احمد ریسونی
| احمد ریسونی | |
|---|---|
| دوسرے نام | شیخ احمد ریسونی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1953 ء، 1331 ش، 1372 ق |
| پیدائش کی جگہ | العرائش، مراکش |
| مذہب | اسلام، سنی |
| اثرات |
|
| مناصب | سابق صدر عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین |
احمد ریسونی مراکش کے بزرگ علماء ہے۔ وہ ان میں علماء میں سے ایک ہے جو فقہ مقاصد شریعت کی کافی خدمت کی ہے اور ان افراد میں سے ہیں کہ جنہوں نے عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کی بنیاد رکھی ہیں۔
سوانح عمری
احمد بن عبد السلام بن محمد ریسونی مراکش کے شمالی صوبہ العرائش کے اولاد سلطان گاؤں میں 1953ء میں پیدا ہوئے۔
تعلیم
اس نے القصر الکبیر میں پرائمری اور مڈل کی تعلیم حاصل کی اور وہاں ماڈرن لیکچرر میں بے ائے کی ڈگری حاصل کی۔ ایک سال کی مدت میں قانون کی کالج میں(قانونی علوم کے شعبۂ میں) اور ایک سال انسانی علوم و فن کالج میں (فلسفہ کے شعبہ میں) حاضر ہوئے اور فاس شہر کے القرویین یونیورسٹی کے شریعت کالج میں داخل ہوئے اور 1978ء اعلی ڈگری حاصل کی اور رباط کے (محمد الخامس) یونیورسٹی کے ہنر اور علوم انسانی کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی۔
تعلیمی اسناد
- یونیورسٹی ڈگری 1986ء
- تحصیلات تکمیلی کا ڈیپلمہ(ایم فل) مقاصد الشریعۂ 1989ء میں
- اصول فقہ میں پی ایچ ڈي ڈگری 1992ء
سرگرمیاں
- وزارت قانون میں قانونی بلوں کے رائٹرکے طور پر خدمات انجام دیے(1973-1978ء)
- سوق اربعاء الغرب شہر میں وزارت انصاف کی ابتدائی اداری ڈیپارئمنٹ کے صدر کی حیثیت سے منتخب ہوا(1367/1355)
- 1986سے 2006ء ادب اور علوم انسانی کالج، محمد الخامس یونیورسٹی اور دار الحدیث الحسنیہ میں میں اصول فقہ اور مقاصد الشریعہ میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیے۔
- 2006ء سے جدہ میں مجمع جہانی فقہ اسلامی میں کارشناس کی حیثیت سے خدمات
- متحدہ عرب امارات کی زاید یونیورسٹی، قطر کی حمد بن خلیفہ یونیورسٹی اور قطر یونیورسٹی کے شریعت اور اسلامی تعلیمات کالج میں مہان استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیے۔
سماجی سرگرمیاں
- عالمی اتحاد برائے علماء مسلمان کے مؤسس اعضاء کا رکن، ناصب صدر اور صد۔
- انجمن اہل سنت کا پہلے صدر۔
- بین الاقوامی تنظیم فکر اسلامی یونیورسٹی شعبہ کا مشیر۔
- انجمن اسلامی مراکش کا مؤسس اور صدر۔
- مراکش میں انجمن مطالعات اسلامی اور فارغ التحصیلان کا مؤسس اور جنرل سیکرٹری۔
- مراکش میں انجمن آیندہ اسلامی کا صدر(1994-1996)
- مراکش میں اتحاد و اصلاحات مؤومنٹ کا صدر(1996-2003ء)
- تحقیقاتی اور مطالعاتی المقاصد مرکز کا مدیر۔
- "التجدید" اخبار کا چیف ایڈیٹر(2000 -2004)
- بعض علمی اور ثقافتی انجمنوں کی تاسیس میں تعاون۔
- دسیوں سیمیناروں اور کانفرنسوں میں تقریر۔
- ٹیلیویژن کے مختلف پروگرموں میں شرکت
یونیورسٹی میں علمی کام
- 1986سے مبانی فقہ، مقاصد شریعت اور قواعد فقہی کی تدریس۔
- مراکش کے مختلف جامعات میں سو زیاد ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تھیسز پر نگرانی۔
- مکہ اوپن یونیورسٹی متولی کمیٹی اور شورای علمی کا رکن۔
- ترکی میں نوآوری یونیورسٹی کا ٹریسٹر۔
- بعض ممالک کے علوم شریعت میں محققین کے لیے مختلف علمی دورہ جات پر نگران۔
ایران کی حمایت تمام مسلمانوں پر واجب ہے
عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے سابق صدر احمد الریسونی نے عالم اسلام سے مخاطب ہوکر کہا کہ عالمِ اسلام کو چاہیے کہ وہ صہیونی ریاست کے مقابلے میں ایران کا بھرپور ساتھ دے۔
مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ احمد الریسونی نے کہا: صہیونی حکومت کی جارحیت کے مقابلے میں ایران کی حمایت تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے اب تک فلسطین کی حمایت میں ایران نے جس وفاداری اور قربانی کا مظاہرہ کیا ہے، دنیا کا کوئی اور ملک اس کی مثال پیش نہیں کر سکا۔
