"بیت المقدس" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
 
(3 صارفین 25 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
'''بیت المقدس'''  یہ شہر عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں متبرک ہے۔ اور شہر کا ذرہ ذرہ مقدس ہے۔ اکثر انبیاء کرام علیہم السلام اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی ارض فلسطین کے فلاح آج بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ اہل اسلام کا قبلہ اول اور حرم کعبہ اور حرم نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے۔ سرور کا‏ئنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کےبعد بھی سترہ ماہ تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ سفر معراج میں یہی شہر ان کی پہلی منزل تھا۔ اسی جگہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا مدفن اور حضرت عیسی علیہ السلام کی مہد اور لحد ہے۔
[[فائل:بیت‌المقدس.jpg|بدون_چوکھٹا|بائیں]]
'''بیت المقدس'''  یہ شہر عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں متبرک ہے۔اس  شہر کا ذرہ ذرہ مقدس ہے۔ اکثر انبیاء کرام علیہم السلام اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی ارض فلسطین کے فلاح آج بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ یہ اہل اسلام کا قبلہ اول اور حرم کعبہ اور حرم نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے۔ سرور کا‏ئنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کےبعد بھی سترہ مہینے  تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ سفر معراج میں یہی شہر ان کی پہلی منزل تھا۔ اسی جگہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا مدفن اور حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے دلادت ہے۔
== وجہ تسمیہ ==
== وجہ تسمیہ ==
شہر بیت المقدس کا پرانا نام ایلیا ہے جس کے معنی ہے خدا کا شہر۔ مشہور شاعر عرب فرزدق اس سلسلے میں رقمطراز ہے خانۂ خدا جو ایک مکہ ہے جہاں ہم لوگ مقیم ہیں اور دوسرا وہ محل ہے جو ایلیا کی بلندیوں پر واقع ہے(بیت المقدس) ایلیاء نام ہے فرزند آدم اہ جو حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔
شہر بیت المقدس کا پرانا نام ایلیا ہے جس کے معنی ہے خدا کا شہر۔ مشہور عرب  شاعر فرزدق اس سلسلے میں رقمطراز ہے خانۂ خدا جو ایک مکہ ہے جہاں ہم لوگ مقیم ہیں اور دوسرا وہ محل ہے جو ایلیا کی بلندیوں پر واقع ہے(بیت المقدس)۔ ایلیاء روم بن سام بن نوح کے بیٹے کا نام تھا۔
مقدس: لغوی اعتبار سے مقدس کے معنی میں ہیں پاک و پاکیزہ اس طرح بیت المقدس کا مطلب ہوا پاک و پاکیزہ گھر یعنی وہ گھر جہاں گناہ اور ناپاکی کا ہرگز نہیں بلکہ وہاں پہنچ کر تو انسان گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ مقدس کے دوسرے معنی مبارک ہوتے ہیں یعنی مبارک گھر <ref>بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں، سازمان تبلیغات اسلامی، 1404ھ، ص4</ref>۔
مقدس: لغوی اعتبار سے مقدس کے معنی ہیں پاک و پاکیزہ اس طرح بیت المقدس کا مطلب ہوا پاک و پاکیزہ گھر یعنی وہ گھر جہاں گناہ اور ناپاکی کا گزر نہیں بلکہ وہاں پہنچ کر تو انسان گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ مقدس کے دوسرے معنی مبارک کے ہیں یعنی مبارک گھر <ref>بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں، سازمان تبلیغات اسلامی، 1404ھ، ص4</ref>۔
== بیت المقدس کی فضیلیتیں ==
== بیت المقدس کی فضیلیتیں ==
بیت المقدس کی بے شمار فصیلتیں ہیں خداوند عالم نے [[قرآن|قرآن مجید]] میں اپنے پیغمبروں او اسی سرزمین کا وعدہ کیا جیساکہ مندرجہ ذیل آیات سے  بخوبی واضح ہے: وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ <ref>انبیاء، 71</ref>۔ یعنی ہم نے انہیں اور لوط پیغمبر کو اسی سر زمین میں نجات دی اسی سرزمین کو عالمین کے لیے بابرکت قرار دیا ہے۔
بیت المقدس کی بے شمار فصیلتیں ہیں خداوند عالم نے [[قرآن|قرآن مجید]] میں اپنے پیغمبروں سے اسی سرزمین کا وعدہ کیا جیساکہ مندرجہ ذیل آیت سے  بخوبی واضح ہے: وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ <ref>انبیاء، 71</ref>۔ یعنی ہم نے انہیں اور لوط پیغمبر کو اسی سر زمین میں نجات دی اسی سرزمین کو عالمین کے لیے بابرکت قرار دیا ہے۔
== محل وقوع ==
== محل وقوع ==
یہ شہر دنیا کی تاریخ میں اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے عجیب ترین ہے اور ڈھلوان پہاڑی پر واقع ہے انہی میں سے ایک ﻣﯿﮟ ﺳﮯ  پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصی اور قبۂ الصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صیہون کےنام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی تھی<ref>محمد حسین مشاہد رضوی، بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ کی تاریخ
یہ شہر دنیا کی تاریخ میں اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے عجیب ترین ہے اور ڈھلوان پہاڑیوں  پر واقع ہے اور  انہی میں سے ایک   پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصی اور قبۃالصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صیہون کےنام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی تھی<ref>محمد حسین مشاہد رضوی، بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ کی تاریخ
</ref>۔
</ref>۔


