکومت کو اس عظیم مقصد میں قربان کرنا پڑ جائے گا۔
جمال الدین افغانی اور ہندوستانی علماء
اب جبکہ جمعیۃ علماء نے دیوبند میں منعقد ہونے والی تیسویں کانفرنس میں حکومت کو متنبہ کردیا ہے کہ مؤخر الذکر نصاب مدارس میں جدید مضامین کو داخل کرنے کی کوششوں سے باز رہے، میں انیسویں صدی کے عالم گیر اسلام کے زبردست موید سید جمال الدین کا بیش بہا مشورہ یاد کرنے کا خواہاں ہوں۔ واضح ہو کہ ہندوستان کے روایتی علماء جمال الدین افغانی کے لئے دیدۂ و دل فرش راہ کئے رہتے ہیں [2]۔
وہ ایک ایسے ممتاز عالم تھے جنہوں نے مغربی استعماریت کے خلاف متعدد ملکوں میں مسلمانوں کو متحرک کرنے کے لئے اپنی بیش بہا زندگی وقف کردی۔
انہوں نے انتہائی چابکدستی سے استعماریت سے نبرد آزما ہونے کے لئے مذہب کو قوت محرکہ بنایا اور یہی وجہ ہے کہ انہیں دور جدید کے پہلے کل۔ اسلامی بطلِ عظیم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ کئی سالوں تک ایران، فارس اور ترکی میں رہے۔ انہوں نے کچھ وقت فرانس میں بھی گزارا۔ انہوں نے 1880سے لے کر 1882تک ہندوستان میں قیام کیا۔ اس عرصے میں انہوں نے اپنے سیاسی ایجنڈا کو بروئے کار لانے کے لئے عوامی تقریروں کے ساتھ ساتھ طویل رسالے تحریر کئے۔
انہیں ہندوستانی علماء کے درمیان کافی مقبولیت ملی۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ اولاً ان کی برطانیہ مخالف سرگرمیاں اور دوئم سرسید کی انتہائی شدت سے فضیحت وملامت۔ انہوں نے سرسید کی مخالفت میں ایک مضمون بھی تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا: ’’نیچریوں (مادّہ پرستوں کے بارے میں حقائق۔‘‘)
سرسید کی مخالفت کے باوجود افغانی نے انہیں کی طرح فلسفے اور جدید سائنس کی افادیت پر زور دیا۔ انہوں نے علماء سے فرط جذبات کے ساتھ اپیل کی وہ جدید سائنس کو اپنائیں اور علم وآگہی کو اسلامی اور مغربی خطوط پر تقسیم نہ کریں۔
کلکتہ میں خطاب
کلکتہ میں ’’تعلیم و تعلم‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’’تمام بڑی سلطنتیں بشمول یورپی فاتحین کو سائنس کا تعاون حاصل تھا۔ سائنس نے جہل کو ہمیشہ مغلوب کیا ہے، اور سائنس ہی تمام میدانوں میں ترقی یافتہ تکنالوجی کی اساس رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید فرمایا کہ ’’یہ کوئی فرانسیسی یا برطانوی قوتیں نہیں تھیں جنہوں نے غیر یورپی دنیا کو مسخر کرکے اپنی نو آبادیاتی کالونی بنالیا بلکہ یہ کارنامہ سائنس کی عظیم قوت نے انجام دیا۔
فلسفے کی عظمت بیان کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’وہ سائنس جسے ایک جامع روح کا مقام اور ایک محافظ قوت کا منصب حاصل ہے، وہ در اصل فلسفے کی سائنس ہے کیوں کہ اس کے موضوعات آفاقی ہیں۔ اپنے مناسب مقام پر ہر سائنس پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔‘
اس معرکۃ الآرا خطاب میں انہوں نے علماء ہند کی تنقید کی اور کہا کہ ان کی فکر پر مُلاّ صدرا اور مُلاّ محمود جونپوری اور ان کی ساتویں صدی کی کلاسیکی تصنیف ’’شمسِ بازغہ‘‘ مسلط ہے۔
انہوں نے ان کو پھٹکارتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو درویش ظاہر کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کوتاہ علم ہیں اور علم و آگہی کے بحرِ ذخّار کی غواصی سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے فرمایا: ’’وہ کبھی نہیں پوچھتے کہ بجلی کس طرح پیدا ہوتی ہے، وہ کبھی دریافت نہیں کرتے کہ بھاپ سے چلنے والی کشتیاں یا ریلیں کیا ہوتی ہیں۔‘‘
