اسلامی فرقے

ویکی‌وحدت سے

اسلامی فرقے (تہتر فرقے)حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نے پیشن گوئی کی تھی کہ میرے بعد میری قوم 72فرقوں میں بٹ جائے گی۔ حدیث میں عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور پاک نے کہا :" میری امت کے لوگوں کا وہی حال ہوگا جو بنی اسرائیل کا ہوا تھا بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئی تھی اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ وہ ایک فرقہ جو بچ جائے گا کونسا ہوگا آپ نے فرمایا وہ جو میرے طویق کے پیرو اور میرے دوست ہیں [1]۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان فرقوں کی مجموعی تعداد 73 سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر ایک فرقہ اپنے کو ناجی اور دوسرے فرقے کو ناری کہے گا مطلب ایک فرقہ جنتی ہے اور بہتر (۷۲) فرقے دوزخی ہونگے۔ علامہ عبد الکریم شہرستانی مصنف کتاب الملل دانحل میں تہتر فرقوں کی تفصیل درج کی ہے دوسری کتاب غنیہ الطابیں میں ہے۔ ۷۳ فرقے: (۱) اہل سنت (۲) خوارج ۱۵ (۳) شیعه ۳۲ (۴) معتزله ۲ (۵) مرجبیه ۱۲ (۶) مثبه ۳ (۷) جہمیہ ضرار یہ، نجاریہ اور کلابیہ کا ایک ایک فرقہ ۴ کل

73 فرقے

  • اہل سنت 1،
  • خوارج 15،
  • شیعہ 32، معتزلہ 6،
  • مرجیہ 12، مثبتہ 7،
  • جہمیہ ضراریہ، نجاریہ اور کلابیہ کا ایک ایک فرقہ 4 کل 73 فرقے

سنی الاعتقاد

سنی راسخ الاعتقاد فرقہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں کہ سنی وہ ہے جو سنت رسول یعنی طریق حضرت محمد ﷺ کا پیرو ہے اور چاروں خلفا، کو و حضور کے جائز جانشین مانتا ہے احادیث کی چھ کتب جو صحاح ستہ کہلاتی ہیں کو قبول کرتا ہے اور چار مذاہب حنفی، مالکی، شافعی حنبلی میں کسی ایک کا وہ مقلد ہو اور چاروں اماموں کے اجماع کی تقلید کوضروری سمجھتا ہے ۔ سب سے بڑا طبقہ ان لوگوں کا ہے جنہیں ہیں اہل سنت و جماعت یاسنی مسلمان کہتے ہیں سوائے ایران کے باقی تقریبا تمام اسلامی ممالک میں زیادہ ترسنی ہیں اور اکثریت حنفی مذہب کے پیروکار ہیں۔

مسئلہ امامت اور اس کا مفہوم

شیعہ سنی اختلاف کا دائرہ بہت وسیع ہے بنیادی طور پر تین مسائل اختلافات کا سبب ہیں:

اسلامی فرقوں کی تکوین ( مطلب پیدا کرنا ) میں مسئلہ امامت کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ ابتدا میں شیعہ امامت کے مسئلہ پر کسی حد تک متفق و متحد تھے۔ حضور کی وفات کے بعد جانشین کے انتخاب کے بارے میں مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ ہر ایک جماعت یہ خیال کرتی تھی کہ حضور کی خلافت کے سب سے زیادہ وہ مستحق ہیں اور اس جماعت کے عقیدہ کو ان عقائد کی بنیاد اور نقطہ آغاز تصور کرنا چاہئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ خلافت اور امامت صرف حضرت فاطمہ کی اولاد کا حق ہے۔ دوسرا گروہ کا خیال کا تھا کہ حضور کے بعد خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافت جائز ہے۔ اہل تشیع خیال کرتے ہیں کہ امامت صرف حضور کے خاندان کا حق ہے اس لئے شیعہ آئمہ اہل بیت کو مامور خیال کرتے ہیں۔ عقیدہ اہل تشیع یہ ہے کہ رسول اللہ کے بعد خلافت کے حقدار صرف حضرت علی تھے۔ اوائل اسلام میں اسلام کے چار بڑے گروہ تھے:

  • یک اہل سنت و جماعت جن میں مرجیہ بھی شامل ہیں۔
  • دوسرے شیعہ جو بے شمار فرقوں میں منقسم ہیں۔
  • تیسرے خوارج۔
  • چوتھے معتزلہ۔

ان چار گروہوں کے علاوہ ایک اور جماعت ہے جو کچھ عرصہ بعد پیدا ہوئی وہ صوفیہ یا متصوفیہ کے لقب سے ملقب ہوئی ایک ہی شخص صوفیہ اور اہل سنت و جماعت یا شیعہ دونوں میں شمار ہوتا ہے لیکن صوفیہ میں سے بعض اپنے آپ کو گروہ بندی سے الگ خیال کرتے ہیں۔ فرقہ بندی کا آغاز عربوں کے درمیان سیاسی اسباب کی وجہ سے ہوا۔ آپ دیکھئے اذان واقامت اور تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک کون سا رکن ہے جس میں اختلاف نہیں۔ نماز کی حدیثوں میں اختلاف ہے آج شیعہ جنفی مالکی، شافعی اور حنبلی کی نمازوں کو دیکھئے کسی قدر با ہم مختلف ہیں اس لیئے رسول اللہ نے ایک فرقے کے سوا باقی فرقوں کو دوزخی قرار دیا۔ مسلمانوں کے پیشواؤں نے عبادات میں طرح طرح کے اضافے کرکے یا ان میں مطلب کی تبدیلیاں کر کے فرقوں کو جنم دیا ہے۔

(۱) آج اہل تشیع کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور بخشش ہماری ہی ہے۔ کیونکہ ہمارے امام معصوم ہیں اسی لفظ معصوم سے شیعہ سنی کا جھگڑا ہے سنی کہتے ہیں امام معصوم نہیں ہوتے صرف نبی رسول معصوم ہوتے ہیں لیکن شیعہ کہتے ہیں نہیں ہمارے امام معصوم ہیں ۔

(۲) اہل سنت کے دونوں فریق ( دیوبندی اور بریلوی ) کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں بخشش ہوگی تو ہماری ہی ہوگی۔

(۳) اہل قرآن کہتے ہیں کہ بخش صرف ہماری ہے کیونکہ ہم اپنا راہنما اور ہر صرف قرآن کو سمجھتے ہیں۔

(۴) اہل طریقت کہتے ہیں کہ بخشش صرف ہماری ہے کیونکہ ہم نے مراقبوں اور چلوں سے اللہ کی معرفت حاصل کر رکھی ہے۔

(۵) اہل تصوف ( قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی) کہتے ہیں کہ بخش ہماری ہوگی کہ ہمارے پیر کامل اور قرابت دار خُداوند ہیں۔

(6) اہل فقه (حنفی حنبلی ، مالکی ، شافعی ) کہتے ہیں کہ بخش ہماری ہوگی کیونکہ ہم اپنے ائمہ مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں۔

(۷) اہل حقیقت کہتے ہیں کہ بخشش ہماری ہوگی کیونکہ ہم توحید پر کاربند ہیں ہمارا کسی فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہم فرقہ بندی کو شرک سمجھتے ہیں۔ بعض روایات مثلا مزارات پر جانا ، قبر سے مدد مانگنا، کرامات اولیاء، گیارہویں شریف، آخری چہار شنبه، عید میلا دالبنی، نعت خوانی، مزارات پر قوالی اور غرس قرآن خوانی وغیرہ کو خلاف اسلام سمجھتے ہیں۔ ان معروضی حالات میں یہ فیصلہ کرنا کون صحیح ہے اور کون غلط ہے بہت مشکل ہے اسی وجہ سے مسلمانوں میں فرقہ بندی ہے ۔ سنی اور شیعہ یہ دو ایسے فرقے مسلمانوں میں ہیں جنہیں اس سلسلے میں واقعی اہمیت حاصل ہے ان دونوں فرقوں کے اختلافات یقیناً ایسے ہیں۔ جیسے مسئلہ امامت، مسئلہ اجتہاد، شرعی دلائل، دوسرے فرقہ مذہبی اصول و فروغ عبادت اور معاملات وغیرہ۔ جن کی بنیاد پر کسی اُمت کا ایک فرقہ نہ سے جُدا ہو سکتا ہے۔ اہل سنت و جماعت کی تعداد کی کثرت کا مقابلہ اگر شیعہ فرقہ کے مسلمانوں کی تعداد سے کیا جائے تو شیعہ بہت کم ہے شیعہ طبقہ کے مسلمانوں کی تعداد کاصحیح اعدادو شمار نہیں ہوسکتا صرف چند ایک ممالک میں اکثریت ہے۔ مثلا ایران، عراق اور چند دوسرے ملکوں میں مثلا ہند و پاک میں لیکن شیعہ کے فرقوں کے حساب سے کسی ایک فرقہ کی تعداد نہیں بتائی جاسکتی کیونکہ آگے شیعہ میں بہت سے فرقے ہیں۔

