مندرجات کا رخ کریں

دشمن کو گلی نہ دیں(نوٹس)

ویکی‌وحدت سے

دشمن کو گلی نہ دیں" یہ ایک نوٹس کا عنوان ہے جس میں ایران پر اسرائیل کے حملے اور اس جنگ کے نتائج کے بارے میں بنجمن نیتن یاہو کے غلط اندازے کے موضوع پر بات کی گئی ہے۔ بدھ کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک اخباری یادداشت میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملہ اور اس کے نتائج کے بارے میں ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اسرائیلی حکام اور فوج کے اقدامات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ایک دن کے آپریشن سے یا تو ایران بدل جائے گا یا اس کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں آئیں گی۔ اسی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کو اس پیمانے کی جنگ کا اندازہ نہیں تھا جس کا اسے سامنا کرنا پڑا۔ ایک قابلِ اعتماد خبر کے مطابق، نیتن یاہو نے جنگ شروع ہونے سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا تھا: "24 گھنٹے بعد جو ہو گا وہ یہ ہے کہ اگلے کئی دہائیوں تک ایران کی طرف سے اسرائیل پر کوئی میزائل نہیں فائر کیا جائے گا۔" جنگ کے پہلے دن جب اسرائیل نے ایران کے فوجی نظام کو کچھ نقصان پہنچایا، تو اسرائیلی حلقوں میں ایران کے سیاسی نظام کی تبدیلی کی آوازیں آنے لگیں۔ لیکن چوتھے دن، جب یہ واضح ہو گیا کہ ایرانی فوج اپنی پچھلی طاقت کے باوجود اسرائیلی فوج پر اب بھی حاوی ہے، تو اسرائیلی حلقوں میں جنگ کو روکنے کی ضرورت پر بات شروع ہو گئی۔ آخرکار، اسرائیل نے امریکہ سے مدد کی درخواست کی اور 12 دن کی جنگ کے بعد، وہ اپنی خواہشات کے بجائے صرف جنگ بندی حاصل کر پائے۔

بڑی جنگ کا سامنا

اس منظر میں جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت ایک آپریشن کے بارے میں سوچ رہی تھی لیکن ایک جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف، ایران نے شروع میں یہ سوچا کہ اسے 12 دنوں سے زیادہ طویل جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کے مطابق، اس نے ایک طویل جنگ کو چلانے کے لیے اپنی سہولیات تیار کر رکھی تھیں۔ اگر ہم ان دو بیانات پر غور کریں تو ہم دونوں فریقوں کی طاقت کا ایک حقیقی اور ٹھوس فیلڈ جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس سوال کا جواب بھی بڑی حد تک مل جاتا ہے کہ کیا اگلے چند مہینوں میں – مختصر مدت – یا اگلے چند سالوں میں – درمیانی مدت – ایران اور امریکہ اور اسرائیلی حکومت کے درمیان ایک اور جنگ ہو گی۔ بالکل اسی بنیاد پر، آج کل صیہونی حلقے ایران کی طرف سے جنگ دوبارہ شروع ہونے کے امکان کے بارے میں بات کر رہے ہیں، نہ کہ ایران کے خلاف جنگ کے بارے میں۔ اسی طرح، آج کل اور پچھلے ہفتوں میں، معتبر یورپی جرائد میں درجنوں مضامین شائع ہوئے ہیں جن کی بنیاد ایران کی طرف سے جنگ شروع کرنے کے امکان کا جائزہ لینا ہے۔ یقیناً، جو بات ایران کی فوجی حکمت عملی میں زیر بحث ہے، وہ جنگ سے بچنا ہے اور ملک کو اس سطح کی فوجی صلاحیت تک پہنچانا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی مخالف فریق کے لیے بہت زیادہ مہنگی ہو اور اس کے نتیجے میں دشمن کے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے روکا جا سکے۔ اور یہ یقیناً بہت اہم اور بنیادی ہے۔ اسی بنیاد پر، اگرچہ دشمنوں کی کسی ملک پر ایران کی طرف سے جارحیت کی کوئی تاریخ نہیں ہے، لیکن وہ ایران کی فوجی طاقت سے خوفزدہ ہیں؛ کیونکہ انہوں نے اپنی فوجی پالیسیوں کی بنیاد دوسروں کو دھمکیاں دینے پر رکھی ہوئی ہے۔

