مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے داخلی رکاوٹیں(نوٹس اور تجزیے)

ویکی‌وحدت سے
پرچم جبهه مقاومت.jpg

مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے داخلی رکاوٹیں کے عنوان سے لکھی گئی تحریر ایک نوٹس ہے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلامی جمہوریہ ایران کو دیئے جانے والے اس خط کا حوالہ دیا گیا ہے جو تخفیف اسلحہ پر مبنی تھا۔ آج دشمنوں کی ساری گفتگو، جو کہ مزاحمتی محاذ کے تمام ارکان سے متعلق ہے، کا مرکزی نکتہ ’’ تخفیف اسلحہ ‘‘ ہے۔ ٹرمپ نے اپنے خط میں اسلامی جمہوریہ ایران کو خاص طور پر “ مزاحمتی افواج کو غیر مسلح کرنے” پر زور دیا ہے۔ لبنان میں، امریکہ کے خصوصی ایلچی اور اس سے وابستہ گروہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی بات کرتے ہیں؛ عراق میں، الحشد الشعبی کو تحلیل کرنے اور دراصل مزاحمت کو اسلحہ سے محروم کرنے کی بات ہو رہی ہے؛ شام میں اس کی زیادہ تر عسکری تنصیبات پر حملے ہوئے ہیں، اور اسلحہ چھیننے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے؛ غزہ میں مزاحمتی گروپوں کا اسلحہ چھوڑنا جنگ بندی کی شرط قرار دیا گیا ہے؛ حتیٰ کہ افغانستان میں بھی اسلحہ چھوڑنے کی ضرورت پر بات کی گئی ہے؛ اور یمن میں، امریکی بار بار حملوں کے ذریعے اس کی تمام عسکری تنصیبات کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ سب ممکن ہے یا نہیں، خود اس موضوع کا پیش کرنا اور اس کے بعد ہونے والے واقعات سے معلوم هوتا هے که یه موضوع سنجیدہ بحث کے قابل ہیں۔

امریکی اڈوں کی توسیع اور افواج میں اضافہ

ان موضوعات سے پہلے ہم سب نے دیکھا ہے کہ امریکیوں نے دنیا میں اور خصوصاً خطے میں اپنے فوجی اڈوں کی توسیع اور اپنی فوجی طاقت میں اضافے پر مسلسل زور دیا ہے۔ لہٰذا، قومی سلامتی کے شعبے میں اور کسی ملک کی ترقی کے افق میں فوجی طاقت اور اس کے استعمال کی اہمیت بہت واضح اور ظاہر ہے۔ البتہ، استعماری نظام کے نقطۂ نظر سے یہ طاقت صرف انہی کے اختیار میں ہونی چاہیے اور دوسروں کا کام صرف اس کا مخاطب بننا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ کی مطلق حکمرانی کو مضبوط بنانے کے لیے، دوسروں کو کسی بھی صورت میں اس کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھنی چاہیے۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ ان کے نظریات کیا ہیں؛ صرف اتنا کافی ہے کہ کسی ملک کے جغرافیے میں طاقت اور مزاحمت کی کوئی علامت دکھائی دے—تو فوری طور پر اس ملک کو حملے کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کی طاقت سلب کر لی جاتی ہے اور اُسے ایک پوری طرح بے اختیار مخلوق میں بدل دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے ماتھے اور مستقبل میں طاقت اور استقامت کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔

شام پر ایک نظر

ذرا شام پر نظر ڈالیں؛ یہ ملک حال ہی میں محدود پیمانے پر غاصب صہیونی ریاست (اسرائیل) کے مقابلے میں دفاعی اقدامات کر رہا تھا۔ بعد میں، جب اس کی وہ حکومت، جو اپنے آپ کو مزاحمت کی علامت قرار دیتی تھی، ایک بیرونی سازش اور اپنی نااہلی کے باعث گر گئی، تو اسے شدید حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ دو دن قبل، ایک معتبر رپورٹ کے مطابق شام کے 95 فیصد فوجی اور سکیورٹی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد، شام کو تقسیم کرنے اور اس میں ایک مضبوط مرکزی حکومت کے قیام کو روکنے کی بات بھی امریکی اور اسرائیلی ایجنڈے میں شامل ہے، تاکہ آج اور مستقبل میں، اسرائیلی ریاست کی توسیع پسندی اور جارحیت کے سامنے کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ یقیناً یہ مغربی ممالک کی مسلم دنیا کے خلاف ایک جانی پہچانی پالیسی ہے۔