خوارج یا خارجی

حضرت عثمان کی وفات کے بعد جب حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا ہو گئے تو اُس دوران خوارج کے نام سے ایک فرقہ وجود میں آیا جو حضرت علی اور امیر معاویہ دونوں کے مخالف تھا۔ خارجی معاویہ اور حضرت علی دونوں کو قتل کرنا چاہتے تھے خارجیوں نے حضرت علی اور امیر معاویہ دونوں کے در میان اختلافات پیدا کئے اگر چہ خارجیوں کا منصوبہ تھا کہ پہلے امیر معاویہ کو قتل کیا جائے پھر حضرت علی کو لیکن قدرت کو یہ منظور تھا کہ پہلے حضرت علی شہید ہو گئے۔ بحر المندہب میں لکھا ہے کہ خوارج کو محکمہ بھی کہتے ہیں اس وجہ سے کہ انہوں نے دونوں حکم یعنی ابو موسی اشعری و عمرو بن العاص کا انکار کیا تھا اور مشہور یہ ہے کہ محکمہ ایک قسم ہے خوارج کی زائد ان سات فرقوں پر اور محکمہ اُن کو اس لئے کہتے ہیں کہ انہوں نے جناب امیر معاویہ سے یہ بات کہی کہ حکم ( ثالث ) اس کو مقرر کرنا چاہئے جو حکم کتاب اللہ میں ہو۔

نواصب

خوارج کو تواصب بھی کہتے ہیں مگر فتاوئی عزیزی میں مذکور ہے کہ نواصب فرقہ جدا ہے اور خوارج جدا نواصب مغرب اور شام میں بہت تھے نواصب صرف حضرت علی اور اُن کی اولاد سے بغض و عداوت رکھتے ہیں۔

مارقہ

خوارج کو مارقہ بھی کہتے ہیں خوارج کی دو قسمیں ہیں: (1) خوارج کوفہ (۲) خوارج بصرہ خوارج بصرہ کی تعداد خوارج کوفہ سے زیادہ ہے۔ خوراج بصرہ کہتے ہیں کہ امام قریش میں سے ہو چاہے کسی اورخاندان اور قبیلے کا ہو۔ خوارج کوفہ کہتے ہیں کہ ہاشمی ہو خصوصاً حضرت علی کی اولاد اور اہل بیت میں سے خارجی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی امامت کو عموما مانتے ہیں اور ان کی سیرت اور ان کے زمانہ خلافت کو سب سے اچھا جانتے ہیں خوارج کا فرقہ ان چار حالتوں میں اہل قبلہ کا خون مباح و حلال جانتا ہے:

  • جب گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے۔
  • کوئی بدعت اُس سے حادث ہو۔
  • سلطان سے بغاوت کرے۔
  • فرائض کو ترک کرے۔

خوارج کی تعداد بہت کم ہے مسقط ، عمان جیسے ساحلی علاقوں یا افریقہ کے بعض دور دراز خطوں میں رہتے ہیں خوارج یا خارجی مسلمانوں کے بھی بہت سے فرقے ہیں۔

خوارج کا عقیدہ

خوراج قیاس کے منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ عقل کے لئے ایک نظیر کو دوسری نظیر پر عمل کر سکنے کی سبیل حاصل نہیں نہ احکام شرعیہ میں اور نہ غیر احکام شرعیہ میں ۔ زکوۃ : خوارج فرضیت زکوۃ کے منکر ہیں۔ نماز : نماز کو سوائے اپنے امام کے دوسرے کے پیچھے روا نہیں رکھتے اور اُن کے نزد یک نماز کا وقت سے تاخیر کر کے پڑھنا اور روزہ رمضان کا ماہ رمضان کا چاند دیکھنے سے قبل رکھنا جائز ہے اور نکاح کرنا ولی کی موجودگی کے بغیر صحیح ہے۔ موزے پہن کر نماز پڑھنا جائز سمجھتے ہیں ان کے نزد یک موزے پر مسح کرنا درست ہے ان کے ہاں امام کا قریشی اور معصوم ہونا لازمی نہیں عادل ہونا کافی ہے عادل سے مراد متقی و پرہیز گار اور با مروت ہو گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو۔

محکمہ اولی فرقہ

اس فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ خدائی صرف اللہ سے محدود نہیں ہے بلکہ حضرت کو خدا بھی کہا اور بعد میں اس کا انکار بھی کیا۔

فرقہ ازارقہ

اس فرقہ کے لوگ نافع بن ازراق کے پیروکاروں میں سے تھے جو کہ بصرہ سے اہواز ہجرت کرکے آئے تھے۔ ازارقہ فرقے کے لوگ حضرت علی اور لوگ جو جنگ سے کنارہ کش ہوئے تھے کو اچھا نہیں گردانتے تھے علاوہ ازیں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے قتل کو جائز سمجھتے تھے۔

فرقہ نجدات

اس فرقہ کا بانی نجدہ بن عامر تھا جنہوں نے اپنے آپ کو امیر المومنین کا خطاب دیا تھا نجدات فرقے کے لوگ زمیوں کے قتل کو جائز سمجھتے تھے۔

فرقہ عماردہ

اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کا خیال تھا کہ سورۂ یوسف قرآن مجید کا حصہ نہیں ہے کیونکہ اس میں عشق کہانی ہے۔

شیعہ کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے شیعہ فرقے رونما ہوئے مثلاً سبائیہ، الحقیہ ، میمیہ، علی الہیہ، ہاشمیہ، عباسیہ، مسلمیه ، بیانیه، زیدیہ، منصوریہ، خطابیہ، غزابیہ، جعفریہ، سمعیہ، قرامطہ، نصیریہ اور امامیہ۔ یہ سب فرقے شیعہ ہی کے نام سے مشہور ہیں ان تمام شیعہ فرقوں کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان کے عقائد و نظریات دوسرے تمام مسلمانوں فرقوں سے بالکل مختلف ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ خلافت یا امامت کے حقدار صرف حضرت علی ہیں اور ان کے بعد بھی ان کی اولاد میں منتقل ہوتا رہا شیعہ فرقے حضرت علی کی اولاد میں سے کسی نے کسی کو امام مانتے ہیں اور پھر ان کی وفات اختلاف ہو جاتا ہے تو پھر ایک نیا شیعہ فرقہ جنم لے لیتا تھا۔ بیشتر شیعہ حضرت علی کو امام اور خدا کا اوتار مانتے ہیں یعنی حلول اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں اس میں شیعہ کا اتفاق ہے کہ حضور نے حضرت علی کو اپنا جانشین مقر رکیا اور وہ دینی امامت کے مستحق ہیں اور جو ( خلفائے ثلاثہ، بنوامیہ اور بنو عباس ) وہ سب غاصب تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حضرت علی کے مخالفین سے مراد ہے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان، انہوں نے قرآن میں تحریف کی اور ان آیتوں کو حذف کر دیا جو حضرت علی کی امامت سے متعلق تھیں۔ موجودہ شیعہ بہت سی باتوں کو مثلا حلول اللہ کی الوہیت تناسخ ارواح وغیرہ کو نہیں مانتے۔

تناسخ

اردو لغت میں ایک صورت سے دوسری صورت اختیار کرنا روح کا ایک قالب سے دوسرے قالب میں جانا ۔ ۲- آواگون۔ لفظ تناسخ: تناسخ کے یہ معنی ہیں کہ روح کا اس جسد کے تعلق سے پہلے کسی اور جسد کے ساتھ جو اس جسد کے مخالف اور مغائیر ہے تعلق ہو۔ بعض لوگ نقل ارواح کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ روح کو کمال کے بعد اس قسم کی قدرت حاصل ہو جاتی ہے کہ اپنے بدن کو چھوڑ کر دوسرے بدن میں داخل ہو سکتی ہے مثلاً ایک بزرگ کو یہ کمال اور قدرت تھی کہ اس کے پڑوس میں ایک جوان مر گیا۔ اس بزرگ نے اپنے بدن کو جو بڑھاپے تک پہنچ چکا تھا چھوڑ دیا اور اس جو ان کے بدن میں داخل ہو گیا حتی کہ بدن اول مردہ ہو گیا اور دوسرا بدن زندہ اس بات سے تناسخ لازم آتا ہے کیونکہ بدن تعلق ثانی کا تعلق اس بدن کی حیات کے لئے ہے وہ لوگ جو نقل روح کے قائل ہیں روح کو کامل خیال کرتے ہیں اور کمال روح کے بعد نقل کو ثابت کرتے ہیں۔ تناسخ کہ سنسکرت میں آواگون کہتے ہیں تناسخ آواگون کی ایک قسم ہے جس کو اسلام میں سب نے غلط مانا ہے۔ تناسخ روح کے ایک جسم سے دوسرے جسم میں جانے کو کہتے ہیں۔ تناسخ کے ماننے والے اس کے یہ معنی بتاتے ہیں گناہوں اور نیکیوں کے باعث بار بار جنم لینا اور مرنا۔ انسان کے مرنے کے بعد روح کا کیا حشر ہوگا اس کی تین صورتیں ہیں۔ جسم کے ساتھ روح بھی ہمیشہ کیلئے فنا ہو جائے گی۔

اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزاوسزادی جائے گی۔

اپنے اپنے اعمال کے مطابق روح کو مختلف روپ بدلنا پڑیں گے۔

پہلا خیال ماوئین کا، دوسرا یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا، تیسرا ہندوؤں اور بعض دیگر اقوام کا ہے۔ عقیدہ تناسخ اصول ارتقاء کے خلاف ہے حلول و تناسخ و آسمانی حق مورثی حکومت وغیرہ کے عقیدوں کو ایران میں جیسی مقبولیت ہوئی ویسی مغرب، مصر اور عرب میں نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ فرقوں کے اکثر بانی ایرانی ہوئے اسماعیلیوں میں چند داعیوں کے سوا اکثر بڑے بڑے داعی ایرانی تھے۔

اہل تشیع کا آغاز

جب حضرت عثمان جذبہ انتقام کا شکار ہوئے تو پھر ملت اسلامی کے تین ٹکڑے ہو گئے۔

(1) ایک جماعت حضرت علی کی تقلید وحمایت پر قائم رہی اور یہی جماعت بعد میں شیعہ کے نام سے موسوم ہوئی ۔

(۲) دوسری جماعت میں ایسے لوگ شامل ہو گئے جنہوں نے امیر المومنین کی مخالفت اور موافقت دونوں چیزوں سے گریز کیا۔

(۳) تیسرا فرقہ حضرت علی کی خلافت کا مخالف تھا تو مسلمانوں کی غالب اکثریت اسی جماعت میں شامل ہوگئی یہی گروہ بعد میں اہل سنت و جماعت کی بنیاد بن گیا۔ شیعہ فرقوں کا شمار ان کے عقائد و اختلاف ایک نہایت مشکل اور پیچیدہ معمہ ہے ان عقائد میں سے بعض اعتدال بعض میں غلو کا میلان رکھتے تھے۔ غلو کا مطلب کسی انسان کا کسی انسان کے مطلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ایسی کرامات یا معجزات یا خارق عادت غیر معمولی امور پر قادر ہے جنہیں عام لوگ نہیں کرسکتے۔ دوسرا یہ اعتقاد رکھنا کہ کوئی انسان (زندہ یا مردہ ) دوسروں کی زندگی کے متعلق دنیا اور آخرت میں اچھے اور بُرے تصرف کی طاقت رکھتا ہے غلو بڑے مذاہب میں سے ایک ہے۔

(1) نظریاتی غلوروایات واحادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔

(۲) عملی غلو اولیاء اور مشائخ کے مقبروں پر نذر و نیاز اور براہ راست امداد طلب کرنے کا سبب بنا۔ غلو کے اہم ترین موضوع عظمت و علم لدنی، الهام، منجزات، غیب کی خبریں کرامات و معجزات، قبروں کو بوسہ دینا اور ان سے باجات طلب کرنا۔

شیعہ زیدیہ

یہ فرقہ زید بن علی کی طرف منسوب ہے جو ہشام بن عبد الملک کے زمانہ میں علم مخالفت بلند کرنے کی وجہ سے شہید کر دئیے گئے اس فرقہ کے سب سے بڑے داعی اور مصنف حسن بن علی الحسن بن زید بن عمر ہوئے ہیں۔

زیدیہ

زیدیہ حضرت علی کے بعد امام حسن اور امام حسین پھر ان کے بعد علی زین العابدین کو پھر کے بیٹے زید کو امام مانتے ہیں۔ زیدیہ فرقے کے نزدیک امام کا فاطمی ہونا شرط ہے۔ خلفائے راشدین کے بارے میں ان کا عقیدہ و عمل متوازن و معتدل ہے یہ ان کی خلافت کو برحق مانتے ہیں کیونکہ زیدیہ کے نزدیک افضل کی موجودگی میں دوسروں کی امامت جائز ہے۔ فرقہ زیدیہ کی ایک مشہور معتبر کتاب سیر کے اندر لکھا ہے کہ زیدیہ کے نزدیک امامت کا طریق شرع ہے۔ زیدیہ کہتے ہیں کہ جس شخص میں علم، زید شجاعت اور اولاد فاطمہ زہرا سے ہو حسنی ہو یا حسینی ہو اور لوگوں کو اپنی امامت کی طرف بلائے کتاب الازہار میں مذکور ہے کہ کوئی آدمی نہ دعوت سے امام بن سکتا ہے اور نہ امام مقرر کے جانے سے جب تک اس میں امامت کی شرطین موجود نہ ہوں۔ زیدیہ کی رائے یہ بھی ہے کہ امام مقرر کرنا اللہ پر واجب ہے اور اکثر زیدیہ کے نزدیک دلیل سمعی ہے اور اُن کے نزدیک امام کا معصوم ہوتا واجب نہیں اس طرح زیدیہ امامت کے بارے میں اہل سنت و جماعت کے قریب ہیں کچھ زید یہ ان کے بیٹے یحیی کو امام مانتے ہیں۔ اہل سنت اور معتزلہ اور زیدیہ اور خوارج کے نزدیک نام کا معصوم ہونا واجب نہیں۔ اسماعیلیہ اور اثنا عشریہ کے نزدیک امام معصوم ہونا واجب ہے زیدیہ فرقہ امامت کو صرف حضرت علی کی اولاد کو حقدار تصور کرتے ہیں۔ نیز یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ بعد آئمہ زیدیہ کا سلسلہ منقطع نہیں ہو گیا وہ آج بھی موجود ہے اور یمن میں اس فرقے کا نام وجاہت دینی اور حکومت دونوں سے متمتع ہے زیدیہ زیادہ تر یمن میں ہیں۔ جہاں اُن کی تعداد ۳۰ اکھ سے زائد ہے۔ زیدیہ امامیہ کے نام سے بھی موسوم ہیں، ان میں امامت کی تعریف اور شخص کے بارے میں باہمی اختلاف پایا جاتا ہے اور امامیہ اہل تشیع کے تین فقہی مدرسہ ہائے فکر مشہور ہیں [2]۔

امامت کی شرائط خلقی

(1) مکلف (یعنی بالغ ہو ) (۲) مرد ہو (۳) آزاد ہو

(۴) علوی فاطمی ہو اگر چہ آزاد کیا ہوا ہو ۔ (۵) حواس اور اعضاء درست ہوں ۔

شرائط اکتسابی

(1) علوم دینی کا مجتہد ہو (۲) صاحب عدالت ہو (۳) سخی ہو (۴) مدبر ہو (۵) جری اور بہادر ہو۔

نماز کی شرائط

(۱) زید یہ فرقہ کے لوگ اذان میں جیسی علی الفلاح کے بعد میں میں خیر العمل کا اضافہ کرتے ہیں۔

(۲) نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے ۔

(۳) ظہر اور عصر ملا کر پڑھتے ہیں۔

(۴) مغرب کی نماز اہل سنت سے کچھ دیر میں پڑھتے ہیں۔

زیدیہ فرقے کی مشہور کتب

(1) الجموع: یہ کتاب احادیث اور فتادی پر مشتمل ہے جو امام زید بن علی سے روایت کیے گئے ہیں۔

(۲) الروض النضير شرح مجموع الفقه الكبير مصنفہ شرف الدین حسن بن علی احمد ۔

اثنا عشری

اثنا عشری شیعوں کا سب سے بڑا فرقہ ہے۔

اثناء اثنا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے دو اور عشری کا مطلب ہے دس۔

(۱) حضرت علی (۲) امام حسن ، امام حسین باقی جو ان کی اولادیں ہیں ان ۱۲ اماموں کے ماننے والوں کو اثنا عشری کہتے ہیں اثنا عشری کے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ اثنا عشریہ کے اصول دین: اثنا عشری کے پانچ اصول دین ہیں:

  • توحید
  • عدل
  • نبوت
  • امامت
  • معاد (قیامت)

بیان توحید معرفت اللہ تعالی کی واجب ہے۔

سنی فرقہ کے اصول دین

سنی فرقہ کے اصول دین اثنا عشری سے متفرق ہیں۔ سنی فرقہ کے اصول دین توحید کے علاوہ:

  • نماز
  • روزہ
  • زکوۃ
  • حج
  • جہاد

اذان میں اضافہ

210ء میں ابراہیم عادل شاہ کے انتقال کے بعد اُن کا بیٹا علی عادل شاہ نے مذہب اثنا عشری کو اوجاگر کیا اور غالی شیعوں کا طریقہ اختیار کیا اور خطبے میں ائمہ اثنا عشری کا نام داخل کرا دیا۔ کلمہ اثنا عشری فرقہ اثنا عشری کے کلمہ میں علی ولی اللہ کے کلمات کا اذان میں اضافہ ہے یہ اضافہ ابراہیم عادل شاہ کے بیٹے علی عادل شاہ نے فرقہ اثنا عشری کے کلمہ میں اضافہ کیا تھا۔

