مندرجات کا رخ کریں

مسلم بن عقیل

ویکی‌وحدت سے
مسلم بن عقیل
تاریخ ولادت20 ہجری
جائے ولادتمدینہ
شهادت60 ہجری
والد ماجدعقیل ابن ابو طالب
والدہ ماجدہام لیلی
مدفنکوفہ عراق

مسلم بن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابو طالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو خطوط بھیج کر کوفہ آنے کی دعوت دی تو انھوں نے مسلم ابن عقیل کو صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ روانہ کیا۔ وہاں پہنچ کر انہیں صورت حال مناسب لگی اور انھوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے مسلم بن عقیل اور ان کے دو کم سن فرزندوں کو شہید کروا دیا۔ ان کی پرورش علم و تقویٰ کے مرکز اور وحی کے گھر میں ہوئی۔ آپ کے چچا ، امیر المومنین علیہ السلام نے آپ کو اپنی ذہانت اور وسیع علم سے تعلیم دی۔ آپ جنت کے جوانوں کے سردار امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مسلسل رہتے تھے اور آپ ان کے طرز عمل سے متاثر تھے اور ان کی مثالی شخصیت آپ کے دل و دماغ میں نقش ہو گئی تھی۔ مسلم بن عقیل قیام حسینی کا پہلا علمبردار تھا جس نے کوفہ کے لوگوں تک شہداء امام حسین علیہ السلام کا پیغام پہنچانے اور ان کی بیعت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ تاہم جب عبید اللہ ابن زیاد نے اپنی صفوں میں خوف و ہراس پیدا کیا تو کوفہ والے جلدی سے پیچھے ہٹ گئے اور مسلم کو تنہا چھوڑ دئیے۔

مسلم بن عقیل کا پاکیزہ خاندان

ابو طالب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور مکہ اور قبیلہ بنو ہاشم کے بزرگ تھے ، ان کے چار بیٹے تھے: عقیل ، طالب، جعفر اور علی علیہ السلام۔ مسلم عقیل کے بیٹے تھے اور عقیل ابو طالب کے بڑے بیٹے تھے ۔ چنانچہ مسلم ابن عقیل علی ابن ابی طالب (ع) کے بھتیجے اور سید الشہداء (ع) کے چچازاد بھائی تھے۔ اس خاندان کے تمام افراد کی طرح جو شریف، سخی، بہادر، پاکیزہ اور شریف النفس تھے، وہ بھی بہترین انسانی صفات کے مالک تھے اور بنو ہاشم کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار شخصیت میں شمار ہوتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اور ان کے والد کی تعریف کی۔ عقیل اور ان کے والد کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک تقریر میں انہوں نے مسلم کی تعریف بھی کی اور علی علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "ان کا بیٹا (مسلم) آپ کے بیٹے سے محبت کی وجہ سے شہید ہو جائے گا، مومنین ان کی شہادت پر روئیں گے اور خدا کے مقرب فرشتے اس پر درود بھیجیں گے [1]۔

مسلم ابن عقیل کی سوانح عمری کا خلاصہ

مسلم، عقیل کے بیٹے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دس سال بعد 20 ہجری میں پیدا ہوئے۔ اس لیے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو درک نہ کرسکا، کیونکہ آپ کی شہادت (60ھ) کے وقت آپ کی عمر 40 سال سے زیادہ نہیں تھی، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے 60 ہجری تک 50 سال گزر چکے تھے۔

مسلم بن عقیل تینوں اماموں (امام علی، امام حسن اور امام حسین) کے ہم عصر تھے اور ان بزرگوں کی موجودگی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کی امامت کے دوران آپ نے اپنے امام کے مقاصد کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور 9 ذی الحجہ ( یوم عرفہ ) کو عبید اللہ بن زیاد کے حکم پر شہید ہوئے۔ اس وقت وہ امام حسین علیہ السلام کے سفیر کے طور پر شہر کوفہ آیا اور سخت جدوجہد کے بعد عبید اللہ بن زیاد کے حکم پر گرفتار کر کے شہید کر دیا گیا۔ شہر کوفہ میں اس بزرگ کا مزار شریف اہل بیت کے عقیدت مندوں کی زیارت گاہ ہے۔

