"محمد مکرم احمد" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 19: سطر 19:


'''محمد مکرم احمد''' ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد، مسجد فتح پوری، دہلی کے شاہی امام ہیں۔ انہیں دہلی میں [[مسلمان|مسلمانوں]] کے ایک اہم امام اور مفتی کے ساتھ رہنما کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ آپ پانچ بین الاقوامی زبانوں میں ماسٹر ہیں اور جدید عربی ادب میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ مفتی محمد مکرم متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ متعدد بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعہ انھیں متعدد مواقع پر مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ مختلف ممالک کے مندوبین شاہی امام سے اپنے خیالات کا تبادلہ کرنے کے لئے مسجد فتح پوریکا رخ کرتے رہے ہیں۔ آپ متعدد اسلامی کتب اور دیگر اسلامی مطبوعات کے مصنف اور مدیر رہے ہیں۔ سیاست اور سماجی مسائل کے ساتھ مذہبی امور پر بہت متوازن رائے دینے کےلئے جانے جاتے ہیں۔ مجمد مکرم احمد [[عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی]] کے رکن ہیں۔
'''محمد مکرم احمد''' ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد، مسجد فتح پوری، دہلی کے شاہی امام ہیں۔ انہیں دہلی میں [[مسلمان|مسلمانوں]] کے ایک اہم امام اور مفتی کے ساتھ رہنما کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ آپ پانچ بین الاقوامی زبانوں میں ماسٹر ہیں اور جدید عربی ادب میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ مفتی محمد مکرم متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ متعدد بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعہ انھیں متعدد مواقع پر مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ مختلف ممالک کے مندوبین شاہی امام سے اپنے خیالات کا تبادلہ کرنے کے لئے مسجد فتح پوریکا رخ کرتے رہے ہیں۔ آپ متعدد اسلامی کتب اور دیگر اسلامی مطبوعات کے مصنف اور مدیر رہے ہیں۔ سیاست اور سماجی مسائل کے ساتھ مذہبی امور پر بہت متوازن رائے دینے کےلئے جانے جاتے ہیں۔ مجمد مکرم احمد [[عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی]] کے رکن ہیں۔
== امامِ حسینؓ نے حق و صداقت کے پرچم کو بلند کیا ==
آپ نے آنے والی نسلوں کے لیے عزیمت کی مثال قائم کر دی اور اپنے اعلیٰ کردار اور مقبول عمل سے یہ ثابت کیا کہ اس طرح ظالموں اور جابروں کے سامنے کلمہ حق ادا کیا جاتا ہے
[[امام  حسین|حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ]] کی شہادت عظمیٰ ظاہر کرتی ہے کہ دین کی حفاظت کس قدر مشکل ہے۔ وہ چاہتے تو شہادت کی نوبت ہی نہیں آتی۔ وہ پاکیزہ نفوس اگر دعا کر دیتے تو حالات آناً فاناً بدل جاتے۔ اگر وہ زمین پر عصا مارتے تو دجلہ و فرات کے چشمے ابل جاتے۔ اگر وہ چاہتے تو تین دن تک فاقوں کی نوبت نہیں آتی۔
