مندرجات کا رخ کریں

مدینہ یونیورسٹی

ویکی‌وحدت سے
مدینہ یونیورسٹی
ملکسعودی عرب
صوبہمدینہ

مدینہ یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ سعودی عرب کی ایک سرکاری یونیورسٹی ہےجو مملکت سعودی عرب کی ’’ وزارت اعلی تعلیم‘‘ کے ماتحت ہے، اس کا قیام سن 1381ہجری میں عمل میں آیا، اور یہ اپنے مقصد کے لحاظ سے ایک اسلامی و عالمی اور ذمہ داری کے اعتبار سے عربی اور سعودی ادارہ ہے.یہ یونیورسٹی وہابیت کے سب سے زیادہ فعال مراکز میں سے ایک ہے جس میں تکفیری افکار کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس میں اعتدال پسند سنی مسلم نظریہ کو تکفیری اور داعشی نظریہ میں تبدیل کرنے کے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس مرکز میں سالانہ 160 ممالک اور قومیت کے تقریبا 10 ہزار سے 12 ہزار طلباء کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر طلباء غیر عرب ممالک سے ہوتے ہیں۔ فریب اور پروپیگنڈہ کے ساتھ ، یونیورسٹی دنیا بھر سے نوجوانوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ فارغ التحصیل ہونے اور ملک واپسی کے بعد مختلف عنوانات اور کوریج کے تحت تکفیری اور وہابی نظریات اور افکار کو فروغ دیا جاسکے۔

مختصر تعارف

جامعہ اسلامیہ (اسلامی یونیورسٹی)کاسنگ بنیاد 1381ھ، 1961ء میں مدینہ طیبہ میں رکھا گیا۔

جامعہ اسلامیہ کے اغراض و مقاصد

یہ جامعہ تمام دنیا کے مسلمان طالبان علوم دینیہ کے لیے قائم کی گئی ہے او راس کے مقاصد درج ذیل ہیں:

  • زیر تعلیم طلبہ کو ایسی خالص (نکھری ہوئی) دینی تعلیم دی جائے جس سے وہ اپنے آپ کو اسلامی تہذیب و ثقافت سے آراستہ کرسکیں۔
  • ایسے دینی بصیرت رکھنے والے علماء و مبلغین تیار کیے جائیں جو اپنی تمام دینی و دنیاوی مشکلات کا حل قرآن حکیم، سنت نبویہ اور صحابہ کرام کی سیرت کی روشنی میں پیش کرسکیں۔

تعلیمی شعبے

اس وقت جامعہ کے اندر مندرجہ ذیل شعبوں میں تعلیمی خدمات انجام دی جارہی ہیں:

  • کلیۃ الشریعیۃ (شریعت کالج) ............. مدت تعلیم چار سال
  • کلیۃ الدعوۃ و اصول الدین (دعوت و اصول دین کالج)...... مدت تعلیم چار سال
  • المھد الثانوی: (سیکنڈری سکول ........... مدت تعلیم تین سال

اس درجہ سے کامیاب ہونے والے طلبہ کو ثانوی تعلیم سے فراغت کا سرٹیفیکیٹ دیا جاتاہے۔ اس کے بعد مذکورہ بالا دونوں کالجوں میں سے کسی ایک میں داخلہ مل سکتا ہے۔

  • المعھد المتوسط (مڈل سکول) .......... مدت تعلیم تین سال

اس درسگاہ سے فارغ ہونے کے بعد طلبہ کومتوسط (مڈل) کا سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے جس کی بنا پر المعہد الثانوی (سیکندری سکول) میں داخل مل سکتا ہے۔

  • شعبہ زبان عربی: اس شعبہ میں ان غیر عرب طلبہ کوتعلیم دی جاتی ہے جو عربی زبان کمزور ہونے کی بنا پر مذکورہ بالا شعبوں میں داخلہ نہیں لے سکتے ہیں۔

شریعہ فیکلٹی

اس کا مقصد اسلامی فقہ اور اس کے اصول پر توجہ دینا اور شرعی علوم نیز دیگر معاون علوم سے واقف کرانا ہے، اس فیکلٹی میں مندرجہ ذیل شعبے ہیں:

  • شعبۂ فقہ.
  • شعبۂ اصول فقہ.
  • شعبۂ قضاء وشرعی سیاست.

