صحیفۂ سجادیہ( کتاب)
صحیفۂ سجادیہ یا (عربی: الصحيفة السجادية)، امام زین العابدین سے منسوب استغاثہ و دعاؤں کا ایک مجموعہ ہے اور صحیفۂ کاملہ اسلام کے ابتدائی دور تدوین و تالیف کی ایک الہامی تصنیف ہے۔ جو حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں اور مناجاتوں پر مشتمل ہے۔ اس کی عظمت و اہمیت اور اعتماد وثوق کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ حضرت(ع) نے خود اس کی ترتیب و تدوین کا اہتمام فرمایا اور اپنے دونوں حاصبزادوں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور جناب زید شہید علیہ الرحمہ سے جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام بھی اس موقع پر موجود تھے اسے قلمبند کروایا تاکہ اس کے ضبط و حفظ کا سامان مکمل ہوجائے۔ اس صحیفہ کو واقعہ کربلا کے بعد مرتب کیا گیا۔ یہ کتاب انسان اور خدا کے درمیان تعلق کی وضاحت پیش کرتی ہے۔ اگرچہ کتاب دعا کی شکل میں اسلامی علم و فکر کا ایک مجموعہ اصولی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کتاب نے بنو امیہ کے خلاف بغاوت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ بعض علما کے قول کے مطابق، صحیفہ سجادیہ بلاغت کی اعلیٰ ترین شکل میں ہے۔ اور اس کے مندرجات، بیان اور تفسیر کی کئی کتابوں میں نقل کیے گئے ہیں۔ کتاب کا بنیادی حصہ متواتر ہے، علما کی ایک بڑی تعداد نے اس پر حواشی لکھے ہیں، یہ کتاب اہل تشیع کے ہاں مقبول ہے۔ یہ کتاب "انجیل اہل بیت" و "زبور آل محمد"و "اخت القرآن" کے نام سے معروف ہے۔
صحیفہ اور دعا کی تعلیم
صحیفہ کی دعاؤں نے جہان دعا کی عظمت و اہمیت سے دنیا کو آشنا کیا ہے وہاں دعا کا طریقہ بھی تلقین کیا ہے کہ طلب و سوال کے موقع پر کیا انداز اختیار کرنا چاہے اور کس نہج اور کس اسلوب سے دعا مانگنا چاہے۔ مثلا بیمار ہو تو طلاب شفا کے لیے کس طرح دعا مانگے۔ قرض سے سبکدوشی کے لیے کس طرح التجا کرے ، مقصد و حاجت کے سلسلہ میں کیا اسلوب اختیار کرے، توبہ و استغفارکے لیے کس طرح اس کے سامنے گڑگڑائے۔ مصائب وآلام سے رہائی کے لیے کس طرح اسے پکارے [1]۔
شرح اور ترجمہ
صحیفۂ سجادیہ شیعیان اہل بیت کے چوتھے امام حضرت امام سجاد سے منقولہ 45 مناجاتوں و دعاؤں پر مشتمل کتاب کا نام ہے۔ صحیفہ سجادیہ قرآن و نہج البلاغہ کے بعد، اہل تشیّع کے ہاں اہم مرتبے والی کتاب مانی جاتی ہے اور زبور آل محمد و انجیل اہل بیت کے عناوین سے مشہور ہے۔ آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ میں لکھا ہے کہ اس کتاب پر تقریبا 50 شرحيں لکھی گئی ہیں۔
جن میں سب سے مشہور شرح کا نام "ریاض السالکین" ہے اور اس کے مؤلف سید علی خان شیرازی ہیں۔ صحیفہ کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ترکی، اردو، ہسپانوی، بوسنیایی، آلبانوی، تامل سمیت مختلف زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اہل تشیع کے ہاں اس کتاب کی منزلت بجائے خود، جبکہ اہل سنت کے علما نے بھی اس کی فصاحت و بلاغت کی تعریف کی ہے۔