من و سلویٰ نازل ہو جاتا۔ اگر وہ یزید کے لیے بد دعا کر دیتے تو سب نیست و نابود ہو جاتے۔ ان کی خدمت میں فرشتوں کی فوجیں دست بستہ حاضر تھیں۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ مباہلہ کے دن عیسائی پیچھے کیوں ہٹ گئے تھے۔ اسی لیے کہ انھیں معلوم تھا کہ اگر ہم ان مقدس نفوس کے مقابلہ پر آئے اور غضب الٰہی کے شکار ہوئے تو صفحہ ہستی سے عیسائیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ وہی سب کچھ یہاں بھی ہو سکتا تھا اور دنیا دیکھ لیتی کہ آل رسول کا مقابلہ کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ لیکن مقصد تو ملت اسلامیہ کو استقامت کا درس دینا تھا۔
امام عالی مقام کے قدموں پر عظمتیں نچھاور ہیں۔ انھیں تو دنیا و آخرت کی سرداری ملی ہوئی ہے۔ وہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ وہ تو محبوب محبوب رب العالمین ہیں۔ وہ تو راکب دوش رسول ہیں۔ وہ تو سیدۃ النسا حضرت فاطمہ زہراء کے جگر گوشہ اور شہزادۂ علی حیدر ہیں، خلافت تو ان پر صبح و شام مدام نچھاور ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی لیکن عاشورہ محرم پر جام شہادت نوش کر کے قیامت تک کے لیے انھوں نے حسینیوں کو جام عشق پلا دیے اور یزیدیوں کو رسوا کر دیا۔ آج یزیدی منھ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔
ان پر لعنتوں کی برسات ہو رہی ہے۔ امام کو خلافت کی چاہ نہیں تھی۔ انھیں امامت کا شوق نہیں تھا۔ وہ تو گوشہ نشیں ہو گئے تھے۔ ان سے زیادہ عابد و زاہد کون ہو سکتا تھا۔ کوفہ والوں نے انھیں بے شمار خطوط بھیجے، وفود بھیجے، ان کے نانا کا واسطہ دیا اس لیے وہ مجبوراً کوفہ جانے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ پہلے آپ نے مسلم بن عقیل کو حالات کی تحقیق کے لیے بھیجا۔
انھوں نے کوفہ والوں کی عقیدت و محبت کی تصدیق کی اور لکھا کہ ہزاروں افراد نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے اور یہاں کے باشندے آپ کی آمد کے بے چینی سے منتظر ہیں۔ آپ جلد تشریف لے آئیں۔ اس خط کے بعد حضرت نے کوفہ جانے کا عزم مصمم کر لیا۔ جب اہل مکہ کو آپ کی تیاری اور روانگی کا علم ہوا تو سب نے ہی آپ کو سفر سے روکنے کی حتی الامکان کوشش کی<ref>[https://www.qaumiawaz.com/column/day-of-ashura-imam-hussain-raised-the-flag-of-truth-mufti-muhammad-makram یوم عاشورہ: امامِ حسینؓ نے حق و صداقت کے پرچم کو بلند کیا ... مفتی محمد مکرم]- شائع شدہ از: 9 اگست 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 دسمبر 2024ء۔</ref>۔
== اقوام متحدہ اسرائیل پر پابندیاں عائد کرے ==
== اقوام متحدہ اسرائیل پر پابندیاں عائد کرے ==
فتحپوری مسجد دہلی کے شاہی امام اقوام متحدہ سلامتی کونسل سے ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ جنگ بندی کی قرارداد پر سختی سے عمل کرایا جائے، اگر صہیونی حکومت اس پر عمل نہ کرے تو عالمی برادری اسکا بائیکاٹ کرے اور اس پر پابندیاں لگائی جائیں۔
فتحپوری مسجد دہلی کے شاہی امام اقوام متحدہ سلامتی کونسل سے ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ جنگ بندی کی قرارداد پر سختی سے عمل کرایا جائے، اگر صہیونی حکومت اس پر عمل نہ کرے تو عالمی برادری اسکا بائیکاٹ کرے اور اس پر پابندیاں لگائی جائیں۔

