"مقاومتی بلاک" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م (Saeedi نے صفحہ مسودہ:محور مزاحمت کو مقاومتی بلاک کی جانب منتقل کیا)
 
(ایک ہی صارف کا 19 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
[[فائل:مقاومت حزب الله.jpg|بدون_چوکھٹا|بائیں]]
[[فائل:مقاومت حزب الله.jpg|بدون_چوکھٹا|بائیں]]
'''محور مزاحمت''' مِحوَر مُقاوِمَت یا جِبههٔ مقاومت ایک عنوان ہے جس میں بنیادی طور پر [[شیعہ|شیعہ مذہب]] کے ممالک اور طاقتوں کے درمیان غیر تحریری علاقائی اتحاد  کی طرف اشارہ ہے، جیسے [[ ایران|اسلامی جمہوریہ ایران]]، [[شام]]، [[عراق]] اور [[لبنان]] کی [[حزب اللہ لبنان]] صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کا بنیادی مقصد مشرق وسطیٰ کے علاقے میں مغرب کے تسلط کا خاتمہ اور [[فلسطین]] کی آزادی کا دفاع ہے۔ مزاحمت کے محور کا مجموعہ پہلی بار اس وقت ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر جارج بش اور ان کے نائب صدر جان بولٹن کے ان الفاظ کے جواب میں استعمال کیا گیا تھا کہ فروری 1380ء میں حکومتوں نے ایران عراق، شمالی کوریا، لیبیا، شام اور کیوبا کو برائی کا محور کہا گیا۔ اس کے بعد، مختلف شخصیات بشمول [[سید علی خامنہ ای|سید علی خامنہ ای، رہبر انقلاب اسلامی ایران]] اور [[سید حسن نصر اللہ]] حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل اور سے دوسرے سیاسی اور مذہبی لوگوں نے اپنے الفاظ میں یہ جملہ استعمال کیا۔
''' مقاومتی بلاک''' مِحوَر مُقاوِمَت یا جِبههٔ مقاومت(فارسی)، محور المقاومة (عربی)، Axis of Resistance(انگلش) ایک عنوان ہے جس میں بنیادی طور پر [[شیعہ|شیعہ مذہب]] کے ممالک اور طاقتوں کے درمیان غیر تحریری علاقائی اتحاد  کی طرف اشارہ ہے، جیسے [[ ایران|اسلامی جمہوریہ ایران]]، [[شام]]، [[عراق]] اور [[لبنان]] کی [[حزب اللہ لبنان]] صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کا بنیادی مقصد مشرق وسطیٰ کے علاقے میں مغرب کے تسلط کا خاتمہ اور [[فلسطین]] کی آزادی کا دفاع ہے۔ مزاحمت کے محور کا مجموعہ پہلی بار اس وقت ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر جارج بش اور ان کے نائب صدر جان بولٹن کے ان الفاظ کے جواب میں استعمال کیا گیا تھا کہ فروری 1380ء کو اس نے ایران عراق، شمالی کوریا، لیبیا، شام اور کیوبا کو برائی کا محور کہا گیا۔ اس کے بعد، مختلف شخصیات بشمول [[سید علی خامنہ ای|سید علی خامنہ ای، رہبر انقلاب اسلامی ایران]] اور [[سید حسن نصر اللہ]] حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل اور دوسرے سیاسی اور مذہبی لوگوں نے اپنے الفاظ میں یہ جملہ استعمال کیا۔
== مفہوم شناسی ==
محور مقاومت یا مزاحمتی محاذ سے مراد چند ممالک کا مجموعہ اور اسی طرح [[مسلمان|مسلم]] اور شیعہ عسکری گروہوں کو کہا جاتا ہے جن کا مقصد مشرق وسطیٰ کے خطے میں مغربی تسلط کا خاتمہ، <ref>محمدی‌سیرت، «الگوی نمایش نقش امنیت‌آفرین شهیدان محور مقاومت در رسانه ملی» ص63</ref>۔ [[اسرائیل]] کے خلاف جنگ اور فلسطین کی آزادی کا دفاع کرنا ہے
 
عالمی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کے بارے میں انقلاب اسلامی ایران کے منشور  سے متاثر ہو کر مزاحمت کے محور کی تشکیل کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
 
ایران، شام اور عراق کی حکومتیں، لبنان کی حزب اللہ، فلسطین میں اسلامی جہاد اور [[حماس]] کے ساتھ ساتھ [[یمن]] کے [[انصار اللہ]] گروپ کو مزاحمت کا محور سمجھا جات ہے۔ سید حسن نصر اللہ کے نزدیک، سید علی خامنہ ای مزاحمتی محور کا رہبر اور اسلامی جمہوریہ ایران، مزاحمتی محور کا قلب اور بنیاد ہے۔
== مزاحمتی محور اصلاح میں ==
مزاحمت کے محور کا ترکیب 1380ء (29 جنوری 2002ء) کو  امریکہ کے صدر جارج بش کے بعد پہلی بار استعمال کیا گیا، جس نے ایران، عراق اور شمالی کوریا کے ممالک کو برائی کا محور قرار دیا، اور اس وقت امریکہ کے نائب وزیر خارجہ جان بولٹن نے اس فہرست میں لیبیا اور کیوبا کو شامل کیا تھا، جس کے جواب میں لیبیا کے جریدے الزحف الاخضر نے ان ممالک کو برائی کا محور نہیں بلکہ مزاحمت کا محور نام رکھا، جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے خلاف ہیں۔
 
اس کے بعد فلسطینی وزیر داخلہ سعید سعیم نے العالم ٹی وی کے ساتھ گفتگو میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جنگ میں مشترکہ سیاسی اہداف کی طرف اشارہ کرنے کے لیے محور مقاومت کا لفظ استعمال کیا اور اس بات پر تاکید کی کہ سوریہ، ایران، حزب اللہ لبنان، حماس اور فلسطین نے مل کر محور مقاومت تشکیل دی ہے تاکہ  اسرائیل اور امریکہ کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رہ سکیں۔
 
