مندرجات کا رخ کریں

"قم" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م Saeedi نے صفحہ مسودہ:قم کو قم کی جانب منتقل کیا
 
(کوئی فرق نہیں)

حالیہ نسخہ بمطابق 18:41، 18 نومبر 2025ء

قُم ایران کے مذہبی شہروں میں سے ایک اور تشیع کے اہم مراکز میں شمار ہوتی ہے۔ بعض ایران شناسوں کے مطابق قُم فلاتِ ایران کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ہے اور اس کی تاریخ قبل از اسلام تک پہنچتی ہے۔ قُم میں تشیع کی بنیاد اُس زمانے میں پڑی جب پہلی صدی ہجری میں خاندانِ اشعری کوفہ سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوا۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قُم میں تدفین اور اس کے بعد امام زادگان اور سادات کی آمد نے اس شہر کو تشیع کا مرکز بنا دیا۔

قم کا نام رکھنے کی وجہ

یہ بات پوری طرح معلوم نہیں کہ شہر قم کو قدیم زمانے میں کیا کہا جاتا تھا اور یہ موجودہ نام کیسے مشہور ہوا۔ تاریخی منابع اور بعض محققین کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم مصنفین نے اس شہر کو مختلف ناموں سے یاد کیا ہے، جیسے:

  • کُم
  • کومہ
  • کمندان
  • کونایا
  • کوآما
  • وغیرہ[1]

اسلامی فتوحات کے بعد کومہ یا کمیندان میں سے ایک لفظ تخفیف اور تعریب کے ذریعے بدل کر قم بن گیا۔[2] صاحبِ تاریخ قم احمد بن محمد برقی (م ۲۷۴ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ قم کی زمین وہ جگہ تھی جہاں دریاؤں کا پانی جمع ہوتا تھا اور گھاس کے میدان تھے۔ چونکہ عربی میں ایسی جگہ کو قم کہا جاتا تھا، اس لیے یہ مقام قم کے نام سے معروف ہو گیا۔ وہ یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ صحراؤں میں رہنے والے لوگ پانی اور چارے کی خاطر یہاں آکر اُترتے تھے، اور جو گھر وہ اپنے قیام کے لیے بناتے تھے انہیں کومہ کہا جاتا تھا۔ یہ لفظ بتدریج مختصر ہوکر کُم بنا، پھر تعریب کے بعد قم کہلایا۔[3] صاحبِ تاریخ قم حمزہ بن حسن (صاحبِ تاریخ اصفہان) سے ایک اور قول نقل کرتے ہیں کہ قم لفظ کمیدان سے تخفیف پا کر بنا ہے، جو اس کے قدیم بلوکوں میں سے ایک تھا۔ یہی قول یاقوت حموی نے بھی نقل کیا ہے۔[4] اسلامی روایات میں آیا ہے کہ رسولِ اسلام نے معراج کے موقع پر اس سرزمین میں ابلیس کو بیٹھے دیکھا، جس کے ہاتھ کہنیوں تک گھٹنوں پر رکھے ہوئے تھے۔ جب جبرائیل نے اس کا تعارف کرایا تو رسولِ اکرم نے اسے مخاطب کرکے فرمایا: "قم" یعنی اٹھ، اے ملعون![5] روایت کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابلیس اس زمین سے نکالا گیا اور یہ شہر خدائی امان والی سرزمین قرار پایا۔ ایسی روایات نے بھی مسلمانوں میں اس شہر کے لیے نام قم کے مشہور ہونے میں کردار ادا کیا۔ بہر حال، اس شہر کی تسمیہ کا سبب کچھ بھی ہو، روایات میں خصوصاً امام صادقؑ سے منقول روایات میں یہ شہر اسی نام قم کے ساتھ ذکر ہوا ہے اور اس کے باشندوں کو خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

جغرافیہ

قم جس کا رقبہ 11,238 مربع کلومیٹر ہے، ایران کے مرکزی راہداری (کوریڈور) میں واقع ہے۔ یہ صوبہ جغرافیائی مختصات کے مطابق 50 درجے اور 6 منٹ سے 51 درجے اور 58 منٹ مشرقی طول بلد (گرینویچ کے نصف النہار سے) اور 34 درجے اور 9 منٹ سے 35 درجے اور 11 منٹ شمالی عرض بلد (خط استوا سے) کے درمیان واقع ہے۔ اس کی آبادی تقریباً 1,060,000 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ صوبہ خصوصی ثقافتی خصوصیات، مناسب بنیادی ڈھانچے اور ضروری وسائل کا حامل ہونے کی وجہ سے، افقِ توسعه 1404 میں روشن ترقیاتی چشم‌انداز رکھتا ہے اور یہ کوشش کر رہا ہے کہ دستیاب صلاحیتوں، قومی و صوبائی وسائل سے فائدہ اٹھا کر اقتصادی ترقی کے اشاریوں کو بہتر بنائے۔ مقدس مقامات، علمی مراکز، تاریخی و ثقافتی آثار، خاص جغرافیائی موقعیت، اطلاعاتی ٹیکنالوجی (IT) کی ترقی اور سیاحوں کی بڑھتی ہوئی توجہ نے اس صوبے میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار بنیادیں فراہم کر دی ہیں۔

قدرتی مناظر

صوبہ قم کا کچھ حصہ، خاص طور پر دہستانِ قم رود، قومی پارکِ کویر کی حدود میں واقع ہے۔ قم مختلف جغرافیائی علاقوں اور دیہات کی موجودگی کی وجہ سے بیابانی اور نیم بیابانی آب و ہوا رکھتا ہے۔ اس کے دیہاتوں کا موسم صحراوی، بیابانی سے لے کر سرد اور کوہستانی تک مختلف ہوتا ہے۔ اسی موسمی تنوع کی بنیاد پر اس علاقے کی زراعتی حالت اور نباتاتی پوشش بھی بدلتی رہتی ہے۔ قم کے صوبے میں مختلف نباتات پائے جاتے ہیں جیسے: کیلیا، سودا، گز، بادامک اور جنگلی پستہ۔ اس کے علاوہ وہاں دوائی اور صنعتی استعمال کے لیے پائے جانے والے پودے مثلاً خارشتر، پیچک، گراس، اشنان، اسپند، شیرخشت اور شیرین بیان بھی موجود ہیں، جو صوبہ قم کی نباتاتی انواع کو تشکیل دیتے ہیں۔

قم کےا ضلاع

کہک

یہ صوبہ قم کے جنوبی حصے میں واقع ایک ضلع ہے۔ کہک کے مرکز سے قم شہر کا فاصلہ تقریباً 30 کلومیٹر ہے۔ کہک کی تحصیل کی تاریخ 70 سال سے زیادہ پرانی ہے اور آبادی کے لحاظ سے یہ مرکزی ضلع کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اس حصے میں دو دہستان (کہک اور فردو) اور 18 دیہات شامل ہیں۔ صیفی علاقوں کے علاوہ اس ضلع میں مختلف تاریخی و ثقافتی آثار کی موجودگی اس شہر کی قدامت اور غنی ماضی کی نشاندہی کرتی ہے، جو سیاحوں اور زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

خلجستان

اس ضلع کا مرکز دستجرد ہے اور یہ بھی صوبہ قم کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ دستجرد سے قم شہر کا فاصلہ تقریباً 55 کلومیٹر ہے۔ خلجستان میں دو دہستان (دستجرد اور قاهان) اور 64 بستیاں شامل ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی معیشت کا بنیادی محور زراعت ہے، خاص طور پر سرد علاقوں کے درختوں اور سبزیوں کی کاشت۔ اس کے علاوہ یہاں صنعتی اور روایتی مویشی پال، خلجستان صنعتی زون، 100 سے زیادہ پولٹری فارم، اور 27 فعال یونٹوں والی 220 ہیکٹر پر مشتمل “کوثر گل ہاؤس کمپلیکس” بھی موجود ہیں جو علاقے کی معیشت کو تقویت دیتے ہیں۔

جعفرآباد

جعفرآباد صوبہ قم کا ایک اور ضلع ہے جس کا مرکز جعفریہ شہر ہے، جو قم کے شمال مغرب میں تقریباً 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ضلع ملک کے مغربی اور مرکزی صوبوں کو ملانے والے راستے پر واقع ہے۔ اس خطے کی قدرتی دلکشی میں طغرود، دولت آباد اور گلستان جیسے خوشگوار موسم والے دیہات نمایاں ہیں۔

سلفچگان

یہ قم کا ایک اہم ضلع ہے جس کی آبادی تقریباً 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور قم شہر سے اس کا فاصلہ قریباً 40 کلومیٹر ہے۔ اس ضلع میں دو دہستان — راہجرد اور نیزار — شامل ہیں۔ سلفچگان کا معاشی اور صنعتی لحاظ سے خاص مقام ہے کیونکہ یہاں خصوصی اقتصادی زون اور ایک بڑے صنعتی شہر کی موجودگی ہے۔ تقریباً 2000 ہیکٹر پر پھیلے اس علاقے میں 60 سے زیادہ فیکٹریاں اور کاروباری ادارے کام کر رہے ہیں۔

قنوات

یہ ضلع مرکزی حصے کے دو شہروں میں سے ایک ہے اور قم کے شمال مغرب میں تقریباً 8 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ قنوات کی سب سے بڑی قدرتی کشش اس کا صحرا (کویر) ہے، جو اپنی سیر و تفریحی دلکشی کے باعث بہت سے سیاحوں کو متوجہ کرتا ہے۔

اہلِ قم کی نسل

قم کے باشندے آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم یہاں مختلف ایرانی اقوام جیسے عرب، ترک اور بختیاری بھی آباد ہیں۔ ایک قمی خاندان عام طور پر والد، والدہ، بچوں اور کبھی کبھار دادا دادی پر مشتمل ہوتا ہے۔ آج کل شہری علاقوں میں مشترکہ یا بڑے خاندان کا رہن سہن ختم ہو گیا ہے، لیکن دیہی اور قبائلی علاقوں میں اب بھی لوگ ایک ہی وسیع خاندان کی شکل میں ساتھ رہتے ہیں۔ سوگواری کی رسومات یہاں بھی ایران کے دیگر علاقوں کی طرح ذاتی اور مذہبی دونوں انداز میں انجام پاتی ہیں۔[6]

