"سپاہ صحابہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: Reverted
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا 2 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 3: سطر 3:
| تصویر = سپاه صحابه.jpg
| تصویر = سپاه صحابه.jpg
| نام = سپاہ صحابہ  
| نام = سپاہ صحابہ  
| قیام کی تاریخ = 1985م
| قیام کی تاریخ = 1985 ش
| بانی =  {{افقی باکس کی فہرست |حق نواز جھنگوی|ضیاء الرحمن فاروقی |اعظم طارق}}  
| بانی =  {{افقی باکس کی فہرست |حق نواز جھنگوی|ضیاء الرحمن فاروقی |اعظم طارق}}  
| رہنما =  
| رہنما =  

حالیہ نسخہ بمطابق 09:42، 9 جنوری 2024ء

سپاہ صحابہ
سپاه صحابه.jpg
پارٹی کا نامسپاہ صحابہ
قیام کی تاریخ1985 ش، 2607 ء، 2045 ق
بانی پارٹی
  • حق نواز جھنگوی
  • ضیاء الرحمن فاروقی
  • اعظم طارق
مقاصد و مبانی
  • حکومت کی تشکیل خلافت کی بنیاد اور شعیوں کو کافر قرار دینا

سپاہ صحابہ اہل سنت دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت سپاہ صحابہ پاکستان کا نام پہلے انجمن صحابہ تھا۔ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی پاکستانی تکفیری گروہ ہیں جو اپنے مخالفین کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر دو تین دہائیوں سے ان کے جرائم اور بے انتہا ظلم و ستم کو ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ خلیج فارس کی کچھ ریاستوں جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی مدد سے ، یہ گروہ خطے میں مغرب کے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ ان کی انتہا پسندانہ تکفیری سرگرمیوں کی متعدد خبریں ہمیشہ نیوز میڈیا کی مسلسل زینت بنتی رہتی ہیں۔

سپاہ صحابہ کی تاریخ

وادی سندھ میں شیعہ مخالف سوچ قیام پاکستان سے پہلے ہی موجود تھی- وادئ سندھ میں قیام پاکستان سے پہلے مسلمان عوام کو صرف ایک قسم کی مذہبی ثقافت میں ڈھالنے کی کوشش سب سے پہلے سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی نے کی۔ 1818ء سے 1821ء کے دوران سید احمد بریلوی نے شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کے عقائد کی تبدیلی اور عزاداری پر حملوں کی مہم چلائی۔ 1826ء میں وہ پختون علاقوں میں سخت گیر مذہبی حکومت بنانے پہنچ گئے۔ ان دو حضرات کا کردار اس خطے کی مذہبی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جس کا اثر آج بھی بھارت کے صوبوں اترپردیش،اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پختون اور مہاجر اکثریت والے علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انگریزوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی محرومیوں کو سکھوں کے خلاف استعمال کر نے کے لیے سید احمد بریلوی اورشاہ اسماعیل دہلوی کو اپنے زیر انتظام علاقوں میں لشکر سازی کی مکمل آزادی دی ۔ 1831 ء میں سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کی طالبانی حکومت سے اکتائے ہوئے مسلمانوں اور سکھوں کے اشتراک عمل کے نتیجے میں بالاکوٹ کے مقام پر ان کے قتل کے بعد ان حضرات کی تحریک کا دوبارہ ظہور 30 مئی 1867ء میں دار العلوم دیوبند کے قیام کی شکل میں ہوا۔ بانی دار العلوم دیوبند مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ : "محرم میں ذکر شہادت حسین کرنا اگر چہ بروایات صحیح ہو یا سبیل لگانا ،شربت پلانا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب ناجائز اور حرام ہے"۔ دیوبند مکتب کی اس سوچ کاپہلا نتیجہ افغانستان کے شاہ امیر عبد الرحمن کی طرف سے 1891ء سے 1893ء تک کی جانے والی شیعہ ہزارہ قبائل کی نسل کشی اور ان کی جائداد کی پشتونوں میں تقسیم اورانکو غلام اورلونڈیاں بناکر فروخت کرنے کا عمل تھا جس کے نتیجے میں افغانستان کے شیعوں کی آبادی میں 60فیصد تک کمی آ گئی ۔ امیر عبد الرحمن خان نے اپنی حکومت کا نظام چلانے کے لیے ہندوستان سے دیوبندی علما منگوائے تھے جنہوں نے شیعوں کے کافر ہونے اور ان کی جان و مال کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا۔ یہ جدید انسانی تاریخ کی پہلی نسل کشی تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔ اسی دوران میں کچھ ہزارہ خاندان ہجرت کر کے کوئٹہ میں آگئے جو انگریزوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے ان کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوا۔ کرم ایجنسی کے شیعہ قبائل افغان شاہ کی ایسی فرقہ وارانہ کارروائیوں کے خوف سے ہندوستان کی انگریز حکومت سے ملحق ہو گئے اور یوں فاٹا کا بندوبست عمل میں آیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے قانون کی مساوات اور بہتر انتظامی اقدامات کی بدولت اس سوچ کو قتل عام کا دائرہ وادی سندھ تک پھیلانے کا موقع نہ مل سکا۔ کرم ایجنسی کے بعد باقی قبائل نے بھی انگریز حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اس تاریخی عمل جس کاآغاز شیعہ دشمنی سے ہوا، نے مستقبل میں بننے والے ملک پاکستان کی شمال مغربی سرحد کو متعین کیا۔ اس تاریخ کا ہی نتیجہ ہے کہ ریاض بسرا سے لیکر ملک اسحاق اور داود بادینی تک جیسے تربیت یافتہ جہادیوں کو قندھار کے دیوبندی علاقوں میں پناہ ملتی رہی ہے [1]۔