== تاریخ ==
== تاریخ ==
دنیا کے جن شہروں کی عزت و تکریم ہے ان میں سے ایک شہر یوروشلم ( بیت المقدس ) ہے جو مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں باعث عزت و احترام ہے ۔ یروشلم بمعنی خدائی حکومت ۔ اس کا نام القدس بھی ہے ۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا مزار، تخت دا‎ؤد اور حضرت عیسی علیہ السلام کی تبلیغی کاوشوں کے نشان ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ حضرات انبیاء کرام اور مصلحین کی یادگاروں کے آثار موجود ہیں جنہوں نے بنی نوع انسان کو بھلائی اور نیکی کے راستے دکھائے <ref>محمد اویسی رضوی، بیت المقدس، قطب مدینہ پبلی شرز، 2004ء، ص6</ref>
دنیا کے جن شہروں کو عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان میں سے ایک شہر یروشلم ( بیت المقدس ) ہے جو مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں طور پر  عزت و احترام کا مرکز ہے ۔ یروشلم کےمعنی ہیں  خدائی حکومت ۔ اس کا نام القدس بھی ہے ۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا مزار، تخت دا‎ؤد اور حضرت عیسی علیہ السلام کی تبلیغی کاوشوں کے نشان ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ حضرات انبیاء کرام اور مصلحین کی یادگاروں کے آثار موجود ہیں جنہوں نے بنی نوع انسان کو بھلائی اور نیکی کے راستے دکھائے <ref>محمد اویسی رضوی، بیت المقدس، قطب مدینہ پبلی شرز، 2004ء، ص6</ref>
قدیم تاریخ میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﺍﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﮑﮧ ﺳﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﺁﺳﻤﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ۔ اس شہر کا ذرہ ذرہ مقدس ہے اکثر انبیاء اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی ارض [[فلسطین]] کے فلاح بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے یکسان متبرک ہے <ref>ممتاز لیاقت، تاریخ بیت المقدس، سنگ میل پبلی کیشنزز لاہور، 1972ء، ص21</ref>۔
قدیم تاریخ میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620ء میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریل امین کی راہنمائی میں مکہ سے  بیت المقدس  پہنچے اور پھر یہاں سے معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئۓ۔ اس شہر کا ذرہ ذرہ مقدس ہے ۔اکثر انبیاء اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی ارض [[فلسطین]] کے فلاح آج  بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے یکسان متبرک ہے <ref>ممتاز لیاقت، تاریخ بیت المقدس، سنگ میل پبلی کیشنزز لاہور، 1972ء، ص21</ref>۔