تاریخی پس منظر

بعض ایران‌شناسان کے مطابق، قم فلاتِ ایران (ایرانی سطح مرتفع) کے قدیم ترین انسانی مسکنوں میں سے ایک ہے۔[7] بیشتر مؤرخین اس شہر کی تاریخ کو اسلام سے قبل کے زمانے تک واپس لے جاتے ہیں اور ایک قدیم و باستانی شہر "قم" کا ذکر کرتے ہیں۔[8]

تاریخی مأخذ میں قدیم ادوار کے کچھ حاکموں کے نام بھی قم سے متعلق پائے گئے ہیں۔[9]

تاہم بعض مورخین کے نزدیک شہر قم کی بنیاد اسلام کے ایران میں داخل ہونے کے بعد رکھی گئی، [10] و در سال ۸۳ق[11]

جو یا تو سن ۸۳ ہجری یا ۹۳ ہجری میں قائم ہوا۔ زیادہ تر تاریخی روایات کے مطابق، قم کو ۲۳ ہجری میں مسلمان سپہ سالار ابوموسی اشعری نے فتح کیا۔[12]

کچھ روایات میں مالک بن عامر اشعری کو فاتح بتایا گیا ہے،[13] جبکہ بعض مؤرخین احنف بن قیس کا ذکر کرتے ہیں۔[14]

بعض مؤرخین نے ان مختلف اقوال میں تطبیق دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے قدیم شہر اور اس کے قلعوں کے قریب ایک نیا شہر آباد کیا۔[15] اس نئے شہر کے بانی کو طلحہ بن احوص اشعری قرار دیا جاتا ہے۔[16]

===عباسی دَور میں قم عباسی خلافت کے دوران، شہر قم میں وقت کے حکمرانوں کے خلاف متعدد عوامی بغاوتیں ہوئیں۔ یہ قیام زیادہ تر مذہبی اور مالی وجوہات کی بنا پر تھے، کیونکه قم کے اکثر لوگ شیعہ تھے اور عباسیوں کی پالیسیوں سے ناخوش۔

مأمون کے خلاف بغاوت

سال ۲۱۰ ہجری میں اہلِ قم نے عباسی خلیفہ مأمون کو خراج (ٹَیکس) دینے سے انکار کر دیا اور اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ مأمون نے اپنے سپہ سالار علی بن ہشام مروزی کو قم بھیجا، جس نے بغاوت کو سختی سے کچل دیا اور مالیات بڑھا دی۔[17]

اس بغاوت کی وجہ یہ تھی کہ مأمون نے شہر ری کے لوگوں کو خراج سے معاف کر دیا تھا، لیکن قم کے باشندوں کی اسی درخواست کو رد کر دیا۔ اس بےانصافی پر اہالیِ قم نے ہتھیار اٹھا لیے۔[18] بعد ازاں ۲۱۵ ہجری (اور بعض روایات کے مطابق ۲۱۷ ہجری) میں قم کے عوام نے دوبارہ بغاوت کی اور عباسی گورنر کو شہر سے نکال دیا۔ مأمون نے ایک اور فوجی مہم روانہ کی اور بغاوت ختم کر دی۔[19]

معتصم کے خلاف بغاوت

مأمون کے بعد خلافت المعتصم کے زمانے میں بھی قم کے عوام نے بغاوت کی۔ انہوں نے عباسی گورنر کو نکال دیا، مگر خلیفہ نے ایک بڑی فوج قم بھیجی جس نے شہر کو سخت نقصان پہنچایا[20]۔

معتز کے خلاف بغاوت

خلیفہ المعتز بالله (متوکل کا بیٹے اور جانشین) کے دور میں بھی قم کے عوام نے اطاعت سے انکار کیا۔ معتز نے اپنے لشکری سالار موسی بن بغا کو، جو مازندران کے علویوں سے لڑنے جا رہا تھا، قم بھیج دیا۔ اس لشکر نے جبراً شہر پر قبضہ کیا، بہت سے شہریوں کو قتل کیا، اور علاقے کے معززین کو گرفتار کر کے بغداد بھیجا۔[21] قم کے باشندوں نے اس ظلم کے دوران امام حسن عسکری (علیہ‌السلام) کی بارگاہ میں رجوع کیا؛ امام نے ان کے لیے ایک مخصوص دعا بھیجی تا کہ وہ اسے نماز کے قنوت میں پڑھیں۔[22]

معتضد کے خلاف بغاوت

خلیفہ المعتضد نے قم میں غیر شیعہ حکام مقرر کیے، جنہیں عوام نے باہر نکال دیا۔ خلیفہ نے ابراہیم بن کلیخ کو بغاوت دبانے کے لیے روانہ کیا، لیکن وہ ناکام رہا۔[23] بعد ازاں عباسی خلیفہ نے امیر اسماعیل سامانی سے مدد طلب کی۔ اسماعیل سامانی نے بغاوت کو فرو کیا اور قم پر ایک شیعہ گورنر، یحییٰ بن اسحاق، کو مقرر کیا، جس سے حالات بہتر ہوئے۔

مقتدر کے خلاف قیام

خلیفہ المقتدر بالله کے زمانے میں بھی اہلِ قم نے مزاحمت کی، مگر اس نے ایک شیعہ کمانڈر حسین بن حمدان شیعی کو قم بھیجا۔ حسین بن حمدان نے نرمی سے پیش آ کر صلح قائم کی۔ جب وہ قم پہنچا، تو لوگوں نے اس کا احترام سے استقبال کیا اور کہا: ہم صرف انہی سے لڑتے ہیں جو ہمارے مذہب کے مخالف ہیں؛ تم سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔" یوں حسین بن حمدان کے حسنِ سلوک اور عقیدے کی یکجہتی نے خلیفہ اور اہلِ قم کے درمیان جنگ ٹال دی۔ خلاصہ یہ کہ عباسی دَور قم کے لیے مزاحمت اور اعتقادی استقلال کا زمانہ تھا۔ اہلِ قم نے اپنی مذہبی شناخت اور اقتصادی استقلال کے دفاع میں بارہا طاقتور خلافت کے خلاف ڈٹ کر مزاحمت کی۔

حکومتِ آلِ صفی بر قم

خاندان آلِ صفی ایک مقامی اور شیعہ نسب رکھنے والا حکمران گھرانہ تھا جس نے آٹھویں صدی ہجری میں قم پر حکومت کی۔[24] ان کے دور میں شہر قم میں نمایاں دینی و عمرانی ترقی دیکھنے میں آئی۔ انہوں نے مختلف امامزادگان کے مزارات اور بقعات کی تعمیر و تزئین کروائی، جن میں شامل ہیں: مزار سید سربخش مقبره شاه احمد قاسم بقعه خدیجه خاتون امامزاده ابراهیم مزار ابواحمد محمد بن حنفیه[25] اسی زمانے میں کتاب "تاریخِ قم" کا ترجمہ بھی کیا گیا، جس سے قم کی علمی و ادبی حیثیت مزید ترقی پائی۔[26]

دَورِ صفویہ

صفوی بادشاہوں نے قم کو ایک روحانی اور مذهبی مرکز کے طور پر غیرمعمولی اہمیت دی۔ ان کے دَور میں شہر نے نئی رونق پائی اور متعدد مذہبی و تاریخی عمارات از سرِ نو تعمیر یا مرمت کی گئیں۔ اہم کارنامے درج ذیل ہیں: حرم حضرت معصومه (سلام‌الله‌علیها) اور مسجد امام حسن عسکری (ع) کی ازسرِ نو تعمیر۔ پہلا ضریح حضرت معصومه کے مرقد پر شاه طهماسب اول کے عہد میں بنایا گیا۔ مدرسه دارالشفا، مدرسه آیت‌الله بروجردی، اور مدرسه فیضیه اسی دور میں تعمیر ہوئیں۔ صفوی بادشاہوں میں سے شاه عباس دوم باقاعدگی سے قم آیا کرتے تھے۔ صفوی خاندان کے چار بادشاہ اسی شہر میں مدفون ہیں، جو قم کی معنوی مرکزیت کی علامت ہے۔

قم میں تشیع کا ظہور و استحکام

تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری تک قم میں کچھ غیرمسلمان بھی رہتے تھے، مگر اس کے بعد کے ادوار میں تمام باشندے مسلمان ہو چکے تھے۔[27] قم اسلام کی فتح کے بعد ہی دینِ اسلام سے آشنا ہوا، اور اس کے لوگوں نے ابتدائی مرحلے سے ہی مذهبِ تشیع کو قبول کیا۔ اگرچہ فتح کے زمانے میں دیگر ایرانی شہروں کی طرح یہاں بھی سنی اسلام کی شناخت موجود تھی، تاہم قم واحد شہر ثابت ہوا جو اپنے ہمسایہ علاقوں جیسے اصفہان، کاشان، ری، ساوه اور جبال کے برخلاف، تدریجاً شیعہ مرکز میں تبدیل ہوا۔ مؤرخین کے مطابق، تشیع کا یہ فکر عراق اور مدینه کے شیعہ مراکز سے مهاجر علوی خاندانوں، امامزادگان، اور محدثین کے توسط سے قم میں منتقل ہوا۔ جلد ہی قم امامیه تشیع کا اہم گہوارہ بن گیا، جو عصرِ غیبتِ صغری (۳۲۹ھ) کے اختتام تک علمی و دینی اعتبار سے ممتاز مقام حاصل کر چکا تھا۔

قم میں تشیع کے عوامل

قم کے شہر میں تشیع کے فروغ اور استحکام کا سب سے اہم عامل، شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اس علاقے میں آمد اور سکونت اختیار کرنا ہے۔ یہ وہ عرب قبائل تھے جو فتحِ قم کے بعد (بالخصوص پہلی صدی ہجری کے اواخر سے لے کر دوسری صدی ہجری کے وسط تک) عراق اور دیگر علاقوں سے سیاسی وجوہات کی بنا پر ہجرت کر کے ایران کے اس خطے میں آ بسے۔ اس کے علاوه دیگر عوامل بهی شامل ہے جند میں سے بعض یه ہے۔

شیعہ امرا اور فاتحین (قبیلہ اشعری)