علی بن حسین نے بہت سے دینی معارف و تعلیمات کو دعاؤں کے ضمن میں بیان کیا ہے؛ جیسے خدا شناسي یا دینیات،، جہان شناسی یا کونیات اور انسان شناسی یا بشریات نیز عالم غیب، ملائکہ، رسالت، انبیاء، پیغمبر اور اہل بیت کی منزلت، امامت، اخلاقی فضائل اور رذائل، اعیاد کی تکریم، سماجی اور معاشی مسائل، تاریخی اشارات، اللہ کی مختلف نعمتوں، تلاوت، دعا، ذکر اور نماز اور عبادت کے آداب وغیرہ۔ صحیفہ سجادیہ کی معروف ترین دعا دعائے مکارم الاخلاق ہے۔
اسماء
بعض مسلمان علما کی رائے کے مطابق، صحیفۂ سجادیہ، قرآن اور نہج البلاغہ کے بعد الہی حقائق و معارف کا عظیم ترین خزانہ ہے اور اسی رو سے، اس کو اخت القرآن (قرآن کی بہن)، انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد اور صحیفہ کاملہ جیسے القاب دیے گئے ہیں۔ [2]۔
کہا گیا ہے کہ اس کو صحیفہ کاملہ اس لیے کہا گیا ہے کہ فرقۂ زیدیہ کے ہاں ایک نسخہ ہے جو ناقص ہے اور اس میں دعاؤں کے تعداد نسخۂ امامیہ کے نصف تک پہنچتی ہے چنانچہ امامیہ اپنے ہاں کے نسخے کو صحیفہ کاملہ کہتے ہیں[3] ۔
سند اور نسخہ جات
شیخ مفید صحیفہ سجادیہ کے سند کے حوالے سے فرماتے ہیں:" امام سجاد علیه السلام کی دعاؤں کا کتب حدیث خصوصاً کتب اربعہ میں ذکر ہونا اور دعاؤں کی دیگر قدیمی کتابوں میں نقل ہونا در حقیقت صحیفہ ٔ سجادیہ کی طرف علماء کے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے"۔ [4]۔ صحیفۂ سجادیہ سند کے لحاظ سے تواتر کی حد تک پہنچا ہے۔ آقا بزرگ تہرانی کہتے ہیں: صحیفۂ اُولٰی، جس کی سند امام زین العابدین(ع) تک پہنچتی ہے۔ اکابرین کے نزدیک متواترات اور [قطعیات] میں شمار ہوتا ہے؛ کیونکہ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ [سلسلۂ سند میں] مذکورہ تمام اصحاب نے تمام زمانوں میں اس کی نقل کی اجازت رجال کے تمام طبقات میں اپنے مشائخ سے حاصل کی ہے۔ نیز محمد تقی مجلسی نے دعوی کیا ہے کہ ان کے پاس صحیفہ کی نقل کے سلسلے میں دس لاکھ اسناد موجود ہیں [5]
شیخ مفید نے بھی اپنی کتاب الارشاد میں اور شیخ صدوق کے شاگرد علی بن محمد خزاز قمی اور احمد بن عیاشی نیز ابو المفضل شیبانی، وغیرہ نے صحیفہ سجادیہ کو نقل کیا ہے۔ اہل سنت کے علما میں ابن جوزی نے خصائص الائمہ میں اور سلیمان بن ابراہیم قندوزی نے ینابیع المودہ میں اس کا تذکرہ کرکے اس کے بعض حصوں کو نقل کیا ہے۔ ابو المعالی محمد بن ابراہیم کلباسی (متوفٰی 1315ھ ق) نے بھی اپنی کتاب الرسالۃ فی السند الصحیفۃ السجادیۃ میں صحیفہ سجادیہ کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔
صحیفہ سجادیہ بخط کفعمی-جو صحیفہ سجادیہ کے قدیم نسخوں میں سے تھا اور کئی سال تک ایران سے نکل کر گم ہو چکا تھا ـ کا سراغ بڑی محنت کے نتیجے میں، بر صغیر میں لگایا گیا اور ثقافتی شخصیات کے توسط سے قم میں منتقل کیا گیا اور بالآخر زیور طبع سے آراستہ ہوکر شائع ہوا۔ یہ نسخہ صحیفہ کی 54 دعاؤں کے علاوہ چار مزید دعاؤں پر مشتمل ہے۔
