ماہ رمضان کے اٹھویں دن کی دعا تشریح کے ساتھ
ماہ رمضان کے اٹھویں دن کی دعا تشریح کے ساتھ
﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾
﴿اللّٰهُمَّ ارْزُقْنِى فِيهِ رَحْمَةَ الْأَيْتامِ، وَ إِطْعامَ الطَّعامِ، وَ إِفْشاءَ السَّلامِ، وَصُحْبَةَ الْكِرامِ، بِطَوْلِكَ يَا مَلْجَأَ الْآمِلِينَ﴾
اے معبود!آج کے دن مجھے یتیموں پر رحم کرنے، ان کو کھانا کھلانے اور کھلے دل سلام کہنے اور شرفاء کے پاس بیٹھنے کی توفیق دے اپنے فضل سے اے آرزمندوں کی پناہ گاہ۔
الفاظ کے معانی اور مختصر شرح
اللهم ارزقنی فیه رحمة الایتام
اللهم:پروردگارا!
ارزقنی فیه:مجھے روزی دے اس مہینے میں
رحمة:رحمت و مہربانی
الایتام:یتیموں
خدایا اس مہینے میں یتیموں کے ساتھ اچھائی کرنے کی مجھے توفیق دے۔ اگر ہمارا دل گناہوں کی وجہ سےآلودہ و سیاہ ہوجاۓ، تو اس کا علاج کیا ہے ؟ اسکے علاج کے لیے سحری کے وقت قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے تاکہ اس کی تلاوت سے ہمارے دل دوبارہ نورانی ہوجائیں۔ اسی طرح سحر کے وقت استغفار دلوں کو جلا بخشتی ہے۔ یتیموں کے ساتھ پیار و محبت کرنے سے انسان کے دل کی نورانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس لیے یتیموں کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آنا اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہیں ۔یتیم اسے کہا جاتا ہے کہ جس کا باپ مر جائے اور اس کا کوئی سرپرست اور پناہگاہ نہیں ہے ۔صرف خداوند اس کا سرپرست اور پناہگاہ ہے۔ اس دعا میں ہم خدا سے یہی دعا کر تے ہیں کہ یتیموں پر احسان ونیکی کرنے اور انکی مالی و معنوی مدد کی ہمیں توفیق عطا کریں۔
و اطعام الطعام
واطعام:اور کھانا کھلانا
طعام:کھانا
پروردگارا! مجھے توفیق دے کہ میں بھوکوں کو کھانا کھلاؤں اور روزے داروں کو افطاری کراوں۔ وہ کام جن کی ماہ مبارک رمضان میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ان میں سے ایک ، اللہ تعالی کی رضا کی خاطر فقیروں اور غریبوں کو کھانا کھلانا ہے،جس کا بڑا ثواب اور اجر ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) خطبۂ شعبانیہ میں، روزہ داروں کو افطار کرانے کے حوالے سے فرماتے ہیں : ہر کوئی اس مہینے میں کسی روزدار کو افطار کرائے ، تو قیامت کے دن پل صراط پر لوگوں کے قدم متزلزل ہورہے ہوگے۔
اس وقت ایسے شخص کے قدم متزلزل نہیں ہوگے۔ اس وقت ایک شخص نے آپ(ص) سے سوال کیا یا رسول اللہ اگر کوئی شخص افطاری دینے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ کیاکرے؟ آپ(ص) نے فرمایا:آدھی کھجور اور تھوڑے پانی سےبھی افطاری کرا سکتے ہوں اور اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا سکتے ہیں۔
و افشآء السلام
وافشآء:اور کھلے
السلام:سلام
خدایا مجھے توفیق دے کہ میں کشادہ دلی کے ساتھ لوگوں کو سلام کروں.کچھ لوگ بلند آواز سے سلام کرنے میں پیش قدمی کرتے ہیں۔ البتہ سلام کرنا مستحب ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے۔ سلام اللہ تعالی کے اسمای حسناء میں سے ایک ہے سلام یعنی اللہ تعالی امن ، سلامتی اور سکون دے ۔ اسلامی ثقافت میں جب ہم سلام کرتے ہیں تو حقیقت میں ہم خدا کو پکار رہے ہوتے ہیں ۔ سلام کا لفظ 40 مرتبہ سے زیادہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ امام باقر علیہ السلام کا فرمان ہے خداوند متعال کھلے دل سے سلام کرنے کو دوست رکھتا ہے۔
و صحبة الکرام
وصحبة:اور ہمنشینی
الکرام:شرفاء
خدایا مجھے اس مہینے میں علماء،دیندار ، صالح اور نیکو افراد سے ہم نشینی کی توفیق دے۔صحبة الکرام سے مراد اہل جود و سخی لوگوں کے ساتھ سے ہم نشینی ہے۔دوسروں کے ساتھ رہن سہن سے، ان کی خصوصیات انسان میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اگر ہم اچھے دوست انتخاب کریں، توان کی اچھی صفات ہم پر اثر کرتی ہیں اوراگر برا دوست انتخاب کریں تو ان کی بری صفات ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
بطولک یا ملجأ الأملین
بطولک:آپ کی برکتوں کا واسطہ
یاملجأ:اے پناہگاہ
الأملین:آرزومندوں کے
پرودگارا! تیری نعمتوں کا واسطہ جو تو نے ہمیں عطا کی ہیں ان دعاؤں کو ہمارے حق میں مستجاب کر، اے وہ، جو آرزومندوں کی پناہگاہ ہے [1]۔
حواله جات
- ↑ فرمان علی سعیدی شگری، راز بندگی،جی بی گرافکس اسلام آباد، 2022ء ص20 تا 21