ابوموسی اشعری کی قیادت میں قبیلہ اشعری نے ایران کے کئی اہم علاقے فتح کیے، جن میں اصفہان، قم، کاشان اور ساوه شامل ہیں۔ مالک بن عامر اور ان کے بیٹے سائب اس فوج کے نمایاں کمانڈر تھے۔[28] خیال کیا جاتا ہے کہ فتحِ قم کے بعد قم میں داخل ہونے والا پہلا شخص کوفہ کے شیعوں کا رئیس سائب بن مالک تھا۔ اگرچہ پہلی صدی کے آخر میں اشعری عربوں کی آمد سے پہلے قم میں تشیع کے فروغ کا کوئی خاص ثبوت نہیں ملتا، لیکن سائب جیسے افراد کی موجودگی نے لوگوں کو شیعہ افکار سے متعارف کرانے اور علمی بنیاد فراہم کرنے میں مدد دی۔

دیگر عرب شیعہ قبائل کی آمد

قم میں مختلف سیاسی واقعات کے باعث عرب قبائل کی مسلسل آمد ہوتی رہی: بنی اسد: یہ گروہ مختار ثقفی کے قیام (سنہ ۶۶ اور ۶۷ ہجری) کے بعد قم آیا اور جمکران کے مقام پر سکونت اختیار کی۔ بنی غنزه، بنی مذحج، اور بنی قیس: یہ قبائل بھی قم پہنچے۔ بنی غنزه چابلق اور برقع دیہات میں جبکہ باقی قبائل نہر کے کنارے آباد ہوئے جو بعد میں قسِیہ کے نام سے مشہور ہوا۔[29] مطرف بن مغیرہ بن شعبہ بھی سنہ ۷۷ ہجری میں قم آ کر سکونت پذیر ہوئے۔ ایسا بھی نقل ہوا ہے کہ اواخرِ اموی دور میں جو لوگ امویوں کے مخالف تھے اور تعقیب میں تھے، وہ قم، کاشان اور دوسرے قریبی علاقوں کی طرف بھاگے۔[30]

عبدالرحمن بن اشعث کی شکست کے بعد ہجرت

تاریخِ قم کے مؤلف کے مطابق، تیم، قیس، عنزه، اور اشعری قبائل کے کچھ افراد،[31] اور یاقوت حموی کے نقل کے مطابق، ۱۷ عرب علماء، تابعین، اور بزرگوں (جن میں سعد بن مالک اشعری کے بیٹے بھی شامل تھے) نے عبدالرحمن بن اشعث کی فوج میں حصہ لیا۔ سنہ ۸۴ ہجری میں ان کی فوج کی شکست کے بعد، یہ تمام قبائل عراق چھوڑ کر قم کی طرف متوجہ ہوئے اور مذکورہ بالا دیہاتوں میں سکونت اختیار کی۔[32] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی عراق سے بیک وقت روانگی قم میں ان کی ایک ساتھ آمد کا سبب بنی۔ اشعریوں کی آباد کاری کے بعد بھی قم مسلسل نئی شخصیات کی آمد کا مرکز رہا۔ سنہ ۱۳۱ ہجری میں، مقاتل بن حکیم نمکی اپنے کچھ کمانڈروں کے ساتھ، جو ابومسلم خراسانی کے سردار قحطبہ بن شبیب کی طرف سے آئے تھے، شہر میں داخل ہوئے، اور بعد میں خود قحطبہ بھی ان سے آ کر ملے۔[33]

قم میں اشعریوں کی آمد اور استقرار

قم میں تشیع کے قیام کا سب سے مضبوط ستون قبیلہ اشعری کی آمد تھی، جو مالک بن عامر اشعری کی شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر انہوں نے کوفہ کو راتوں رات چھوڑ دیا اور ایران کے دور دراز علاقوں کا رخ کیا۔ مختلف روایات کے مطابق،[34] یہ قافلہ یا تو تمام سعد اور سائب کے بیٹوں پر مشتمل تھا، یا صرف سعد کے بیٹوں (یعنی عبداللہ، احوص، اور ان کے خادموں) پر مشتمل تھا۔ انہوں نے نہایت دشوار گزار راستے طے کیے اور راستے میں جانی نقصان بھی اٹھایا۔ یہ قافلہ نهاوند، ملایر، اراک، اور محلات کے پہاڑی علاقوں سے گزرتا ہوا قم کے علاقے قہستان تک پہنچا۔ مختلف روایات کی بنیاد پر،[35] یہ قافلہ سنہ ۹۵ ہجری کے قریب ابرشبحان گاؤں کے قریب، یا کمیدان گاؤں میں، یا براوستان، میجان، اور شہرستان کی قلعہ بند جگہوں کے درمیان اترا اور خیمہ زن ہوا۔ اشعریوں نے اپنے خاندانوں، خادموں اور مویشیوں کے ساتھ ایک بڑا کارواں تشکیل دیا تھا۔ ان کا استقبال قم کے مقامی رئیس یزدان فازار نے کیا۔[36] اشعریوں کی آمد کے فوراً بعد، دیلمیوں کے موسمی حملے شروع ہوئے اور قم کے باشندوں کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم، احوص کی قیادت میں اشعریوں نے سخت فوجی ردعمل دیا، جس میں حملہ آوروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور وہ پسپا ہو گئے۔[37] اشعریوں کی اس اہم دفاعی کامیابی کو مقامی باشندوں نے اپنا بڑا کارنامہ سمجھا۔ اس کے نتیجے میں قم کے معززین نے اشعریوں سے خطے میں قیام کرنے کی درخواست کی اور ان کے ساتھ ہمسایگی اور باہمی تعاون کا ایک عہدنامہ دستخط کیا،[38] جس نے ان کی مستقل سکونت کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اشعریوں کے مستقر ہونے کے بعد، ان کے دیگر چچازاد بھائی بھی عراق اور دیگر اسلامی علاقوں سے قم کی طرف آئے۔ اس کی تقسیم کچھ یوں ہوئی: ابوبکر نے فراہان گاؤں میں سکونت اختیار کی۔ ان کے بیٹے حماد نے ساوه گاؤں میں۔ عمران نے تفرش گاؤں میں۔ آدم نے کاشان گاؤں میں۔ عمر اور احوص کے بیٹوں نے اس علاقے کی دیگر بستیوں میں سکونت اختیار کی۔[39] اسی دوران، سلمہ بن سلمہ ہمدانی نے ان علاقوں کا کچھ حصہ جو اس کے زیرِ نگیں تھا (جیسے ساوه، تفرش، زواره، جهرود، کوزدر)، اشعریوں کو بیچ دیا۔ احوص نے کوفہ میں باقی ماندہ املاک بیچ کر پچاس ہزار دینار سونا جمع کیا، جس سے اشعریوں کو ایک بڑی مالی پشت پناہی ملی۔ اس دولت سے انہوں نے قم اور دیگر جبال علاقوں میں مزید املاک اور سامان خریدا، جس سے ان کا نفوذ مزید بڑھ گیا۔ (یہ مالی معاملات زیادہ تر دوسری صدی ہجری میں مکمل ہوئے۔)[40] سنہ ۹۷ ہجری میں، یزدان فادار نے مَمْجَان دیہات کو اشعریوں کے رہنے کے لیے مقرر کیا۔ سنہ ۹۹ ہجری یا ۱۰۲ ہجری میں جمر دیہات کو زراعت کے لیے، اور بعد میں فَرَابَہ (گزنہ) دیہات کو مویشیوں کے چراگاہ کے لیے مختص کیا گیا۔ اس طرح، اشعریوں کے لیے رہائش، زراعت اور چراگاہ کے مقامات متعین ہو گئے اور اس علاقے میں ان کی سماجی، اقتصادی اور مذہبی سرگرمیاں باقاعدہ اور وسیع پیمانے پر شروع ہو گئیں۔[41]

اسلام سے قبل قم کے لوگوں کا مذہب

اسلامی فتوحات سے قبل، قم شہر کے باشندے بنیادی طور پر زرتشتی (مجوسی) تھے۔ اس شہر اور اس کے گردونواح میں متعدد آتشکدے (آگ کے مندر) موجود تھے۔

مختلف مذاہب کا وجود

زرتشتیوں کے علاوہ، اس شہر میں یہودیوں اور عیسائیوں کی موجودگی کی بھی شہادت ملتی ہے۔ تاریخ قم کے مصنف نے اپنی کتاب کا باب انیس یہودیوں اور مجوسیوں کے حالات سے مخصوص کیا ہے، اور اسی طرح مسیحیوں کی زندگی اور شہر کے ذمی باشندوں کی طرف سے ادا کیے جانے والے جزیے کا بھی ذکر کیا ہے۔[42]

مسلمانوں کی آمد کے بعد کی صورتحال

جب قم کو مسلمانوں نے فتح کیا تو آبادی کا ایک گروہ اسلام قبول کر گیا، جبکہ ایک حصہ زرتشتی مذہب پر قائم رہا اور جزیہ ادا کرنے پر رضامند ہو گیا۔ ان کے آتشکدے کئی صدیوں تک اس علاقے میں باقی رہے۔[43]

اہم آتشکدوں کی تفصیلات

ہمدانی نے قم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مزدیجان قم میں آذر گشسب کا ایک قدیم آتشکدہ موجود تھا، جس کے سنہری دروازے عبدالملک مروان کے دور میں علاقے کی فتح کے وقت کعبہ منتقل کر دیے گئے۔ اسی طرح، بہرام گور کے دور میں سورین قمی نے آذر مہرین آتشکدے کو جوزان منتقل کر دیا جہاں نیا آتشکدہ تعمیر ہوا۔[44] قم کے مرکزی آتشکدے کا اختتام دوسری صدی ہجری کے وسط میں ہوا، جب اشعری عربوں اور قمی مجوسیوں کے درمیان تنازع پیدا ہوا اور اشعریوں نے مجوسیوں پر فتح حاصل کی۔ اس کے بعد یہ آتشکدہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔[45] تاہم، قم کے اطراف میں ان کے آثار کافی عرصے تک باقی رہے۔ اصطخری نے قم کے علاقے کی رپورٹ میں ذکر کیا ہے کہ شہر کے قریب قلعہ کبری نامی ایک گاؤں ہے جس کے لوگ عموماً زرتشتی مذہب کے پیروکار ہیں۔ اس کے علاوہ، شہر کے اطراف میں اب بھی زرتشتیوں کے مخصوص نشانات، جیسے معبد، دخمہ (برج خاموش)، اور آتشکدے دیکھے جا سکتے ہیں۔[46]