مسلم عقیل ابن ابی طالب کے بیٹے اور ان کی اولاد میں سب سے زیادہ کامل ہیں۔ عقیل حضرت علی (ع) کے بھائی اور ابو طالب (ع) کے دوسرے بیٹے ہیں [2]۔ چنانچہ ان کی پرورش ابو طالب اور ان کی اہلیہ فاطمہ بنت اسد نے ایک ثالث کے ذریعے کی۔

مسلم بن عقیل کی پیدائش سنہ 20 ہجری میں ہوئی، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دس سال بعد۔ اس لیے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو نہیں سمجھا۔ کیونکہ آپ کی شہادت کے وقت (سن 60 ہجری) آپ کی عمر 40 سال سے زیادہ نہیں تھی، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے 60 ہجری تک 50 سال گزر چکے تھے ۔

مسلم بن عقیل تینوں اماموں (امام علی، امام حسن اور امام حسین) کے ہم عصر تھے اور ان بزرگوں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس کی ماں کا نام حلیہ تھا، ایک کنیز جسے عقیل نے شام سے خریدا تھا ۔ ان کی بیوی رقیہ، امیر المومنین علی (ع) کی بیٹیوں میں سے تھی [3]۔ اس لیے انہیں امام علی علیہ السلام کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

مسلم ابن عقیل کے نام اور القاب

اس کا نام امام مسلم ہے، اور امام حسین (ع) نے اسے امام مسلم کے ذریعے کوفیوں کو بھیجے گئے خط میں ثقہ قرار دیا ہے۔ اس خط میں امام علیہ السلام لکھتے ہیں: "میں آپ کے پاس ایک ایسے شخص کو بھیج رہا ہوں جسے میرے اہل بیت کا بھائی، چچا زاد اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔"

ان کی زیارت نامہ میں ایک لفظ کا ذکر ہے جو ان کے لقبوں میں سے ہو سکتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے: " السلام علیک ایّها العبدالصالح" اے صالح بندے، تجھ پر سلام ہو... اس لیے "عبد صالح" ان کے لقبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے

مسلم بن عقیل کے بچوں کے نام

تاریخی کتابوں میں مسلم ابن عقیل کے کئی بیٹوں اور بیٹیوں کا ذکر ہے جن میں سے چار واقعہ کربلا اور اس کے بعد شہید ہوئے ۔ بیان کیا گیا ہے کہ مسلم کے دو بیٹے عبداللہ اور محمد کربلا میں شہید ہوئے [4]۔ ۔ عبداللہ کی والدہ رقیہ الکبری تھیں ، جو امام علی علیہ السلام کی بیٹی تھیں [5]۔ اور محمد کی والدہ ایک کنیز تھیں [6]۔

قدیم مآخذ میں ان میں سے صرف چار، پانچ یا سات ناموں کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی: عبداللہ، محمد، علی، مسلم، حمیدہ (عاتکہ)، ابراہیم اور عبدالرحمٰن [7]۔

مسلم بن عقیل کے فضائل

خاندان

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کا بیٹا ہے جس کی پرورش ابو طالب (علیہ السلام) جیسے کسی نے کی ہے اور اسے امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہے اور انسان کی پرورش اور نشوونما پر ان دونوں کے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

معصومین کا کلام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا: ان کا بیٹا (عقیل) آپ کے بیٹے کی محبت کی وجہ سے مارا جائے گا، مومنین کی آنکھیں اس کے لیے آنسو بہائیں گی اور ان کے مقرب فرشتے اس پر درود بھیجیں گے [8]۔

امام حسین علیہ السلام نے کوفیوں کو بھیجے گئے خط میں لکھا: "میں آپ کے پاس ایک ایسے شخص کو بھیج رہا ہوں جو میرے اہل بیت کا بھائی، چچا زاد اور قابل اعتماد فرد سمجھا جاتا ہے"[9]۔