اثنا عشری قرآن میں کمی بیشی کے قائل نہیں اور یہ جو مشہور ہے کہ شیعہ اثنا عشری کہتے ہیں کہ صحابہ نے دس پارے قرآن میں سے کم کر دیتے ہیں اور بعض سورہ حسین ، سورہ فاطمہ اور سورہ علی پڑھا کرتے ہیں اثنا عشری یہ عقیدہ نہیں رکھتے محققین شیعہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ اثنا عشری کے ہاں جو احادیث کے مجموعے ہیں اور وہ مجموعے جن کی اسناد میں صرف حضرت علی اور ان کے خاندان اور اماموں کے نام آتے ہیں مانتے ہیں اثنا عشری عقیدے کی احادیث کی کتابوں کو اخبار کہتے ہیں۔

مجتہد

اثنا عشری فرقہ کا عقیدہ ہے کہ مجتہد اب تک دنیا میں پائے جاتے ہیں اور اُن کے علماء دعوی کرتے ہیں۔

متعہ

اثنا عشری فرقے میں ایسا نکاح ہے جو کچھ رقم ادا کرنے پر عارضی اور کچھ عرصہ کے لئے کیا جاتا ہے اور مقررہ معیاد کے گزر جانے کے بعد یہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ متعہ کا مطلب فائدہ اُٹھانا اصطلاح میں نکاح کی ایک قسم ہے جس میں عورت سے اس طرح کہا جاتا ہے کہ میں تجھ سے اس طرح پر اتنی مدت پر اتنے مال پر متعہ کرتا ہوں تحفتہ العوام میں شیعہ لکھتے ہیں جو شخص عمر میں ایک دفعہ متعہ کرے وہ اہل بہشت ہے نکاح متعہ کی شراط چھ ہیں اول ایجاب، دوم قبول، سوم ذکر مدت جس میں کمی بیشی کا احتمال نہ ہو، چہارم ذکر مہر اگر مہر کا ذکر نہ کریں تو متعہ باطل ہے، پنجم عورت کا مسلمان یا اہل کتاب ہونا ، ششم اگر کتابیہ سے متعہ کرے تو اسے شراب پینے اور سو رو غیرہ کھانے سے منع کرے متعہ میں طلاق کی حاجت نہیں یا بلکہ مدت ختم ہو جانا ہی علیحد گی سمجھی جاتی ہے۔

لفظ تقیہ

لفظ تقیہ کا اصل مفہوم صرف اس قدر ہے کہ اپنے نفس کی حفاظت کے لیئے اپنے عقائد کے علانیہ اظہار سے باز رہنا لفظ تقیہ کو شیعہ فرقوں نے اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا ہے کہ امام یا اپنی جماعت کے معاملات کو ضرور تا یا بلا اجازت دوسرے لوگوں سے خفیہ رکھنا اور جو بات شیعہ فرقوں کے اپنے مفاد کے لیئے ہو استعمال کرنا۔ اثنا عشری : حضرت محمد کو رسول خدا اور حضرت علی کونور اور یہ نور سب آئمہ میں منتقل ہوتا رہا اور اُن کے نزدیک ائمہ کی موت اُن کے قبضہ واختیار میں ہوتی ہے۔

امام

اثنا عشری تمام اماموں کو معصوم و مطہر ہونا واجب سمجھتے اور تمام گناہ اور سہوا سے خواہ صغیرہ ہوں خواہ کبیرہ عمد أو مبراء مانتے ہیں اور سہوا اور ائمہ کا علم اور فضل ہونا بھی واجب سمجھتے ہیں ۔ (نوٹ سُنی فرقہ کے لوگ اختلاف رکھتے ہیں کہ امام معصوم نہیں ہوتے صرف رسول اور انبیاء معصوم ہوتے ہیں۔

امام مہدی

غیبت کبری سے بھی مراد شیعہ امامیہ کے بارہویں امام الہدی کا غائب ہو جاتا ہے روایات کے مطابق گیارہویں امام حسن عسکری کے بینا (محمد) پیدا ہوا وہی مہدی منتظر ہے امامیہ شیعہ ہر سال پندرہ شعبان کو امام مہدی کی ولادت کی مناسبت سے بہت بڑا جشن مناتے ہیں۔ صرف یہی امام ہیں جن کا اہل تشیع کے ہاں یوم ولادت منایا جاتا ہے دوسرے ائمہ کا یوم ولادت اور یوم وفات دونوں مناتے ہیں ۔ اثنا عشری کا عقیدہ ہے کہ بارہویں امام مہدی غائب ہے اور زندہ ہے امام مہدی کے منتظر ہیں (نوٹ) کافی فرقوں کے بانیوں نے امام مہدی کے ظہور کا دعوی بھی کیا ہے۔ جیسے ذکری ، بہائی ، احمدی، گوہر شاہی، نزاری مستعلی فرقے امام مہدی کے آنے کے منتظر نہیں بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ امام مہدی آ گیا ہے۔ سُنی اور اہل تشیع اس سے اختلاف رکھتے ہیں اثنا عشری کے عقیدہ کے مطابق امامت صرف حضرت محمد اللہ کے خاندان سے ہے۔

جہنم اور حوض کوثر جس کے ساقی حضرت علی ہیں پیاسوں کو قیامت میں سیراب کریں گے اور اللہ تعالی کا اہل قبور کو اٹھانا اور قیامت کے متعلق اُن سب کا اعتقاد واجب ہے منکر ان کا ملحد یا منافق ہے [3]۔

انبیائے کرام کی تعداد

روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے بنی نوح انسان کی ہدایت کے لئے 124000 نبی مبعوث فرمائے۔ پہلے نبی حضرت آدم اور آخری حضرت محمد کے ہیں۔ اسمائے گرامی جن پر کتا بیں نازل ہوئیں۔ مجالس الابرار میں لکھا ہے پیغمبروں پر ۱۰۴ آسمانی کتا بیں نازل ہوئی ہیں ۔ حضرت آدم پر ۵۰ حضرت شعیب پر ۳۰ حضرت یونس پر ۱۰ حضرت ابراہیم پر اتوریت حضرت موسی ، زبور حضرت داؤد پر ، انجیل حضرت عیسی پر اور قرآن حضرت محمد ﷺ پر۔

خاک کر بلا

شیعہ کا کوئی ایسا گھر ہوگا جہاں خاک کربلا کی نکیا نہ ہو اس پر شیعہ اپنی نمازوں میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ وہ نکیا اس خاک کربلا سے بنی ہوتی ہے جس زمین پر حضرت امام حسین نے شہادت پائی اور وہیں پے ان کا جسد خا کی مدفون ہے۔

سر پر پگ کا رکھنا

سنی مذہبی علماء سر پر ایک ٹوپی یا پگڑی رکھتے ہیں جو سفید رنگ کی ہوتی ہے یا دوسرے اور رنگ کی بار ایک جالی کی ٹوپی یا پگڑی ۔ لیکن شیعہ لوگ سر پر کالے رنگ کی ایک لمبی چادر کو رول کر کے اکٹھا کر لیتے ہیں جسے وہ پہنتے ہیں۔

سُرخ رنگ کی ٹوپی کا پہننا

عراق، ایران کے تمام شیعہ اثنا عشری سے بھرے پڑے تھے پھر شاہ اسماعیل صفوی مروج طریقہ اثنا عشری فرقے نے ایک ٹوپی سرخ رنگ کی ایجاد کی جس کے بارہ (۱۲) گوشے ہوتے تھے۔ اور ہر ایک گوشے میں ایک امام کا ائمہ اثنا عشری میں سے ہر ایک کا نام لکھا جاتا تھا اور یہ ٹوپی خاص شیعہ اثنا عشری کے پہننے کے واسطے بنوائی گئی تھی ۔ تا کہ شیعہ اور غیر شیعہ میں فرق و تمیز رہے چونکہ سرخ رنگ کوٹر کی زبان میں قزل کہتے ہیں۔ اس لئے اُس سُرخ ٹوپی کے پہننے والے قزلباش مشہور ہو گئے پاکستان میں آج بھی اثنا عشری فرقہ کے قزلباش نظر آتے تھے۔

سرخ ٹوپی کا موقوف

ایرن کا بادشاہ ابراہیم عادل شاہ ۱۹۳۳ء میں تخت نشین ہوا اس نے ٹوپی میں سے ائمہ اثنا عشر کے نام نکلوائے اور مذہب حنفیہ کو رواج دیا اور سُرخ ٹوپی کا پہننا موقوف کرادیا جو کلاہ درواز دہ ترک کہلاتی تھی اور سپاہ شیعہ کی علامت کبھی جاتی تھی۔