عثمانی حکومت کا زوال

عثمانی سلطنت کا زوال اور اِس عظیم الشان سلطنت کی سرزمینوں کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جانے کا مقصد بھی یہی تھا، اور — دستاویزات اور عملی اقدامات کے مطابق — اُس وقت سے ہی مغرب نے ارادہ کر لیا ہے کہ اسلامی دنیا میں کبھی کوئی طاقت اُبھرنے نہ پائے۔ یہ تدریجاً اسلامی دنیا میں مغرب کی سب سے اہم “سرخ لکیر” بن گیا ہے۔ لیکن گزشتہ تقریباً ایک صدی میں، حالات کے مطابق خطے میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ آج دشمن یہ گمان کرتے ہیں کہ لبنان اور عراق میں مزاحمتی گروپوں کی محتاط رویہ اور حتیٰ کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی بعض احتیاطیں بھی ان کی کمزوری کی وجہ سے ہیں، اسی لیے دشمن ان کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے اور اس خطرناک صورتِ حال کے تحقق کی امید میں اضافہ ہو گیا ہے۔ تو ثابت ہوا کہ ایران کی موجودہ طاقت اور مزاحمتی محاذ کی قوت کو باقی رکھنا نہایت ضروری ہے، اور اسے جتنا زیادہ ممکن ہو، بڑھانا چاہیے۔ گزشتہ 15 سال کے واقعات، یعنی 2011 ء کے بعد شام، عراق اور بعض دیگر ممالک میں جو طوفان اُٹھے، وہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ صرف طاقت کی بدولت ہی استعماری اور دہشت گردی کے تباہ کن موجوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ یہ ان واقعات کا پہلا سبق ہے۔

خطے میں مزاحمت کی حقیقی طاقت

تاہم، ان تبدیلیوں سے ایک اور اہم سبق بھی ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خطے میں اور اس کے ہر ملک میں مزاحمت کی حقیقی طاقت موجود ہے۔ بعض ممالک میں اس مزاحمت نے ایک پہچانی جانے والی تنظیم اور ڈھانچے کی صورت اختیار کر لی ہے، جبکہ بعض ممالک میں باوجود صلاحیتوں کی موجودگی کے، یہ صلاحیتیں باقاعدہ منظم تنظیم کی شکل اختیار نہیں کر سکیں۔ ان صلاحیتوں کو منظم ڈھانچوں میں تبدیل کرنا کوئی مشکل کام نہیں، اور یہی آسانی امریکہ اور صہیونی ریاست (اسرائیل) کے لیے شدید تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ مثلاً جب 1982 ءمیں فتحی شقاقی کی قیادت میں فلسطین میں “جہاد اسلامی” تشکیل پائی، اور اس کے چھ سال بعد، یعنی 1987 ء میں شیخ احمد یاسین کی رہنمائی میں انقلابی تحریک “حماس” وجود میں آئی، تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ اگرچہ سرکاری فوجی اداروں کو بنانا مشکل ہے، لیکن سماجی ڈھانچوں کو وجود میں لانا کس قدر آسان ہے۔ یمن میں بھی یہی تجربہ دیکھا گیا۔ وہی انقلابی تحریک یمن، جو آج تمام دشمنان اسلام کی انکھوں میں کانٹے کی طرح بن گئی ہے، بائیس سال قبل یعنی 2003 ء میں تو اپنے لوگوں کے دفاع کی بھی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ اس وقت، علی عبدالله صالح کی فوج نے قطر کے انٹیلیجنس تعاون سے، انصاراللہ (جو اس وقت “حوثی” کہلاتے تھے) کے تمام افراد کو مراّن کے پہاڑوں میں شہید کر دیا تھا، جہاں وہ پناہ لیے ہوئے تھے۔ آج وہی چھوٹا سا گروہ نہ صرف علی عبدالله صالح اور سلمان بن عبدالعزیز کی فوجوں کو (سنہ 2003تا 2009 کے درمیان) شکست دے چکا ہے اور 8 سالہ جنگ میں بھی فتح یاب ہوا ہے، بلکہ گزشتہ ایک سال میں امریکہ اور غاصب اسرائیل کے مقابل بھی صف آرا ہے۔ ان مزاحمتی قوتوں کو خطے میں جگہ جگہ نقصان پہنچتا ہے اور اکثر وہ دشمنوں کی جدید ٹیکنالوجی اور خصوصی حالات کا مقابلہ براہ راست نہیں کر سکتیں، لیکن اس کے باوجود وہ دشمن کو ایسا کاری ضرب لگا سکتی ہیں کہ دشمن ہمیشہ کے لیے غلبے کا خیال چھوڑ دے۔