امام علیہ السلام کی اس تقریر میں مسلمانوں کے لیے اعزازات ہیں جن میں یہ شامل ہیں:

بھائی: امام (ع) نے ان سے اخوت کو منسوب کیا ہے، اگرچہ وہ امام کے نسبی اور سگا بھائی نہیں تھے، لیکن وہ اتنے وفادار تھے کہ امام حسین (ع) کے بھائی کے لقب کے مستحق تھے۔ مورد اعتماد: اگر امام مسلم کے بارے میں صرف یہ ایک جملہ کہہ دیتے تو ان کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتا۔ میرے اہل بیت: یہ قول سلمان فارسی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ملتا جلتا ہے کہ: " سلمان منا اهل البیت"۔ سلمان میرے اہل بیت میں سے ہے [10]۔

مسلم بن عقیل کی زیارت

مسلم ابن عقیل کی زیارت نامی میں بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں جن میں سے شاید سب سے اہم یہ جملہ ہے: "السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ، الْمُطِیعُ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِهِ وَ لِأَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ لِلْحَسَنِ وَ الْحُسَیْن" اے خدا اور اس کے رسول کے لائق اور فرمانبردار بندے اور وفاداروں کے سردار حسن و حسین علیہما السلام تم پر سلام ہو [11]۔

مسلم بن عقیل کی شہادت

مسلم بن عقیل کی شہادت کے طریقے کے بارے میں کہا جائے: اسے پکڑ کر دار الامارہ لے جانے کے بعد ابن زیاد نے بُکیر بن بن حمران [جو مسلم کے ساتھ جنگ میں زخمی ہوا تھا] کو حکم دیا کہ اس کے دل کو پرسکون اور ٹھنڈا کرنے کے لیے اسے قتل کرنے کا ذمہ لے۔ بُکیر اسے محل کی چوٹی پر لے گیا۔ مسلم بن عقیل نے تکبیر کہتے ہوئے استغفار کیا اور انبیاء اور فرشتوں پر درود بھیجا ۔

اس نے کہا: "اے اللہ، ہمارے اور اس گروہ کے درمیان جس نے ہم پر ظلم کیا، ہمیں جھٹلایا اور ہمیں مار ڈالا، تو فیصلہ کرو۔" جب وہ محل کی چوٹی پر پہنچے تو بکیر نے جناب مسلم کا سر کاٹ دیا اور آپ کی لاش کو چھت سے محل کے نیچے پھینک دیا۔ پھر وہ گھبرا کر عبید اللہ کے پاس واپس آیا اور کہا: "جب میں نے مسلم کو قتل کیا تو اچانک میں نے دیکھا کہ ایک سیاہ فام اور بدصورت آدمی میرے سامنے کھڑا ہے اور اپنی انگلیاں منہ میں پکڑے ہوئے ہے۔ میں نے اسے دیکھا تو بہت ڈر گیا!"

مسلم بن عقیل 9 ذی الحجہ 60 ہجری بروز بدھ کوفہ میں شہید ہوئے ۔ مسلم کا سر مبارک ہانی بن عروہ کے سر کے ساتھ شام بھیجا گیا ۔ یزید نے حکم دیا کہ انہیں دمشق کے ایک دروازے پر لٹکا دیا جائے ۔ اس کی لاش کو کوفہ کے قصائی بازار میں بھی زمین کے ساتھ گھسیٹا گیا اور پھر وہیں لٹکا دیا گیا [12]۔

حضرت مسلم بن عقیل کی قبر

کوفہ کی مسجد اعظم کے آگے اور اس کے جنوب مشرقی کونے میں عاشورہ کے پہلے شہید حضرت مسلم بن عقیل بن ابی طالب علیہ السلام کا مقدس مزار ہے ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے سنہ 60 ہجری میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو عراق میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا تھا۔ حضرت مسلم اسی سال 8 ذی الحجہ کو شہر کوفہ میں ایک غیر مساوی جنگ میں شہید ہوئے۔ مزار کے صحن میں چار دروازے ہیں جن میں سے تین کوفہ کی مسجد کی طرف لے جاتے ہیں اور چوتھا دروازہ گلی کی طرف ہے۔

