نویں بین الاقوامی عالمی امن کانفرنس
| نویں بین الاقوامی عالمی امن کانفرنس | |
|---|---|
| واقعہ کی معلومات | |
| واقعہ کا نام | نویں بین الاقوامی عالمی امن کانفرنس |
| واقعہ کی تاریخ | 2025ء |
| واقعہ کا دن | 9 نومبر |
| واقعہ کا مقام |
|
نویں بین الاقوامی عالمی امن کانفرنس جکارتا، دارالحکومتِ انڈونیشیا میں تین روز تک منعقد ہوئی، جس میں عالمی مرکز براے تقریبِ مذاہبِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل حجتالاسلام والمسلمین حمید شہریاری سمیت دنیا بھر کے متعدد علما، دانشوروں اور سیاسی و ثقافتی شخصیات نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا انعقاد تہذیبی مکالمے، علاقائی تعاون اور عالمی امن کے قیام کے لیے ایک متحدہ پلیٹ فارم کے طور پر ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس نشست کا بنیادی موضوع "اسلامی وسطیت اور تیانگہوا کے ذریعے عالمی تعاون کا جائزہ" تھا، جس میں اسلامی اعتدال اور چینی ثقافتی حکمت کی ان قدروں پر زور دیا گیا جو منصفانہ اور پُرامن عالمی تعاون کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ کانفرنس میں متعدد تخصصی نشستیں منعقد ہوئیں، جن کا محور اسلامِ اعتدال اور "تیانگہوا" کے تناظر میں عالمی تعاون تھا۔ ان میں سے چند اہم نشستیں درج ذیل ہیں:
- مسلم خواتین کی شخصیات کی تخصصی نشست: عالمی تعاون میں معتدل اسلام اور "تیانگہوا" کا کردار؛
- معتدل اسلام کی عالمی نقطۂ نظر اور عالمی تہذیب کے لیے اس کی اہمیت؛
- معتدل اسلام اور "تیانگہوا" کی بنیاد پر عالمی تعاون کے عملی طریقۂ کار کا جائزہ۔
عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی کے جنرل سیکریٹری کا خطاب
حجتالاسلام والمسلمین حمید شہریاری، سیکریٹری جنرل عالمی مرکز برای تقریب، نے جکارتا (انڈونیشیا) میں منعقدہ نویں بینالمللی ’’عالمی امن‘‘ کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران کہا: "آج ہم ایک بنیادی مسئلے کے شاهد ہیں جس کا انسانیت ابھی تک کوئی مؤثر حل تلاش نہیں کر سکی۔ ہم ایک ایسے دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں ہر کوئی امن کی بات کرتا ہے، لیکن میدانِ عمل میں ہمیں جنگ نظر آتی ہے۔ بینالمللی ادارے جو عالمی امن کے قیام کے لیے قائم کیے گئے تھے، وہ ناکام ہو چکے ہیں۔ سامراجی طاقتیں اور جارح قوتیں اپنے مفادات کے پیچھے دوڑ رہی ہیں اور بےگناہوں کا خون اپنے مفادات کی خاطر بہا رہی ہیں۔" ڈاکٹر شہریاری نے مزید کہا: "ہم بات تو مکالمے کی کرتے ہیں، لیکن اسی دوران لوگوں کے گھر تباہ کیے جا رہے ہیں۔ غزہ میں 67 ہزار سے زیادہ افراد، جن میں عورتیں، بچے اور بزرگ شامل ہیں، شہید ہو چکے ہیں اور 160 ہزار سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد ڈاکٹر، ہسپتالوں کا عملہ اور صحافی تھے جو آگ اور خون کے درمیان اپنی انسانیتدوستانہ ذمہ داریاں بہادری سے انجام دے رہے تھے۔ 400 سے زیادہ صحافی اور 120 ڈاکٹر و نرسیں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ہسپتال، اسکول اور اقوامِ متحدہ کے پناہگاہ مراکز بارہا بمباری کا نشانہ بنے ہیں۔ بچے ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں، اور ماؤں نے اپنے بچوں کی لاشیں گود میں اٹھائے ہوئے جانیں دے دی ہیں۔