قم میں حضرت معصومہ (س) کا حرم اور دیگر امام زادگان

قم شہر کے مرکز میں واقع حضرت فاطمہ معصومہ (علیہا السلام) کا حرم ایران کی سب سے بڑی اور قیمتی اسلامی تعمیراتی یادگاروں میں سے ایک ہے، جس میں مختلف صدیوں کے بیش قیمت فن پاروں کا خزانہ محفوظ ہے۔ یہ حرم امام موسیٰ کاظم (ع) کی صاحبزادی اور امام رضا (ع) کی بہن کی قبر پر تعمیر کیا گیا ہے۔

حرم کی تعمیر کا ارتقاء

1. ابتدائی تعمیر (201 ہجری): جب حضرت فاطمہ معصومہ (س) کا انتقال ہوا اور آپ کو بابلان باغ میں سپرد خاک کیا گیا، تو موسیٰ بن خزرج نے آپ کی قبر مبارک پر بوریے (کھجور کی چٹائی) کا ایک سایبان قائم کیا۔ چونکہ یہ سایبان موسم کے اثرات سے محفوظ نہیں تھا، اس لیے وقت کے ساتھ خراب ہو گیا۔ 2. گنبد کی تعمیر (447 ہجری): سنہ 447 ہجری میں طغرل کے وزیر میر ابو الفضل عراقی نے، جو ایک متدین شخص تھے، اس مزار پر ایک گنبد تعمیر کروایا۔ محققین کے مطابق یہ بلند و وسیع گنبد اندرونی قطر میں 11 میٹر اور اونچائی میں 14 میٹر تھا۔ 3. صفوی اور قاجاری دور: صفوی دور میں حرم میں چار صحن تھے جو ایک دوسرے کے پیچھے ترتیب دیے گئے تھے، اور زائرین ایک صحن سے داخل ہو کر دوسرے سے باہر نکلتے تھے۔ قاجاری دور میں فتح علی شاہ کی خصوصی توجہ کے باعث حرم کی موجودہ عمارت اور اس کی تزئین و آرائش کا کام مکمل ہوا۔ موجودہ رواق (ایوان) اور بیوتات (رہائشی کمرے) کا حصہ زیادہ تر اسی دور سے تعلق رکھتا ہے۔[47]

قم میں مدفون دیگر امام زادگان

امامزادہ اسماعیل

یہ امامزادہ قم سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر بیدقان پہاڑ کی دامن میں واقع ہے۔ یہ مزار ساتویں صدی ہجری کی تعمیرات میں شمار ہوتا ہے، جو بنیادی طور پر پتھر اور گچ سے مضبوطی سے بنایا گیا ہے۔ اس عمارت میں سنہ 922 ہجری کا ایک منبر بھی موجود ہے، جس میں خوبصورت تزئینات شامل ہیں۔

امامزادہ موسیٰ مبرقع

یہ امام محمد تقی (ع) کے بیٹے اور سادات رضوی کے جد ہیں۔ یہ پہلے سید رضوی تھے جنہوں نے 256 ہجری میں قم میں سکونت اختیار کی۔ ان کا انتقال 296 ہجری میں ہوا اور اسی جگہ دفن ہوئے جہاں آج ان کا مزار ہے۔ مزار کا داخلی دالان اور راہداری نویں صدی ہجری کے فن پاروں سے مزین ہے۔

امامزادہ شاہ اسماعیل

یہ امام موسیٰ کاظم (ع) کے فرزند اور امام رضا (ع) کے بھائی شہزادہ حمزہ کی قبر ہے۔ یہ قم کے کمند چوک میں واقع ہے اور اہل قم کے ہاں اسے خاص تقدس حاصل ہے۔ ان کے پہلو میں ایک اور امامزادہ شہزادہ احمد موجود ہیں، جنہیں غالباً شہزادہ حمزہ کا بھائی سمجھا جاتا ہے۔ دونوں امامزادوں کے گرد کئی قبریں ہیں۔

امامزادہ علی بن جعفر (دربہشت)

اس مقبرے کی تعمیر آٹھویں صدی ہجری کے اوائل کی ہے، تاہم قاجار دور میں اس میں ایوان اور بیوتات کا اضافہ کیا گیا۔ اس عمارت کی گچ کاری (Gypsum Work) اس قدر اعلیٰ ہے کہ اسے آٹھویں صدی کے بہترین فن پاروں میں شمار کیا جاتا ہے اور اسے ہمدان کے گنبد علویان، قزوین کی مدرسہ حیدریہ اور اصفہان کے پیر بکران کے مزار کے ہم پلہ مانا جاتا ہے۔

امامزادہ سید سربخش

یہ امامزادہ آذر سڑک پر چہل اختران کے سامنے واقع ہے۔ مدفون شخصیت امام جعفر صادق (ع) کی اولاد میں سے ہیں۔

گچ کاری پر لکھے گئے کتبے کے مطابق عمارت کی تعمیر کا سال محرم الحرام 774 ہجری ہے۔ یہ عمارت غیاث الدین امیر محمد (علی صفی خاندان کے ایک بزرگ) کے حکم پر تعمیر ہوئی، اور اس کی تزئینات اس دور کے عظیم فنکار علی بن محمد بن ابی شجاع کی کارگزاری ہیں۔

امامزادہ احمد بن اسحاق

یہ امام موسیٰ کاظم (ع) کے اجداد میں سے ہیں، یعنی امام ہفتم (ع) کی نسل سے ہیں۔ یہ قدیم میدان قم یا میدان زکریا بن آدم میں امامزادہ شاہزادہ حمزہ کے قریب واقع ہے۔ یہ عمارت صفوی دور سے پہلے کی قدیمی تعمیرات میں سے ہے، جسے بعد میں شاہ عباس کے حکم پر مرمت اور مزین کیا گیا۔

امامزادہ ابو العباس احمد

یہ مزار درِ جنت (امامزادہ در بہشت) کے قریب واقع ہے اور آٹھویں صدی ہجری کی یادگار ہے۔ یہ سید حسن سجادی کی اولاد میں سے ہیں، اور ان کے دادا، ابو الفضل حسین، امام عسکری (ع) کے صحابی تھے۔

امامزادہ شاہ ابراہیم

یہ عمارت قم سے 24 کلومیٹر دور شاہ ابراہیم فارم میں ہے اور اس کا موجودہ ڈھانچہ صفوی دور کا مزار ہے۔

امامزادہ شہزادہ ابو احمد

یہ عمارت دروازے ری نامی سڑک کے باہر، قم کے شمال مشرق میں واقع ہے اور یہ حضرت علی (ع) کی اولاد میں سے ابو احمد محمد بن حنفیہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس کی قدیمیت صفوی دور تک جاتی ہے۔

شہزادہ احمد اور علی حارث

یہ عمارت قم کے مشرقی حصے (خاکفرج) میں واقع ہے اور اس میں ایک درگاہ، دو ایوان اور کئی حجرات شامل ہیں۔ اس کی تعمیر کا زمانہ شاہ طہماسپ صفوی کا ہے۔

امامزادہ شہزادہ جعفر غریب

یہ مزار قم سے 6 کلومیٹر مشرق میں ہے اور یہ امام موسیٰ کاظم (ع) کے ایک نواسے کی قبر ہے۔ درگاہ کے بیچ میں ایک قبر ہے جس پر ٹائل ورک ہے اور یہ فتح علی شاہ کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔

امامزادہ شہزادہ زکریا، سید علی، محسن، اور امامزادہ صفورہ

یہ مزارات بھی علاقے میں موجود ہیں۔

. امامزادہ عبداللہ

یہ قلعہ صدری کے قریب واقع ہے اور یہ امام سجاد (ع) کے نواسوں میں سے ایک سے منسوب ہے۔ یہ مزار قاجار دور سے پہلے کا ہے۔

بقعه بابا مسافر

یہ ایک تاریخی عمارت ہے جو شمالی مشرق قم میں، ری دروازے کے قریب واقع ہے اور غالباً صفوی دور کی یادگار ہے۔

بقعه چار امامزادہ (شہره، ملا آقا)

یہ شمالی قم میں امامزادہ ابو احمد اور سید علی کے قریب واقع ہے اور بظاہر چار امامزادوں (ابوعبداللہ حسین اور ان کے تین بیٹوں) کی قبریں ہیں، جس کی تعمیر صفوی دور میں ہوئی۔

بقعه خدیجہ خاتون

امامزادہ سلطان محمد شریف

یہ مزار اسی نام کے محلے میں، قلعہ دروازے کے قریب واقع ہے، اور یہ ابوالقاسم علی امام چہارم (ع) کی اولاد کا مزار ہے اور یہ نویں اور دسویں صدی ہجری کے فن تعمیر اور تزئین کا ایک اچھا نمونہ ہے۔

امامزادہ شہزادہ ابراہیم (درِ بہشت کے قریب)

یہ مزار کاشان دروازے کے باہر، 'در بہشت' کے قریب ایک احاطے میں واقع ہے جو قبرستان کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ یہ امام موسیٰ کاظم (ع) کے ایک نواسے کا مزار ہے۔ قدیم ترین کتبے کے مطابق اس کی تاریخ آٹھویں صدی ہجری کے اوائل کی ہے۔

. امامزادہ شہزادہ ابراہیم اور محمد (فردیجان)

قم کے مغربی جانب فردیجان میں یہ عمارت ایلخانی دور کی باقیات ہے اور یہ امام موسیٰ کاظم (ع) کے دو بیٹوں (ابراہیم اور محمد) کی قبریں ہیں۔ اصل تعمیر ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کی ہے۔

امامزادہ شہزادہ احمد قاسم

یہ مزار قلعہ دروازے کے قریب، جنوب مشرق قم میں واقع ہے اور یہ علی صفی خاندان کی تعمیرات میں شمار ہوتا ہے۔

امامزادہ شہزادہ ہادی اور مہدی

یہ مزار جمکران کے ہادی مہدی گاؤں میں ہے، جہاں تین حسینی سادات مدفون ہیں، اور اسے شہزادہ حسام السلطنہ نے 1299 ہجری میں تعمیر کروایا تھا۔