نسخہ بمطابق 22:44، 20 دسمبر 2024ء

محمد مکرم احمد
محمد اکرم احمد.jpg
دوسرے ناممفتی ڈاکٹر محمد مکرم احمد
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہہندوستان
مذہباسلام، سنی

محمد مکرم احمد ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد، مسجد فتح پوری، دہلی کے شاہی امام ہیں۔ انہیں دہلی میں مسلمانوں کے ایک اہم امام اور مفتی کے ساتھ رہنما کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ آپ پانچ بین الاقوامی زبانوں میں ماسٹر ہیں اور جدید عربی ادب میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ مفتی محمد مکرم متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ متعدد بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعہ انھیں متعدد مواقع پر مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ مختلف ممالک کے مندوبین شاہی امام سے اپنے خیالات کا تبادلہ کرنے کے لئے مسجد فتح پوریکا رخ کرتے رہے ہیں۔ آپ متعدد اسلامی کتب اور دیگر اسلامی مطبوعات کے مصنف اور مدیر رہے ہیں۔ سیاست اور سماجی مسائل کے ساتھ مذہبی امور پر بہت متوازن رائے دینے کےلئے جانے جاتے ہیں۔ مجمد مکرم احمد عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی کے رکن ہیں۔

امامِ حسینؓ نے حق و صداقت کے پرچم کو بلند کیا

آپ نے آنے والی نسلوں کے لیے عزیمت کی مثال قائم کر دی اور اپنے اعلیٰ کردار اور مقبول عمل سے یہ ثابت کیا کہ اس طرح ظالموں اور جابروں کے سامنے کلمہ حق ادا کیا جاتا ہے حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمیٰ ظاہر کرتی ہے کہ دین کی حفاظت کس قدر مشکل ہے۔ وہ چاہتے تو شہادت کی نوبت ہی نہیں آتی۔ وہ پاکیزہ نفوس اگر دعا کر دیتے تو حالات آناً فاناً بدل جاتے۔ اگر وہ زمین پر عصا مارتے تو دجلہ و فرات کے چشمے ابل جاتے۔ اگر وہ چاہتے تو تین دن تک فاقوں کی نوبت نہیں آتی۔

من و سلویٰ نازل ہو جاتا۔ اگر وہ یزید کے لیے بد دعا کر دیتے تو سب نیست و نابود ہو جاتے۔ ان کی خدمت میں فرشتوں کی فوجیں دست بستہ حاضر تھیں۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ مباہلہ کے دن عیسائی پیچھے کیوں ہٹ گئے تھے۔ اسی لیے کہ انھیں معلوم تھا کہ اگر ہم ان مقدس نفوس کے مقابلہ پر آئے اور غضب الٰہی کے شکار ہوئے تو صفحہ ہستی سے عیسائیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ وہی سب کچھ یہاں بھی ہو سکتا تھا اور دنیا دیکھ لیتی کہ آل رسول کا مقابلہ کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ لیکن مقصد تو ملت اسلامیہ کو استقامت کا درس دینا تھا۔

امام عالی مقام کے قدموں پر عظمتیں نچھاور ہیں۔ انھیں تو دنیا و آخرت کی سرداری ملی ہوئی ہے۔ وہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ وہ تو محبوب محبوب رب العالمین ہیں۔ وہ تو راکب دوش رسول ہیں۔ وہ تو سیدۃ النسا حضرت فاطمہ زہراء کے جگر گوشہ اور شہزادۂ علی حیدر ہیں، خلافت تو ان پر صبح و شام مدام نچھاور ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی لیکن عاشورہ محرم پر جام شہادت نوش کر کے قیامت تک کے لیے انھوں نے حسینیوں کو جام عشق پلا دیے اور یزیدیوں کو رسوا کر دیا۔ آج یزیدی منھ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔

ان پر لعنتوں کی برسات ہو رہی ہے۔ امام کو خلافت کی چاہ نہیں تھی۔ انھیں امامت کا شوق نہیں تھا۔ وہ تو گوشہ نشیں ہو گئے تھے۔ ان سے زیادہ عابد و زاہد کون ہو سکتا تھا۔ کوفہ والوں نے انھیں بے شمار خطوط بھیجے، وفود بھیجے، ان کے نانا کا واسطہ دیا اس لیے وہ مجبوراً کوفہ جانے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ پہلے آپ نے مسلم بن عقیل کو حالات کی تحقیق کے لیے بھیجا۔

انھوں نے کوفہ والوں کی عقیدت و محبت کی تصدیق کی اور لکھا کہ ہزاروں افراد نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے اور یہاں کے باشندے آپ کی آمد کے بے چینی سے منتظر ہیں۔ آپ جلد تشریف لے آئیں۔ اس خط کے بعد حضرت نے کوفہ جانے کا عزم مصمم کر لیا۔ جب اہل مکہ کو آپ کی تیاری اور روانگی کا علم ہوا تو سب نے ہی آپ کو سفر سے روکنے کی حتی الامکان کوشش کی[1]۔

