Jump to content

"فلسطین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 12: سطر 12:
| کرنسی = روپیہ
| کرنسی = روپیہ
}}
}}
'''فلسطین''' مغربی ایشیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں  مسلمانوں کا قبلہ اول [[مسجد اقصی|مسجد اقصیٰ]] ہے اور اس پر 1948 سے اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اس ملک کا دارالحکومت بیت المقدس ہے۔
'''فلسطین''' مغربی ایشیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں  مسلمانوں کا قبلہ اول [[مسجد اقصی|مسجد اقصیٰ]] ہے ۔اس پر 1948 سے اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اس ملک کا دارالحکومت بیت المقدس ہے۔


تاریخ میں فلسطین کی سرزمین مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی طرف سے آباد رہی ہے ۔  فلسطین میں اسلام، [[عمر بن خطاب]] کے دور خلافت میں آیا۔ فلسطین میں اسلام کی آمد کے بعد امویوں، عباسیوں، فاطمیوں اور عثمانیوں نے اس سرزمین پر غلبہ حاصل کیا۔ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں پر عیسائیوں کی فتح کے بعد فلسطین کی حکومت کچھ عرصے کے لیے عیسائیوں کے پاس چلی گئی۔ لیکن کچھ عرصہ  کے بعد مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔ پہلے یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا اور پہلی جنگ عظیم  تک اس کی یہی حیثيت رہی۔
تاریخ میں فلسطین کی سرزمین مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں سے آباد رہی ہے ۔  فلسطین میں اسلام، [[عمر بن خطاب]] کے دور خلافت میں آیا۔ فلسطین میں اسلام کی آمد کے بعد امویوں، عباسیوں، فاطمیوں اور عثمانیوں نے اس سرزمین پر غلبہ حاصل کیا۔ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں پر عیسائیوں کی فتح کے بعد فلسطین کی حکومت کچھ وقت کے لیے عیسائیوں کے پاس چلی گئی۔ لیکن کچھ عرصہ  کے بعد مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔ پہلے یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا اور پہلی جنگ عظیم  تک اس کی یہی حیثيت رہی۔


فلسطین پر 1948 سے اسرائیلی حکومت کا قبضہ ہے اور اس کے بعد سے اسرائیل کی جانب سے  اس پر کئی جنگیں مسلط کی گئی ہے۔
فلسطین پر 1948 سے اسرائیلی حکومت کا قبضہ ہے اور اس کے بعد سے اسرائیل کی جانب سے  اس پر کئی جنگیں مسلط کی گئی ہیں۔


اس ملک میں  [[شیعہ]]  بھی رہتے ہیں۔ لیکن کی آبادی کے متعلق کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں ہے۔ اسلامی جہاد موومنٹ اور صابرین موومنٹ کو شیعوں سے متاثر فلسطینی گروپ سمجھا جاتا ہے ۔ [[حماس]] اور [[تحریک فتح|الفتح]] اس ملک کی دوسری جماعتیں ہیں۔
اس ملک میں  [[شیعہ]]  بھی رہتے ہیں۔ لیکن ان  کی آبادی کے متعلق درست اعداد و شمار موجود نہیں ہے۔ اسلامی جہاد موومنٹ اور صابرین موومنٹ کو شیعوں سے متاثر فلسطینی گروپ سمجھا جاتا ہے ۔ [[حماس]] اور [[تحریک فتح|الفتح]] اس ملک کی دوسری جماعتیں ہیں۔
== جغرافیہ ==
== جغرافیہ ==
فلسطین کا رقبہ 10419 مربع میل ہے  جو بحر متوسط کے مشرق میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں اردن، شام، مصر اور لبنان سے ملتی ہیں <ref>محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء، ص616</ref>۔
فلسطین کا رقبہ 10419 مربع میل ہے  جو بحر متوسط کے مشرق میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں اردن، شام، مصر اور لبنان سے ملتی ہیں <ref>محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء، ص616</ref>۔


