ہماری جنگ ختم ہونے والے نہیں(نوٹس اور تجزیے)

ہماری جنگ کبھی ختم ہونے والی نہیں ایک تجزیہ ہے جس میں ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے اور ایران کے بعض جوہری اور فوجی تنصیبات پر اسرائیل کے حملے اور سینئر فوجی کمانڈروں اور ایٹمی سائنسدانوں کی شہادت کے بارے میں تجزیہ اور تحلیل کیا گیا ہے [1] صیہونی حکومت نے 12 دن تک ہمارے ملک کی سرزمین پر حملہ کیا اور امریکہ نے بھی اعلان کیا کہ اس نے ایران کے ایٹمی مراکز کو B52 طیاروں اور "Tomahawk" میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے اور اس دوران یورپی ٹرائیکا یا تو خاموش ہے یا الگ الگ، کوئی عملی اقدام کیے بغیر، صرف ایران سے تحمل کا مطالبہ کر رہا ہے۔ "نہ شرقی نہ غربی" اسلامی جمہوریہ ایران کی اصولی پالیسی کوئی سطحی نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسے نازک وقت میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایران اپنی طاقت کے بل بوتے پر میدان میں حاضر ہے اور اسی طاقت کی بناء پر وہ جارح دشمن پر ’’جنگ بندی‘‘ نافذ کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس

ایران کی سرزمین پر صیہونی حکومت کی جارحیت پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوٹیریس نے کہا: ہمیں لڑائی کو روکنے اور سنجیدہ اور پائیدار مذاکرات کی طرف واپس آنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدام کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے کہا: ایجنسی نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ حملوں میں ایٹمی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے۔ ایٹمی تنصیبات پر فوجی حملے نہ کیے جائیں۔
انگلستان اس بوڑھے لومڑی کے نمائندے نے کہا: مشرق وسطیٰ (مغربی ایشیا) ایک نازک موڑ پر ہے اور مسلسل تشدد سے علاقائی امن کو خطرہ ہو گا۔ فرانس کے نمائندے نے ، جس کے صدر نے ان 12 دنوں کی جنگ کے دوران صہیونی حملوں کو اپنے دفاع کا جواز سمجھا، کہا: ہم نے ایران پر امریکہ کے حملوں کی منصوبہ بندی یا اس پر عمل درآمد میں حصہ نہیں لیا۔ فرانسیسی نمائندے کے اس بیان نے اتفاق سے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ فرانس اس جنگ میں حصہ لے گا۔
چینی نمائندے نے، جو خطے میں تنازعات میں اضافے، خلیج فارس میں اپنے اقتصادی مفادات کو خطرے میں ڈالنے اور جنگ زدہ علاقے میں تجارت میں کمی کے بارے میں فکر مند ہے، کہا: "ہم فوری جنگ بندی اور تنازعات کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسرائیل کو اس جنگ بندی کو قبول کرنا چاہیے۔" جنگ کے خاتمے کے بارے میں چین کا یہ نظریہ ایسا ہے جیسے بدنام زمانہ صیہونی حکومت نے جنگ شروع نہیں کی تھی، یا یہ کہ 12 دن کی جنگ کے بعد بھی میدان میں حکومت کا ہاتھ تھا، اور تل ابیب، حیفہ وغیرہ کے شہر ایرانی میزائلوں کی گرج میں نہیں تھے۔
لہٰذا انہیں جنگ بندی قبول کرنی چاہیے۔ تاہم، روسی نمائندے نے کہا: "واشنگٹن اور اسرائیل خود کو خود ساختہ جج کے طور پر دیکھتے ہیں اور کسی بھی جرم سے باز نہیں آتے، اور ایران پر امریکی حملے نے ایک پنڈورا باکس اور تشدد کا ایک چکر کھول دیا۔" یہ تمام بیانات ایک ایسی قرارداد کے مسودے کو منظور کرنے کی کوشش تھے جس سے ایران کے مفادات کو اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا جتنا کہ اس کے مفادات کو پورا کیا جائے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی اصولی پالیسی
ان موقف اور بیانات سے یہ اچھی طرح سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی اصولی پالیسی "نہ تو شرقی اور نہ ہی غربی" کا نعرہ ایک سطحی نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کا عکاسی کرتا ہے۔ ایسے مواقع پر معلوم اور واضح ہوتا ہے کہ ایران اپنی طاقت کے زیر سایۂ میدان میں کھڑا اور حاضر ہے۔ اور اسی طاقت اور قدرت کی بیناد پر دشمن پر جنگ بندی مسلط کردیا۔
مسلط کردہ 12 روزہ جنگ