33روزه جنگ

حزب اللہ لبنان نے 33 روزہ جنگ کے ابتدائی حملے میں اسرائیلی ریاست کو چیلنج کیا۔ اس کے بعد باقاعدہ جنگ چھڑ گئی اور لبنانی مزاحمت نے اس جنگ کی بھاری قیمت افراد اور عمارتوں کے نقصان کی شکل میں ادا کی۔ چھ سال بعد، حزب اللہ نے لبنان کی 2006 (1385 ہجری شمسی) کی جنگ سے بھی بڑی، طویل اور پیچیدہ جنگ میں شرکت کی اور لبنان کی سرحدوں سے باہر چھ سے سات سال جاری رہنے والی لڑائی میں فتح حاصل کر کے اپنے وطن واپس لوٹی۔ پانچ سال بعد جب غزہ کے دفاع کا وقت آیا تو انہوں نے سینہ سپر کر دیا، حالانکہ شام کی 2012-2018 عیسوی) کی جنگ میں حزب اللہ کو جتنی زخمیں آئیں، وہ 2006 ءکی لبنان جنگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھیں۔ حزب اللہ کی شام میں لڑائیوں کے خاتمے کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ اس نے ایک بار پھر رضاکارانہ طور پر اسرائیل کے خلاف اور غزہ کے بے سہارا مظلوموں کے دفاع میں جنگ میں شرکت کو قبول کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی حزب اللہ کسی دشمنِ خارجی کے ساتھ سخت اور بھاری قیمت والی آزمائش میں داخل ہوئی ہے، تو اس کے فوراً بعد اسے داخلی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مثلاً، سال 2000 (1379 ہجری شمسی) میں اسرائیل پر مکمل فتح حاصل کرنے کے بعد، حزب اللہ لبنان اُس وقت شدید داخلی فتنہ میں پھنس گئی جب مقبول لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کو قتل کر دیا گیا۔ اس فتنے کے نتیجے میں شامی فوج کو 15 سال سے زائد عرصہ کی سرکاری موجودگی کے بعد لبنان چھوڑنا پڑا۔ اسی دوران، حزب اللہ کو الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کونے میں لگا دی گئی۔ اس کے بعد، جب حزب اللہ 33 روزہ جنگ سے تاریخی فتح کے ساتھ نکلی، تو دوبارہ داخلی فتنہ میں مبتلا ہو گئی۔ اس دور میں لبنان تقریباً مکمل طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا، اور بڑا حصہ (14 مارچ گروپ) حزب اللہ کے مخالفین پر مشتمل تھا، جنہیں عرب اور مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ اسی طرح، جب حزب اللہ نے 2024 (1403 ہجری شمسی) میں اسرائیل کے زمینی حملے کے مقابلے میں ایک اور فتح حاصل کی، تو اُسے دوبارہ داخلی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور اس وقت بھی وہ اسی پیچیدہ مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ان تمام ادوار میں، حزب اللہ حقیقی میدان میں طاقتور نظر آئی اور اس کی قوت کا اعتراف کیا گیا، جبکہ غیرحقیقی ماحول (میڈیا یا سیاسی پراپیگنڈا) میں اسے کمزور، بلکہ انتہائی کمزور دکھایا گیا اور اس کی طاقت سے انکار کیا گیا۔ لیکن ایک تجربہ کار شخص جانتا ہے کہ حزب اللہ کوئی کلاسیکی فوج نہیں کہ اپنے سپاہیوں کو دشمن سے مکمل تحفظ دے سکے؛ اس لیے اس کے لوگ شہید ہوتے ہیں اور اس کی عمارتیں تباہ ہوتی ہیں، جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ یہی ضاحیہ (بیروت کے جنوب کا علاقہ) جس کی تباہی کی تصاویر انسان کو رنجیدہ کر دیتی ہیں، اب چھٹی بار ہے کہ ایسے حالات سے دوچار ہوا ہے۔ اسی لیے محض تصویری مناظر دیکھ کر کسی تحریک یا ملک کی موجودہ حالت اور مستقبل کا اندازہ نہیں لگانا چاہیے۔ یقیناً، حزب اللہ کو اسرائیل کے ساتھ گزشتہ ایک سال اور کچھ مہینوں کی سخت جنگ کے بعد اپنی پوزیشن بحال کرنے کے لیے ایک دور درکار ہے؛ یہ بازآبادکاری پہلے کی جنگوں میں عام طور پر چار سے سات سال تک رہی، لیکن اس بار، حالیہ جنگ کے آخر میں حزب اللہ نے جو زبردست طاقت کا مظاہرہ کیا، اس کے پیش نظر یہ دور چند سال سے گھٹ کر چند مہینے ہو گیا ہے۔ داخلی رپورٹس کے مطابق، حزب اللہ کے اس تنظیمی ڈھانچے کی تعمیرِنو جو پچھلے سال کے واقعات سے شدید متاثر ہوا تھا، مکمل ہو چکی ہے۔ اس کی عسکری حیثیت پوری طرح بحال ہو گئی ہے، اسلحہ نہ صرف اپڈیٹ ہو چکا ہے بلکہ اس میں اضافہ اور تنوع بھی آیا ہے۔ تاہم، سیاسی میدان میں یہ بازسازی، اتنی مکمل نہیں ہوئی کہ ساری فکرمندی ختم ہو جائے۔ حزب اللہ نے صدر، وزیر اعظم اور کابینہ کے انتخاب میں حصہ لے کر اپنی لبنانی شناخت واضح کی—جسے، شام اور پھر غزہ کی حمایت کی وجہ سے، اکثر سوالات کا سامنا رہا ہے۔ لیکن حزب اللہ کے داخلی مخالفین خاموش نہیں بیٹھے۔ وہ اس عارضی کمزوری کو دائمی فضا میں بدلنے کے درپے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے ہی حزب اللہ جیسی اعلیٰ درجے کی تنظیم سے ہمشیہ کے لیے نجات حاصل ہو جائے۔ حالانکہ اگر وہ حقیقت پسندانہ سوچیں تو جانتے ہیں کہ کسی بھی امانت دار اور طاقتور قوت کا کمزور ہونا ان کے حق میں بھی نہیں۔

