آپ کیا جانیں کہ ایران کیا ہے؟(نوٹس اور تجزیے)

ویکی‌وحدت سے
حمایت ایران از فلسطین.jpg

آپ کیا جانیں کہ ایران کیا ہے؟یہ مقالہ یوم القدس کے ایّام کی مناسبت سے ڈاکٹر نذر حافی نے لکھا ہے جو قارئیں کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ فرقہ واریت کی نگاہ سے ایران کو دیکھتے ہیں اور جو ایران کو ایک شیعہ ملک کہتے ہیں اور ایران کے اسلامی انقلاب کو طنزاً شیعہ انقلاب کہتے ہیں، انہیں ایران کی قدر اہلِ فلسطین سے پوچھنی چاہیئے۔ انہیں یہ ماننا چاہیئے کہ اگر فلسطینیوں کی خاطر ایران ساری دنیا کی مخالفت مول لئے ہوئے ہے تو پھر صرف ایران ہی شیعہ نہیں ہے بلکہ اسلام بھی شیعہ ہی ہے، چونکہ دونوں کی بات، سوچ، فکر اور راستہ ایک ہی ہے کہ ظالم کی مخالفت کرو، چاہے مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور مظلوم کی مدد و نصرت کرو، خواہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ جو افراد زیادہ تجزیہ و تحلیل نہیں کرسکتے انہیں بھی یہ نظر آرہا ہے کہ کربلا سے لیکر فلسطین تک اور حسین ابن علی ؑ سے لیکر سید حسن نصراللہ تک جہاں اسلام ہے، وہاں ہی تشیع ہے۔

سوچیں کہ اگر اچانک آپ کو اپنے خوشحال اور ہنستے بستے گھر سے بے دخل کر دیا جائے تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔؟ اگر آپ کو اپنے گھر سے نکال کر خانہ بدوش بنا دیا جائے اور آپ سے اپنے شہر گاوں اور علاقے میں واپسی کا حق چھین لیا جائے تو پھر آپ کس طرح صحراوں و بیابانوں میں زندگی بسر کریں گے۔؟ جب ساری دنیا مل کر آپ کے گھر میں اجنبی لوگوں کو اور آپ کو بیوی بچوں سمیت خیموں میں رکھنے کا فیصلہ کر لے تو پھر آپ اپنے بیوی بچوں اور اہلِ خانہ کے تحفظ کیلئے کس سے مدد مانگیں گے۔؟

کئی سالوں سے فلسطینی عوام اسی درد کو جھیل رہے ہیں۔ کیا عرب ممالک سمیت دنیا بھر کے سُنّی کہلانے والے ممالک نے اسرائیل کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک فلسطینیوں کی مایوسی، ناامیدی اور کسمپرسی میں اضافے کے سوا کچھ اور کیا ہے۔؟ ایسے میں وہ لوگ جو عالمِ اسلام کو سُنّی و شیعہ کی نگاہ سے پرکھتے ہیں، وہ خصوصی توجہ فرمائیں!۔

کیا اسلامی انقلاب کے بعد ایران کے پاس یہ سنہری موقع ہر لمحے موجود نہیں کہ ایران اپنے آپ کو مضبوط کرنے کیلئے مذہبی ہم آہنگی کا نیا اسرائیل نواز بیانیہ پیش کرے۔ یعنی ایران یہ کہے کہ ہم نے عرب ریاستوں اور دنیا کے اہلِ سنّت ممالک کے ساتھ مل کر مذہبی ہم آہنگی اور اتحاد کی خاطر یہ مشترکہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم نئے فریم ورک میں فلسطین کے لیے عسکری مزاحمت کو ترک کرکے فقط سفارتی حل نکالیں گے۔

اور اسرائیل اب ایک زمینی حقیقت ہے، جسے تسلیم کرنا اور اس کے ساتھ مل کر ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کرنا ہم سب کے اور فلسطینیوں کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ کیا آج ایسا بیانیہ تشکیل دینا ایران کیلئے کوئی مشکل کام ہے۔؟ خصوصاً اس وقت کہ جب عرب ممالک سمیت دنیا کے تمام اہل سنت ملک بشمول پاکستان اسی بیانئے کا پرچار کر رہے ہیں، کیا اس وقت ایران دنیا بھر کے شیعہ علماء کے ذریعے ایسی فضا نہیں تیار کرسکتا کہ اہلِ تشیع کے بچے بچے کی زبان پر یہ جملہ ہو کہ "مسلمانوں اور فلسطینیوں کے وسیع تر مفادات میں اسرائیل کے ساتھ محدود تعاون جائز ہے۔"