لکھنو میں شیعہ مخالف مہم

1906ء میں لکھنؤ کے عزاداری کے جلوسوں مقابلے میں دیوبندی علما کی طرف سے مدح صحابہ کے نام سے جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ان جلوسوں میں کربلا کے واقعے پر گفتگو اور نعرے بازی ہوا کرتی جس میں بنی امیہ کی وکالت کی جاتی۔ عاشورا کے دن یہ سب کرنے سے شیعوں میں اشتعال پھیل گیا۔ انگریزحکومت نے فرقہ وارانہ فساد کے خطرے کے پیش نظر ان جلوسوں پر پابندی لگا دی۔ لکھنؤ کو ٹارگٹ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ شہر اس وقت ہندوستان میں شیعوں کا ثقافتی مرکز تھا۔ لکھنؤ میں اس اشتعال کے بعد فرقہ وارانہ لٹریچر چھپنے لگا، جو لکھنؤ تک محدود نہ رہا بلکہ وادی سندھ میں بھی آیا۔ 1920ء میں دیوبندی عالم مرزا حیرت دہلوی نے "کتاب شہادت" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں حضرت علی و حسنین پرشدید تنقید کی گئی تھی۔ لکھنؤ شہر میں تو انگریز حکومت کے حسن انتظام اور قانون کے مساوی نفاذ نے قتل و غارت تک نوبت نہیں آنے دی، لیکن پنجاب اور پختون خواہ کے بعض علاقوں میں محرم کے جلوسوں پر حملے ہوئے۔ 1931ء میں دیوبندی عالم مولانا عبد الشکور لکھنؤی نے لکھنؤ میں ایک دیوبندی مدرسہ قائم کیا اور دوبارہ مدح صحابہ کے سلسلے کا آغاز کر دیا۔ اس اشتعال انگیزی کا نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب 1938ء میں اس جلوس کے رد عمل کے طور پر لکھنؤ کے شیعہ حضرات نے بنی امیہ پر تبرے کے جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی آزادی کے تاریخی لمحات قریب آچکے تھے اور یہاں مسلمان آپس میں لڑپڑے تھے۔ اکتوبر 1939ءکومولانا ابو الکلام آزاد کلکتہ سے لکھنؤ تشریف لائے اور سات دن تک مختلف شیعہ سنی رہنماوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ حضرات نے تبرے کے جلوس نکالنا بند کر دیے البتہ مولانا عبد الشکور لکھنؤی پھر بھی فرقہ وارانہ اشتعال سے باز نہیں آ ئے اور نتیجتا حکومت کو اس سلسلے پر پابندی لگانا پڑی۔ مولانا عبد الشکور 1942ءمیں سیڑھیوں سے گر کر فوت ہو گئے [2]۔ جنگ عظیم دوم کی وجہ سے کمزور ہونے والے انگریزوں کے ہندوستان سے جانے اور مسلم لیگ کی تحریک کے نتیجے میں ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مسلمان ریاست کے ممکنہ قیام کی آہٹ پا کر دیوبندی علما میں سے اکثر نے قیام پاکستان کی مخالفت کی البتہ کچھ دیگر سخت گیر علما نے قیام پاکستان کو ناگزیر سمجھتے ہوئے وادی سندھ کی طرف ہجرت شروع کی اور دوبارہ سے سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی یک ثقافتی ریاست کے قیام کی کوششیں شروع کر دیں۔1944ء میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں تنظیم اہل سنت کے نام سے ایک شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دیوبندی علما مولانا نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا عبد الستارتونسوی دیوبندی وغیرہ نے پاکستان بھر میں شیعہ مخالف جلسے کیے اور لوگوں کو فسادات کے لیے اکسایا۔ لہٰذا قیام پاکستان سے بعد ہی شیعوں پر حملے شروع ہو گئے۔ 26اکتوبر 1946ءکو مولانا شبیر احمد عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام قائم کی جو مسلم لیگ کے متوازی سیاسی جماعت تھی،کیونکہ دیوبندی علما محمد علی جناح کے جدید نظریات پر مبنی تصورپاکستان کو غلط سمجھتے تھے۔ جب قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کی تقریر میں ریاست کی نظر میں سب شہریوں کوبلا تفریق مذہب مساوی قرار دیا تو 1 ستمبر 1947ء کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی اس تقریر کی مخالفت پر مبنی تھا، یوں جدت اور پسماندگی کے درمیان ایک سرد جنگ شروع ہو گئی۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی دیوبندی علما نے شیعوں کی نماز جنازہ پڑھنے کو حرام قرار دے رکھا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی بھی شیعوں کے لیے یہی سوچ رکھتے تھے۔ لہٰذا قائد اعظم کی پہلی نماز جنازہ گورنر ہاؤس میں ان کے اپنے مسلک کے مطابق پڑھی گئی مگر جب عوام میں نماز جنازہ پڑھانے کی باری آئ تو حکومت نے فرقہ وارانہ ہرج مرج سے بچنے کے لیے مولانا شبیر احمد عثمانی کو طلب کیا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی تو انہوں نے اپنے فتووں سے رجوع کرنے کی بجائے ایک خواب سنا کر سوال کو ٹال دیا [3]۔

سپاہ صحابہ کا قیام

دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت سپاہ صحابہ پاکستان کا نام پہلے انجمن سپاہ صحابہ تھا۔ یہ جماعت 1944ء میں امرتسر میں قائم ہونے والی تنظیم اہلسنت نامی شیعہ مخالف جماعت کا تسلسل ہے جو 1984ء میں دیوبندی عالم مولانا نورالحسن بخاری کی وفات کے بعد انجمن سپاہ صحابہ کے نئے نام سے 1985ء میں پاکستانی پنجاب کے شہر جھنگ میں سامنے آئی۔ جب جنرل پرویز مشرف نے جنوری 2002ء میں سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد پر بابندی عائد کی تو اس جماعت کا نام بدل کر ملت اسلامیہ پاکستان رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد جماعت کانام بدل کر اھلسنت والجماعت رکھا گیا۔ مولانا حق نواز جھنگوی کو 1990ء میں قتل کر دیا گیا۔ حق نواز جھنگوی کے بعد ایثار الحق قاسمی اس جماعت کے سربراہ بنے، جنہیں 1991ء میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ضیاء الرحمن فاروقی نے سپاہ صحابہ کی قیادت سنبھالی لی۔ ضیاءالرحمان فاروقی 18 جنوری 1997ء کو سپاہ محمد پاکستان کے بم حملے کا شکار ہوئے۔ اس کے بعد طارق اس جماعت کے سربراہ بنے، جو 2003ء میں اسلام آباد میں قتل کر دیے گئے۔ 90ء کی دہائی میں سپاہ صحابہ نے شیعوں پر کئی خونریز حملے کیے البتہ 1993ء میں سپاہ محمد پاکستان نامی شیعہ تنظیم نے جوابی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ سپاہ صحابہ کے اب تک کم وبیش ایک ہزار کارکن مارے جاچکے ہیں جن میں سے اکثر پاک فوج کےآپریشن یا پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔ 2017ء میں اس جماعت پر بھی پابندی لگا دی گئی پھر 26 جون 2018ء کو شدت پسند عناصر کو قومی دھارے میں جگہ دینے کے فیصلے کے بعداہلسنت والجماعت پاکستان سے پابندی ہٹا لی گئی [4]