نیز، ایران کے سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی نے اگست 2009ء میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے سلسلے میں ایران، شام، لبنان کی حزب اللہ، عراق کی نئی حکومت اور حماس کو شامل کرنے پر غور کیا۔ ان کے مطابق چونکہ یہ سلسلہ شام سے گزرتا ہے، اس لیے مذکورہ ملک نے شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اس وقت کے سیکریٹری سعید جلیلی کی ملاقات کے دوران اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے سلسلے میں سنہری کردار ادا کیا تھا۔ مزاحمت کے محور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے اگست 1372ش میں پہلی بار لبنان کی حزب اللہ تحریک کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے بارے میں بات کی اور اس پر غور کیا۔ اسرائیل کی جارحیت کا نتیجہ ہے کہ لبنان کے خلاف اس کی جارحیت سے نہ صرف مطلوبہ سیاسی اور عسکری اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں بلکہ یہ عوام کی یکجہتی اور اتحاد کا سبب بنی ہے <ref>[https://farsi.khamenei.ir/news-content?id=9122 دیدار دبیر کل‌ جنبش‌ حزب‌الله‌ لبنان‌ با رهبر انقلاب](حزب اللہ لبنان کے سیکٹری جنرل کی رہبر انقلاب سے ملاقات)-farsi.khamenei.ir/news(فارسی زبان)- شائع شدہ از: 23 جولائی 1993ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔
</ref>۔
== مزاحمتی محاذ کی شکیل کا جواز ==
اگر ہم  [[طوفان  الاقصی]] کے بعد غزہ میں پیش آنے والے واقعات کو ایک اور زاویے سے دیکھیں تو اس حادثہ  نے مزاحمتی محاذ کی تشکیل کا جواز ظاہر کیا۔ کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ مغربی ایشیا میں اس مزاحمتی محاذ کی کیا ضرورت تھی؟ اب سب پر واضح ہو کیا کہ اس خطے میں مزاحمتی محاذ کی موجودگی سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ اس مزاحمتی محاذ کو دن بدن مضبوط کیا جانا چاہے۔
 
اس خطے میں بیدار ضمیر رکھنے والے لوگ جب صیہونیوں کے ظلم و ستم کو دیکھتے ہیں - جو ستر سال سے جاری ہے - خاموش نہیں بیٹھنا چاہے۔ مزاحمت کے لیے سوچنا فطری بات ہے۔ مزاحمتی محاذ کی تشکیل اس کے لیے ہے۔ فلسطینی قوم اور فلسطین کے حامیوں کے خلاف صیہونی مجرموں کے اس جاری ظلم کا سامنا کرنا ہے <ref>[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=55731 سخنرانی نوروزی در جمع اقشار مختلف مردم](نوروز کے دن عوام سے خطاب)-farsi.khamenei.ir(فارسی زبان)-شائع شدہ از: 1 مارچ 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔</ref>۔
 
== تاریخی پس منظر ==
اسرائیل سے 6 روزہ جنگ سے لے کر، داعش کے خلاف جنگ، محور مزاحمت کا مفہوم گزشتہ چند دہائیوں کے تاریخی واقعات کے تناظر میں تشکیل دیا گیا ہے اور اس کی تاریخی پس منظر ،اسرائیل اور داعش سے مقابلہ اور شام میں امریکہ کی موجودگی کے تناظر میں دیکھی جا سکتی ہے۔
=== حماس ===
اسرائیل کا غاصبانہ تشخص اور 1948ء میں قائم کی گئی سرحدوں کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے فلسطینیوں بشمول اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کا ہمیشہ اسرائیل کے بارے میں مخالفانہ نظریہ ہے اور اس کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
=== حزب اللہ ===
[[غزہ]] میں 22 روزہ جنگ، جو جنوری 2007ء میں ہوئی تھی، اسلامی مزاحمتی قوتوں کی طرف سے اسرائیل کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی ایک مثال ہے۔ مزید برآں، لبنان کی سیاسی عسکری تنظیم حزب اللہ، جو ایک شیعہ تنطیم ہے، جون 1379ء میں جنوبی لبنان کے علاقوں پر اسرائیل کے 18 سالہ فوجی تسلط کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان 33 روزہ جنگ جاری رہی جو جولائی 2005ء کے آخر سے اسی سال اگست کے آخر تک جاری رہی۔
 
=== شام ===
[[شام]] اور اسرائیل کے درمیان معاندانہ تعلقات بھی قائم ہیں اور یہ دسمبر 1345 میں چھ روزہ جنگ کے بعد سے شروع ہوا ہے، جس کے دوران اسرائیل نے شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا جسے گولان کی پہاڑیوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شام اور اسرائیل کے تعلقات ایرانی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اور خاص طور پر شام میں بشار الاسد کی صدارت کے بعد مزید دشمنی کا شکار ہو گئے اور ایران، شام، فلسطینی جہادی قوتوں کے درمیان قریبی اتحاد کی تشکیل کا باعث بنے۔۔
 
=== شام اور عراق ===
سلفی اسلامی  تنظیم داعش کے ہاتھوں شام اور عراق کے ممالک کے اہم حصوں پر قبضے نے ایک بار پھر مزاحمت کا محور متعلقہ ممالک کے فوجی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی خطرات کے خلاف لڑنے کے لیے ایک اتحاد بنا دیا۔ چنانچہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے عراق اور شام میں اپنی فوجی اور مشاورتی موجودگی کے ساتھ داعش کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے اپنی کوششیں شروع کر دیں۔
 
حضرت زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کے مزار سمیت عراق اور شام میں مقدس مقامات کی حفاظت ایران کی موجودگی کے دیگر مقاصد میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ داعش کے خلاف شام اور عراق کی حکومت کی حمایت میں روس اور چین سے مشاورت بھی مزاحمتی محور کی کوششوں کا ایک اور حصہ رہی ہے۔
 
== مزاحمتی گروہ اور ممالک ==
ایران اور شام کے ممالک نیز حزب اللہ  کو مزاحمتی محور کے ستون کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو اس کا رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ مزاحمتی محور کے درمیان تعاون کی عروج 2000ء میں بشار الاسد کی صدارت اور پھر 2006ء میں جنوبی لبنان پر اسرائیل کے حملے اور 2008ء میں غزہ پر حملے کے بعد ہوئی اور غزہ، محور کی مقبولیت کا باعث بنا۔
 
[[مسلمان|مسلمانوں]] میں مزاحمت فلسطین اور عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہ حماس کو مشترکہ تاریخی اور ثقافتی عناصر کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف مشترکہ خطرات کی وجہ سے مزاحمت کے محور کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
 