1917 میں انگریزوں کے فلسطین پر قبضے سے پہلے شام کا جنوب مغربی علاقہ فلسطین کہلاتا تھا۔ اس کے علاوہ، ماضی میں، سرزمین فلسطین کو شام کا حصہ سمجھا جاتا تھا ، اس لیے عربوں میں اسے "جنوبی شام" کے نام سے یادکیا جاتا تھا۔ فلسطین کا رقبہ 27 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔
1917 میں انگریزوں کے فلسطین پر قبضے سے پہلے شام کا جنوب مغربی علاقہ فلسطین کہلاتا تھا۔ اس کے علاوہ، ماضی میں، سرزمین فلسطین کو شام کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے عربوں میں اسے "جنوبی شام" کے نام سے یادکیا جاتا تھا۔ فلسطین کا رقبہ 27 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔
== عالم اسلام میں فلسطین کا مقام ==
== عالم اسلام میں فلسطین کا مقام ==
فلسطین کی سرزمین مسلمانوں کے درمیان مختلف وجوہات کی بنا پر ایک خاص مقام رکھتی ہے۔جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ  اس ملک میں مسجد اقصیٰ (مسلمانوں کا قبلہ اول) ہے۔  سرزمین فلسطین کو [[قرآن]] میں "مقدس سرزمین" اور "مبارک سرزمین" کہا گیا ہے۔
فلسطین کی سرزمین مسلمانوں کے درمیان مختلف وجوہات کی بنا پر ایک خاص مقام رکھتی ہے۔جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ  اس ملک میں مسجد اقصیٰ (مسلمانوں کا قبلہ اول) ہے۔  سرزمین فلسطین کو [[قرآن]] میں "مقدس سرزمین" اور "مبارک سرزمین" کہا گیا ہے۔


فلسطین  میں بہت سے انبیاء مدفون ہیں۔ مثال کے طور پر، حضرت مریم ناصرہ  کے شہر میں، اور حضرت یحیی  سامریہ کے شہر میں  اور ابراہیم  شہر حبرون میں مدفون ہے۔  فلسطین کے دارالحکومت  بیت المقدس سے  ہی یہودیت اور عیسائیت کا ظہور ہوا ۔ مختلف انبیاء کی قبروں کے علاوہ مقام حضرت موسیٰ، مسجد اقصیٰ، مسجد صخرہ اسی شہر میں واقع ہیں۔اریحا اور [[غزہ]] کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ چار سنی فقہاء میں سے ایک  محمد بن ادریس شافعی، فلسطین کے شہر غزہ میں پیدا ہوئے۔
فلسطین  میں بہت سے انبیاء مدفون ہیں۔ مثال کے طور پر، حضرت مریم کی  قبر  شہر  ناصرہ  میں ہے اور حضرت یحیی  سامریہ اور ابراہیم  شہر حبرون میں دفن ہے۔  فلسطین کے دارالحکومت  بیت المقدس سے  ہی یہودیت اور عیسائیت کا ظہور ہوا ۔ مختلف انبیاء کی قبروں کے علاوہ مقام حضرت موسیٰ، مسجد اقصیٰ، مسجد صخرہ بھی  اسی شہر میں واقع ہیں۔اریحا اور [[غزہ]] کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ چار سنی فقہاء میں سے ایک  محمد بن ادریس شافعی، فلسطین کے شہر غزہ میں پیدا ہوئے۔