یہ فیکلٹی شرعی علوم میں گریجویشن ، قضاء وشرعی سیاست ميں اعلى ڈپلومہ اور تمام خصوصی مضامین میں ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی سندیں عطا کرتی ہے .

دعوت واصول دین فیکلٹی

اس کا مقصد اسلامی عقیدے پر توجہ دینا اور شرعی علوم نیز دیگر معاون علوم سے واقف کرانا ہے، اس فیکلٹی میں مندرجہ ذیل شعبے ہیں:

یہ فیکلٹی دعوت واصول دین میں گریجویشن ، دعوت ميں اعلى ڈپلومہ اور تمام خصوصی مضامین میں ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی سندیں عطا کرتی ہے .

قرآن کریم اور اسلامی علوم فیکلٹی

اس کا مقصد قرآن مجید کے حفظ وتفسیر اور علوم قرآن مجید پر توجہ دینا اور شرعی علوم نیز دیگر معاون علوم سے واقف کرانا ہے، اس فیکلٹی میں مندرجہ ذیل شعبے ہیں: . شعبۂ قراءات. شعبۂ تفسیر. یہ فیکلٹی قرآن کریم اور اسلامی علوم میں گریجویشن اور تمام خصوصی مضامین میں ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی سندیں عطا کرتی ہے .

حدیث شریف اور اسلامی علوم فیکلٹی

اس کا مقصد سنت نبوی اور اس کے علوم پر توجہ دینا، ان کی خدمت کرنا اور شرعی علوم نیز دیگر معاون علوم سے واقف کرانا ہے، اس فیکلٹی میں مندرجہ ذیل شعبے ہیں:

  • شعبۂ فقہ.
  • شعبۂ فقہ ومصادر سنت.
  • شعبۂ علوم الحدیث.

یہ فیکلٹی حدیث شریف اور اسلامی علوم میں گریجویشن اور تمام خصوصی مضامین میں ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی سندیں عطا کرتی ہے.

عربی زبان كی فیکلٹی

اس کا مقصد عربی زبان کے علوم وآداب پر توجہ دینا اور شرعی علوم نیز دیگر معاون علوم سے واقف کرانا ہے، اس فیکلٹی میں مندرجہ ذیل شعبے ہیں:

  • شعبۂ لغویات (لسانیات)
  • شعبۂ بلاغت وادب.

یہ فیکلٹی عربی زبان میں گریجویشن اور تمام خصوصی مضامین میں ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی سندیں عطا کرتی ہے[1]۔

طلبا کی تعداد

اس تعلیمی سال 1393ھ،1394ھ میں طلبا کی تعداد 1650 تک پہنچ چکی ہے۔ یہ طلبہ 80 سے زیادہ ممالک سےتعلق رکھتے ہیں۔

طلبا کے لیےسفری سہولتیں

جن طلبا کے داخلہ کی درخواست منظور ہوجاتی ہے ان کو حسب ذیل سفری سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں:

  • طلبہ کو وزارت داخلہ و خارجہ سعودیہ کی رضا مندی سےویزا کی ترسیل کے ساتھ ساتھ ان کے وطن سےمدینہ منورہ تک سفر کے لیے(ہوائی جہاز کا)ٹکٹ بھیجاجاتا ہے۔
  • تعلیم کے دوران ہر تین سال بعد طلبہ کو موسم گرما کی چھٹیاں اپنے رشتہ داروں میں گزارنے کے لیے (ہوائی جہاز سے) آمدورفت کا ٹکٹ دیا جاتا ہے۔
  • فارغ ہونے کے بعد طلبا کواپنے وطن واپس جانے کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ مہیا کیا جاتا ہے۔ساتھ ہی ایسےطلبا اپنی کتابیں وطن منتقل کرنےکےلیے جامعہ سے تمام مصارف حاصل کرسکتے ہیں تاکہ اپنے وطن پہنچ کر دعوت و تدریس کے کام کو پوری تحقیق اور ذمہ داری سے انجام دےسکیں۔