چار اہم اهداف

اسرائیلی حکومت نے اس جنگ اور اس کے بارے میں جو سوچا تھا، اس کے مطابق، ایک روزہ فوجی آپریشن کو چار بڑے اہداف کے ساتھ ڈیزائن کیا اور امریکہ، یورپ، اور ممکنہ طور پر کچھ دیگر حکومتوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔

  • پہلا ہدف: ایران میں تبدیلی لانا، یعنی بڑے پیمانے پر سیاسی نظام کی تبدیلی یا حکمت عملی کے لحاظ سے نظام کی بنیادی پالیسیوں میں تبدیلی۔
  • دوسرا ہدف: ایران کی فوجی طاقت کو شدید اور ناقابلِ تلافی حد تک کمزور کرنا اور اس کے ڈھانچے کو تباہ کرنا۔
  • تیسرا ہدف: ایران کی سماجی طاقت کو ختم کرنا، ذہنی تضادات کو فعال کرنا، اور درحقیقت دشمنانہ خواہشات کو عملی جامہ پہنانا۔
  • چوتھا ہدف: ایران کو ایک محاذ کے مرکز اور ام‌القریٰ (مستقر) کے طور پر بے اعتبار کرنا۔

اہداف کو عملی جامہ پہنانے میں ناکامی

یہودی ریاست (اسرائیل) کی عملیاتی کارروائی، امریکہ، یورپ اور خطے کے بعض ممالک کی ہم آہنگی سے 13 جون 2025 کو شروع ہوئی، لیکن اس کے چار اہداف میں سے کوئی بھی حاصل نہیں ہو سکا۔ ایران کی سیاسی قیادت نے دشمن کے فوجی حملے کی پیشگی اطلاع کی وجہ سے، ملک کے فوجی نظام کو پہنچنے والے نقصانات کو حیرت انگیز رفتار سے بحال کیا، یہاں تک کہ جنگ کے تیسرے دن، اسرائیل کے ایک سینئر فوجی افسر نے اعتراف کیا کہ ایران کا فوجی ڈھانچہ مکمل طور پر کام کر رہا ہے اور اس کی فوجی قیادت اپنی جگہ پر نہایت درستگی سے عمل کر رہی ہے۔ سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کا ہدف، چاہے وہ مکمل ہو یا جزوی، حاصل نہیں ہو سکا، کیونکہ ایرانی فریق کے مذاکرات چھوڑنے سے، ایران پر فوجی حملہ یہاں تک کہ امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ جوہری مذاکرات بھی رک گئے اور مغربی ممالک کی کوششوں کے باوجود اب تک دوبارہ شروع نہیں ہو سکے ہیں۔ ایران کے سیاسی نظام نے کسی بھی سطح پر تبدیلی کو قبول نہیں کیا اور حقیقت میں دشمن کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ ایران کی سماجی قوت اور وہ جو ایک گہری عوامی انقلاب کی میراث ہے، بخوبی کام کر رہی ہے اور شہریوں کی سیاسی نظام کے ساتھ ہم آہنگی میں اضافہ ہوا ہے۔ بعض معتبر مغربی رپورٹوں کے مطابق، جنگ کے پہلے ہی دن، ایران کی سرحدوں کے اندر اسلامی جمہوریہ کے دفاع کرنے والوں میں 36.2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ دشمن کا چوتھا ہدف بھی، جو علاقائی ماحول میں ایران کو بے اعتبار کرنا تھا، الٹا اثر دکھا گیا ہے۔ امریکہ اور مجرم ریاست اسرائیل کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کا کوئی منطقی جواز نہیں تھا، اسی لیے کسی بھی حکومت نے اس کا کھل کر دفاع نہیں کیا۔ دوسری طرف، دنیا کی مختلف حکومتوں نے اس کی مذمت کی اور علاقائی حکومتیں ایران کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ خطے میں مسلمانوں کی حالت اس سے بھی زیادہ واضح ہے۔ ایک جامع سروے کے مطابق، مختلف اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی ایران کے لیے حمایت 72 فیصد سے شروع ہو کر 98 فیصد تک پہنچی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ شیعہ کمیونٹی نے اس جنگ کو پورے شیعہ طبقے کے خلاف جنگ سمجھا، نہ کہ صرف اسلامی جمہوریہ کے خلاف، اور کروڑوں شیعہ نے خود کو اس حالت میں پایا کہ انہیں اسلامی جمہوریہ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، لہذا دشمن اپنے چوتھے ہدف میں بھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکا۔