بھلا یہ ایران کیلئے کوئی مشکل کام ہے کہ وہ شرعی تقاضوں اور فقہی اجتہاد میں اپنے مفاد کیلئے لچک دکھائے۔؟ اس کام کیلئے ایران کو کوئی زیادہ محنت کی ضرورت نہیں۔ اسے صرف حضرت امام خمینی کے نظریہ ولایت فقیہ کی جدید تشریح کرتے ہوئے بین المذاہب تعاون کو ترجیح دینے کا کام کرنا ہوگا۔ ایران چاہے تو وسیع تر ایرانی و اسلامی مفادات کا نام استعمال کرکے ان مفادات کی خاطر عارضی سفارتی لچک کے جائز ہونے کیلئے رائے عامہ ہموار کرسکتا ہے اور ایسا کرنا ایران کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

اس سے عرب ریاستوں سمیت دنیا بھر کے سُنّی ممالک، مکمل یورپی دنیا، امریکہ و اسرائیل نیز تبرّایی شیعہ بھی خوش ہو جائیں گے اور ایران کی مقبولیّت میں یکدم بے پناہ اضافہ ہوگا۔ یہ بیانیہ ساری اہلِ سُنّت دنیا میں ایران کو سنی عوام میں مذہبی طور پر ایک معتدل ریاست اور بھائی بھائی (میٹھے میٹھے بھائی، اسلامی بھائی، مکی بھائی، مدنی بھائی، تبلیغی بھائی، تحریکی بھائی، ۔۔۔) ثابت کرے گا۔

بات صرف اہلِ سُنّت کا میٹھا میٹھا بھائی بننے تک محدود نہیں بلکہ اس سے فوری طور پر ایران کی خلیجی ریاستوں نیز پاکستان و انڈونیشیا سمیت تمام اسلامی ممالک کے ساتھ اقتصادی راہداریوں اور تجارت کو بے تحاشہ فروغ ملے گا۔ ساری دنیا میں اہلِ تشیع کیلئے نرمی اور آسانیاں پیدا ہونگی، شیعہ مراجع کے بینک اکاونٹس اسلامی ممالک سمیت تمام دنیا میں فعال ہونگے اور ایرانی اقتصاد و فلاح و بہبود کو ناقابلِ یقین عروج ملے گا۔

بلاشبہ اس سے ایران کی سعودی عرب و ترکی کے ساتھ مفاہمت ہو جائے گی اور غیر مسلم دنیا تو پہلے ہی ایران کے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات کا اشارہ دینے کی منتظر ہے۔ اس سے ایران پر پابندیوں کا خاتمہ ہوگا۔ ایران کے سیاسی و بین الاقوامی اثر و رسوخ، داخلی خوشحالی، جی ڈی پی، تیل کی برآمدات، توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں اضافہ ہوگا۔

ایران چاہے تو صرف اپنے العالم، پریس ٹی وی نیز دنیا بھر کے شیعہ دینی مدارس کے چینلز، منبر و محراب نیز سوشل میڈیا کو استعمال کرکے آناً فاناً بڑے پیار اور محبّت سے وہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے، جس کا دنیا کی تمام سُنّی ریاستیں بشمول سعودی عرب و ترکی آج تک صرف خواب دیکھ رہی ہیں۔ یہ ایران کیلئے کوئی مشکل مسئلہ نہیں کہ ایران جیوپولیٹیکل ری کیلکولیشن کیلئے "شیعہ و سنی اتحاد" کو نئے سرے سے تشکیل دے، اس تشکیلِ نو میں فلسطین کے مسئلے کے عسکری حل کو مکمل طور پر حذف کر دے، مسلم ممالک کے درمیان اقتصادی انضمام پر زور دے، اور یہ سارا کام حضرت امام خمینی کے "ولایت فقیہ" کے نظریئے میں موجود لچک کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے نام پر بڑے پیار سے ممکن ہے۔