رہائشی سہولتیں

طلبا کی رہائش کے لیے جامعہ کے وسیع احاطے میں ہوسٹل کا انتظام کیا گیا ہےجس میں کمرے ہرقسم کے ضروری فرنیچر سے آراستہ ہوتے ہیں۔

ثقافتی و اجتماعی سرگرمیاں

جامعہ میں تعلیم و تدریس کے علاوہ حسب ذیل سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں:

  • خطبات: جامعہ میں ہرسال تعلیم کے دوران علمی خطبات (لیکچروں) کا انتظام کیا جاتا ہے۔اس طرح طلبہ اور شہر کے اہل ذوق حضرات، عالم اسلام کے مشہور مفکرین، اہل علم اور اصحاب دانش سےاستفادہ کرتے ہیں۔
  • تقریری مشق و تمرین : جامعہ کے شعبہ اجتماعات کے زیر نگرانی طلبہ کی ایسی مجالس منعقد کی جاتی ہیں جن میں وہ خطابت (تقریر) کی مشق کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ان مجالس میں مشاعرہ، بیت بازی او رعلمی مباحثات کابھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ سب سرگرمیاں جامعہ کے مدرسین اور شعبہ اجتماعات کے نگرانی حضرات کی زیرسرپرستی انجام پاتی ہیں۔
  • جسمانی ورزش: مذکورہ بالامشاغل کے ساتھ ساتھ جامعہ میں طلبہ کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیےوزرش اورمناسب کھیلوں کا بھی انتظام کیاجاتاہے مثلاً ویٹ لفٹنگ، پیراکی، رسہ کشی، دوڑ، والی بال، اورباسکٹ بال وغیرہ۔
  • سیروسیاحت: طلبہ کے لیےتعلیم اور تعطیل کے زمانہ میں مختلف مقامات کی سیر اور پکنک منانے کا انتظام کیا جاتا ہے اس طرح طلبہ کو اہم تاریخی مقامات کامشاہدہ او رمختلف دیہات و قصبات میں دعوت و تبلیغ کی عملی تربیت حاصل ہوجاتی ہے۔

درسی کتب اورلائبریریاں

جامعہ میں داخلہ لینے والے تمام طلبہ کو درسی کتب مفت مہیا کی جاتی ہیں نیز جامعہ کی متعدد لائبریریوں میں مفید اور گراں قدر کتابوں کاخزانہ موجود ہے جس سے طلبہ استفادہ کرتے ہیں؟

طبی سہولتیں

جامعہ میں ایک ڈسپنسری کا بھی انتظام کیا گیا ہے جس میں طلبہ کے علاج و معالجہ کے لیے تجربہ کار ڈاکٹر مقرر ہیں۔اس ڈسپنسری میں طلبہ کو علاج و معالجہ اور ادویہ مفت مہیا کی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ایکسرے لیبارٹری اور دیگر ناگزیر ضروریات کا انتظام کیا گیا ہے۔

ذرائع آمدورفت

جامعہ کی طرف سے طلبہ کے لیے ہوسٹل سے شہرتک آمدورفت کے لیے بسوں کا انتظام کیا گیا ہے جن کے ذریعہ طلبہ صبح و شام اور دوپہر کو شہر سے جامعہ اور جامعہ سے شہر آسکتے ہیں۔

ماہانہ وظائف

جامعہ کی طرف سے ہر طالب علم کو ماہانہ وظیفہ ملتا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

  • دونوں کالجوں کے ہر طالب علم کے لیے تین سو ریال ماہانہ
  • شعبہ عربی، مڈل سکول اور سیکنڈری سکول کے ہرطالب علم کے لیے ڈھائی سو ریال ماہانہ

