"فضل الرحمان" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 100: سطر 100:


سیاسی مبصرین کے مطابق اگر حکومتوں میں اعلی عہدیدار بھی سیاسی مقاصد کے لیے بے بنیاد الزامات کا سہارا لیتے ہیں تو یہ ان کی بے بسی کا شاید اظہار کرتی ہے۔ وہ عدالت میں تو ثابت نہیں کرسکتے لیکن سیاسی پنڈال میں اس کا بھرپور استعمال کرتے ہیں <ref>اظہار اللہ، کیا واقعی مولانا فضل الرحمٰن نے ڈیزل پرمٹ لیے تھے؟ [https://www.independenturdu.com/node/96446 independenturdu.com]</ref>۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر حکومتوں میں اعلی عہدیدار بھی سیاسی مقاصد کے لیے بے بنیاد الزامات کا سہارا لیتے ہیں تو یہ ان کی بے بسی کا شاید اظہار کرتی ہے۔ وہ عدالت میں تو ثابت نہیں کرسکتے لیکن سیاسی پنڈال میں اس کا بھرپور استعمال کرتے ہیں <ref>اظہار اللہ، کیا واقعی مولانا فضل الرحمٰن نے ڈیزل پرمٹ لیے تھے؟ [https://www.independenturdu.com/node/96446 independenturdu.com]</ref>۔
== کیا مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان برف پگھل رہی ہے==
جمعرات کی شب پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی  پیش رفت اس وقت ہوئی جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سخت حریف مولانا فضل الرحمان نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ 2022 میں پی ٹی آئی حکومت گرانے کے لیے تحریک عدم اعتماد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے کہنے پر لائی گئی۔
اس انٹرویو کے نشر ہونے کے کچھ ہی دیر بعد تحریک انصاف کا ایک وفد سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی قیادت میں مولانا فضل الرحمان سے ملنے گیا اور تقریبا ایک گھنٹے تک مولانا اور ان کی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال پرمشاورت کرتا رہا۔
اس ملاقات کے بعد مولانا کے قریبی ساتھی حافظ حمداللہ اور پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر سیف نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دونوں جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ آٹھ فروری 2024 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور اس بارے میں دونوں کا موقف ایک ہے۔
مولانا کے سنسنی خیز انٹرویو، اس کے بعد دونوں جماعتوں کے وفود میں ہونے والی ملاقات اور میڈیا سے گفتگو میں انتخابات کے بارے میں متفقہ موقف اپنانے کے عمل کو سیاسی مبصرین ایک نئی جہت قرار دے رہے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان برف پگھلنے کا سبب بن سکتی ہے۔
تاہم سینیئر تجزیہ نگار اور صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ آج کی ملاقات سے پی ٹی آئی کو نقصان ہوا ہے۔
’پی ٹی آئی کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اس ملاقات کی ضرورت کیا تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جے یو آئی سے ملنا ہے تو پی پی پی سے ملنے میں کیا قباحت ہے۔
ایک سوال پر کہ کیا پی ٹی آئی اور جے یو آئی کی آج کی ملاقات مستقبل میں کسی مشترکہ لائحہ عمل پرمنتج ہو سکتی ہے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ یہ قربت دیرپا ثابت ہوگی۔ ’جے یو آئی اور اور پی ٹی آئی مل بھی جائیں تو اسمبلی میں کوئی تبدیلی یعنی حکومت نہیں بناسکتے۔‘
’دوسری بات یہ ہے کہ جے یو آئی کا موقف اور احتجاج ہی اس بات پر ہے کہ ان کی سیٹیں خیبر پخونخوا میں ان سےچھین کر پی ٹی آئی کو دی گئی ہے۔‘
یہ ملاقات اور دونوں جماعتوں کا مشترکہ موقف اس لیے بھی اہم ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف دونوں نے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔
لہٰذا اگر دونوں جماعتیں اگلے مرحلے میں مشترکہ احتجاج اور پارلیمنٹ میں اتحاد بنانے پر رضامند ہو جاتی ہیں تو یہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کے لیے بھی سخت مشکلات کا باعث بن جائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کل کی یہ دونوں متحارب جماعتیں اگر آج اکٹھی ہو گئیں تو نئی حکومت کے لیے کام کرنا آسان نہیں ہو گا <ref>خرم شہزاد، اردو نیوز اسلام آباد، کیا مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان برف پگھل رہی ہے؟،[https://www.urdunews.com/node/836956 urdunews.com]</ref>۔