مقبرہ (28 میٹر اونچا) پر ایک شاندار سنہری گنبد ہے۔ اس گنبد کی ہر اینٹ ڈھائی مثقال خالص سونے سے ڈھکی ہوئی ہے۔ ان اینٹوں کی تعداد (10315) ہے اور ہر اینٹ کا سائیڈ 20 سینٹی میٹر ہے۔ صحن کا رقبہ، جس میں ہانی ابن عروہ کی قبر بھی ہے ، (5344 مربع میٹر) ہے اور اس میں کئی کمرے ہیں۔

مقدس مزار کا رقبہ (19.6 مربع میٹر) ہے۔ اور مقدس مزار کے ساتھ ہی برآمدہ ہے۔ پورچ کی چھت آئینہ دار ہے اور اس کی دیواروں کو ٹائل کیا گیا ہے۔ حرم مقدس کے پیچھے مختار بن ابی عبیدہ الشقفی کی قبر ہے

ابتدائی حالات

امام حسین جب نے مسلم بن عقیل کو کوفہ جانے کا حکم دیا تو اس وقت وہ مکہ میں تھے۔ وہاں سے وہ مدینہ گئے جہاں انھوں نے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری دی پھر اپنے دو بیٹوں محمد اور ابراہیم جن کی عمریں سات اور آٹھ سال کی تھیں، کو لے کر کوفہ چلے گئے۔ کوفہ میں انھوں نے جناب مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر پر قیام کیا۔ کوفہ والوں نے ان کی بیعت شروع کی جن کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ گئی تھی کہ انہوں نے امام حسین کو خط لکھ دیا کہ کوفہ آنے کے لیے حالات سازگار ہیں۔ اس وقت کوفہ کا گورنر نعمان بن بشیر تھا۔

جب یہ خبر یزید تک پہنچی تو اس نے بصرہ کے عبید اللہ ابن زیاد کو پیغام بھیجا کہ وہ جلد کوفہ پہنچ کر نعمان بن بشیر کی جگہ حکمران مقرر ہوں اور مسلم بن عقیل کا سر کاٹ کر یزید کے پاس بھیجیں۔ ابن زیاد نے کوفہ پہنچ کر گورنری سنبھالی تو مسلم بن عقیل امیر مختار کے گھر سے صحابیِ رسول درود ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہو گئے۔ ابن زیاد نے فوج کو انھیں پکڑنے کے لیے بھیجا تو ہانی بن عروہ جن کی عمر اس وقت 90 سال تھی، نے اپنے مہمان کو حوالہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ہانی بن عروہ کو قید کر لیا گیا۔ اس پر بھی انھوں نے انکار کیا تو انھیں باندھ کر پانچ سو کوڑوں کی سزا دی گئی جس کے دوران میں جب وہ بے ہوش ہو گئے تو ان کا سر تن سے کاٹ کر لٹکا دیا گیا [13]۔

جنگ

جناب ہانی بن عروہ کی گرفتاری کے بعد مسلم بن عقیل باہر آ گئے اور جنگ شروع کی مگر آہستہ آہستہ سب کوفیوں نے ساتھ چھوڑ دیا حتیٰ کہ صرف تیس افراد ان کے ساتھ رہ گئے۔ مغرب کی نماز تک وہ بھی باقی نہ رہے۔ انھیں محمد ابن کثیر نے اپنے گھر میں پناہ دی۔ محمد ابن کثیر کے حمایتیوں کے ساتھ ابن زیاد کی فوج نے جنگ کی اور انھیں بھی شہید کر دیا۔ یہ دیکھ کر مسلم بن عقیل کوفہ سے باہر جانے کی کوشش کرنے لگے مگر شہر کے سب دروازے بند تھے۔

