مندرجات کا رخ کریں

"حماس" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 168: سطر 168:


ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس کا جواب کسی طور پر ٹرمپ منصوبے کی قبولیت نہیں بلکہ ایک سیاسی بصیرت کا مظہر ہے، جس نے تنظیم کو سفارتی میدان میں مضبوط کیا ہے۔ اس وقت امن مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، اور نہ ہی جنگ بندی یا قیدیوں کے تبادلے کے لیے کوئی حتمی تاریخ دی جاسکتی ہے، جیسا کہ ٹرمپ کے دعووں میں ظاہر کیا گیا<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1935752/%D8%BA%D8%B2%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D9%86%DA%AF-%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB%8C-%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%DA%A9%D9%85%D8%AA-%D8%B9%D9%85%D9%84%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%85%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D8%AE-%D8%A8%D8%AF%D9%84-%D8%AF%DB%8C%D8%A7 غزہ میں جنگ بندی، حماس کی حکمت عملی نے امن منصوبے کا رخ بدل دیا]- شائع شدہ از: 4 اکتوبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 اکتوبر 2025ء</ref>۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس کا جواب کسی طور پر ٹرمپ منصوبے کی قبولیت نہیں بلکہ ایک سیاسی بصیرت کا مظہر ہے، جس نے تنظیم کو سفارتی میدان میں مضبوط کیا ہے۔ اس وقت امن مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، اور نہ ہی جنگ بندی یا قیدیوں کے تبادلے کے لیے کوئی حتمی تاریخ دی جاسکتی ہے، جیسا کہ ٹرمپ کے دعووں میں ظاہر کیا گیا<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1935752/%D8%BA%D8%B2%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D9%86%DA%AF-%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB%8C-%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%DA%A9%D9%85%D8%AA-%D8%B9%D9%85%D9%84%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%85%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D8%AE-%D8%A8%D8%AF%D9%84-%D8%AF%DB%8C%D8%A7 غزہ میں جنگ بندی، حماس کی حکمت عملی نے امن منصوبے کا رخ بدل دیا]- شائع شدہ از: 4 اکتوبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 اکتوبر 2025ء</ref>۔
== سوڈان میں خانہ جنگی، عرب امارات کی نظر سونے کی کانوں پر، حماس کی حمایت کا بدلہ لیا جارہا ہے ==
سوڈانی تجزیہ کار نے ملک میں جاری خانہ جنگی کو مغربی پالیسیوں کا تسلسل، سونے کی کانوں پر قبضے کی کوشش اور حماس کی حمایت کی سزا قرار دیا۔
سوڈان مشرقی افریقہ میں واقع ایک اہم ملک ہے، گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی عدم استحکام اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔ 2019 میں صدر عمر البشیر کی برطرفی کے بعد عوام کو جمہوری تبدیلی کی امید تھی، لیکن طاقت کی کشمکش نے ملک کو مزید انتشار میں دھکیل دیا۔


اپریل 2023 سے سوڈانی فوج اور نیم فوجی گروہ ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ یہ لڑائی دارالحکومت خرطوم سے لے کر دارفور تک پھیل چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اب تک 15 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 86 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں سے تقریباً 20 لاکھ افراد ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان جھڑپوں نے ملک کو انسانی بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ خوراک، پانی اور طبی سہولیات کی شدید قلت ہے، جبکہ کئی علاقے قحط کے دہانے پر ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے اسے دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک قرار دیا ہے، جہاں تین کروڑ سے زیادہ افراد کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔


