موسی مبرقع
| موسی مبرقع | |
|---|---|
![]() | |
| نام | ابواحمد موسی بن محمد (موسی مُبَرقَع) |
| جائے ولادت | مدینہ |
| شهادت | ۲۲/ ربیع الثانی ۲۹۶ھ |
| القاب |
|
| کنیت | ابو جعفر ، ابو احمد |
| والد ماجد | امام محمد تقی علیہ السلام |
| والدہ ماجدہ | سمانہ مغربیہ |
| اولاد |
|
| مدفن | قم ایران |
موسی مبرقع حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام، امام محمد تقی علیہ السلام کے فرزند اور امام علی نقی علیہ السلام کے بھائی تھے۔ آپ واجب التعظیم امامزادہ، عالمِ باعمل اور ساداتِ برقعی کے جدِ امجد ہیں، جنہوں نے شہرِ قم میں علم، تقویٰ اور خدمتِ اہلِ بیتؑ کی روشن مثال قائم کی۔ امام زادہ حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام شہر قم کے واجب التعظیم امامزادوں میں سے ایک ہیں۔ آپ اہلِ علم تھے اور آپ نے امام محمد تقی جواد علیہ السلام سے احادیث و روایت نقل کی ہیں۔ آپ کو ’’مُبَرقّع‘‘ (یعنی نقاب پوش) اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے چہرے کو نقاب سے ڈھانپتے تھے [1]۔
اسلام کی خاطر دور دراز علاقوں کا سفر
حقیقی اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں جہاں لسانی اور قولی ہدایت کا انتظام کیا گیا ہے وہیں معصوم سیرت و کردار کے ذریعہ عملی ہدایت و رہبری کا بھی اہتمام کیا گیا ہے، خداوند عالم نے قرآن مجید جیسی آفاقی کتاب کے ہمراہ اہل بیت اطہارعلیہم السلام کی معصوم سیرت بھی بندوں کے اختیار میں دی ہے تاکہ تشنگان علم و ہدایت ان دونوں سے وابستہ ہو کر اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکیں۔ معصومین علیہم السلام نے ہر موقع پر لوگوں کی ہدایت کا خیال رکھا اور جب جہاں ضرورت ہوئی، اپنی قیمتی جان داؤ پر لگا کر بھی لوگوں کو سیدھے راستے کی ہدایت فرمائی۔
لوگوں کی ہدایت و رہبری کے سلسلے میں یہ حساسیت صرف معصومین علیہم السلام سے مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے واقعی اصحاب و انصار اور اس خانوادۂ عصمت و طہارت کے چشم و چراغ بھی لوگوں کی ہدایت کے سلسلے میں بہت زیادہ حساس تھے، انہوں نے بھی اپنی ہر ممکنہ کوشش کرکے دنیا کے گوشہ و کنار میں حقیقی اسلام کی تبلیغ کی اور اس سلسلے میں دور دراز علاقوں کے سفر سے بھی دریغ نہیں کیا۔
جن امامزادوں نے اسلام کی خاطر دور دراز علاقوں کا سفر کیا ان میں حضرت موسیٰ مبرقع کا نام نامی بھی آتا ہے، لہذا ضروری ہے کہ ان کی حیات و خدمات سے قدرے آشنائی حاصل کی جائے۔پیدائش اور ابتدائی حالات حضرت موسیٰ مبرقع نویں تاجدار ولایت و امامت حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے فرزند ارجمند اور امام علی نقی علیہ السلام کے چھوٹے بھائی ہیں، آپ کی والدہ حضرت سمانہ مغربیہ ہیں جو امام ہادی علیہ السلام کی بھی والدۂ گرامی ہیں ، آپ کی ولادت ۲۱۴ھ کو مدینہ منورہ میں اپنے بھائی امام علی نقی(ع) کی ولادت کے دو سال بعد ہوئی [2]۔
آپ کا اخلاق
بعض تاریخوں میں ملتاہے کہ آپ اخلاق و کردار کے اعتبار سے اپنی والدہ جناب سمانہ مغربیہ سے بہت زیادہ مشابہ تھے آپ کی والدہ کا زہد و تقویٰ اور اخلاق و کردار مشہور تھا ، ان کے زہد و تقویٰ اور عظمت و کردار کے سلسلے میں امام ہادی علیہ السلام کا یہ جملہ ہی کافی ہے؛ آپ فرماتے ہیں:"میری والدہ میرے حق سے واقف اور اہل بہشت میں سے تھیں، سرکش شیطان ان کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتا، کسی معاند ظالم کا حیلہ ان پر کارگر نہیں ہوسکتا ، خدا ان کا محافظ و نگہبان ہے، صدیقین و صالحین کی ماؤں سے پیچھے نہیں ہیں" [3] ۔اس عنوان سے حضرت موسیٰ مبرقع کی شخصیت اور اخلاق و کردارکی عظمت کا اندازہ لگانا کوئی آسان کام نہیں۔