شیعہ امامیہ

امامیہ شیعہ تمام فرقوں میں سب سے بڑا ہے اس فرقے کا نام امامیہ اس لئے ہوا کہ یہ مسئلہ امامت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے فرقہ امامیہ مذہب شافعی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ اثنا عشری کے بعض فرقے اپنے آپ کو امامیہ بھی کہلواتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ وہ حضرت محمد کے جانشین کو بجائے خلیفہ کہنے کے امام کے خطاب سے پکارتے ہیں اور ان کا یہ ایمان ہے کہ سچے امام کی شناخت ہی اسلام ہے اور اس سے وہ اپنے آپ کو مومنین بھی کہتے ہیں۔ (نوٹ : اگر چہ سنی بھی مومن کہلوانے کا دعوی کرتے ہیں) فرقہ امامیہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی کو اللہ نے امامت عطا کی تھی اور حضور نے بھی حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ فرقہ امامیہ حضرت علی کے بعد امام حسن اور ان کے بعد امام حسین کو امام مانتے ہیں۔ فرقہ امامیہ اپنے مذہب کے بارہ اماموں کی پیروی کرتے ہیں یہ فرقہ بارہ اماموں کا قائل ہے جس کی وجہ سے اثنا عشریہ کہلاتے ہیں امامیہ بارہ اماموں کے سوا کسی کو صاحب ولایت نہیں مانتے۔ ابتدا میں شیعہ اثنا عشری متفرق طور پر ملک عراق میں رہتے تھے اور اپنے آپ کو اہل سنت میں ملائے ہوئے تھے اور تقیہ کی حالت میں دور دور جاتے تھے۔ خلفائے عباسیہ کے زوال کے آغاز سے قریب قریب اثنا عشریہ کا زور ہو گیا۔ تو پھر اثنا عشریہ نے تقیہ چھوڑ دیا اور ظاہر ہو گئے اور ایک شخص بویہ نامی جن کی کنیت ابو شجاع ہے یہ بڑے پکے شیعہ اثنا عشری تھے۔ ان کا زور ایران میں یہاں تک بڑھ گیا کہ ان میں سے ایک بادشاہ کو علمائے اثنا عشری سے صاحب الزمان کا نائب قرار دے کر اس کے لئے رسم سجدہ جاری کرائی ۔ امامیہ شیعہ امامت کے بارے میں بنی فاطمہ کو سید نامی کی دوسری ازواج ( بیوی ) کی اولاد کے مقابلہ میں ترجیح دیتی تھی اور خصوص سیدنا نام حسین کے بیٹے سیدنا علی زین العابدین کو اپنا مقتدا سمجھتی تھی یہ وہ جماعت ہے جو بعد میں امامیہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ امامیہ کی تعداد ایران میں آٹھ کڑوڑ لاکھ ہند و پاک میں دس کڑوژ عراق میں پانچ کڑوڑ لاکھ لبنان میں ایک کڑوڑ ہزار شام میں دس لاکھ ہے۔ ایران کی حکومت کا سرکاری مذہب صفوی خاندان سے لے کر اب تک شیعہ امامیہ ہے شام و لبنان میں ان کو متوالی کہا جاتا ہے ان کے پرنسپل لا کی حفاظت کے لئے خاص عدالتیں محاکم جعفریہ قائم ہیں۔ امامیہ حضور کے بعد بارہ اماموں کی معصومیت کے قائل ہیں آخری امام مہدی کے منتظر اور اُن کو غائب مانتے ہیں ۔ شیعہ کے مشہور راوی زارہ بن اعین اور ان کے بیٹے حسن و حسین گزرے ہیں ۔ ان کے کے نزدیک حدیثیں وہی معتبر اور ثقہ ہیں جو اہل بیعت سے ہوں اس فرقہ کے نزدیک جماعت کا کسی مسئلہ پر اتفاق کر لینے کا نام اجماع ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ اتفاق امام معصوم کی رائے سے ہم آہنگ ہو اور اگر غیر امامیہ کسی مسئلہ پر اتفاق کر جائیں تو ان کے نزدیک یہ اجماع نہیں ہے جو مسئلہ قرآن، سنت اور اجماع سے حل نہ ہو تو عقل سے کام لے کر اس مسئلہ کو حل کر لینا چاہئے۔

امامی فقہ کی مشہور کتابیں

(1) اصول کافی

(۲) من لایحضرہ الفقیہ

(۳) تہذیب

(۴) استبصار

فقہ امامیہ کی اکثر تصانیف میں جعفر جامعہ اور مصحف فاطمہ کا ذکر آتا ہے جواہل بیت کے باطنی علوم کا خزانہ ہیں [4]۔

زیارت گاہ

اس وقت امام حسین کی زیارت گاہ کر بلا میں اور حضرت علی کی زیارت گاہ نجف ( عراق ) میں مقدس مقامات ہیں یہ شیعہ لوگوں کی زیارت گاہیں ہیں۔ یہاں پر شیعہ مرنے کے بعد دفن کئے جانے کی آرزو رکھتے ہیں اثنا عشری لوگوں کے خیال میں امام حسین نے خُدا اور اپنے پیروں کے درمیان میل کرانے کے لئے اپنی جان دی۔

بیان صفات ثبوتیہ

اللہ تعالی قدیم ازلی ہے یعنی اُس کے وجود پر عدم سابق نہیں باقی وہ ہمیشہ رہے گا اُس کے وجود کو عدم لاحق نہیں ہوتا۔ مختار ہے جو چاہئے کرے اور جو چاہے نہ کرے اور تمام چیزیں اُس کے نزدیک ظاہر اور حاضر ہیں۔

صفات سلبیہ

اللہ تعالیٰ نہ جسم ہے اور نہ جو ہر ہے، نہ کسی مکان میں ہے اور نہ اس کو کوئی دیکھ سکتا ہے۔ اثنا عشریہ کہتے ہیں کہ جناب رسول خدا اور حضرت علی ایک نور تھے جب حضرت آدم پیدا ہوئے تو اُس نور کو ان کی پشت میں جگہ دی پھر ہمیشہ اللہ تعالیٰ اُس نور کو ایک صلب پاک سے دوسرے صلب پاک کی طرف منتقل کرتا رہا پھر اس نور کے دو حصے کیے ایک حصے کو حضرت عبداللہ کی صلب سے باہر لایا اور دوسرے صاب سے حضرت ابو طالب اس وجہ سے آنحضرت نے فرمایا تھا کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اس کا گوشت میرا گوشت ہے اور اس کا خون میرا خون ہے۔

شیعہ اسما عیلیہ

ایک فرقہ جس کا بانی حسن بن صباح تھا یہ فرقہ چوتھی صدی میں ظاہر ہوا اور امام جعفر صادق کے بیٹے امام اسماعیل کی طرف منسوب ہے۔ پہلے چھے اماموں کو مانتے ہیں اس لیئے ان کو شش امامیہ اور اسماعیلیہ بھی کہتے ہیں اسماعیلیوں کا ایک فرقہ جو سات اماموں کو مانتا ہے اس لئے سبعیہ بھی کہلاتا ہے اس فرقے کے عقائد کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ مسیح دوبارہ آئیں گے جو مہدی موعود بھی ہو گئے اہل تشیع اثناعشری نے امام مہدی حضرت علی کی اولاد کو اسکا مستحق ٹھہرایا ہے اسماعیلیوں کے نزدیک اس سلسلے کے آخری امام محمد بن اسماعیل بن جعفر ہیں جو امام جعفر کی وفات کے بعد کچھ عرصہ بعد غائب ہو گئے اسماعیلیوں کے ایک قائد احمد بن قرامطہ نے بہت شہرت حاصل کی اور یہ لوگ قرامطہ کہلانے لگے۔ اس فرقہ کی دو شاخیں ہیں ۔ (۱) اسماعیلیہ شرقیہ (۲) اسماعیلیہ غربیہ۔

اسماعیلیہ شرقیہ

اسماعیلیہ شرقیہکا مرکز ہندوستان ہے اور اس کے پیرو کا روسط ایشیا ایران میں پائے جاتے ہیں اس فرقہ کے قائد سلطان محمد شاہ آغا خان ہیں ۔ اس فرقے کے لوگ اپنے مال کا عشر یعنی دسواں حصہ انہیں دیتے ہیں ان کی تعداد برطانیہ ہند میں تقریبا دس لاکھ ہے [5]۔

اسماعیلیہ غربیہ

جنوبی عرب کے علاقہ میں خلیج فارس کے اردگرد اور شام میں حماۃ اور لاذقیہ کے پہاڑی علاقوں میں آباد ہیں۔ شام میں اسماعیلیوں اور علویوں کی تعداد تقریبا ۳۰ ہزار کے قریب ہے ۔ اسماعیلی فرقہ کی مشہور کتاب دعائم الاسلام تصنیف قاضی نعمان بن محمد تمیمی مغربی کی ہے۔ ابو عبد اللہ نعمان بن محمد بن منصور بن حمد بن جمون تمیمی اسماعیلی مفری ہیں جو فاطمی مذہب کے مشہور فقہ اور عظیم رین مصنف تھے چند حلقوں کے مطابق آپ پیدائشی اسماعیلی تھے ۔ دوسرے خلیفہ قائم با مر اللہ تیسرے منصور الفاطمی منصور کی وفات کے بعد المفر لدین اللہ خلافت کے مسند عالی پر جلوہ افروز ہوئے تو قاضی نعمان صرف ان سے وابستہ ہو گئے قاضی نعمان نے پنی معرکتہ الا آر تصنیف " دعائم الاسلام مرتب کی یہ کتاب فاطمی آئین و شریعت کی اہم ترین اساسی دستاویز ہے جسے آج تک فاطمی اسماعیلی طبقہ میں عزت و افتخار حاصل ہے اس کتاب کا اردو ترجمہ ملا یونس شکیب مبارک پوری کے قلم سے ہو کر بمبئی سے شائع ہو چکا ہے اس کتاب کو قاضی نعمان اور خلیفہ المفرلد ین اللہ کی مشتر کہ تصنیف بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ مصر کی جامعتہ الازھر کی اساس فاطمی خلیفہ المفر لدین اللہ نے چوتھی صدی ہجری میں رکھی تھی قاضی نعمان کے صاحبزادے ابوالحسن علی بن نعمان جامعتہ الازھر کے پہلے شیخ اور متولی کے منصب پر رہے ہیں قاضی نعمان کی متعدد اور بھی تصانیف شائع ہونے والی اہم ترین کتب ہیں:

  • دعائم الاسلام
  • تاویل دعائم الاسلام
  • اساس تاویل
  • شرح الاخبار
  • المجالس والمسارات
  • الاقتصار
  • لحمه فی آداب اتباع الائمہ

کتاب الهمه فی فاطمی عقائد رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب نہایت مضبوط بنیاد

فراہم کرتی ہے اس کتاب میں داعی کے لئے بھی بعض ضروری آداب کا بیان نظر آتا

ہے تا کہ وہ دعوت کے آغاز سے قبل اپنی اصلاح کر لیں ۔ نوٹ : فاطمی مذہب کے

قاضی ابو حنیفہ نعمان بن ابی عبدالله حمد بن منصور بن حیون اسمی المفر لی ہیں جو

فاطمی مذہب کے مشہور فقیہ اور اس کے عظیم ترین مصنف ہیں فاطمی تاریخ میں اُن کو

قاضی نعمان کے نام سے جانا جاتا ہے ( نوٹ ) اہل سنت والجماعت کے نامور امام

ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائے اہل سنت (سنی ) ان کو امام

ابوظیفہ (امام اعظم) کے نام سے اور نعمان بن ثابت سے جانے جاتے ہیں۔

امام کا مقررکرنا اللہ پر واجب ہے اور اس کے ثبوت پر عقل دلالت کرتی ہے۔ مگر

بانی

خــودم, [۰۳.۰۲.۲۴ ۲۱:۰۵] 264

شیعہ کے یہ فرقے اس بات میں باہم مختلف ہیں کہ امام کا تقر رکی ضرورت کے لیے ہے۔ اسماعیلیہ کہتے ہیں امام اس غرض سے مقرر ہوتا ہے کہ وہ للہ تعالیٰ کی ذات وصفات

کی شناخت کرائے اور جو باتیں اللہ کے حق میں جائز اور واجب ہیں۔ امامیہ کہتے ہیں کہ معصوم یعنی امام کی طرف حاجت معرفت الہی کی تعلیم کے لئے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ وہ واجبات عقلی و شرعی کے ادا کرے ۔ اسماعیلیہ کے نزدیک امام کا تقرر اللہ کی معرفت کے لئے واجب ہے اور امامیہ کے نزدیک قوانین

شرع کی محافظت کے لئے واجب ہے۔

شمسی: پیر شمس الدین کی طرف منسوب ہے پیرشمس الدین تبریزی اسبز واری مامان میں مدفون ہیں بعض تذکروں میں ان کو صوفیائے کرام میں شمار کیا گیا ہے۔ پنجاب اور خصوصاً ملتان کے عوام ان کو پیر شمس تبریز سبز وار کہتے ہیں اور یہ وہی تبریز خیال کرتے ہیں جو مولانا جلال الدین رومی کے پیر اور ان کے دیوان شمس تبریز کے مشار الیہ تھے۔ عموما ایک خیال یہ بھی ہے کہ وہ ایک اسماعیلی دائی تھے یہ سادات عظام موسویہ میں سے تھے اور ان کی اولا د کثرت سے پنجاب میں موجود ہے جو شمسی سید کہلاتے

ہیں ملتان کے عوام شمس الدین تبریز کو ایک ہی شخص تصور کرنے کا کہاں تک امکان

ہو سکتا ہے۔ کسی مذہبی تعلیم و ترتیب میں زیادہ تر پیر صدرالدین اور حسن کبیر الدین

کی تقلید کرتے ہیں۔ گوجرانوالہ ، راولپنڈی، ملتان، ڈیرہ اسماعیل خان ، ڈیرہ غازی

خان اور بعض دوسرے اضلاع میں شمسیوں کی تعداد بہت ہے۔ یہ سُنار اور جہور قوم

کے لوگ ہیں ان کی مذہبی کتابوں کے مجموعے کا نام انحصر دوید ہے یہ لوگ امام آغا

خــودم, [۰۳.۰۲.۲۴ ۲۱:۰۵] 265

خان کو اپنا مقتد امانتے ہیں اور مشل اوتار کے اُن کا ادب و احترام کرتے ہیں کچھ

اسماعیلی ( اثنا عشری ) عقیدہ رکھتے ہیں ۔

پیر شمس تبریز کی کرامات کے متعلق عوام میں یہ روایت مشہور ہے کہ وہ حضرت ( مینی ) کی مانند مردہ کو زندہ کر سکتے تھے حضرت میسی تو تم باذن اللہ کہ کرموت کی نیند سے بیدار کرتے تھے لیکن شمس تبریز قم باذنی کہتے تھے اور مردہ زندہ ہوجاتا تھا۔ کسی ملتان کے صوفی بزرگ شمس تبریز کے پیروکار ہیں یہ بزرگ پنجاب کے تمام حصوں اور کبھی مسالک میں یکساں مقبول ہے کہا جاتا ہے کہ اُن کی کھال کھنچوا دی گئی اس کے لے باوجود وہ اپنی کھال ہاتھ میں لئے چلتا رہا صوبے پنجاب کے شمال میں لوگ شمس تبریز سے خصوصی عقیدت رکھتے ہیں۔ مرید اپنے پیر کے نام پر خیرات دیتے ہیں ان کے کوئی بت نہیں مگر بھگوت گیتا کا احترام کرتے ہیں یہ سُناروں

ٹھٹھیاروں اور جھنوروں میں مقبول ہیں۔ ہری کشن کول کے مطابق شمسی فی الحال اسماعیلیوں کے امام کو مانتے ہیں موجودہ اسماعیلی امام آغا خان ہے ان میں زیادہ تر کا ( ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا ص ۲۸۱)

تعلق سُنار ذات سے ہے۔

اہل طریقت کے حلقوں میں جو روایات مشہور ہیں کہ پیرشمس تبریز کا فرزند بھوک سے سخت نڈھال تھا ملتان کے مقام پر شہزادے کو حکم دیا کہ جاؤ شہر سے آگ

لے آؤ تا کہ گوشت کو بھون کر کھا ئیں شہزادہ سارے شہر میں آگ کی تلاش میں پھرا مگر کسی اہل دل کو رحم نہ آیا آپ کے قہر و غضب اور جلال کی حالت میں آسمان کی

جانب نگاہ کی سورج کو دیکھا اور فرمایا اوٹس دیکھ میں بھی تیرا ہم نام ہوں اور ملتان

کے لوگ مجھے گوشت بھوننے کے لئے آگ نہیں دیتے ذرا نیچے آنا میں تیری حرارت

خــودم, [۰۳.۰۲.۲۴ ۲۱:۰۵] 266

سے اس معصوم بچے کے لئے گوشت بھون سکوں روایات میں ہے کہ اس وقت بار کی گرمی پڑی آفتاب سوا نیزے پر آنے سے تشبیہ دیتے ہیں لوگ گرمی سے تڑپنے لگے جب آپ کا غصہ فرد ہوا اور آفتاب سے کہا باز برد تب کہیں جا کر ملتان کی سرزمین ٹھنڈی ہوئی اور خلق خدا کے تن بدن میں سکون آیا اسی دن سے ملتان کی گرمی

مشہور عالم چلی آتی ہے۔

رسم وڈی ریت : سب سے بڑی رسم وڈی ریت ہے اس رسم میں مرید کو اپنے پیر کے لئے چڑھاوا دینا پڑتا ہے اور اس رسم میں مرید اپنے مرشد کو رقم دیتا ہے اور تقریبا تمام مرید اپنی اپنی آمدنی کا آٹھواں حصہ جمع کر کے دیتے ہیں۔ شمسیوں میں مرید ہونے کے وقت چھینٹے کی رسم ادا کی جاتی ہے جس میں اُن کا پیر ان کے منہ پر

پانی چھڑکتا ہے اس میں مرید کو کچھ نذرانہ دینا پڑتا ہے۔

عبادت کا طریقہ : عبادت کا طریقہ یہ ہے کہ صبح اور شام اور رات کو سندھیا کرتے ہیں یہ لوگ اپنے مرشد سے ملاقات کرتے ہیں تو ضرور کچھ نہ کچھ نذرانہ دیتے ہیں ۔ جن مقامات میں شمسی ہندو آباد ہیں وہاں ایک جماعت خانہ ہوتا ہے جہاں تمام مرید اپنی آمدنی کا آٹھواں حصہ جمع کر وا دیتے ہیں اور مکھیا کا مری جو اُس کے محافظ ہوتے ہیں اس رقم کو براہ راست اپنے مرشد کے پاس روانہ کر دیتے ہیں