مرحوم آیت اللہ العظمیٰ نجفی مرعشی قدس سرہ نے ١٣٥٣ ھ میں علامۂ معاصر مؤلف تفسیر طنطاوی (مفتی اسکندریہ)کی خدمت میں صحیفۂ سجادیہ کا ایک نسخہ قاہرہ روانہ کیا ،انھوں نے اس گراں قدر ہدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب میں اس طرح تحریر فرمایا ہے :
یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ یہ گراں قدر کتاب جو میراث نبوت سمجھی جاتی ہے اب تک ہم اس سے محروم تھے اور میں جتنا بھی اس میں مشاہدہ اور غورو فکر کرتا ہوں اسے کلام مخلوق سے افضل وبرتر اور کلام خالق سے کمتر پاتا ہوں [6]۔
مضامین و مندرجات
امام سجاد : بار پروردگارا! اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیج؛ جن کو تو نے حکومت کے لئے منتخب کیا، اور اپنے علوم کا خزینہ اور دین کے محافظ مقرر کیا اور روئے زمین پر انہیں خلیفہ اور اپنے بندوں پر حجت کے عنوان سے متعین کیا؛ انہیں اپنے ارادے سے، ہر پلیدی اور آلودگی سے پاک و منزہ قرار دیا اور انہیں اپنے ارادے سے ہر ناپاک کرنے والی شئے سے پاک کردیا اور انہیں اپنے مقام قرب اور بہشت بریں تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا۔
امام سجاد اپنی دعاؤں کے آغاز میں اللہ کی حمد و ثناء بجا لاتے ہیں، بعد ازاں خاندان رسول(ص) پر درود و سلام بھیجتے ہیں، یہاں تک کہ صحیفہ میں کم ہی کوئی دعا ہوگی جس میں لفظ صلوات سے استفادہ نہ ہوا ہو۔آپ(ع) آخر میں اللہ سے اپنی حاجت کی درخواست کرتے ہیں۔ صحیفہ سجادیہ محض خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس کی بارگاہ میں حاجت کے بیان پر ہی مشتمل نہیں ہے، بلکہ بہت سے اسلامی علوم و معارف کا مجموعہ بھی ہے جن میں اعتقادی، ثقافتی و تعلیمی، معاشرتی اور سیاسی مسائل نیز بعض طبیعی قوانین اور شرعی احکام کو دعا کے سانچے میں بیان کیا گیا ہے۔
خدا کے ساتھ ارتباط و تعلق کے سلسلے میں مختلف اوقات اور احوال کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر بعض دعائیں بیان کی گئی ہیں؛ بعض دعائیں سال میں ایک بار پڑھی جاتی ہیں جیسے: دعائے عرفہ اور استقبال رمضان کی دعا اور دعائے وداع رمضان؛ اور بعض دعائیں مہینے میں ایک بار پڑھی جاتی ہیں جیسے: رؤیت ہلال کی دعا اور بعض ہفتہ وار اور دن اور رات کی دعائیں، وغیرہ۔
دعاؤں کے عناوین مختلف ہیں اور بہت سے اسلامی معارف دعاؤں کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں؛ اس کتاب میں خدا شناسی یا دینیات، وجود شناسی یا علم الوجود،[16] عالم الغیب، ملائکہ، انبیاء کی رسالت، پیغمبر اکرم(ص) اور اہل بیت کی منزلت، امامت، اخلاقی فضائل اور رذائل، اعیاد کی تکریم، سماجی و معاشی مسائل، تاریخی اشارات، خدا کی نعمتوں کا تذکرہ، تلاوت، ذکر، نماز، عبادت کے آداب کو دعا کے سانچے میں بیان کیا گیا ہے۔ صحیفہ کی مشہور ترین دعا دعائے مکارم الاخلاق ہے۔
صحیفہ کے اہم دینی و سیاسی مضامین میں سے ایک مسئلۂ امامت ہے۔ نیز اس میں عقیدۂ تشبیہ کی نفی ہوئی ہے۔