نسخہ بمطابق 15:38، 17 فروری 2024ء

مولانا فضل الرحمان قائد جمعیت علمائے پاکستان اور اس ملک کی مذہبی اور سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی امیر ہیں اور اپوزیشن تحریک موجودہ حکومتی اتحادی جماعتوں پاکستان ڈیمو کریٹ مومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ ہیں۔ ہندوستان میں بنائے کے گئے دیوبندی مسلک سے ان کا تعلق ہے۔ اہل سنت والجماعت اور دیوبند مکتب فکر کے پیروکار ہونے کی وجہ سے آپ کو دیوبندی حنفی کہلاتے ہیں۔ ان کی جماعت جمعیت علما اسلام (ف) پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بہت اثر ورسوخ رکھتی ہے۔ صوبہ بلوچستان میں ہمیشہ ان کی جماعت کے بغیر کوئی پارٹی حکومت نہیں بنا پاتی، آپ نے مشہور تحریک ایم آر ڈی میں قائدانہ کردار ادا کیا جو جنرل ضیاءالحق کے خلاف تھی جن میں ان کے ساتھ پیپلزپارٹی شریک تھی۔ جس کی پاداش آپ 2 سال تک جیل میں بھی رہے ان کا کردار حکومت کی بائیں بازو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں 1992ء میں بڑھ گیا۔ وہ 1988ء میں قومی سطح کی سیاست میں آئے اور پہلی بار رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

تعلیم

1965ء میں پانچویں جماعت پاس کی، ملت ہائی اسکول کچہری روڈ ملتان سے 1970ء میں میٹرک کا امتحان دیا فرسٹ ڈویژن حاصل کی، خلیفہ محمد سے ناظرہ قرآن مجید کے بعد فارسی اور فقہ کی ابتدائی کتب پڑھ چکے تھے- اسکول سطح پر ہمیشہ حسن قرأت کے مقابلوں میں اول پوزیشن حاصل کرتے رہے- علم الصرف مفتی عیسی خان گورمانی اور ان کے بھائی مولانا عبد الغفور گورمانی سے پڑھتے رہے۔

19 فروری 1972ء کو دارلعلوم اکوڑہ خٹک میں داخلہ لیا، مولانا محمد علی سے کافیہ، علم النحو، صرف اور منطق کے قواعد و ضوابط زبانی یاد کیے- جولائی 1979ء میں وفاق المدارس کے تحت دور حدیث کا امتحان دیکر سند فضلیت حاصل کی-

اساتذہ

  • مولانا خلیفہ محمد، مفتی محمود (والد)،
  • مولانا عبداللطيف،
  • شیخ الحدیث مولانا محمد اکبر،
  • مفتی محمد عیسٰی خان گورمانی،
  • مولانا عبد الغفور گورمانی،
  • مولانا محمد امیر،
  • دارلعلوم اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا عبد الحق سے بخاری جلد اول (ابتدائی چند ابواب)،
  • شیخ الحدیث حضرت مولانا حسن جان رحمہ اللہ سے بخاری جلد اول، ترمذی شریف، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، موطائین، شمائل، جلالین،
  • شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ سے مقامات، نور الانوار،
  • مولانا عبد الحلیم زروبوی سے مسلم شریف، بخاری شریف جلد ثانی، بیضاوی اور توضیح وتلویح،
  • مفتی محمد فرید صاحب سے بخاری شریف (چند ابواب) ابو داؤد، جلالین، شرح جامی،
  • مولانا عبد الغنی سے مشکاۃ شریف جلد ثانی، شرح چغمینی، حمداللہ، تحریر اقلیدس وغیرہ،
  • مولانا محمد علی سواتی سے کافیہ، مختصر المعانی، ھدایہ ثالث و رابع، طحاوی، ترمذی جلد ثانی۔

انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مقامی دینی مدرسے جامعہ حقانیہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے جامعہ پشاور سے 1983ء میں اسلامک اسٹڈیز میں بی۔ اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعد وہ مصر کے جامعہ الازہر میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے اور وہاں سے ایم۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ وہاں انھوں نے مذہبی علوم میں تعلیم حاصل کی اور اسی صنف میں تحقیق کی -انھوں نے الازہر یونیورسٹی سی ایم۔ اے کی سند حاصل کی [1]۔

درس و تدریس

1979ء میں دار العلوم اکوڑہ خٹک سے سند فضیلت حاصل کرنے کے بعد فضل الرحمن نے اپنے والد اور دیگر اساتذہ کی نگرانی میں جامعہ قاسم العلوم ملتان سے درس و تدریس کا آغاز کیا، اسباق کے ساتھ ساتھ کچھ وقت دارالافتاء کو بھی دیتے تھے اور فقہی سوالات کی بھی تحقیق کر کے جوابات تحریر کرتے تھے۔

سیاسی زندگی

انھوں نے 1988ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ انھوں نے 1988ء کے انتخابات جمعیت علما اسلام (ف) کے پلیٹ فارم سے لڑے تھے جو ایک اسلامی بنیاد رکھنے والی پارٹی ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی اپنے حلقہ سے کامیابی ہوئی۔ آپ جموں و کشمیر اور افغانستان کے متعلق علاقائی پالیسی میں اپنا کردار موؑثر طور پر ادا کیا۔ آپ 1988ء میں قومی سطح کی سیاست میں آئے اور پہلی بار رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

فصل الرحمان 1988ء میں ہونے والے پاکستانی عمومی انتخابات میں پہلی بار ڈی آئی خان کی نشست سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد اس نے افغان طالبان سے رابطے کیے۔ فضل الرحمٰن ڈی آئی خان کے سیٹ سے دوسری مرتبہ 1990ء میں پاکستانی عام انتخابات میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑے تھے لیکن وہ انتخاب میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔

آپ 1993ء میں پاکستانی جماعتی انتخابات میں دوسری مرتبہ ڈی آئی خان نشست سے اسلامی جہموری محاذ کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ فضل الرحمٰن کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ فضل الرحمٰن نے چوتھی بار پاکستانی عام انتخابات میں 1997ء میں قومی اسمبلی پاکستان کی نشست کے لیے انتخاب لڑا تھا لیکن وہ انتخاب میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے تھے۔ 2001ء میں افغانستان میں جنگ کے بعد فضل الرحمٰن نے پاکستان کے بڑے شہروں میں کئی امریکی مخالف مظاہروں اور طالبان نواز ریلیوں کی قیادت کی۔ انھوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ اگر یہ بمباری جاری رہی تو امریکا کے خلاف جہاد کرنے کی دھمکی دی جائے گی۔