اقوام متحدہ اسرائیل پر پابندیاں عائد کرے

فتحپوری مسجد دہلی کے شاہی امام اقوام متحدہ سلامتی کونسل سے ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ جنگ بندی کی قرارداد پر سختی سے عمل کرایا جائے، اگر صہیونی حکومت اس پر عمل نہ کرے تو عالمی برادری اسکا بائیکاٹ کرے اور اس پر پابندیاں لگائی جائیں۔ فتحپوری مسجد دہلی کے شاہی امام مولانا ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد نے آج نماز جمعہ سے قبل خطاب میں کہا کہ رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں شب قدر کی عبادت کریں اور اعتکاف کی پابندی کریں۔

مفتی مکرم نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بینچ کے فیصلہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا جس میں عدالت عالیہ نے 2004ء کے مدرسہ تعلیمی بورڈ ایکٹ کو منسوخ کرتے ہوئے اترپردیش حکومت کو حکم دیا ہے کہ مدرسوں کو بند کیا جائے اور جو طلبہ و طالبات فی الحال مدارس میں زیر تعلیم ہیں ان کا اسکولوں میں داخلہ کرایا جائے۔ مفتی مکرم نے کہا کہ لاکھوں مسلم بچوں کا مستقبل خطرہ میں پڑ گیا ہے۔ انہوں نے اترپردیش کی حکومت سے اور مدرسہ تعلیمی بورڈ سے پر زور مطالبہ کیا کہ اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی جائے اور مدارس کو بند نہ کیا جائے۔

مفتی مکرم نے صہیونی وزیر اعظم نتن یاہو کی وحشیانہ بربریت پر شدید غم کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فوری جنگ بندی کی قرارداد اتفاق رائے سے پاس ہونے کے بعد بھی اسرائیلی حکومت کے وحشیانہ حملوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ الشفاء ہسپتال میں نرسوں، ڈاکٹروں اور مریضوں کو بھی ظالموں نے نہیں بخشا اور کئی سو لوگوں کو گرفتار کر کے لے گئے جن کی کوئی خبر نہیں ہے۔ عورتوں کی آبروریزی کی گئی۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل سے ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ جنگ بندی کی قرارداد پر سختی سے عمل کرایا جائے، اگر صہیونی حکومت اس پر عمل نہ کرے تو عالمی برادری اس کا بائیکاٹ کرے اور اس پر پابندیاں لگائی جائیں[2]۔

فلسطین میں اسرائیل کے ظلم وبربریت کو رکوانے مسلم دنیا عملی اقدام کرے

فلسطین میں اسرائیل کے ظلم وبربریت کو رکوانے مسلم دنیا عملی اقدام کرے: مفتی مکرم - فلسطین میں اسرائیل کے ظلم وبربریت کو رکوانا ضروری دہلی کی مسجد فتح پوری کے شاہی امام ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد نے کہا کہ فلسطین میں اسرائیل کے ظلم و بربریت کو رکوانا ناگزیر اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی بچوں کی فریاد کو سن کر مسلم دنیا کو عملی اقدام کرنا چاہیے۔

فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے قتل عام اور نسل کشی ظلم وبربریت برابر جاری ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں ایسا ظلم جس میں ہزاروں بچے اور بڑے ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ ایک نا قابل برداشت جرم ہے۔ جنگ کو ایک ماہ سے زیادہ گزر چکا ہے حملے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ شاہی امام مسجد فتح پوری ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد نے اپنے خطاب میں غزہ اور مغربی کنارہ پر وحشیانہ بمباری، بچوں، خواتین اور عام شہریوں کی کثیر تعداد میں ہلاکتوں پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری اور مسلم دنیا سے پر زور اپیل کی کہ فلسطین کے بچوں کی فریاد کو سن کر مؤثر عملی اقدامات کیے جائیں۔ دنیا بھر میں اسرائیلی ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں بشمول یونیسیف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی عام شہریوں، پناہ گزین کیمپوں، اسپتالوں اور عبادت گاہوں پر صہیونی حملوں کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ترقی یافتہ دور میں ایسا ظلم جس میں ہزاروں بچے اور بڑے ہلاک ہو گئے یہ ناقابل برداشت ہے۔ جنگ کو ایک ماہ سے زیادہ گزر چکا ہے حملے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو پابند کیا جائے کہ وہ عام شہریوں پر حملے بند کرے۔ ہمارا مطالبہ سب ہی سے ہے کہ فوری جنگ بندی پر عمل کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں۔ مسلم ممالک بھی عملی اقدام کریں اور اللہ پر بھروسہ کر کے ظلم کے خلاف کھڑے ہوں۔ مظلوموں کی حمایت اللہ کا حکم ہے۔ اس پر عمل ہونا چاہیے۔ مفتی مکرم احمد نے فلسطین کی عوام کے لیے بھارتی مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ موجودہ حالات میں توبہ واستغفار کثرت سے کریں۔ تہجد کی نوافل کے بعد فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے لیے خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کریں[3]۔

مسلمان امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں

آج شاہی امام مسجد فتحپوری دہلی مفتی محمد مکرم احمد نے مسلمانوں سے اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ شاہی امام نے نماز ِجمعہ سے پہلے اپنے خطاب میں اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی اور مسجد اقصیٰ کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مسجد قبلہ اول ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مسجد حرام (مکہ مکرمہ)، مسجد نبوی (مدینہ منورہ) اور مسجد اقصیٰ سفر کرکے نمازیں ادا کرنے کا ثواب بہت زیادہ ملتا ہے۔

لہٰذا مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی عقیدت کا مرکز ہے اُس کی بازیابی اور تحفظ کے لیے ہر مسلمان کو اور پوری اُمت کو کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی اور اس کی ترقی و خوش حالی میں دل کھول کر مسلمانوں کی تعریف کی اور یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کا مذہب سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ دہشت گردی قومی دائرہ میں ہو یا بین الاقوامی اس کی مذمت ہونی چاہیے۔

بھارت میں مسلم اقلیت کے ساتھ انصاف کیا جائے

انہوں نے کہا بے قصور انسان کو ہلاک کرنے کی کوئی بھی مذہب اور کوئی بھی قانون اجازت نہیں دیتا۔ شاہی امام صاحب نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ بھارت میں مسلم اقلیت کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ شاہی امام مفتی محمد مکرم نے ہندوجاگرن منچ کی طرف سے علی گڑھ اور دیگر مقامات پر اسکولوں میں کرسمس کی تقریبات پردھمکےوں کے خط لکھنے کی مذمت کی اور بھارت حکومت سے فرقہ پرستوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

احمد مکرم نے کہا پبلک اسکولوں اور مشنری کے اسکولوں میں ہر روز صبح کو جو دعائیہ پروگرام ہوتا ہے اس میں بھی مذہبی دعائیں شامل ہوتی ہیں تو ایسے لوگوں کو اپنے بچوں کو مشنری کے اسکولوں میں داخلہ ہی نہیں کرانا چاہیے۔ شاہی امام نے امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اعلان پر مذمت کرتے ہوئے ہندوستانی حکومت اور وزیر اعظم سے اپیل کی کہ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی بنائے جانے کی مخالفت کی جائے۔

یو این او نے امریکی صدر کے حکم کے خلاف قرارداد پاس کی ہے بھارت کو بھی اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔واضح رہے کہ ملک کی کئی تنظیموں کی جانب سے اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کیلئے مہم چلا ئی جا رہی ہے ۔ جن میں الفلاح فرنٹ کی ’مشن بائیکاٹ مہم قابلِ ذکر ہے۔مشن بائیکاٹ مہم کے کنوینر اور الفلاح فرنٹ کے صدر ذاکر حسین نے شاہی امام کی اس اپیل کا خیر مقدم کرتے ہوئے مسلمانوں سے امام صاحب کی اپیل پر عمل کرنے کی درخواست کی ہے[4]۔