افغانی نے فرمایا کہ وہ اس بات پر متعجب ہیں کہ علماء نے سائنس کو مسلم سائنس اور یورپی سائنس میں تقسیم کردیا ہے اور اپنی درسگاہوں میں انتہائی مفید علوم کی تحصیل پر پابندی لگا رکھی ہے۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ ’’وہ لوگ جو سائنس اور علم کی ممانعت کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس طرح مذہب اسلام کا تحفظ کررہے ہیں، تو جان لیں کہ درحقیقت وہی اسلام کے دشمن ہیں۔‘‘
افغانی کا خیال تھا کہ اسلام وہ دینی نظام ہے جو جدید سائنسوں سے غیر ہم آہنگ نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’’مولویان مجرم ہیں جنہیں نہ صرف سائنس بلکہ پوری دنیا کے تئیں اپنا رویہ تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس نے گزشتہ چند صدیوں میں نہایت تیز قدمی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ انہوں نے مسلم علما کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ایک ننھے سے دئے کی مانند ہے جو نہ خود اپنے ماحول کو منور کرسکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہوسکتا ہے۔‘‘
مقالات جمالیہ میں انہوں نے علما کے ’’اس بے جا مذہبی جوش پر انہیں متنبہ کیا جس نے علم ودانش اور سائنسوں کے تئیں مسلمانوں میں نفرت پیدا کی اور انہیں صنعت و حرفت اور ایجاد و اختراع سے بیزار کردیا۔‘‘
کیا اکیسویں صدی کے علما، انیسویں صدی کی اس ہوشمندانہ اور تعقل پسندانہ آواز پر کان دھریں گے یا پھر یہ صدا بصحرا ثابت ہوگی[3]۔
سید جمال الدین افغانی اور آمریت
سیّد جمال الدین افغانی ۱۸۳۸ء میں افغانستان کے ایک گاؤں اسد آباد میں پیدا ہوئے تھے (بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اسد آباد ہی میں پیدا ہوئے تھے، لیکن یہ گاؤں ایران کے صوبے ہمدان میں واقع ہے)۔وہ عام طورپر افغانی کے نام سے مشہور ہیں، لیکن ایران میں اسدآبادی کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے بعض اوقات خود کو ’’الحسینی‘‘ یا استنبولی بھی لکھا۔ بعض ایرانی مصنّفین کے نزدیک وہ اہل تشیع تھے
[4]۔ چونکہ وہ مسلمانوں کی اکثریت کو، جو سنیوں پر مشتمل تھی، متحد کرنے کے لیے کوشاں تھے، اس لیے انھوں نے کبھی اپنا ذاتی عقیدہ ظاہر نہیں کیا۔
وہ ۱۸۹۱ء میں لندن پہنچے اور اسی سال قسطنطنیہ واپس آگئے۔ سلطان عبدالحمید نے جمال الدین کا شاہانہ استقبال کیا۔ سلطان کا خیال تھا کہ اس کی مطلق العنانی اور آمریت کے قیام و استحکام میں افغانی بطور آلہ کار مددگار ثابت ہوں گے، لیکن سلطان کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ افغانی نے اس کی مدد کرنے کی بجائے، الٹا ترکی میں آئینی تحریک کی تائید و حمایت کی۔ ۹مارچ ۱۸۹۷ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انھیں سلطان عبدالحمید کی ہدایت کے مطابق زہر دلوایا گیا تھا۔
براؤن لکھتا ہے: ’’اِس غیر معمولی شخص نے اپنے کسی بھی ہم عصر کے مقابلے میں اسلامی مشرق کے حالات و واقعات کا دھارا بدلنے میں، کم از کم بیس برسوں کے عرصے میں، نمایاں خدمات انجام دیں‘‘ افغانی نے مصر میں قومی انقلاب برپا کرنے کی تحریک میں حصہ لیا۔ ایران میں آئین پسندی کی تحریک ان کی ترغیب و تشویق پر منظم کی گئی۔ ترکی میں آئین پسندی کی تحریک کو ان کی تائید و حمایت حاصل رہی۔ علاوہ ازیں انھوں نے یورپی استعمار کے خطرے کے خلاف اسلام کے تحفظ کے لیے مسلم ریاستوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے سنی اور شیعہ کے درمیان حائل خلیج پاٹنے کے لیے جدوجہد کی۔ جمال الدین افغانی نے خلافتِ عثمانیہ کے بارے میں اس تنازعے میں حصہ نہیں لیا کہ عثمانیوں کا قریشی نسب سے متعلق نہ ہونے کے باعث منصبِ خلافت پر بھی کوئی حق نہیں۔ اس متنازعہ صورت حال کو انھوں نے حقیقت پسندانہ اور عملی نقطۂ نظر سے دیکھا۔ ان کا خیال تھا کہ قائم شدہ خلافت کے تحت مسلمانانِ عالم کا اتحاد ایک مذہبی و سیاسی ضرورت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض روایت پسند علما اور اعتدال پسند لوگ ان کی حمایت کرتے تھے۔ تاہم وہ تبلیغ اِس بات کی کرتے تھے کہ سلطان/ خلیفہ سے وفاداری مشروط ہونی چاہیے۔ مشروط سے ان کی مراد یہ تھی کہ خلافت کو ’’آئینی‘‘ ہونا چاہیے اور یہ ان کا نیا ’’اجتہاد‘‘ تھا۔ مسلم حکمران ابھی ماضی میں جی رہے تھے، جبکہ زمانہ بدل گیا تھا۔ وہ مطلق العنان تھے۔ جابر و آمر تھے۔ نااہل اور ناقابل تھے، اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر رعایا کے مفادات کو قربان کرسکتے تھے[5]۔
آثار
- رساله نیجریه
- مقالات در روزنامه «عروةالوثقی»
- مقاله در رد خطابه ارنست رنان
- نامهها
- مقالات در نشریه «ضیاءالخافقین»
- تتمة البیان فی تاریخ الافغان
- تاریخ مختصر ایران از ابتدا تا زمان سید جمال،
وفات
دوسری جانب انہیں ایام میں ناصر الدین شاہ کا قتل ہو گیا اور یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ قاتل علامہ سید جمال الدین کا خاص ہے لہٰذا سلطان عبا الحمید نے آپ کے قتل میں ہی عافیت سمجھی ، آپ کو زہر دلا دیا اور ۵؍ شوال المکرم ۱۳۱۴ ھ کو استانبول میں آپ شہید ہو گئے۔ استانبول میں آپ کو دفن کیا گیا بعد میں وصیت کے مطابق استانبول سے جنازہ کابل لایا گیا اور کابل یونیورسٹی میں دفن ہوئے۔
آپ کا جسم زیر خاک چلا گیا لیکن آپ کی بلند روح افلاک میں محو پرواز ہے آپ کا پیغام کہ ہم اللہ کی اشرف مخلوق انسان ہیں ، جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نبیوں میں سب سے افضل اسی طرح ان کی امت بھی امتوں میں سب سے افضل ہے۔ لہٰذا اسلامی امت کا بیدار ہونا بے حد ضروری ہے۔
جو درد آپ کو مسلسل پریشان کر رہا تھا وہ حکمرانوں کا ظلم، مسلمانوں کی جہالت اور بے خبری اور تہذیب و ثقافت میں پسماندگی تھی، مسلمانوں میں توہم پرستی، غیر دینی اور غیر عقلی رسموں کا رواج اور صدر اسلام کے عقائد و افکار سے دوری تھی، مسلمانوں میں فرقہ وارانہ اختلافات تھا، اسلامی ممالک میں مغربی استعمار کا نفوذ تھا۔
انہیں جیسے دردوں کے علاج کے کے لئے آپ نے پوری زندگی سفر کیا ایک شہر سے دوسرے شہر ، ایک ملک سے دوسرے ملک تشریف لے گئے۔ آپ اگر استعمار کی جانب ہاتھ بڑھاتے تو ایک یونیورسٹی کیا پورے ملک کی حکومت اور قیادت مل جاتی، ایک "سر" کا لقب کیا بلکہ شیخ الاسلام بن جاتے لیکن حرام کے ذریعہ کسی حلال کی انجام دہی آپ کے نزدیک حرام تھی لہٰذا جہاں عالمی استعمار کے سامنے ڈٹے رہے وہیں اس کے زر خریدوں سے بھی دست و گریباں رہے چاہے وہ زر خرید حاکم کی شکل میں ہوں یا کسی دانشور کی شکل میں ہوں۔
آج اسلامی امت کی بیداری آپ ہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے اگر کل آپ نے امت اسلامیہ کے اذہان میں اس کا بیج نہ بویا ہوتا تو آج یہ سایہ دار اور ثمردار درخت بھی وجود میں نہ آتا اگر چہ اس بہار کو دیکھنے کے آپ مشتاق تھے لیکن نہ دیکھ سکے ۔
ایک اہم پیغام جو آپ نے رہتی دنیا تک کے عالم اسلام کے مبلغین کو دیا وہ یہ کہـــ’’ میںنے عوام کےساتھ ساتھ حکمراں طبقہ کی بیداری کے لئےبھی ان سے ملا ، عوام میں ہماری باتوں کا اثر ہوا لیکن حکمراں طبقہ کے سلسلہ میں ہمیں ناکامی ملی کیونکہ مردہ زمینوں میں کھیتی ممکن نہیں ہے ، اے کاش ! ہماری ساری سرگرمی عوام کے لئے ہوتی۔ ‘‘ کیونکہ حکمراں طبقہ کو ان کی حکومت نے بیداری سے روک دیا تھا[6]۔
حوالہ جات