آپ نے ایک بوڑھی عورت سے پانی مانگا۔ جب انھوں نے بتایا کہ ان کا تعلق خاندانِ رسالت سے ہے تو اس عورت نے انھیں اپنے گھر میں پناہ دی۔ مگر اس عورت کے بیٹے طوعہ نے انعام کے لالچ میں مخبری کر دی۔ ابن زیاد نے تین ہزار فوج بھیجی تو مسلم بن عقیل گھر سے باہر آ کر لڑنے لگے اور بنو ہاشم کی تلوار بازی کے جوہر دکھائے۔ جب سینکڑوں لوگ ہلاک ہو گئے تو ابن زیاد کے سالار ابن اشعش نے اور فوج کا پیغام بھیجا۔ یہ سن کر ابن زیاد نے کہلا بھیجا کہ کیا ایک شخص کے لیے تین ہزار کی فوج بھی ناکافی ہے؟ تو ابن اشعش نے جواب بھجوایا کہ 'یہ کوئی بقال یا جولاہا نہیں بنو ہاشم کا چشم و چراغ ہے'۔ بعد میں ایک گڑھے میں مسلم بن عقیل کو دھوکے سے گرا کر گرفتار کر لیا گیا [14]۔

شہادت

جب مسلم کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے انھیں سزا دی کہ کوفہ کے دار الامارۃ کی چھت سے گرا دیا جائے۔ مسلم بن عقیل نے شہادت سے پہلے چند وصیتیں کیں جس کے بعد ان کو چھت سے گرا کر شہید کر دیا گیا۔ یہ واقعہ 9 ذوالحجۃ 60ھ کا ہے۔ شہید ہونے کے بعد ان کا سر کاٹ دیا گیا اور اسے یزید کو دمشق بھجوا دیا گیا اور جسم کو کوفہ کے قصابوں کے بازار میں دار پر لٹکا دیا گیا تا کہ کوفہ کے لوگ اب بنو ہاشم کی حمایت نہ کریں۔

بچوں کی شہادت

ان کی شہادت کے بعد ابن زیاد کے حکم سے ان کے دونوں کم سن بچوں کو جو قاضی شریح کے گھر میں چھپے ہوئے تھے، شہید کر دیا گیا۔ قاضی شریح نے کوشش کی کہ بچوں کو خفیہ طور پر مدینہ پہنچا دیا جائے مگر کامیابی نہ ہو سکی کیونکہ شہر کے تمام دروازے بند کر کے راستوں پر پہرہ بٹھا دیا گیا تھآ۔ ان بچوں کے بھی سر کاٹ لیے گئے تھے۔ ایک کا نام محمد اور دوسرے کا ابراہیم تھا۔

سفیر حسینی مسلم بن عقیل (ع) ہی کیوں؟

عصمت کی نیابت کا عظیم شرف پانے والا سفیر حسینی کے لقب سے ملقب سرکار سید الشہداء کا معتبر ترین بھائی بھی اور معتمد و موثق انسان جس کا نام‌ نامی اسم گرامی ہے حضرت مسلم بن عقیل علیہ السّلام شجاعت کو جس پر ناز ہے حکمت جس کی ہمراز ہے جرأت و شہامت جس کی آواز ہے جو گرجتا ہوا شیر نیستان حیدر ہےجو عفتوں کا اعتبار اور عصمتوں کا نگہبان ہے۔ جس کی فضیلت کے لیے حسین ابن علی ع کے دہن عصمت سے نکلے ہوے الفاظ قیامت تک کے لیے سند فضیلت ہیں کتاب کربلا کی تمہید، سانحہ نینوا کا خلاصہ، مقصد ارض کربلا کا اولین شھید، راہ حق کا عظیم مجاہد لشکر حسینی کے ہر اول دستہ کا بہترین غازی و دلیر جس پر نظر انتخاب حسین ابن علی علیہ السّلام جا کر ٹھہر گئی۔