امامزادہ شش امامزادہ

یہ مزار سیف آباد قمرود گاؤں کے باہر، قم کے شمال مشرق میں 24 کلومیٹر پر واقع ہے، اور یہ صفوی دور کے آثار پر مشتمل ہے جس میں چودھویں صدی میں تزئین و آرائش اور مرمت ہوئی ہے۔ یہاں امام موسیٰ کاظم (ع) کے چھ احفاد مدفون ہیں۔

بقعه شیخ اباصلت

یہ بقعه قم کے شمال مشرق میں، سابقہ ری دروازے سے متصل ہے، اور یہ صفوی دور کا ایک سادہ اینٹوں کا مزار ہے جہاں پہلی صدی ہجری کے ایک قمی عالم دین مدفون تھے۔[48]

قم کی معروف مساجد

مسجد مقدس جمکران

جمکران مسجد قم شہر سے 6 کلومیٹر جنوب مشرق میں (قم - کاشان روڈ پر) واقع ہے اور یہ ہمیشہ ایران کے مختلف حصوں اور دوسرے ممالک سے آنے والے زائرین کا استقبال کرتی رہتی ہے۔

مسجد امام حسن مجتبیٰ (ع)

تاریخی روایات کے مطابق یہ مسجد حضرت امام زمانہ (عج) کی خواہش اور اشارے پر تعمیر کی گئی۔ اسے تہران - قم روڈ پر ایک ایسی جگہ پر مرحوم حاج یداللہ رجبیان (قم کے ایک نیک شخص) نے مسجد امام حسن مجتبیٰ کے نام سے تعمیر کروایا جہاں پہلے شہر کے باہر ایک صحرا تھا۔ اس مسجد کی تاریخ 1381 ہجری قمری (1340 شمسی) ہے۔

مسجد جامع

اس کے مرکزی گنبد والے حصے کا بنیادی ڈھانچہ ہجری چھٹی صدی کے پہلے نصف سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مسجد، مسجد جامع عتیق قم کے بعد، قم صوبے کی دوسری قدیم ترین مسجد ہے۔

مسجد امام حسن عسکری (جامع عتیق)

یہ مسجد خیابان آستانہ میں واقع ہے۔ اصل عمارت ہجری تیسری صدی کی ہے، لیکن اب اس اصل عمارت کا کوئی نشان باقی نہیں ہے اور موجودہ عمارت اس قدیم مسجد کی تجدید شدہ شکل ہے۔ مسجد امام حسن عسکری (ع) قم صوبے کی سب سے قدیم مسجد ہے اور یہ روحانی اہمیت اور خاص تعمیراتی خصوصیات کی حامل ہے۔ اس مسجد کو مسجد جامع عتیق قم بھی کہا جاتا ہے۔

مسجد اعظم

مسجد اعظم قم، حضرت معصومہ (س) کے روضے کے مغربی جانب، آیت اللہ بروجردی کی کوشش اور اہتمام سے 1374 ہجری قمری میں استاد حسین بن محمد معمار (جو استاد لرزادہ کے نام سے مشہور ہیں) نے تعمیر کروائی تھی۔ اسے اس کے حجم اور عظمت کی وجہ سے مسجد اعظم کا نام دیا گیا ہے۔

مسجد فاطمیہ

یہ مسجد بھی قم کی معروف مساجد میں سے ہے جو گذرخان کے قریب ایک نیک خاتون، بانو ہمایوں رخداد، کی کوشش سے تعمیر کی گئی۔ فی الحال اس مسجد میں نماز کے علاوہ دینی علوم کی تدریس بھی جاری ہے۔

مسجد پنجہ علی

یہ عمارت اسی نام کی ایک محلے میں واقع ہے اور اس کا نام اس لیے پڑا کیونکہ یہاں ایک ایسا پتھر کا ٹکڑا موجود ہے جس پر ہاتھ کی تصویر کندہ ہے۔

مسجد صرم

یہ عمارت قم سے 26 کلومیٹر جنوب مشرق میں صرم گاؤں میں واقع ہے اور یہ صفوی دور کی ایک یادگار ہے۔ اس عمارت کو حاجی صومی نامی شخص نے 1061 اور 1062 ہجری قمری کے دوران تعمیر کروایا تھا۔[49]

قم کے موجودہ شیعہ مراجع تقلید

قم میں مقیم موجودہ شیعہ مراجع تقلید کے نام درج ذیل ہیں:

1. حسین وحید خراسانی 2. حسین نوری ہمدانی 3. ناصر مکارم شیرازی 4. سید موسیٰ شبیر ی زنجانی 5. عباس محفوظی 6. جعفر سبحانی تبریزی 7. عبداللہ جوادی آملی 8. یداللہ دوزدوزانی 9. محمدعلی گرامی قمی 10. سید محمدعلی علوی گرگانی[50]

حوزہ علمیہ (قم کا دینی مدرسہ)

حوزہ علمیہ قم، شیعوں کے سب سے بڑے دینی مدارس میں سے ایک ہے جو قم شہر میں واقع ہے۔ قم کا مکتب اور حدیثی حوزہ (کوفہ اور بغداد کے ساتھ) تشیع کی علمی تاریخ کے تین قدیم ترین حدیثی مراکز میں سے ایک تھا۔

تجدید حیات اور قیام

اس ادارے کو حالیہ صدی میں عبدالکریم حائری یزدی نے سنہ 1301 شمسی میں نئی زندگی بخشی، اسی وجہ سے انہیں حوزہ علمیہ قم کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس حوزے کا قیام رضا شاہ کے دور میں تہران کے حوزہ علمیہ کی بندش اور شیعہ علماء کی قم منتقلی کے نتیجے میں عمل میں آیا۔

حوزہ علمیہ قم نے میرزا محمد فیض قمی، محمد تقی بافقی یزدی، مہدی پایین شہری قمی، میرزا محمد ارباب قمی، محمدرضا شریعتمدار ساوجی اور چند دیگر افراد کی کوششوں کے ذریعے، اور بالآخر عبدالکریم حائری یزدی (جو حوزہ کے مجدد کے نام سے مشہور ہیں) کے یہاں مقیم ہونے کے بعد ایک نئی روح پھونکی۔ تہران اور قم کے حوزوں کے درمیان تاریخ میں گہرے روابط رہے ہیں۔[51]



مدارس علمیه

  1. مدرسه علمیه الزهرا؛
  2. مدرسه علمیه شهید سید حسن شیرازی؛
  3. مدرسه علمیه امام حسین؛
  4. مدرسه علمیه امام باقر؛
  5. مدرسه علمیه امام مهدی؛
  6. مدرسه علمیه رسول اعظم؛
  7. مدرسه علمیه امام رضا؛
  8. مدرسه علمیه رضویه؛
  9. مدرسه علمیه ستیه؛
  10. مدرسه علمیه امام خمینی؛
  11. مدرسه علمیه سید الشهداء؛
  12. مدرسه علمیه اباصالح؛
  13. مدرسه علمیه المهدی؛
  14. مدرسه علمیه الهادی؛
  15. مدرسه اسلامی هنر؛
  16. مدرسه علمیه امام مهدی موعود؛
  17. مدرسه علمیه بقیةالله؛
  18. مدرسه علمیه حقانی؛
  19. مدرسه علمیه رشد؛
  20. مدرسه علمیه جانبازان؛
  21. مدرسه علمیه رسالت؛
  22. مدرسه علمیه حضرت آیت‌الله‌العظمی شیخ عبدالکریم حائری یزدی؛
  23. مدرسه علمیه شهیدین؛
  24. مدارس علمیه مجتمع شهید صدوقی؛
  25. مدرسه علمیه عترت؛
  26. مدرسه علمیه کرمانی‌ها؛
  27. مدرسه علمیه معصومیه؛
  28. مدرسه علمیه امام عصر؛
  29. مدرسه علمیه سعد حلت؛
  30. مدرسه علمیه اثیرالملک؛
  31. مدرسه علمیه سید سعید عزالدین مرتضی؛
  32. مدرسه علمیه سید زین الدین؛
  33. مدرسه علمیه سید عبدالعزیز؛
  34. مدرسه علمیه ابوالحسن کمیج؛
  35. مدرسه علمیه شمس الدین مرتضی؛
  36. مدرسه علمیه مرتضی کبیر؛
  37. مدرسه علمیه در آستانه؛
  38. مدرسه علمیه سفیران هدایت؛
  39. مدرسهٔ علمیه مومنیه مدرسهٔ عمیه رضویه[52]

قم کا مستقبل میں کردار

بحار الانوار میں امام صادق (علیہ السلام) سے حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظہور سے قبل قم شہر اور اس کے علمی مکتب کے مستقبل کے بارے میں دو روایات نقل کی گئی ہیں:

روایت نمبر 1: استدلال اور حفاظت

خداوند سبحانہ و تعالیٰ کوفہ شہر کے ذریعے دیگر شہروں پر، اس کے مومنوں کے ذریعے دیگر مومنوں پر، اور قم شہر کے ذریعے دیگر شہروں پر اور قم کے لوگوں کے ذریعے جن اور انسانوں سمیت پوری دنیا پر دلیل قائم کرتا ہے۔ خداوند سبحانہ و تعالیٰ نے اہل قم کو فکری طور پر کمزور (مستضعف فکری) نہیں بنایا، بلکہ ہمیشہ انہیں کامیاب اور تائید یافتہ رکھا ہے۔ پھر فرمایا: اس شہر میں دیندار لوگ تنگی میں زندگی بسر کریں گے۔ اگر ایسا نہ ہو تو لوگ تیزی سے وہاں کا رخ کریں گے اور وہ جگہ خراب ہو جائے گی اور اس کے رہنے والے تباہ ہو جائیں گے اور وہ اس طرح دوسرے علاقوں پر حجت (دینی رہنما) قائم نہیں کر سکے گا جس طرح اسے کرنا چاہیے۔ جب قم کی حیثیت اس مقام پر پہنچ جائے گی، تو آسمان اور زمین میں سکون نہیں رہے گا اور وہاں کے باشندے ایک لمحہ بھی باقی نہیں رہیں گے۔ آفات اور مصیبتیں قم اور اس کے اہل سے دور رکھی گئی ہیں۔[53] عنقریب ایک ایسا وقت آئے گا جب قم اور اس کے لوگ لوگوں پر حجت ہوں گے، اور یہ ہمارے قائم (عج) کے غیبت اور ان کے ظہور کے وقت ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہو تو زمین اپنے رہنے والوں کو نگل لے گی۔ خدا کے فرشتے مامور ہیں کہ وہ اس شہر اور اس کے اہل سے بلائیں (آفات) دور کریں۔ جو بھی ظالم ان کے بارے میں برا ارادہ کرے گا، خداوند سبحانہ و تعالیٰ جو ظالموں کو کچلنے والا ہے، اسے کچل دے گا یا اسے کسی مصیبت یا دشمن سے مبتلا کر دے گا۔ خداوند متعال ظالموں کی حکومت کے زمانے میں قم اور اس کے لوگوں کا نام ان کے دلوں سے مٹا دیتا ہے، جیسا کہ انہوں نے خدا کو بھلا دیا تھا۔