== اسلام سے پہلے فلسطین کی تاریخ ==
== اسلام سے پہلے فلسطین کی تاریخ ==
مؤرخین کے مطابق فلسطین  پتھر کے زمانے سے بنی نوع انسانی  سے آباد رہا ہے۔  فلسطین کا قدیم ترین نام "کنعان کی سر زمین" ہے جو  کنعانی عربوں سے لیا گیا ہے جو فلسطین میں تارکین وطن کا پہلا گروہ تھا۔  اس گروہ نے 3500 قبل مسیح میں ہجرت کے لیے فلسطین کا انتخاب کیا۔  فلسطین کا نام ان تارکین وطن قبائل سے لیا گیا ہے جو 1200 قبل مسیح کے آس پاس مغربی ایشیا سے اس سرزمین کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ فلسطین کے زیادہ تر باشندے کنعانی عرب تھے اور آہستہ آہستہ وہ دوسرے عرب قبائل کے ساتھ گھل مل گئے۔ اس کے علاوہ،مختلف ادوار کے دوران، یہودی فلسطین کے بعض علاقوں میں حکومت کرنے آئے۔  لیکن 63 قبل مسیح میں رومیوں نے فلسطین پر غلبہ حاصل کیا اور یہودیوں کو اپنے زیر تسلط کر لیا۔  30 عیسوی  میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا آغاز تھا ۔ انہوں  نے اپنی تعلیمات کی تبلیغ کا کام  شہر  بیت المقدس میں شروع کیا۔  
مؤرخین کے مطابق فلسطین  پتھر کے زمانے سے بنی نوع انسانی  سے آباد رہا ہے۔  فلسطین کا قدیم ترین نام "کنعان کی سر زمین" ہے جو  کنعانی عربوں سے لیا گیا ہے جو فلسطین میں تارکین وطن کا پہلا گروہ تھا۔  اس گروہ نے 3500 قبل مسیح میں ہجرت کے لیے فلسطین کا انتخاب کیا۔  فلسطین کا نام ان تارکین وطن قبائل سے لیا گیا ہے جو 1200 قبل مسیح کے آس پاس مغربی ایشیا سے اس سرزمین کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ فلسطین کے زیادہ تر باشندے کنعانی عرب تھے جو  آہستہ آہستہ دوسرے عرب قبائل کے ساتھ گھل مل گئے۔ اس کے علاوہ،مختلف ادوار میں فلسطین کے بعض علاقوں میں یہودی بھی حکومت کرنے آئے۔  لیکن 63 قبل مسیح میں رومیوں نے فلسطین پر غلبہ حاصل کیا اور یہودیوں کو اپنے زیر تسلط کر لیا۔ سن 30 عیسوی  میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا آغاز ہوا ۔ انہوں  نے اپنی تعلیمات کی تبلیغ کا کام  شہر  بیت المقدس  سے شروع کیا۔  


شہید مرتضی مطہری کے مطابق ، فلسطین کی سرزمین اپنی تاریخ میں کبھی بھی یہودیوں کی نہیں رہی، نہ اسلام سے پہلے اور نہ اسلام کے بعد۔ صرف ایک عارضی دور میں، داؤد (ع) اور سلیمان (ع) نے وہاں حکومت کی۔ جب مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا تو فلسطین عیسائیوں کے قبضے میں تھا اور مسلمانوں نے عیسائیوں سے صلح کر لی۔ امن معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ عیسائیوں نے کہا کہ فلسطین یہودیوں کو نہ دیا جائے۔
شہید مرتضی مطہری کے مطابق ، فلسطین کی سرزمین اپنی تاریخ میں کبھی بھی یہودیوں کی نہیں رہی، نہ اسلام سے پہلے اور نہ اسلام کے بعد۔ صرف ایک عارضی دور میں، داؤد (ع) اور سلیمان (ع) نے وہاں حکومت کی۔ جب مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا تو فلسطین عیسائیوں کے قبضے میں تھا اور مسلمانوں نے عیسائیوں سے صلح کر لی۔ امن معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ عیسائیوں نے کہا کہ فلسطین یہودیوں کو نہ دیا جائے۔
== اسلامی دور میں فلسطین ==
== اسلامی دور میں فلسطین ==
اسلام ابوبکر کے دور خلافت میں فلسطین میں داخل ہوا۔ تاہم، یہ سرزمین سنہ 13 ہجری میں فتح ہوئی اور عمر بن خطاب کے دور خلافت میں خالد بن ولید کی قیادت میں اجنادین کی جنگ سمیت کئی لڑائیوں کے دوران فتح ہوئی ۔
یوں تو  فلسطین میں اسلام ابو بکر کے دور میں آچکا تھا  تاہم یہ سرزمین سنہ 13 ہجری میں عمر بن خطاب کے دور خلافت میں خالد بن ولید کی قیادت میں اجنادین کی جنگ سمیت کئی لڑائیوں کے دوران فتح ہوئی ۔  
عمر بن خطاب کے دور خلافت میں فلسطین اسلامی سرزمین کا حصہ بن گیا اور اس سرزمین پر اموی اور عباسی خلفاء نے حکومت کی۔ 358ھ میں فاطمیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ فلسطین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے، فاطمیوں نے مقامی انقلابات، قراماطہ اور سلجوقی ترکوں کے ساتھ جنگ  کی۔ اس عرصے کے دوران، فلسطین پر تنازعہ جاری رہا، اس طرح کہ فلسطین کی حکومت کو مصر کے مملوکوں، منگولوں اور عثمانیوں کے درمیان تبدیل کیا گیا ، یہاں تک کہ عثمانیوں نے 400 عیسوی کے لگ بھگ سے فلسطین پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ صلیبی جنگوں اور تقریباً ستر ہزار مسلمانوں کے قتل کے بعد 493 ہجری میں یورپی عیسائیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کے بعد 88 سال تک عیسائیوں کی حکمرانی جاری رہی۔ جنگ حطین کے بعد صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔  فلسطین پر عثمانی حکومت 1917 میں برطانیہ کے قبضے تک جاری رہی ۔ برطانیہ کی طرف سے فلسطین پر قبضہ 1948 تک جاری رہا، حالانکہ برطانیہ نے 1922 میں قبضے کے عنوان کو ایک محافظ ریاست میں تبدیل کر دیا تھا۔  
 