سپاہ صحابہ کی تشکیل

6 جولائی 1977 کو جنرل ضیاءالحق کے برسر اقتدار آنے کے بعد ، اور 1978 میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی جنرل ضیا ، شیعہ مذہبی رہنما خصوصا مفتی جعفر حسین کے نوٹس میں آگئے۔ پاکستان کو اسلامی ملک بنانے کے چکر میں ضیاالجق نے بڑے پیمانے پر احکامات جاری کیے، جیسے لوگوں کے بینک اکونٹ سے زبردستی زکات وصول کرنا،دینی تعلیم کو یکجا کرنا اور شیعہ اوقاف کو حکومت کی سرپرستی میں لانا وغیرہ، جس کی وجہ سے شیعوں کی طرف سے شدید منفی رد عمل سامنے آگیا۔ اسلامی جمہوریہ کے قیام کے ٹھیک 70 دن بعد ، 12 اور 13 اپریل 1979 کو، پورے پاکستان سے قریب ایک لاکھ شیعوں کی آبادی پنجاب کے شہر بھکر میں جمع ہوئی ، جہاں آبادی کی اکثریت شیعہ ہے۔ اس اجتماع میں ، مفتی جعفر حسین کو قائد منتخب کرنے کے علاوہ ، فقہ جعفریہ کے نفاذ کی تحریک کے لئے بنیادی قدم بھی اٹھائے گئے۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں ، حکومت شیعوں سے ایک معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئی ، اور شیعوں کو زکوٰت ادا کرنے سے مستثنیٰ کردیا گیا اور اسی طرح شیعوں کے دوسرے مطالبات بھی منظور کیے گئے۔ تحریک فقه جعفریہ کے قیام کے بعد جماعت اسلامی پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام نے دو بڑے اجتماع منعقد کروائے۔ یہ دونوں اجتماع تحریک جعفریہ کے مقابلے میں منعقد کروائے گئے تھے۔اس سلسلے میں، آئی ایس آئی نے، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعاون سے ، دیوبندی تارکین وطن مسلمانوں کے ایک گروہ کو فقہ جعفریہ کی سرگرمیوں کے خلاف لڑنے کی ترغیب دی۔ سن ۱۹۸ میلادی/۱۳۶۴ شمسی میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا حق نواز جھنگوی کی سربراہی میں انجمن سپاه صحابه بنی جس کانام بعد میں تبدیل کرکے سپاه صحابه پاکستان رکھا گیا۔، اور کچھ شیعہ مخالف علما جیسے ضیاء الرحمن فاروقی ، ایثار الحق قاسمی اور "اعظم طارق" (جو بعد میں سپاہ صحابہ کے رہنما بنے) ، نے بھی سپاہ صحابہ کی تشکیل میں حق نواز کا ساتھ دیا [5]۔

پاکستان اور مذہبی فسادات

قائداعظم محمد علی جناح اور اقبال لاہوری نے بہت پہلے ، ایک آزاد مسلم ریاست پاکستان کے قیام کے بارے میں بات کی تھی اور وہ کچھ نتائج تک پہنچ چکے تھے۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے کا مرحلہ گزارنے کے بعد سن1940م کو اس سلسلے میں ، وہ کھلے عام مخالفین سے محاذ آرائی کے مرحلے میں داخل ہوئے۔ حزب اختلاف کے گروہوں نے ہندوستان میں ایک جمہوری حکومت کا مطالبہ کیا اور گاندھی نے بھی ان کی حمایت کردی تاکہ ہندوستان تقسیم نہ ہو اور اس میں مختلف حکومتیں بر سر اقتدار آئیں جیسے جناح ایک آزاد مستقل اسلامی ریاست کے خواہشمند تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے سن ۱۹۴۰ میلادی میں اپنی مشہور تقریر میں پاکستان بنانے کی ضرورت کو بیان کیا ۔ 1946 میں ، مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین قتل عام شروع ہوا جسے مختلف جماعتیں بھی ختم نہ کراسکیں۔ آخر میں ، گاندھی نے خونریزی کو روکنے کے لئے ہندوستان کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر اتفاق کیا۔ برطانوی وائسرائے ، مونٹ بیٹن نے آخر کار اس منصوبے کی منظوری دے دی ، اور 15 اگست 1947 کو پاکستان نے آزادی حاصل کرلی۔

سپاہ صحابہ کے افکار و نظریات

مجموعی طور پر، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے تمام قائدین پاکستانی دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہیں۔ اس کے عسکریت پسند بنیادی طور پر پنجاب اور کراچی میں دیوبندی جماعت کے مختلف دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ سپاہ صحابہ والے اگرچہ خود کو حنفی اور دیوبندی کہتے ہیں لیکن دیوبندی فکر کبھی بھی ان کی تکفیری فکر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ مذہب حنفی کے امام ابو حنیفہ نے کھبی کسی مسلمان کو کافر قرار نہیں دیا اور اپنی کتاب فقہ اکبر میں اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی ہے۔ دیوبندی بزرگ عالم دین «احمد سهارنپورى» نے بھی مسلمانوں کی عدم تکفیر کو علمائے دار العلوم کی روش قرار دی ہےاور کہا ہے کہ شیعہ ہونا کفر کا باعث نہیں ہے۔"دیوبند کے ایک اور بزرگ" شیخ الاسلام حسین احمد مدنی "، نے دیوبند کے کچھ بزرگوں کی طرف سے مسلمانوں کی تکفیر کے معاملے میں اپنی احتیاط کے بارے میں ایک طویل حوالہ کے بعد، راشد احمد گنگوہی اور اس کے پیروکاروں (دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے ایک) کی مسلمانوں کی تکفیر میں احتیاط کی شدت کا ذکر کرتا ہے۔ ان کے بقول ، اس معاملے میں دیوبند علمائے کرام کا رواج یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے ایمان کے متعلق ہزار میں سے ایک فیصد بھی احتمال ہو تو اس کو اس کے ایمان پر حمل کریں گے نہ یہ کہ اس کو کافر قرار دینے میں جلدی کریں۔ دارالعلوم کے شیخ الحدیث "محمد انور شاہ کشمیری" ، مسلمانوں کی تکفیر کے معاملے کو ایک سنجیدہ معاملہ سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں صرف وہ لوگ اس بارے میں اپنی نظر دے سکتے ہیں جو اسباب کفر کو اچھے سے جانتے ہیں۔ لیکن ان کے مقابلے میں سپاہ صحابہ جو خود کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنی کتابوں میں شیعوں کو کافر لکھنے کے بجائے کتاب خدا،روایات صحاح،کتب کلامی و فقہی بزرگان اہل سنت خاص طور پر اپنے حنفی بزرگ علما اور علمائے دار العلوم دیوبند کے رویے پر توجہ کریں اور یہ بھی نوٹ کریں کہ ان کے بزرگ کس طرح مسلمانوں کی تکفیر کے معاملے میں احتیاط سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ تھوڑا سا بھی کسی شخص کے ایمان کا احتمال ہوتا اس کو مسلمان قرار دیتے تھے اور اس کی تکفیر کا حکم صادر نہیں کرتے تھے۔بقول کشمیری ہر کوئی کسی کے کفر کے بارے میں اپنی نظر نہیں دے سکتا۔ ان کا یہ خاص طرز تفکر سبب بنا کہ انجمن سپاہ صحابہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے بعد، پاکستان کے مختلف صوبوں میں جیسے پنجاب،خیبر پختونخوا اور سندھ میں اپنے مدارس کھولیں تاکہ لوگوں کی اپنی مرضی سے آزادانہ طور پر تربیت کریں اور اپنے مخصوص افکار کی ترویج کریں اگرچہ دیوبندی اور حنفی فکر کی بنیاد ان کے افکار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ سپاہ صحابہ اپنی جو بھی کتاب اور مجلہ منتشر کرتی ہے اس میں ہمیشہ یہ مطالبہ ضرور ہوتا ہے کہ پاکستان میں شیعوں کو کافر قرار دیا جائے اور حکومت کی تشکیل خلافت کی بنیاد پر ہو ۔اس مقالے میں ان دو مسئلوں کو بیان کیا جاتا ہے [6]۔