اس طرح کے سنگین جرائم کے مقابلے میں دنیا، جو خود کو مہذب کہتی ہے، کیا کر رہی ہے؟ اس نے امن کے لیے کون سا مؤثر قدم اٹھایا ہے؟ وہ خاموش کیوں رہی؟ اور اس سے بھی بدتر یہ کہ وہ مظلوموں کے بجائے ظالموں کے ساتھ کیوں کھڑی ہو گئی ہے؟ انہیں روکنے کے بجائے انہیں مزید مسلح کیوں کیا جا رہا ہے؟ ظلم کا ساتھ دینا، انسانی اقدار سے غداری ہے۔" انہوں نے کہا:"جب بھی ہم کسی جنگ کے اختتام اور امن کے قیام پر خوش ہوتے ہیں، فوراً ہی کوئی نئی جنگ کسی اور سرزمین سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے، جیسے کوئی عفریت دوبارہ سر اٹھا لیتا ہو۔"
سودان میں جنگ کی صدائیں
ہم ابھی تک غزہ، لبنان، شام اور ایران کے غم سے سنبھلے نہیں تھے کہ اب سودان سے جنگ کی آوازیں آرہی ہیں۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا مکالمہ اور کانفرنسیں ہمارے مسائل حل کر سکتی ہیں؟ اصل حل کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایسی صورت میں مکالمہ ممکن ہے جب عالمی اخلاقی بنیادیں متزلزل ہوں؟ انہوں نے کہا: "اس سوال کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ ہاں؛ کیونکہ مکالمہ امن کی طرف پہلا قدم ہے۔ امن ایک مسلسل عمل ہے، کوئی ایک وقتی واقعہ نہیں۔ ہمیں مکالمے میں حصہ لینا چاہیے، مشترکہ بنیادیں تلاش کرنی چاہئیں، اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہیے، اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرنی چاہیے، تاکہ ہم ایک عادلانہ اور پائیدار امن تک پہنچ سکیں۔"
عالمی مکالمے میں تبدیلی
عالمی مزکر برای تقریب مذاہبِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ عالمی پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے سب سے پہلے عالمی مکالمے کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ نفرت، شناخت کے انکار اور یکطرفہ رویّوں پر مبنی گفتمانوں کی جگہ رحمت، ثقافتی تکثّر اور کثیرالجہتی پر مبنی گفتمان لینے چاہیئیں۔ فکری اور اخلاقی گفت وگو کے بغیر سیاسی تبدیلیاں دیرپا نہیں ہو سکتیں۔ انہوں نے کہا: "ہمیں چاہیے کہ اپنی سیاسی اور عملی کاوشوں کو عقل و انصاف کی بنیاد پر استوار کریں۔ وہ عمل جس کے پیچھے فکر یا اخلاق موجود نہ ہو، پائیدار نہیں رہ سکتا۔ جہالت اور تعصب پائیدار امن کے بڑے دشمن ہیں۔ جب انسانیت بیدار ہوگی اور نسلی و فرقہ وارانہ تعصب کو چھوڑ دے گی، تب عادلانہ امن کے لیے راستہ ہموار ہوگا۔" انہوں نے واضح کیا کہ یہ اقدامات اکیلے کافی نہیں ہیں اور مزید کہا: "صرف گفت وگو امن کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ ہمیں ایسے عملی میکانزم کی ضرورت ہے جو موثر ہوں۔ سب کہتے ہیں کہ ہمیں عمل کرنا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے؟ معصوم لوگوں کے قتلِ عام کو ان مجرموں کے مقابلے میں کیسے روکا جائے جو براہِ راست بےگناہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں؟ جب دنیا کے جابرانہ حکمران ظالموں کی پشت پناہی کر رہے ہوں تو ہم عورتوں اور بچوں کا تحفظ کیسے کریں؟"