الریسونی نے واضح طور پر کہا کہ نہ عرب ممالک اور نہ ہی دیگر اسلامی ریاستیں، چاہے وہ انفرادی سطح پر ہوں یا اجتماعی طور پر، ایران کی طرح فلسطینی کاز کی خدمت نہیں کر سکیں۔
واضح رہے کہ عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین ہمیشہ مسئلہ فلسطین پر دوٹوک مؤقف اختیار کرتا رہا ہے، اور وہ صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کو تمام مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول خیانت سمجھتا ہے[1]۔
مسلم علماء کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر ردعمل
انٹرنیشنل مسلم علماء یونین (آئی ایم یو) نے فلسطینی علماء ایسوسی ایشن کے توسط سے بیرون ملک منعقدہ ایک ورچوئل کانفرنس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خلاف ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق ، جمعرات کے دن مسلم علماء کی بین الاقوامی یونین نے صدی کی ڈیل اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں اقوام عالم کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ فلسطینی عوام کے خلاف ایک نئے محاصرے کا باعث بن سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ، دوحہ میں مقیم یونین کے صدر احمد الریسونی نے ، بیرون ملک فلسطینی علماء ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقدہ ایک آن لائن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرب حکومتوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا نہ صرف فلسطینی مقصد کو تباہ کرنے کا خطرہ ہے بلکہ فلسطینی عوام کے خلاف نئی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ احمد الریسونی نے مسلم علماء اور پیشواؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ شعور بیدار کرنے کے ساتھ فلسطینی عوام کے محاصرے کے خلاف مضبوط موقف اپنائیں اور غاصب اسرائیلی حکومت اور ان ممالک کے ساتھ عوامی طاقت اور قوت سے مقابلہ کریں جنہوں نے اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لایا ہے۔
مسجد اقصیٰ کے خطیب شیخ اکریما صبری نے مسلم علماء سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان حکومتوں کو الگ تھلگ اور محاصروں کو توڑنے کیلئے مؤثر محاذ تشکیل دیں کہ جنہوں نے اپنے اخلاقی مقامات اور اقدار کو ترک کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے ہیں۔ یاد رہے کہ رواں سال 2020ء میں چار عرب ممالک ، متحدہ عرب امارات ، بحرین ، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدوں پر عملدرآمد کیا ہے ۔ مختلف ممالک کے مسلم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ فلسطینی عوام کے حقوق کو نظرانداز کرتا ہے اور فلسطینی امنگوں کے خلاف ہے[2]۔
فلسطین کی حمایت میں شیعہ برادری پیش پیش ہے
معروف مراکشی عالم احمد الریسونی نے کہا کہ شیعہ برادری نے فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ معروف مراکشی عالم احمد الریسونی نے کہا کہ شیعہ برادری نے فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ احمد الریسونی نے اپنے ایک مقالے میں لکھا کہ جس طرح فلسطینی مزاحمت کی شیعہ مسلمانوں نے حمایت نمایاں کردار ادا کیا ہے اس طرح سے سنی مسلمانوں نے فلسطین کی حمایت نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ برادری نے جان، مال، ہتھیار اور فداکاریوں کے ذریعے فلسطین کی حمایت میں کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے اپنے مقالے "أقیموا الشهادة لله" میں یہ بات واضح طور پر بیان کی ہے کہ ہمارا یہ بیان انصاف اور حق کی گواہی ہے اور یہ ان لوگوں کے لئے ایک دندان شکن جواب ہے جو فلسطین کے مسئلے پر شیعوں کی حمایت کو مشکوک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ احمد الریسونی جو کہ عالمی اتحاد برائے مسلم علماء کے سابق صدر ہیں، انہوں نے کہا کہ ان کا یہ بیان کچھ لوگوں کو ناراض کر سکتا ہے، مگر ان کے لیے سب سے اہم بات حقائق بیان کرنا ہے، نہ کہ لوگوں کے شکوک و شبہات پر دھیان دینا ہے۔