شیعوں کی تکفیر

سپاہ صحابہ کا بنیادی ہدف متحدہ سنی ریاست کی تشکیل اور پاکستان میں شیعوں کو کافر اقلیت قرار دینا ہے۔ وہ پورے پاکستان میں شیعہ مخالف متعدد پمفلیٹ تقسیم کرتے ہیں جن میں وہ مذہبی اداروں کے جاری کردہ شیعہ مخالف فتوے شائع کرتے ہیں ایسے فتوے کہ جن میں شیعوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اور حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شیعوں کو کافر قرار دے جو اپنی کتابوں میں اور تقریروں میں صحابہ کی توہین کرتے ہیں۔ اس انتہا پسند گروہ سپاہ صحابہ کے مطابق شیعوں کے سامنے صرف تین آپشن ہیں:

  • پہلا یہ کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوجائیں،
  • دوسرا یہ کہ ماہانہ ان کو جزیہ دیں،
  • اور تیسرا یہ کہ اپنا رہائشی علاقے سے ہجرت کریں ۔ پاراچنار اور ڈیرہ اسماعیل خان سے شیعوں کی زبردستی نقل مکانی پنجاب اور کوہاٹ جیسے علاقوں میں اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

سپاہ صحابہ اور شیعوں کی تکفیر کے دلائل

سپاہ صحابہ کے مرکزی رہنما، خاص طور پر ضیاء الرحمن فاروقی اور اعظم طارق،تین دلیلوں کی بنیاد پر شیعوں کو کافر قرار دیتے ہیں: صحابہ کو کافر سمجھنا سپاہ صحابہ کے رہنما اپنی کتابوں میں بعض روایات اور ان کے ہمراہ کچھ شیعہ علما کی تقاریر کا ریفرنس دے کر یوں استدلال کرتے ہیں کہ اہل تشیع پیامبر اسلام ص کے تمام صحابہ کو سوائے چند ایک کے امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ولایت سے انکار کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں۔اور شیعوں کی طرف سے صحابہ کی تکفیر خود شیعوں کے کافر ہونے پر دلیل ہے۔

شیعوں کا عقیدہ

اگر کوئی صحابہ کے بارے میں شیعوں کے نظریئے کی تحقیق کرے گا تو یقینا وہ شیعوں کے نظریئے کو معتدل پائے گا، نہ غالیوں کی طرح تمام صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں اور نہ ہی جمہور کی طرح تمام صحابہ کی توثیق کرتے ہیں۔ شیعوں کی نظر میں، پیامبر اسلام کی صحبت، فضیلت ہے، لیکن صرف صحابی ہونا کافی نہیں اور صحابہ دوسرے لوگوں کی طرح ہیں۔صحابیوں میں سے بعض عادل تھے بعض منافق تھے اور بعض مجہول الحال تھے۔ شیعہ ان کے عدول والے قول کا حوالہ دے کر پیامبر اسلام ص کے وصی اور بھائی پر خروج کرنے والوں اور اسی طرح گناہ کبیرہ کے مرتکب ہونے والوں کو نہیں مانتے اور مجہول الحال صحابہ کے بارے میں توقف کرتے ہیں یہاں تک کہ بات واضح ہو۔ در حقیقت شیعوں اور سنیوں کے درمیان اختلاف رائے کی وجہ تمام صحابہ یا بعض صحابہ کی عدالت ہے۔ اہل سنت تمام صحابہ کو عادل مانتے ہیں لیکن شیعہ بعض صحابہ کو عادل مانتے ہیں ۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ شیعہ صحابہ پر لعن کے قائل ہیں یا یہ کہ شیعہ پیامبر اسلام کے بعد صحابہ کے مرتد ہونے کے قائل ہیں یا یہ کہ صحابہ کی روایات مطلقا حجت نہیں ہیں،یہ سب شیعوں پر سواے تہمت کے اور کچھ نہیں، حقیقت یہ ہے کہ شیعوں کا ان باتوں سے دور دور تک کا تعلق نہیں۔ شیعہ اپنے دینی احکامات بزرگ صحابہ سے لیتے ہیں اور جن صحابہ کو یہ اچھے سے نہیں جانتے ان کے بارے میں کچھ نہیں بولتے اور تیسری قسم جن کے یہ فسق کے قائل ہیں اور ان کو عادل نہیں سمجھتے،یہ حکم قرآن و حدیث سے لیا ہے۔

ختم نبوت

ایک اور الزام جو سپاہ صحابہ شیعوں پر لگاتے ہیں اور جس کی وجہ سے شیعوں کو خارج از اسلام قرار دیتے ہیں، وہ مسئلہ ختم نبوت ہے۔ان کی نگاہ میں پیامبر اسلام ص کی خاتمیت دین مبین اسلام کی ضروریات میں سے ہے اور اگر کوئی اس پر ایمان نہ رکھتا ہو تو تمام مسلمانوں کا اتفاق نظر ہے کہ وہ شخص کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ دوسری طرف شیعہ ، انبیاء کی ساری صفات کو اپنے بارہ ائمہ کےلیے ثابت سمجھتے ہیں اور نبی کریم ص کی طرح ان کو بھی واجب‏ الاطاعة سمجھتے ہیں ۔نتیجے کے طور پر، شیعہ اپنے اس عقیدے کے ساتھ ختم نبوت کے منکر ہوگئے ہیں۔

شیعوں کا عقیدہ

جبکہ شیعہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح نبی مکرم ص کی خاتمیت رسالت پر ایمان رکھتے ہیں، شیعوں کے بزرگ عالم دین شیخ طوسی خاتمیت پیامبر اکرم ص پر شیعوں کے عقیدے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ روز قیامت تک کوئی اور آنحضرت صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مبعوث نہیں ہوگا۔ شیعوں کے نظریئے کے مطابق، خاتمیت کا مسئلہ دین اسلام کے ضروری مسائل میں سے ہے۔ شیعہ اس عقیدے کے اس قدر پابند ہیں کہ ان کے فقہا نے بعض منحرف فرقوں جیسے بہائی اور قادیانی جو کہ پیامبر اسلام صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی خاتمیت کے منکر ہیں ،ان کو مرتد قرار دیا ہے اور ان کو دایرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ اور جہان تک یہ بات ہے کہ کیوں شیعہ اپنے آئمہ علیہم السلام کو نبی مکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح معصوم سمجھتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ یہ نصوص کی وجہ سے ہے جو کہ اس بارے میں وارد ہیں ۔حدیث ثقلین میں آیا ہے کہ نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: «إني قد تركت فيكم أمرين لن تضلوا بعدي ما إن تمسكتم بهما؛ كتاب الله وعترتي أهل بيتي». اس حدیث کے مطا بق، ان کے اقوال کی پیروی کرنا ،پیامبر اسلام صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث کی پیروی ہے۔سپاہ صحابہ کا شیعوں کو کافر قرار دینے کی ایک وجہ یہی ہے کہ شیعہ آئمہ کی عصمت کے قائل ہیں اور عصمت و نبوت کا آپس میں رابطہ تساوی ہے یعنی جو بھی معصوم ہوگا وہ نبی ہوگا اور جو بھی نبی ہوگا وہ معصوم ہوگا۔ جبکہ وہ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ عصمت اور نبوت کے درمیان نسبت عام خاص مطلق کی ہے۔ مطلب یہ کہ ممکن ہے ایک شخص معصوم ہو – یعنی شخص اس قدرت کا حامل ہو جو اسے خطا سے محفوظ رکھتی ہے- لیکن اس کے پاس نبوت کا مقام نہ ہو۔ اور یہ ایسی بات نہیں جسے شیعوں نےخود اختراع کی ہو بلکہ خدا وند عالم قرآن کریم میں اہل بیت پیامبر اسلام ص کے بارے میں فرماتا ہے: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}؛ رجس سے مراد آیت کریمہ میں، رجس معنوی ہے جس کی واضح مثال فسق ہے جو کہ آیت کریمہ کے مطابق اہل بیت علیہم السلام سے دور ہے۔