مذہبی کتب کے مجموعے کا نام انتھر دوید ہے۔

تصوف : اسماعیلی جماعت پہلی اسلامی شیعہ جماعت تھی جس نے صوفیوں کو مذموم و مطعون قرار دیا با وجود اس کے کہ اسماعیلی تعلیم جہاں تک کہ اس کا علم رسائل اخوان

الصفا اور دیگر ذرائع سے ہو سکتا ہے۔ خود تصوف کی ایک نہایت معقول و پسندیدہ

خــودم, [۰۳.۰۲.۲۴ ۲۱:۰۶] 267

شکل تھی پانچویں صدی میں سلسلہ بیعت زیادہ مضبوط و پیچیدہ ہو گیا ۔ اسما میلی تنظیم متعدد جماعتوں میں تقسیم ہو چکی تھی اور ہر ایک جماعت کسی ولی اللہ کو اپنا سر پرست قرار دے لیتی تھی۔ حضرت خضر کے بارے میں بعض اسماعیلیہ ان کو امام اور حضرت موسی کو ناطق کا درجہ دیتے ہیں۔ اور چونکہ ان کے خیال میں امام کا پایہ ناطق سے زیادہ بلند ہے۔ ( واضح رہے کہ تمام اسماعیلیہ کا یہ عقیدہ نہیں ہے ) حضرت خضر کی فضیلت صاف ظاہر ہے۔ ایک شیعہ جماعت بھی تھی جو شروع سے امامت کے دائرہ

انتخاب کو زیادہ محدود کرنے کی جانب مائل تھی۔

علوی: حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد طرف داران اہلِ بیت جن کا اصطلاحی نام شیعہ (گروہ) تھا اور اُن کی امامت اور ہنمائی محمد بن حنفیہ کی طرف منتقل ہوگئی جو حضرت علی کے غیر فاطمی صاحبزادے تھے۔ اس وقت حضرت علی کی اولاد کے لئے دونئی اصطلاحیں قائم ہو گئیں۔

(1) ایک فاطمی زہرہ کے بطن سے تھے۔ (فاطمی) حضور کی بیٹی فاطمہ سے جو سلسلہ چاتا ہے وہ فاطمی کہلاتے ہیں۔

(۲) دوسرے علوی جو حضرت علی کی دوسری بیویوں سے تھے علوی کہلاتے ہیں۔ حضرت علی کی دوسری بیوی کا نام حنفیہ تھا اور ان سے جو صاحبزادہ پیدا ہوا ان کا نام محمد بن حنفیہ تھا۔

نوٹ: فاطمی شیعوں کے نزدیک حضرت علی کی نسل جو دوسری بیویوں سے چلی وہ سلسلہ امامت سے خارج ہے۔ شیعوں کو بنو عباس کے دعوے خلافت سے انکار ہے بانی کے جماعا ﷺ بنو عباس سے مراد حضرت محمد نے کے چا عباس کی نسل ہیں یہ تو اریخ میں خاندانِ

خــودم, [۰۳.۰۲.۲۴ ۲۱:۰۶] 268

عباسہ کے نام سے پکارے جاتے ہیں ۔

طبرستان میں دولت علویہ کا آغاز : طبرستان میں حسن بن زید محمد بن اسماعیل بن زید بن حسن بن حسین بن علی بن ابی طالب بانی دولت علو به طبرستان ( طبرستان جگہ کا نام ہے ) کا ظہور ہوا۔ ان کا آغاز اس طرح ہوا کہ مستعین نے یحی بن عمر د کے قتل کے صلہ میں محمد بن عبداللہ بن طاہر کو طبرستان میں چند جا گیریں عطا کیں ۔ طبرستان پر زیدیوں کے قبضہ کی وجہ سے علویوں کو بڑی تقویت ملی اور اُن کا حوصلہ

بڑھ گیا علوی دولت عباسیہ کے حریف تھے۔

علوی اور عباسی کشمکش باسی کشمکش : بنوامیہ کے دور میں جس شیعہ گروہ نے سیاست دعقائد دونوں میں سب سے زیادہ تقدیم حاصل کی وہ کیسانیہ گروہ تھا لیکن بنو عباس کے غلبہ تسلط حاصل کرنے کے بعد اس گروہ کی قوت عمل بہت کمزور ہوگئی جس کی وجہ زیادہ تر یہ تھی کہ کیسانیہ میں عباسی اور علوی دونوں شامل تھے بنوامیہ کا عہد حکومت اور بنو عباسیہ کا آغاز کا دور علویوں کی اس کوشش کی متعدد مثالیں پیش کرتے ہیں ایک شیعہ اولاد جماعت امامت کے بارے میں بنی فاطمه گوسید نا علی کی دوسری ازدواج کی کے مقابلہ میں ترجیح دیتی تھی اور خصوصاً امام حسین کے بیٹے سید زین العابد بین کو اپنا مقتدا مجھتی تھی یہ وہ جماعت ہے جو بعد میں امامیہ کے نام سے مشہور ہوئی ۔ فرقہ کیسانیہ: کیسانیہ عربی زبان کا لفظ کیس سے مشتق ہے جس کے معنی دانا یا فقمند ہے۔ سب سے پہلا فرقہ کیسانیہ ہے جو حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد محمد بن حنفیہ کو چوتھا امام مانتے ہیں اور اس کے ثبوت میں یہ کہتے ہیں کہ جنگ جمل و صفین

میں حضرت علی نے ان کو علمبردار مقرر کیا تھا۔ یہ حضرت علی کی دوسری بیوی حنفیہ کے

خــودم, [۰۳.۰۲.۲۴ ۲۱:۰۶] 269

بطن سے ہے اسی وجہ سے ابن الحنفیہ کہلاتے ہیں اس فرقے کا بانی حضرت علی کا ایک آزاد کردہ غلام جس کا نام کیسان ہے۔ ایک گروہ نے محمد ابن حنفیہ کے انتقال کے بعد امامت کو ان کی ذات پر موقوف کر دیا اور یہ کہا کہ وہ زندہ اور قائم میں امامت کے سلسلہ کو جاری رکھنا کیسانیہ کے دوسرے گروہ نے محمد بن حنفیہ کے بعد امامت کے سلسلہ کو جاری رکھا اور ان کے بیٹے ابو ہاشم عبداللہ کو اپنا پانچواں امام تسلیم کر لیا۔ ابو ہاشم کی وجہ سے اس فرقے کا نام کیسانیہ سے ہاشمیہ ہو گیا ان کی وفات کے بعد با شمیہ جماعت چار فرقوں میں منقسم ہوگئی ۔ ایک فرقہ نے عبداللہ کے بعد ان کے بھائی علی بن محمد کی امامت کا اقرار کیا اور ان کے بعد بیٹے حسن اور ان کے پوتے بھی ابن حسن اور ان کے پڑ پوتے حسن ابن علی کو امام مانا یہ فرقہ امامت کو محمد بن حنفیہ کے

خاندان میں محدود کرنے کی جانب مائل تھا۔

خوجے: یہ دراصل ہندو ہیں اور ابتک اُن کی ایک تعداد سوامی نر این پنتھہ کی یاد

ہے جو مسلمان ہو گئے ہیں اُن میں تین فرقے ہیں۔

(۱) اسما عیلی خوجے (۲) سنی خوجے (۳) اثنا عشری خوبے۔

اسماعیلی فرقہ تعداد میں سب سے بڑا ہے سوامی رامین خوجوں کی تعداد بہت قلیل ہے۔ فروری ۱۹۰۰ ء میں آغا خانی جماعت کے دو حصے ہو گئے ایک وہ جو آغا خانی یعنی امامی اسماعیلی ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو اثنا عشری مذہب رکھتے ہیں آغا خان جب سے یورپ گئے ہیں تب سے اُن کے ساتھیوں کے دو گروہ ہوئے اور جو لوگ ان سے خدا ہوئے وہ اثنا عشری خوجوں کے نام سے موسوم ہوئے اس علیحدگی کا خاص سبب ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اس مذہب کو عمل کے قابل اور آغا خان کو مذہبی سرختائی

خــودم, [۰۳.۰۲.۲۴ ۲۱:۰۶] 270

کے لائق نہیں سمجھا جدید فرقے نے اپنی ایک بڑی مسجد پالالین متصل سیمویل اٹریک

لندن میں اور ساتھ امام باڑہ اور مدرسہ بھی تعمیر کیا۔

نے کہ شیعہ فرقہ علی اللہ : جن لوگوں پر مغرب سے ایک ایرانی و من حمل کیا جوکر چمکانی یا چکمانی کہلاتی تھی اُن کا مذہب شیعہ کا ایک فرقہ تھاجو علی الہی کہلاتا تھا عقیدہ اُن کا یہ تھا ” حضرت علی خدا ہیں اُن کی انوکھی مذہبی رسومات کے متعلق عجیب عجیب

قصے بیان کئے جاتے ہیں“

رسیم مراسم : اُن کے ہاں یہ رسم تھی کہ ایک چراغ جلایا جاتا تھا اور مرد اور عورتیں سب بلا حجاب اُس میں شریک ہوتے تھے اور مراسم کی ادائیگی کے دوران میں ایک مقررہ حد تک پہنچ کر مذہبی بزرگ جوان مراسم کی ادائیگی کا صدر ہوتا ہے وہ روشنی کو