دعاؤں کے عناوین
صحیفہ سجادیہ 54 دعاؤں پر مشتمل ہے جن کے عناوین حسب ذیل ہیں:
- اللہ کی حمد و ثنا
- محمدو آل محمد پر درود
- حاملین عرش اور مقرب فرشتوں پر درود
- انبیاء کے پیروکاروں پر درود
- اپنے آپ اور رشتہ داروں کے لئے دعا
- صبح و شام کی دعا
- دشواریوں اور نآگواریوں سے پناہ
- سختیوں اور غیرپسندیدہ اخلاق سے پناہ
- شوق استغفار
- خدا کی پناہ
- انجام بخیر ہونا
- اعتراف اور توبہ
- طلب حاجت
- ظلم سے دادخواہی
- بوقت بیماری
- طلب مغفرت
- شر شیطان
- مصائب سے بچاؤ
- طلب باران
- مکارم الاخلاق
- خطاؤں کا غم
- سختیوں کے وقت
- تندرستی
- والدین
- اولاد
- پڑوسی اور دوست
- مرزداران
- خدا کی پناہ مانگنا
- رزق
- ادائے قرض
- توبہ
- تہجد کےوقت کی دعا
- خیر کی طلب
- گناہوں میں ابتلا
- راضی بہ قضا ہونا
- بجلی گرنے کے وقت
- شکر کرنے میں قصور
- ظلم سے اعتذار
- عفو و رحمت طلب کرنا
- موت کی یاد
- گناہوں سے پردہ پوشی
- ختم قرآن
- رؤیت ہلال
- استقبال رمضان
- وداع رمضان
- عید فطر اور جمعہ
- دعائے عرفہ
- عید الضحی و جمعہ
- دشمنوں کی حیلہ گری کا تقابل
- خوف خدا
- خدا کے آگے انکسار
- دعا پر اصرار
- خدا کے آگے انکسار
- غموں اور اندیشوں کا ازالہ۔
- اہل سنت کے علما کی نگاہ میں
ابن شہر آشوب مناقب آل ابی طالب میں لکھتے ہیں: ایک دفعہ بصرہ کے مقام پر ایک بلیغ شخصیت کی موجودگی میں صحیفۂ کاملہ کی فصاحت زیر بحث آئی تو انھوں نے کہا: میں بھی اسی طرح کی عبارات تمھیں املا کرکے لکھوا سکتا ہوں اور پھر اس نے قلم اٹھایا اور سر جھکا کر بیٹھ گیا [اور ایک جملہ بھی بیان نہ کرسکا] اور اسی طرح شرمندگی کی کیفیت میں چل بسا۔
سنہ 1353 ھ ق میں آیت اللہ مرعشی نجفی نے صحیفہ سجادیہ ایک نسخہ اہل سنت کے ایک عالم، تفسیر طنطاوی کے مؤلف اور اسکندریہ کے مفتی جوہر طنطاوی کے نام قاہرہ بھجوایا۔ انھوں نے نسخہ وصول کرنے کے بعد اس کو مخلوق کے کلام سے بالاتر خالق کے کلام سے کم تر قرار دیا اور اس کی تعریف کی۔
جوہر طنطاوی
یہ ہماری بدبختی ہے کہ اب تک یہ زندہ جاوید اور گران بہاء کتاب ـ جو نبوت کے مواریث میں سے ہے ـ ہماری دسترس سے خارج تھی، میں جتنا بھی اس کا مطالعہ کرتا ہوں، اس کو مخلوق کے کلام سے بالاتر اور خالق کے کلام سے کم تر دیکھتا ہوں۔ ابن جوزی خصائص الائمہ کہتے ہیں:
علی بن الحسین، زین العابدین املا، انشاء، بات چیت اور خطاب کرنے کی کیفیت اور اللہ کی بارگاہ میں عرضِ حاجت کے سلسلے میں تمام مسلمانوں پر معلمی کا حق رکھتے ہیں؛ کیونکہ آنحضرت (ع) نہ ہوتے تو مسلمان اللہ کے ساتھ کلام اور راز و نیاز کرنے اور اس کی بارگاہ میں عرض حاجت کی کیفیت سے نا واقف رہتے؛ چنانچہ امام (ع) نے لوگوں کو سکھایا کہ استغفار کے وقت خدا کے ساتھ کس طرح کلام کریں اور بارش طلب کرنے کے وقت کس زبان سے بارش کے نزول کی التجا کرے اور دشمن سے خوف کے وقت کس طرح اللہ کی پناہ میں چلے جائیں اور دشمنوں کا شر دور کرنے کے لیے اللہ سے درخواست کرے۔