تحريف قرآن

ایک اور الزام جو سپاہ صحابہ کے رہنما شیعوں کی تکفیر کا بہانہ بناتے ہیں وہ ہے تحریف قرآن۔ فاروقی اپنی تاریخ کی کتاب کے دوسرے باب میں تحریف قرآن کو شیعوں کے مسلم عقائد کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ شیعہ نہ صرف قرآن کی تحریف معنوی کے قائل ہیں بلکہ تحریف ظاہری کے بھی قائل ہیں۔جو شیعہ اس طرح کا عقیدہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان نہ کہے بلکہ وہ کافر ہے۔ فاروقی کہتا ہے کہ تحریف قرآن اصول کافی،احتجاج طبرسی اور فصل الخطاب سے ثابت ہے۔ اعظم طارق ،فاروقی کے کلام کی تایید کرتا ہے اور بزرگان دیوبند سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ان کتابوں کے لکھنے والوں اور ان کے پیروکاروں یعنی شیعوں کے کفر کا فتوا دیں۔

شیعوں کا عقیدہ

شیعہ تقریبا اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی۔ شیخ صدوق + مذہب امامیہ کے بزرگان اعتقاد شیعہ کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جو قرآن خدا وند متعال نے پیامبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا تھا لوگوں کے پاس وہی قرآن موجود ہے نہ کم نہ زیادہ۔ اس کی آیتوں کی تعداد ۱۱۴ ہے۔اگر کوئی ہماری طرف یہ نسبت دیتا ہے کہ ہم اس سے زیادہ کے قائل ہیں تو وہ جھوٹا ہے۔ دوسری طرف سے اہل سنت علما نے بھی شیعوں کی طرف سے قرآن کی تحریف والے قول کو مسترد کردیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے ایک ہندوستانی حنفی عالم ،شیعوں پر قرآن کی تحریف کو درست نہیں سمجھتا ،ان کا عقیدہ ہے کہ شیعوں کے نزدیک قرآن کریم ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے۔ شیعہ، اگر ان میں سے کوئی قرآن میں کسی کمی اور نقصان کو مانتا ہے تو ، اس کے کلام کو مسترد کرتے ہیں اور اسے قبول نہیں کرتے ہیں۔اخوان المسلمون کے ایک دانشور رہنما ، محمد غزالی نے اس کے بارے میں ایک دلچسپ بات کہی ہے: میں نے ایک علمی نشست میں کچھ لوگوں کو یہ بولتے ہوئے سنا کہ شیعوں کا قرآن الگ ہے جو کہ معروف قرآن کے برعکس کمی اورزیادتی کا حامل ہے۔ میں نے ان سے کہا : جس قرآن کی تم بات کرتے ہو وہ کہاں ہے؟ کیوں اس طولانی عرصے میں کسی انسان اور جن کو اس کی خبر نہیں ہوئی؟ یہ شیعوں پر افترا ہے۔

خلافت کا قیام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ محاذ آرائی

سپاہ صحابہ کے اہداف میں سے ایک اور ہدف جسے وہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے ، پاکستان کی جمہوری حکومت کو ختم کرکے خلافتی نظام کو پاکستان میں نافذ کرنا ہے۔ اس گروہ کے بانی حق نواز جھنگوی کا ہمیشہ یہ مطالبہ تھا کہ پاکستان کی حکومت ایک سنی حکومت ہو جس میں خلافت اسلامی کا احیا ہو اور اس کا سرکاری مذہب فقہ حنفی ہو۔ سپاہ صحابہ کے رہنما اعظم طارق نے سن ۲۰۰۰ میں کراچی میں منعقد ہونے والی بین المللی کانفرنس دفاع صحابہ میں اپنی تقریر میں اعلان کیا تھا کہ سپاہ صحابہ کا مقصد، پاکستان کے 28 بڑے شہروں میں تبدیلی لانا ہے، اور انہیں اسلامی شہروں کے ایسے ماڈل میں تبدیل کرنا ہے جہاں ٹیلی ویژن، سنیما اور موسیقی پر پابندی ہو۔ سپاہ صحابہ مطلوبہ مقصد کے حصول کے لئے قائم خلافت کا رسالہ شائع کرکے اپنے نیٹ ورک کی سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس بناء پر، سپاہ صحابہ، شیعہ طرز تفکر کو پاکستان میں خلافت کے نظام کو نافذ کرنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے، لہذا شیعوں کے سیاسی طور پر طاقتور ہونے اور ایران کا پاکستان میں نفوذ کو روکنے کی ہر طرح سے کوشش کرتی ہے۔ حق نواز اپنی تقریروں میں نہ صرف ایران کا نام لیتا تھا بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کو بھی برا بلا کہتا تھا۔ اس کو یہ ڈر تھا کہ امام خمینی کا انقلاب مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کے نعرے کے ساتھ اہل سنت معاشرے کو اپنے ساتھ نہ ملائے جیسا کہ اس نے جماعت اسلامی کے ساتھ کیا۔ لہذا، سپاہ صحابہ نے انقلاب اسلامی ایران کی حمایت کرنے پر جماعت اسلامی پاکستان کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا ، ایسا نہ ہو کہ ان کی حمایت پاکستان میں سیاسی شیعہ مذہب کی بنیاد بن جائے۔

