بارہ امام اور بارہ خلیفے

ویکی‌وحدت سے

بارہ امام اور بارہ خلیفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ایک حدیث ہے جس میں آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کو بارہ کے عدد میں منحصر کیا ہے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ یہ حدیث مختلف صورتوں میں نقل ہوئی ہے اور سنی علم حدیث کے ماہرین کے مطابق یہ حدیث، صحیح احادیث میں سے ہے۔ شیعہ اس حدیث کو اپنے بارہ اماموں کی امامت پر دلیل سمجھتے ہیں۔ اہل سنت علماء کے درمیان اس حدیث کے مصادیق کے متعلق ایک واضح اور معین نقطہ نظر دیکھنے میں نہیں آتا ہے۔

اہل سنت احادیث میں بارہ خلیفہ

مسلمانوں کی بہت ساری کتب میں بار خلفا کا ذکر موجود ہے کہ رسولﷲ کے بعد بارہ جانشین ہوں گے۔نقبائے بنی اسرائیل کی طرح میری امت کے بھی بارہ خلیفہ ہوں گے۔

  • عن عبد الملک؛ سمعت جابر بن سمرة ؛قال: سمعت النبی(ص)یقول: یکون اثنیٰ عشرامیرا، فقال کلمة، لم اسمعها،فقال ابی: انه قال: کلهم من قریش-عبد الملک نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے:

میں نے رسول خدا(ص) سے سنا : آپ نے فرمایا: (میرے بعد میرے) بارہ امیر و خلیفہ ہوں گے، جابر کہتے ہیں : دوسرا کلمہ میں نے ٹھیک سے نہیں سنا لیکن بعد میں میرے پدر بزگوار نے مجھ سے کہا: وہ جملہ جو تم نے نہیں سنا وہ یہ تھا کہ وہ تمام خلفاء قریش سے ہوں گے۔ [1]

  • مسلم نے بھی اس حدیث کو آٹھ سندوں کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور ا ن میں سے ایک حدیث میں اس طرح آ یا ہے:

جابر بن سمرة؛ قال:انطلقتُ الی رسول(ص) اللّٰہ ومعی ابی، فسمعته، یقول: لایَزَالُ هذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْها الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلهم من قریش [2]

  • جابر بن سمرہ کھتے ہیں :

ایک مرتبہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ رسول خدا(ص) کی خدمت میں مشرف ہوا تو میں نے رسول(ص) سے سنا :آپ فرما رہے تھے: یہ دین الہٰی بارہ خلفاء تک عزیز اور غالب رھے گا،اس کے بعد دوسرا جملہ میں نہ سن سکا کیو نکہ صدائے مجلس سننے سے حا ئل ہو گئی تھی، لیکن میرے پدر بزرگوار نے کہا :وہ جملہ یہ تھا:یہ تمام بارہ خلفاء قریش سے ہوں گے۔ اس حدیث کومختلف مضامین کے ساتھ اھل سنت کی اہم کتابوں میں کثرت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ یکون فی آخر الزمان خلیفة یقسم المال ولا یعده [3]

  • جابر بن عبد اللہ اور ابوسعید نے رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے :

آپ(ص) نے ارشاد فرمایا: آخری زمانہ میں میرا ایک جانشین و امام ہوگا جو مال و ثروت کو( ناپ و تول کے ساتھ ) تقسیم کرے گا نہ کہ گنے گا

  • عن ابی سعید؛ قال: قال رسول الله : من خلفاء کم خلیفة یحشو المال حشیاً ولا یعده عداً [4]
  • ابو سعید نے رسول خدا(ص) سے دوسری حدیث نقل کی ہے ؛ آنحضرت(ص) نے فرمایا: تمھار ے خلفاء اور ائمہ میں سے ایک خلیفہ و امام وہ ہوگا جو مال کو مٹھی سے تقسیم کرے گا نہ کہ عدد و شمار سے۔
  • امام زمانہ کے بارے میں فاضل نَوَوی شارح صحیح مسلم؛ مذکورہ حدیث کی لغت حل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

سونا اور چاندی کی اس قسم کی تقسیم کا سبب یہ ہے کہ اس وقت ان( امام زمانہ(ع)) کی وجہ سے کثرت سے فتوحا ت ہوں گی جن سے غنائم اورمال وثروت فراوانی سے حا صل ہوگا اور آپ اس وقت اپنی سخاوت اور بے نیاز ی کا اس طرح مظاہرہ فرمائیں گے، اس کے بعد کہتے ہیں : سنن ترمذی و ابی واؤد میں ایک حدیث کے ضمن میں اس خلیفہ کا نام "مہدی" مرقوم ہے، اس کے بعد اس حدیث کو سنن ترمذ ی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول(ص) نے فرمایا :قیامت واقع نہیں ہوگی جب تک میرے اہل بیت ( خاندان )سے میرا ہم نام، جانشین ظاہر ہو کر عرب پر مسلط نہ ہو جائے۔