اس بحران کے پیچھے صرف داخلی طاقت کی کشمکش نہیں بلکہ بیرونی مداخلت بھی کارفرما ہے۔ بعض علاقائی طاقتیں مختلف گروہوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں تاکہ اپنے معاشی مفادات حاصل کرسکیں۔ خاص طور پر سونے کی کانوں اور بحیرہ احمر کے قریب جغرافیائی محلِ وقوع نے سوڈان کو عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم ہدف بنا دیا ہے۔ ممتاز سودانی تجزیہ کار ناصر ابراہیم نے انکشاف کیا ہے کہ سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور بدامنی کے پیچھے بیرونی قوتوں کے معاشی و سیاسی عزائم کارفرما ہیں۔ ان کے مطابق، امارات اور [[اسرائیل]] سودان کے اندرونی خلفشار کو ہوا دے کر سونے کی کانوں پر قبضہ اور ملک کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ماہر نے کہا کہ امارات کی جانب سے ریپڈ سپورٹ فورسز کی پشت پناہی اور اسرائیل کی خفیہ سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ دونوں طاقتیں سوڈان کو کمزور کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوڈان کی دولتِ ارضی اور جغرافیائی محلِ وقوع نے اسے عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم ہدف بنا دیا ہے۔
ذیل میں مہر نیوز کے ساتھ ان کی گفتگو کا متن پیش کیا جاتا ہے:
مہر نیوز: فاشر شہر کا سقوط انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی علامت ہے۔ صرف تین دنوں میں 1500 سے زیادہ عام شہری مارے گئے، جن میں زیادہ تر ماسالیت قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ واقعات صرف داخلی مسائل تک محدود نہیں بلکہ بیرونی قوتیں بھی ان میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ براہ کرم بحران کی داخلی جڑوں اور بیرونی کرداروں کے اثرات پر روشنی ڈالیں۔ 
== سوڈان میں قتل عام ==
'''ناصر ابراہیم:''' مختصرا عرض کروں تو جی ہاں، فاشر شہر ریپڈ سپورٹ فورسز کے قبضے میں آگیا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں اور بدقسمتی سے نسلی صفایا جاری ہے۔ وہاں کے لوگ اپنے مذہب، زبان اور رنگِ جلد کی بنیاد پر قتل کیے جارہے ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ (ریپڈ سپورٹ فورسز) عرب امارات کی حمایت سے سرگرم ہے اور کھلے عام قتل عام کر رہا ہے۔ اس میں صیہونی حکومت بھی شریک ہے۔ لیبیا میں حفتر کا گروہ اور وسطی افریقی جمہوریہ میں چاڈ کی حکومت بھی اس گروہ کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ لہذا جو کچھ فاشر میں ہورہا ہے وہ صرف اسی شہر تک محدود نہیں بلکہ سوڈان کے دیگر شہروں میں بھی ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔ 
بیرونی اور اندرونی دونوں کردار سوڈان کی حالیہ پیش رفت میں یکساں رویہ دکھا رہے ہیں، جس کے باعث صورتحال نہایت سنگین ہوگئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا، سوڈان میں ایک "فریم ورک معاہدہ" موجود تھا جسے ریپڈ سپورٹ فورسز نے فوج پر مسلط کرنے کی کوشش کی، لیکن فوج نے اسے قبول نہیں کیا۔ اسی وجہ سے امارات نے کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے ایک بغاوت کی منصوبہ بندی کی اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کی، مگر فوج نے اس بغاوت کو مسترد کر دیا اور مزاحمت کی۔ یہی وہ نکتہ تھا جس نے خانہ جنگی کو جنم دیا۔ 
بدقسمتی سے، 2023 سے سوڈان خانہ جنگی میں مبتلا ہے جو ایک انسانی المیہ ہے۔ ریپڈ سپورٹ فورسز عربی نظریہ رکھتی ہیں اور غیر عرب سوڈانیوں کو اقلیت سمجھتی ہیں، انہیں سیاسی یا معاشی حقوق دینے پر تیار نہیں۔ دوسرے لفظوں میں، سوڈان کو عرب بنانے کی اس پالیسی کے نتیجے میں آج یہ حالات پیدا ہوئے ہیں، اور فوج اس پالیسی کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔ 
== سوڈان کی اہمیت مداخلت کرنے والے ممالک کے لیے کیوں بڑھ گئی ہے؟ == 
'''ناصر ابراہیم:''' سوڈان کے حالات میں عرب امارات کی مداخلت سب پر واضح اور ثابت ہے۔ بڑی تعداد میں ڈرونز دہشت گردوں کے ہاتھ لگے ہیں، اسی وجہ سے ریپڈ سپورٹ فورسز کو حالیہ جھڑپوں میں برتری حاصل ہے۔ عرب امارات کی جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کی ایک وجہ [[مسلمان|مسلمانوں]] کے خلاف جنگ ہے۔ یہ ملک وہ مشن انجام دے رہا ہے جو مغرب نے اس کے سپرد کیا ہے اور وہ اسے پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری وجہ سوڈان سے نکالے جانے والے سونے کی کانوں پر کنٹرول ہے۔
اس کے علاوہ، اسے سوڈان کو عربی رنگ دینے (عربی‌سازی) کے منصوبے کا تسلسل بھی کہا جاسکتا ہے۔ عرب امارات بظاہر عربوں کے حقوق کا حامی بن کر سامنے آیا ہے، لیکن اس کا نتیجہ نسلی اور آبادیاتی صفایا ہے۔ امارات کا مقصد سوڈان کے تمام وسائل پر قبضہ اور وہاں اپنی طاقت کو مستحکم کرنا ہے۔ یہ صورتحال صرف امارات تک محدود نہیں، بلکہ مغربی طاقتیں اور خاص طور پر صیہونی حکومت بھی ان واقعات کے پیچھے موجود ہیں۔ یہ واقعات صرف سوڈان تک محدود نہیں رہنے چاہییں؛ لیبیا، تیونس، لبنان، عراق اور یمن میں جو کچھ ہوا ہے، اسے دیکھنا سوڈان میں جاری حکمتِ عملی کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ مرکزی حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے ٹکڑوں میں بانٹنے اور اندرونی تفرقہ پیدا کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ 
== عالمی برادری کی جانب سے سوڈان کے حالیہ واقعات پر ردِعمل کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ == 
'''ناصر ابراہیم:''' حال ہی میں سوڈان میں ایک نعرہ عام ہوا ہے: سوڈان کا کوئی دوست نہیں سوائے سوڈان کے۔ اس جملے کے پیچھے یہ حقیقت چھپی ہے کہ کوئی بھی حکومت سوڈان کی حمایت نہیں کررہی۔ عالمی برادری کا ردِعمل زیادہ تر میڈیا تک محدود رہا ہے۔ تاہم، اگر ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ کو ایک دہشت گرد تنظیم کا رہنما تسلیم کر لیا جائے تو یہ سفارتی توازن کو بدل سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں، جو کہ اس کی عالمی سطح پر تنہائی کی صورت میں ہوسکتی ہے۔
لہٰذا، فاشر میں ہونے والا قتل عام [[غزہ]] کی صورتحال سے مشابہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سوڈان میں قتلِ عام کے ذمہ داروں کے خلاف ردعمل بھی ویسا ہی ہوگا جیسا کہ غزہ میں قتلِ عام پر بین‌المللی ردِعمل سامنے آیا۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں (NGOs)، خاص طور پر مغرب میں، عرب امارات کی مخالفت کر رہی ہیں اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بین‌الاقوامی سطح پر پابندیوں کی کوششیں شروع ہو رہی ہیں۔ اس لیے یہ بات واضح ہے کہ امارات کا اس میدان میں کوئی مستقبل نہیں اور وہ ایک ناکام کردار ثابت ہوگا۔ بدقسمتی سے جس طرح ایران کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اسی طرح سوڈان کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے ہمارا اور سوڈان کا مقدر ایک جیسا دکھائی دیتا ہے۔ 
== سوڈان کی موجودہ صورتحال اور لڑنے والے گروہوں کو دیکھتے ہوئے بحران کا ممکنہ حل، مستقبل کے امکانات اور متوقع منظرنامے کیا ہوسکتے ہیں؟ ==
'''ناصر ابراہیم:''' بیرونی ممالک مرکزی حکومت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور سوڈان میں دو ریاستیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کے ذریعے وہ سوڈان کو کمزور بنا کر اسے خطے کی صورتِ حال سے الگ ایک نحیف اور گوشہ نشین ملک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ سوڈان کبھی حماس کا بنیادی حامی تھا۔
اسی وجہ سے اسے صہیونیوں کی جانب سے سزا دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، امارات سوڈان میں جمہوریت یا انتخابات نہیں چاہتا۔ ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ محمد حمدان دقلو کا خاندان سوڈان پر حکمران کی حیثیت سے اپنی جگہ پکی کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ لہذا، ان کا منصوبہ سوڈان کو ٹکڑوں میں بانٹنا، اسے دو ریاستوں میں تقسیم کرنا اور اسے افراتفری میں دھکیلنا ہے تاکہ سوڈان کمزور ہوکر خانہ جنگی میں گرفتار رہے۔
حل کے بارے میں، میں تاکید کرنا چاہوں گا کہ سفارتی حل ہمیشہ اہم ہوتے ہیں؛ تاہم ہم ان کی توقع نہیں رکھتے، کیونکہ یہ اقدامات عالمی جہت رکھتے ہیں۔ سوڈان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس خطے کے بارے میں مغرب اور امریکہ کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ اس لیے ہدف ملک کی تقسیم، اس کی سماجی کمزوری اور اقتصادی بدحالی ہے۔ یہ عمل سوڈان کو ایک ناکام ریاست میں بدلنے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1936270/%D8%B3%D9%88%DA%88%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AE%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%AC%D9%86%DA%AF%DB%8C-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%D8%B8%D8%B1-%D8%B3%D9%88%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%88%DA%BA-%D9%BE%D8%B1-%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3 سوڈان میں خانہ جنگی، عرب امارات کی نظر سونے کی کانوں پر، حماس کی حمایت کا بدلہ لیا جارہا ہے]- شائع شدہ از: 11 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11نومبر 2025ء</ref>۔
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{فلسطین}}
{{فلسطین}}
[[زمرہ:فلسطین]]
[[زمرہ:فلسطین]]