سپاہ صحابہ کے قائدین

سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی ایک دیوبندی سنی عالم تھا اور جمعیت علمائے اسلام سے وابستہ تھا۔ انجمن سپاہ صحابہ بنانے سے پہلے قادیانیوں اور بریلویوں سے اس کا تصادم تھا۔ حق نواز جو کہ ایک متعصب اور شیعہ مخالف شخص تھا چند شیعہ مخالف دیوبند مولویوں کے ساتھ مل کر جیسے ضیاء الرحمن فاروقی، اسرار الحق قاسمی اور اعظم طارق، حرمت صحابہ کی پاسداری کے لیے،پاکستان میں ایران کا اثر و رسوخ کم کرنے کےلیے اور پاکستان میں تشیع کے سیاسی رشد کو روکنے کےلیے، اس نے سپاہ صحابہ کی بنیاد ڈال دی۔ وہ اہل تالیف تو نہیں تھا البتہ اپنی تقریروں کے توسط سے جھنگ شہر میں بہت سارے لوگوں کو اپنی طرف جلب کرنے میں کامیاب ہوا۔اس کا انتہا پسند رویہ اسے یہاں تک لے آیا کہ سن ۱۹۹۰ م میں اسے قتل کردیا گیا اور اس قتل کا الزام شیعوں پر لگایا گیا۔ پاکستان میں شدت پسند گروپ "سپاہ صحابہ" کے رہنما کو رہا کردیا گیا 23 فروری 1990 کو حق نواز جھنگوی کے قتل کے بعد ، ایثار الحق قاسمی نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ اس نے 1988 میں جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیا۔اور سن ۱۹۹۱ م میں قومی اسمبلی کی سیٹ حاصل کر لی۔ قومی اسمبلی تک پہنچنے کا مقصد سیاسی،اجتماعی اور اقتصادی اداروں میں شیعوں کے نفوذ کو روکنا تھا۔1991 میں ایثارالحق قاسمی کے قتل کے بعد، ضیاء الرحمٰن فاروقی کو سپاہ صحابہ کی قیادت کے لئے منتخب کیا گیا۔ اس گروپ کی رہنمائی کے کئی سالوں کے بعد، اپنے 22 ساتھیوں کے ساتھ ، 19 جولائی 1997 کو لاہور کے ایک عدالت خانے میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں مارا گیا۔اس کے مارے جانے کے بعد ، اعظم طارق اس کا جانشین منتخب ہوا۔. ایثارالحق قاسمی کی طرح ، اس نے بھی پاکستانی قومی اسمبلی میں ایک نشست حاصل کی تاکہ پاکستان کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی ڈھانچے میں شیعہ اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے قاسمی کے مقصد کو جاری رکھا جاسکے۔پارلیمنٹ میں داخل ہوتے ہی اعظم طارق نے ناموس صحابہ کا بل پیش کیا تاکہ پاکستان میں صحابہ کی توہین پر پابندی کا بل قانون میں تبدیل کیا جاسکے۔شیعوں سے اس کی دشمنی اور نفرت اس قدر زیادہ تھی کہ جب تک وہ سپاہ صحابہ کا سربراہ رہا اس نے ۱۰۳ شیعہ افراد کو قتل کروایا جن میں عام شیعہ اور قائدین شامل تھے۔ اعظم طارق کو چار دیگر افراد کے ساتھ بالآخر 6 اکتوبر 2003 کو اسلام آباد میں تین نامعلوم مسلح افراد نے قتل کردیا۔اس کے قتل کے بعد، اس کے پیروکاروں نے دکانوں، ریسٹورینٹس اور متعدد سینماؤں کو آگ لگا دی۔اعظم طارق کی ہلاکت کے بعد ، "مولوی علی شیر حیدری" نے اس گروپ کی قیادت سنبھالی۔ وہ بھی اگست 2009 میں صوبہ سندھ میں مارا گیا۔ حیدری کے قتل کے بعد،محمد احمد لدھیانوی کو اس گروہ کے سربراہ کے طور پر منتخب کیا گیا اور ابھی تک وہ اپنی جگہ پر باقی ہے۔

سپاہ صحابہ کے سپورٹرز

صحابہ صحابہ کی سرگرمیاں خطے کی عظیم طاقتوں کی حمایت سے انجام دی جاتی ہیں ، یہ حمایت سیاسی اور مالی مدد کی شکل میں ہوتی ہے، جن میں سے کچھ ذیل میں زیربحث ہیں:

پاکستانی حکومت کی حمایت

کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں: جب ضیاالحق فوجی بغاوت کے ساتھ برسر اقتدار آیا، اس وقت کی ایسی فوجی حکومت جمہوریت کے حامی کارکنوں کو پسند نہیں تھی۔ ضیا الحق نے ان جمہوریت پسند لوگوں کا مقابلہ کرنے کرنے کےلیے کچھ اسلامی گروپوں کی حمایت شروع کردی۔جمہوریت کے بڑھتے ہوئے مطالبے کا مقابلہ کرنے کے لئے سپاہ صحابہ کی طرف سے ضیاء الحق حکومت کی کچھ حوصلہ افزائی ہوسکتی تھی۔ اور بعض دوسروں کا یہ ماننا ہے: پاکستان میں شیعہ تحریکوں کو روکنے کے لئے، ضیاء الحق نے حق نواز جھنگوئی کی حمایت کی۔ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے سابق ڈائریکٹر جنرل ، طالق کھوسہ نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے: میں نے محرم 1980 میں شیعوں کے خلاف تقریر کرنے کے جرم میں جھنگوی کو گرفتار کیا تھا ، لیکن ضیاء الحق کے حکم پر جھنگوی کو جیل سے رہا ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ پاکستان کی یہ پالیسی اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں برسر اقتدار آئے ۔14 اگست 2001 کو مشرف نے سپاہ صحابہ کو وارننگ جاری کی،لیکن امریکہ میں نائن الیون کے بعد ، القاعدہ کو ہی اس حادثے کا اصل مجرم ٹھرایا جاتا ہے۔دوسری طرف ، کیونکہ طالبان نے القاعدہ کی حمایت کی تھی ، اور اس نے اس وقت کے القاعدہ کے رہنما ، بن لادن کو امریکہ کے سپرد کرنے سے انکار کیا تھا ، اس لئے امریکہ نے افغانستان اور طالبان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ انجمن سپاہ صحابہ جو کہ طالبان سے قریبی تعلقات رکھتی تھی ، نے کہا کہ اگر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو سپاہ صحابہ طالبان کی حمایت کرے گی اور امریکہ کے خلاف جنگ کےلیے میدان میں اترے گی۔اور اسی وجہ سے پرویز مشرف نے 12 جنوری 2002 کو سپاہ صحابہ کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی۔اس آرڈر کے نتیجے میں ان کے خلاف قانونی کاروائی کی گئی اور اس کے بہت سارے کارکن گرفتار ہوگئے۔سپاہ صحابہ کے مطابق اس پر پابندی سبب بنی کہ اس کے ۷۴ تربیتی مراکز پر پابندی کے ساتھ ساتھ اس کے ۲۲۵ تعلیمی مراکز پر بھی پابندی لگ جائے ۔ اس پابندی کی وجہ سے ، اس وقت کی انجمن سپاہ صحابہ کے رہنما اعظم طارق نے اپنے گروپ کا نام تبدیل کرکے"اسلامک نیشن آف پاکستان (MIP)" رکھا ۔تاہم ، زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پرویز مشرف نے ستمبر 2003 میں اس نئے نام کے ساتھ فعال گروپ کو بھی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کیا ۔. ان پابندیوں کے باوجود ، سپاہ صحابہ نے علی شیر حیدری کی سربراہی میں ، ایک نئے نام ، اہل سنت وجماعت (ASWJ) کے تحت ، اپنے فرقہ وارانہ تشدد کو جاری رکھا۔اپریل 2005 میں امریکہ نے اس گروپ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (ایف ٹی او) قرار دیا،، اور پاکستانی حکومت نے بھی 2012 میں اہل سنت والجماعت کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ۔اس کے باوجود ، یہ گروپ پاکستانی شہروں میں مختلف کانفرنسوں کا انعقاد کرتا رہتا ہے۔