زکی مبارک اپنی کتاب التصوف الاسلامی والادب والاخلاق نے صحیفہ سجادیہ کو مختلف پہلؤوں سے انجیل کی مثال قرار دیتے ہیں، اس فرق کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ انجیل کا کام یہ ہے کہ وہ اوپر کی بات عیسی مسیح کی طرف پلٹا دیتی ہے اور صحیفہ سجادیہ دل کے صفحے پر لکھی جانے والی بات اللہ کی طرف لے جاتا ہے۔
صحیفہ کے تراجم
تفصیلی مضمون: صحیفہ سجادیہ کی شرحوں کی فہرست امام سجاد اے میرے خدا! منصب خلافت تیرے خلفاء کے لیے ہے! وہی جو تیری خلقت کی برگزیدہ اور منتخب شخصیات ہیں اور تیری امانتیں ہیں ان درجاتِ عالیہ میں جو تو نے ان کے لیے مختص کر دیے ہیں جبکہ دوسروں نے یہ مراتب ان سے حاصل کیے۔۔۔ یہاں تک کہ تیرے برگزیدگان اور خلفاء ستمکاروں کے ستم کے مقابلے میں مغلوب و مقہور ہوئے اور ان کے حقوق برباد ہوئے۔ اے میرے پروردگار! ان کے دشمنوں پر ـ اولین اور آخرین میں سے ـ اور ان لوگوں پر جنھوں نے ان کے دشمن کی جارحیت پر رضامندی ظاہر کی اور ان کے پیروکاروں اور تابعین پر لعنت فرما.
آج تک صحیفہ سجادیہ کے متعدد تراجم مختلف زبانوں میں شائع ہوئے ہیں جن میں فارسی میں انجام پانے والے 60 تراجم اور شروح بھی شامل ہیں۔ نیز صحیفہ کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ترکی، اردو، ہسپانوی، بوفرانسیسی، بوسنیائی، البانیائی، تامل اور دیگر زبانوں میں بھی اس کے تراجم شائع ہوئے ہیں۔
بعض تراجم کے عنوانات حسب ذیل ہیں:
فارسی تراجم:
ترجمہ بقلم: عبد المحمد آیتی، مطبوعہ انتشارات صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران (سروش)۔ ترجمہ بقلم: مہدی الہی قمشہ ای، مطبوعہ نشر موسسہ انتشاراتی دانش هوشیار، سنہ 1384ھ ش، تعداد صفحات: 344؛ نیز مطبوعہ انتشارات وفائی، در سال 1384ھ ش، تعداد صفحات: 352۔ ترجمہ بقلم: محمد مہدی فولادوند، زیر عنوان پیشوائے چہرہ برخاک سایندگان، مطبوعہ نشر سازمان تبلیغات اسلامی، سنہ 1379ھ ش، تعداد صفحات: 419۔[24]
دیگر زبانیں:
فرانسیسی ترجمہ، بقلم: فریدہ مہدوی دامغانی، سنۂ طباعت: 1381ھ ش، باہتمام: انتشارات الہادی۔ مترجم کے بقول یہ فرانسیسی زبان میں صحیفہ سجادیہ کا پہلا ترجمہ ہے۔ ہسپانوی ترجمہ، زیر عنوان "As-Sahifa al-Kamilah as-Sayyadiiah; Las Súplicas de As-Sayyad"، بقلم: ماریا آموریتی،[25]، حجۃ الاسلام محمد معلمی زاده اور نیستور پاگانو[26]، مطبوعہ مؤسسة امام علی(ع)، بیروت. ترکی ترجمہ، بقلم: رسول اسماعیل زادہ، مطبوعہ باہتمام: انتشارات الہدی سنہ 2003ع
اردو تراجم:
اردو تراجم میں علامہ سید محمد ہارون، سید علی مجتہد، علامہ مفتی جعفر حسین، سید مرتضیٰ حسین، نسیم امروہوی اور علامہ ذیشان جوادی کے تراجم قابل ذکر ہیں۔ جن کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں مثال کے طور پر علامہ سید علی کے ترجمے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر دیگر علما نے مقدمے لکھے ہیں؛ مفتی جعفر حسین نے ہر دعا کے اختتام پر اس کے مضمرات کی تشریح کی ہے اور نسیم امرہوی نے دعاؤں کے الفاظ کی تشریح کی ہے۔