  • اس کے بعد نووی کھتے ہیں : ترمذی نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے اور سنن ابی داوٴد میں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی تحریر ہے : وہ خلیفہ اس زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔

بخاری نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہےکہ آنحضرت نے فرمایا:

  • کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ اِبنُ مَرْیَم فِیکُم و امامکم مِنْکُمْ.[5] تمھارا اس وقت خوشی سے کیا حال ہوگا جب ابن مریم حضرت عیسی تمھارے درمیان نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہوگا؟ ابن حجر نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام شافعی اپنی کتاب ”المناقب“ میں تحریر کرتے ہیں : اس امت میں امام مہدی (ع)کا وجود اور آپ کا حضرت عیسی (ع) کو نماز پڑھانا حد تواتر کے طور پر ثابت ہے [6]۔
  • ابن حجر اس کے بعد کھتے ہیں :

بدر الدین عینی اس حدیث کی مفصل شرح کرنے کے بعد اس طرح نتیجہ اخذ کرتے ہیں : حضرت عیسی (ع) کا اس امت کے امام مھدی(ع) کے پیچھے قیامت کے قریب آخری زمانہ میں نماز پڑھنا ،اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ قائل ہیں کہ زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی ، وہ درست ہے اور ان کا یہ عقیده حق بجانب ہے [7]

  • اور نووی کتاب تہذیب الاسماء میں کلمہٴعیسیٰ کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں:

حضرت عیسیٰ(ع) کا آخری زمانہ میں امام مہدی (ع) کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے آنا اسلام کی تائید اور تصدیق کی خاطر ہے ،نہ کہ اپنی نبوت اور مسیحت کو بیان کرنے کے لیے اور خدا وند متعال حضرت عیسیٰ(ع) کو امام مہدی (ع) کے پیچھے نماز پڑھواکر رسول اکرم (ص)کے احترام میں اس امت کو قابل افتخار بنانا چاہتا ہے [8]۔

بارہ خلیفہ کے مصادیق

حدیث باره خلیفہ کے متن میں ان بارہ خلفا کا نام نہیں آیا ہے۔ ابن جوزی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق اور جستجو کی اور اس سے متعلق سوال کیا لیکن میں نے کسی شخص کو نہیں پایا جو اس حدیث کے مصداق کو جانتا ہو۔ [9] اہل سنت کے بعض علماء نے اس حدیث کے مصادیق یعنی بارہ خلفاء کو مشخص کرنے کی حد درجہ کوشش کی ہے۔ عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ ان کی نظر میں بارہ خلیفہ سے مراد: ابوبکر، عمر، عثمان، معاویہ، یزید، سفاح، منصور، جابر، امین، سلام، مہدی اور امیر العصب ہیں۔ [10]

سیوطی نے بھی ان کا یوں تعارف کرایا ہے: ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن بن علی، معاویہ ابن ابو سفیان، عبداللہ بن زبیر اور عمر بن عبدالعزیز۔ اس کے بعد سیوطی نے یہ احتمال دیا ہے کہ ان بارہ خلیفہ میں سے دو نفر شاید بنی عباس کے دو حکمران المہتدی اور الظاہر ہوں کیونکہ سیوطی کی نظر میں یہ دو عادل شخص تھے۔ سیوطی آگے چل کر لکھتے ہیں: اس کے بعد دو نفر باقی بچتے ہیں ہمیں ان کا انتظار کرنا چاہئے جن میں سے ایک "مہدی" جو حضرت محمد ؐ کے اہل بیت میں سے ہیں۔ سیوطی نے دوسرے شخص کا نام نہیں لیا ہے [11]

شیعوں کے بارہ امام

12 خلیفه.png

قندوزی حنفی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد بعض محققین کے نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو کہتے ہیں: جب ہم ان احادیث کے متعلق غور و فکر کرتے ہیں، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اکرم(ص) کے بعد بارہ خلفاء ہوں گے، تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان احادیث میں رسول اکرم(ص) کی مراد اہل تشیع کے بارہ امام ہیں جو سب کے سب پیغمبر اکرم کے اہل بیت میں سے ہیں۔ کیونکہ ان کے بقول اس حدیث کو کسی طرح بھی خلفائے راشدین پر منطبق کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے کہ ان کی تعداد بارہ سے کم ہے، اسی طرح اسے بنی امیہ یا بنی عباس کے سلاطین پر بھی منطبق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان دو سلسلوں میں سے ہر ایک میں بارہ سے زیادہ حکمران رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ ان میں بعض افراد نہایت ہی ظالم اور سفاک قسم کے لوگ تھے اور بعض تو بالکل اسلامی احکام کے پابند نہیں تھے سوائے عمر بن عبدالعزیز کے۔علاوہ از ایں بنی امیہ، بنی ہاشم میں سے بھی نہیں ہیں جبکہ پیغبر اکرم(ص) نے ان احادیث میں ان سب کے قبیلہ بنی ہاشم میں سے ہونے پر تاکید فرمائی ہیں۔