حرف آخر

یہ تمام خدمات اور سہولتیں پورے عالم اسلامی کےنوجوانوں کوبلا استثنا پیش کی جاتی ہیں۔اس کا واحد محرک اس فرض کی ادائیگی ہے جو مسلمان کی خیرخواہی کیلئے دینی رشتے کی بنا پر جامعہ پر عائد ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی مقصود ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اسلامی ثقافت و تہذیب کےاثرات زیادہ سے زیادہ دنیا کے اطراف و اکناف میں پھیل سکیں اور نوجوانوں کا ایسا گروہ تیار ہوسکے جو پوری یکسوئی کےساتھ دعوت و تبلیغ کے میان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکے[2]۔

فارغ التحصیل

اس یونیورسٹی میں سب سے زیادہ طلباء میں درج ذیل قومیتیں شامل ہیں: انڈونیشیا: طلباء کا سب سے بڑی تعداد، نائیجیریا اور دیگر افریقی ممالک ، پاکستان ، ہندوستان ، بنگلہ دیش ، ترکی ، ایران ، وسطی ایشیائی ممالک: تاجکستان ، ازبکستان ، قازقستان ، وغیرہ ، چیچنیا اور داغستان ، روس ، یورپی اور امریکی ممالک ( کم تعداد ) اور ایرانیوں کی طلباء کی بڑی تعداد کو مکمل طور پر اسکالر شپ دیا جاتا ہے اور ایرانی طباء فقہ اور اصول فقہ، حدیث اور تفسیر قرآن، تبلیغ ، دعوت اور حدیث علوم کے شعبوں میں پڑھتے ہیں۔

مدینہ یونیورسٹی کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ، عراق سے 251 سے زیادہ ایران ، 264 ، سعودی عرب سے 39 ہزار ، افغانستان سے 1108 ، متحدہ عرب امار سے 180 ، عمان سے 314 ، شام سے 883 ، اردن سے 883 ، ترکی سے 883 ، مصر سے 885 ،لبنان سے 276، ہندوستان سے 1635، چین سے 992، امریکہ سے 237، 885 کینیڈا سے ، 100 لاطینی امریکہ ، سوڈان سے 1025 ، جرمنی سے 82 ، فرانس سے 228 ، روس سے 521 ، قازقستان سے 187 اور سویڈن سے 70 نے یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے۔

مدینہ کی اسلامی یونیورسٹی کے کچھ ممتاز فارغ التحصیل مندرجہ ذیل ہیں:

  1. عبد العزیز بن علی الحربی ، ام القری یونیورسٹی کے پروفیسر ؛
  2. عبد الغنی کاسوبا، انڈونیشیا کے سیاستدان ؛
  3. ابو عمار یاسر غازی ، مصنف اور یونیورسٹی کے پروفیسر ؛
  4. عتیق احمد خان، جموں و کشمیر کے سیاستدان ؛
  5. بلال فیلیپس، کینیڈا میں سلفیت کے مبلغ؛
  6. احسان الہی ظہیر ، پاکستانی مصنف ؛
  7. محمد ہدایت نور واحد، انڈونیشی عوام کی مشاورتی اسمبلی کے ترجمان اور وہ مذہبی تکثیر پر عقیدہ رکھتا ہے۔
  8. اسماعیل بن موسی منک، زمبابوے کے قاضی القضات؛
  9. مشاری راشد الفاسسی ، کویت حکومت کی مسجد کے امام ؛
  10. مقبل بن هادی الوادعی، یمن کے داماج میں دار الحدیث کے بانی ،
  11. ربیع المدخلی، یونیورسٹی کے سابق سربراہ
  12. سعید ابوبکر زکریا، تمالی میں جامعہ اہل سنت کا سربراہ ؛
  13. سفی الدین مبارک پوری، پاکستانی مصنف[3]۔