ایک لفظ میں، مزاحمتی محاذ کے رکن گروپوں میں شامل ہیں:
* لبنان کی حزب اللہ
* یمن کی [[انصار اللہ]]
* [[افغانستان]] کی فاطمیون بریگیڈ
* آذربائیجان کی حسینیون بریگیڈ
* لشکر زینبیون [[پاکستان]]
* عالمی مزاحمتی محاذ
* عراق کی حشد الشعبی
* شام کی قومی دفاعی افواج،
* حماس اور فلسطین
* اسلامی جمہوریہ ایران کے [[سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی]]
 
== محور مقاومت کا پھیلاٶ ==
اسرائیل کے خلاف مقاومتی محور کے داٸرے میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور کئی ایسے نئے گروہ وجود میں آچکے ہیں، جنہوں نے غاصب حکومت کے خلاف نئے محاذ کھول دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں بحرین کے ایک جہادی گروہ ”سرایا الاشتر“ کا نام بین الاقوامی ذراٸع ابلاغ میں گونج رہا ہے۔ ”سرایا الاشتر“ نے گذشتہ ہفتے کو اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس نے مقبوضہ فلسطین کے شہر ”ام الرشراش“ میں ایک اہم صیہونی مرکز پر ڈرون حملہ کیا ہے۔
 
اس گروہ نے اس سے قبل گذشتہ منگل کو بھی اپنی پہلی کاررواٸی میں مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع شہر ایلات میں ذراٸع نقل و حمل سے متعلق ایک کمپنی Tracknet کو اپنے ڈرون حملے سے نشانہ بنایا تھا، جس نے علاقاٸی اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا۔
'سرایا الاشتر' مزاحمتی گروپ کیا ہے اور اسے کب تشکیل دیا گیا؟ اس گروہ کا قیام 2011ء میں بحرین میں ہونے والے عوامی احتجاج کو دبانے کے بعد 2012ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔
 
یہ گروہ بحرین میں آل خلیفہ حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی اور مسلح کاررواٸیاں کرتا ہے۔ بحرین کی حکومت کے قریبی ذراٸع اور مغربی میڈیا کے دعووں کے مطابق آل خلیفہ کی حکومت کے مخالفین کی ایک بڑی تعداد نے حکومتی جبر سے بچنے کے لیے ایران میں سکونت اختیار کی اور پھر یہ مزاحمتی گروپ تشکیل دیا۔
 
اس محور مزاحمت کے مخالف میڈیا کے بقول اس گروہ کی قیادت احمد یوسف سرحان (جسے ابو منتظر کے نام سے جانا جاتا ہے) اور جاسم احمد عبداللہ (جو ذوالفقار کے نام سے مشہور ہے) کر رہے ہیں۔ یہ دو بحرینی شہری ہیں، جو فرار ہو کر کئی سالوں سے ایران میں مقیم ہیں، ان کے حوالے سے مغربی اور بحرینی میڈیا نے ابھی تک قابل اعتماد دستاویزات شاٸع نہیں کی ہیں۔ سرایا الاشتر کو 2014ء میں متحدہ عرب امارات، کینیڈا، مصر، سعودی عرب اور کویت نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا جبکہ امریکہ نے 2018ء میں اس گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا۔
 
مبصرین کے مطابق سرایا الاشتر کی جانب سے کی گئی حالیہ کاررواٸیاں ان کے دوستوں اور دشمنوں کے لیے مختلف نوعیت کے پیغامات لیے ہوئے ہیں، جن کا مختلف زاویوں سے جاٸزہ لیا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ محور مزاحمت بتدریج غاصب صیہونی حکومت پر دباٶ بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ یقیناً آنے والے عرصے میں دنیا علاقے میں براٸی کے محور کے خلاف محور مقاومت کی دیگر صلاحیتوں کے فعال ہونے کا مشاہدہ کرے گی<ref>[http://ur.imam-khomeini.ir/ur/n52273/%D9%85%D8%AD%D9%88%D8%B1-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D9%BE%DA%BE%DB%8C%D9%84%D8%A7%D9%B6 محور مقاومت کا پھیلاٶ]-شائع شدہ از: 5جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 اکتوبر 2024ء۔</ref>۔
== اسرائیل مزاحمتی گروہوں کو ختم نہیں کرسکتا ==
سید علی خامنہ ای  نے فرمایا کہ صیہونی رجیم کو شکست ہوئی ہے لیکن اس سے بڑی شکست مغربی ثقافت، تہذیب اور سیاست دانوں کو ہوئی ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صوبہ فارس کے شہداء کی کانگریس کے منتظمین سے ملاقات میں علاقے کے واقعات اور مزاحمت کی جدوجہد کو خطے کی تقدیر اور تاریخ میں تبدیلی کا عنصر قرار دیا۔
 
انہوں نے صیہونی رجیم کے ہاتھوں 50,000 سے زائد بے گناہ افراد کے قتل عام کے باوجود مزاحمت کو تباہ کرنے میں رجیم کی رسواکن شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مغربی ثقافت، تہذیب اور سیاست دانوں کی ہزیمت کو اس سے بھی بڑی شکست قرار دیا اور کہا کہ محور مقاومت کی محور شرارت کے مقابلے میں محاذ آرائی میں فتح مزاحمت کی ہی ہے۔
 
آیت اللہ خامنہ ای نے خطے کے موجودہ مسائل اور [[غزہ]]، لبنان اور [[مغربی کنارہ|مغربی کنارے]] کے واقعات کو تاریخ ساز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر [[یحیی سنوار|شہید سنوار]] جیسے لوگ نہ ہوتے جو آخری دم تک لڑتے، یا شہید سید حسن نصر اللہ جیسے عظیم لوگ نہ ہوتے کہ جنہوں نے جہاد، حکمت، جرأت اور قربانی کو یکجا کرکے میدان میں اتارا تو اس خطے کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔
 
رہبر معظم انقلاب نے خطے میں رونما ہونے والے واقعات کے موجودہ نتائج کو نہ صرف صیہونی حکومت بلکہ مغرب کی تہذیب و ثقافت کی بھی بڑی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کا خیال تھا کہ وہ مزاحمتی گروہوں کو آسانی سے تباہ کر سکتے ہیں، لیکن آج 50 ہزار سے زائد نہتے شہریوں اور مزاحمت کے کئی سرکردہ رہنمائوں کی شہادت اور امریکہ کی بھاری حمایت کے باوجود انہیں دنیا میں نفرت کے سوا کچھ نہیں ملا۔
 