عمر بن خطاب کے دور خلافت میں فلسطین اسلامی سرزمین کا حصہ بن گیا۔اس کے بعد اس سرزمین پر اموی اور عباسی خلفاء نے حکومت کی۔ 358ھ میں فاطمیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ فلسطین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فاطمیوں نے مقامی انقلابات، قراماطہ اور سلجوقی ترکوں کے ساتھ جنگ  کی۔ اس عرصے کے دوران، فلسطین پر تنازعہ جاری رہا، اس طرح کہ فلسطین کی حکومت کو مصر کے مملوکوں، منگولوں اور عثمانیوں کے درمیان تبدیل کیا گیا ، یہاں تک کہ عثمانیوں نے 400 عیسوی کے لگ بھگ سے فلسطین پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ صلیبی جنگوں اور تقریباً ستر ہزار مسلمانوں کے قتل کے بعد 493 ہجری میں یورپی عیسائیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کے بعد 88 سال تک عیسائیوں کی حکمرانی جاری رہی۔ جنگ حطین کے بعد صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔  فلسطین پر عثمانی حکومت 1917 میں برطانیہ کے قبضے تک جاری رہی ۔ برطانیہ کی طرف سے فلسطین پر قبضہ 1948 تک جاری رہا، حالانکہ برطانیہ نے 1922 میں قبضے کے عنوان کو ایک محافظ ریاست میں تبدیل کر دیا تھا۔  


فلسطین کو یہودیانے کی پالیسی اور یہودیوں کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے 1931 (1310ھ) میں القدس اسلامی کانگریس کے نام سے ایک کانفرنس فلسطین کے مفتی اعظم محمد امین الحسینی نے بیت المقدس میں منعقد کی ۔  اس کانگریس کے نائب صدر اور سیکرٹریٹ کے سربراہ سید ضیاء الدین طباطبائی (وفات: 1348)، ایک ایرانی سیاست دان تھے۔  انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کے بارے میں کہہ کر ہر قوم کی ملت کے تحفظ پر زور دیا۔ اس کانفرنس میں اقبال لاہوری جیسی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔  
فلسطین کو یہودیانے کی پالیسی اور یہودیوں کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے 1931 (1310ھ) میں القدس اسلامی کانگریس کے نام سے ایک کانفرنس فلسطین کے مفتی اعظم محمد امین الحسینی نے بیت المقدس میں منعقد کی ۔  اس کانگریس کے نائب صدر اور سیکرٹریٹ کے سربراہ سید ضیاء الدین طباطبائی (وفات: 1348)، ایک ایرانی سیاست دان تھے۔  انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کے بارے میں کہہ کر ہر قوم کی ملت کے تحفظ پر زور دیا۔ اس کانفرنس میں اقبال لاہوری جیسی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔  
confirmed
821

ترامیم