مختلف ممالک میں مبلغین بھیجنا

مندرجہ ذیل اہداف کو پورا کرنے کے لیے، یونیورسٹی ہر سال متعدد یونیورسٹی پروفیسرز کو چھٹیوں کے موقع کے لئے بھیجتی ہے: ہر ملک کی ثقافتی اور علمی ضروریات کو جاننا تاکہ مناسب نصاب سازی کی جاسکے؛ اسلام کے خلاف دشمنوں کے ثقافتی شکوک و شبہات اور حملوں سے متعلق معلومات اور ان کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی ؛ نئی دنیا کے نئے ثقافتی آلات کی نشاندہی تاکہ ان کو تدریس اور تبلیغ میں استعمال کیا جاسکے۔ یونیورسٹی فارغ التحصیل افراد کی کارکردگی کی نگرانی کریں اور ان کے مسائل حل کریں۔ ہر ملک میں درخواست دہندگان کے لئے مختصر تربیتی کورس کا انعقاد ؛ مذہبی اور ثقافتی مراکز کی نشاندہی کرنا اور ان کے ساتھ رابطہ برقرار کرنا اور ان کا تعاون کرنا ؛ یونیورسٹی کے تبلیغ کے خواہش مند طلباء کو کتابیں ، ٹیپ اور مذہبی میگزین عطیہ کرتی ہے۔

مدینہ یونیورسٹی کی بندش کا امریکی مطالبہ

روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۵ فروری ۲۰۰۲ء کے کالم سرِراہے میں مندرجہ ذیل خبر نقل کی ہے کہ ’’ایک نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ امریکہ نے سعودی حکمرانوں سے عالمِ اسلام کی نامور دینی درسگاہ الجامعۃ الاسلامیۃ (مدینہ یونیورسٹی) بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے الزام لگایا ہے کہ پینٹاگون اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کرنے والوں میں سے زیادہ تر افراد اسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔

خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ امریکہ ریاض، جدہ اور مکہ کی یونیورسٹیوں کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا کیونکہ اس کی نظر میں یہ یونیورسٹیاں بھی بنیاد پرستی پھیلا رہی ہیں۔ لیکن ابتدائی طور پر اس نے مدینہ یونیورسٹی کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ تو ابھی ابتدا ہے ورنہ امریکہ سے جو خبریں آ رہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے دانشور قرآن کو بھی دہشت گردی کی تعلیم دینے والی کتاب سمجھتے ہیں۔‘‘

اس سے قبل ہم عرض کر چکے ہیں کہ امریکہ کے سابق صدر کلنٹن نے خود سعودی عرب جا کر وہاں کے دانشوروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے نصابِ تعلیم میں تبدیلی کریں اور خاص طور پر اس میں عقیدہ کی تلقین کو ترک کر دیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام سے امریکی اتحاد نے گزشتہ اکتوبر سے دنیا بھر میں جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کے اصل مقاصد کیا ہیں، اور دہشت گردی کے خاتمہ کے عنوان سے امریکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کس چیز سے محروم کرنا چاہتا ہے۔

جہاں تک ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر حملوں کا تعلق ہے ان کی ہر باشعور شخص نے مذمت کی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حملے خلیج عرب کے حوالے سے امریکی پالیسیوں اور اس کے پون صدی کے مسلسل کردار کا ردعمل ہیں۔ اور ان حملوں کی وجہ مدینہ یونیورسٹی کی تعلیم نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجوں کی موجودگی، اس خطہ کے عوام پر جبر کی کیفیت، اور امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی مکمل پشت پناہی ہے۔