حالیہ نسخہ بمطابق 10:41، 11 نومبر 2025ء

حماس
پارٹی کا نامحماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامی)
بانی پارٹیاحمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی
پارٹی رہنمااسماعیل ہنیہ
مقاصد و مبانی
  • فلسطین کا دفاع

حماس یا اسلامی مزاحمتی تحریک(عربی: حرکۃ المقاومۃ الاسلامی ) فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے ، جس کی بنیاد 1987ء میں شیخ احمد یاسین نے رکھی۔ شہر غزہ میں حماس کے قیام کی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر ہونی والی ایک ریلی میں چالیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔

تاریخ

حماس کی بنیاد 1987ء میں شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور محمد طہ نے اخوان المسلمین کی فلسطینی شاخ کے طور پر پہلیے انتفاضہ کے دوران رکھی تھی۔ اب تک حماس اسرائیلی فوجیوں کے خلاف متعدد فوجی راکٹ حملے کر چکی ہے۔ اس نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ صرف فوجی کارروائیوں تک محدود نہیں رکھا اور متعدد سماجی پروگراموں کو نافذ کرکے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے لوگوں کی زندگیوں میں اپنی مضبوط موجودگی قائم کی ہے۔ ہسپتالوں، تعلیمی مراکز اور لائبریریوں کی تعمیر فلسطینیوں کے ایک اہم حصے میں ان کی مقبولیت کا باعث بنی ہے [1]۔

حماس کے بارے میں مختلف ممالک کی رائے

امریکہ، اسرائیل اور کینیڈا حماس کو دہشت گرد گروپ سمجھتے ہیں۔ آسٹریلیا اور برطانیہ نے صرف حماس کے عسکری شعبہ عزالدین قسام بریگیڈ کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ ان کی سرگرمیاں اردن میں 1999ء سے غیر قانونی قرار دی گئی ہیں۔

اگرچہ 2012ء میں حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ خالد مشعل اور اردن کے شاہ عبداللہ کے درمیان قطر کے ولی عہد کی ثالثی سے ملاقات ہوئی تھی لیکن اردنی حکومت نے حماس کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی [2] ۔

دسمبر 2014 میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے فیصلے کے مطابق حماس کا نام جو پہلے اس یونین کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل تھا، اس فہرست سے نکال دیا گیا تھا، تاہم اس پر عائد پابندیاں نہیں ہٹائی گئیں۔ اس عدالت نے واضح طور پر کہا کہ حماس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنا یورپی معیار کے مطابق نہیں تھا اور سابقہ ​​فیصلے میں عدالت کے موافق شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے تاہم یہ فیصلہ کمزور ذرائع بشمول معلومات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ تاہم، یہ حکم یورپی یونین کے رکن ممالک کو پابند نہیں بناتا ہے، اور برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک اس گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نہیں نکال سکتے۔

سیاسی سرگرمیاں

حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے:

پہلا سماجی امور جیسے کہ اسکولوں ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کے لئے مختص ہے اور دوسرا گروہ اسکی عسکری شاخ، شہید عزالدین القسام بریگیڈ ہے جو فلسطین کا دفاع کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حماس کی ایک شاخ اردن میں بھی ہے جہاں اس کے ایک رہنما خالد مشعل کو اسرائیل نے متعدد مرتبہ قتل کرنےکی کوشش کی۔ شاہ حسین نے تو کسی نہ کسی طرح حماس کو برداشت کیے رکھا البتہ ان کے جانشین شاہ عبداللہ دوم ، جس کی والدہ ایک انگریز عورت ہے، نے حماس کا ہیڈ کوارٹر بند کر دیا۔ اس کے بعد تنظیم کے بڑے رہنما قطر جلا وطن کر دیے گئے۔ اس خطے میں امریکی پشت پناہی سے قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں ہونے والے عمل اوسلو معاہدے کی مخالفت میں حماس پیش پیش تھی۔ اس معاہدے میں فلسطین کی جانب سے اسرائیلی ریاست کے تحفظ کی یقین دہانی کے بعد اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں سے جزوی اور مرحلہ وار انخلاء شامل تھا۔

انیس سو پچانوے میں حماس نے اپنے ایک بم بنانے والے کارکن یحییٰ عیاش کے اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد فروری اور مارچ انیس سو چھیانوے کے دوران بسوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا۔یحییٰ عیاش بنیادی طور پر ایک انجینئر اور عز الدین القسام برگیڈ کی کاروائیوں میں جدت لانے والا گوریلا کمانڈر تھا جس کو اسرائیلی مھندس الموت(موت کا انجینئر)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ان خودکش حملوں کے بعد اسرائیل نے امن کے منصوبے پر عمل درآمد روک دیا اور اس کے بعد اسرائیل کےقدامت پسند رہنما بنیامین نیتن یاہو نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ وہ اوسلو معاہدے کے مخالفین میں سے ایک ہیں۔

اپنی پالیسیوں کی وجہ سے حماس نے 2006 کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی۔2006, 2007ء میں حماس اور الفتح کے درمیان اختلافات کافی شدت اختیار کر گئے۔ اور اس طرح فلسطین میں ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مفاہمت کی کئی کوششیں ہوئیں۔ لیکن ان میں ناکامی ہوئی۔ آخر کار صدر محمود عباس نے جن کا تعلق الفتح سے ہے۔ جون 2007ء میں حماس کی جمہوری حکومت کو توڑ کر اپنی خودساختہ کابینہ اور وزیراعظم کا اعلان کر دیا۔ حماس نے غزہ کی جنگ جیت کر غزہ کی پٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

امریکہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک ہے

حماس کے اعلی رہنما اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ نتن یاہو جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتے ہیں، غزہ سے حماس کے رہنماوں کو بے دخل کرنے کی سوچ احمقانہ ہے۔

فلسطینی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا ہے کہ حماس کے اعلی رہنما اسامہ حمدان نے جنگ کے بعد غزہ کا انتظام اسرائیل کو سپرد کرنے کی تجویز کی سخت مخالفت کی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ غزہ کا انتظام فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہوگا۔