انہوں نے قرآن مجید کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا : حق کی گواہی دینا ایک شرعی ذمہ داری ہے، اگر چہ کہ وہ گواہی اپنے یا اپنے عزیزوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، حقیقت کو چھپانا سخت گناہ ہے۔ الریسونی کے اس بیان پر ہونے والی تنقید کے بارے میں، کچھ افراد کا ماننا ہے کہ ناقدین نے ان کا پورا مضمون نہیں پڑھا بلکہ بعض عناصر کی طرف سے کی گئی مخالفت کی وجہ سے ان پر تنقید کر رہے ہیں[3]۔
تمام ادیان آسمانی کے شرعی اور مذہبی اصولوں کی بنیاد پر اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہیے
احمد ریسونی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ صہیونیوں کا غصب اور جارحیت کا ارتکاب، دین اسلام اور یہودیت سمیت پورے ادیان آسمانی کے اصولوں کے برخلاف اور حرام ہے اور نتیجتاً پورے ادیان آسمانی کے شرعی اور مذہبی اصولوں کی بنیاد پر اسرائیل کو ختم ہونا چاہیے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مراکشی عالم دین اور انجمن علمائے اسلام کے سربراہ احمد ریسونی نے کہا کہ فلسطین کی جنگ کا طولانی اور جاری رہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ جنگ اختتام نا پذیر اور بلا مقصد ہو۔ انہوں نے "مسئلہ فلسطین اور جاری جنگ"کے عنوان سے ایک ٹیلیویژن چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ مسلمانوں اور فلسطینیوں کا ہدف،مقبوضہ علاقوں سمیت وطن،مسجد اقصی اور بیت المقدس کی آزادی اور واپسی ہے اور یہ جنگ کی انتہا ہے۔
ریسونی نے بیان کرتے ہوئے کہ یہ جنگ صہیونیوں اور کچھ فریب خوردہ عرب ممالک کے گمان کے خلاف ہے،مزیدکہاکہ یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ فلسطینیوں کی فتح ناممکن اور اسرائیل پر فتح حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے اور ہمارے پاس اسرائیلی حکومت کو تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کے گمان اور شرط و شروط ہماری نظروں سے بالکل مختلف ہیں۔
اسرائیل کی تباہی اور فلسطینیوں کی آزادی یقینی ہے
مراکشی عالم دین نے اس بات کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین،قابضین اور اسرائیل کے نام سے منسوب ناجائز حکومت کی تباہی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا اور اس کے ساتھ ہی اس جنگ کا خاتمہ ہوگا۔ ریسونی نے اسرائیلی حکومت کی نابودی اور عربی،اسلامی اور مسیحی حکومت کے طور پر فلسطین کی آزادی کو یقینی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل ایک غاصب،ظالم، بے بنیاد،خود ساختہ اور مختلف ممالک کے افراد پر مشتمل ایک حکومت ہے لہذا اس کو ختم ہونا چاہیے۔
پورےادیان آسمانی کے شرعی اور مذہبی اصولوں کی بنیاد پر اسرائیل کو ختم ہونا چاہیے
انہوں نے اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ دین اسلام،مسلمانوں کا دشمن کے سامنے تسلیم کرنا یا سرزمین، حقوق اور دستاویزات کو ان کے حوالے کرنے کو حرام قرار دیتا ہے لہذا مسلمانوں کی اپنی سرزمین،وطن اور عزت و وقار کے مقابلے میں کوتاہی کرنا جائز نہیں ہے۔خداوند متعال نے ظلم کو حرام قرار دیتے ہوئے اپنے بندوں کو ظلم اور ظالموں کے خلاف جد و جہد کرنے کا حکم اور استکبار کے مقابلے میں خاموش رہنے سے منع کیا ہے۔
ریسونی نے کہا کہ صہیونیوں کا غصب اور جارحیت کا ارتکاب،دین اسلام اور یہودیت سمیت پورے ادیان آسمانی کے اصولوں کے برخلاف اور حرام ہے اور نتیجتاً پورے ادیان آسمانی کے شرعی اور مذہبی اصولوں کی بنیاد پر اسرائیل کو ختم ہونا چاہیے[4]۔
فلسطین کی حمایت میں عظیم کانفرنس کا اہتمام