یہاں تک کہ امریکی یونیورسٹیوں میں بھی ان مجرموں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے، جب کہ مزاحمتی محاذ، حماس، اسلامی جہاد، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے نوجوان  مجاہدین اسی عزم اور طاقت کے ساتھ لڑ رہے ہیں، جو کہ صیہونی حکومت کی بہت بڑی شکست ہے۔
انہوں نے اسے مغربی ثقافت اور تہذیب کی بھی سب سے بڑی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو ٹن وزنی بموں اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے 10 ہزار معصوم بچوں کا قتل عام مغربی جھوٹے سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی رسوائی کا باعث بنا اور مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن اور نفاق دنیا پر آشکا ہوا جو کہ ان کی سب سے بڑی شکست ہے۔
 
انہوں نے صیہونی رجیم کے حامی محاذ کو محور شرارت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس محور شرارت کے مقابلے محور مقاومت کھڑا ہے اور خدا کے فضل سے فتح مزاحمت کے محاذ کی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں صوبہ فارس کو دین، حماسہ اور فن کے امتزاج کا بہترین مظہر قرار دیا اور اس سرزمین کے ماضی سے لے کر آج تک کے ممتاز شہداء بشمول شہیدہ معصومہ کرباسی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: صوبہ فارس کے شہداء کی کانگریس کو حماسہ، فن اور دین کے خوبصورت امتزاج کو برقرار رکھنا چاہیے۔
 
سید علی خامنہ ای  نے پہلوی دور میں شیراز اور فارس کو غیر دینی بنانے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو اس دور میں خیال کرتے تھے کہ وہ ہنر شیراز جیسے گھناونے اقدامات کے ذریعے اسے اہل بیت کے حرم اور مرکز دین و ایمان سے مرکز فساد میں بدل سکتے ہیں، وہ سخت غلطی پر تھے،
بلاشبہ آج بھی ہمارے وطن عزیز میں ان کے کچھ گماشتے اور باقیات ہیں جو فن کو روحانیت اور حماسہ سے الگ کرنا چاہتے ہیں لیکن جو چیز ملک و قوم کو ترقی عطا کرتی ہے وہ دین، حماسہ اور فن کا امتزاج ہے <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1927631/%D8%B5%DB%8C%DB%81%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA-%D8%B4%DA%A9%D8%B3%D8%AA-%DA%A9%DA%BE%D8%A7-%DA%86%DA%A9%DB%8C-%DB%81%DB%92-%D8%B1%DB%81%D8%A8%D8%B1-%D9%85%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C صیہونی حکومت شکست کھا چکی ہے، رہبر معظم انقلاب اسلامی]-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 23 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔</ref>۔
== آپ اس وقت مقاومتی بلاک کا حصہ ہیں ==
امریکی طلباء کو "صحیح سمت میں" اور "مقاومتی بلاک کا حصہ" قرار دینا دو بنیادی جملے ہیں جن کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں بحث ہورہی ہے۔
لبنانی خبررساں ادارے العہد نے شہہ سرخی میں لکھا ہے: امام خامنہ ای کا امریکی طلباء کو خطاب: آپ اس وقت مقاومتی بلاک کا حصہ ہیں۔ العہد نے امریکی طلباء کے نام رہبر معظم کے خط کو مکمل شائع کیا۔
 
سید علی خامنہ ای کا جملہ "آپ تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہیں" کو مغربی ذرائع ابلاغ نے خصوصی اہمیت کے ساتھ نشر کیا۔ بعض نے اس کو شہہ سرخی میں جگہ دی۔ چنانچہ نیویارک ٹائمز اور فوکس نیوز نے رہبر کا خط نشر کرتے ہوئے لکھا "آپ اس وقت تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہیں اور آپ نے اس وقت مقاومتی بلاک کا حصہ تشکیل دیا ہے"۔
 
فوکس نیوز نے رہبر معظم کا مکمل خط نشر کرتے ہوئے شہہ سرخی میں لکھا کہ "ایران کے سپریم لیڈر نے تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہونے کی وجہ سے امریکی طلباء کی قدردانی کی"
== مقاومتی بلاک کا کیا مطلب؟ ==
سرسری نگاہ کرنے سے شاید یہ نکتہ ذہن میں آجائے کہ صہیونی حکومت کی جانب سے نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے امریکی طلباء کو تاریخ کی صحیح سمت میں یا مقاومت کا حصہ قرار دینا سیاسی بیان ہے تاکہ صہیونی حکومت کے مظالم کو برجستہ کیا جائے۔ اگر مسئلہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی اور رہبر معظم کی سیاسی فکر پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کلمات کو انتہائی دقت اور سوچ سمجھ کر استعمال کیا گیا ہے۔
== مستضعفین اور مستکبرین کے محاذ کی تشکیل کا معیار ==
[[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] اور رہبر معظم نے کبھی بھی شیعہ طرز فکر یا ایرانی مفادات کے معیار پر محاذ کی تشکیل کا نظریہ پیش نہیں کیا۔ استضعاف اور استکبار دو دقیق کلمات ہیں جو انقلاب اسلامی کے طرز تفکر میں موجود ہیں۔ رہبر معظم انقلاب نے 2019ء میں فرمایا کہ آج مستضعفین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہوں اور دوسروں کے ہاتھوں نقصان اٹھا چکے ہوں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ مستضعفین وہ لوگ ہیں جو عالم انسانیت کے مستقبل کے رہنما ہیں اور زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں لہذا مقاومت کی بنیاد معنوی ہے جو جوانوں کی ترقی اور حرکت میں اثر ڈالتی ہے۔
 
ان دو کلمات کو دین اور [[قرآن]] سے امام خمینی نے اخذ کیا ہے اور سیاسی اصطلاح بنادیا ہے۔ مستضعف اس کو کہا جاتا ہے جس کو کمزور سمجھا گیا ہے۔ اس کا ہر حال میں کمزور ہونا ضروری نہیں ہے اسی طرح مستکبرین وہ ہیں جو خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں۔ ہم سب مستضعفین ہیں جن کو طاقتور حکومتوں نے کمزور سمجھا ہے۔ ہمیں نظرانداز کیا گیا ہے۔
 
ہم اس حالت سے باہر آنا چاہتے ہیں۔ امام خمینی کے لہجوں کا مطالعہ کرنے سے نتیجہ نکلتا ہے کہ امام کے مطابق استضعاف اور استکبار کی پیدائش کی دلیل اخلاقی ہے۔ خدا محوری کے بجائے انسان محوری یعنی ہیومنزم اور خود کو برتر سمجھنے کا تفکر استکبار کی پیدائش کا باعث بنا ہے اسی طرح مستضعفین استعمار کی طرف سے احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی سازشوں اور اپنی ذات سے جہالت کی وجہ سے خود کو دوسروں سے کمزور سمجھتے ہیں۔
 