12 روزہ مسلط کردہ جنگ میں صہیونی حکومت نے ہمارے ملک دن پر حملہ کیا ، اور امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایران کے جوہری مراکز کو B52 اور ٹام ہاک میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے ، اور یورپی ٹرائیکا یا تو خاموش ہے یا بغیر کسی عملی کارروائی کے ایران سے صبر کا طالبہ کرتا رہا۔ ایک عجیب درخواست میں ان تینوں یورپی ممالک (برطانیہ ، فرانس اور جرمنی) کے رہنماؤں کے صرف 12 دن بعد ، ایران کو سختی سے مطالبہ کیا گیا : ہم ایران پر زور مطالہ کرتے ہیں کہ وہ اس خطے کو غیر مستحکم کرنے والی کوئی اور کارروائی نہ کریں۔ ہم ایران سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ان مذاکرات میں حصہ لیں جو اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں تمام خدشات کے بارے میں گفتگو ہوگی، شرکت کرے۔
امریکہ اور اسرائیل پر مضبوط اور موثر حملے
سینئر فوجی کمانڈروں ، جوہری سائنس دانوں کی شہادت اور کچھ جوہری اور فوجی تنصیبات پر ابتدائی حیران کن اسرائیلی اور امریکی حملے کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران امریکی اور اسرائیلی دشمن کو موثر اور پائیدار حملہ کرنے میں کامیاب رہا۔ ان 12 دنوں میں مقبوضہ علاقوں کے باشندوں نے ایران کے ساتھ لڑائی میں اپنے مستقل ڈراؤنے خوابوں کا کچھ حصہ دیکھا ، اور صہیونیوں اور امریکی عہدیداروں کو یہ احساس ہوا کہ ان کی توقع کے باوجود ایران کو ہونے والا حملے، ایرانی قوم کے اتحاد کا باعث بنے ، اور ایران کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کیا جائے گا اور ان کے سوچ کے برخلاف جوابی کاروائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کا آخری نمونہ امریکہ کے منصوبے کو تبدیل کرنے والے قطر کے العدید ہوائی اڈے پر ایران کا حملہ تھا۔ قطر کے وزیر خارجہ کے مطابق ، اس حملہ کے بعد ، امریکی صدر نے قطر کے امیر سے رابطہ کیا اور ان سے ایران کے ساتھ جنگ بندی میں ثالثی کردار ادا کرے۔
عالم کفر بمقابلہ عالم اسلام
اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ جمہوری اسلامی ایران کی مقدس سرزمین میں جو کچھ وقوع پذیر ہوا، عالم اسلام کے خلاف پورا عالم کفر کھڑا ہو گیا۔ حسین بن علی (ع) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور فوج کے فزندوں اور ایرانی وفادار قوم نے صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت اور استقامت کا مشاہدہ کیا ۔ فرق یہ ہے کہ 1385 سال پہلے حسین بن علی علیہ السلام یزیدی کفر کے وسیع محاذ کے مقابلے میں تنہا کھڑے تھے اور کوفہ و عراق کے لوگوں نے امام سے منہ موڑ لیا تھا لیکن آج امام خامنہ ای کے سپاہی اپنے ولی کے ساتھ ایک مضبوط رکاوٹ اور پہاڑ سے زیادہ مضبوط قوم کی طرح کھڑے ہیں اور دشمن کے خلاف صف آراء ہو کر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
مقدس جنگ
صیہونی حکومت اور امریکہ کے ساتھ ہماری جنگ ایک "مقدس جنگ" ہے اور یہ کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ جنگ اور امن میں ہماری نہ بدلنے والی پالیسی امام خمینی کے وہی سچے الفاظ ہیں جنہوں نے کہا تھا: "اسرائیل کو روئے زمین سے مٹا دینا چاہیے۔" اس راہ میں ہم اس روشن اور حکیمانہ افق کو کبھی نہیں بھولیں گے جو ہمارے مرحوم اور پیارے امام نے ہماری آنکھوں کے سامنے رکھا تھا: "ہماری جنگ حق و باطل کی جنگ تھی اور اسے ختم نہیں کیا جاسکتا، ہماری جنگ غنی اور فقیر کی جنگ تھی۔
ہماری جنگ ایمان اور بے ایمانی کی جنگ تھی، اور یہ جنگ آدم سے لے کر زندگی کے آخر تک موجود ہے، کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ہم نے اس جنگ کو ایک واجب کی ادائیگی کے لیے لڑی ہیں اور اس کا نتیجہ اس کا ایک فرع ہے۔ ہماری قوم نے اس دن تک اپنا فرض ادا کیا جب تک اس نے محسوس کیا کہ اس میں لڑنے کی طاقت اور فرض ہے، اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے آخری دم تک کسی قسم کی تردید محسوس نہیں کی [2]۔