فلسطین کی حمایت میں عظیم دو روزہ آن لاین کانفرنس اس ہفتے کو ترک شہر استنبول میں منعقد کی جا رہی ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حمایت فلسطین کانفرنس بین الاقوامی فلسطین الاینس اور ترک اسلامی رابطہ مرکز کے تعاون سے استنبول میں منعقد کی جارہی ہے۔ حمایت فلسطین کانفرنسZoom) پر دیکھی جاسکتی ہے جو «قدس ایک امانت اور تعلقات بحالی خیانت» کے عنوان سے منعقد ہوگی جسمیں دنیا کے 70 ممالک سے اہم شخصیات شریک ہوں گی۔
ترک اسلامی دنیا رابطہ مرکز کے سربراہ زیاد بومخلة کا کہنا ہے: کانفرنس کا مقصد مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اسکا تحفظ ہے۔ انکا کہنا تھا: کانفرنس میں آٹھ نشستیں ہوں گی جسمیں اسلامی دنیا کی اہم علما اور اسکالرز شریک ہوں گے۔
زیاد بومخلة کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے مندرجات انگریزی، فرنچ، اسپینش، ترکی، اردو، پرتگش اور مالائی میں ترجمہ ہوگا۔ مذکورہ مرکز کے سربرہ کا کہنا تھا: کانفرنس میں حماس رھنما اسماعیل هنیه، ترک- فلسطین دوستی ادارے کے حسن توران، کے علاوہ اسلامی علما الاینس کے سربراہ «احمد الریسونی»، خطیب مسجد اقصی «شیخ عکرمه صبری«، امارات کو سوشل ایکٹویسٹ، «احمد الشیبه»، اردن کے سیاست داں «عبدالله العکایله»، اور سوڈان کے عالم دین «عصام البشیر» کے علاوہ دیگر اہم علما کی شرکت متوقع ہے[5]۔
مراکشی عالم دین کا مسلم علماء کی عالمی یونین صدارت سے استعفیٰ
مراکشی عالم دین احمد الریسونی نے مسلم علماء کی عالمی یونین کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مراکش کے معروف عالم دین احمد الریسونی نے مراکش، الجزائر اور موریطانیہ میں بڑے پیمانے پر تنازعہ پیدا کرنے والے اپنے متنازعہ بیانات کے بعد مسلم علماء کی عالمی یونین کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
انہوں نے ایک پیغام میں اپنے مستعفی ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا استعفیٰ میرے مضبوط مؤقف اور نظریات کے مطابق ہے جو سازش کو قبول نہیں کرتے۔ الریسونی نے مزید کہا کہ میں نے آزادی اظہارِ رائے سے وابستگی کے باعث اور بغیر کسی شرط یا دباؤ کے مسلم علماء کی عالمی یونین کی صدارت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ الریسونی نے اپنے بیانات میں کہا تھا کہ مغربی صحرا اور موریطانیہ مراکش کا حصہ ہے اور صحرا اور موریطانیہ کا مسئلہ استعمار کا خود ساختہ مسئلہ ہے۔ یاد رہے کہ انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ مراکش کے حکام نے صحرا کے معاملے میں مراکشی عوام پر بھروسہ کرنے کے بجائے غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے اقدامات کئے ہیں[6]۔
امت مسلمہ نے ایک بڑے عالم دین کو کھو دیا، عالمی انجمن علماء اسلام
مرحوم آیت اللہ تسخیری ان اسلامی شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے عالم اسلام میں مختلف مذاہب کے باوجود بھی شیعوں اور سنیوں کے باہمی تعلقات اور تکفیریت کے خلاف جدوجہد کا مطالبہ کیا اور اس راہ میں انہوں نے ایسی بہت ساری کوششیں کیں جن کا ثواب ان کے نامہ اعمال میں لکھا گیا ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علماء اسلام کی عالمی انجمن نے مرحوم آیت اللہ تسخیری کی وفات کے موقع پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم آیت اللہ تسخیری علمی دنیا میں ایک بے نظیر اور معروف مقام رکھتے تھے اور قدیم علوم و فلسفہ اور عصری علوم و ثقافت کے مابین نمایاں شخصیت کے مالک تھے۔
جس کا متن مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"یَا أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً فَادْخُلِی فِی عِبَادِی وَادْخُلِی جَنَّتِی"
قضا و قدر الٰہی کے ساتھ ، ہمیں مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی کی عالمی اسمبلی کے سابق سکریٹری جنرل اور علماء اسلام کی عالمی یونین کے سابق نائب صدر آیت اللہ شیخ محمد علی تسخیری کی وفات کی خبر موصول ہوئی۔