آپ نے صدر پاکستان پرویز مشرف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور متنبہ کیا کہ اگر وہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کی حمایت کرتے رہے تو ان کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔ اکتوبر 2001ء میں، پرویز مشرف نے پاکستان کے شہریوں کو افواج پاکستان کے خلاف اکسانے اور حکومت پاکستان کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے پر اپنے آبائی گاؤں عبد الخیل میں فاضل کو نظربند رکھا۔ بعد ازاں مارچ 2002ء میں، فضل الرحمٰن کو رہا کر دیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات واپس لے لیے گئے۔ فضل الرحمٰن 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر تیسری مرتبہ پاکستانی عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے دو نشستوں، این اے 24 اور این اے 25 پر کامیابی حاصل کی، بعد میں اسے خالی کر دیا گیا۔ الیکشن جیتنے پر، فضل الرحمٰن پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے ممکنہ امیدوار بن گئے لیکن ان کی تقرری نہیں ہوئی۔ انھوں نے 2004ء سے 2007ء تک حزب اختلاف کے رہنما کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ مولانا فضل الرحمان نے 2008ء میں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے چھٹی بار متحدہ مجلس عمل کے دو حلقوں، این اے 24 ، ڈی آئی سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر انتخاب کیا تھا۔ خان جو ان کا روایتی حلقہ ہے اور این اے 26 ، بنوں ستمبر 2008ء میں، وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ فضل الرحمٰن بنوں کے حلقہ انتخاب سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر چوتھی بار پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، لیکن وہ ڈی آئی میں الیکشن ہار گئے۔ خان حلقہ۔ 2008ء تک، فضل نے خود کو طالبان سے دور کر دیا اور خود کو اعتدال پسند قرار دیا۔ مئی 2014ء میں، وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں کشمیر سے متعلق قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے لیے وفاقی وزیر کا درجہ دے دیا۔ اگست 2017ء میں، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے انھیں دوبارہ ایک ہی درجہ دیا۔ 31 مئی 2018ء کو قومی اسمبلی کی مدت ملازمت ختم ہونے پر تحلیل ہونے پر، انھوں نے وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز ہونا چھوڑ دیا۔ مارچ 2018ء میں، وہ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ بن گئے۔ فضل الرحمٰن نے ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقوں، این اے 38 اور این اے 39 سے 2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی پاکستان کی نشست پر انتخاب کیا لیکن وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ 27 اگست 2018ء کو، پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت متعدد اپوزیشن جماعتوں نے انھیں 2018ء کے صدارتی انتخابات میں امیدوار نامزد کیا۔ لیکن اس میں ناکام ہوئے- اس کے بعد عمران خان حکومت کے خلاف اپوزیشن تحریک پاکستان ڈیمو کریٹ (PDM) کے سربراہ بنے اور کامیابی حاصل کی۔

ہندوستان کا سرکاری دورہ

سال 2003ء میں فضل الرحمان نے ہندوستان کا ایک انتہائی اہم دورہ کیا جو سال 2002ء کے انتخابات بعد کسی سیاست دان کا ہندوستان کا پہلا دورہ تھا۔ اس وقت وہ ایم ایم اے کے قائد تھے جو دائیں بازو کی جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد تھا۔ فضل الرحمٰن کے بارے میں نئی دہلی، ہندوستان میں پہلے سے یہ تأثر موجود تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان میں خارجہ تعلقات کو درست کرنے کے لیے فضل الرحمٰن نے جموں و کشمیر کے متعلق کئی عوامی بیانات دیے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی صاحب ان سے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ملے اور ان کے لیے ایک سرکاری ریاستی کھانے کا اہتمام کیا۔ ہندوستانی میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے فضل الرحمٰن نے کشمیر کو ایک علاقائی مسئلہ قرار دیا اور ان سے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین تجارت اور معاشی تعلقات بحال ہونے چاہئیں اور اس سے دونوں ملکوں کے درمیان میں اعتماد میں اضافہ ہو گا۔


تیل(ڈیزل) پرمٹ بیچنے کا الزام کیا ہے

وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنی تقاریر میں گذشتہ کئی دنوں سے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے لیے ’ایک غیر شائستہ‘ نام مسلسل استعمال کررہے ہیں جس پر بحث گرم ہے۔ فوجی سربراہ کے مشورے کے باوجود وزیر اعظم، مولانا فضل الرحمٰن پر ماضی میں لگائے گئے الزام کو دہرا رہے ہیں۔ یہی الزام گذشتہ روز لوئر دیر میں ایک جلسہ عام کے دوران پھر لگایا گیا۔

مولانا فضل الرحمٰن کو ماضی میں بھی ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے اسی نام سے پکارا کیا گیا ہے اور مولانا کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے یہ استعمال کیا جاتا لیکن شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ اس نام کے پیچھے کہانی کیا ہے اور جس تناظر میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے، کیا اس میں کوئی صداقت ہے۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مولانا کے لیے یہ نام کس تناظر میں استعمال ہوتا ہے۔ اس حوالے سے سینیئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 90کی دہائی(1993-1996)میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی، تو مولانا فضل الرحمٰن ان کے اتحادی تھے اور اس وقت وہ خارجہ امور کے کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔

حامد میر کے مطابق اسی دوران افغانستان میں طالبان کی حکومت آگئی، تو مولانا فضل الرحمٰن پر اپوزیشن جماعتوں نے جن میں پاکستان مسلم لیگ ن بھی شامل تھی، یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ مولانا نے طالبان کو ڈیزل کے پرمٹ فروخت کیے ہیں۔

حامد میر نے بتایا کہ ’اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ الزام اس وقت لگا لیکن اس حوالے سے کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے۔ بعد میں جب پرویز مشرف 2002کے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے، تو پاکستان مسلم لیگ ق نے یہی الزام دہرایا اور اس وقت عمران خان مولانا کا دفاع کرتے تھے۔ تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ محض ایک الزام ہے اور مولانا کے مخالفین نے یہ الزام مختلف اوقات میں لگایا ہے۔‘

حامد میر نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے لیے یہ نام پہلے کالم نگار عطاالحق قاسمی نے اپنے ایک کالم میں استعمال کیا تھا، اور اسی کالم میں اس الزام کا ذکر تھا جو بعد میں سیاسی مخالفین نے ’اچھل اچھل‘ کر استعمال کرنا شروع کر دیا۔

حامد میر کی جانب سے اس حوالے سے ایک 2019 میں روزنامہ جنگ میں ایک کالم بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی مخالفین نے اس اصطلاح کو طعنے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا اور یہ زمانہ تھا جب نواز شریف بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک نجات چلانے میں مصروف تھے۔

حامد میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو تبایا کہ ’عطاالحق قاسمی نے اسی کالم پر 2006 میں معافی بھی مانگی تھی لیکن جس طرح الزام لگانے کا کالم اچھالا گیا تھا، اس طرح معذرت والا کالم شیئر نہیں کیا گیا۔ عطاالحق قاسمی نے کالم میں مولانا سے معذرت کی تھی۔‘

حامد میر نے بتایا کہ ان کی جہاں تک تحقیق ہے یہ الزام سراسر جھوٹ ہے اور اگر سچ ہے تو موجودہ اور سابق حکومتوں کو جمعیت کے رہنما کے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہیے ناکہ روزانہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ’لیکن میں سمجھتا ہوں یہ جھوٹ ہے اور حقائق پر مبنی الزام نہیں ہے۔‘

’جعلی خبروں کی یہ ایک بڑی مثال ہے جو گذشتہ کئی دہائیوں سے بنائی جا رہی ہیں اور مختلف اوقات میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ڈیزل پرمٹ تو شخصیات کو نہیں وہ تو پیٹرول پمپس کو جاری کیے جاتے ہے۔‘ حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ایک دن انہوں نے جے یو آئی کے رہنما مفتی نظام الدین شامزئی سے اس الزام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسے ’گھٹیا‘ الزام قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ آپ عطا الحق سے پوچھیں کہ انہوں نے یہ کالم کیوں لکھا تھا۔

ٹی وی سکرین پر ایک طویل عرصے تک غیرحاضر رہنے کے واپس لوٹنے والے حامد میر کے مطابق ’میں نے عطاالحق سے بھی پوچھا تھا لیکن انہوں نے ایک اخبار کی خبر کا ذکر کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ڈیزل پرمٹ لیا تھا لیکن عطاالحق قاسمی کے پاس اس حوالے سے مزید کوئی تفصیل نہیں تھی کہ پرمٹ کس سے لیا اور کتنے میں لیا۔‘

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بغیر ثبوت کے جعلی خبر کیسے شائع کروائی جاتی ہے اور پھر اسے سیاسی بیانیے کا حصہ بنانے کی مخالفین کوشش کرتے ہیں۔

حامد میر سے جب پوچھا گیا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن وزیر پیٹرولیم تھے اور انہوں نے اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے ڈیزل پرمٹ بیچے تھے، تو اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن کبھی بھی پیٹرولیم کے وزیر نہیں رہے ہیں بلکہ وہ بے نظیر حکومت میں امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین تھے۔