روایت نمبر 2: علم کا مرکز بننا

عنقریب کوفہ شہر مومنوں سے خالی ہو جائے گا، اور جس طرح سانپ اپنی بل میں گھس جاتا ہے، اسی طرح علم بھی کوفہ سے کوچ کر کے قم نامی شہر سے ظاہر ہوگا۔ وہ علاقہ فضل اور علم کا گودام بن جائے گا، یہاں تک کہ زمین پر کوئی بھی فکری استضعاف کا شکار نہیں رہے گا، یہاں تک کہ نوبیاہتا دلہنیں بھی اپنے سسرال میں (علم سے بہرہ ور ہوں گی)۔ یہ واقعات ہمارے قائم (عج) کے ظہور کے قریب رونما ہوں گے۔ خداوند سبحان، قم اور اس کے اہل کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے حضرت حجت کا قائم مقام بناتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو زمین اپنے اہل کو نگل لے گی اور زمین پر کوئی حجت باقی نہیں رہے گی۔ علم اس شہر سے دنیا کے مشرق اور مغرب تک پھیلے گا۔ اس طرح لوگوں پر اتمام حجت ہو جائے گا اور کوئی ایسا باقی نہیں رہے گا جہاں دین اور علم نہ پہنچا ہو۔ تب قائم (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) ظہور فرمائیں گے اور ان کا ظہور خداوند سبحانہ و تعالیٰ کے غضب کا باعث بنے گا، کیونکہ خداوند سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں سے انتقام نہیں لیتا مگر اس کے بعد کہ وہ حضرت حجت کے مقدس وجود کا انکار کر دیں۔[54]

قم اور اسلامی انقلاب

قم کو ایران کے اسلامی انقلاب کا گہوارہ یاد کیا جاتا ہے۔[55] امام خمینی کا مسکن قم تھا اور شاہی حکومت کے خلاف ان کی کچھ تقریریں اسی شہر میں ہوئیں۔

۱۵ خرداد (جون 1963) کا قیام

امام خمینی نے 13 خرداد 1342 شمسی کو مدرسہ فیضیہ میں شاہی حکومت کے خلاف تقریر کی،[56] جس کے نتیجے میں انہیں گرفتار کر کے تہران منتقل کر دیا گیا۔ 15 خرداد کو امام خمینی کی گرفتاری کے احتجاج میں ایران کے کئی شہروں، بشمول قم، کے عوام سڑکوں پر نکل آئے، اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ جھڑپوں میں کئی لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ اس واقعے کو قیام 15 خرداد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک یہ اسلامی انقلاب کے آغاز کا ایک نقطۂ عطف سمجھا جاتا ہے۔[57]

۱۹ دی (جنوری 1978) کا قیام

اسی طرح سنہ 1357 شمسی میں، قم کے عوام نے روزنامہ اطلاعات میں شائع ہونے والے ایک مضمون "ایران اور سرخ و سیاہ استعمار" کے خلاف احتجاج کیا، جس میں مراجع تقلید، خاص طور پر امام خمینی کی توہین کی گئی تھی۔ ان کے احتجاجی تحریک کو قیام 19 دی کے نام سے جانا جاتا ہے۔[58] اس قیام کو ان مظاہروں کا آغاز سمجھا جاتا ہے جو بہمن 1357 شمسی میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کا باعث بنے، اور اسے ایران کے انقلاب کی چنگاری کہا جاتا ہے۔[59]

تحقیقاتی مراکز

  1. مؤسسه علمی فرهنگی دارالحدیث؛
  2. پژوهشگاه قرآن و حدیث؛
  3. مرکز تحقیقات رایانه‌ای نور؛
  4. پژوهشگاه مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی؛
  5. مؤسسهٔ آموزشی پژوهشی امام خمینی؛
  6. دفتر انتشارات اسلامی؛
  7. مرکز المعجم الفقهی؛
  8. مرکز جهانی انصارالمهدی؛
  9. مرکز دائرةالمعارف فقه اسلامی؛
  10. مرکز تحقیقات علمی و فنی دکتر حسابی؛
  11. مؤسسهٔ تنظیم و نشر آثار امام خمینی؛
  12. مؤسسهٔ قرآنی بیت‌النور؛
  13. مرکز تحقیقات استراتژیک توسعه؛
  14. مؤسسهٔ تحقیقاتی اسرا؛
  15. مرکز پژوهشی صافا؛
  16. مجمع جهانی اهل‌بیت؛
  17. پژوهشکدهٔ فلسفه و کلام؛
  18. پژوهشگاه علوم و فرهنگ اسلامی؛
  19. پژوهشگاه فرهنگ و اندیشهٔ اسلامی؛
  20. مؤسسهٔ علمی طه؛
  21. مجمع اندیشهٔ اسلامی؛
  22. مرکز مطالعات و پاسخ گویی به شبهات حوزه علمیه (نام سابق این مرکز: مرکز مطالعات و پژوهش‌های فرهنگی حوزهٔ علمیه)؛
  23. مؤسسهٔ قرآن و نهج‌البلاغه؛
  24. مرکز کتاب‌شناسی شیعه؛
  25. مؤسسهٔ علوم آل محمد؛
  26. خانه فرهنگی حضرت زهرا؛
  27. مؤسسهٔ فرهنگی دارالمعارف؛
  28. مؤسسهٔ فرهنگی هنری صاحب‌الامر؛
  29. مؤسسهٔ تحقیقاتی حضرت ولی‌عصر؛
  30. مؤسسهٔ فرهنگی انتظار نور؛
  31. بنیاد هنری ـ دینی الرضا؛
  32. مؤسسهٔ معارف اهل‌بیت؛
  33. مجمع جهانی شیعه شناسی؛
  34. مرکز حقایق اسلامی؛
  35. مرکز تحقیقات علمی مجلس خبرگان؛
  36. مرکز شیعه شناسی؛
  37. بنیاد پژوهش‌های اسلامی؛
  38. مرکز جهانی آل‌البیت؛
  39. مرکز تخصصی علوم حدیث؛
  40. بنیاد بین‌المللی نهج‌البلاغه؛
  41. دائرةالمعارف کامپیوتری اسلامی؛
  42. فرهنگستان علوم اسلامی؛
  43. مؤسسه معارف اسلامی امام رضا؛
  44. مرکز تحقیقاتی امیرالمؤمنین؛
  45. مرکز تخصصی امامت و مهدویت؛
  46. مرکز تحقیقات فقهی قوه قضاییه؛
  47. مؤسسهٔ تحقیقاتی سروش کورش کبیر؛
  48. دبیرخانه مجلس خبرگان رهبری

[60]

یونیورسٹیاں اور اعلی تعلیمی مراکز

  1. دانشگاه قرآن و حدیث؛
  2. دانشگاه معارف؛
  3. دانشگاه معارف اسلامی؛
  4. دانشگاه علمی کاربردی شهرداری؛
  5. دانشگاه پیامبر اعظم؛
  6. دانشگاه علمی کاربردی صنایع دستی و گردشگری؛
  7. دانشکدهٔ علوم بهداشت؛
  8. مؤسسه آموزش عالی هنر و اندیشه اسلامی؛
  9. مؤسسهٔ آموزش عالی شهاب دانش؛
  10. دانشگاه ادیان و مذاهب اسلامی؛
  11. دانشگاه شهید مدنی؛
  12. دانشکدهٔ پرستاری و مامایی؛
  13. دانشگاه کریمهٔ اهل بیت؛
  14. دانشگاه علوم قرآنی؛
  15. دانشکدهٔ اصول دین؛
  16. دانشگاه علمی کاربردی هنر و فرهنگ؛
  17. دانشگاه صنعتی قم؛
  18. دانشکدهٔ حضرت معصومه؛
  19. دانشگاه حکمت قم؛
  20. دانشگاه تعالی قم؛
  21. مؤسسه آموزش عالی طلوع مهر قم؛
  22. دانشگاه صنعتی شهاب دانش (برق - فناوری اطلاعات و ارتباطات)؛
  23. آموزشکده فنی پسران قم؛
  24. پردیس قم دانشگاه تهران؛
  25. مؤسسه آموزش عالی پویش؛
  26. دانشکده صداوسیما - قم؛
  27. دانشگاه قم؛
  28. دانشگاه صنعتی قم؛
  29. دانشگاه آزاد اسلامی واحد قم؛
  30. دانشگاه جامع علمی کاربردی واحد استان قم؛
  31. دانشگاه مفید؛
  32. دانشگاه پیام نور؛
  33. مؤسسه آموزش عالی معصومیه قم؛
  34. دانشگاه علوم پزشکی قم؛
  35. جامعه المصطفی العالمیه؛
  36. دانشگاه باقرالعلوم

[61]

لائیریریاں

کتابخانه عمومی آیت‌الله خامنه‌ای؛ کتابخانه عمومی نرگس؛ کتابخانه عمومی امامزاده ابراهیم؛ کتابخانه عمومی امام صادق؛ کتابخانه مجمع آثار اسلامی؛ کتابخانه تخصصی صاحب‌الزمان؛ کتابخانه المهدی؛ کتابخانه آیت‌الله گلپایگانی؛ کتابخانه سیدالشهداء؛ کتابخانه محقق طباطبایی؛ کتابخانه تخصصی فقه و اصول؛ کتابخانه تخصصی ادبیات؛ کتابخانه تخصصی حدیث؛ کتابخانه آیت‌الله حائری؛ کتابخانه آیت‌الله مرعشی نجفی؛ کتابخانه تخصصی تفسیر و علوم قرآن؛ کتابخانه قرآن و عترت؛ کتابخانه آستانه مقدسه قم؛ کتابخانه عترت؛ کتابخانه دفتر تبلیغات؛ کتابخانه دانشگاه قم؛ کتابخانه آیت‌الله مشکینی؛ کتابخانه عمومی امام علی؛ کتابخانه عمومی علامه امینی؛ کتابخانه عمومی امام رضا[62]