دنیا میں موجود تمام برائیاں خواہ حکومتی سطح پر ہوں، خواہ معاشرے کی سطح پر ہوں، خواہ ذاتی ہوں، سب کی جڑ خودبینی ہے جو شیطان سے ورثے میں ملی ہے۔ اگر کوئی گھر کے کونے میں بیٹھ کر عبادت کرے اور خودبینی کا شکار ہوجائے تو شیطان کا وارث ہے۔ اسی طرح حکومتی اور معاشرتی سطح پر موجود برائیوں کی جڑ خودبینی میں پنہاں ہے۔
 
امریکہ دنیا کے محروم اور مستضعف لوگوں کے صف اول کے دشمن ہے۔ امریکہ دنیا پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی قسم کی جنایت سے گریز نہیں کرتا ہے۔ بین الاقوامی صہیونیزم کے ذریعے تبلیغات کرکے دنیا کے لوگوں کو اپنے اہداف کے لئے استعمال کرتا ہے۔ وہ اپنے گماشتوں اور ایجنٹوں کے ذریعے لوگوں کا خون چوستا ہے گویا دنیا میں اس کے علاوہ کسی کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔
اس حوالے سے امام خمینی فرماتے ہیں کہ اگر میں اپنے ماتحت معدود افراد کو معمولی اور بے اہمیت سمجھوں تو میں مستکبر ہوں اور وہ لوگ مستضعفین ہیں <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1924520/%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%8C-%D8%B7%D9%84%D8%A8%D8%A7%D8%A1-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%85-%D8%B1%DB%81%D8%A8%D8%B1-%D9%85%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D8%B7-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2%DB%81 امریکی طلباء کے نام رہبر معظم کے خط کا ایک جائزہ]-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از:6 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔</ref>۔
== حوالہ جات ==

حالیہ نسخہ بمطابق 22:16، 1 نومبر 2024ء

مقاومت حزب الله.jpg

مقاومتی بلاک مِحوَر مُقاوِمَت یا جِبههٔ مقاومت(فارسی)، محور المقاومة (عربی)، Axis of Resistance(انگلش) ایک عنوان ہے جس میں بنیادی طور پر شیعہ مذہب کے ممالک اور طاقتوں کے درمیان غیر تحریری علاقائی اتحاد کی طرف اشارہ ہے، جیسے اسلامی جمہوریہ ایران، شام، عراق اور لبنان کی حزب اللہ لبنان صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کا بنیادی مقصد مشرق وسطیٰ کے علاقے میں مغرب کے تسلط کا خاتمہ اور فلسطین کی آزادی کا دفاع ہے۔ مزاحمت کے محور کا مجموعہ پہلی بار اس وقت ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر جارج بش اور ان کے نائب صدر جان بولٹن کے ان الفاظ کے جواب میں استعمال کیا گیا تھا کہ فروری 1380ء کو اس نے ایران عراق، شمالی کوریا، لیبیا، شام اور کیوبا کو برائی کا محور کہا گیا۔ اس کے بعد، مختلف شخصیات بشمول سید علی خامنہ ای، رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصر اللہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل اور دوسرے سیاسی اور مذہبی لوگوں نے اپنے الفاظ میں یہ جملہ استعمال کیا۔

مفہوم شناسی

محور مقاومت یا مزاحمتی محاذ سے مراد چند ممالک کا مجموعہ اور اسی طرح مسلم اور شیعہ عسکری گروہوں کو کہا جاتا ہے جن کا مقصد مشرق وسطیٰ کے خطے میں مغربی تسلط کا خاتمہ، [1]۔ اسرائیل کے خلاف جنگ اور فلسطین کی آزادی کا دفاع کرنا ہے

عالمی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کے بارے میں انقلاب اسلامی ایران کے منشور سے متاثر ہو کر مزاحمت کے محور کی تشکیل کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

ایران، شام اور عراق کی حکومتیں، لبنان کی حزب اللہ، فلسطین میں اسلامی جہاد اور حماس کے ساتھ ساتھ یمن کے انصار اللہ گروپ کو مزاحمت کا محور سمجھا جات ہے۔ سید حسن نصر اللہ کے نزدیک، سید علی خامنہ ای مزاحمتی محور کا رہبر اور اسلامی جمہوریہ ایران، مزاحمتی محور کا قلب اور بنیاد ہے۔

مزاحمتی محور اصلاح میں

مزاحمت کے محور کا ترکیب 1380ء (29 جنوری 2002ء) کو امریکہ کے صدر جارج بش کے بعد پہلی بار استعمال کیا گیا، جس نے ایران، عراق اور شمالی کوریا کے ممالک کو برائی کا محور قرار دیا، اور اس وقت امریکہ کے نائب وزیر خارجہ جان بولٹن نے اس فہرست میں لیبیا اور کیوبا کو شامل کیا تھا، جس کے جواب میں لیبیا کے جریدے الزحف الاخضر نے ان ممالک کو برائی کا محور نہیں بلکہ مزاحمت کا محور نام رکھا، جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے خلاف ہیں۔

اس کے بعد فلسطینی وزیر داخلہ سعید سعیم نے العالم ٹی وی کے ساتھ گفتگو میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جنگ میں مشترکہ سیاسی اہداف کی طرف اشارہ کرنے کے لیے محور مقاومت کا لفظ استعمال کیا اور اس بات پر تاکید کی کہ سوریہ، ایران، حزب اللہ لبنان، حماس اور فلسطین نے مل کر محور مقاومت تشکیل دی ہے تاکہ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رہ سکیں۔

نیز، ایران کے سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی نے اگست 2009ء میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے سلسلے میں ایران، شام، لبنان کی حزب اللہ، عراق کی نئی حکومت اور حماس کو شامل کرنے پر غور کیا۔ ان کے مطابق چونکہ یہ سلسلہ شام سے گزرتا ہے، اس لیے مذکورہ ملک نے شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اس وقت کے سیکریٹری سعید جلیلی کی ملاقات کے دوران اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے سلسلے میں سنہری کردار ادا کیا تھا۔ مزاحمت کے محور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے اگست 1372ش میں پہلی بار لبنان کی حزب اللہ تحریک کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے بارے میں بات کی اور اس پر غور کیا۔ اسرائیل کی جارحیت کا نتیجہ ہے کہ لبنان کے خلاف اس کی جارحیت سے نہ صرف مطلوبہ سیاسی اور عسکری اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں بلکہ یہ عوام کی یکجہتی اور اتحاد کا سبب بنی ہے [2]۔