قدرت کے ساتھ امن
انہوں نے دو عملی اصولوں پر زور دیتے ہوئے کہا: اول: امن، طاقت کے بغیر پائیدار نہیں رہ سکتا۔ اگر ہم حقیقتپسند بننا چاہتے ہیں، محض آرمانگرا نہیں، تو سمجھنا ہوگا کہ امن صرف خواہشات اور باتوں کے سہارے قائم نہیں رہ سکتا۔ بازدار قوت کے بغیر امن کمزور رہتا ہے۔ ایسی بازدارندگی کے لیے سخت طاقت اور نرم طاقت دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب مجرم سخت طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو لازمی ہے کہ ہم بھی طاقت کے ذریعے ان کا مقابلہ کریں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دشمن بیانیوں کو بھی بگاڑ دیتا ہے۔ ہم سخت طاقت سے اپنی سرزمین کا دفاع تو کر سکتے ہیں، لیکن دلوں اور ذہنوں کو اسلحے سے نہیں جیت سکتے۔ دلوں اور ذہنوں کو جیتنے کے لیے نرم طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ نرم طاقت میں شامل ہے: سیاسی طاقت جو مکالمہ ممکن بناتی ہے، اقتصادی طاقت جو غربت سے بچاتی ہے، اخلاقی طاقت جو انسانی ضمیر کو بیدار رکھتی ہے، ادارہ جاتی طاقت جو معاشرے کو منظم کرتی ہے، روحانی طاقت جو نیک انسانوں کے ایمان کو مضبوط کرتی ہے۔
ہمیں سخت اور نرم طاقت کے درمیان توازن کی ضرورت ہے۔
دوم: سخت اور نرم دونوں طاقتوں کو اخلاقی طور پر قابو میں ہونا چاہیے، ورنہ وہ اپنے الٹ روپ میں بدل جاتی ہیں۔ صرف وہی لوگ ایسی طاقت کو صحیح طور پر استعمال کر سکتے ہیں جو روحانیت اور اخلاقی صداقت رکھتے ہوں۔ طاقت کا مقصد خدمت ہے، غلبہ نہیں۔ اخلاقی و انسانی نقطۂ نظر میں طاقت کا مقصد دوسروں پر حکومت کرنا نہیں، بلکہ تشدد کو روکنا اور انصاف کا تحفظ کرنا ہے۔ طاقت اگر اخلاق سے خالی ہو تو جنگ کا سبب بنتی ہے۔ بااختیار اور جائز طاقت مظلوم کی حفاظت کرتی ہے اور انتقام کے چکر کو روکتی ہے۔ ایسی طاقت صرف بہادر، دیندار اور اخلاقمدار قیادت کے تحت ممکن ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا: "پائیدار اور عادلانہ امن کے لیے دو بنیادی عناصر ضروری ہیں: (1) سمجھوتے اور باہمی فہم کے لیے مکالمہ، (2) ظلم کے مقابلے میں مزاحمت اور جھوٹے بیانیوں کا جواب دینے کے لیے متوازن نرم طاقت کی تشکیل۔"[1]
تصویری جہلکیاں
-
کانفرنس کی تصویر (1)
-
کانفرنس کی تصویر (2)
-
کانفرنس کی تصویر (3)
-
کانفرنس کی تصویر (4)
-
کانفرنس کی تصویر (5)
-
کانفرنس کی تصویر (6)
متعلقه تلاشیں
حواله جات
- ↑ حقیقی امن سخت اور نرم طاقت کے درمیان توازن سے پیدا ہوتا ہے، عالمی فورم برائے قربت اسلامی کی ویب سائٹ(زبان فارسی) درج شده تاریخ: 11/ نومبر/2025ء اخذشده تاریخ: 14/نومبر/2025ء