== تعمیر ==
== تعمیر ==
ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻌﻘﻮﺏ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﻭﺣﯽ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ‏( ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ‏) ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﮈﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﺍ۔ ﭘﮭﺮ ﻋﺮﺻﮧ ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ‏( 961 ﻕ ﻡ ‏) ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﺪﯾﺪ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الہی کے مطابق مسجد بیت المقدس ( مسجد اقصی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دارز کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام (961ق۔م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی ۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔
== ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ==
ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ 586 ﻕ ﻡ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﮦ ﺑﺎﺑﻞ ‏( ﻋﺮﺍﻕ ‏) ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﻧﮯ ﻣﺴﻤﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻻﮐﮫ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﺮﺍﻕ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺬﺭ ﮨﻮﺍ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺷﮩﺮ ﮐﻮ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺗﻌﺠﺐ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺷﮩﺮ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﮔﺎ؟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﮭﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﭘﺮ ﺭﻭﻧﻖ ﺷﮩﺮ ﺑﻦ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔


ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ 539 ﻕ ﻡ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﻓﺎﺭﺱ ﺭﻭﺵ ﮐﺒﯿﺮ ‏( ﺳﺎﺋﺮﺱ ﺍﻋﻈﻢ ‏) ﻧﮯ ﺑﺎﺑﻞ ﻓﺘﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ۔ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮨﯿﺮﻭﺩ ﺍﻋﻈﻢ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﺷﮩﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﭘﮭﺮ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮ ﻟﯿﮯ۔ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺭﻭﻣﯽ ﺟﺮﻧﯿﻞ ﭨﺎﺋﭩﺲ ﻧﮯ 70 ﺀ ﻣﯿﮟ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺴﻤﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ۔
== ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس ==
ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کردیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرت عزير علیہ السلام کا وہاں سے گذر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اللہ نے انہیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئۓ تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔
بخت نصر کے بعد 539ء ق م میں شہنشاہ فارس کورش کبیر نے بابل فتح کرکے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کرلیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں کو مسمار کردیا۔


== بیت المقدس میں گرجے کی تعمیر ==
== بیت المقدس میں گرجے کی تعمیر ==
137 ﻕ ﻡ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﯽ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﮨﯿﮉﺭﯾﻦ ﻧﮯ ﺷﻮﺭﯾﺪﮦ ﺳﺮ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﺳﮯ ﺟﻼ ﻭﻃﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺻﺪﯼ ﻋﯿﺴﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﻧﮯﻋﯿﺴﺎﺋﯿﺖ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺟﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﮯ۔
137 ﻕ ﻡ میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کردیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔
 
== بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ==
== بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ==
ﻣﺴﻠﻢ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺟﺐ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﮩﻨﭽﮯ، 2 ﮪ ﺑﻤﻄﺎﺑﻖ 624 ﺀ ﺗﮏ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺗﮭﺎ، ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﺣﮑﻢ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﻌﺒﮧ ‏( ﻣﮑﮧ ‏) ﮐﻮ ﻗﺒﻠﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ 17 ﮪ ﯾﻌﻨﯽ 639 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻋﮩﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺎﮨﺪﮮ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﮐﮯ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﺨﺮﮦ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﭘﺮ ﻗﺒۃ ﺍﻟﺼﺨﺮﮦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
مسلم تاریخ:  جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے، 2ھ بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا۔یہاں تک کہ  حکم الہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۂ الصخرہ بنایا گیا۔
بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ ==
 
1099 ﺀ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻠﯿﺒﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﯾﻮﺭﭘﯽ ﺻﻠﯿﺒﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ 70 ﮨﺰﺍﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ 1187 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﺳﮯ ﭼﮭﮍﺍﯾﺎ۔
== بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ ==
1099 ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔
 