قم کی طرف ہجرت
حضرت موسیٰ مبرقع اپنے والد گرامی کی شہادت تک مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہے پھر شہادت کے بعد کوفہ چلے گئے ، وہاں کچھ دن قیام کرنے کے بعد قم المقدسہ کی جانب روانہ ہوگئے [4]۔ قم المقدسہ میں اس وقت جدید الورود افراد کے لئے بہت سخت ہوتا تھا، قم والے ہر ایک کو قبول نہیں کرتے تھے چنانچہ آپ کی عظمت و جلالت سے عدم واقفیت کی بنا پر جب لوگوں نے قم سے آپ کو نکال دیا تو آپ کاشان چلے گئے ، وہاں کے حاکم عبد العزیز بن ابی دلف نے آپ کا بہت احترام و اکرام کیا۔
اس نے آپ کو اچھے اچھے لباس اور سواری وغیرہ سے نوازا اور سرکاری تنخواہ بھی مقرر کردی۔(۵) جب ان کی عظمت و جلالت آس پاس کے علاقوں میں مشہور ہوئی تو قم والوں کو اپنے کئے کی غلطی کا احساس ہوا اور ان سے قم واپس آنے کی گزارش کی [5]۔
ایک دوسری روایت یہ ہے کہ جب جناب موسی ٰ کو قم سے نکال دیا گیا تو کچھ دنوں بعد وہاں حسین بن علی بن آدم اور عرب کے کچھ رؤسا تشریف لائے اور جب انہیں اس واقعہ کی تفصیل معلوم ہوئی تو قم والوں کو بہت سرزنش کی اور قم کے بعض بزرگوں کو کاشان روانہ کیا تاکہ انہیں احترام و اکرام کے ساتھ قم واپس لائیں، چنانچہ انہوں نے ان کا بہت سے زیادہ اکرام کیا، ان کے لئے سواری کا انتظام کیا، قم واپس آنے کے بعد ان کے لئے مکان مہیا کیا اور ان کے لئے بہت ساری زمینیں خریدیں۔ قم کی اقامت کے دوران لوگ ان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے [6]۔
حدیثی اعتبار سے، آپ کی عظمت
حضرت موسیٰ مبرقع علم حدیث کے ساتھ ساتھ علم درایہ میں برجستہ اور معروف تھے، آپ کا شمار عظیم راویوں میں ہوتا ہے؛ چنانچہ شیخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں، شیخ مفید نے اپنی کتاب الاختصاص میں، ابن شعبہ حرانی نے اپنی کتاب تحف العقول میں آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں [7]۔ آپ کی علمی عظمت و جلالت کا اندازہ اس جہت سے لگایا جاسکتاہے
کہ جب قاضی القضات یحیی بن اکثم کو چند مسائل درپیش ہوئے اور ان کے جواب سے وہ عاجز رہے تو انہوں نے ان سوالات و مسائل کے جواب کے لئے حضرت موسیٰ مبرقع کو خط لکھا اور آپ نے ان کا جواب ارسال کیا [8]۔ زرکلی نے اپنی کتاب "الاعلام ” میں لکھا ہے کہ امام محمد تقی کے فرزند موسیٰ مبرقع کا شیعوں کے بزرگ علماء میں شمار ہوتاہے [9]۔
لقب مبرقع
آپ کے القاب میں سے سب سے زیادہ مشہور لقب "مبرقع ” ہے ، اس کی وجہ ایک یہ بتائی گئی ہے کہ آپ ہمیشہ نقاب پوش رہتے تھے اور آپ کا چہرہ ہمیشہ نقاب سے ڈھکا رہتا تھا۔ مبرقع کہنے کی ایک دوسری وجہ یہ تھی کہ آپ کو جب قم سے نکالا گیا تو آپ نے قم سے نکلنے کے لئے نقاب کا سہارا لیا اور چہرے پر نقاب ڈال کر قم سے باہر نکل گئے [10]۔
رضوی سادات کے جد امجد
حضرت موسیٰ مبرقع کو رضوی سادات کا جد امجد سمجھا جاتا ہے ، آج ایران ، ہندوستان ، پاکستان ، افغانستان اور عراق و شام میں مقیم بہت سے رضوی سادات انہیں سے منسوب ہیں [11]۔
آپ کی اولاد
تاریخ کے مطابق آپ کے دو بیٹے تھے، ایک کا نام احمد تھا اور دوسرے کا محمد، یہ دونوں اپنے والد کے پہلو میں مدفون ہیں۔
سادات کے جد امجد
حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام رضوی سادات کے جدِّ امجد ہیں اور مشہور ہے کہ قم اور رَی کے اطراف کے ساداتِ بُرقعی انہی کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کا مزار مبارک قم کے محلہ چہل اختران میں واقع ہے۔ امامزادہ موسیٰ مبرقع علیہ السلام صاحبِ کرامات و فضائلِ کثیرہ تھے۔ بے شمار زائرین نے ان کے در سے اپنی حاجتیں اور مرادیں پائی ہیں۔ ان کی کرامات میں مریضوں کو شفا دینا، حاجات کی برآوری، بلاؤں اور مشکلات کا دُور ہونا شامل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آپ اس لئے ہمیشہ نقاب پہنتے تھے تاکہ پہچانے نہ جائیں اور اسی وجہ سے آپ کو ’’مبرقع‘‘ کہا گیا۔ بعض روایتوں کے مطابق آپ کا چہرہ حضرت یوسف علیہ السلام کے مانند بے حد حسین تھا کہ جب آپ بازار سے گزرتے تو لوگ اپنی دکانیں چھوڑ کر آپ کے چہرے کو دیکھنے لگتے، لہٰذا آپ نے نقاب اوڑھنا شروع کیا تاکہ کسی کے لئے مشکل کا سبب نہ بنیں۔
امام محمد تقی جواد علیہ السلام سے روایت منقول ہے کہ جو شخص حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام کی زیارت کرے، اسے امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کا ثواب ملے گا۔ حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام (امام جوادؑ) کے دوسرے فرزند تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سمانہ سلام اللہ علیہا تھیں۔ آپ سن 214 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور خانوادہ امامت میں پرورش پائی۔
جب 220 ہجری میں امام محمد تقی علیہ السّلام کو بغداد بلایا گیا اور آپؑ وہاں شہید ہو گئے تو اُس وقت حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام کی عمر تقریباً 6 سال تھی۔ والد ماجد کی شہادت کے بعد آپ اپنے بڑے بھائی امام علی نقی علیہ السلام کی سرپرستی میں فکری اور روحانی کمال تک پہنچے۔ حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام اپنے بھائی کے مطیع و فرمانبردار تھے اور ان سے خالصانہ ارادت رکھتے تھے۔
شیعہ محدثین نے آپ کی وثاقت اور اعتماد کی تصدیق کی ہے اور آپ سے متعدد روایات نقل کی ہیں۔ جب عباسی حکومت کا ظلم و جبر کچھ کم ہوا تو حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام سن 256 ہجری میں قم تشریف لائے۔ قم میں آپ کو اصحابِ ائمہؑ، شیعہ رہنماؤں اور مؤمنین کی جانب سے بے حد محبت و احترام ملا۔
آپ نے قم میں 40 سال قیام فرمایا اور اس دوران اہلِ قم، علماء اور بزرگوں کی جانب سے ہمیشہ عزت و تکریم پاتے رہے۔ بالآخر آپ 22 ربیع الثانی 296 ہجری کو 82 سال کی عمر میں وفات فرما گئے۔ آپ کا جنازہ شیعیانِ قم نے نہایت شان و شوکت کے ساتھ اٹھایا اور آپ کو آپ ہی کے گھر میں دفن کیا گیا۔
حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی، جان، مال اور عزت و آبرو کو اپنے امام اور برادر بزرگ امام علی نقی علیہ السلام کی ولایت کے دفاع کے لئے وقف کر دیا اور امام علی نقی علیہ السّلام کے حکم سے آپ نے قم کی جانب ہجرت کی۔
حضرت موسی مبرقع علیہ السلام واجب التعظیم امامزادہ، قابلِ اعتماد عالم و راوی تھے۔ شیعہ علماء اور محدثین نے آپ سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں۔ آپ نے اپنی پوری بابرکت زندگی میں اپنے والد امام محمد تقی علیہ السلام اور بھائی امام علی نقی علیہ السّلام کی اطاعت کی اور اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