کچھ خلیجی اور مغربی ممالک کی حمایت

سپاہ صحابہ کے قیام کے بعد سے ہی، کچھ خلیجی ممالک ، جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ، نے اس دہشت گرد گروہ کو مالی مدد فراہم کی۔ یہ مالی مدد نجی ذرائع سے اور پاکستان میں کچھ مالدار لوگوں کے ذریعہ ہوتی تھی، اس کے علاوہ ، ان ممالک نے اپنے ملک میں سپاہ صحابہ کی مختلف شاخوں کے قیام کی اجازت دی ہے، یہاں تک کہ ان ممالک میں اور کچھ مغربی ممالک جیسے کینیڈا اور برطانیہ میں اس کی شاخوں کی تعداد 17 تک پہنچ چکی ہے۔ سعودی عرب کی کوششوں کا مقصد علاقائی سطح پر اسلامی انقلاب کے اثرات کو کم کرنا تھا کیوں کہ سعودی عرب خطے میں اسلامی جمہوریہ کے اقتدار میں عروج کو خطے میں اپنے مفادات کے برخلاف دیکھتا ہے۔

سپاہ صحابہ کے جرائم

سپاہ صحابہ نے شیعوں کے خلاف صرف تکفیری فتووں کو کافی نہیں سمجھا بلکہ ، انہوں نے شیعہ اہم شخصیات جیسے مذہبی اسکالرز، ڈاکٹروں اور وکلاء کے علاوہ عام شیعہ شہریوں کو بھی قتل کیا اور متعدد شیعہ مساجد پر حملہ کیا۔ سپاہ صحابہ کی دہشتگردی کی بدترین اور واضح ترین مثال 5 اگست سن ۱۹۸۸ کوتحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے قائد علامہ شہید عارف حسین الحسینی کا قتل تھا۔ شیعوں کی طرف سےرد عمل کے طور پر اس کے بھی کئ رہنما مارے گئے۔ جب فروری 1990 میں حق نواز جھنگوی کو مارا جاتا ہے، تب سپاہ صحابہ کے رہنما ایران اور مقامی شیعہ رہنماؤں پر حق نواز جھنگوی کے قتل کا الزام عائد کرتے ہیں۔ حق نواز کے قتل کے بعد ، پاکستان نے اپنے شہروں میں بدترین مذہبی دہشت گردی دیکھی۔ اس کی موت کا بدلہ لینے کے لئے ، سپاہ صحابہ نے 1994 میں ممتاز ایرانی سفارت کار صادق گنجی کا قتل کیا۔ اسی طرح ان شدت پسندوں نے ۱۹۹۷ میں ملتان میں ایران کے خانہ فرہنگ پر حملہ کرکے سات ایرانی سفارت کاروں کا بے گناہ قتل کیا ۔ ضیاء الرحمٰن فاروقی کی موت کے انتقام میں ، پانچ ایرانی فوجی افسرز کو ستمبر 1997 میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی نے پاکستان میں قتل کردیا ۔ سپاہ صحابہ کی دیگر کاروائیوں میں افغانستان کے شہر مزار شریف میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانے کے اندر ایرانی سفارت کاروں کا قتل عام بھی شامل ہے جو کہ بین الاقوامی قانون کے برخلاف ، صرف شیعہ افکار سے دشمنی کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ایرانی سفارتکاروں کی شہادت سپاہ صحابہ کے ہاتھ ہوئی۔

انتہا پسند اور تکفیری گروہوں کے ساتھ رابطہ

افغان طالبان سپاہ صحابہ کے سب سے اہم علاقائی حامی ہیں۔سپاہ صحابہ کا سربراہ اعظم طارق افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران ، افغانستان اس کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ افغانستان میں کیمپ ، جو ماضی میں فوجی تربیت اور غیر افغان مجاہدین کی میزبانی کے لئے استعمال ہوتے تھے ، کو سپاہ صحابہ پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا۔ سن 1998 میں ، سیکڑوں شیعوں کے قتل ہونے کے بعد ، حکومت نے سپاہ صحابہ پاکستان کے خلاف کارروائی کی۔ اس کے ذمہ دار افراد بھاگ کر افغانستان چلے گئے اور طالبان نے ان کی حمایت کی۔ طالبان اور بن لادن کی سربراہی میں ، بہت سے سپاہ صحابہ کے جنگجوؤں نے خوست کے کیمپ میں فوجی تربیت حاصل کی۔ سپاہ صحابہ پاکستان کے ہزاروں کارکن طالبان کے مخالفین سے جنگ لڑنے کےلیے طالبان میں شامل ہوگئے۔ چونکہ مزار شریف پر حملہ کرنے کے لئے طالبان کو نئی قوتوں کی ضرورت تھی ، لہذا ، ہر دن سپاہ صحابہ کے دینی مدارس کے سیکڑوں طلباء سرحد عبور کرکے طالبان میں شامل ہوجاتے تھے۔ . افغان مصنف اور محقق اسداللہ شافعی نے طالبان کے ساتھ سپاہ صحابہ کی موجودگی کے بارے میں اپنے مشاہدات کی یوں اطلاع دی ہے: میں نے مزار شریف پر طالبان کے ناکام حملے کا مشاہدہ کیا۔ طالبان کی شکست کے نتیجے میں عرب اور پاکستانی جنگجووں کی ایک بڑی تعداد ، بشمول سپاہ صحابہ کے کارکنوں کے، اسیر ہوگئی۔ ان کے پاس پاکستانی دستاویزات تھیں۔ سپاہ صحابہ کے ایک سرکاری کاغذ پر اردو میں یہ لکھا ہو اتھا: شیعہ ، کافر ، اور ان کا قتل جائز ہے۔ مزار شریف پر طالبان کے دوسرے حملے میں ، طالبان کا ایک چھوٹا گروپ ، سپاہ صحابہ پاکستان کے متعدد کارنوں کے ہمراہ دوست محمد کی سربراہی میں مزار شریف میں ایرانی قونصل خانے میں داخل ہوا اور گیارہ ایرانی سفارت کاروں اور ایک صحافی کو جمع کیا اور پھر انہیں گولی مار دی۔ 11 ستمبر ، 2001 کے واقعات کے بعد امریکہ افغانستان اور طالبان پر حملہ کرنے کے لئے پرعزم تھا۔ سپاہ صحابہ ، جس کے طالبان سے قریبی تعلقات تھے ، نے کہا: افغانستان پر امریکی حملے کی صورت میں ، سپاہ صحابہ طالبان کی حمایت اور امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے وارد جنگ ہو گی۔ لیکن سپاہ صحابہ کا القاعدہ سے تعلق ۹۰ کی دھائی کی طرف پلٹتا ہے؛ جب افغان طالبان نے کئی اڈے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے حوالے کردیئے، یہ گروہ القاعدہ اور عرب افغانوں سے واقف ہوئے اور انتہا پسندانہ تربیت حاصل کی۔ القاعدہ کے باقی ماندہ افراد کے افغانستان سے پاکستان کے مختلف حصوں میں ہجرت کے بعد ، شدت پسندوں کی ایک اور ہم آہنگی اجتماعی شناخت قائم ہوگئی اور شیعوں پر حملہ کرنے میں ان کا تعاون بڑھتا گیا۔ ایک جھڑپ میں ، القاعدہ کے 500 ارکان ، جن میں زیادہ تر غیر ملکی (ازبک ، عرب ، افریقی ، اور ہندو) تھے ، شیعوں سے لڑنے آئے تھے۔ سپاہ صحابہ کے رہنماؤں میں سے ایک کی گفتگو اس صورتحال کو اچھی طرح بیان کرتی ہے: "ہم اور دیگر جہادی تحریکوں نے کئی سال کشمیر میں ہندوستانیوں کے خلاف جنگیں لڑی ہیں اور ہم آزمائے ہوئے ہیں ۔ "لہذا پاراچنار کے شیعہ ہمارے خلاف کچھ بھی نہیں ہیں اور ہم مستقبل میں دکھائیں گے کہ اصل جنگ کیا ہوتی ہے۔" سپاہ صحابہ کے دوسرے گروپوں سے رابطوں کے بارے میں ، اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپاہ صحابہ کے نیٹ ورک دوسرے عسکریت پسند گروپوں ، جیسے مجاہدین موومنٹ ، جیش محمد ، اور پاکستانی طالبان کے ساتھ قریب تر ہوگئے ہیں۔