مگر یہ سوال بھی ذہن انسانی میں گردش کرتا ہے کہ عصمتوں کے ہوتے ہوے اور شجاعتوں کی موجودگی میں کوفہ کے لیے مسلم ہی کو عہدہ سفارت پر فایز کیوں کیا گیا اگر مقام سفارت کے لیے عصمت ضروری ہوتی تو سید سجاد کا انتخاب عمل میں آتا اور اگر بے پناہ شجاعت کی ضرورت تھی تو عباس ابن علی ع کو سفیر بنایا جاتا، نو عمری اور نو جوانی کو ملحوظ نظر رکھا جاتا تو علی اکبر ع کو بھیجا جاتا مگر ان سب شخصیتوں کے درمیان سے کوفہ کی سیاسی فضاووں کے لیے حکیم کربلا نے جس عالم و فقیہ مجاہد و شجاع کا انتخاب کیا وہ مسلم بن عقیل تھے۔

اس سوال کے مختلف جوابات ہو سکتے ہیں جو تاریخی استناد اور عقل کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں بس ذرا دریچہ فکر واں ہو اور وادی تامل میں چراغ عقیدت کے ساتھ شمع برھان بھی فیروزاں رکھی جائے۔ چودہ سو سال سے اب تک صفحہ کربلا پر نہ جانے کتنا کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا مفکرین مدبرین اہل خرد اہل شعور اہل قلم اپنی تمامتر کاوشوں کو بروئے کار لا کر صفحہ قرطاس پر عقیدتوں کے موتی بکھیر رہے ہیں جب ہم واقعہ کربلا پر غور و خوض کرتے ہیں تو یہ نکتہ بھی قابل تامل ہیکہ مقصد حسینی کو سرزمین کربلا کے جغرافیائی حدود میں محدود کرنا کسی طور بھی قرین عقل و منطق نہیں ہے۔

یہ اور بات ہے کہ کربلا محوری کردار ہے مقصد حسینی کا جس کے اطراف و جوانب میں مدینہ بھی ہے ، کوفہ و شام بھی اور مکہ مکرمہ بھی مقصد حسینی کی ترجمانی کے لیے ہر جگہ اپنے نمایندوں کا انتخاب حسب حال اور حسب ضرورت تھا۔ کسی کو مدینہ میں چھوڑنا ضروری تھا تاکہ انقلاب کربلا کے بعد مدینہ کی سیاسی فضا میں مظلومیت آل محمد کے دامن پر خارجیت کا بد نما داغ نہ لگایا جاسکےاسی طرح مکہ میں چار ماہ چند دن رک کر وہاں کے حالات کو قابو کیا اور امت مسلمہ کو موجودہ حکومت کے خدو خال سے آگاہ کیا اور جب حاجیوں کے لباس میں قاتل حرم خدا کو خون ناحق سے رنگین کرنے کی بنی امیہ کی سازش کو دیکھا تو حج کو عمرہ سے بدل کر من‌دخلہ کان آمنا کی آیت کی لاج رکھ لی۔

کوفہ جو انقلاب کے لیے ایک بنیادی سنگ میل تھا جہاں قبل و بعد انقلاب کی آواز خطہ عرب سے عالم‌انسانیت تک پہنچانا تھا اس لیے دوطرفہ نیابتوں کا سلسلہ قایم کیا گیا اور ایک فقیہ وقت کو اپنے درمیان سے منتخب کیا گیا ورنہ وہاں ایک فقیہ پہلے سے موجود تھا جس امام وقت نے خط لکھ کر بلایا گویا کوفہ سے آئے ہوئے خطوط کے جواب میں بھی فقیہ اور کربلا سے خط لکھ کر بھی فقیہ کو ہی بلایا جس سے صاحبان عقل و شعور کو ضرورت فقیہ کا درس با خوبی سمجھ لینا چاہیے اور کمال نگاہ انتخاب حسین ابن علی کو لاکھوں سلام کے دونوں فقیہ غیر معصوم قرار دے کر کربلایی قوم کو عظمت فقیہ کی جانب قیامت تک متوجہ کردیا۔