مزاحمتی محاذ کی شکیل کا جواز

اگر ہم طوفان الاقصی کے بعد غزہ میں پیش آنے والے واقعات کو ایک اور زاویے سے دیکھیں تو اس حادثہ نے مزاحمتی محاذ کی تشکیل کا جواز ظاہر کیا۔ کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ مغربی ایشیا میں اس مزاحمتی محاذ کی کیا ضرورت تھی؟ اب سب پر واضح ہو کیا کہ اس خطے میں مزاحمتی محاذ کی موجودگی سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ اس مزاحمتی محاذ کو دن بدن مضبوط کیا جانا چاہے۔

اس خطے میں بیدار ضمیر رکھنے والے لوگ جب صیہونیوں کے ظلم و ستم کو دیکھتے ہیں - جو ستر سال سے جاری ہے - خاموش نہیں بیٹھنا چاہے۔ مزاحمت کے لیے سوچنا فطری بات ہے۔ مزاحمتی محاذ کی تشکیل اس کے لیے ہے۔ فلسطینی قوم اور فلسطین کے حامیوں کے خلاف صیہونی مجرموں کے اس جاری ظلم کا سامنا کرنا ہے [3]۔

تاریخی پس منظر

اسرائیل سے 6 روزہ جنگ سے لے کر، داعش کے خلاف جنگ، محور مزاحمت کا مفہوم گزشتہ چند دہائیوں کے تاریخی واقعات کے تناظر میں تشکیل دیا گیا ہے اور اس کی تاریخی پس منظر ،اسرائیل اور داعش سے مقابلہ اور شام میں امریکہ کی موجودگی کے تناظر میں دیکھی جا سکتی ہے۔

حماس

اسرائیل کا غاصبانہ تشخص اور 1948ء میں قائم کی گئی سرحدوں کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے فلسطینیوں بشمول اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کا ہمیشہ اسرائیل کے بارے میں مخالفانہ نظریہ ہے اور اس کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

حزب اللہ

غزہ میں 22 روزہ جنگ، جو جنوری 2007ء میں ہوئی تھی، اسلامی مزاحمتی قوتوں کی طرف سے اسرائیل کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی ایک مثال ہے۔ مزید برآں، لبنان کی سیاسی عسکری تنظیم حزب اللہ، جو ایک شیعہ تنطیم ہے، جون 1379ء میں جنوبی لبنان کے علاقوں پر اسرائیل کے 18 سالہ فوجی تسلط کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان 33 روزہ جنگ جاری رہی جو جولائی 2005ء کے آخر سے اسی سال اگست کے آخر تک جاری رہی۔

شام

شام اور اسرائیل کے درمیان معاندانہ تعلقات بھی قائم ہیں اور یہ دسمبر 1345 میں چھ روزہ جنگ کے بعد سے شروع ہوا ہے، جس کے دوران اسرائیل نے شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا جسے گولان کی پہاڑیوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شام اور اسرائیل کے تعلقات ایرانی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اور خاص طور پر شام میں بشار الاسد کی صدارت کے بعد مزید دشمنی کا شکار ہو گئے اور ایران، شام، فلسطینی جہادی قوتوں کے درمیان قریبی اتحاد کی تشکیل کا باعث بنے۔۔

شام اور عراق

سلفی اسلامی تنظیم داعش کے ہاتھوں شام اور عراق کے ممالک کے اہم حصوں پر قبضے نے ایک بار پھر مزاحمت کا محور متعلقہ ممالک کے فوجی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی خطرات کے خلاف لڑنے کے لیے ایک اتحاد بنا دیا۔ چنانچہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے عراق اور شام میں اپنی فوجی اور مشاورتی موجودگی کے ساتھ داعش کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے اپنی کوششیں شروع کر دیں۔

حضرت زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کے مزار سمیت عراق اور شام میں مقدس مقامات کی حفاظت ایران کی موجودگی کے دیگر مقاصد میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ داعش کے خلاف شام اور عراق کی حکومت کی حمایت میں روس اور چین سے مشاورت بھی مزاحمتی محور کی کوششوں کا ایک اور حصہ رہی ہے۔

مزاحمتی گروہ اور ممالک

ایران اور شام کے ممالک نیز حزب اللہ کو مزاحمتی محور کے ستون کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو اس کا رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ مزاحمتی محور کے درمیان تعاون کی عروج 2000ء میں بشار الاسد کی صدارت اور پھر 2006ء میں جنوبی لبنان پر اسرائیل کے حملے اور 2008ء میں غزہ پر حملے کے بعد ہوئی اور غزہ، محور کی مقبولیت کا باعث بنا۔

مسلمانوں میں مزاحمت فلسطین اور عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہ حماس کو مشترکہ تاریخی اور ثقافتی عناصر کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف مشترکہ خطرات کی وجہ سے مزاحمت کے محور کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

ایک لفظ میں، مزاحمتی محاذ کے رکن گروپوں میں شامل ہیں:

محور مقاومت کا پھیلاٶ

اسرائیل کے خلاف مقاومتی محور کے داٸرے میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور کئی ایسے نئے گروہ وجود میں آچکے ہیں، جنہوں نے غاصب حکومت کے خلاف نئے محاذ کھول دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں بحرین کے ایک جہادی گروہ ”سرایا الاشتر“ کا نام بین الاقوامی ذراٸع ابلاغ میں گونج رہا ہے۔ ”سرایا الاشتر“ نے گذشتہ ہفتے کو اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس نے مقبوضہ فلسطین کے شہر ”ام الرشراش“ میں ایک اہم صیہونی مرکز پر ڈرون حملہ کیا ہے۔

اس گروہ نے اس سے قبل گذشتہ منگل کو بھی اپنی پہلی کاررواٸی میں مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع شہر ایلات میں ذراٸع نقل و حمل سے متعلق ایک کمپنی Tracknet کو اپنے ڈرون حملے سے نشانہ بنایا تھا، جس نے علاقاٸی اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا۔ 'سرایا الاشتر' مزاحمتی گروپ کیا ہے اور اسے کب تشکیل دیا گیا؟ اس گروہ کا قیام 2011ء میں بحرین میں ہونے والے عوامی احتجاج کو دبانے کے بعد 2012ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔

یہ گروہ بحرین میں آل خلیفہ حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی اور مسلح کاررواٸیاں کرتا ہے۔ بحرین کی حکومت کے قریبی ذراٸع اور مغربی میڈیا کے دعووں کے مطابق آل خلیفہ کی حکومت کے مخالفین کی ایک بڑی تعداد نے حکومتی جبر سے بچنے کے لیے ایران میں سکونت اختیار کی اور پھر یہ مزاحمتی گروپ تشکیل دیا۔

اس محور مزاحمت کے مخالف میڈیا کے بقول اس گروہ کی قیادت احمد یوسف سرحان (جسے ابو منتظر کے نام سے جانا جاتا ہے) اور جاسم احمد عبداللہ (جو ذوالفقار کے نام سے مشہور ہے) کر رہے ہیں۔ یہ دو بحرینی شہری ہیں، جو فرار ہو کر کئی سالوں سے ایران میں مقیم ہیں، ان کے حوالے سے مغربی اور بحرینی میڈیا نے ابھی تک قابل اعتماد دستاویزات شاٸع نہیں کی ہیں۔ سرایا الاشتر کو 2014ء میں متحدہ عرب امارات، کینیڈا، مصر، سعودی عرب اور کویت نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا جبکہ امریکہ نے 2018ء میں اس گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا۔

مبصرین کے مطابق سرایا الاشتر کی جانب سے کی گئی حالیہ کاررواٸیاں ان کے دوستوں اور دشمنوں کے لیے مختلف نوعیت کے پیغامات لیے ہوئے ہیں، جن کا مختلف زاویوں سے جاٸزہ لیا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ محور مزاحمت بتدریج غاصب صیہونی حکومت پر دباٶ بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ یقیناً آنے والے عرصے میں دنیا علاقے میں براٸی کے محور کے خلاف محور مقاومت کی دیگر صلاحیتوں کے فعال ہونے کا مشاہدہ کرے گی[4]۔

اسرائیل مزاحمتی گروہوں کو ختم نہیں کرسکتا

سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ صیہونی رجیم کو شکست ہوئی ہے لیکن اس سے بڑی شکست مغربی ثقافت، تہذیب اور سیاست دانوں کو ہوئی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صوبہ فارس کے شہداء کی کانگریس کے منتظمین سے ملاقات میں علاقے کے واقعات اور مزاحمت کی جدوجہد کو خطے کی تقدیر اور تاریخ میں تبدیلی کا عنصر قرار دیا۔

انہوں نے صیہونی رجیم کے ہاتھوں 50,000 سے زائد بے گناہ افراد کے قتل عام کے باوجود مزاحمت کو تباہ کرنے میں رجیم کی رسواکن شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مغربی ثقافت، تہذیب اور سیاست دانوں کی ہزیمت کو اس سے بھی بڑی شکست قرار دیا اور کہا کہ محور مقاومت کی محور شرارت کے مقابلے میں محاذ آرائی میں فتح مزاحمت کی ہی ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے خطے کے موجودہ مسائل اور غزہ، لبنان اور مغربی کنارے کے واقعات کو تاریخ ساز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر شہید سنوار جیسے لوگ نہ ہوتے جو آخری دم تک لڑتے، یا شہید سید حسن نصر اللہ جیسے عظیم لوگ نہ ہوتے کہ جنہوں نے جہاد، حکمت، جرأت اور قربانی کو یکجا کرکے میدان میں اتارا تو اس خطے کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔

رہبر معظم انقلاب نے خطے میں رونما ہونے والے واقعات کے موجودہ نتائج کو نہ صرف صیہونی حکومت بلکہ مغرب کی تہذیب و ثقافت کی بھی بڑی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کا خیال تھا کہ وہ مزاحمتی گروہوں کو آسانی سے تباہ کر سکتے ہیں، لیکن آج 50 ہزار سے زائد نہتے شہریوں اور مزاحمت کے کئی سرکردہ رہنمائوں کی شہادت اور امریکہ کی بھاری حمایت کے باوجود انہیں دنیا میں نفرت کے سوا کچھ نہیں ملا۔

یہاں تک کہ امریکی یونیورسٹیوں میں بھی ان مجرموں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے، جب کہ مزاحمتی محاذ، حماس، اسلامی جہاد، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے نوجوان مجاہدین اسی عزم اور طاقت کے ساتھ لڑ رہے ہیں، جو کہ صیہونی حکومت کی بہت بڑی شکست ہے۔ انہوں نے اسے مغربی ثقافت اور تہذیب کی بھی سب سے بڑی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو ٹن وزنی بموں اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے 10 ہزار معصوم بچوں کا قتل عام مغربی جھوٹے سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی رسوائی کا باعث بنا اور مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن اور نفاق دنیا پر آشکا ہوا جو کہ ان کی سب سے بڑی شکست ہے۔

انہوں نے صیہونی رجیم کے حامی محاذ کو محور شرارت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس محور شرارت کے مقابلے محور مقاومت کھڑا ہے اور خدا کے فضل سے فتح مزاحمت کے محاذ کی ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں صوبہ فارس کو دین، حماسہ اور فن کے امتزاج کا بہترین مظہر قرار دیا اور اس سرزمین کے ماضی سے لے کر آج تک کے ممتاز شہداء بشمول شہیدہ معصومہ کرباسی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: صوبہ فارس کے شہداء کی کانگریس کو حماسہ، فن اور دین کے خوبصورت امتزاج کو برقرار رکھنا چاہیے۔

سید علی خامنہ ای نے پہلوی دور میں شیراز اور فارس کو غیر دینی بنانے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو اس دور میں خیال کرتے تھے کہ وہ ہنر شیراز جیسے گھناونے اقدامات کے ذریعے اسے اہل بیت کے حرم اور مرکز دین و ایمان سے مرکز فساد میں بدل سکتے ہیں، وہ سخت غلطی پر تھے، بلاشبہ آج بھی ہمارے وطن عزیز میں ان کے کچھ گماشتے اور باقیات ہیں جو فن کو روحانیت اور حماسہ سے الگ کرنا چاہتے ہیں لیکن جو چیز ملک و قوم کو ترقی عطا کرتی ہے وہ دین، حماسہ اور فن کا امتزاج ہے [5]۔