دشمن کے پالیسیوں میں تبدیلی

اس بیان کے مطابق، اگر دشمن ایران کے خلاف کوئی نئی کارروائی یا جنگ شروع کرنا چاہے، تو اسے ان چار چیزوں میں بنیادی تبدیلی لانی پڑے گی۔ دشمن یقینی طور پر ان چاروں جنگی اہداف کو شروع نہیں کر سکتا، لہذا یا تو اسے اپنے مطالبات بدلنے ہوں گے، یا اسے انتظار کرنا ہوگا کہ ایران کی ان چار صورت حال میں کوئی خرابی پیدا ہو۔ دشمن کا 12 روزہ آپریشن یا جنگ میں مطالبہ زیادہ سے زیادہ تھا، لہذا اگر دشمن کوئی نیا کھیل شروع کرنا چاہے، تو یہ کھیل زیادہ سے زیادہ سے کم سے کم کی طرف تبدیل ہونا چاہیے۔ یہ سوچنا کہ ایران اتنی جلدی ایک ایسی سطح پر پہنچ جائے گا جہاں اس کے خلاف جنگ کا جواز پیش کیا جا سکے، کافی حد تک سادہ لوحی ہے، لیکن یہ کہ ایران کی 12 روزہ جنگ میں ظاہر ہونے والی طاقت اور دوسری طرف دشمن کی کمزوری، اسے ایک مختلف نتیجے پر پہنچا دے، منطقی ہے۔

حالیه اتحاد کا تحفظ

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے حضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) کی شہادت کے روز فرمایا کہ آج دشمن کی نظر ایران کے اندرونی اختلافات اور سیاسی تفریق پر مرکوز ہے۔ اس وقت ایران میں اتحاد و ہم آہنگی کو قائم رکھنا سب سے زیادہ انقلابی عمل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دشمن کی نگاہ ایک اور چیز پر بھی ہے اور وہ ہے بعض معتبر اداروں اور اہم عہدوں پر فائز افراد کی غلط حساب کتاب اور نظر کی خامی۔ اگر کوئی ذمہ دار عہدیدار غلط تجزیوں یا بیرونی بہکاووں کے اثر میں آ کر نظر کی کمزوری اور اس کے نتیجے میں تجزیاتی کمزوری کا شکار ہو جائے تو وہ دشمن کو ان اہداف کے حصول کے لیے "راستہ" فراہم کر سکتا ہے جنہیں وہ فوجی طاقت سے حاصل نہیں کر سکا۔ جب کوئی ادارہ اسلامی مشاورتی اسمبلی اور ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کی منظوری کے باوجود بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے دو اہلکاروں کو اتوار، 22 اگست سے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے، تو دشمن یہ سمجھتا ہے کہ ایرانی حکام جو بیرونی مسائل سے وابستہ ہیں، ان میں سے کچھ میں ایک قسم کی کمزوری پیدا ہو گئی ہے۔

ایران کی ایٹمی توانائی ٹیم کا خط مسترد ہونا

جب ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کا حالیہ خط اقوام متحده کی سلامتی کونسل میں مسترد ہو جاتا ہے اور کونسل کی گزشتہ 22 اگست کی ہدایات کو فوری طور پر ایک ذمہ دار عہدیدار قبول کر لیتا ہے، تو دشمن اس باطل گمان میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ایران کمزور ہے اور اس پر کچھ بھی مسلط کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ اگر ہم امریکہ، یورپ، حکومت اور ایجنسی میں مخالف فریق کے بیانات پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ یکم جولائی اور 12 دن کی جنگ کے اختتام پر ایران کی حملے اور دفاع کی عظیم طاقت کو تسلیم کر چکے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ بعض "حلقوں" کے بند ماحول میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس پر بہت زیادہ شک و شبہ ہے، وہ کمزوری کا اظہار ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ گروہ 11 فروری 1979 ءکے اگلے دن سے ہی کمزوری محسوس اور ظاہر کر رہا تھا، جب کہ عوام، اسلامی انقلاب، ایران، امام اور قیادت عظیم تھے اور دنیا میں عظیم تبدیلیوں کا کام اپنی طاقت کے مطابق سمجھتے تھے اور اس پر یقین رکھتے ہوئے آج تک اس راہ پر ثابت قدم رہے ہیں اور بہت بڑے نتائج حاصل کر چکے ہیں۔

متعلقه تلاشیں

حواله جات

به دشمن کوچه ندهید(یادداشت روز) بقلم سعدالله زارعی روزنامه کیهان درج شده تاریخ: 25/اگست/2025ء درج شده تاریخ: 22/ستمبر/2025ء