کہ جس زمانہ میں بھی کوفہ صفت قوم مسلم عصر کو تنہا چھوڑ دیگی وہ غدار بے وفا اور ضمیر فروش گردانے جاءیگی آج کا ابن زیاد اگر ڈالر اور پاؤنڈ سے خریداری شروع کر دیگا تو ہر دور کا مسلم عصر وادی رے میں تنہا نظر آئیگا لہذا صاحبان ایمان عقل کے ناخن لیں اور اس دور پر آشوب میں سیاسی بصیرت کو اپنائیں کونکہ کل کوفہ والے بھی سیاسی بصیرت کھو چکے تھے تو شوق مال و متاع اور خوف جان و مال میں نایب امام کے خلاف ہو گیے ہم سمجھتے ہیں کوفہ فقط ایک علاقہ نہیں ہے بلکہ ضمیر فروشوں کی ایک تہذیب ہے جو کسی علاقہ کو بھی کوفہ صفت اور کوفہ عدد بنا سکتی ہے تری پار کے کئی علاقہ خلاف مرجعیت و نیابت معصوم میں کوفہ بن چکیں ہیں خدا ہم سب کو عظمت فقیہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اور دونوں فقیہوں کے لیے توقیع یا تحریر کو سند بنایا مسلم کے ساتھ اہل کوفہ کے مختصرا یا اشارتاً خطوط میں مسلم بن عقیل کا فقیہانہ تعارف اور حبیب ابن مظاہر کے لیے امام ع کی وہ مشہور تحریر

من حسین الغریب الی رجل فقیہ

سے اس بات کا اندازہ با خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ امام وقت کی توقیع یا تحریر کسی فقیہ کی سند کے لیے کافی ہے خواہ وہ اجمالی ہو یا شخصی ہو گرچہ فاصلہ اور بلا فاصلہ کے خط فاصل میں قیاس مع الفارق ہے مگر عظمت و اہمیت فقیہ نظر سید الشہداء ع میں کیا ہے یہ بات اھل شعور کے لیے پردہ خفا میں نہیں ہے آج فقاہت و مرجعیت پر اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ اپنے نظریات پر نظر ثانی فرمائیں خدا سب کو ہدایت دینے والا ہے۔

تاریخ میں بنی امیہ کے نمک خواروں نے جناب عقیل کی شخصیت کو مضمحل کرنے کے لیے بہت سے افسانہ گھڑھے جس کا شکار نادان دوست بھی ہوءے جن کو تہذیب آل محمد کا ادراک نہ ہو سکا ان افسانوں سے احتراز کرتے ہوے صرف اس گوشۂ تاریخ کی جانب اشارہ کر دیں جس میں حاکم شام نے اہل کوفہ میں یہ فکر رایج کردی کہ عقیل کثرت اولاد اور طلب مال کی خاطر بیعت علی ع سے نکل کر حاکم شام لعن سے جا ملے ہیں حکیم کربلا نے مسلم کو سفیر بنا کر کوفہ میں شاید اس لیے بھی بھیجا کہ وہ دامن کردار عقیل پر لگائےگئے داغ کو اپنی حکمت عملی سے دھو دیں اور یہی ہوا کہ مسلم کو دیکھ کر اہل کوفہ کو سمجھ آ گیا کی نہ کل عقیل نے علی ع کو چھوڑا تھا نہ آج مسلم نے عقیل کو اس لیے ضروری تھا کہ کسی اور کے بجاءے صرف مسلم ع ہی کو کوفہ سفیر بنا کر بھیجا جاۓ۔