شرح صحیفہ سجادیہ
اس کتاب پر 60 سے زائد حواشی و شروحات لکھی جا چکی ہیں:
- شرح محقق ثانی (عربی میں)
- شرح کفعمی
- شرح شیخ بہائی (بنام حدائق الصالحین)
- شرح فارسی ملا محمد ہادی مترجم مازندرانی
- شرح میرداماد (بنام الفوائد)
- شرح محمد باقر مجلسی
- شرح سید علی حسینی مدنی (معروف بہ سید علی خان) (بنام ریاض السالکین)
- شرح صحیفہ لاہیجی اثر قطب الدین شریف لاہیجی۔
تفصیلی مضمون: صحیفہ سجادیہ کی شرحوں کی فہرست
شيخ بزرگ طہرانی نے کتاب الذریعہ میں صحیفہ سجادیہ کے لیے 50 شرحوں کا تذکرہ کیا ہے۔[29] بعض دیگر نے ان شرحوں کی تعداد 80 سے زائد بتائی ہے۔ نیز ایک کتاب زیر عنوان کتاب شناسی امام سجاد، صحیفہ سجادیہ و رسالۂ حقوق عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے جس میں امام سجاد(ع) سے متعلق کتب کا تعارف کرایا گیا ہے[7]۔
فارسی شرحیں
- شہود و شناخت، بقلم: حسن ممدوحی کرمانشاہی، مقدمہ بقلم: آیت اللہ جوادی آملی، 4 مجلدات، اشاعت: باہتمام: انتشارات بوستان کتاب وابستہ بہ دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم۔
- دیار عاشفان، بقلم: حسین انصاریان۔
- ترجمہ و شرح صحیفۂ کاملہ سجادیہ، بقلم: سید علی نقی فیض الاسلام، مطبوعہ باہتمام مرکز نشر آثار فیض الاسلام.
عربی شرحیں
ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، بقلم: سید علی خان مدنی۔ ریاض العارفین فی شرح صحیفه سید الساجدین بقلم: محمد بن محمد دارابی۔ آمال العارفین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، بقلم: میرزا عبد الوہاب بن محمد صالح برغانی قزوینی (متوفٰی سنہ 1249ھ ق)۔ یہ صحیفہ سجادیہ پر لکھی گئی بہت مفصل مزجی شرح[32] ہے جس میں ریاض السالکین میں مندرجہ سید علی خان کبیر کے نظریات و آراء کو مد بنیاد بنا کر ان ہی کے تناسب سے احادیث و روایات نیز مشہور فلاسفہ اور عرفاء کے نظریات سے استناد کیا گیا ہے؛ اور کوشش کی گئی ہے نقل کیے گئے ہیں اور فلسفی اصولوں کو دینی اعتقادات سے پیوند دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
موضوعاتی لغت نامے
- الدلیل إلی موضوعات الصحیفۃ السجادیۃ، بقلم: محمد حسین مظفر، قم، انتشارات اسلامی، 1403ھ ق۔ مظفر نے صحیفہ سجادیہ کے تمام موضوعات کو 19 ابواب میں مرتب کیا ہے اور ان کے ذیل میں فرعی اور جزئی موضوعات کو پیش کیا ہے۔
- نمایہ نامہ موضوعی صحیفہ سجادیہ (صحیفہ سجادیہ کے اشاریہ جات[35])، بقلم: مصطفی درایتی، مرتبہ و مطبوعہ باہتمام: تہران: مرکز اطلاعات و مدارک علمی ایران، ط 1، سنہ 1377ھ ش۔
- فرہنگ نامہ موضوعی صحیفۂ سجادیہ، (صحیفہ سجادیہ کا موضوعی لغت نامہ)، بقلم: سید احمد سجادی، مطبوعہ باہتمام: قم: مؤسسه فرہنگی مطالعاتی الزهراء، ط 1، سنہ 1385ھ ش۔
معاجمِ الفاظ
- المعجم المفہرس لألفاظ الصحیفۃ الکاملۃ، (صحیفہ کاملہ کے الفاظ کی بنیاد پر ترتیب یافتہ لغت نامہ)، بقلم: سید علیاکبر قرشی.