حزب الله کا موقف عوام میں مزاحمت کی مقبولیت

آج کل حزب اللہ کی زبان یہی ہے کہ بہت اچھا، وہ لوگ جو حزب اللہ کے ہتھیار اور اس کے غیر مسلح ہونے کی ضرورت پر بات کرتے ہیں، خود بتائیں کہ اسرائیل کی روزانہ لبنان کی سرزمین پر جارحیت کے مقابلے کے لیے ان کے پاس کیا منصوبہ ہے؟ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ حزب اللہ کے ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہے، لبنان کی سلامتی کے دفاع کے لیے ان کے پاس عملاً کیا لائحہ عمل ہے؟ اسی کل ہی لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمتی محاذ کے ایک رکن نے اعلان کیا کہ حزب اللہ حکومت کے ساتھ “قومی مذاکرات” میں شرکت کے لیے تیار ہے۔ ان مذاکرات میں حزب اللہ کا پہلا سوال یہی ہوگا کہ اگر مزاحمت نہیں، تو پھر کیا؟ کیا لبنان میں یا اس سے آگے کوئی ہے جو اس سوال کا قابلِ قبول جواب دے سکے؟ اسرائیل کی جارحیت کے مقابلے میں دوبارہ عسکری فریم میں واپسی کے لیے حزب اللہ کو اس مرحلے کی ضرورت ہے، تاکہ جب بھی وہ سرزمین، فضاء اور لبنان کے عوام کے دفاع میں دوبارہ حملہ آوروں کو نشانہ بنانے کے لیے کھڑا ہو، تو ہمیشہ کی طرح مختلف قومیتوں اور فرقوں کا قومی اجماع ساتھ ہو۔ یہی کیفیت باقی تمام مزاحمتی تحریکوں کے حوالے سے بھی ہے؛ وہ لوگ جو مزاحمت کے غیر مسلح ہونے کی بات کرتے ہیں یا اس کے حمایتی ہیں، کیا ان کے پاس اس کے مقابل کوئی قابلِ قبول حل ہے؟ اگر مزاحمت غیر مسلح کر دی جائے تو فلسطین اور فلسطینیوں کی حمایت کون کرے گا؟ اگر مزاحمت غیر مسلح کی جائے تو عراق کو بار بار تباہی کے دہانے تک لے جانے والی سازشوں سے کون بچائے گا جن سے یہ ملک ہمیشہ مزاحمتی طاقت کے سبب باہر آیا؟ آج جب شام کو غیر مسلح کر دیا گیا تو اس سرزمین کو اسرائیلی جارحیت سے کون بچائے گا؟ افغانستان میں …؟ پاکستان میں …؟ اور خود ایران میں …؟ پس، مزاحمت کے غیر مسلح ہونے کی پالیسی جسے آج کل دشمن اپنی قطعی تجویز کے طور پر پیش کرتا ہے، منطقی، فطری اور عملی طور پر اس خطے میں خود عوام کی مزاحمت سے ٹکرا رہی ہے اور یقیناً کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔[1]

حوالہ جات

  1. موانع داخلی خلع سلاح مقاومت(مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے داخلی رکاوٹیں)(زبان فارسی)kayhan.ir-شائع شدہ از:12/اپریل/2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 اپریل 2025ء

زمره:نوٹس اور تجزیے