ایک جواب یہ بھی ممکن ہیکہ چونکہ کربلا قیامت تک جانے والا اور بقاء اسلام کا ضامن ہے اور حضرت عمران کا اسلام پھیلانے میں نمایاں ہاتھ ہے تو بچانے میں بھی اولاد ابو طالب ہر محاذ پر رہیں اس لیے حکیم کربلا نے مدینہ کا محاذ اولاد جعفر کو دیا کوفہ میں اولاد عقیل اور کربلا میں اولاد علی ع تاکہ ہر جہت سے بقاء اسلام میں اولاد ابو طالب کا لہو شامل رہے یہ روش ادراک کا سفر ہے گرچہ قابل نقاش بھی ہےاور دعوے حرف اخیربھی نہیں ہے۔

ایک پہلو واقعہ کربلا میں تجزیاتی طور پر تقسیم طاقت بھی ہے کیونکہ امام وقت کربلا جنگ کے ارادہ سے نہیں جا رہے تھے اس لیے جمع شدہ قوتوں کی تقسیم ضروری تھی لہذا اس دور کے بہادر ترین مجاہدوں کی تقسیم کچھ اس طرح بھی کی گئی حضرت عبداللہ بن جعفر طیار جو اپنے زمانہ کے مشہور شجاع تھے جو لوہے کی زرہ کو ہاتھ سے پھاڑ دیا کرتے تھے ان کو مدینہ میں چھوڑ دیا اور روایت میں ہیکہ امام نے فرمایا ان تکون لی عینا میری آنکھیں بن کر مدینہ میں رہو۔

جناب مسلم کی شجاعت کا شہرہ عالم عرب میں کس قدر تھا وہ ابن اشعث کے تاریخی فقرہ سے واضح ہے کوفہ کے کسی بنیا و بقال سے جنگ نہیں ہو رہی ہے علی کا شیر ہے اور لشکر بھیج سید سجاد ع کا روز عاشورہ مرض میں مبتلا ہونا بھی قوت کی تقسیم کا ایک أبرز پہلو ہے جناب عباس کا روز عاشور کئی عدد کنویں کھودنا بھی قوت تقسیم ہی کا ایک راز جلی ہے جہاں تک سمجھ سکیں ہیں وہ یہ ہے باقی حقیقی حکمت تو حکیم کربلا ہی جانیں رب کریم ہمیں کربلا سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے[15]۔

حواله جات

  1. عبدالله مامقانی، تنقیح المقال، ج 3، ص 214
  2. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۲، ص ۷۷، مصر، دار المعارف، ۱۹۵۹م
  3. ابوالفرج اصفهانی، على بن حسین‏، مقاتل ‏الطالبیین، ص ۸۶، بیروت، دار المعرفة، بی‌تا
  4. شیخ مفید، الاختصاص، ص 83، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، 1413ق؛ ابن شهر آشوب مازندرانی، مناقب آل أبی‌طالب (علیه‌السّلام)، ج ‏4، ص 112، قم، علامه، چاپ اول، 1379ق
  5. طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری بأعلام الهدی، ج ‏1، ص 397، قم، مؤسسه آل البیت (علیه‌السّلام)، چاپ اول، 1417ق
  6. سبط بن جوزی‏، تذکرة الخواص من الأمة فی ذکر خصائص الأئمة، ص 229، قم، منشورات الشریف الرضی‏، چاپ اول، 1418ق
  7. لیث صفوی تاریخ خلیفه بن خیاط ص135
  8. صدوق، محمد بن على‏، الأمالی، ص ۱۲۹، تهران، کتابچى‏، چاپ ششم‏، ۱۳۷۶ش
  9. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک(تاریخ طبری)، ج ‏۵، ص ۳۵۳، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق
  10. «زندگی‌نامه سلمان فارسی»، ۹۵۷۷۸
  11. ابن مشهدى محمد بن جعفر، المزار الکبیر، ص ۱۷۸، قم، دفتر انتشارات اسلامى‏، چاپ اول‏، ۱۴۱۹ق
  12. الفتوح، ج ۵، ص ۶۲
  13. روضہ الشہداء ص 260 - 276
  14. خلاصۃ المصائب ص46
  15. سفیر حسینی مسلم بن عقیل (ع) ہی کیوں؟- شائع شدہ از: 27 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 جون 2025ء