جس کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کا کی کوئی راہ نہ پا کر ممکن ہے کچھ نوجوان اس رخ پر چل پڑے ہوں، جس کا الزام مدینہ یونیورسٹی کے چند فارغ التحصیل طلبہ پر عائد کیا جا رہا ہے۔ ورنہ مدینہ یونیورسٹی سے اب تک جو ہزاروں طلبہ فارغ ہوئے ہیں وہ دنیا کے مختلف حصوں میں خاموشی اور وقار کے ساتھ دینی خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ اور چند افراد کے مبینہ اقدام کی ذمہ داری مدینہ یونیورسٹی اور اس کے فارغ التحصیل حضرات پر عائد کرنا کسی طرح بھی قرینِ انصاف نہیں ہے۔ لیکن یہاں تو مسئلہ ہی اور ہے اور معاملہ انصاف اور اصولوں کی پاسداری کا نہیں بلکہ موقع سے فائدہ اٹھانے اور اس بہانے مسلمانوں کو دبانے اور دباتے چلے جانے کا ہے۔ جس کے لیے امریکہ بہادر ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد مسلسل سرگرمِ عمل ہے۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اور اداروں کو مسلمانوں سے اصل شکایت یہی ہے کہ وہ اپنے عقیدہ سے لاتعلق ہونے کے لیے کسی صورت میں تیار نہیں ہو رہے۔ اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر وہ عمل کریں یا نہ کریں مگر ان سے اعتقادی و ذہنی دستبرداری پر انہیں آمادہ کرنا کسی حالت میں ممکن نظر نہیں آ رہا۔ ان قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مدینہ یونیورسٹی، پاکستان کے دینی مدارس، اور عالم اسلام کی دیگر درسگاہیں مسلمانوں میں عقیدہ کی پختگی پیدا کر رہی ہیں اور قرآن و سنت کے ساتھ مسلمانوں کی بے لچک وابستگی کا باعث ہیں۔

جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ ان درسگاہوں کا وجود عقیدہ کی بدولت قائم ہے، اور ان درسگاہوں نے مسلمانوں میں عقیدہ پیدا نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کا عقیدہ اور قرآن و سنت کے ساتھ ان کی بے لچک وابستگی کی وجہ سے یہ درسگاہیں وجود میں آئی ہیں۔ اس لیے اگر خدانخواستہ یہ درسگاہیں ختم بھی ہو گئیں تو اس سے مسلمانوں کا عقیدہ ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ اپنے اظہار کے لیے کوئی اور راستہ نکال لے گا۔ جیسا کہ اس سے قبل برطانوی استعمار نے برصغیر میں ان درسگاہوں کا نظام ختم کر کے ان کا نتیجہ دیکھ لیا ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ سعودی حکمران امریکہ کے اس سراسر ناجائز مطالبہ کو غور کے قابل بھی نہیں سمجھیں گے۔ لیکن ہماری گزارش ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے حکمرانوں کو ان اسباب کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے جن کی وجہ سے حالات اس امریکی مطالبہ کی نوبت تک پہنچ گئے ہیں۔ عرب حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ معاملات کو کہیں نہ کہیں بریک لگانے کی ضرورت محسوس کریں اور اس کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ ورنہ اگر اب بھی مسلمانوں اور عربوں کے عقیدہ و دین کے خلاف اس یکطرفہ یلغار کو بریک نہ لگی تو آخر اس کا وقت پھر کب آئے گا؟[4]۔

حوالہ جات

  1. خضر حیات، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا مختصر تعارف اور داخلے کے متعلق تفصیلی معلومات- شائع شدہ از: 6 ستمبر 2014ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 مئی 2025ء
  2. ثناء اللہ بلتستانی، اسلامی یونیورسٹی (مدینہ طیبہ)، اسلامی یونی ورسٹی (مدینہ )کی تعلیمی و ثقافتی خدمات کا، ماہناہہ محدث-شائع شدہ از: 1974ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 مئی 2025ء
  3. دانشگاه اسلامی مدینه پیشتاز در جذب جوانان مسلمان(اسلامی مدینہ یونیورسٹی مسلمان جوانوں کی جذب کرنے میں پیش قدم)-1 مرداد 1397ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 مئی 2025ء
  4. ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ-شائع شدہ از: 1 مارچ 2002ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 مئی 2025ء