حضرت ابو احمد سید موسیٰ مبرقع علیہ السلام نے شہرِ قم کو اپنی قیام گاہ کے طور پر منتخب کیا اور وہاں دینی، ثقافتی اور تبلیغی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے اپنی اولاد کے ہمراہ مکارمِ اخلاق کو فروغ اور اہلِ بیت علیہم السلام کی ثقافت کو قم اور اس کے اطراف میں عام کیا۔ اسی طرح آپ نے سماجی تعلقات اور قبائل و اقوام کے باہمی روابط میں بھی مؤثر کردار ادا کیا۔
حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام کی نسل کے بعض افراد کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک کے متولی، نیز دیگر روضوں، مساجد اور اوقاف کے انتظامات کے ذمہ دار رہے ہیں۔ اس خاندان کے بزرگان نے تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں قم، کاشان، آوہ (آبه) اور ان کے نواحی علاقوں میں نقابتِ سادات کی ذمہ داری سنبھالی تھی، نیز منصبِ امیرالحاج بھی انہی کو سپرد کیا گیا تھا۔ اہلِ قم نے ان کی دینی، تبلیغی اور سماجی قیادت کو دل و جان سے تسلیم کیا تھا۔
قم کے روضوں اور مساجد، نیز مشہدِ اردہال جیسے مقامات کی تولیت کے فرامین بعد کی صدیوں میں بھی — مثلاً دورانِ تیموریہ، صفویہ اور قاجاریہ — انہی سادات کے نام پر جاری ہوتے رہے، جن کے دستاویزی شواہد آج بھی موجود ہیں۔ ان حضرات نے دیگر مذہبی مناصب بھی سنبھالے، جن میں امامتِ جماعت اور تبلیغ و خطابت بھی شامل ہیں[12]۔
امامزادہ حضرت موسیٰ مبرقع (ع): ایران کا وہ مقدس روضہ، جہاں اہلسنت زائرین بھی آتے ہیں
آستان مقدس امامزادہ موسی مبرقع (ع)قم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا: بعض ہندوستانی اور پاکستانی سادات جو اس امامزادہ سے منسوب ہیں، اہل سنت مذہب کے پیروکار ہیں اور وہ اب بھی ان کی زیارت کے لیے قم آتے ہیں۔
حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، آستان مقدس امامزادہ موسی مبرقع (ع) قم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر حجت الاسلام سید رضا صدر نے امامزادہ موسی مبرقع (علیہ السلام) کے حرم کی غبارروبی کی تقریب میں گفتگو کے دوران کہا: یہ عظیم المرتبت امامزادہ حضرت امام تقی الجواد علیہ السلام کے بلافصل فرزند ہیں اور ان کی والدہ محترمہ حضرت سمانہ مغربیہ تھیں یعنی یہ امام نقی علیہ السلام کے بھائی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: حضرت موسی مبرقع (ع) کی ایک نمایاں خصوصیت جو تاریخی حوالوں میں ذکر کی گئی ہے، ان کا وہ مقام و مرتبہ ہے جو حضرت امام تقی علیہ السلام نے انہیں دیا تھا، یعنی موقوفات کی سرپرستی، جس کے لیے تقویٰ اور پرہیزگاری دو اہم صفات لازم ہوتی ہیں۔
حجت الاسلام سید رضا صدر نے مزید کہا: حضرت امام جواد علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام ہادی علیہ السلام نے موسی مبرقع علیہ السلام کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کی۔ اسی وجہ سے، موسی مبرقع علیہ السلام شیعہ احادیث کے بڑے راویوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا: امام ہادی علیہ السلام کے حکم پر موسی مبرقع علیہ السلام کوفہ گئے اور کچھ عرصے بعد اپنے جد بزرگوار امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لیے ایران روانہ ہوئے لیکن شیعہ محدثین اور راویوں کے مطابق وہ اس وقت کے حالات کے مطابق قم شہر میں ہی سکونت پذیر ہو گئے۔