آپ اس وقت مقاومتی بلاک کا حصہ ہیں

امریکی طلباء کو "صحیح سمت میں" اور "مقاومتی بلاک کا حصہ" قرار دینا دو بنیادی جملے ہیں جن کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں بحث ہورہی ہے۔ لبنانی خبررساں ادارے العہد نے شہہ سرخی میں لکھا ہے: امام خامنہ ای کا امریکی طلباء کو خطاب: آپ اس وقت مقاومتی بلاک کا حصہ ہیں۔ العہد نے امریکی طلباء کے نام رہبر معظم کے خط کو مکمل شائع کیا۔

سید علی خامنہ ای کا جملہ "آپ تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہیں" کو مغربی ذرائع ابلاغ نے خصوصی اہمیت کے ساتھ نشر کیا۔ بعض نے اس کو شہہ سرخی میں جگہ دی۔ چنانچہ نیویارک ٹائمز اور فوکس نیوز نے رہبر کا خط نشر کرتے ہوئے لکھا "آپ اس وقت تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہیں اور آپ نے اس وقت مقاومتی بلاک کا حصہ تشکیل دیا ہے"۔

فوکس نیوز نے رہبر معظم کا مکمل خط نشر کرتے ہوئے شہہ سرخی میں لکھا کہ "ایران کے سپریم لیڈر نے تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہونے کی وجہ سے امریکی طلباء کی قدردانی کی"

مقاومتی بلاک کا کیا مطلب؟

سرسری نگاہ کرنے سے شاید یہ نکتہ ذہن میں آجائے کہ صہیونی حکومت کی جانب سے نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے امریکی طلباء کو تاریخ کی صحیح سمت میں یا مقاومت کا حصہ قرار دینا سیاسی بیان ہے تاکہ صہیونی حکومت کے مظالم کو برجستہ کیا جائے۔ اگر مسئلہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی اور رہبر معظم کی سیاسی فکر پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کلمات کو انتہائی دقت اور سوچ سمجھ کر استعمال کیا گیا ہے۔

مستضعفین اور مستکبرین کے محاذ کی تشکیل کا معیار

امام خمینی اور رہبر معظم نے کبھی بھی شیعہ طرز فکر یا ایرانی مفادات کے معیار پر محاذ کی تشکیل کا نظریہ پیش نہیں کیا۔ استضعاف اور استکبار دو دقیق کلمات ہیں جو انقلاب اسلامی کے طرز تفکر میں موجود ہیں۔ رہبر معظم انقلاب نے 2019ء میں فرمایا کہ آج مستضعفین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہوں اور دوسروں کے ہاتھوں نقصان اٹھا چکے ہوں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ مستضعفین وہ لوگ ہیں جو عالم انسانیت کے مستقبل کے رہنما ہیں اور زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں لہذا مقاومت کی بنیاد معنوی ہے جو جوانوں کی ترقی اور حرکت میں اثر ڈالتی ہے۔

ان دو کلمات کو دین اور قرآن سے امام خمینی نے اخذ کیا ہے اور سیاسی اصطلاح بنادیا ہے۔ مستضعف اس کو کہا جاتا ہے جس کو کمزور سمجھا گیا ہے۔ اس کا ہر حال میں کمزور ہونا ضروری نہیں ہے اسی طرح مستکبرین وہ ہیں جو خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں۔ ہم سب مستضعفین ہیں جن کو طاقتور حکومتوں نے کمزور سمجھا ہے۔ ہمیں نظرانداز کیا گیا ہے۔

ہم اس حالت سے باہر آنا چاہتے ہیں۔ امام خمینی کے لہجوں کا مطالعہ کرنے سے نتیجہ نکلتا ہے کہ امام کے مطابق استضعاف اور استکبار کی پیدائش کی دلیل اخلاقی ہے۔ خدا محوری کے بجائے انسان محوری یعنی ہیومنزم اور خود کو برتر سمجھنے کا تفکر استکبار کی پیدائش کا باعث بنا ہے اسی طرح مستضعفین استعمار کی طرف سے احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی سازشوں اور اپنی ذات سے جہالت کی وجہ سے خود کو دوسروں سے کمزور سمجھتے ہیں۔

دنیا میں موجود تمام برائیاں خواہ حکومتی سطح پر ہوں، خواہ معاشرے کی سطح پر ہوں، خواہ ذاتی ہوں، سب کی جڑ خودبینی ہے جو شیطان سے ورثے میں ملی ہے۔ اگر کوئی گھر کے کونے میں بیٹھ کر عبادت کرے اور خودبینی کا شکار ہوجائے تو شیطان کا وارث ہے۔ اسی طرح حکومتی اور معاشرتی سطح پر موجود برائیوں کی جڑ خودبینی میں پنہاں ہے۔

امریکہ دنیا کے محروم اور مستضعف لوگوں کے صف اول کے دشمن ہے۔ امریکہ دنیا پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی قسم کی جنایت سے گریز نہیں کرتا ہے۔ بین الاقوامی صہیونیزم کے ذریعے تبلیغات کرکے دنیا کے لوگوں کو اپنے اہداف کے لئے استعمال کرتا ہے۔ وہ اپنے گماشتوں اور ایجنٹوں کے ذریعے لوگوں کا خون چوستا ہے گویا دنیا میں اس کے علاوہ کسی کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔ اس حوالے سے امام خمینی فرماتے ہیں کہ اگر میں اپنے ماتحت معدود افراد کو معمولی اور بے اہمیت سمجھوں تو میں مستکبر ہوں اور وہ لوگ مستضعفین ہیں [6]۔

حوالہ جات

  1. محمدی‌سیرت، «الگوی نمایش نقش امنیت‌آفرین شهیدان محور مقاومت در رسانه ملی» ص63
  2. دیدار دبیر کل‌ جنبش‌ حزب‌الله‌ لبنان‌ با رهبر انقلاب(حزب اللہ لبنان کے سیکٹری جنرل کی رہبر انقلاب سے ملاقات)-farsi.khamenei.ir/news(فارسی زبان)- شائع شدہ از: 23 جولائی 1993ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔
  3. سخنرانی نوروزی در جمع اقشار مختلف مردم(نوروز کے دن عوام سے خطاب)-farsi.khamenei.ir(فارسی زبان)-شائع شدہ از: 1 مارچ 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔
  4. محور مقاومت کا پھیلاٶ-شائع شدہ از: 5جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 اکتوبر 2024ء۔
  5. صیہونی حکومت شکست کھا چکی ہے، رہبر معظم انقلاب اسلامی-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 23 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔
  6. امریکی طلباء کے نام رہبر معظم کے خط کا ایک جائزہ-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از:6 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