مرحوم آیت اللہ تسخیری ان اسلامی شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے عالم اسلام میں مختلف مذاہب کے باوجود بھی شیعوں اور سنیوں کے باہمی تعلقات اور تکفیریت کے خلاف جدوجہد کا مطالبہ کیا اور اس راہ میں انہوں نے ایسی بہت ساری کوششیں کیں جن کا ثواب ان کے نامہ اعمال میں لکھا گیا ہے ۔اس کے علاوہ ، مرحوم علمی دنیا میں ایک معروف مقام رکھتے تھے اور قدیم علوم و فلسفہ اور عصری علوم و ثقافت کے مابین نمایاں شخصیت کے مالک تھے۔ نیز امت مسلمہ نے ایک بڑے عالم کو کھو دیا۔ ہم اللہ تعالٰی سے دعا گو ہیں کہ وہ مرحوم پر اپنی عظیم مغفرت اور رحمت واسعہ کا نزول فرمائے ، ان کو انکی نیکیوں کا بدلہ دے ، مرحوم کے اہل خانہ ، رشتہ داروں ، دوستوں اور ساتھیوں کو صبر جمیل اور سلامتی عطا کرے ، کیونکہ خدا ہی وہ بہترین ولی اور دعاؤں کو مستجاب کرنے والا ہے۔
شریک غم : علماء اسلام کی بین الاقوامی انجمن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر علی القرہ داغی اور سربراہ ڈاکٹر احمد الریسونی[7]۔
آثار
- نظریة المقاصد عند الإمام الشاطبی (جو فارسی، اردو، انگلش اور بوسینائی زمان زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے)
- نظریة التقریب والتغلیب وتطبیقاتها فی العلوم الإسلامیة
- من أعلام الفکر المقاصدی
- مدخل إلی مقاصد الشریعة
- الفکر المقاصدی قواعده وفوائده
- الاجتهاد: النص والمصلحة والواقع
- الأمة هی الأصل
- التعدد التنظیمی للحرکة الإسلامیة ما له وما علیه
- ما قل ودل، ومضات ونبضات (مجموعة مقالات)
- الوقف الإسلامی، مجالاته وأبعاده (نشرته منظمة الإیسیسکو وترجم إلی الإنجلیزیة والفرنسیة)
- الشوری فی معرکة البناء (ترجم إلی الإنجلیزیة والفرنسیة والترکیة)
- الکلیات الأساسیة للشریعة الإسلامیة (ترجم إلی الفرنسیة والألمانیة)
- محاضرات فی مقاصد الشریعة
- الفکر الإسلامی وقضایانا السیاسیة المعاصرة
- أبحاث فی المیدان
- مراجعات ومدافعات (مجموعة مقالات)
- علال الفاسی عالما ومفکرا
- فقه الثورة مراجعات فی الفقه السیاسی الإسلامی
- بحوث عدیدة ضمن موسوعة (معلمة زاید للقواعد الفقهیة والأصولیة)
- التجدید والتجوید، تجدید الدین وتجوید التدین
- التجدید الأصولی، نحو صیاغة تجدیدیة لعلم أصول الفقه (تألیف جماعی)
- القواعد الأساس لعلم مقاصد الشریعة
- الجمع والتصنیف لمقاصد الشرع الحنیف
- دراسات فی الأخلاق
- معجم المصطلحات المقاصدیة (تألیف جماعی)
- علم أصول الفقه فی ضوء مقاصده
- المختصر الأصولی
- الاختیارات المغربیة فی التدین والتمذهب
- مقصد السلام فی شریعة الإسلام
- قواعد المقاصد
حوالہ جات
- ↑ ایران کی حمایت تمام مسلمانوں پر واجب ہے، احمد الریسونی- شائع شدہ از: 18 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جون 2025ء
- ↑ مسلم علماء کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر ردعمل- شائع شدہ از: 19 دسمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جون 2025ء
- ↑ فلسطین کی حمایت میں شیعہ برادری پیش پیش ہے: مراکشی عالم- شائع شدہ از: 14 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جون 2025ء
- ↑ تمام ادیان آسمانی کے شرعی اور مذہبی اصولوں کی بنیاد پر اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہیے- شائع شدہ از: 19 جون 2021ء -اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جون 2025ء
- ↑ فلسطین کی حمایت میں عظیم کانفرنس کا اہتمام- شائع شدہ از: 7 نومبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جون 2025ء
- ↑ مراکشی عالم دین کا مسلم علماء کی عالمی یونین صدارت سے استعفیٰ - شائع شدہ از: 30 اگست 2022ء
- ↑ امت مسلمہ نے ایک بڑے عالم دین کو کھو دیا، عالمی انجمن علماء اسلام- شائع شدہ از: 20 اگست 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جون 2025ء