گل کر دیتا ہے۔ اس عجیب رسم کے باعث ایرانی اُن کو چراغ کش بھی کہتے تھے اور پٹھان لوگ اُن کو مڑ کہتے تھے جس کے معنی آگ بجانے والے کے ہیں ۔

نصیر یہ کی مانند یہ بھی ایک غالی شیعہ جماعت ہے اس جماعت میں شامل افرادانا طولیہ بھی کہلاتے ہیں وہ بیکتاشی فرقہ سے پُر اسرار روابط رکھتے ہیں۔

اہل تشیع : شیعہ فرقوں کا شمار اور ان کے اختلاف عقائد کی تفصیل تاریخ اسلام کا ایک نہایت دشوار اور پیچیدہ معمہ ہے ان شیعہ فرقوں میں بعض اعتدال بعض غلو کا

میلان رکھتے ہیں۔ بعض نے شیعہ زید یہ کے نام سے ایک مستقل حیثیت اختیار کر لی

لیکن ان سب کا اس دائرے پر اتفاق ہے ۔

(1) اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ کے بعد خلافت کے حقدار صرف حضرت علیؓ

خــودم, [۰۳.۰۲.۲۴ ۲۱:۰۷] 271

ہیں اور اُن کے بعد ان کی اولاد کا حق تصور کرتے ہیں ۔ شیعہ کے مطابق امام کا تقر رعد کی جانب سے رسول کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور اس میں جمہور کی رائے کا کوئی دخل نہیں چنانچہ حضور نے بحکم الہی (اللہ) کے حضرت علی کو اپنا جانشین (امام اول ) مقرر فرمایا اور یہ سلسلہ اُن کی اولاد سے منتقل ہوتا رہا یہ سلسلہ بارہویں امام تک جاری رہا۔ (نوٹ: اسماعیلی آغا خانی فرقہ صرف پہلے چھ اثنا عشری اماموں کو مانتے ہیں اور امام اسماعیل کی امامت کے قائل ہیں )۔ شیعہ اثنا عشری عقیدہ یہ ہے کہ بارہویں امام

غائب ہو گئے ہیں اور آئند و وقت مقررہ پر بی شکل امام مہدی ظاہر ہوگئے۔ (۲) شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام معصوم اور تمام ظاہری و باطنی علوم کا سرچشمہ ہیں۔ (۳) شیعہ علماء کے نظریہ کے مطابق اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں لفظ شیعہ کا استعمال مذہبی معنی میں نہیں بلکہ خالص سیاسی معنی میں ہوا ہے۔ لفظ شیعہ کے لغوی معنی ہیں گروہ، فرقہ ، پیروکار، حامی ۔ مسلمانوں کا وہ مذہبی فرقہ جو حضرت علی کے بارے میں ایک مخصوص عقیدہ رکھتا ہے ۔ شیعہ اور دوسرے تمام اسلامی فرقوں بیل سنت و جماعت میں بنیادی فرق عقیدہ امامت ہے ۔ سنی عقید ہ حضرت محمد کرنے کو آخری نبی رسول مانتے اور نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج ، جہاد یہ پانچ اصول سئی عقیدہ کے ہیں اور سنی عقیدہ کے مطابق انبیاء کے علاوہ اور کوئی معصوم نہیں ہیں۔ شیعہ امامیہ کے نزدیک اللہ تعالی کے تمام فرشتے معصوم تمام انبیاء معصوم اور ان کے علاوہ حضرت مریم ( والدہ میسٹی ) معصومہ جس کی عظمت کی گواہی قرآن پاک نے دی ہے۔ شیعہ کے مطابق جب کوئی انسان نیکی اور بھلائی میں آگے نکل جاتا ہے تو وہ شخص معصوم تو کیا معصوم سے بھی بڑھ کر ہوگا شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ائمہ اثنا عشری میں جو معصوم

خــودم, [۰۳.۰۲.۲۴ ۲۱:۰۷] 272

ہیں وہ معصوم ہی نہیں بلکہ وہ فرشتوں سے افضل اور مسجود ملائکہ ہے۔ تاریخ اسلام نے اُن لوگوں کو مسلمان کہا ہے جن کا اللہ اور حضور پر عقیدہ کامل ہو اور اسلامی طرز زندگی

گزار رہا ہو۔

شیعہ کے محدث: شیعہ کے محدث ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی متونی میں ۲۳۸ھ میں پیدا ہوئے تھے یہ پہلے شیعہ محدث تھے جو صرف شیعوں کی حدیثیں جمع کرتے تھے اور ان کی کتاب صرف شیعوں تک ہی محدود رہی اور دوسروں سے

پوشیدہ پر شیعہ کی کتابوں میں شیعہ راویاں حدیث الگ موجود ہیں۔

شیعہ کی تین قسمیں: پہلی قسم غالیہ جس کے بارہ فرقے ہیں۔

غالیہ : عموما اس گروہ کا عقیدہ ہے کہ امام برحق حد خلقت سے نکل کر حد الوہیت میں آجاتے ہیں مثلاً تشبیہ، بدا ، رجمعت ، تناسخ کے قائل ہیں ۔ دراصل حضرت علی ہی نہیں برحق بلکہ خُدا ہیں ۔ تمام انبیاء سے افضل ہیں وہ آسمان پر بادلوں میں ہیں ان کو موت نہیں بلکہ تمام امام موت سے بری ہیں قیامت کا حساب اور حشر نہیں ہے۔ حضرت

علی ایک ٹکڑا ہیں جو آسمان سے نازل ہوا۔ امام ابی منصور نے آسمان پر جا کر خدا سے

کلام کیا خُدا نے اس کو بیٹا کہا اور سر پر ہاتھ پھیرا۔

ارد ولغت میں غالیہ ایک خوشبو جو عنبر اور مشک سے مل کر تیار ہوتی ہے خوشبو مہک۔

شیعہ کی دوسری قسم زیدیہ: جس کے چھ فرقے ہیں عموماً اس گروہ کے عقیدہ

کے مطابق یہ گروہ معتزلہ کے ہے کہتے ہیں کہ امام برحق اولاد فاطمہ سے ہوں گے

اور محمد و ابراہیم دونوں بیٹے عبداللہ بن حسن بن حسین کے امام برحق ہیں۔

خــودم, [۰۳.۰۲.۲۴ ۲۱:۰۷] 273

تیسری قسم رافعہ جس کے چودہ فرقے ہیں۔

(1) اس گروہ کا عقیدہ ہے کہ خلافت حضرت علی ہی کا حق ہے اور ان کی اولاد کا جو

ان سے ہوئی امامت خارج نہیں ہوتی ۔ اُن کے مطابق امام معصوم ہیں اور ان سے

غلطی نہیں ہو سکتی۔

(۲) خدا تعالی کو کسی چیز کے پیدا ہونے سے پہلے اس کا علم نہیں تھا۔

(۳) مردے یوم الحساب سے پہلے دنیا کی طرف لوٹیں گے۔

(۳) امام کو اپنی اور دنیاوی تمام باتوں اور چیزوں کا علم ہوتا ہے ان سے مثلِ انبیاء

کے معجزات ظاہر ہوتے ہیں۔

چوتھا گروہ مرجیہ کا ہے جس کے بارہ فرقے ہیں اس گروہ کا عقیدہ ہے کہ جب کسی نے ایک بار کلمہ پڑھ لیا پھر اگر سارے ہی گناہ کرے ہرگز دوزخ میں نہ جائے گا ایمان صرف قول کا نام ہے عمل ایمان سے خارج ہے وہ صرف احکام شریعت ہیں لوگوں کا ایمان کم زیادہ نہیں ہوتا ( تمام لوگ نیک ہوں یا بد فاسق ہوں یا فاجر ) ان کا ایمان اور نبیوں اور فرشتوں کا ایمان ایک ہی ہے کم زیادہ نہیں اگر چہ

عمل نہ کرے۔

پانچواں گروہ مشبہ کا ہے : جس کے تین فرقے ہیں ۔ یہ گروہ رافض اور کرامیہ

کے عقا مکہ پر مشتمل ہے جو حلول اور تشبیہ کے قائل ہیں کہتے ہیں کہ جائز ہے کہ خدا

تعالی کسی شخص کی صورت میں ظہور کر کے مثلاً جبرائیل کے، اور کہتے ہیں کہ آپ کو چھو

سکتے ہیں اور مصافحہ بھی کر سکتے ہیں اور اُس کے مخلص بندے اس کو دنیا اور آخرت

خــودم, [۰۳.۰۲.۲۴ ۲۱:۰۷] میں دیکھتے ہیں۔

274

  1. مشکوۃ المصابیح جلد اول باب ۶ ص۲
  2. مولوی نجم الغنی، مذہب اسلام ، ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لا ہور
  3. چوہدری غلام رسول ایم ۔ اے، مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ
  4. شاہ عین الدین، تاریخ اسلام جلد ۴،۳ ، ، مکتبہ رحمانیہ اردو بازارلاہور
  5. مولانا محمد داؤد، حقیقت الفقہ، اسلامک پبلشنگ ہاؤس اردو بازار لاہور