حمدان نے کہا کہ کسی بھی قیمت پر دشمن کی شرائط کے آگے نہیں جھکیں گے۔ غزہ سے حماس کے رہنماوں کو نکالنے کی خواہش رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صہیونی فورسز جنگ کے بعد ایک یرغمالی کو بھی رہا کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی ہے۔ اس سلسلے میں صہیونی حکومت کی کوششیں نقش برآب ثابت ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صہیونی وزیراعظم غزہ میں جنگ بندی کے حق میں نہیں ہیں۔ نتن یاہو جنگ بندی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ القسام کے رہنما کی شہادت کے حوالے سے وائٹ ہاوس کا بیان دلیل ہے کہ امریکہ غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام میں شریک ہے[3]۔


دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی

دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کے بعد تحریک حماس نے ایک بیان جاری کیا ہے۔

تحریک حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کے بعد ایرانی مدافعان حرم کی شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا اور اس بزدلانہ حملے کی مذمت کی۔

پیغام کے متن کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

شہید عزالدین قسام بریگیڈ شام کے دارالحکومت دمشق پر صیہونیوں کی جانب سے بزدلانہ حملے میں سردار ابومہدی محمد رضا زاہدی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر عالم اسلام اور تمام عرب ممالک کی خدمت میں تعزیت کا اظہار کرتی ہے۔

ہم قسام بریگیڈ کے ارکان اس بزدلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے مسلسل کئی سالوں سے غاصب صیہونیوں کے خلاف مزاحمتی محاذ کی تعمیر میں شہید ابو مہدی کے عظیم کردار اور طوفان الاقصیٰ میں ان کے شاندار کردار کو سراہتے ہیں۔

یہ جہاد فتح یا شہادت تک جاری رہے گا۔

شہید عزالدین القسام بریگیڈ

فلسطین

منگل ۲۳ رمضان ۱۴۴۵ ھ [4]۔

جنگ بندی کی پیشکش موصول نہیں ہوئی، حماس کی جانب سے امریکی بیان مسترد

اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے امریکی بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کو ابھی کوئی پیشکش موصول نہیں ہوئی ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس نے امریکی وزیر خارجہ کا بیان مسترد کردیا ہے۔

شہاب نیوز کے مطابق، حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلینکن غزہ میں جاری بحران کا مرکزی کردار ہے جو مسلسل غاصب صہیونی حکومت کی پشت پناہی کررہا ہے۔ تنظیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حماس نے ہمیشہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ میں منظور ہونے والی قرارداد کا خیر مقدم کرنا اس کی واضح دلیل ہے۔ حماس نے کہا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت نے ہمیشہ جنگ بندی کے معاملے پر ہٹ دھرمی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا بیان جھوٹ پر مبنی اور اسرائیل کی حمایت کا تسلسل ہے۔ تنظیم نے کہا ہے کہ ابھی تک اس کو صدر جو بائیڈن کی تجویز کے بارے میں کوئی پیشکش موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس حوالے امریکی وزیر خارجہ کا بیان بے بنیاد ہے [5]۔

حماس کے اسرائیلی اڈوں پر بڑے پیمانے پر نئے میزائل حملے

فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے القسام بریگیڈز نے آپریشن طوفان الاقصیٰ کی پہلی سالگرہ کے موقع پر صہیونی دشمن کے فوجی اڈوں پر بڑے پیمانے پر میزائل حملے کئے ہیں۔ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کی القسام بریگیڈز نے آپریشن طوفان الاقصیٰ کی پہلی سالگرہ کے موقع پر صہیونی دشمن کے ٹھکانوں پر زبردست میزائل حملے کئے ہیں۔

فلسطینی سماء نیوز نے بتایا کہ القسام نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے رجم میزائلوں کے ذریعے رفح کراسنگ کے مشرق میں صیہونی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔ القسام بریگیڈز نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ مزاحمتی فورسز نے 7 اکتوبر 2023 کو سرحدی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے اطراف میں اسرائیلی فوجی اڈوں اور بستیوں کا کنٹرول سنبھال کر بعض فوجی دستوں اور آباد کاروں کو ہلاک کیا جب کہ کئی صیہونیوں کو حراست میں لے لیا.

غزہ میں قتل عام کو ایک سال گزرنے کے بعد بھی اسرائیل ابھی تک اپنے مبینہ دونوں مقاصد یعنی حماس کی تباہی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ تاہم غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک اس پٹی میں اسرائیلی وحشیانہ جارحیت کے باعث تقریباً 42,000 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں [6]۔

یرغمالیوں کی رہائی کے لیے صہیونی جارحیت اور قبضے کا خاتمہ شرط ہے

حماس نے کہا ہے کہ غزہ پر صہیونی قبضے اور جارحیت کے مکمل خاتمے سے پہلے صہیونی یرغمالی رہا نہیں ہوں گے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے کہا ہے کہ حماس کے اعلی رہنما اسامہ حمدان نے صہیونی یرغمالیوں کی رہائی کے سلسلے میں حماس کی جانب سے شرط پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے غزہ پر جارحیت کا خاتمہ اور صہیونی فورسز کا انخلاء شرط ہے۔

انہوں نے کہا کہ مصر اور قطر جنگ بندی اور امن کے قیام کے لیے کوششیں کررہے ہیں تاہم حماس اپنے اصولوں کے مطابق آگے بڑھے گی۔ حماس کے راہنما نے واضح کیا کہ حماس کا وفد جنگ بندی کے بارے میں تجاویز وصول کرنے قاہرہ گیا ہے تاہم یہ حماس کے موقف میں تبدیلی ہرگز نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کی تجاویز لبنان میں امریکی خصوصی نمائندے کی تجاویز سے مختلف نہیں۔ ان تجاویز کا مقصد صہیونی حکومت کے مفادات کا تحفظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی غزہ میں صہیونی فوجی حکام کی سازشوں کو کامیاب ہونے نہیں دیا جائے گا۔ فلسطینی عوام اور مجاہدین مل کر صہیونی ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں گے [7]۔

مقاومتی محاذ نے امام علی (ع) اور امام حسین (ع) سے درس لیا ہے

مقاومتی محاذ نے امام علی (ع) اور امام حسین (ع) سے درس لیا ہے، حماس ایران میں حماس کے نمائندے نے کہا ہے کہ مقاومتی محاذ نے حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام سے سبق لیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران میں حماس کے نمائندے خالد قدومی نے کہا کہ طوفان الاقصی نے تمام سیاسی حکمت عملیوں کو تہ و بالا کردیا اور فلسطینی مقاومت کے لیے نئی راہیں کھول دی ہیں۔