قوم پرستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا

دنیا بھر میں مسلمانوں کی دقیانوسی امیج کو منفی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔مسلمان ایک پروگریسیو امیج کیلئے کیا کرسکتے ہیں؟

ارے جناب اب مسلمان بہت پروگریسیو ہوگئے ہیں،اب کہیں دقیانوسی پن نظر نہیں آئے گا۔ تعلیم سے طرز زندگی تک ہر سطح پر مسلمانوں نے ترقی پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ الزام غلط ہے۔ اذان دینا،نماز پڑھنا،روزہ رکھنا روایتی لباس زیب تن کرنا یا اور حج کرنا دقیانوسی پن نہیں ہے۔ مسلمان بہت ماڈرن ہوگئے ہیں ہمیں تو یہ شکایت ہے کہ مسلمان بہت ہی زیادہ ماڈرن ہوگئے ہیں۔

انہوں نے اپنے مذہب کو ہی چھوڑ دیا ہے اور ماڈرن زندگی میں یا فیشن میں دوسروں کو دیکھ کر دور ہو رہے ہیں۔ بے شک کچھ مسلمان بھٹک گئے ہیں، بہک گئے ہیں،جنہیں ورغلایا گیا ہے۔ وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو اسلام، قرآن اور مسلمان بدنام ہورہے ہیں۔ مگر انفرادی طور پر کسی کی بد عملی کی ذمہ داری کسی مذہب پر ڈالنا غلط ہے۔ ”پیغمبر اسلام دوسرے مذہب کے لوگوں کا کھڑے ہوکر استقبال کیا کرتے تھے،انہیں بٹھایا کرتے تھے"ہمیں بھی ہر مذہب والے کے ساتھ محبت اور پیار کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔ بلاشبہ حسن سلوک کی ضرورت ہے"۔

کیا آجکل اسلام صرف دکھاوے کارہ گیا ہے۔مسلمان اس پرعمل کم کررہے ہیں؟

بالکل!یہ بات درست ہے۔ ہم دکھاوے کی دوڑ میں لگ گئے ہیں مگر دیکھئے! ریا کاری اور نمائش کیلئے اسلام اور شریعت میں منع کیا گیا ہے۔آج ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ بس دنیا میں نام ہو۔ایسا کوئی بھی عمل اسلام میں قابل قبول نہیں ہے۔آپ نکاح تو مسجد میں کرتے ہیں سادگی کے ساتھ لیکن اس کے بعد شادی کی تقریب میں لاکھوں روپئے خرچ کئے اور دھوم دھام برپا کردی۔یہ دکھاوا ہے جو مذہب نے ہمیشہ منع کیا ہے۔

آپ ہندوستانی مسلمانوں میں کیا خوبیا ں دیکھتے ہیں؟

ہندوستانی مسلمان کچھ خاص ہیں۔ہم ایڈجسٹ ہونا جانتے ہیں۔اس سرزمین پر سب مل جل کر رہنا جانتے ہیں۔ آپ اس فتحپوری مسجد کو دیکھئے!اس کے اردگرد غیر مسلم آبادی ہے اور ہر جمعہ کو دس ہزار سے زیادہ لوگ نماز ادا کرتے ہیں لیکن آج تک کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔مقامی غیر مسلم لوگ مسجد سے پانی لے جاتے ہیں،راستے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مسجد میں آکربیٹھتے ہیں، ہم سب آدم کی اولاد ہیں۔ سب انسان ہیں۔ ایک خون ہے۔ایک دور میں مسلمانوں نے ہندوستان پر حکومت کی،کسی سے امتیاز نہیں برتا،کسی غیر مسلم کو نقصان نہیں ہوا۔جب انگریز آیا تو کوئی مسلمان غداروں کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔

آزادی کے بعد ابولکلام آزاد سے اے پی جے عبدالکلام تک ہر مسلمان نے اس ملک کی خدمت کی ہے۔ قوم پرستی میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔آزادی کی لڑائی ساتھ لڑی،ملک کی ترقی میں ساتھ رہے اور کبھی غلط راستہ نہیں اپنایا۔کشمیر میں دہشت گردی کا دور چلا تو ایک بھی ہندوستانی مسلمان اس کا حصہ نہیں بنا۔جس پر ایک وقت سابق وزیر اعظم آئی کے گجرال نے حیرت بھی ظاہر کی تھی کیونکہ حکومت کو کہیں نہ کہیں ایسا ہونے کا ڈر تھا لیکن ایسا کبھی ہوا اور نہ ہوگا۔