لشکر جھنگوی

حق نواز جھنگوی کے قتل کے بعد ، سپاہ صحابہ کے رہنماؤں کے مابین گروپ کے اہداف کو آگے بڑھانے کے حوالے سے تنازعہ پیدا ہوا۔بعض افراد جن کا خیال تھا کہ وہ حق نواز جھنگوی کے آرمانوں کے وفادار ہیں ،ان کا یہ کہنا تھا کہ کچھ بھی ہو حق نواز جھنگوی کے آرمانوں کو عملی جامہ پہنانا ہے چاہے اس کے لیے لشکر کشی کیوں نہ کرنی پڑے۔ کچھ اور افراد کا خیال تھا کہ سپاہ صحابہ کو ایک سیاسی جماعت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس کی حمایت کےلیے ایک مستقل اسلحہ بردار گروہ بھی بنایا جائے جو بوقت ضرورت اس سیاسی جماعت کی حمایت کرے۔ان میں بہت ہی کم افراد تھے جو پاکستان میں شیعہ سنی فرقہ واریت کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ اس دوران ، سپاہ صحابہ کے کچھ ممبران ، جیسے ایثار قاسمی اور اعظم طارق نے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور سیاسی اتحاد میں شامل ہوئے ، یہ کام زیادہ تر ممبران کو اچھا نہیں لگا اور یہی امر سبب بنا کہ بہت سارے کارکن اس دہشتگرد تنظیم کو چھوڑ دیں اور مسلح گروپوں نے مذید شدت سے اپنی دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رکھیں۔۔ اس تنظیم کے تین افراد «ریاض بسرا»، «اکرم لاهوری» اور «ملک اسحاق» نے سن ۱۹۹۶ میں سپاہ صحابہ کے مسلح گروہ کا نام لشکر جھنگوی رکھ دیا۔ اس گروہ کے قیام کے بعد ، دہشت گردی کی کاروائیاں شیعہ رہنماؤں اور شیعہ سرکاری اہلکاروں کی ہلاکت کے مقصد سے کی گئیں۔ پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق 2001 میں لشکر جھنگوی شیعہ رہنماؤں کے خلاف قتل و غارت گری کے 350 کاروائیوں کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں بھی ملوث تھا۔ اس گروپ کو وزیر اعظم کی حیثیت سے نواز شریف کے دوسرے دور میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس گروپ نے 1998 اور 1999 کے آس پاس اپنے درجنوں کارکنوں کو پولیس مقابلے میں کھو دیا تھا۔ جنوری 1999 میں ، انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ،لشکر جھنگوی نے اس راستے میں بمب نصب کیا جہاں سے نواز شریف کے قافلے نے گزرنا تھا۔ 1998 میں جب پاکستان کی حکومت نے لشکر جھنگوی کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کیا ، اس گروپ کے بیشتر کارکن پاکستان چھوڑ کر افغان طالبان کی پناہ میں چلے گئے۔ طالبان نے انہیں تربیت کے لئے ایک فوجی بیرک مہیا کیا اور اس موقع سے القاعدہ نے اس گروپ کے ممبروں کو تربیت دینے کا بھر پورفائدہ اٹھایا۔ لشکر جھنگوی اسامہ بن لادن کے بین الاقوامی اسلامی محاذ کا رکن ہے۔ چونکہ سیکیورٹی وجوہات اور اپنے ممبروں کی شناخت ظاہر ہونے کے خطرے سے القاعدہ کچھ علاقوں میں براہ راست آپریشن نہیں کرسکتی ہے ،لہذا لشکر جھنگوی کی مقامی صلاحیتوں اور اس کے نیٹ ورکس کا استعمال کرتی ہے۔لشکر جھنگوی کا القاعدہ سے رابطہ اس گروپ کے انتہا پسند اور متشدد ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔ لشکر جھنگوی کے دوسرے گروپوں سے تعلقات کے بارے میں اطلاعات میں پاکستانی طالبان ، دولت اسلامیہ عراق اور لیونت (داعش) کے ساتھ مضبوط تعلقات کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان سب کے بیچ ایک اور ایران مخالف دہشتگرد گروپ انصار الاسلام بھی ایرانی سیکیورٹی فورسز اور پاکستانی شیعوں سے مقابلے پر مامور ہے۔

حوالہ جات

  1. ڈاکٹر مبارک علی، "المیہ تاریخ، حصہ اول، باب 11جہاد تحریک" تاریخ پبلیکیشنز لاہور 2012
  2. رشید احمد گنگوہی دیوبندی، فتاوٰی رشیدیہ ص 435
  3. مرزا حیرت دہلوی، "کتاب شہادت"، کرزن پریس دہلی،1920
  4. ابو یزید محمد دین بٹ، "خلافت رشید ابن رشید امیر المومنین سیدنا یزید"، طبع لاہور
  5. محمود احمد عباسی، "تحقیق مزید بسلسلہ خلافت معاویہ و یزید"، الرحمن پبلشنگ ٹرسٹ، کراچی
  6. سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی، makhaterltakfir.com