مشہد کی فردوسی یونیورسٹی میں شہداء کے اہل خانہ اور طلباء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقاومت ہی فلسطینیوں کے حقوق کے حصول کا واحد راستہ ہے۔ حماس کے نمائندے نے مزید کہا کہ مقاومتی محاذ نے آج امام حسین علیہ السلام اور حضرت علی علیہ السلام کی شہادت سے متاثر ہوکر طاقت حاصل کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ طوفان الاقصی سے قبل بعض عرب ممالک کی طرف سے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں نے دشمن کی پوزیشن مستحکم کردی تھی لیکن طوفان الاقصی نے سب کچھ بدل کر فلسطین کے لیے ایک نیا مستقبل پیدا کر دیا۔ انہوں نے سید مقاومت شہید حسن نصر اللہ اور دوسرے شہداء کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج فلسطینی اور لبنانی عوام کے حوصلے بلند ہیں اور صہیونی حکومت پر حملوں میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے [8]۔

معاہدے کے بغیر صہیونی یرغمالیوں کی رہائی ناممکن ہے

حماس کے اعلی رہنما نے کہا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لئے صہیونی حکومت کو باقاعدہ معاہدہ کرنا ہوگا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حماس کے اعلی رہنما اسامہ حمدان نے الجزائر کے دارالحکومت میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے مخصوص اصول موجود ہیں، جن پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ ان اصولوں کے مطابق ہی صیہونی یرغمالیوں کو رہائی مل سکتی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ یقینی طور پر صیہونی قیدی زندہ اسی وقت واپس جائیں گے جب قیدیوں کے تبادلے پر معاہدہ ہو گا۔ نتن یاہو اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں غزہ میں صیہونی قیدیوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ وہ ان قیدیوں کو آزاد نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کی موت کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ صیہونی قیدیوں کی رہائی کے نتیجے میں فلسطینی قیدیوں کو بھی آزادی ملے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لیے یہ اہم نہیں کہ صیہونی حکومت کیا چاہتی ہے، ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ جارحیت کا خاتمہ ہو اور صیہونی فوج غزہ کی پٹی سے باہر نکلے۔ ہم اپنے موقف پر قائم ہیں اور غزہ میں جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور تعمیر نو پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

حماس کے سینئر رہنما نے کہا ہے کہ صیہونی وزیر اعظم معاہدے تک پہنچنے کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ وقت ضائع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صیہونی فوج شمالی غزہ میں بھاری نقصان اٹھا چکی ہے اور 80 دن گزرنے کے باوجود شمالی غزہ کے چند کلومیٹر رقبے پر بھی کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ مزاحمت اب بھی پوری طرح صیہونی فوج کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے۔ صیہونی حکومت کے بیانات صرف ان کے داخلی بحران کو کم کرنے کی ایک کوشش ہیں[9]۔</ref>.

ہم امریکہ اور اسرائیل کی دھمکیوں میں نہیں آئیں گے

حماس کے ترجمان نے زور دیا کہ اسرائیل کو قیدیوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد کرنا چاہیے۔ ہم کسی امریکی یا اسرائیلی دھمکی کو قبول نہیں کریں گے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی تحریک حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا ہے کہ قابض فوج نے جنگ بندی معاہدے کی کئی شقوں پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا موقف مکمل طور پر واضح ہے اور ہم کسی امریکی یا اسرائیلی دھمکی کو قبول نہیں کریں گے۔ حازم قاسم نے زور دیا کہ اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد کرنا چاہیے تاکہ قیدیوں کو رہا کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ثالثی کرنے والے ممالک سے رابطے جاری ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل متفقہ انسانی پروٹوکول پر عمل کرے[10]۔

سید حسن نصر اللہ نے اپنی شہادت تک مسئلہ فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت کی

فلسطینی تحریک حماس نے ایک بیان میں کہا کہ سید حسن نصر اللہ نے اپنی شہادت تک مسئلہ فلسطین کی حمایت اور غزہ کے عوام کا دفاع کیا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی تحریک حماس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے شہدائے مقاومت سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین کے سفر آخرتے کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔

حماس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم شہید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین کے یوم وداع کے موقع پر ان کی پاکیزہ روحوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور فلسطین کی حمایت میں ان کے مضبوط مؤقف اور راہ قدس میں شہادت کو یاد کرتے ہیں۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم دو عظیم شہیدوں سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین کو الوداع کہتے ہیں اور ایک بار پھر لبنان کے عوام، عرب قوم، ملت اسلامیہ اور مزاحمت کے لئے اس مصیبت پر صبر و استقامت کی دعا کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس عظیم دن کے موقع پر ہم شہید سید حسن نصر اللہ کے شجاعانہ موقف، مسئلہ فلسطین پر ان کی ثابت قدمی اور غزہ کے عوام پر صیہونی جارحیت اور نسل کشی کے خلاف ایک حمایتی محاذ بنانے پر ان کے اصرار کو یاد کرتے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطین، لبنان اور دنیا میں کہیں بھی مزاحمتی کمانڈروں کے قتل کی صیہونی بزدلانہ کارروائیاں اس مبارک راستے کے تسلسل کو کبھی نہیں روک سکیں گی بلکہ اس سے شہید کمانڈروں کے راستے پر چلنے کے ہمارے جذبے اور ارض فلسطین کو غاصب صیہونیوں کے وجود سے پاک کرنے کے عزم میں اضافہ ہوگا[11]۔

امریکہ نتن یاہو کو کلین چٹ دے کر عالمی دباؤ کم کرنا چاہتا ہے

حماس کے اعلی رہنما نے کہا ہے کہ امریکہ صہیونی وزیر اعظم کے جرائم پر پردہ ڈال کر ان کو دباؤ سے نکالنا چاہتا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے سینئر رہنما اسامہ حمدان نے امریکہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن، اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے جنگی جرائم پر پردہ ڈال کر دراصل اس پر عالمی دباؤ کو کم کرنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار ہفتوں کے دوران اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی تجاویز مسترد کیے جانے پر واشنگٹن کا کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ اس تمام عرصے کے دوران قابض صہیونی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ حمدان نے کہا کہ ہم اس وقت ثالث ممالک کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ جارحیت کو روکا جائے اور بارڈر کھولا جائے۔ ہمارا اصرار ہے کہ ایسا معاہدہ ہو جو ہماری قوم کے خلاف مظالم کے خاتمے کا باعث بنے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر جارحیت جاری رہی تو مزاحمت بھی جاری رہے گی۔ واشنگٹن کو اب بھی ایک غیرجانبدار ثالث نہیں کہا جا سکتا۔ امریکہ اب بھی ایسے پیغامات دے رہا ہے جو ثالثی کے بجائے فریق جنگ کا کردار ادا کرتے ہیں۔