دین اور دنیا میں توازن کیسے ہوسکتا ہے؟

اسلام میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔اگر نماز کا حکم ہے تو تجارت اور ملازمت کا بھی زور ہے۔ روزگار کیلئے جدوجہد کا حکم ہے۔اگر آپ ایک دن میں پانچ وقت کی نماز میں ایک گھنٹہ گزارتے ہیں تو 23گھنٹے دنیا کیلئے ہیں۔کام کیلئے ہیں۔تعلیم کیلئے ہیں۔اس میں توازن بہت ضروری ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اس کا ہونا لازمی ہے۔ایسا پیغمبر اسلام کے دور میں بھی ہوتا تھا۔ توازن اور اعتدال بہت ضروری رہا۔مذہب کو چھوڑنا غلط ہے اور مذہب کو بالکل دقیانوسی بنا کر پیش کرنااور دنیا داری سے دور رہنا بھی غلط ہے۔توازن تو رہنا چاہیے۔کیونکہ توازن یا بیلنس ہی کام آتا ہے۔

توازن کا مطلب ہے ”اعتدال“۔بیچ کا راستہ ہے اس کو اپنانا چاہیے۔ عام زندگی میں مسلمانوں کو صاف ستھرا رہنا چاہیے۔ گندے کپڑوں اور گندے محلے دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ہمیں شرم آجاتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ مسلمان کیسی قوم ہے؟اسلام کہتا ہے کہ اچھے اور صاف کپڑے پہنو،اچھا کھانا کھاؤ اور اچھے انسان بنو۔ آپ کو بتا دوں کہ مذہب اسلام کا کسی فیشن سے کوئی ٹکراؤ نہیں۔لیکن اس میں اعتدال ہونا چاہیے۔میانہ روی ہونی چاہیے۔

مسلمانوں کیلئے تعلیم کے معاملہ میں کیا پیغام ہے؟

تعلیم کی کیا اہمیت ہے۔اس کا اندازہ آپ پیغمبر اسلام کے ایک واقعہ سے لگا یا جاسکتا ہے۔ جنگ ’بدر‘کے جو قیدی رہائی کیلئے ’فدیہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے،انہیں 10مسلمان بچوں کو پڑھا لکھنا سکھا کر آزاد ہوجائیں۔اب آپ بتائے جو دشمن تھا اس سے بھی تعلیم حاصل کرنے کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ تعلیم کا معاملہ تو ایسا ہے کہ آپ کو بھوکا رہ کر بچوں کو تعلیم دلانی چاہیے۔

پیغمبر اسلام نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ”۔ اگرکسی کے پاس زیادہ پیسے نہ ہوں تو صدقہ خیرات نہ کرے بلکہ اس پیسہ کو تعلیم پر خرچ کریں۔اس کو صدقہ اور خیرات کے برابر ہی ثواب ملے گا۔“ دیکھئے کتنی بڑی بات ہے۔ آجکل سب فضول خرچی میں لگے ہوئے ہیں۔

مسلمانوں کو بچوں کی تعلیم اور تربیت پر دھیان دینا چاہیے۔ہر ایک کی مدد کرنی چاہیے۔آج مسلمانوں نے اپنی روش چھوڑ دی ہے،دین تو صرف نام کا رہ گیا ہے۔ایسا سب کے ساتھ نہیں ہے،بہت سے لوگ ہیں جو مثالی ہیں،دین اور دنیا کے ساتھ چل رہے ہیں۔لیکن اکثریت نے اپنا تشخّص چھوڑ دیا ہے۔ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ جو فرقہ پرست الزام لگاتے ہیں وہ بھی درست نہیں ہیں۔