پس ناچار اس حدیث کو شیعوں کے بارہ اماموں پر منطبق کرنا پڑے گا جو سب کے سب پیغمبر اکرم(ص) کے اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ یہ اشخاص اپنے زمانے کے سب سے زیادہ دین آشنا تھےاور علم و آگاہی میں کوئی بھی ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور فضل و کرم اور تقوی و پرہیزگاری میں یہ ہستیاں ہر زمانے میں زباں زد عام و خاص ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ ان ہستیوں کو یہ کمالات اپنے نانا پیغمبر اکرم(ص) سے ورثہ میں ملے ہیں۔ اسی طرح حدیث ثقلین اور اس طرح کی دوسری احادیث اس نظریے کی تائید کرتی ہیں [12]

شیعہ احادیث میں ایک ہی موضوع کو دو طرح سے منعکس کیا گیاہے:

  • خلفاء کی تعداد دربیان کی گئی:جعفر بن محمد (ع) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میرے بعد بارہ امام ہوں گے۔ ان میں پہلے علی بن ابی طالب ہیں اور آخری قائم (ع) ہیں۔ پس یہ لوگ میرے جانشین، وصی اور سرپرست ہیں اور میری امت پر خدا کی طرف سے حجت ہیں۔ ان کی امامت کا اقرار کرنے والا مومن اور ان کے فضل اور مقام کا انکار کرنے والا کافر ہے [13]
  • بارہ خلفاء میں سے ہر ایک کے نام ذکر کیے گئے ہیں: جابر بن عبدالله کی روایت، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ آیت اطاعت میں اولی الامر سے مراد کون ہیں؟ تو آنحضرت(ص) نے فرمایا:ائے جابر ! وہ میرے جانشین اور میرے بعد مسلمانوں کےامام ہیں۔ ان میں سب سے پہلے علی بن ابی طالب، پھر حسن، پھر حسین ، پھر علی بن الحسین ، پھر محمد بن علی ہیں جو توریت میں باقر کے نام سے مشہور ہیں، اور ائے جابر تم ان کا زمانہ درک کروگے جب ان سے ملنا تو انہیں میرا سلام کہنا۔ پھر جعفر بن محمد پھر موسیٰ بن جعفر پھر علی بن موسی پھر محمد بن علی پھر علی بن محمد پھر حسن بن علی پھر وہ جو میرا ہم نام اور ہم کنیت ہوگا جو زمین پر خدا کی حجت اور بندوں کے درمیان بقية الله ہوگا، جس کے ذریعے خدا مشرق اور مغرب کو فتح کرے گا[14]۔

حوالہ جات

  1. صحیح بخاری ج9، کتاب الاحکام، باب(52)”استخلاف“ حدیث6796۔ صحیح مسلم ج6، کتاب الامارة، باب(11) الناس تبع القریش و الخلافة فی قریش،،حدیث 1821
  2. صحیح مسلم ج 6 ،کتاب الامارہ ،باب1حدیث1821۔(کتاب الامارة کی حدیث نمبر9)
  3. صحیح مسلم جلد8 ،کتاب الفتن ،باب” لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل…“ حدیث2913۔2914
  4. صحیح مسلم جلد8 ،کتاب الفتن، باب ”لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل…“ حدیث2913،2914
  5. صحیح بخاری جلد4 ،کتاب الانبیاء ،باب ”نزول عیسی ابن مریم “حدیث 3265۔
  6. فتح الباری شرحا لبخاری ج7 ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم …ص 305
  7. عمدة القاری جلد16 ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم
  8. الا صابة جلد4،عیسی المسیح بن مریم الصدیقة بنت عمران ، ص638
  9. کشف المشکل من حدیث الصحیحین، عبد الرحمن بن الجوزی، تحقیق علی حسین البواب، ریاض، دار الوطن، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۴۴۹
  10. تاریخ الخلفاء، ص۲۱۰
  11. تاریخ الخلفاء، ص۱۰- ۱۲
  12. نابیع المودۃ، ج2، ص535
  13. شیخ صدوق، من ‏لا یحضره‏ الفقیه، ج۴، ص ۱۸۰
  14. مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۲۳،ص ۲۹۰