اسامہ حمدان نے کہا کہ ہم نے ایک جامع منصوبہ پیش کیا ہے جو ایک ہمہ گیر معاہدے کا باعث بن سکتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ایک حقیقی اور پائیدار جنگ بندی ہو جو ہماری قوم کو اس المیے سے نکال سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام کو ایک آزاد و خودمختار ریاست کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ نتن یاہو عالمی سطح پر ایک مطلوب شخص ہیں اسی لئے واشنگٹن چاہتا ہے کہ داخلی سطح پر نتن یاہو کو بری الذمہ قرار دے کر انہیں بین الاقوامی سطح پر بھی بچایا جائے[12]۔

غزہ میں جنگ بندی، حماس کی حکمت عملی نے امن منصوبے کا رخ بدل دیا

حماس نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر جذباتی ردعمل دینے کے بجائے دانشمندانہ اور ذمہ دارانہ مؤقف اپنایا، جس میں نہ صرف فلسطینی حقوق کو اجاگر کیا گیا بلکہ سفارتی دباؤ اسرائیل اور امریکہ کی طرف منتقل ہوگیا۔ غزہ کی کشیدہ صورتحال کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک امن منصوبہ پیش کیا، جس کا مبینہ مقصد خطے میں جنگ بندی اور استحکام قائم کرنا ہے۔ تاہم، اس منصوبے میں فلسطینی حقوق، غزہ کی خودمختاری، اور بین الاقوامی قوانین کے کئی اہم پہلوؤں کو نظرانداز کیا گیا تھا۔

اس کے جواب میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے نہایت ہوشمندانہ اور ذمہ دارانہ ردعمل دیا، جس میں اس نے اپنے بنیادی مطالبات پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر منصوبے کی خامیوں کو واضح کیا اور فلسطینی قومی اتحاد اور بین الاقوامی قانونی فریم ورک پر زور دیا۔ اس حکمت عملی نے خطے میں سفارتی صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے اور امن مذاکرات کے مستقبل پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ٹرمپ کے منصوبے پر حماس کے ہوشمندانہ ردعمل کے پس منظر میں، ضروری ہے کہ اس جواب کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے۔

حماس نے بڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ کے خلاف صہیونی دشمن کی نسل کشی کو روکنے کے لیے اپنے بنیادی مطالبات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور منصوبے میں نہایت دانشمندانہ اور محتاط تجاویز شامل کیں۔ اگرچہ کچھ لوگ حماس کے اس ردعمل کو اس منصوبے کی قبولیت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، جو کہ صہیونی حکومت کے مفادات کی ترجمانی کرتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ حماس کے جواب میں ٹرمپ کے منصوبے سے کئی بنیادی اختلافات شامل ہیں۔

ان اختلافات میں سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے منصوبے میں حماس کے ساتھ مذاکرات کی تفصیلات کا کوئی ذکر نہیں، اور جو تفصیلات فراہم کی گئی ہیں وہ ایسے موضوعات پر مبنی ہیں جن میں حماس کی شرکت ضروری نہیں۔ اس کے برعکس، حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ ان معاملات میں شامل ہوگی جو غزہ کے مستقبل اور فلسطینی قوم کے حقوق سے تعلق رکھتے ہیں۔ مزید برآں، حماس ایک قومی آزادی کی تحریک ہے اور ٹرمپ کے منصوبے میں اسے دہشت گرد قرار دینے کی اصطلاح اس تحریک پر صادق نہیں آتی۔

مزید برآں، ٹرمپ کے منصوبے میں غزہ کی بین الاقوامی نگرانی یا حاکمیت کی بات کی گئی ہے، جبکہ حماس اس کے برعکس فلسطینی قومی اتفاق رائے کے تحت ایک آزاد اور خودمختار ادارے کو غزہ کی انتظامیہ سونپنے پر زور دیتی ہے، اور فلسطینیوں کی غزہ کی انتظامیہ میں شمولیت کو لازمی قرار دیتی ہے۔

فلسطینی قومی فریم ورک اور بین الاقوامی قوانین پر زور

غزہ کے مستقبل سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے پر ردعمل دیتے ہوئے حماس نے واضح طور پر عرب و اسلامی دنیا کی حمایت کو ناگزیر قرار دیا۔ منصوبے میں صرف چند عرب ممالک سے مشاورت کی بات کی گئی تھی، جبکہ حماس نے اس سے بڑھ کر عرب و اسلامی تعاون کو غزہ کی تعمیرِ نو اور سیاسی استحکام کے لیے بنیادی شرط قرار دیا۔

تحریک نے فلسطینی حقوق کو ایک جامع قومی مؤقف قرار دیا، جو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے فیصلوں پر مبنی ہے۔ حماس نے مطالبہ کیا کہ تمام امور کو ایک متحد فلسطینی فریم ورک میں دیکھا جائے، جبکہ ٹرمپ منصوبے میں اس پہلو کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔

حماس نے نہایت ہوشمندانہ انداز میں بین الاقوامی قوانین اور فیصلوں کو اپنے مؤقف کی بنیاد بنایا، کیونکہ ٹرمپ منصوبے کی کئی شقیں ان قوانین سے متصادم ہیں۔ اس حکمت عملی سے حماس مستقبل کے مذاکرات میں قانونی بنیاد پر امتیاز حاصل کرسکتی ہے اور عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط بناسکتی ہے۔

حماس کے کردار کو برقرار رکھنے پر تاکید

منصوبے میں حماس کو غزہ سے نکالنے، اس کے ارکان کو جلا وطن کرنے اور تحریک کو غیر مسلح کرنے کی تجاویز شامل تھیں، جنہیں حماس نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے اپنے قومی کردار اور مزاحمتی حق پر زور دیا۔ تحریک نے واضح کیا کہ وہ فلسطینی قومی فریم ورک کے تحت ذمہ دارانہ شرکت جاری رکھے گی۔

فلسطینیوں کے ہتھیاروں پر سمجھوتہ قبول نہیں

اسی طرح فلسطینی مقاومتی تنظیم نے مکمل طور پر غیر مسلح ہونے کی شرط کو بھی رد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ہتھیار مستقبل کی فلسطینی حکومت کے حوالے کیے جائیں گے، یعنی مزاحمت کا حق برقرار رہے گا اور غزہ کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس کا جواب کسی طور پر ٹرمپ منصوبے کی قبولیت نہیں بلکہ ایک سیاسی بصیرت کا مظہر ہے، جس نے تنظیم کو سفارتی میدان میں مضبوط کیا ہے۔ اس وقت امن مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، اور نہ ہی جنگ بندی یا قیدیوں کے تبادلے کے لیے کوئی حتمی تاریخ دی جاسکتی ہے، جیسا کہ ٹرمپ کے دعووں میں ظاہر کیا گیا[13]۔

سوڈان میں خانہ جنگی، عرب امارات کی نظر سونے کی کانوں پر، حماس کی حمایت کا بدلہ لیا جارہا ہے