اس زمانے میں ڈیزل پرمٹ کیا ہوتا تھا؟

شمیم شاہد پشاور کے سینیئر صحافی ہیں اور افغانستان جہدوجہد سمیت طالبان کی 90 کی دہائی کی حکومت کی کوریج بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس زمانے میں قبائلی علاقہ جات افغانستان کے لیے ٹرانزٹ روٹ تھے جس طرح اب بھی ہیں اور تجارت اسی راستے سے کی جاتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے لیے گندم اور ڈیزل کے پرمٹ لیے جاتے تھے یعنی یہاں سے افغانستان ڈیزل برآمد کیا جاتا تھا اور اس کے لیے پرمٹ لینا پڑتا تھا۔

شمیم شاہد نے بتایا کہ ’یہی الزام مولانا فضل الرحمٰن پر لگایا جاتا ہے کہ ان کو بے نظیر کی حکومت نے ڈیزل کا پرمٹ دیا تھا۔‘ مزید پڑھیے

مرحوم جنرل (ر) نصیر اللہ خان بابر بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں وزیر داخلہ تھے اور انگریزی اخبار دا نیوز کو 2007 میں دیے گئے ایک انٹرویوں میں انہوں نے ڈیزل پرمٹ کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ڈیزل پرمٹ لینے کی میڈیا کے سامنے خود تصدیق بھی کی ہے۔

نصير الله بابر نے ایک سوال کے جواب میں دا نیوز کو بتایا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن اتنے مطالبات کرتے تھے کہ ایک مرتبہ میں نے ان کے سامنے بے نظیر سے کہا تھا کہ مولانا کو سٹیٹ بینک کی چابیاں دے دیں تاکہ ان سے جان چھوٹ جائے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو اس سٹوری کے لیے تحقیق کے دوران احتساب ادارے کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف درج کردہ ڈیزل پرمٹ لینے یا اس سے منسلک کسی قسم کی کرپشن کا ریفرنس یا کسی قسم کا کیس نہیں ملا۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت کیا کہتی ہے

مولانا فضل الرحمٰن سے اس الزام کے بارے میں ماضی میں متعدد بار ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور ٹی وی پروگرامز میں پوچھا گیا ہے کہ اس کے پیچھے کہانی کیا ہے اور اس میں کتنی حقیقت ہے۔

اسی الزام کے بارے میں حامد میر نے ایک پروگرام میں پوچھا تو مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیا، ’اگر میں نے کوئی ڈیزل پرمٹ لیا ہے تو پرمٹ تو بغیر دستاویزات کے نہیں لیا جاتا تو اگر پرمٹ لیا ہے، تو اس کے ثبوت سامنے لے کر آئیں۔‘

جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کے ترجمان عبدالجلیل جان نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت کا چوتھا اور خیبر پختونخوا میں آٹھواں سال چل رہا ہے، تو اس تمام عرصے میں اب تک پی ٹی آئی یا عمران خان نے مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف اس الزام کی تحقیق کیوں نہیں کی یا کوئی ثبوت کیوں سامنے نہیں لے کر آئے۔

انہوں نے بتایا، ’یہ سراسر جھوٹ ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے پاس کچھ ثبوت ہوتے تو ابھی تک سامنے لا چکے ہوتے لیکن جب ان کے پاس دلائل ختم ہوجاتے ہیں تو وہ گالیوں پر اتر آتے ہیں اور ملک مین انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔‘

جلیل جان سے جب پوچھا گا کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف اگر اس الزام کی تحقیقات حکومت کرتی ہے تو کیا وہ پیش ہونے کے لیے تیار ہوں گے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مولانا تو پہلے بھی اور اب بھی تیار ہیں کہ اس کی تحقیقات کیا ایک غیر جانب دار احتساب ادارے سے کرایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