- المعجم المفہرس لالفاظ الصحیفۃ السجادیۃ، بقلم: علی انصاریان۔
- المعجم المفہرس لالفاظ الصحیفۃ السجادیۃ، بقلم: اثر فاطمہ احمدی [8]۔
تعلیقات اور حواشی
تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ: بقلم: ملا محسن بن مرتضی فیض کاشانی، یہ صحیفہ سجادیہ پر مختصر تعلیقات ہیں اور ان میں ادبی اور لغوی نکات کی تشریح کی گئی ہے۔ یہ کتاب سنہ 1055ھ ق میں تالیف ہوئی ہے۔ یہ کتاب شرح صحیفۂ سجادیۂ و حاشیۂ صحیفۂ سجادیہ جیسے عناوین سے بھی مشہور ہے۔
حاشیۃ الصحیفۃ السجادیۃ: بقلم: سید محمد باقر بن محمد حسینی استر آبادی، میر داماد (متوفٰی سنہ 1041 ھ)۔ یہ مختصر سی شرح ہے جو قولہ قولہ جیسے عناوین پر مشتمل ہے۔ اس میں لغوی، فلسفی اور کبھی علوم رجال و ہیئت کے مباحث شامل ہیں۔ یہ شرح صحیفہ سجادیہ کے نکات اور دقائق کی وضاحت پر مشتمل ہے اور میرداماد نے اس کو اپنی کتاب السبع الشداد کے بعد تالیف کیا ہے۔
حاشیۃ علی الصحیفۃ الکاملۃ: بقلم: ابو جعفر محمد بن منصور بن احمد ابن ادریس حلی (متوفٰی 598 ھ)۔ یہ صحیفہ سجادیہ پر مختصر سا حاشیہ ہے جس میں اس کے مشکل الفاظ کی وضاحت ہوئی ہے۔ ابن ادریس حلی کے حاشیے کی اہمیت کا سبب یہ ہے کہ یہ صحیفہ پر سب سے پہلا اور قدیم ترین حاشیہ ہے۔
صحیفہ کے بعض مستدرکات
صحیفۂ سجادیہ امام سجاد علیه السلام کی صرف چند دعاؤں پر مشتمل ہے۔حدیث اور دعاؤں کی دیگر کتابوں کی طرف رجوع کرنےسے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیه السلام سے مزید دعائیں بھی نقل ہوئی ہیں جو صحیفہ ٔ سجادیہ میں نہیں ہیں، اسی لیے بعض محدثین اور محققین نے ان آخری چندصدیوں میں امام علیه السلام کی دوسری دعائیں بھی جمع کی ہیں جوحضرت علیه السلام کے دوسرے صحیفہ کے عنوان سے تدوین ہوکرمنظر عام پر آچکی ہیں۔ درحقیقت یہ صحیفےصحیفہ ٔسجادیہ کے مستدرکات ہیں:
- صحیفۂ ثانیہ، بقلم: مؤلفِ وسائل الشیعہ، شیخ محمد بن حسن حر عاملی۔
- صحیفۂ ثالثہ، الدرر المنظومۃ المأثورۃ فی جمع لآلی الادعیۃ السجادیۃ المشہورۃ، بقلم: میرزا عبداللہ بن عیسی المعروف بہ افندی (وفات سنہ 1130 ھ کے لگ بھگ)۔ مؤلف نے اس کتاب میں امام سجاد(ع) کی ان دعاؤں کو اکٹھا کیا ہے جو صحیفہ کاملہ اور شیخ حر عاملی کی کتاب صحیفۂ ثانیہ میں موجود نہیں ہیں۔
- صحیفۂ رابعہ، بقلم: محدث میرزا حسین نوری طبرسی۔
- صحیفۂ خامسہ، بقلم: علامہ سید محسن امین عاملی۔
- صحیفۂ سادسہ، بقلم: شیخ محمد باقر بن محمد حسن بیرجندی قائینی۔
- صحیفۂ سابعہ، جس کے مؤلف صاحبِ مستدرک نہج البلاغہ شیخ ہادی کاشف الغطاء ہیں۔
- صحیفۂ ثامنہ، بقلم: حاج میرزا علی حسینی مرعشی شہرستانی حائری۔
- ملحقات صحیفہ، جس کے مؤلف شیخ بہائی کے شاگرد شیخ محمد، المعروف بہ تقی زیابادی قزوینی ہیں [9]۔
رومانیائی زبان میں صحیفہ سجادیہ کے ترجمے کی رونمائی