ہر سیاسی پارٹی سے مسلمان نام اور چہرے غائب ہورہے ہیں؟

مسلمان اب اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرنا چاہ رہے ہیں یا پھر کسی ڈر کے سبب چپ بیٹھے ہوئے ہیں۔کوئی ڈر ستا رہا ہے۔یا پھر ذمہ داری کا احساس ختم ہوگیا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے اس کی آواز ہی نہیں آتی ہے۔جو بڑی بڑی تنظیمیں ہیں سب بے آواز ہیں۔میں سیاست نہیں کرتا،میری کسی سیاسی پارٹی سے دوستی ہے نہ دشمنی۔میں کسی سیاسی پارٹی کا دشمن نہیں ہوں۔کسی لیڈر کا دشمن نہیں ہوں۔ہر ایک کا مخلص ہوں۔۔ دعا گو ہوں۔لیکن حق بات کہنے میں اور وہ بھی اچھے طریقہ سے ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔مسلمانوں کو اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے قوم کے مفادات کو دیکھتے ہوئے ملک کے فرقہ وارانہ ماحول اور اتحاد کیلئے کام کرنا چاہیے۔

عرب دنیا اور مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہورہے ہیں،اس تبدیلی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

دیکھئے!عرب ہمارے لئے کوئی ”مثالی“ نہیں ہیں،ہم پیغمبر اسلام کی تعلیمات کے پابند ہیں۔انہیں اپنی کرسی اور تخت کی فکر ہے۔لیکن دنیا فلسطین کے مسئلہ کو نظر اندازنہیں کرسکتی ہے۔اقوام متحدہ اس کی مذمت کررہا ہے تو پھر اس کے حق میں آواز اٹھانا یا اس کی حمایت میں کھڑا ہونا کیسے غلط ہوسکتا ہے۔

چین میں ایغور مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں؟

کوئی شبہ نہیں ٗ ان کی شناخت مٹائی جارہی ہے،ظلم ہورہا ہے۔ ہم نے بھی اس پر آواز اٹھائی ہے۔ ان پر جلاد مسلط کئے گئے ہیں۔ انہیں غیر اسلامی چیزوں کی جانب راغب کیا جارہا ہے۔ اس کی سب کی مذمت کرنی چاہیے۔باقی کیا سیاست ہے اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے[5]۔

جند اللہ جیسے گروپ کے مسلمان ہونے میں شک کرنا چاہیئے

ہندوستان کے نمایا اہل سنت عالم دین نے گذشتہ روز صوبہ سیستان و بلوچستان کے سرباز علاقہ میں ہوئے ٹرورسٹی حادثہ کو محکوم کیا اور اس طرح کے تکفیری گروپ کو باطل جانتے ہوئے کہا : جو بھی اپنے مسلمان بھائی کو قتل کرتا ہے وہ مسلمان نہی ہے اور معلوم نہی ہے کہ وہ کس فکری نظریہ کی پیروی کرتے ہیں[6]۔

  1. یوم عاشورہ: امامِ حسینؓ نے حق و صداقت کے پرچم کو بلند کیا ... مفتی محمد مکرم- شائع شدہ از: 9 اگست 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 دسمبر 2024ء۔
  2. اقوام متحدہ اسرائیل پر پابندیاں عائد کرے، مفتی محمد مکرم احمد- شائع شدہ از: 29 مارچ 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 دسمبر 2024ء۔
  3. فلسطین میں اسرائیل کے ظلم وبربریت کو رکوانے مسلم دنیا عملی اقدام کرے: مفتی مکرم-شائع شدہ از: 15 نومبر 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 دسمبر 2024ء۔
  4. مسلمان امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں : مفتی محمد مکرم احمد- شائع شدہ از: 22 دسمبر 2017ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 دسمبر 2024ء۔
  5. قوم پرستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ۔ مولانا مفتی مکرم احمد- شائع شدہ از: 16 مارچ 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 دسمبر 2024ء۔
  6. جند اللہ جیسے گروپ کے مسلمان ہونے میں شک کرنا چاہیئے -شائع شدہ از: 9 اکتوبر 2009ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 دسمبر 2024ء۔