سوڈانی تجزیہ کار نے ملک میں جاری خانہ جنگی کو مغربی پالیسیوں کا تسلسل، سونے کی کانوں پر قبضے کی کوشش اور حماس کی حمایت کی سزا قرار دیا۔ سوڈان مشرقی افریقہ میں واقع ایک اہم ملک ہے، گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی عدم استحکام اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔ 2019 میں صدر عمر البشیر کی برطرفی کے بعد عوام کو جمہوری تبدیلی کی امید تھی، لیکن طاقت کی کشمکش نے ملک کو مزید انتشار میں دھکیل دیا۔

اپریل 2023 سے سوڈانی فوج اور نیم فوجی گروہ ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ یہ لڑائی دارالحکومت خرطوم سے لے کر دارفور تک پھیل چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اب تک 15 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 86 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں سے تقریباً 20 لاکھ افراد ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان جھڑپوں نے ملک کو انسانی بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ خوراک، پانی اور طبی سہولیات کی شدید قلت ہے، جبکہ کئی علاقے قحط کے دہانے پر ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے اسے دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک قرار دیا ہے، جہاں تین کروڑ سے زیادہ افراد کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔

اس بحران کے پیچھے صرف داخلی طاقت کی کشمکش نہیں بلکہ بیرونی مداخلت بھی کارفرما ہے۔ بعض علاقائی طاقتیں مختلف گروہوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں تاکہ اپنے معاشی مفادات حاصل کرسکیں۔ خاص طور پر سونے کی کانوں اور بحیرہ احمر کے قریب جغرافیائی محلِ وقوع نے سوڈان کو عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم ہدف بنا دیا ہے۔ ممتاز سودانی تجزیہ کار ناصر ابراہیم نے انکشاف کیا ہے کہ سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور بدامنی کے پیچھے بیرونی قوتوں کے معاشی و سیاسی عزائم کارفرما ہیں۔ ان کے مطابق، امارات اور اسرائیل سودان کے اندرونی خلفشار کو ہوا دے کر سونے کی کانوں پر قبضہ اور ملک کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ماہر نے کہا کہ امارات کی جانب سے ریپڈ سپورٹ فورسز کی پشت پناہی اور اسرائیل کی خفیہ سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ دونوں طاقتیں سوڈان کو کمزور کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوڈان کی دولتِ ارضی اور جغرافیائی محلِ وقوع نے اسے عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم ہدف بنا دیا ہے۔

ذیل میں مہر نیوز کے ساتھ ان کی گفتگو کا متن پیش کیا جاتا ہے:

مہر نیوز: فاشر شہر کا سقوط انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی علامت ہے۔ صرف تین دنوں میں 1500 سے زیادہ عام شہری مارے گئے، جن میں زیادہ تر ماسالیت قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ واقعات صرف داخلی مسائل تک محدود نہیں بلکہ بیرونی قوتیں بھی ان میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ براہ کرم بحران کی داخلی جڑوں اور بیرونی کرداروں کے اثرات پر روشنی ڈالیں۔

سوڈان میں قتل عام

ناصر ابراہیم: مختصرا عرض کروں تو جی ہاں، فاشر شہر ریپڈ سپورٹ فورسز کے قبضے میں آگیا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں اور بدقسمتی سے نسلی صفایا جاری ہے۔ وہاں کے لوگ اپنے مذہب، زبان اور رنگِ جلد کی بنیاد پر قتل کیے جارہے ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ (ریپڈ سپورٹ فورسز) عرب امارات کی حمایت سے سرگرم ہے اور کھلے عام قتل عام کر رہا ہے۔ اس میں صیہونی حکومت بھی شریک ہے۔ لیبیا میں حفتر کا گروہ اور وسطی افریقی جمہوریہ میں چاڈ کی حکومت بھی اس گروہ کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ لہذا جو کچھ فاشر میں ہورہا ہے وہ صرف اسی شہر تک محدود نہیں بلکہ سوڈان کے دیگر شہروں میں بھی ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔

بیرونی اور اندرونی دونوں کردار سوڈان کی حالیہ پیش رفت میں یکساں رویہ دکھا رہے ہیں، جس کے باعث صورتحال نہایت سنگین ہوگئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا، سوڈان میں ایک "فریم ورک معاہدہ" موجود تھا جسے ریپڈ سپورٹ فورسز نے فوج پر مسلط کرنے کی کوشش کی، لیکن فوج نے اسے قبول نہیں کیا۔ اسی وجہ سے امارات نے کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے ایک بغاوت کی منصوبہ بندی کی اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کی، مگر فوج نے اس بغاوت کو مسترد کر دیا اور مزاحمت کی۔ یہی وہ نکتہ تھا جس نے خانہ جنگی کو جنم دیا۔

بدقسمتی سے، 2023 سے سوڈان خانہ جنگی میں مبتلا ہے جو ایک انسانی المیہ ہے۔ ریپڈ سپورٹ فورسز عربی نظریہ رکھتی ہیں اور غیر عرب سوڈانیوں کو اقلیت سمجھتی ہیں، انہیں سیاسی یا معاشی حقوق دینے پر تیار نہیں۔ دوسرے لفظوں میں، سوڈان کو عرب بنانے کی اس پالیسی کے نتیجے میں آج یہ حالات پیدا ہوئے ہیں، اور فوج اس پالیسی کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔

سوڈان کی اہمیت مداخلت کرنے والے ممالک کے لیے کیوں بڑھ گئی ہے؟

ناصر ابراہیم: سوڈان کے حالات میں عرب امارات کی مداخلت سب پر واضح اور ثابت ہے۔ بڑی تعداد میں ڈرونز دہشت گردوں کے ہاتھ لگے ہیں، اسی وجہ سے ریپڈ سپورٹ فورسز کو حالیہ جھڑپوں میں برتری حاصل ہے۔ عرب امارات کی جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کی ایک وجہ مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ یہ ملک وہ مشن انجام دے رہا ہے جو مغرب نے اس کے سپرد کیا ہے اور وہ اسے پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری وجہ سوڈان سے نکالے جانے والے سونے کی کانوں پر کنٹرول ہے۔

اس کے علاوہ، اسے سوڈان کو عربی رنگ دینے (عربی‌سازی) کے منصوبے کا تسلسل بھی کہا جاسکتا ہے۔ عرب امارات بظاہر عربوں کے حقوق کا حامی بن کر سامنے آیا ہے، لیکن اس کا نتیجہ نسلی اور آبادیاتی صفایا ہے۔ امارات کا مقصد سوڈان کے تمام وسائل پر قبضہ اور وہاں اپنی طاقت کو مستحکم کرنا ہے۔ یہ صورتحال صرف امارات تک محدود نہیں، بلکہ مغربی طاقتیں اور خاص طور پر صیہونی حکومت بھی ان واقعات کے پیچھے موجود ہیں۔ یہ واقعات صرف سوڈان تک محدود نہیں رہنے چاہییں؛ لیبیا، تیونس، لبنان، عراق اور یمن میں جو کچھ ہوا ہے، اسے دیکھنا سوڈان میں جاری حکمتِ عملی کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ مرکزی حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے ٹکڑوں میں بانٹنے اور اندرونی تفرقہ پیدا کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔

عالمی برادری کی جانب سے سوڈان کے حالیہ واقعات پر ردِعمل کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

ناصر ابراہیم: حال ہی میں سوڈان میں ایک نعرہ عام ہوا ہے: سوڈان کا کوئی دوست نہیں سوائے سوڈان کے۔ اس جملے کے پیچھے یہ حقیقت چھپی ہے کہ کوئی بھی حکومت سوڈان کی حمایت نہیں کررہی۔ عالمی برادری کا ردِعمل زیادہ تر میڈیا تک محدود رہا ہے۔ تاہم، اگر ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ کو ایک دہشت گرد تنظیم کا رہنما تسلیم کر لیا جائے تو یہ سفارتی توازن کو بدل سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں، جو کہ اس کی عالمی سطح پر تنہائی کی صورت میں ہوسکتی ہے۔

لہٰذا، فاشر میں ہونے والا قتل عام غزہ کی صورتحال سے مشابہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سوڈان میں قتلِ عام کے ذمہ داروں کے خلاف ردعمل بھی ویسا ہی ہوگا جیسا کہ غزہ میں قتلِ عام پر بین‌المللی ردِعمل سامنے آیا۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں (NGOs)، خاص طور پر مغرب میں، عرب امارات کی مخالفت کر رہی ہیں اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بین‌الاقوامی سطح پر پابندیوں کی کوششیں شروع ہو رہی ہیں۔ اس لیے یہ بات واضح ہے کہ امارات کا اس میدان میں کوئی مستقبل نہیں اور وہ ایک ناکام کردار ثابت ہوگا۔ بدقسمتی سے جس طرح ایران کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اسی طرح سوڈان کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے ہمارا اور سوڈان کا مقدر ایک جیسا دکھائی دیتا ہے۔

سوڈان کی موجودہ صورتحال اور لڑنے والے گروہوں کو دیکھتے ہوئے بحران کا ممکنہ حل، مستقبل کے امکانات اور متوقع منظرنامے کیا ہوسکتے ہیں؟

ناصر ابراہیم: بیرونی ممالک مرکزی حکومت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور سوڈان میں دو ریاستیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کے ذریعے وہ سوڈان کو کمزور بنا کر اسے خطے کی صورتِ حال سے الگ ایک نحیف اور گوشہ نشین ملک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ سوڈان کبھی حماس کا بنیادی حامی تھا۔

اسی وجہ سے اسے صہیونیوں کی جانب سے سزا دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، امارات سوڈان میں جمہوریت یا انتخابات نہیں چاہتا۔ ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ محمد حمدان دقلو کا خاندان سوڈان پر حکمران کی حیثیت سے اپنی جگہ پکی کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ لہذا، ان کا منصوبہ سوڈان کو ٹکڑوں میں بانٹنا، اسے دو ریاستوں میں تقسیم کرنا اور اسے افراتفری میں دھکیلنا ہے تاکہ سوڈان کمزور ہوکر خانہ جنگی میں گرفتار رہے۔

حل کے بارے میں، میں تاکید کرنا چاہوں گا کہ سفارتی حل ہمیشہ اہم ہوتے ہیں؛ تاہم ہم ان کی توقع نہیں رکھتے، کیونکہ یہ اقدامات عالمی جہت رکھتے ہیں۔ سوڈان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس خطے کے بارے میں مغرب اور امریکہ کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ اس لیے ہدف ملک کی تقسیم، اس کی سماجی کمزوری اور اقتصادی بدحالی ہے۔ یہ عمل سوڈان کو ایک ناکام ریاست میں بدلنے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے[14]۔

حوالہ جات

  1. «Palestinian election raises varying opinions within U. The Minnesota Daily». بایگانی‌شده از اصلی در ۹ ژوئن ۲۰۰۸. دریافت‌شده در ۲۰ ژانویه ۲۰۰۹
  2. خالد مشعل با پادشاه اردن دیدار کرد بی‌بی‌سی فارسی، ۲۹ ژانویه ۲۰۱۲
  3. [ https://ur.mehrnews.com/news/1922872/امریکہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک ہے، حماس].mehrnews.com،-شائع شدہ از:27مارچ 2024ء-اخذ شده به تاریخ:28مارچ 2024ء
  4. حماس نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کی مذمت کیhawzahnews.com،-شا‏ئع شدہ:2اپریل 2024ء-اخذ شدہ:3اپریل 2024ء
  5. جنگ بندی کی پیشکش موصول نہیں ہوئی، حماس کی جانب سے امریکی بیان مسترد-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 13 جون- اخذ شدہ بہ تاریخ: 18 جون 2024ء۔
  6. حماس کے اسرائیلی اڈوں پر بڑے پیمانے پر نئے میزائل حملے -ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 7 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 اکتوبر 2024ء۔
  7. یرغمالیوں کی رہائی کے لیے صہیونی جارحیت اور قبضے کا خاتمہ شرط ہے، حماس-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 25 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 اکتوبر 2024ء۔
  8. مقاومتی محاذ نے امام علی (ع) اور امام حسین (ع) سے درس لیا ہے، حماس- ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 14 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 نومبر 2024ء۔
  9. معاہدے کے بغیر صہیونی یرغمالیوں کی رہائی ناممکن ہے، حماس-شائع شدہ از: 14 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 نومبر 2024ء۔
  10. ہم امریکہ اور اسرائیل کی دھمکیوں میں نہیں آئیں گے، حماس رہنما- شائع شدہ از: 12 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 فروری 2025ء۔
  11. سید حسن نصر اللہ نے اپنی شہادت تک مسئلہ فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت کی، حماس- شائع شدہ از: 23 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 فروری 2025ء۔
  12. امریکہ نتن یاہو کو کلین چٹ دے کر عالمی دباؤ کم کرنا چاہتا ہے، حماس- شائع شدہ از: 1 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 جولائی 2025ء
  13. غزہ میں جنگ بندی، حماس کی حکمت عملی نے امن منصوبے کا رخ بدل دیا- شائع شدہ از: 4 اکتوبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 اکتوبر 2025ء
  14. سوڈان میں خانہ جنگی، عرب امارات کی نظر سونے کی کانوں پر، حماس کی حمایت کا بدلہ لیا جارہا ہے- شائع شدہ از: 11 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11نومبر 2025ء