آستان مقدس امامزادہ حضرت موسی مبرقع علیہ السلام قم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا: حضرت موسی مبرقع علیہ السلام کی روزانہ حرم حضرت معصومہ (س) کی زیارت اور حرم مطہر کا کلید بردار ہونا ان کی نمایاں خدمات میں شامل ہیں۔ ان کے دو بیٹے تھے، جن میں سے ایک "سید احمد علیہ السلام" ہیں جو شہر کاشان میں دفن ہیں۔ مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی (رح) کے مطابق تمام سادات رضوی، تقوی، نقوی اور برقعی اور جو سادات بھی امام رضا علیہ السلام سے منسوب ہیں، وہ انہی کی نسل سے ہیں۔
انہوں نے کہا: ہندوستانی اور پاکستانی سادات بھی موسی مبرقع علیہ السلام سے منسوب ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دو ممالک سے بیسیوں زائرین بھی اس مرقد مقدس کی زیارت کے لیے قم آتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: بعض سادات جو اس مقام مقدسہ کی زیارت کے لیے آتے ہیں، وہ اہل سنت سے ہیں اور حضرت موسی مبرقع علیہ السلام کی زیارت کے لیے قم آتے ہیں۔ حجت الاسلام سید رضا صدر نے آسٹریلوی، چینی سادات اور بعض بصرہ کے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: یہ لوگ بھی حضرت موسی مبرقع علیہ السلام سے منسوب ہیں[13]۔
وفات
آپ کی وفات ۲۲/ربیع الثانی ۲۹۶ ھ کو شب چہار شنبہ میں ہوئی ، آپ کی تدفین چہل اختران میں ہوئی ہے [14]۔ بعض علماء نے آپ کی تاریخ وفات ۸ / ربیع الثانی اور بعض دوسرے علماء نے ۱۴/ ربیع الثانی بھی قلمبند کی ہے [15]۔ لیکن ۲۲/ ربیع الثانی کی تاریخ زیادہ مشہور ہے۔
چہل اختران
قم میں آذر نامی روڈ پر ایک مزار واقع ہے جسے چہل اختران کہتے ہیں ۔ جناب موسیٰ مبرقع نے قم میں سکونت اختیار کی تو آپ کی تین بہنیں” زینب، ام محمد اور میمونہ” بھی آپ کے ہمراہ رہنے لگیں اور ان کی وفات بھی قم ہی کی سرزمین پر ہوئی اور یہیں پر ان کی تدفین عمل میں آئی، جہاں پر حضرت موسیٰ کا مزار ہے اسے چہل اختران کہا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ۴۰/ سیدانیاں مدفون ہیں، ان کے ہمراہ کچھ بچے اور مرد حضرات بھی مدفون ہیں۔
اس مزار کو شاہ تہماس صفوی نے ۹۵۰ ھ میں تعمیر کروایا اور نقش و نگاری کے ذریعہ اسے دیدہ زیب بنایا، آج دنیا کے گوشہ و کنار سے لوگ اس کی زیارت کے لئے تشریف لاتے ہیں اور معنوی اور دنیاوی فیضان سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ ترجمہ: مولانا سید علی ہاشم عابدی
- ↑ بحار الانوار ، علامہ مجلسی ج۵۰ ص ۱۲۳
- ↑ سفینۃ البحار ، مادۂ علی کے ذیل میں؛ منتہی الآمال، شیخ عباس قمی، حالات امام علی نقی کے ذیل میں
- ↑ تاریخ قم ،ص ۱۰۵
- ↑ تحف العقول، ابن شعبہ حرانی ، ص ۴۷۶؛ مسند الامام الجواد ، عطاردی ، ص ۸۴
- ↑ بحار الانوار، علامہ مجلسی ج۵۰ ص ۱۹۳
- ↑ تہذٰب الاحکام، شیخ طوسی ، ج۹ ص ۳۵۵؛ الاخصاص، شیخ مفید ص ۹۱؛ تحف العقول، حرانی ص ۴۷۶
- ↑ تہذٰیب الاحکام ، شیخ طوسی ، ج۹ ص ۳۵۵
- ↑ الاعلام ، زرکلی ، ج۷ ص ۳۲۷
- ↑ تاریخ قم ، علی بن حسین قمی، ص ۱۰۵
- ↑ مستدرک الوسائل کے علاوہ دوسری کتابوں میں بھی یہ بات موجود ہے
- ↑ حضرت موسیٰ مبرقعؑ: امام محمد تقیؑ کے فرزند اور ساداتِ رضوی کے جدِّ امجد- شائع شدہ از :14 اکتوبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 اکتوبر 2025ء
- ↑ امامزادہ حضرت موسیٰ مبرقع (ع): ایران کا وہ مقدس روضہ، جہاں اہلسنت زائرین بھی آتے ہیں- شائع شدہ از: 21 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 اکتوبر 2025ء
- ↑ تاریخ قم ، ص ۲۱۶
- ↑ بحار الانوار: ج 57، ص 220. مستدرک سفینه البحار: ج 5، ص 230