== یہودیوں کا قبضہ ==
== یہودیوں کا قبضہ ==
ﺟﺪﯾﺪ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻗﺒﻀﮧ ﭘﮩﻠﯽ ﺟﻨﮓ ﻋﻈﯿﻢ ﺩﺳﻤﺒﺮ 1917 ﺀ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻋﺎﻡ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ۔ ﯾﮩﻮﺩ ﻭ ﻧﺼﺎﺭﯼٰ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﻧﻮﻣﺒﺮ 1947 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﮐﯽ ﺟﻨﺮﻝ ﺍﺳﻤﺒﻠﯽ ﻧﮯ ﺩﮬﺎﻧﺪﻟﯽ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ 14 ﻣﺌﯽ 1948 ﺀ ﮐﻮ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﻋﺮﺏ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﮍ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﮐﮯ 78 ﻓﯿﺼﺪ ﺭﻗﺒﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ، ﺗﺎﮨﻢ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ‏( ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ‏) ﺍﻭﺭ ﻏﺮﺏ ﺍﺭﺩﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﺍﺭﺩﻥ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﺌﮯ۔ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻋﺮﺏ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺟﻨﮓ ‏( ﺟﻮﻥ 1967 ﺀ ‏) ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﻘﯿﮧ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﺴﻠﻂ ﺟﻤﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﯾﻮﮞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺍﻭﻝ ﮨﻨﻮﺯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻘﻮﻝ 70 ﺀ ﮐﯽ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺳﮯ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺣﺼﮧ ﺑﭽﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺯﺍﺋﺮﯾﻦ ﺁ ﮐﺮ ﺭﻭﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯﺍﺳﮯ ” ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮔﺮﯾﮧ ” ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﻮ ﮔﺮﺍ ﮐﻮ ﮨﯿﮑﻞ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﻨﺼﻮﺑﮯ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ۔
پہلی جنگ عظیم دشمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود اور نصاری کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین  کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب- اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70 ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے  دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصی کو گرا کر ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دار الحکومت بھی بنا رکھا ہے۔
== ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽ ==
ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺍﻭﻝ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﻣﻘﺪﺱ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ۔ ﻣﻘﺎﻣﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﺍﻻﻗﺼﯽٰ ﯾﺎ ﺍﻟﺤﺮﻡ ﺍﻟﻘﺪﺳﯽ ﺍﻟﺸﺮﯾﻒ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﺎ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ 5 ﮨﺰﺍﺭ ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﻨﺠﺎﺋﺶ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ 2000 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻻﻗﺼﯽٰ ﺍﻧﺘﻔﺎﺿﮧ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﻣﻤﻨﻮﻉ ﮨﮯ –
== معراج ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ==
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﻔﺮ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﺣﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﺎﺕ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠۂ ﺍﻭﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﻓﺮﺿﯿﺖ 16 ﺳﮯ 17 ﻣﺎﮦ ﺗﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﺥ ﮐﺮﮐﮯ ﮨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﭘﮭﺮ ﺗﺤﻮﯾﻞ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
== ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ==
ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮕﯽ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺻﺨﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍﻕ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻤﺮﺍﮨﯿﻮﮞ ﺳﻤﯿﺖ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮩﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﻼﺋﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﺎﻣﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ۔ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﺑﻦ ﻣﺮﻭﺍﻥ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻭﻟﯿﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺰﺋﯿﻦ ﻭ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﮐﯽ۔ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺮﺍﺋﯽ۔ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻠﯿﺒﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺭﺩ ﻭ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺌﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻌﺒﺪ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺎ، ﻧﯿﺰ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﺩﯾﮕﺮ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﺑﻄﻮﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺎﺝ ﮐﯽ ﮐﻮﭨﮭﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺮﺟﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ 1187 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﺢ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﻮ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺸﺎﻧﺎﺕ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ۔


ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽ ﺍﺱ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻣﺼﻠﯽ ﯾﻌﻨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﻮ ﺟﺴﮯ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮔﻠﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻗﺼﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﻋﻤﺮﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﻤﺎﺯﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ۔ “
== معراج حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ==
== ﺳﺎﻧﺤﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ==  
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت  کے بعدسے 16 سے 17 مہینوں تک مسلمان مسجد اقصی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔
ﺳﺎﻧﺤﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ 21 ﺍﮔﺴﺖ 1969 ﺀ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﺳﭩﺮﯾﻠﻮﯼ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮈﯾﻨﺲ ﻣﺎﺋﯿﮑﻞ ﺭﻭﺣﺎﻥ ﻧﮯ ﻗﺒﻠۂ ﺍﻭﻝ ﮐﻮ ﺁﮒ ﻟﮕﺎﺩﯼ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﺗﯿﻦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺁﮒ ﮐﯽ ﻟﭙﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﺏ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻋﯿﻦ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺎ ﺑﮍﺍ ﺣﺼﮧ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻣﻨﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﺬﺭ ﺁﺗﺶ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺟﺴﮯ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ ﻓﺘﺢ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﺼﺐ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ۔ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻧﮯ ﻗﺒﻠﮧ ﺍﻭﻝ ﮐﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ 16 ﺟﻨﮕﯿﮟ ﻟﮍﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﻨﺒﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﻓﺘﺢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﺼﺐ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔


ﺍﺱ ﺍﻟﻤﻨﺎﮎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻮﺍﺏ ﻏﻔﻠﺖ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﻣﻮﺗﻤﺮ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻣﯽ ‏( ﺍﻭ ﺁﺋﯽ ﺳﯽ ‏) ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﺩﯼ۔ ﺗﺎﮨﻢ 1973 ﺀ ﻣﯿﮟ [[پاکستان|ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ]] ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﺟﻼﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮯ 56 ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﻏﯿﺮ ﻓﻌﺎﻝ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔
== مسلم تعمیرات ==
مسلم تعمیرات جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔
یہی مسجد بعد میں مسجد اقصی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کے سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصی میں تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187 ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصیٰ کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو  جسے  خلیفہ دوم عمر ابن خطاب  نے  اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں۔ اس جگہ  جسے عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا، نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
 
== سانحہ بیت المقدس ==
سانحہ بیت المقدس 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصی تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود  منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح  بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ صلاح الدین نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کرسکے۔
اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لیے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ہفتے کے بعد اسلامی ممالک نے مؤتمر عالم اسلامی ( او آئی سی ) قائم کر دی۔ تاہم 1973ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہو گئی۔ یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سجمھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہی تعمیر تھا۔


ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﺩﮦ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺎﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﮔﺮﺍﮐﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﺬﺭﯾﻌﮧ ﺩﻟﯿﻞ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﮯ ﮐﮧ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﯾﮩﯿﮟ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺗﮭﺎ –
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
 
{{فلسطین}}
[[زمرہ: اسلامی ادارے]]
[[زمرہ: اسلامی ادارے]]
[[زمرہ:فلسطین]]
[[زمرہ:فلسطین]]

حالیہ نسخہ بمطابق 12:17، 30 دسمبر 2023ء

بیت‌المقدس.jpg

بیت المقدس یہ شہر عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں متبرک ہے۔اس شہر کا ذرہ ذرہ مقدس ہے۔ اکثر انبیاء کرام علیہم السلام اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی ارض فلسطین کے فلاح آج بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ یہ اہل اسلام کا قبلہ اول اور حرم کعبہ اور حرم نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے۔ سرور کا‏ئنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کےبعد بھی سترہ مہینے تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ سفر معراج میں یہی شہر ان کی پہلی منزل تھا۔ اسی جگہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا مدفن اور حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے دلادت ہے۔

وجہ تسمیہ

شہر بیت المقدس کا پرانا نام ایلیا ہے جس کے معنی ہے خدا کا شہر۔ مشہور عرب شاعر فرزدق اس سلسلے میں رقمطراز ہے خانۂ خدا جو ایک مکہ ہے جہاں ہم لوگ مقیم ہیں اور دوسرا وہ محل ہے جو ایلیا کی بلندیوں پر واقع ہے(بیت المقدس)۔ ایلیاء روم بن سام بن نوح کے بیٹے کا نام تھا۔ مقدس: لغوی اعتبار سے مقدس کے معنی ہیں پاک و پاکیزہ اس طرح بیت المقدس کا مطلب ہوا پاک و پاکیزہ گھر یعنی وہ گھر جہاں گناہ اور ناپاکی کا گزر نہیں بلکہ وہاں پہنچ کر تو انسان گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ مقدس کے دوسرے معنی مبارک کے ہیں یعنی مبارک گھر [1]۔