امام زین العابدین (علیہ السلام) کی دعاؤں کا مجموعہ صحیفہ سجادیہ کی معرفی کے سلسلے میں منعقدہ نشست میں اس عظیم کتاب کے رومانیائی زبان میں ترجمے کی رونمائی ہوئی، یہ نشست بخارسٹ میں امام علی (علیہ السلام) فاؤنڈیشن میں منعقد ہوئی۔ حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام زین العابدین (علیہ السلام) کی دعاؤں کا مجموعہ صحیفہ سجادیہ کی معرفی کے سلسلے میں منعقدہ نشست میں اس عظیم کتاب کے رومانیائی زبان میں ترجمے کی رونمائی ہوئی، یہ نشست بخارسٹ میں امام علی (علیہ السلام) فاؤنڈیشن میں منعقد ہوئی۔
رومانیا کے دار الحکومت بخارسٹ میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں متعدد معروف علمی اور ثقافتی شخصیات موجود تھیں۔ اس پروگرام کے مقررین میں ڈاکٹر گریگورے، بخارسٹ یونیورسٹی میں عربی زبان کے پروفیسر اور کتاب کے مترجم، شامل تھے۔ نیز حجت الاسلام والمسلمین سید حمید حسینی، امام جماعت اور امام علی (علیہ السلام) فاؤنڈیشن بخارسٹ کے مدیر، اور ڈاکٹر عزت نزاکت گو، رومانیا میں مقیم ایک معروف ایرانی شخصیت، نے بھی تقریب میں خطاب کیا۔
تقریب کے اختتام پر، اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر نے پھولوں کے ساتھ ڈاکٹر گریگورے کی خصوصی طور پر قدردانی کی۔ سفیر نے اپنے خطاب میں موجودہ دنیا میں روحانیت اور مذہب کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ان اقدار پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ تقریب کے اختتام پر، مذکورہ کتاب کو مترجم، ناشر اور امام علی (علیہ السلام) فاؤنڈیشن کے مدیر کے دستخط کے ساتھ مہمانوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس اقدام نے شرکاء کے درمیان گرمجوش گفتگو اور تبادلہ خیال کا موقع فراہم کیا اور اس ثقافتی تقریب کو مزید توانائی بخشی[10]۔
حواله جات
- ↑ علامہ مفتی جعفر حسین، صحیفۂ کاملہ، لاہور امامیہ پبلیکیشنز، 1998ء،ص24۔
- ↑ سید علی خان مدنی ، ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین، موسسة آل البیت ، مقدمہ ، ص ٤۔ ٥ ۔
- ↑ شیخ آغا بزرگ ، الذریعة الیٰ تصانیف الشیعة ، الطبعة الثانیة ، بیروت ، دار الاضواء ، ١٣٧٨ ھ.ق ، ج ١٥، ص ١٨ ۔ سیرہ ٔ پیشوایان ، مہدی پیشوائی ، ص ٢٧٠ ۔
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، ص25۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج 10 ص47
- ↑ صحیفہ ٔسجادیہ ، ترجمہ سید صدر الدین صدر بلاغی ، تہران ، دار الکتب الاسلامیة ، مقدمہ ، ص ٣٧ ۔
- ↑ آغا بزرگ تہرانی، الذریعہ ؛ ج 4 ؛ ص 111 ۔ 112 ۔
- ↑ محمد حسین مظفر نے ”الدلیل الی موضوعات الصحیفۃ السجادیہ، ص62۔
- ↑ آغا بزرگ تہرانی، الذریعہ ج13،ص340۔
- ↑ رومانیائی زبان میں صحیفہ سجادیہ کے ترجمے کی رونمائی- شائع شدہ از: 27 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 جنوری 2025ء۔