تاریخی اور مذہبی عمارتیں

قم وہ صوبہ ہے جو اپنی زیادہ تر شہرت حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے حرم کی وجہ سے رکھتا ہے۔ ہر سال یہ شہر زائرین کی میزبانی کرتا ہے جو حضرت معصومہ (س) کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ یہاں ہم قم کے تاریخی مقامات کا تعارف پیش کر رہے ہیں:

شہر قم میں آپ حضرت معصومہ (س) کے حرم اور مسجد جمکران کی زیارت کے علاوہ نمک جھیل (دریاچہ نمک)، غاروں، حوض سلطان جھیل، مدرسہ فیضیہ وغیرہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔

ملا صدرا کا گھر

گیارہویں صدی ہجری کے عظیم فلسفی، جنہوں نے اشراق کے فلسفے کو اوج پر پہنچایا، ملا صدرا ہیں۔ ان کا گھر کہک گاؤں میں واقع ہے اور اس کی قدامت صفوی دور سے ہے۔ اس گھر کی زیارت کے لیے آپ گاؤں کی روایتی آبادی کے آخری حصے تک جا سکتے ہیں، اور خم دار راستوں کے اختتام پر ملا صدرا کا گھر ملے گا۔ یہ عمارت ایک باغ میں واقع ہے جو آس پاس کے گھروں کے درمیان شامل ہو چکا ہے۔

اس گھر کے ارد گرد دیگر عناصر بھی موجود ہیں: باغ کے شمال مشرق میں ایک چھوٹی مسجد، شمال مغرب میں ایک عصار خانہ (تیل نکالنے کی جگہ) جو فی الحال مسمار ہو رہا ہے، اور باغ کے بیچ میں ایک چار ایوانی ڈھانچہ جو مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں تبدیل ہوا ہے۔

کاروانسرائے علی آباد

یہ سرائے (کاروانسرا) روایتی انداز میں عمارت کے تین کونوں میں تین ستونوں والے ہال پر مشتمل ہے۔ اس سرائے میں مرکزی ایوان کے بجائے صحن میں ایک جگہ پیچھے ہٹی ہوئی جگہ ہے اور اس کے پیچھے ایک استقبالیہ ہال بنایا گیا ہے۔ یہ تعمیراتی انداز زیادہ تر یزد اور کاشان کے گھروں میں پایا جاتا ہے لیکن سرائے میں کم دیکھنے میں آیا تھا۔ عمارت کے چاروں اطراف اور کونوں پر مینار بنائے گئے ہیں۔ مسافروں کے لیے ایک کافی ہاؤس، حمام اور ایک اور مسافر خانہ موجود تھا۔ اس مسافر خانے کے پیچھے پانی کا ایک تالاب اور انار کے درخت ہیں۔

امامزادہ عبداللہ

اس عمارت کی قدامت سلجوقی دور سے ہے اور یہ میل میم سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ یہ عمارت قم شہر سے باہر اور چشمہ علی گاؤں کے قریب، اونچائیوں پر واقع ہے۔[63]

قم کے سیاحتی مقامات

نمک جھیل، قم (دریاچہ نمک)

حوض سلطان نمک جھیل قم کے شمال میں 40 کلومیٹر اور تہران کے جنوب میں 85 کلومیٹر کے فاصلے پر تہران-قم شاہراہ کے کنارے واقع ہے۔ یہ جھیل، جسے ساوی-قم جھیل اور شاہی جھیل بھی کہا جاتا ہے، تقریباً 240 مربع کلومیٹر کے رقبے پر قم کے شمال مشرق میں واقع ہے، اور البرز پہاڑی سلسلے اس کے شمال میں ہیں۔

جھیل کا حجم اور شکل سال کے مختلف موسموں میں پانی کی آمد اور بارش کی مقدار کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔ بارش اور آس پاس کی پہاڑیوں سے برف پگھلنے کے وقت جب پانی کی آمد بڑھ جاتی ہے تو اس کا رقبہ بڑھ جاتا ہے، اور دیگر ایام میں اس کا رقبہ کم ہو جاتا ہے۔ اس طرح جھیل کی سطح مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار رہتی ہے۔

یہ علاقہ حیاتیات، ماحولیات، قدیمات، موسم، آب و ہوا، روزگار پیدا کرنے اور تفریحی مقام کے لحاظ سے قابل غور اور گہری تحقیق کے لائق ہے اور اسے قم صوبے کی ترقی کے مناظر میں سے ایک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

علاقے کی مٹی میں نمکیات کی وجہ سے جھیل کے مرکز کے گرد مرتکز دائرے بنتے ہیں، جہاں مرکز سے باہر کی طرف نمک کی شدت بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ علاقے کے پودے اپنی دواؤں خصوصیات، فعال اجزاء اور دیگر استعمالات کے لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں۔ حوض سلطان نمک کے ذخیرے کی حفاظت اور ماحولیاتی مفاد پرستوں اور ماحول سے ناآشنا افراد کے تجاوز سے اس کی آبیاری کے نظام اور نباتاتی غلاف کو پہنچنے والے نقصانات کی مرمت کی اہمیت کے پیش نظر، اس علاقے کو سنہ 88 (1388 شمسی) میں پانچ سال کے لیے شکار ممنوع علاقہ قرار دیا گیا۔ جب پانی زیادہ ہوتا ہے تو جھیل کی سطح پھیل جاتی ہے اور اس کا پانی ارد گرد کی نشیبی اور دلدلی نمکی زمینوں کو ڈھانپ لیتا ہے، اور 18 کلومیٹر لمبی اور 16 کلومیٹر چوڑی ایک بڑی جھیل بن جاتی ہے جسے حوض سلطان جھیل یا نمک کا صحرا کہتے ہیں۔ متعدد ندیاں اس جھیل میں گرتی ہیں جو عموماً اردگرد کی نمکی دلدلی زمینوں سے گزرتی ہیں۔ آپ نے قم کے مزید تاریخی گھروں اور قدیم کاروانسرایوں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔ میں اس متن کا اردو میں ترجمہ پیش کر رہا ہوں:[64]

تاریخی گھر اور قدیم سرائیں

حاج قلی خان کا گھر

یہ گھر جو فی الحال ثقافتی ورثہ کے دفتر کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، قدیم شہر کے مرکز (چارمردان محلے) میں واقع ہے۔ عمارت کی تعمیر اواخر قاجاریہ دور کی ہے اور عمارت کا جنوبی حصہ، جو سب سے قدیم حصہ ہے، تقریباً 120 سال پرانا ہے۔

زند (حاج علی خان) کا گھر

یہ گھر، حاج قلی خان کے گھر (مقام ثقافتی ورثہ کا دفتر) کے بالکل ساتھ اور قدیم شہر کے مرکز (چارمردان محلے) میں واقع ہے اور قلعہ گذر گلی کے ذریعے باہر سے منسلک ہے۔ اس کی قدامت تقریباً 120 سال اور اواخر قاجاریہ دور کی ہے۔ پتھر کے ستون جن میں سرستون اور ستونوں کی بنیادیں شامل ہیں، شمالی اور مشرقی ایوان، اور لکڑی کے دروازے عمارت کے نمایاں عناصر سمجھے جاتے ہیں۔

ملا صدرا کا گھر

گیارہویں صدی کے عظیم فلسفی کا یہ گھر، جنہوں نے اشراق کے فلسفے کو اپنی انتہا تک پہنچایا، کہک میں واقع ہے اور صفوی دور سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی مرمت اور بحالی 1376 شمسی میں محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے کی گئی۔

قدیم سرائیں اور قلعے

قدیم سرائیں ایران کی قدیم فن تعمیر کا ایک بیش قیمت ورثہ ہیں جو مختلف باہمی ربط، اقتصادی، فوجی، جغرافیائی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر تعمیر کی گئیں اور مختلف ادوار میں بتدریج ترقی کرتی رہیں۔ قم شہر اور دیگر شہروں کے درمیان واقع قدیم سرائیں یہ ہیں:

کاروانسرائے کنار گود: یہ چار ایوانوں والی سرائے دو مرکزی صحنوں کے ساتھ تہران-قم سڑک پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی قدامت صفوی دور کی ہے اور اس کے زیادہ تر مصالح اینٹ اور پتھر ہیں، جس میں اینٹ کاری کے قابلِ ذکر سجاوٹ شامل ہیں۔ کاروانسرائے دہ کدہ طلب: اراک-قم سڑک پر، سلفچگان کے شمال میں ایک چار ایوانی سرائے۔ اس کی قدامت سلجوقی اور صفوی ادوار سے ہے اور اس کے زیادہ تر مصالح اینٹ اور پتھر ہیں۔ کاروانسرائے آوہ: قم-ساوہ سڑک کے جنوب میں، ایک چار ایوانی منصوبہ بندی کے ساتھ۔ اس سرائے کی قدامت سلجوقیوں کے دور تک جاتی ہے اور اس میں استعمال ہونے والے زیادہ تر مصالح اینٹ ہیں۔ کاروانسرائے قلعہ سنگی: قم-ری سڑک سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر تعمیر کی گئی اور چار ایوانی طرز کی ہے، جس میں پتھر تعمیراتی مواد کے طور پر استعمال ہوا ہے اور یہ صفوی دور میں بنی تھی۔ کاروانسرائے اتابکی: یہ قم-کاشان سڑک پر 4 ایوانوں کے ساتھ قاجاریہ دور میں تعمیر کی گئی تھی، لیکن اس میں صفوی عہد کی تعمیراتی خصوصیات بھی نمایاں ہیں۔ اس عمارت کے زیادہ تر مصالح پتھر، اینٹ اور کچی مٹی ہیں۔ کاروانسرائے باقر آباد: قم-تہران سڑک (علی آباد-منظریے) پر واقع ہے۔ یہ عمارت قاجاریہ دور کا باقی ماندہ فن پارہ ہے، جس کے تعمیراتی مصالح زیادہ تر اینٹ، پتھر ہیں اور اس میں کوئی سجاوٹ نہیں ہے۔ کاروانسرائے پل دلاک: قم-تہران سڑک پر صفوی دور کا ایک فن پارہ تھا جو مٹی کے مصالح سے بنا تھا اور وقت کے ساتھ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ کاروانسرائے پاسنگان: قم-کاشان سڑک پر 13ویں صدی ہجری کی ایک قابل قدر عمارت ہے۔ کاروانسرائے قلعہ صدری[65]