اس کام کیلئے ایرانی تھنک ٹینکس اپنے ہی ملک سے ابتدا کرسکتے ہیں۔ سیستان و بلوچستان میں موجود اہلِ سُنّت کے دینی مدارس و مراکز کی وساطت سے الازہر یونیورسٹی اور جامعہ دیوبند نیز سعودی عرب کے سلفی مدارس کے ساتھ ایسی مشترکہ کانفرنسز کا انعقاد کروایا جا سکتا ہے کہ جن میں اہلِ سُنّت علماء اسرائیل کے تسلیم کئے جانے کے فوائد و ثمرات پر روشنی ڈالیں اور کچھ عرصے کے بعد اس فضا کو ایران اہلِ سُنّت اکابرین کی تشخیص قرار دیتے ہوئے ان سے موافقت کے نام پر اس فضا کو اپنے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیلئے بطورِ بہانہ استعمال کرے۔

سوچیں کہ اگر اچانک آپ کو اپنے خوشحال اور ہنستے بستے گھر سے بے دخل کر دیا جائے تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔؟ اگر آپ کو اپنے گھر سے نکال کر خانہ بدوش بنا دیا جائے اور آپ سے اپنے شہر گاوں اور علاقے میں واپسی کا حق چھین لیا جائے تو پھر آپ کس طرح صحراوں و بیابانوں میں زندگی بسر کریں گے۔؟ جب ساری دنیا مل کر آپ کے گھر میں اجنبی لوگوں کو اور آپ کو بیوی بچوں سمیت خیموں میں رکھنے کا فیصلہ کر لے تو پھر آپ اپنے بیوی بچوں اور اہلِ خانہ کے تحفظ کیلئے کسے پکاریں گے۔؟

کئی سالوں سے فلسطینی عوام اسی درد کو جھیل رہے ہیں۔ کیا عرب ممالک سمیت دنیا بھر کے سُنّی کہلانے والے ممالک نے اسرائیل کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک فلسطینیوں کی مایوسی، ناامیدی اور کسمپرسی میں اضافے کے سوا کچھ اور کیا ہے۔؟ جو لوگ فرقہ واریت کی نگاہ سے ایران کو دیکھتے ہیں اور جو ایران کو ایک شیعہ ملک کہتے ہیں اور ایران کے اسلامی انقلاب کو طنزاً شیعہ انقلاب کہتے ہیں، انہیں ایران کی قدر اہلِ فلسطین سے پوچھنی چاہیئے۔

انہیں یہ ماننا چاہیئے کہ اگر فلسطینیوں کی خاطر ایران ساری دنیا کی مخالفت مول لئے ہوئے ہے تو پھر صرف ایران ہی شیعہ نہیں ہے بلکہ اسلام بھی شیعہ ہی ہے، چونکہ دونوں کی بات، سوچ، فکر اور راستہ ایک ہی ہے کہ ظالم کی مخالفت کرو، چاہے مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور مظلوم کی مدد و نصرت کرو، خواہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ جو افراد زیادہ تجزیہ و تحلیل نہیں کرسکتے انہیں بھی یہ نظر آرہا ہے کہ کربلا سے لے کر فلسطین تک اور حسین ابن علی ؑ سے لے کر سید حسن نصراللہ تک جہاں اسلام ہے، وہاں ہی تشیع ہے۔

مسلمانوں کے درمیان اسلامی وحدت سے لے کر مسلمانوں کیلئے جان دینے تک اہلِ تشیع کا وہی موقف ہے، جو اسلام کا موقف ہے اور موجود دور میں اپنے فلسطینی اہلِ سُنّت بھائیوں کیلئے سید حسن نصراللہ کی شہادت نے ایک مرتبہ پھر اسلام اور تشیع کے ایک ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔؟ کیا عقل و شعور اور منصف مزاجی کی کسوٹی پر ہم یہ سمجھنے کیلئے آمادہ ہیں کہ ایران کیا ہے۔؟[1]۔

حوالہ جات

  1. ڈاکٹر نذر حافی، آپ کیا جانیں کہ ایران کیا ہے؟-شائع شدہ از: 26 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 مارچ 2025ء۔

زمره:نوٹس اور تجزیے