بیت المقدس کی فضیلیتیں

بیت المقدس کی بے شمار فصیلتیں ہیں خداوند عالم نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبروں سے اسی سرزمین کا وعدہ کیا جیساکہ مندرجہ ذیل آیت سے بخوبی واضح ہے: وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ [2]۔ یعنی ہم نے انہیں اور لوط پیغمبر کو اسی سر زمین میں نجات دی اسی سرزمین کو عالمین کے لیے بابرکت قرار دیا ہے۔

محل وقوع

یہ شہر دنیا کی تاریخ میں اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے عجیب ترین ہے اور ڈھلوان پہاڑیوں پر واقع ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصی اور قبۃالصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صیہون کےنام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی تھی[3]۔

تاریخ

دنیا کے جن شہروں کو عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان میں سے ایک شہر یروشلم ( بیت المقدس ) ہے جو مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں طور پر عزت و احترام کا مرکز ہے ۔ یروشلم کےمعنی ہیں خدائی حکومت ۔ اس کا نام القدس بھی ہے ۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا مزار، تخت دا‎ؤد اور حضرت عیسی علیہ السلام کی تبلیغی کاوشوں کے نشان ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ حضرات انبیاء کرام اور مصلحین کی یادگاروں کے آثار موجود ہیں جنہوں نے بنی نوع انسان کو بھلائی اور نیکی کے راستے دکھائے [4] قدیم تاریخ میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620ء میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریل امین کی راہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھر یہاں سے معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئۓ۔ اس شہر کا ذرہ ذرہ مقدس ہے ۔اکثر انبیاء اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی ارض فلسطین کے فلاح آج بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے یکسان متبرک ہے [5]۔

تعمیر

حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الہی کے مطابق مسجد بیت المقدس ( مسجد اقصی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دارز کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام (961ق۔م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی ۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔

ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس

ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کردیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرت عزير علیہ السلام کا وہاں سے گذر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اللہ نے انہیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئۓ تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔ بخت نصر کے بعد 539ء ق م میں شہنشاہ فارس کورش کبیر نے بابل فتح کرکے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کرلیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں کو مسمار کردیا۔

بیت المقدس میں گرجے کی تعمیر

137 ﻕ ﻡ میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کردیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول

مسلم تاریخ: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے، 2ھ بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا۔یہاں تک کہ حکم الہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۂ الصخرہ بنایا گیا۔

بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ

1099 ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔

یہودیوں کا قبضہ

پہلی جنگ عظیم دشمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود اور نصاری کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب- اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70 ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصی کو گرا کر ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دار الحکومت بھی بنا رکھا ہے۔

معراج حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت کے بعدسے 16 سے 17 مہینوں تک مسلمان مسجد اقصی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔

مسلم تعمیرات

مسلم تعمیرات جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کے سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصی میں تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187 ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصیٰ کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے خلیفہ دوم عمر ابن خطاب نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں۔ اس جگہ جسے عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا، نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔

سانحہ بیت المقدس

سانحہ بیت المقدس 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصی تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ صلاح الدین نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کرسکے۔ اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لیے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ہفتے کے بعد اسلامی ممالک نے مؤتمر عالم اسلامی ( او آئی سی ) قائم کر دی۔ تاہم 1973ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہو گئی۔ یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سجمھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہی تعمیر تھا۔

حوالہ جات

  1. بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں، سازمان تبلیغات اسلامی، 1404ھ، ص4
  2. انبیاء، 71
  3. محمد حسین مشاہد رضوی، بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ کی تاریخ
  4. محمد اویسی رضوی، بیت المقدس، قطب مدینہ پبلی شرز، 2004ء، ص6
  5. ممتاز لیاقت، تاریخ بیت المقدس، سنگ میل پبلی کیشنزز لاہور، 1972ء، ص21