قم کے تاریخی مزارات (آرامگاہیں)

قم، جو کہ حضرت معصومہ (س) کے حرم کی وجہ سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے، کئی اہم تاریخی اور مذہبی شخصیات کے مدفن کا گھر بھی ہے:

فتح علی شاہ کا مزار: یہ مقبرہ حضرت معصومہ (س) کے شمالی صحن کے شمالی حصے میں واقع ہے اور یہ بیگم صفوی کے فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس مقبرے کی تعمیر اور تزئین و آرائش فتح علی شاہ نے اپنی زندگی کے دوران (سنہ 1245 ہجری میں) اپنے حکم سے کروائی تھی۔

محمد شاہ کا مزار: یہ مزار حضرت معصومہ (س) کے حرم کے مغربی پہلو پر، بالاسر مسجد کے داخلی دروازے کے پاس واقع ہے۔

مہد علیا کا مقبرہ: مہد علیا، سلطان محمد خدابندہ صفوی کی زوجہ اور شاہ عباس اول کی والدہ تھیں، جنہوں نے امورِ سلطنت میں بڑی طاقت اور توجہ سے کام لیا۔ یہ مقبرہ محمد شاہ کے قبر کے مغربی اور پچھلے حصے میں واقع ہے۔

مستوفی کا مزار: یہ مزار مستوفی الممالک (قاجار دور کے ایک مشہور شخصیت) کے والد کا ہے اور یہ قدیم صحن کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔

شاہ عباس دوم کا مزار: یہ مقبرہ حرم کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔

شاہ سلیمان اور شاہ صفی کے مزارات: یہ دونوں مزارات سابق میوزیم (موجودہ شہید مطہری مسجد) کے احاطے میں واقع ہیں۔

علی بن بابویہ قمی کا مزار: علی بن بابویہ قمی (وفات 329 ہجری) کا مزار قدیم بابلان قبرستان کے مشرقی کنارے پر واقع ہے اور اب یہ ارم اسٹریٹ کے مشرق میں ہے۔

خواجہ اصیل الدین کا مقبرہ: یہ مقبرہ چارمردان اسٹریٹ میں واقع سبز گنبد کے مقبروں کا حصہ ہے اور یہ صفوی خاندان کی ایک بڑی عمارت کا حصہ ہے۔

دیگر بزرگوں کے مزارات

قم میں مندرجہ ذیل قابل احترام علماء اور شخصیات کے مزارات بھی موجود ہیں:

  • آیت اللہ آخوند ملا مہدی عراقی
  • آیت اللہ مرزا حسن کاشفی
  • آیت اللہ سید صدر الدین
  • آیت اللہ محمد تقی خوانساری
  • آیت اللہ بروجردی
  • مرتضیٰ مطہری
  • آیت اللہ اراکی
  • آیت اللہ علامہ طباطبائی
  • پروین اعتصامی

متعلقہ تلاشیں

حوالہ جات

  1. لسان العجم، ص256؛ معجم البلدان، ج4، ص274؛ جغرافیای تاریخی قم، ص89.
  2. تاریخ قدیم قم، حسن بن محمد، فصل اول، ص40، 25 و 42
  3. تاریخ قم، ناصرالشریعة، ص25
  4. معجم البلدان، ج4، ص274و 397
  5. تاریخ قدیم قم، ص27؛ تاریخ قم، ناصرالشریعه، ص17.
  6. [qom.farhang.gov.ir.]
  7. ایران از آغاز تا انجام، ص۷؛ باستان‌شناسی ایران باستان، ص۱۲۴
  8. بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸م، ص۳۰۴؛ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۱۴۴؛ غرر اخبار ملک الفرس، ص۷۰۹؛ ابن اعثم، الفتوح، ج۱، ص۲۸۶-۲۸۸؛ دینوری، الاخبار الطوال، ص۶۷؛ ابن فقیه، البلدان، ۱۴۱۶ق، ص۵۳۱-۵۳۲؛ ابن حمزه، سنی ملوک الارض و الانبیاء، ص۳۵؛ قمی، تاریخ قم، ص۹۱؛ فردوسی، شاهنامه، ج۴، ص۱۲۸؛ مرعشی، تاریخ طبرستان و رویان، ص۴.
  9. مستوفی، نزهه القلوب، ۱۳۸۱، ص۱۱۰؛ قمی، تاریخ قم، ص۸۲-۸۹
  10. سفرنامه ابودلف، ص۷۱؛ سمعانی، الانساب، ۱۳۸۲ق، ج۱۰، ص۴۸۵؛ ابی‌الفداء، تقویم البلدان، ص۴۰۹؛ حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۹۷.
  11. حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۹۷؛ سمعانی، الانساب، ۱۳۸۲ق، ج۱۰، ص۴۸۴.
  12. قمی، تاریخ قم، ص۲۵؛ بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸م، ص۳۰۴؛ حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۹۷
  13. قمی، تاریخ قم، ۲۶۱
  14. قمی، تاریخ قم، ص۵۶؛ حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۹۷
  15. جغرافیای تاریخ قم، ص۷۸؛ ادیب کرمانی، ص۷۳
  16. حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۹۷
  17. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۶، ص۳۹۹؛ بلاذری، فتوح‏ البلدان، ۱۹۸۸م، ص۳۰۷.
  18. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۶، ص۳۹۹
  19. تاریخ ‏قم، ص۳۵
  20. ابن اثیر، الکامل، ج۱۲، ص۵۴.
  21. بلاذری، فتوح‏ البلدان، ۱۹۸۸م، ص۳۰۷
  22. نقدالرجال، ص۳۳۱
  23. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج‏۸، ص۱۹.
  24. مدرسی طباطبایی، قم‌نامه، ۱۳۶۴ش، ص۱۴
  25. مدرسی طباطبایی، قم‌نامه، ۱۳۶۴ش، ص۳۴-۳۷. کاوسی، معماری امامزادگان قم در قرن هشتم، ۱۳۸۴ش، ص۹۹-۱۰۱.
  26. مدرسی طباطبایی، قم‌نامه، ۱۳۶۴ش، ص۳۴
  27. تاریخ مذهبی قم، ص318
  28. تاریخ تشیع، زیر نظر دکتر خضری، ج2، ص166
  29. تاریخ قدیم قم، ص251 و260؛ معجم البلدان، ج4، ص397؛ آثار مذهبی، ص357؛ تاریخ تشیع، رسول جعفریان.
  30. مذکوره حواله
  31. تاریخ قم، حسن بن محمد، ص240.
  32. معجم البلدان، یاقوت حموی، ج4، ص397.
  33. قم اجتماعی و اقتصادی، ص37
  34. تاریخ قم، حسن بن محمد، ص240،244 و260؛ معجم البلدان، ج4،ص397؛ تقویم البلدان.
  35. مقدمه کتاب تاریخ قم، چاپ کتابخانه آیت‌الله مرعشی نجفی، ص37.
  36. تاریخ قدیم قم؛ ص74 و264، چاپ جدید، ص740؛ معجم البلدان، ج4، ص378؛ تقویم البلدان، ابوالفداء، ص409؛ الانساب، ص461؛ مقدمه تاریخ قم.
  37. گنجینه آثار قم، ص145
  38. مذکوره حواله
  39. تاریخ قدیم قم، ص262
  40. کتاب تاریخ قم، به قلم محمد علی انصاری، ص15
  41. تاریخ قدیم قم، ص260. تبلیغات
  42. تاریخ قم، ص18و126.
  43. تاریخ مذهبی قم، ص318
  44. فتوح البلدان، ج4، ص301؛ تاریخ قم، فصل7، باب1
  45. مذکوره حواله
  46. جغرافیای تاریخی قم، ص35
  47. تاریخچه حرم حضرت معصومه (سلام الله علیها) از چه زمانی است.
  48. [kareymeh.valiasr-aj.com]
  49. مقاله اماکن مقدس قم، شماره ۱و۲.
  50. مرجعیت، سید هدایت‌الله طالقانی، نشر: ارغنون - سبز رویش، چاپ اول (۱۳۷۴)؛ صفحات ۳۳۷ تا ۳۴۴ کتاب شامل: لیست ۱۴۷ مرجع فقهی شیعه از سنه ۳۲۹ قمری (آغاز غیبت کبری) تا دهه‌های اخیر (سال ۱۴۱۵. ق - ۱۳۷۳ شمسی).
  51. تاریخ مذهبی قم.
  52. علی کرجی، قم و مرجعیت، ج۱، ص۶۴ـ۶۹، قم ۱۳۸۳ ش.
  53. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۲، ح ۲۳.
  54. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۲، ح ۲۳.
  55. دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله‌العظمی خامنه‌ای؛ بیانات در اجتماع بزرگ مردم قم‌، انتشار: ۲۷ مهر ۱۳۸۹ش، بازبینی: ‍۱۶ دی ۱۳۹۶ش.
  56. جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی-سیاسی ایران، ۱۳۹۰ش، ص۳۳۵.
  57. جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی-سیاسی ایران، ۱۳۹۰ش، ص۳۳۵
  58. جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی-سیاسی ایران، ۱۳۹۰ش، ص۳۳۵.
  59. ملایی‌پور، آذرخش انقلاب، ۱۳۸۳ش، ص۲۴-۳۸.
  60. حوزه علمیه. ۳ شهریور ۱۳۹۲. دریافت‌شده در ۲۶ آگوست ۲۰۱۳.
  61. www.yaalee.com ›. showthread.
  62. کتابخانه‌های قم». اداره کل میراث فرهنگی، صنایع دستی و گردشگری استان قم. بایگانی‌شده از اصلی در ۹ فوریه ۲۰۱۴. دریافت‌شده در ۲ فوریه ۲۰۱۴
  63. safarzon.com › mag
  64. safarzon.com › mag
  65. kareymeh.valiasr-aj.com.