جلیل جان نے بتایا کہ ’یہی غیر شائستہ گفتگو وہ حکومت سے پہلے کنٹینرز پر کھڑے ہو کر کرتے تھے اور اب حکومت میں ہونے کے باجود یہی رویہ اپنایا ہوا ہے۔ سیاسی اختلافات سیاسی جماعتوں کے مابین ہوتے ہیں لیکن تہذیب کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔‘

سیاسی مبصرین کے مطابق اگر حکومتوں میں اعلی عہدیدار بھی سیاسی مقاصد کے لیے بے بنیاد الزامات کا سہارا لیتے ہیں تو یہ ان کی بے بسی کا شاید اظہار کرتی ہے۔ وہ عدالت میں تو ثابت نہیں کرسکتے لیکن سیاسی پنڈال میں اس کا بھرپور استعمال کرتے ہیں [2]۔

کیا مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان برف پگھل رہی ہے

جمعرات کی شب پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی پیش رفت اس وقت ہوئی جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سخت حریف مولانا فضل الرحمان نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ 2022 میں پی ٹی آئی حکومت گرانے کے لیے تحریک عدم اعتماد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے کہنے پر لائی گئی۔ اس انٹرویو کے نشر ہونے کے کچھ ہی دیر بعد تحریک انصاف کا ایک وفد سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی قیادت میں مولانا فضل الرحمان سے ملنے گیا اور تقریبا ایک گھنٹے تک مولانا اور ان کی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال پرمشاورت کرتا رہا۔

اس ملاقات کے بعد مولانا کے قریبی ساتھی حافظ حمداللہ اور پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر سیف نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دونوں جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ آٹھ فروری 2024 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور اس بارے میں دونوں کا موقف ایک ہے۔ مولانا کے سنسنی خیز انٹرویو، اس کے بعد دونوں جماعتوں کے وفود میں ہونے والی ملاقات اور میڈیا سے گفتگو میں انتخابات کے بارے میں متفقہ موقف اپنانے کے عمل کو سیاسی مبصرین ایک نئی جہت قرار دے رہے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان برف پگھلنے کا سبب بن سکتی ہے۔ تاہم سینیئر تجزیہ نگار اور صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ آج کی ملاقات سے پی ٹی آئی کو نقصان ہوا ہے۔ ’پی ٹی آئی کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اس ملاقات کی ضرورت کیا تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جے یو آئی سے ملنا ہے تو پی پی پی سے ملنے میں کیا قباحت ہے۔ ایک سوال پر کہ کیا پی ٹی آئی اور جے یو آئی کی آج کی ملاقات مستقبل میں کسی مشترکہ لائحہ عمل پرمنتج ہو سکتی ہے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ یہ قربت دیرپا ثابت ہوگی۔ ’جے یو آئی اور اور پی ٹی آئی مل بھی جائیں تو اسمبلی میں کوئی تبدیلی یعنی حکومت نہیں بناسکتے۔‘ ’دوسری بات یہ ہے کہ جے یو آئی کا موقف اور احتجاج ہی اس بات پر ہے کہ ان کی سیٹیں خیبر پخونخوا میں ان سےچھین کر پی ٹی آئی کو دی گئی ہے۔‘ یہ ملاقات اور دونوں جماعتوں کا مشترکہ موقف اس لیے بھی اہم ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف دونوں نے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔ لہٰذا اگر دونوں جماعتیں اگلے مرحلے میں مشترکہ احتجاج اور پارلیمنٹ میں اتحاد بنانے پر رضامند ہو جاتی ہیں تو یہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کے لیے بھی سخت مشکلات کا باعث بن جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کل کی یہ دونوں متحارب جماعتیں اگر آج اکٹھی ہو گئیں تو نئی حکومت کے لیے کام کرنا آسان نہیں ہو گا [3]۔

  1. حافظ مومن خان عثمانی، حضرت مولانا فضل الرحمن شخصیت و کردار
  2. اظہار اللہ، کیا واقعی مولانا فضل الرحمٰن نے ڈیزل پرمٹ لیے تھے؟ independenturdu.com
  3. خرم شہزاد، اردو نیوز اسلام آباد، کیا مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان برف پگھل رہی ہے؟،urdunews.com